نثری نظم کا عہدِ موجود

ویسے جاوید اختر بھارتی شاعر وہ بھی اس میں طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ زندگی نہ ملے گی دوبارہ فلم میں ان کے صاحبزادے جو شاعری پڑھتے رہے وہ اسی نسل کی معلوم ہوتی ہے (شاید). تب میری اس سے واقفیت نہ تھی کہ یہ صنف بھی میدان سخن میں آ موجود ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جی بالکل مکمل موزوں ہے اور آزاد نظم ہے جوخرم بھائی نے شئیر کی ہے اس میں چند ایک غلطیاں ہیں!
اس سے ایک بات تو ثابت ہوئی کہ کبھی ہمارے کاتب جو اپنی غلطیوں کی وجہ سے زیرِ عتاب رہتے تھے اب ان غلطیوں سے بری الذمہ ہو گئے، کچھ تو فائدہ ہو بلآخر اس "صنف" کا :)
 
صالحین کرام۔
نثری نظم قدیم صنف ہے۔ یونانی ہومر سے عجمی ہومر (بالمیک جی) تک کا سفر کیا جائے۔۔۔تو!
کیلاش،تبت سے بابلی زندانیوں تک اس کے ثبوت ملتے ہیں۔پھر اسی دوران یرمیاہء نبی کے نوحوں کی موجودگی بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کرتی ہے۔ اسی دور میں دریائے نیل سے دجلہ و فرات کے سنگم تک جائیں۔۔۔تو راستے میں کوہ بلقان،کوہ قبیس،کوہ سینا اور کوہ لبنان جیسی وادیاں آتی ہیں۔جو نثری نظم کے قدیمی ہونے کی شہادت دیتی ہیں۔غزل تو بہت عرصہ بعد وجود میں آئی۔
صحیفہ ادریسء سے پتہ چلتا ہے۔۔۔کہ۔۔۔!
نثری نظم بہت پرانی ہے۔لیکن اس کو مذہبی شدت پسندوں اور ضد،انا کے آنا پرستوں کا سامنا رہا۔قدیم فارسی آتش پرست گلیوں سے قدیم کنفیوشس بازاروں تک ۔۔۔۔ یہ موجود تھی۔۔۔اور آج موجود ہے۔
لیکن اس کا تخلیقات شاعر کہلوانا پسند کرتا ہے ۔۔۔ تو یہ اسکا مسئلہ ہے۔
میرے نزدیک نثری نظم لکھنے والا ناثم ہے۔۔۔یا تخلیقار ۔۔۔نثری نظم نگار ہے۔
سچی نثری نظم لکھنے والا ۔۔۔۔ سچا ناثم۔۔۔۔خود شاعر کہلوانے کی بدعت نہیں کرے گا۔
 
نثری نظم۔

جب بھی عشق والوں کا ذکر کرتا ہوں۔۔۔!
سرخ سبز پرندوں کے ساتھ۔۔۔!
اک سیاہ عمامہ باندھے علمدار بھی آتا ہے۔
آہووان دشت میں چراغ روشن کرتے ہوئے۔۔۔!
بھیگی آنکھوں کے خواب کی گرھیں کھول کر دکھاتا ہے۔
محبتوں،چاہتوں کی پوٹلی سے زعفرانی پتیاں دکھاتے ہوئے۔۔۔!
دست حنائی کے لمس سے۔۔۔!
حنوط دھڑکنوں کو جگاتے ہوئے۔۔۔!
گل مریم کا زخمی سر دکھاتا ہے۔۔۔بہت رلاتا ہے۔

منصف ہاشمی۔۔۔فیصل آباد
 
مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ اس کو "شاعری" قرار دینے پر اتنا اصرار کیوں کیا جاتا ہے؟؟؟ ارے بھئی اگر آپ نے کوئی بہت ہی توپ قسم کا خیال اچھے الفاظ میں قلم برداشتہ کر ہی لیا ہے تو اسے ادب شمار کروانے کے لئے اس پر زبردستی شاعری کا لیبل کاہے کو چسپاں کیا جاتا ہے؟؟؟
بھئی نئی صنف ایجاد ہی کرنی ہے تو نثر میں کرلیجیے!!! نثری کی اصناف میں توسیع کیوں منجمد کردی گئی ہے؟؟؟
مجھے تو اس کے علاوہ اور کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی کہ شاعر ہونا، نثر نگار ہونے کے مقابلے میں شاید زیادہ گلیمرس ہوتا ہے! اس لئے سہولت پسندوں نے انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوانے کے لئے یہ شوشہ چھوڑ رکھا ہے، تاکہ عروض، قافیہ، صنائع و بدائع اور محاسن کلام سیکھنے پر محنت کئے بغیر بزعم خویش شاعر کہلائے جاسکیں.
اس طرز عمل کے پس پردہ غالبا یہ (غلط) سوچ کارفرما ہے کہ نثر لکھنا تو بائیں ہاتھ کا کام ہے، یہ تو ہر کوئی لکھ سکتا ہے!
جبکہ حقیقت شاید اس کے برعکس ہے. یہی وجہ ہے کہ آج تقریبا ہر محفل میں شاعروں کی تو بہتات ہے لیکن معیاری نثر لکھنے والے بہت کم رہ گئے ہیں.
 
نثری نظم۔

جب بھی عشق والوں کا ذکر کرتا ہوں۔۔۔!
سرخ سبز پرندوں کے ساتھ۔۔۔!
اک سیاہ عمامہ باندھے علمدار بھی آتا ہے۔
آہووان دشت میں چراغ روشن کرتے ہوئے۔۔۔!
بھیگی آنکھوں کے خواب کی گرھیں کھول کر دکھاتا ہے۔
محبتوں،چاہتوں کی پوٹلی سے زعفرانی پتیاں دکھاتے ہوئے۔۔۔!
دست حنائی کے لمس سے۔۔۔!
حنوط دھڑکنوں کو جگاتے ہوئے۔۔۔!
گل مریم کا زخمی سر دکھاتا ہے۔۔۔بہت رلاتا ہے۔

منصف ہاشمی۔۔۔فیصل آباد

سیاہ عمامے والا عملدار (افسانچہ).
جب بھی عشق والوں کا ذکر کرتا ہوں، سرخ سبز پرندوں کے ساتھ، تو اک سیاہ عمامہ باندھے علمدار بھی آتا ہے جو آہووان دشت میں چراغ روشن کرتے ہوئے بھیگی آنکھوں کے خواب کی گرھیں کھول کر دکھاتا ہے۔ محبتوں اور چاہتوں کی پوٹلی سے زعفرانی پتیاں دکھاتے ہوئے، دست حنائی کے لمس سے حنوط دھڑکنوں کو جگاتے ہوئے جب گل مریم کا زخمی سر دکھاتا ہے تو بہت رلاتا ہے۔

......................
اس کتھا کو روایتی نثر کی ہئیت میں لکھنے سے کیا امر مانع ہے؟؟؟
آخر ایک سیدھی سادی نثری عبارت کے جملوں کو "رینڈملی“ توڑ الگ الگ سطور میں لکھنے سے کون سی معنویت برامد ہوجاتی ہے؟؟؟
 
سیاہ عمامے والا عملدار (افسانچہ).
جب بھی عشق والوں کا ذکر کرتا ہوں، سرخ سبز پرندوں کے ساتھ، تو اک سیاہ عمامہ باندھے علمدار بھی آتا ہے جو آہووان دشت میں چراغ روشن کرتے ہوئے بھیگی آنکھوں کے خواب کی گرھیں کھول کر دکھاتا ہے۔ محبتوں اور چاہتوں کی پوٹلی سے زعفرانی پتیاں دکھاتے ہوئے، دست حنائی کے لمس سے حنوط دھڑکنوں کو جگاتے ہوئے جب گل مریم کا زخمی سر دکھاتا ہے تو بہت رلاتا ہے۔

......................
اس کتھا کو روایتی نثر کی ہئیت میں لکھنے سے کیا امر مانع ہے؟؟؟
آخر ایک سیدھی سادی نثری عبارت کے جملوں کو "رینڈملی“ توڑ الگ الگ سطور میں لکھنے سے کون سی معنویت برامد ہوجاتی ہے؟؟؟



لفظوں کی بنت اور معنوی آہنگ کی موجودگی میں ادبی شعور کا ہونا نثری نظم یا نثم کے زمرے میں آتا ہے۔ اب اگر لفظوں کی نفسیاتی حرکت مشخصانہ روانی کے داخلی اور خارجی پہلوؤں کا بھی خیال رکھا جائے۔۔۔تو وہی نثری نظم یا نثم کہلاتی ہے۔ جو خود کو ناثم نہیں کہلواتے۔۔۔شاعر ہونے پہ بضد ہیں۔ ان کے ہاں داخلی ادبی شعور اور معنوی اساطیری شعور کا فقدان ہوتا ہے۔ میرے نزدیک وہ صرف (ہم تم صنم۔۔۔مستفعلن) جیسے باٹ اور حرفوں کا وزن برابر کرنے والوں کا قریبی رشتۂ رفاقت نبھانے والا ہوتا ہے۔ کیونکہ اسے افاعیلی علائم کے زندانی ہونے شرف حاصل ہوتا ہے۔جو نرگسیت کی طرح ہوتے ہوئے۔۔۔پہلے تنقید نگار شیطان سے زیادہ خطرناک ہے۔
 
ہماری رائے میں اب نثری نظم کی بحث بے معنی ہوگئی ہے اس لیے کہ یہ صنف ایجاد ہو نہیں رہی بلکہ ہوچکی ہے۔ یوں کہیے کہ تبدیلی آنہیں رہی بلکہ تبدیلی آچکی ہے۔

منصف ہاشمی بھائی کو اردو محفل میں خوش آمدید۔

ہم ذاتی طور پر نثری نظم سے سخت نالاں ہیں اور وجوہات کم و بیش وہی ہیں جو راحل بھائی نے بیان کی ہیں۔
 
ملاحظہ فرمائیے نثری نظم سے ہمارا انتقام!!!!!!

غمِ روزگار

( محمد خرم یٰسین بھائی کی نثری نظم کا منظوم ترجمہ )

بہت سالوں کا قصہ ہے
دسمبرجب بھی آتا تھا
تمہارے ہجر کی ان ساعتوں کو پھر سے دہراتا
تو بیگانہ خرد سے کرنےوالی وصل کی ان ساعتوں کا ایک اِک لمحہ
خلش بن کر ستاتا تھا
ٹھٹھرتے سردلمحےجب رگِ جاں کو
اِک ایسی کیفیت سے آشنا کرتے
اِک امیدِ غلط کو اس طرح مسمار کرتے تھے
مرامن خود مجھی سے روٹھ جاتا تھا
کچھ اندر ٹوٹ جاتا تھا
دسمبر!اب بھی آتا ہے
مگر فرصت کہاں مجھ کو
وبالِ جان سے نکلوں
کہیں کچھ اور بھی سوچوں
کہ اپنے پیٹ کا میں ہاتھ چھوڑوں
اوراپنامنھ میں اس کی سَمت موڑوں​
 
لفظوں کی بنت اور معنوی آہنگ کی موجودگی میں ادبی شعور کا ہونا نثری نظم یا نثم کے زمرے میں آتا ہے۔ اب اگر لفظوں کی نفسیاتی حرکت مشخصانہ روانی کے داخلی اور خارجی پہلوؤں کا بھی خیال رکھا جائے۔۔۔تو وہی نثری نظم یا نثم کہلاتی ہے۔ جو خود کو ناثم نہیں کہلواتے۔۔۔شاعر ہونے پہ بضد ہیں۔ ان کے ہاں داخلی ادبی شعور اور معنوی اساطیری شعور کا فقدان ہوتا ہے۔ میرے نزدیک وہ صرف (ہم تم صنم۔۔۔مستفعلن) جیسے باٹ اور حرفوں کا وزن برابر کرنے والوں کا قریبی رشتۂ رفاقت نبھانے والا ہوتا ہے۔ کیونکہ اسے افاعیلی علائم کے زندانی ہونے شرف حاصل ہوتا ہے۔جو نرگسیت کی طرح ہوتے ہوئے۔۔۔پہلے تنقید نگار شیطان سے زیادہ خطرناک ہے۔
’’لفظوں کی بنت اور معنوی آہنگ‘‘ ماپنے کے وہ کون سے پیمانے ہیں جن پر کوئی تحریر پورا اترے تو وہ افسانہ، افسانچہ، انشائیہ، تمثیل سے ماورا ہوکر ’’نثم‘‘ کا پیرہن زیب تن کر لیتی ہے؟؟؟ کیا یہ اصول کہیں مدون کئے گئے ہیں؟؟؟
’’لفظوں کی نفسیاتی حرکت‘‘ کیا ہوتی ہے؟ اس کی جامع تعریف کہاں سے ملے گی؟؟
میرؔ، غالبؔ، مومنؔ، داغؔ، ولیؔ، نسیمؔ، اصغرؔ، اخترؔ، اقبالؔ، فیضؔ، فرازؔ ۔۔۔ کسی نے خود کو ’’ناثم‘‘ نہیں کہلوایا بلکہ شاعر کہلائے جانے پر ہی بضد رہے! گویا یہ سب بھی ’’افاعیلی علائم کے زندانی‘‘ تھے جن کے یہاں ’’داخلی ادبی شعور‘‘ عنقا تھا؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی مراسلہ سمجھنے کے لئے فرہنگِ آصفیہ کا مطالعہ جاری ہے ۔۔۔ تاہم اصل سوال اب بھی جواب طلب ہے ۔۔۔ وہ یہ کہ جو کچھ بھی اس ’’نثم‘‘ میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔۔۔ اس کو روایتی نثر کی ہئیت میں لکھنے سے کیا امر مانع ہوتا ہے؟؟؟ اور وہ ایسی کون سی معنویت ہے جو ان جملوں کی ’’رینڈم‘‘ تکسیر کے بغیر برآمد نہیں ہوسکتی؟؟؟

جزاک اللہ،
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
لفظوں کی بنت اور معنوی آہنگ کی موجودگی میں ادبی شعور کا ہونا نثری نظم یا نثم کے زمرے میں آتا ہے۔ اب اگر لفظوں کی نفسیاتی حرکت مشخصانہ روانی کے داخلی اور خارجی پہلوؤں کا بھی خیال رکھا جائے۔۔۔تو وہی نثری نظم یا نثم کہلاتی ہے۔ جو خود کو ناثم نہیں کہلواتے۔۔۔شاعر ہونے پہ بضد ہیں۔ ان کے ہاں داخلی ادبی شعور اور معنوی اساطیری شعور کا فقدان ہوتا ہے۔ میرے نزدیک وہ صرف (ہم تم صنم۔۔۔مستفعلن) جیسے باٹ اور حرفوں کا وزن برابر کرنے والوں کا قریبی رشتۂ رفاقت نبھانے والا ہوتا ہے۔ کیونکہ اسے افاعیلی علائم کے زندانی ہونے شرف حاصل ہوتا ہے۔جو نرگسیت کی طرح ہوتے ہوئے۔۔۔پہلے تنقید نگار شیطان سے زیادہ خطرناک ہے۔
واہ بہت اچھی نثری نظم کہی آپ نے ۔
 
میرے
’’لفظوں کی بنت اور معنوی آہنگ‘‘ ماپنے کے وہ کون سے پیمانے ہیں جن پر کوئی تحریر پورا اترے تو وہ افسانہ، افسانچہ، انشائیہ، تمثیل سے ماورا ہوکر ’’نثم‘‘ کا پیرہن زیب تن کر لیتی ہے؟؟؟ کیا یہ اصول کہیں مدون کئے گئے ہیں؟؟؟
’’لفظوں کی نفسیاتی حرکت‘‘ کیا ہوتی ہے؟ اس کی جامع تعریف کہاں سے ملے گی؟؟
میرؔ، غالبؔ، مومنؔ، داغؔ، ولیؔ، نسیمؔ، اصغرؔ، اخترؔ، اقبالؔ، فیضؔ، فرازؔ ۔۔۔ کسی نے خود کو ’’ناثم‘‘ نہیں کہلوایا بلکہ شاعر کہلائے جانے پر ہی بضد رہے! گویا یہ سب بھی ’’افاعیلی علائم کے زندانی‘‘ تھے جن کے یہاں ’’داخلی ادبی شعور‘‘ عنقا تھا؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی مراسلہ سمجھنے کے لئے فرہنگِ آصفیہ کا مطالعہ جاری ہے ۔۔۔ تاہم اصل سوال اب بھی جواب طلب ہے ۔۔۔ وہ یہ کہ جو کچھ بھی اس ’’نثم‘‘ میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔۔۔ اس کو روایتی نثر کی ہئیت میں لکھنے سے کیا امر مانع ہوتا ہے؟؟؟ اور وہ ایسی کون سی معنویت ہے جو ان جملوں کی ’’رینڈم‘‘ تکسیر کے بغیر برآمد نہیں ہوسکتی؟؟؟

جزاک اللہ،


میرے نزدیک اسے صرف نثر اس لئے نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ یہ زبور کی ہیئت میں ہے۔
اگر میں اسے تورات کے باب پیدائش کی ہیئت میں لکھتا۔۔۔تو یہ کہانی یا افسانہ ہوتا۔
رہی بات شاعر کہلوانے کی۔۔۔تو آپ نے میرا جواب غور سے نہیں پڑھا۔ ورنہ فرہنگ آصفیہ کھنگالنے کی ضرورت نہ پڑتی۔۔۔خوش قسمت ہیں آپ ۔۔۔!
جو آپ کے پاس فرہنگ آصفیہ موجود ہے۔میرے پاس تو فیروز اللغات بھی نہیں۔
نثری نظم لکھنے والا شاعر نہیں کہلا سکتا۔
میرا یہی نظریہ ہے۔
نثری نظم لکھنے والا ۔۔۔ تخلیق کار،ناثم۔۔۔یا نثری نظم لکھنے والا کہلاتا ہے۔
اور اگر نثم کے تناظر میں دیکھیں تو۔۔۔!
نثری نظم لکھنے والا۔۔۔ناثم۔
نثری نظم کی لائنیں۔ نثمیہ مصرعے
نثری نظم کے حرفوں کا آہنگ۔۔۔نثمیہ حرف و معانی کی روانی کہلاتی ہے۔
نثمیہ تعریف۔
جن لفظوں کے سینے میں اساطیر دلفریبی سے دھڑکتی ہو۔۔۔وہ نثری نظم یا نثم کہلاتی ہے۔

اس میں سماجی نفسیات کے ساتھ ادبی شعور ہونا لازمی ہے۔ بصورت دیگر وہ ایک پیرا گراف بن کر رہ جائے گا۔
 
آخری تدوین:
نثری نظم۔

شعب ابو طالب کی طرف آتے ہوئے۔۔۔!
سوسن و نسترن سے۔۔۔صندلی لہجے میں۔۔۔!
لبنی کی رحل پر۔۔۔عشق کا صحیفہ پڑھتے ہوئے۔۔۔!
وہ ہجر کی برچھی سینے سے نکال رہی تھی۔
ڈوبتی سانسوں سے کردگار وفا کو بھی بلا رہی تھی۔

منصف ہاشمی۔۔۔۔
 
نثری نظم۔

شعب ابو طالب کی طرف آتے ہوئے۔۔۔!
سوسن و نسترن سے۔۔۔صندلی لہجے میں باتیں کرتے ہوئے۔۔۔!
لبنی کی رحل پر۔۔۔عشق کا صحیفہ پڑھتے ہوئے۔۔۔!
وہ ہجر کی برچھی سینے سے نکال رہی تھی۔
ڈوبتی سانسوں سے کردگار وفا کو بھی بلا رہی تھی۔

منصف ہاشمی۔۔۔۔
 
سلامتی
مکرمی، اللہ آپ کے فن کو مزید ترقی عطا فرمائے.

محفل میں ان نثر پاروں کے لئے باقاعدہ زمرہ مختص ہے، جہاں آپ کو یقینا ہم ذوق احباب مل جائیں گے.

آپ کی نثری شاعری بحور سے آزاد
سلامتی ہو سر۔
ڈھونڈھ رہا ہوں۔ وہ بھی مل جائیں گے سر
 
’’لفظوں کی بنت اور معنوی آہنگ‘‘ ماپنے کے وہ کون سے پیمانے ہیں جن پر کوئی تحریر پورا اترے تو وہ افسانہ، افسانچہ، انشائیہ، تمثیل سے ماورا ہوکر ’’نثم‘‘ کا پیرہن زیب تن کر لیتی ہے؟؟؟ کیا یہ اصول کہیں مدون کئے گئے ہیں؟؟؟
’’لفظوں کی نفسیاتی حرکت‘‘ کیا ہوتی ہے؟ اس کی جامع تعریف کہاں سے ملے گی؟؟
میرؔ، غالبؔ، مومنؔ، داغؔ، ولیؔ، نسیمؔ، اصغرؔ، اخترؔ، اقبالؔ، فیضؔ، فرازؔ ۔۔۔ کسی نے خود کو ’’ناثم‘‘ نہیں کہلوایا بلکہ شاعر کہلائے جانے پر ہی بضد رہے! گویا یہ سب بھی ’’افاعیلی علائم کے زندانی‘‘ تھے جن کے یہاں ’’داخلی ادبی شعور‘‘ عنقا تھا؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی مراسلہ سمجھنے کے لئے فرہنگِ آصفیہ کا مطالعہ جاری ہے ۔۔۔ تاہم اصل سوال اب بھی جواب طلب ہے ۔۔۔ وہ یہ کہ جو کچھ بھی اس ’’نثم‘‘ میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔۔۔ اس کو روایتی نثر کی ہئیت میں لکھنے سے کیا امر مانع ہوتا ہے؟؟؟ اور وہ ایسی کون سی معنویت ہے جو ان جملوں کی ’’رینڈم‘‘ تکسیر کے بغیر برآمد نہیں ہوسکتی؟؟؟

جزاک اللہ،
آپ کا اس حوالے سے مطالعہ محدود معلوم ہوتا ہے۔بحث میں کبھی کسی کو کچھ نہیں ملتا کیوں کہ اس میں پہلے سے طے شدہ انداز میں کسی ایک پہلو کا دامن تھام لیا جاتا ہے یا میں نہ مانوں کی رٹ لگالی جاتی ہے۔ آپ اس حوالے سے افضال احمد سید کی نظموں کا مطالعہ کیجیے اور پھر بتائیے کہ ان کا جواز ہے یا نہیں۔ مزید یہ کہ آپ کو اس حوالے سے بہت سے سوالات کے جوابات کی تلاش میں مختلف جامعات سے شائع ہونے والے ادبی مجلات کا مطالعہ کیجیے اور ان دو کتب کا مطالعہ بھی ضرور کیجیے:
urdu mein nasri nazm | Rekhta
urdu mein nasri nazm ka aghaz-o-irtiqa | Rekhta
 
Top