مقبولِ عام شعرا اور اچھی شاعری

سید عاطف علی

لائبریرین
اس دلچسپ بات کا کوئی لگا بندھا جواب تو شاید ممکن نہیں کہ ہر شخص کا نطقۂ نظر اس میں بہت گہرا دخل رکھتا ہے لیکن میری نظر میں اس معاملے میں مختصراً سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ در اصل شاعری بھی دوسرے فنون کی طرح ایک فن ہے سو ظاہر ہے کہ اس اس فن میں بھی دیگر فنون کی مہارت کے درجات ہوتے ہیں ۔ عوام کو کیونکہ ان مہارت کی باریکیوں کا اکثر علم نہیں ہوتا اس لیے وہ اس شاعری کو بھی پسند کرتے ہیں جو ان کے عمومی مزاج کے موافق ہو خواہ وہ فنی تقاضوں سے مکمل یا جزوی طور پر عاری ہی کیوں نہ ہو ۔ جب کہ خواص اور مستند شعراء ان اشعار اور تخلیقات کو ان فنی باریکیوں کے تقاضوں کے معیارات پر پرکھتے ہیں اور اس طرح شعر کا مقام ان کے نزدیک وعوامی سطح سے مختلف ہو جاتا ہے ۔ناسخ کا ایک شعر یاد آتا ہے کہ

جو خاص ہیں وہ شریکِ گروہ عام نہیں
شمارِ دانہء تسبیح میں امام نہیں

مثال کے طور پر ایک خوبصورت گھر جو عوام کی پسند کے مطابق بہت اچھا ہو (لیکن تعمیر کے اصولوں کے مطابق نہ ہو ) ممکن ہے کہ پہلی بارش میں بہہ جائے، جبکہ کسی تجربہ کار معمار کا بنایا ہوا گھر طوفانوں میں بھی قائم رہے ۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ماضی قریب تک مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کثرت سے بڑے شعراء کو عوام الناس میں بڑی پذیرائی ملی
مجھے یاد ہے ہمارے شہر میں ایک مرتبہ مشاعرہ ہوا جس میں تقریباً سامعین نمازِ فجر تک مشاعرے میں موجود رہے اور جس میں احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، امجد اسلام امجد اور دیگر شعرا کو بڑے ذوق شوق سے سنا
یا تو پھر ایسا ہے کہ اب جدید دور کی جلد بازی اور سہل پسندی شعر کے اندر جھانکنے کی اجازت ہی نہیں دیتی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
الف عین محمد یعقوب آسی ظہیراحمدظہیر محمد خلیل الرحمٰن سید عاطف علی
تمام اساتذہ سے ایک مؤدبانہ اور معصومانہ سے سوال کی جسارت کر رہا ہوں

مقبول عام شعراء کی شاعری معیاری کیوں نہیں اور معیاری شاعری مقبولِ عام کیوں نہیں؟
یہ سوال تو ایک مفصل تحقیقی مضمون کا متقاضی ہے ۔ اس ایک چھوٹے سے سوال کے کئی پہلو ہیں ۔ سب سے پہلے تو یہی سوالات اٹھیں گے کہ مقبول شاعری کیا ہے اور معیاری شاعری کی کیا تعریف ہے ، کیا دونوں میں کوئی فرق ہے ؟ اور اگر ہے تو کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔ اس فرق کی وجوہات پر تو سوال بعد میں اٹھے گا۔ اس وقت تو وقت کی کمی اور فرصت کی قلت ہے ، اگر اس موضوع سے متعلق کوئی مضمون یا کتاب یاد آئی یا نظر سے گزری تو ان شاء اللہ ضرور بتاؤں گا ۔
قبلہ و کعبہ مخدومی و مولائی سید عاطف علی شاہ صاحب شہداد پوری ثم کراچوی ثم ریاضی یعنی اپنے عاطف بھائی نے اس سول کے جواب کا ایک خوبصورت اجمالی سا خاکہ پیش کردیا ہے ۔ سرِ دست وہ کافی ہونا چاہئے ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
شمس المحفل ۔ قمر المجلس ۔ وقار الشعراء ، فخرالادباء جناب ظہیراحمدظہیر بھائی کے ذکر کردہ القابات و خطابات کے جاں گسل بوجھ سے سے میں درجۂ شہادت پر فائز ہواہی چاہتا تھا کہ "ستائش باہمی" کی فضا کی حالیہ لہروں کا خیال آ گیا ۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
شمس المحفل ۔ قمر المجلس ۔ وقار الشعراء ، فخرالادباء جناب ظہیراحمدظہیر بھائی کے ذکر کردہ القابات و خطابات کے جاں گسل بوجھ سے سے میں درجۂ شہادت پر فائز ہواہی چاہتا تھا کہ "ستائش باہمی" کی فضا کی حالیہ لہروں کا خیال آ گیا ۔ :)
ہا ہا ہا ہا ہا :LOL::LOL::LOL::LOL::LOL:
بقول نیرنگ خیال شاہ صیب شرارت کے موڈ میں ہیں ۔
 
ایک متعلقہ اقتباس
میرا خیال ہے کہ ایسا ہمیشہ ہی ہوتا ہے۔
خواص اور عوام کا ایک تناسب قدرت نے آپ ہی پیدا کر دیا ہے جو ابتدائے تمدن سے یونہی چلا آتا ہے۔ عوام ہمیشہ تعداد میں زیادہ اور ذوق میں کم تر ہوتے ہیں۔ خواص عددی لحاظ سے مٹھی بھر ہوتے ہیں مگر ان کے ذوق اور معیارات کا اثر معاشرے اور تہذیب پر عوام کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
شاعر اس لحاظ سے تین درجات میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں:
  1. عام: یہ وہ شاعر ہیں جو عوام کے ذوق کے مطابق شعر کہتے ہیں، کثیر التعداد ہوتے ہیں اور ان کی شعری حیات عوام کے ذوق سے منسلک ہوتی ہے جو عموماً ایک دو عشروں میں بدل جاتا ہے۔
  2. اعلیٰ: یہ وہ شاعر ہیں جو خواص کے ذوق کی تسکین کا سامان کرتے ہیں، کم ہوتے ہیں اور خواص کے معیارات کے موافق ادبی تواریخ وغیرہ میں کوئی نہ کوئی جگہ پاتے ہیں۔
  3. عظیم: وہ شعرا جو خواص اور عوام کے معیارات پر یکساں طور پر پورے اترتے ہیں اور ہر دو گروہ کو متاثر کرتے ہیں۔ ادبی تواریخ میں عموماً سرِ فہرست پائے جانے والے لوگ ہوتے ہیں۔
پہلے طبقے کی مثال وہ لوگ ہیں جن کا تابش بھائی نے ذکر کیا۔ دوسرے طبقے کی مثالوں میں کلاسیک میں شیفتہؔ، غالبؔ اور دردؔ وغیرہ جبکہ جدید ادبیات میں جونؔ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ تیسرے طبقے کی مثالیں میرؔ، داغؔ، اقبالؔ اور فیضؔ وغیرہ کی دی جا سکتی ہیں۔
یہ تین درجات کسی طرح بھی کامل (exhaustive) نہیں قرار دیے جا سکتے۔ ہر شاعر کم یا زیادہ طور پر تینوں سے تعلق رکھتا ہے مگر تفہیم کی آسانی کے لیے میرا خیال ہے کہ اس طرح دیکھنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
تو اب معاملہ یہ ہے کہ عام شاعر کے اپنے میدان میں کامیاب ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اعلیٰ شاعر بھی ہو گیا ہے۔ اسے یہ خبط ہو تو ہو مگر میری رائے میں ادب فہم طبقے کو اس بات پر ناک بھوں نہیں چڑھانی چاہیے۔ عوام کی واہ واہ جسے نصیب ہو جائے اس کے پاؤں زمین پر ٹکنے مشکل ہی ہوتے ہیں۔ اعلیٰ شاعر اور اس کے نقاد کو اصل میں یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کا المیہ کیا ہے اور انھیں برتری کیا حاصل ہے۔ عوام لاکھ کورذوق سہی، باذوق لوگوں سے متاثر بھی ہوتے ہیں اور ان کے مقابل بھی عموماً نہیں ہونا چاہتے۔
یہ خیال محض ایک غلط فہمی ہے کہ عوام اب زیادہ بدذوق ہو گئے ہیں یا شعر کا معیار بہت گر گیا ہے۔ ہر زمانے میں ایسا ہی ہوا ہے۔ بات صرف اس قدر ہے کہ تاریخ عوام اور ان کے نمائندوں کو بھلا دیتی ہے۔ خواص اور ان کے کام کو محفوظ کر لیتی ہے۔ یعنی غالبؔ زندہ رہتا ہے۔ مگر غالبؔ کے کورذوق معاصر زمانے کی گرد میں دفن ہو جاتے ہیں۔ اس سے یہ قیاس کرنا کہ وہ تھے ہی نہیں یا کم تھے، بجائے خود ایک نادانی ہے! :):):)
 

اوشو

لائبریرین
ایک مشاعرے کا کلپ نظر سے گزرا۔ آج کل کے مقبول شاعروں میں سے ایک "تہذیب حافی"اپنا کلام پیش کر رہے تھے اور پیچھے بیٹھے شعراء میں علی زریون نمایاں تھے۔ کلام کا نمونہ دیکھیے اور خیال کی ندرت دیکھئے تخیل کی پرواز دیکھیے۔ واہ واہ کر کے عوام نے آسمان سر پہ اٹھا لیا اس شعر پر
لاریوں سے زیادہ بہاؤ تھا تیرے ہر اک لفظ میں
میں اشارہ نہیں کاٹ سکتا تیری بات کیا کاٹتا
اور جب یہ شعر پڑھا تو علی زریون کے تو جیسے دل پر چھری چل گئی۔ بے اختیار ہو کر اٹھے اور آکر تہذیب حافی کا منہ چوم لیا۔ اور سامعین کی تو پوچھیے ہی مت۔ شعر یوں تھا۔
تیرے ہوتے ہوئے موم بتی بجھائی کسی اور نے
کیا خوشی رہ گئی تھی جنم دن کی میں کیک کیا کاٹتا
سوچتا ہوں اتنا بوڑھا تو ابھی تک میں بھی نہیں ہوا کہ سر میں ایک بال بھی سفید نہیں پھر بھی پتا نہیں شاید آج کل لوگوں کا مزاج کچھ اور ہو گیا یا ہمارے جیسے لوگ ابھی تک ماضی کو پکڑے بیٹھے ہیں۔ پتا نہیں ہم غلط ہیں صحیح۔
ویسے موجودہ شعراء کو زیادہ نہیں پڑھا سنا لیکن عمیر نجمی اور افکار علوی پسند آئے باقی یہ اتباف ابرک، علی زریون، رحمان فارس، تہذیب حافی عجیب عجیب منفرد سے نام اور منفرد سے خیال کہاں سے لاتے ہیں۔ کہاں سے آتے ہیں یہ لوگ۔
یہی سوال میرے ذہن میں بھی آیا جو عبدالرؤف بھائی نے کیا۔ امید ہے اساتذہ کرام وضاحت فرمائیں گے :)
 

نور وجدان

لائبریرین
ایک مشاعرے کا کلپ نظر سے گزرا۔ آج کل کے مقبول شاعروں میں سے ایک "تہذیب حافی"اپنا کلام پیش کر رہے تھے اور پیچھے بیٹھے شعراء میں علی زریون نمایاں تھے۔ کلام کا نمونہ دیکھیے اور خیال کی ندرت دیکھئے تخیل کی پرواز دیکھیے۔ واہ واہ کر کے عوام نے آسمان سر پہ اٹھا لیا اس شعر پر
لاریوں سے زیادہ بہاؤ تھا تیرے ہر اک لفظ میں
میں اشارہ نہیں کاٹ سکتا تیری بات کیا کاٹتا
اور جب یہ شعر پڑھا تو علی زریون کے تو جیسے دل پر چھری چل گئی۔ بے اختیار ہو کر اٹھے اور آکر تہذیب حافی کا منہ چوم لیا۔ اور سامعین کی تو پوچھیے ہی مت۔ شعر یوں تھا۔
تیرے ہوتے ہوئے موم بتی بجھائی کسی اور نے
کیا خوشی رہ گئی تھی جنم دن کی میں کیک کیا کاٹتا
سوچتا ہوں اتنا بوڑھا تو ابھی تک میں بھی نہیں ہوا کہ سر میں ایک بال بھی سفید نہیں پھر بھی پتا نہیں شاید آج کل لوگوں کا مزاج کچھ اور ہو گیا یا ہمارے جیسے لوگ ابھی تک ماضی کو پکڑے بیٹھے ہیں۔ پتا نہیں ہم غلط ہیں صحیح۔
ویسے موجودہ شعراء کو زیادہ نہیں پڑھا سنا لیکن عمیر نجمی اور افکار علوی پسند آئے باقی یہ اتباف ابرک، علی زریون، رحمان فارس، تہذیب حافی عجیب عجیب منفرد سے نام اور منفرد سے خیال کہاں سے لاتے ہیں۔ کہاں سے آتے ہیں یہ لوگ۔
یہی سوال میرے ذہن میں بھی آیا جو عبدالرؤف بھائی نے کیا۔ امید ہے اساتذہ کرام وضاحت فرمائیں گے :)
عمیر نجمی بہت پیارا کہتے ہیں. بہت ٹھیک پوائنٹ آؤٹ کیا. تہذیب کے اشعار تو وزن سے بھی گر جاتے ہیں
 

بابا-جی

محفلین
کسی بازار میں کھڑے ہو کر غالب کے اشعار سُنائیے۔کتنے لوگ رُک کر سُنیں گے؟ معیار کا تعین وہی کریں گے جِن کا یہ شُعبہ ہے۔ فن کے حوالے سے مقبُول ہونا کوئی خاص معیار ہے ہی نہیں۔ مگر یہ ضرُور ہے کہ یہ بھی لازمی نہیں ہے کہ اچھی شاعری کسی صُورت مقبول ہو ہی نہ سکے۔
 

اوشو

لائبریرین
عمیر نجمی بہت پیارا کہتے ہیں. بہت ٹھیک پوائنٹ آؤٹ کیا. تہذیب کے اشعار تو وزن سے بھی گر جاتے ہیں

میں نے وہ کلپ سن کے نیچے کمنٹ کیا۔
میرے بس میں نہیں ہے مگر ، بس میں ہوتا اگر
جا کے اس زریون وحافی کے میں دندیاں کاٹتا
:boxing::beating::laughing:
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کسی بازار میں کھڑے ہو کر غالب کے اشعار سُنائیے۔کتنے لوگ رُک کر سُنیں گے؟ معیار کا تعین وہی کریں گے جِن کا یہ شُعبہ ہے۔ فن کے حوالے سے مقبُول ہونا کوئی خاص معیار ہے ہی نہیں۔ مگر یہ ضرُور ہے کہ یہ بھی لازمی نہیں ہے کہ اچھی شاعری کسی صُورت مقبول ہو ہی نہ سکے۔
یقیناً فن کی باریکیوں کو سمجھنا اساتذہ کا کام ہے لیکن اردو شاعری میں سب سے نمایاں نام میر، غالب، اقبال اور فیض اور دیگر کے نام دکھائی دیتے ہیں جو کہ مقبول عام بھی ہیں اور خواص بھی
 

محمد وارث

لائبریرین
وہ تو ٹھیک ہے مگر کچھ نظمیں بہت اعلی ہوتی ہیں. رحمان فارس کے بارے میں کیا خیال ہے؟
میری آپ سے درخواست ہے کہ اپنے نقطہء معیار، اپنے تھریش ہولڈ کو تھوڑا سا بڑھائیے اور پھر بتدریج بڑھائیے۔ اس جملے کی بہ امر مجبوری میں نے یوں بھی ضرورت محسوس کی کہ چند دن پہلے میری نظر سے کہیں گزرا کہ آپ کو اُستاد دامن کا علم نہیں تھا۔ آپ کی شاعرانہ سالکانہ تلاش میر درد اور اصغر گونڈوی کو بالاستعیاب پڑھے بغیر کبھی مکمل نہیں ہوگی۔ اگر نظم ہی پسند ہے تو کلاسیکی مثنویاں پڑھیئے اور اگر آزاد نظم ہی پڑھنی ہے تو مجید امجد اور راشد کو پڑھیئے، آپ کو خود ہی علم ہو جائے گا کہ کون، کیسی بات، کس پیرائے میں تراشتا ہے!
 
میرے مشاہدے کے مطابق عوامی قبولیت کا اغلب انحصار مداحین، ناقدین و دیگر کی جانب سے کی جانے والی ترفیع و ترویج پر ہے۔ اس کا معیار سے کچھ خاص تعلق نہیں۔ اچھے شعرا بھی تب ہی نام کما پاتے ہیں جب اس کارِ خیر سے مستفیض ہوں۔
 

لاریب مرزا

محفلین
علی زریوں بہت اچھا شاعر ہے

کس نے جینز کری ممنوع
پہنو اچھی لگتی ہو
(نقل بمطابق اصل)
"قبلہ مفتی" علی زریون صاحب مدظلہ
ہم نے جب بھی علی زریون صاحب کی شاعری محفل میں پوسٹ کی اس کا پوسٹ مارٹم ہی ہوا. :)
 

لاریب مرزا

محفلین
میرے مشاہدے کے مطابق عوامی قبولیت کا اغلب انحصار مداحین، ناقدین و دیگر کی جانب سے کی جانے والی ترفیع و ترویج پر ہے۔ اس کا معیار سے کچھ خاص تعلق نہیں۔ اچھے شعرا بھی تب ہی نام کما پاتے ہیں جب اس کارِ خیر سے مستفیض ہوں۔
علم اور شعور کی کمی کے باعث زیادہ تر لوگ سطحی شاعری پسند کرتے ہیں. ایسے لوگوں کے سامنے اگر معیاری شاعری کی ترویج کی بھی جائے تو جواب آتا ہے کہ "سر کے اوپر سے گزر گئی شاعری" :)
 
Top