کرونا وائرس: بائیولوجیکل ہتھیار یا قدرتی آفت؟

La Alma

لائبریرین
پاکستان کے سابق سفیر عبداللہ حسین ہارون کے کرونا وائرس سے متعلق اہم انکشافات!!

سازشی تھیوری یا حقیقت: تفصیل کے لیے ویڈیو دیکھیے۔


آپ کیا سمجھتے ہیں COVID-19 کا عالمی سطح پہ وسیع پھیلاؤ واقعی نیو ورلڈ آرڈر کی طرف ایک سوچی سمجھی پیشرفت ہے؟
 

محمد سعد

محفلین
جی بالکل۔ سفیروں کو وائرولوجی کا سب پتہ ہوتا ہے۔
یہ سائنس دان موئے بھلا کیا جانیں۔ سالے لیبارٹریوں میں گھسے رہتے ہیں اور نیچر ویچر جیسے تھرڈ کلاس جریدوں میں اپنی ریسرچ پبلش کر کے سمجھتے ہیں کہ انہیں سفیروں اور سیاست دانوں سے زیادہ پتہ ہے۔

Andersen, K.G., Rambaut, A., Lipkin, W.I. et al. The proximal origin of SARS-CoV-2. Nat Med (2020).
The proximal origin of SARS-CoV-2
 

الف نظامی

لائبریرین
سیاست :جو دکھتا ہے، وہ ہوتا نہیں
سائنس: جو دکھتا(مشاہدہ) ہے، وہ ہوتا ہے
مذہب: الذین یومنون بالغیب
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
ان صاحب نے نشان دادہ پیٹنٹ اور تاریخی حوالہ جات سے خود کو بہت ولنریبل پوزیشن میں رکھا ہے اس تمام تفصیل پر اوپن ڈیبیٹ کی جانی چاہیئے جیسے آغا وقار کے ساتھ کی گئی تھی ۔ آغا وقار کی صورت حال اس کی ڈیبیٹ ہی میں سامنے آگئی تھی ۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو نا چاہیئے ۔ صرف بھڑاس نکالنے سے کچھ نہیں ہو گا۔
 

محمد سعد

محفلین
آرگومینٹ آف سیاست دان
تو پھر سیاست دان کیوں سائنس سیکھیں؟ سائنس دانوں کو سیاست سیکھنی چاہیے
سیاست دانوں کو بڑے پیمانے پر پالیسی بنانے کے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ وہ فیصلے حقائق پر مبنی ہونے چاہئیں ورنہ بہت بڑے پیمانے پر نقصان ہوتا ہے، جیسے ٹرمپ کی ماحولیاتی سائنس کے خلاف ہٹ دھرمی سے ہو رہا ہے۔
 

سین خے

محفلین
عبداللہ حسین ہارون نے شروع میں جن دو patents کا ذکر کیا ہے ان کو سرچ کرنے پر یہ نتیجہ نکلا

پہلا
US2006257952

Espacenet - Bibliographic data

The present invention relates to the diagnosis of breast cancer. It discloses the use of protein ASC in the diagnosis of breast cancer. It relates to a method for diagnosis of breast cancer from a liquid sample, derived from an individual by measuring ASC in the sample. Measurement of ASC can, e.g., be used in the early detection or diagnosis of breast cancer.

دوسرا avian coronavirus پر ہے
EP3172319B1
EP3172319B1 - Coronavirus - Google Patents


  • FIELD OF THE INVENTION
  • [0001]
    The present invention relates to an attenuated coronavirus comprising a variant replicase gene, which causes the virus to have reduced pathogenicity. The present invention also relates to the use of such a coronavirus in a vaccine to prevent and/or treat a disease.
    BACKGROUND TO THE INVENTION
  • [0002]
    Avian infectious bronchitis virus (IBV), the aetiological agent of infectious bronchitis (IB), is a highly infectious and contagious pathogen of domestic fowl that replicates primarily in the respiratory tract but also in epithelial cells of the gut, kidney and oviduct. IBV is a member of the Order Nidovirales, Family Coronaviridae, Subfamily Coronavirinae and Genus Gammacoronavirus; genetically very similar coronaviruses cause disease in turkeys, guinea fowl and pheasants.
 

الف نظامی

لائبریرین
سیاست دانوں کو بڑے پیمانے پر پالیسی بنانے کے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ وہ فیصلے حقائق پر مبنی ہونے چاہئیں ورنہ بہت بڑے پیمانے پر نقصان ہوتا ہے، جیسے ٹرمپ کی ماحولیاتی سائنس کے خلاف ہٹ دھرمی سے ہو رہا ہے۔
سیاست دانوں کی پالیسی سائنس جان کر بھی ایسی ہوتی ہے جس میں کارپوریٹ مفادات کا تحفظ اولین ترجیح ہوتی ہے۔
 

سین خے

محفلین
یعنی کہ کمزور کیے گئے وائرس کے ذریعے ویکسین کا پیٹنٹ؟

جی اور وہ بھی avian coronavirus۔
تھوڑی سی تحقیق سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اتنے بڑے دعویٰ کے پیچھے کتنی سچائی ہے۔ ویسے جو یوٹیوب ویڈیو کا پیج ہے وہاں بھی کسی ڈاکٹر نے ان دو پیٹنٹ کو سرچ کر کے ان کا ریفرنس دیا ہوا ہے۔ ایسی ویڈیوز کو شئیر کرنے سے پہلے اگر تحقیق کرنے کی عادت ڈال لی جائے تو کافی فائدہ ہوگا۔
 

زاہد لطیف

محفلین
جی اور وہ بھی avian coronavirus۔
تھوڑی سی تحقیق سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اتنے بڑے دعویٰ کے پیچھے کتنی سچائی ہے۔ ویسے جو یوٹیوب ویڈیو کا پیج ہے وہاں بھی کسی ڈاکٹر نے ان دو پیٹنٹ کو سرچ کر کے ان کا ریفرنس دیا ہوا ہے۔ ایسی ویڈیوز کو شئیر کرنے سے پہلے اگر تحقیق کرنے کی عادت ڈال لی جائے تو کافی فائدہ ہوگا۔
وقت بہت قیمتی چیز ہے اسے تحقیق جیسے فالتو کام میں کوئی ضائع کیوں کرے، بس چیز اگر اپنے سنے سنائے خیالات سے میل کھاتی ہے اور بتانے والے کا ظاہری عہدہ بھی اپنی سوچ سے بڑا ہے تو سب اچھا ہے! :)
اسی لیے میں سمجھتا ہوں ہر شخص اور اتھارٹی کے خیالات پہ سوال اٹھائے جانے چاہییں تاکہ ان کی حقیقت سامنے آ سکے نہ کہ انہیں بت بنا لیا جائے! :)
 

جاسم محمد

محفلین
اس حوالہ سے کچھ تفصیلی مضمون اردو زبان میں ملا ہے:

کورونا وائرس۔۔۔ایک حیاتیاتی بم؟
سید عاصم محمود اتوار 29 مارچ 2020
2025874-coronavirus-1585251515-956-640x480.jpg

دنیا بھر میں تباہی مچا دینے والے نئے کورونا وائرس نے قدرتی طور پر جنم لیا

نومبر 2019ء سے بنی نوع انسان کو دبوچ لینے والے اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ننھے منے کورونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ماہرین اس کو ’’سارس کوو2-‘‘(SARS-CoV-2)کا نام دے چکے۔ یہ صرف 50تا200نینو میٹر قطر رکھتا ہے۔

(انسانی بال کی چوڑائی 80ہزار نینو میٹر ہے)۔ اپنے غیر مرئی وجود کے باعث ہی یہ انسان کے لیے آفت بن گیا۔ اس نے دکھا دیا کہ انسان سائنس و ٹیکنالوجی کی اپنی ترقی پر زیادہ مغرور نہ ہو‘ قدرت کا محض ایک ننھا سا عجوبہ بھی پوری زمین تلپٹ کر سکتا ہے۔پھر اس نے زبردست لاک ڈاؤن سے مغربی اقوام کو بھی انہی تکالیف، مسائل،دکھوں اور مصائب میں گرفتار کرا دیا جن سے مظلوم کشمیری ظالمانہ بھارتی نظربندی کے ذریعے گذر رہے ہیں۔سارس کوو۔ 2 کا تعلق وائرسوں کے خاندان ’’کورونا ویریدہ‘‘ (Coronaviridae)سے ہے۔ اس خاندان میں مختلف 40 وائرس شامل ہیں۔ انہیں عرف عام میں ’’کورونا وائرس‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وائرس ممالیہ اور پرندوں کو امراض میں مبتلا کرتے ہیں۔ ان چالیس میں سے سات انسان پر بھی حملہ آور ہوتے اور اس میں بخار‘ جسمانی درد‘ کھانسی اور امراض تنفس پیدا کرتے ہیں۔ تین وائرس انسانوں کی اموات کا سبب بن چکے۔

2003ء میں ’’سارس کوو‘‘(SARS-CoV) نے چین میں سر ابھارا ۔اس نے دنیا بھر میں آٹھ ہزار سے زائد لوگوں کو متاثر کیا اور 774مرد وزن ہلاک کر دیئے۔ 2012ء ‘2015 اور 2018میں وقفے وقفے سے’’ مرس کوو‘‘((MERS-CoV) کورونا وائرس پانچ سو زائد انسان دنیائے لافانی میں پہنچا چکا۔ اب دسمبر2019ء سے سارس کوو۔2 انسانیت پر حملہ آور ہے۔

یہ کورونا وائرس کی سب سے تباہ کن قسم ثابت ہوا۔ اب تک پونے تین لاکھ انسان اس سے متاثر ہو چکے۔ ان میں سے گیارہ ہزار سے زائد اللہ کو پیارے ہوئے۔قابل ذکر بات یہ کہ انسان کو نشانہ بنانے والے ساتوں کورونا وائرس چمگادڑوں میں ملتے ہیں۔ گویا ان وائرسوں کے حقیقی مسکن چمگادڑ کا جسم ہیں۔ عجیب تر بات یہ کہ ساتوں براہ راست انسان پر حملہ آور نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے پہلے دوسرے جانور کو اپنا شکار بنایا اور پھر اپنے اندر جینیاتی تبدیلیاں لا کر انسان کودبوچ لیا۔ سارس کوو مشکی بلی (Civet)، مرس کوہ اونٹ اور سارس کوو 2 بھی شاید کسی جانور کی وساطت سے انسانی جسم میں داخل ہوا۔ بقیہ چار کورونا وائرسوں میں سے دو مویشیوں ‘ ایک چوہے اور ایک مشکی بلی کے ذریعے انسان سے چمٹے۔

وائرسوں کی پُراسرار دنیا

دنیا میں ہر جاندار … وائرس‘ جرثومے اور خلیے بھی جینیاتی مواد (Genetic material ) رکھتے ہیں ہے۔ یہ مواد ڈی این اے،آر این اے اور پروٹین وغیرہ پر مشتمل ہے۔ کورونا وائرس اور فلو (انفلوئنزہ) کے وائرس آر این اے اور پروٹین پر مشتمل ہیں۔ آر این اے میں وائرسوں سے پیدا شدہ بیماری کی جینیاتی معلومات محفوظ ہوتی ہیں۔

وائرس اپنے پروٹینی مادے سے دو کام لیتا ہے۔اول یہ کہ جب وائرس کسی انسان یا جانور کے بدن میں داخل ہو‘ تو وہ پروٹینی مادے کی مدد ہی سے ایک خلیے پر قبضہ جماتا ہے۔ وہ پھر اسی مادے کے ذریعے خلیے کی مشینری پر قابض ہو جاتا ہے۔ اگر یہ عمل کامیابی سے انجام پا جائے تو سمجھیے کہ انسانی جسم میں اس وائرس سے مخصوص بیماری نے اپنا کام شروع کر یا۔ وجہ یہ کہ وائرس پھر اپنے غلام خلیے کے پروٹینوں اور دیگر جینیاتی موادکی مدد سے اپنی کاپیاں یا نقول تیار کرنے لگتا ہے۔یوں سمجھیے کہ وائرس نے سب سے پہلے ایک خلیے کے پرنٹر پر قبضہ کیا۔ پھر پرنٹر کو اپنی کا پیاں تیار کرنے کی ہدایت دی اور ’’پرنٹ‘‘ کا بٹن دبا دیا۔ لیجیے چند دن میں جانور یا انسان کے بدن میں وائرس کی لاکھوں نقلیں تیار ہو کر دیگر خلیوں کو بھی اپنا نشانہ بنا لیتی ہیں۔ اگر ہمارے جسم کے محافظ خلیے ان خلیوں کو مار نہ سکیں تو انسان بتدریج بیمار ہو کر موت کی جانب بڑھ جاتاہے۔

وائرسوں کی نئی قسم بھی جنم لیتی ہے۔ اس کے دو بنیادی طریقے ہیں۔ پہلا اس وقت ظہور پذیر ہوتا ہے جب وائرس اپنی کاپیاں تیار کرے۔ یہ کاپیاں تیار کرتے ہوئے بعض اوقات نئی کاپیوں میں وائرس کے جینیاتی مواد میں کچھ تبدیلیاں آ جاتی ہیں۔ شروع میں یہ تبدیلیاں غیر اہم ہوتی ہیں۔ مگر وائرس اپنی لاکھوں نقلیں تیار کرتا ہے۔ اسی لیے آخر کار وائرس کی ایسی نقل جنم لیتی ہے جس کا جینیاتی مواد اولین وائرس کے مواد سے کافی مختلف ہوتاہے۔ یوں وائرس کی نئی قسم جنم لیتی ہے جو اپنا مخصوص جینیاتی مواد رکھتی ہے۔ وائرس کے جینیاتی مواد میں پیدا شدہ تبدیلیاں اصطلاح میں ’’تغیر‘‘ (Mutation)کہلاتی ہیں۔ جب کہ وائرس کی نئی قسم کو ’’ اسٹرین‘ ‘ (Strain)کہا جاتاہے۔

ایک وائرس کی نئی اسٹرین یا قسم جنم لینے کا دوسرا طریق کار ’’باز آرائی‘‘(Reassortment)کہلاتا ہے۔ یہ اس وقت جنم لیتا ہے جب کسی جاندار میں دو مختلف یا ایک جیسی ہی وائرسی اسٹرین داخل ہو جائیں۔ جب یہ دونوں وائرسی اسٹرینیں اپنی کاپیاں تیار کریں تو کبھی کبھی ان کی نقول آپس میں مل جاتی ہیں۔ یوں ان کے جینیاتی مواد کے ادغام سے نئی وائرسی اسٹرین وجود میں آسکتی ہے۔ یہ نئی قسم اپنا مخصوص جینیاتی مواد رکھتی ہے۔مثلاً انفلوئنزہ اے وائرس کی ایک وائرسی اسٹرین‘HINIسُور میں ملتی ہے۔ یہ 1930ء میں اس جانور میں ملی تھی۔ 1998ء میں کسی سُور کے جسم میں اس اسٹرین کا جدید انفلوئنزہ وائرس اور ایوین انفلوئنزہ وائرس یعنی دو نئے وائرسوں سے ٹاکرا ہو گیا۔ تین وائرسوں کے جینیاتی مواد کی باز آرائی سے انفلوئنزہ وائرس کی نئی وائرسی اسٹرین وجود میں آئی۔ اس نے 2009ء میں ایک نئی فلو وبا کو جنم دیاجس کی لپیٹ میں آ کر ڈیڑھ لاکھ سے پونے چھ لاکھ انسان چل بسے۔

ایک نئی اسٹرین

علم جینیات اور حیاتیات کے ماہرین بھی جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے لیبارٹریوں میں باز آرائی کا عمل انجام دیتے ہیں۔ وہ مختلف وائرسوں اور جراثیم کے جینیاتی مواد ملا کر نئی وائرسی اسٹرینز بناتے ہیں۔ ان پر پھر تحقیق و تجربات کیے جاتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ وہ مستقبل میں جنم لینے والی بیماریوں سے قبل از وقت آگاہ ہوجائیں۔ یوں اس کا خاتمہ کرنے میں آسانی رہے گی۔عین ممکن ہے کہ عالمی طاقتیں بھی اپنے اچھے برے مقاصد پورے کرنے کی خاطر لیبارٹریوں میں باز آرائی کراتی ہوں۔یہ بات درست ہے تو یہ عمل انتہائی خفیہ ہوتا ہے۔ وجہ یہ کہ اس عمل سے وائرس یا جراثیم کو ہتھیار کا روپ دینا ممکن ہے جو وسیع پیمانے پر جانی و مالی تباہی پھیلا سکتا ہے۔ یہ اصطلاح میں ’’حیاتیاتی ہتھیار‘‘ (Bioweapon) کہلاتا ہے۔ حیاتیاتی ہتھیاروں کے ذریعے بھی دشمن کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ نے ان ہتھیاروں کی تخلیق و استعمال پر پابندی عائد کررکھی ہیں۔

دنیا بھر میں کئی ماہرین یہ دعویٰ کرچکے کہ سارس کوو 2 بھی لیبارٹری میں تیار ہوا… گویا وہ ایک حیاتیاتی بم ہے۔ یہ بم چین پر گرانے کے لیے بنایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ چین کو معاشی، سیاسی اور معاشرتی طور پر نقصان پہنچایا جاسکے۔ اس نظریے کے حامی ماہرین مختلف ثبوت سامنے لائے ہیں۔سارس کوو 2 پر تحقیق سے ماہرین جینیات جان چکے کہ یہ ہارس شو نامی چمگادڑ میں پائے جانے والے کورونا وائرس سے نکلا ہے۔ دونوں وائرسوں کے جینیاتی مواد میں 96 فیصد مماثلت ہے۔ لیکن 4 فیصد فرق واضح کرتا ہے کہ چمگادڑ کا کورونا وائرس کسی اور جانور کے جسم میں داخل ہوا۔ وہاں اس کا کورونا وائرس کی کسی اور وائرسی اسٹرین سے ٹاکرا ہوا۔ تب باز آرائی یا عمل تغیر کی بدولت سارس کوو2 کی نئی وائرسی اسٹرین نے جنم یا۔

شروع میں خیال تھا کہ یہ دوسرا جانور پنگولین ہے۔ اس جانور کی ایک قسم چین میں ملتی ہے۔ اس کا گوشت چینی کھاتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وائرسی اسٹرینیں اس ممالیہ جانور کو بھی نشانہ بناتی ہیں۔ لیکن جب پنگولین میں پائی جانے والی کورونا وائرسی اسٹرینوں اور سارس کوو 2 کے جینیاتی مواد کا تقابلی جائزہ لیا گیا تو ان میں 92 فیصد مطابقت پائی گئی۔ یہ مطابقت 99 فیصد ہونا ضروری ہے۔اسی لیے ماہرین نے قرار دیا کہ سارس کوو 2 کی وائرسی اسٹرین نے پنگولین میں جنم نہیں لیا۔ 2003ء کی سارس کو وائرسی اسٹرین مشکی کی جسم میں پیدا ہوئی تھی۔

اس کا جینیاتی مواد بلی کی کورونا وائرس والی وائرسی اسٹرین سے 99.80 فیصد مطابقت رکھتا تھا۔گویا ماہرین جینیات سرتوڑ کوشش کے باوجود اب تک نہیں جان سکے کہ سارس کوو 2 کے جینیاتی مواد کا 4 فیصد حصہ کہاں سے آیا؟ اس کا 96 فیصد حصہ تو ہارس شو چمگادڑ میں پائے جانے والے کورونا وائرس پر مشتمل ہے۔ لیکن بقیہ کا منبع کیا شے ہے؟ اس کو حیاتیاتی ہتھیار قرار دینے والے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس کا کچھ حصہ کسی بائیو لیبارٹری میں بنایا گیا۔

پروٹینوں کا کردار

آپ کورونا وائرس کی تصویر دیکھیے، اس کی سطح پہ کیلوں کی طرح ابھار ہیں۔ یہ ایک پروٹین ہے جسے کیل جیسی شکل رکھنے کے باعث ’’ میخ پروٹین‘‘ (spike protein)کا نام دیا گیا۔ یہ میخ پروٹین انسانی جسم میں بیماری پیدا کرنے کے سلسلے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ہوتا یہ ہے کہ جب کورونا وائرس انسانی جسم میں داخل ہو تو وہ حلق سے گزر کر نظام تنفس میں پہنچتے ہی وہاں کسی خلیے کو تلاش کرتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اس سے چمٹ کر اسے اپنا غلام بناسکے۔ تب وائرس کا میخ پروٹین خلیے کے ایک خصوصی ابھرے پروٹین سے چمٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ خلیے کا یہ مخصوص ابھرا پروٹین’’ اے سی ای 2 ‘‘(ACE2)) کہلاتا ہے۔

اگر وائرس کا میخ پروٹین خلیے کے اے سی ای 2 پروٹین سے چمٹنے میں کامیاب ہوجائے تو سمجھیے کہ انسان وائرس سے پیدا شدہ مرض کا نشانہ بن گیا۔میخ پروٹین اور اے سی ای 2 پروٹین کے ادغام میں ایک خامرہ (enzyme)’’ فیورین ‘‘ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ جب دونوں پروٹین قریب آئیں تو فیورین متحرک ہوجاتا ہے۔

وہ پھر کیمیائی تعامل کے ذریعے دونوں پروٹینوں کو باہم پیوست ہونے کی اجازت دے دیتا ہے۔ یہ فیورین (Furin)نامی خامرہ گویا خردبینی سطح پر انسان کی ایک مدافعتی ڈھال ہے۔ ظاہر ہے، اگر انسانی جسم میں داخل ہونے والے کسی وائرس یا جرثومے کا پروٹین فیورین قبول کرنے سے انکار کردے، تو وہ کسی خلیے کو نشانہ نہیں بنا پاتا۔ یوں انسان اس وائرس یا جرثومے سے مخصوص بیماری میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔

10-1585251457.jpg


واضح رہے کہ ہر زمینی جاندار خردبینی سطح پر چار مادوں… نیوکلائی تیزابوں، لپڈز، پروٹین اور کاربوہائیڈریٹس سے بنا ہے۔ ڈی این اے اور آر این اے نیوکلائی تیزابوں(nucleic acids) سے بنتے اور ہر وائرس، جرثومے اور خلیے میں ملتے ہیں۔ ڈی این اے اور آر این اے سالمے ہیں۔ دھاگے کی شکل رکھتے ہیں۔ ڈی این اے دو او آر این اے ایک دھاگہ رکھتا ہے۔ اس دھاگے میں نیوکلائی تیزاب اور فاسفیٹ مادے (nucleotides)مل کر چار بنیادیں بناتے ہیں۔

یہ بنیادیں ہر دھاگے میں خاص ترتیب سے موجود ہوتی ہیں۔ انہیں عام اصلاح میں ’’حروف‘‘ (letters) کہا جاتا ہے۔ انہی حروف میں وہ تمام معلومات یا احکامات محفوظ ہوتے ہیں جنہیں پاکر ڈی این اے یا آر این اے کے جین اپنا کام کرتے ہیں مثلاً نیا جینیاتی مواد تیار کرنا،ہاتھ یا پیر کی تشکیل، بال پیدا کرکے انہیں بھورا یا سیاہ رنگ دینا وغیرہ۔ڈی این اے یا آر این اے میں ہر حکم یا معلومات مخصوص حروف میں محفوظ ہوتی ہے۔ ہر حکم کے یہ مخصوص حروف اصلاح میں ’’سیکوئنس‘‘(sequence) کہلاتے ہیں۔ جیسے کہ سارس کوو 2 کے میخ پروٹین کے آر این اے میں یہ سیکوئنس موجود ہے کہ وہ خلیے کے اے سی 2 پروٹین کے نزدیک جاتے ہی بذریعہ کیمیائی عمل وہاں موجود فیورین خامرے کو متحرک کردیتا ہے۔ وہ پھر سہولت سے دونوں پروٹینوں کا ادغام کرا تا ہے۔ لیجیے، سارس کوو 2 کا وائرس انسانی خلیے سے چپک کر اپنا کام کرنے لگا۔

فیورین کلیویج کا معّمہ

خاص بات یہ کہ ماہرین جینیات کے مطابق کورونا وائرس کی کسی بھی قسم کے میخ پروٹین میں فیورین خامرے کو متحرک کردینے والا سیکوئنس موجود نہیں… گویا سارس کوو 2 کورونا وائرسوں کی پہلی نئی یا ذیلی قسم ہے جس کے آر این اے میں یہ سیکوئنس پایا گیا جو بارہ حروف پر مشتمل ہے۔ وائرس کو حیاتیاتی بم کہنے والے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس میں یہ سیکوئنس لیبارٹری کے اندر بذریعہ جینیاتی انجینئرئنگ داخل کیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ یہ امر یقینی بنادیا جائے ، سارس کوو 2 کا میخ پروٹین آسانی سے خلیے کے سی اے 2 میں پیوست ہوجائے۔جنیاتی انجینئرنگ میں ماہرین وائرسوں، جراثیم، کائیوں وغیرہ کے ڈی این اے اور آر این اے میں سیکوئنس بھی تبدیل کرتے ہیں۔

حد یہ ہے کہ اگر کسی ڈی این اے کا صرف ایک ’’حرف‘‘ بھی تبدیل کردیا جائے تو اس میں انقلابی تبدیلی جنم لے سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ایک بے ضرر جرثومے سے بدل کر نہایت خطرناک بیماری پیدا کرنے والا جرثومہ بن جائے۔ ہر وائرس ،جرثومے وغیرہ کا مجموعی جینیاتی مادہ حروف کی مختلف تعداد رکھتا ہے۔ اس مجموعی جینیاتی مادے کو اصطلاح میں ’’جینوم‘‘ (Genome) کہتے ہیں۔ سارس کوہ 2 کا جینوم تیس ہزار حروف رکھتا ہے۔ انسان کے صرف ایک خلیے کا جنیوم تین ارب حروف رکھتا ہے۔ جینوم میں ڈی این اے یا آر این اے، جین، پروٹین اور دوسرا جینیاتی و نامیاتی مواد شامل ہے۔

یہ اب تک معّمہ ہے کہ سارس کوو 2کے آر این اے میں وہ بارہ حروف کا سیکوئنس کیسے داخل ہوا جو فیورین خامرے کو متحرک کرتا ہے؟ ماہرین نے اس سیکوئنس کو ’’فیورین کلیویج جگہ‘‘ (Furin cleavage site ) کا نام دیا ہے۔ اسے سب سے پہلے چینی شہر،ووہان کی ہوازونگ(Huazhong)یونیورسٹی آف سائنس وٹکنالوجی سے منسلک حیاتیات داں،لی ہوا (Li Hua) نے اپنی ٹیم کے ساتھ دریافت کیا۔ بعدازاں دیگر تحقیقی اداروں میں بھی ماہرین نے تحقیق و تجربات سے اسے کھوج لیا ۔یہ یقینی ہے کہ ’’فیورین کلیویج‘‘ سے سارس کوو 2 کو بہت فائدہ پہنچا۔ اب وہ اس کی بدولت دیگر کورونا وائرسوں کی نسبت ٹارگٹ خلیے کو آسانی سے دبوچ لیتا ہے۔

جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے بھی بعض انسان دوست جراثیم کے جینوم میں سیکوئنس تبدیل کیے جاتے ہیں۔ مدعا یہ ہوتا ہے کہ ان جراثیم کو انسان کے لیے زیادہ کارآمد بنایا جاسکے۔ یہ تکنیک اصطلاح میں ’’گین آف فنکشن‘‘ (Gain-of-Function) یعنی کسی عمل کے انجام دینے میں سہولت پیدا کرتی ہے۔ سارس کوو 2 کو حیاتیاتی بم قرار دینے والے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ لیبارٹری میں ’’گین آف فنکشن‘‘ تکنیک استعمال کرتے ہوئے ہی اس کے آر این اے میں ’’فیورین کلیویج‘‘ سیکوئنس داخل کیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ یقینی بنایا جاسکے، سارس کوو 2 نہ صرف انسانی خلیوں کو آسانی سے اپنا شکار بناسکے بلکہ زیادہ سے زیادہ انسان اس کے گرفت میں آ جائیں۔وہ انسانی آبادی میں زیادہ تیزی سے پھیل سکے کیونکہ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسانوں میں بہ سہولت منتقل ہو کر انھیں بیمار کر ڈالتا ہے۔

اس پُراسرار فیورین کلیویج کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ وجہ یہ کہ انسانی جسم میں فیورین خامرہ پھیپھڑوں کے علاوہ جگہ اور آنتوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سارس کوو 2 کے ہاتھوں شکار ہوئے کئی مریضوں میں پھیپھڑوں کے علاوہ جگر اور آنتیں بھی خراب پائی گئیں۔ یہی نہیں، اسے فیورین کلیویج کے باعث یہ سہولت بھی مل گئی کہ اگر وہ پھیپھڑوں کے کسی خلیے سے چیک نہیں پایا تو جگر یا آنتوں کے خلیے کو دبوچ سکتا ہے۔ گویا فیورین کلیویج نے اسے دیگر کوروناوائرسوں کی نسبت زیادہ خطرناک اور مضر ِصحت بنادیا۔یہ واضح رہے کہ فیورین کلیویج کا سیکوئنس صرف خطرناک اور تباہ کن وائرسوں یا جراثیم میں پایا جاتا ہے۔ ان میں ایڈز، ڈینگی بخار اور ایبولا مرض پیدا کرنے والے وائرس شامل ہیں۔ شدید فلو پیدا کرنے والے وائرسوں میں بھی یہ سیکوئنس ملا ہے جبکہ آنتھرکس بیماری کو جنم دینے والا جرثومہ بھی فیورین کلیویج رکھتا ہے۔ ان تمام وائرسوں اور جرثومے کی یہ بھی خاصیت ہے کہ وہ جانوروں سے انسانوں کو چمٹے ہیں۔ یعنی انہوں نے پہلے حیوانیات کو نشانہ بنایا۔ پھر ان کی اسٹرینز یا نئی اقسام نے انسان پر حملہ کردیا۔

ایک اور سیکوئنس

ماہ جنوری کے اواخر میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نئی دہلی اور یونیورسٹی آف دہلی، نئی دہی سے منسلک ماہرین جینیات کی ایک ٹیم نے سارس کوو2 کے جینیاتی مواد کا خردبینی جائزہ لیا۔ اس ٹیم میں پرشانت پردھان، استوش کمار، اخلیش مشرا، پارول گپتا، پروین کمار، منوج بالاکرشن اور دیگر ماہرین شامل تھے۔ اس ٹیم کی تحقیق کا نتیجہ’’Uncanny similarity of unique inserts in the 2019-nCoV spike protein to HIV-1 gp120

and Gag‘‘ کے عنوان سے علم جینیات کی مشہور ویب سائٹ ’’www.biorxiv.org‘‘میں شائع ہوا۔ اس تحقیق سے انکشاف ہوا کہ سارس کوو 2 کے میخ پروٹین کے جینیاتی مواد میں چار اور نئی سیکوئنس شامل ہیں۔ یہ ایک اور اہم انکشاف تھا۔بعدازاں ماہرین جینیات نے تحقیق سے دریافت کیا کہ ان میں سے تین سیکوئنس ہارس شو چمگادڑ میں ملنے والے کورونا وائرس کے میخ پروٹین میں بھی موجود ہیں۔ تاہم ایک سیکوئنس کورونا وائرس کی کسی بھی قسم میں نہیں پائی گئی۔ گویا یہ سیکوئنس بھی سارس کوو2 میں پہلی بار نمودار ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ دوسری سیکوئنس نے اس میں کس قسم کی تبدیلی کو جنم دیا؟

11-1585251459.jpg


دنیا میں تمام پروٹین امائنو تیزابوں سے بنتے ہیں جن کی تعداد پانچ سو ہے۔ ان میں سے بعض بہت جلد اور دیگر مشکل سے زندہ جسم میں جذب ہوتے ہیں۔ امائنو تیزابوں کی زندہ جسم میں جذب پذیر ہونے کی صلاحیت پیمائشی درجے ’’پی آئی‘‘ (Isoelectric point) سے نوٹ کی جاتی ہے۔ جن امائنو تیزابوں کا ’’پی آئی نمبر‘‘ زیادہ ہو، وہ زندہ جسم میں اتنی ہی تیزی سے جذب ہوتے ہیں۔

ماہرین نے جب سارسکوو 2 کے میخ پروٹین بنانے والے امائنو تیزابوں کا پی آئی نمبر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ دیگر کورونا وائرسوں کی نسبت ان میں انسانی جسم میں جذب ہونے کی صلاحیت ’’دس تا بیس گنا زیادہ‘‘ بڑھ چکی۔اس کے میخ پروٹین کے جینیاتی مواد میں تبدیلی نے نئی متعارف کردہ سیکوئنس کے باعث ہی جنم لیا۔مطلب یہ کہ اس سیکوئنس کی بدولت کورونا کو 2 کا میخ پروٹین دیگر کورونا وائرسوں کے میخ پروٹینوں کے مقابلے میں انسانی خلیے کے پروٹین (اے سی ای 2) میں زیادہ تیزی اور آسانی سے جذب ہونے لگا۔ اس سیکوئنس کی بدولت اسے یہ سہولت مل گئی کہ وہ انسانی نظام تنفس میں پہنچتے ہی کسی خلیے سے جاچمٹے اور اسے یہ آسانی سے اپنا شکار بنالے۔

جیسا کہ بتایا گیا کہ قدرتی عملِ تغیر اور باز آرائی کے باعث وائرسوں، جراثیم وغیرہ میں تبدیلیاں جنم لینے سے ان کی نئی اقسام پیدا ہوتی ہیں۔ ممکن ہے کہ قدرت ہی نے کورونا کوو 2 کے میخ وائرس کے جینیاتی مواد میں دو تبدیلیاں پیدا کردیں۔ اگرچہ یہ انہونی اور غیر معمولی بات ہے۔ اول تو وائرس کے آر این اے یا ڈی این اے میں تبدیلی بہ مشکل جنم لیتی ہے۔ مگر ایک ساتھ دو سیکوئنسوں کا پیدا ہوجانا… یہ اعجوبہ قدرت میں شاذونادر ہی ملتا ہے۔سارس کوو 2 کے حیاتیاتی بم ہونے کا دعویٰ کرنے والے ماہرین تو کہتے ہیں کہ اس کے میخ پروٹین میں دونوں سیکوئنس بذریعہ جینیاتی انجینئرنگ داخل کیے گئے۔ ماہرین نے پہلے ہارس شو چمگادڑ کا کورونا وائرس لیا، پھر اس میں کسی نامعلوم جانور کا جینیاتی مواد ملا کر نیا وائرس تخلیق کر لیا۔ پھر اس کے میخ پروٹین میں دو نئے سیکوئنس متعارف کرائے۔ مقصد یہ تھا کہ نئے وائرس کو زیادہ سے زیادہ خطرناک بنایا جاسکے۔ یہ خطرہ اسی طرح پیدا کیا گیا کہ سارسکوو 2 انسانوں کو نئی سیکوئنسوں کی بدولت آسانی سے نشانہ بنانے لگا اور اسی لیے چند ماہ میں پوری دنیا میں پھیل گیا۔

انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو افشا ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم سے انسان جنگوں میں دشمن کو نقصان پہنچانے کی خاطر جراثیم، وائرسوں، پھپھوندیوں اور دیگر نامیات (organisms) کا استعمال کررہا ہے۔ ساڑھے تین ہزار سال پہلے ترکی سے لے کر شام تک کے علاقے میں حتّی قوم کی حکومت تھی۔ تاریخی دستاویزات میں درج ہے کہ 1200 قبل مسیح میں حتّی بادشاہوں نے اپنے دشمن کے علاقے میں تولارمی ( tularemia) نامی بیماری کا شکار مویشی چھوڑ دیئے تھے۔

یہ بیماری ایک جرثومے سے پیدا ہوتی اور انسانوں میں بھی منتقل ہوکر انہیں معذور بنادیتی ہے۔ یہ انسانی تاریخ میں حیاتیاتی جنگ کرنے کی پہلی مستند شہادت ہے۔اس کے بعد افواج پودوں کے زہر تیروں میں استعمال کرنے لگیں ۔پھر منجنیقوں سے مردہ جانور دشمن پر پھینکنے کا رواج شروع ہوا تاکہ اسے کسی بیماری میں مبتلا کیا جاسکے۔ جب انگریزوں نے امریکا پر قبضہ جمایا تو وہاں کے حقیقی باشندے، ریڈ انڈین غاصبوں سے لڑنے لگے۔ 1963ء میں برطانوی فوجی افسروں نے ریڈ انڈین سرداروں کو ایسے ملبوسات دیئے جن میں چیچک کے جراثیم لگے تھے۔ چناں چہ جلد ہی ریڈ انڈینوں میں چیچک پھیل گئی اور ہزارہا انسان اس بیماری سے چل بسے۔

12-1585251462.jpg


یہ برطانوی حکمران ہی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے حیاتیاتی اسلحہ بنانے کے لیے پہلا باقاعدہ منصوبہ شروع کیا۔ اس سلسلے میں وزیراعظم چرچل کے حکم پر 1940ء میں ’’بائیولوجی ڈیپارٹمنٹ‘‘ بنایا گیا۔اس سرکاری ادارے میں جینیات کے ماہرین بھرتی کرکے انہیں حیاتیاتی ہتھیار بنانے کی ذمے داری سونپی گئی۔ انہوں نے آنتھرکس اور بوٹونیم کے حیاتیاتی ہتھیار تیار کیے۔

اس کے بعد جرمنی، امریکا، اٹلی، جاپان اور دیگر ممالک بھی حیاتیاتی ہتھیار بنانے کے لیے تحقیق و تجربات کرنے لگے۔ امریکا پر الزام ہے کہ اس نے کوریا اور ویت نام کی جنگوں میں حیاتیاتی ہتھیار استعمال کیے جن سے ہزارہا شہری چل بسے۔1972ء میں اقوام متحدہ کے معاہدے’’ بائیولوجیکل ویپنز کنونشن‘‘ کے ذریعے حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری اور ذخیرہ اندوزی پر پابندی لگادی گئی۔ اس معاہدے کو پاکستان سمیت دنیا کے تقریباً سبھی ممالک تسلیم کرچکے۔ لیکن تمام بڑی طاقتوں… امریکا، روس، چین، جرمنی، فرانس، برطانیہ، بھارت، جاپان اور جنوبی کوریا نے دفاعی مقاصد کے لیے حیاتیاتی ہتھیاروں کی تحقیق و تجربات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تحقیق خفیہ رکھی جاتی اور صرف جدید ترین آلات اور سازوسامان سے لیس حیاتیاتی لیبارٹریوں میں انجام پاتی ہے۔

حرف آخر

سارس کوو 2 کی تخلیق کے سلسلے میں دنیا بھر میں مختلف نظریات سامنے آ چکے۔ان کے دو بڑے گروہ ہیں۔پہلے گروہ کی رو سے یہ قدرت کی بنائی آفت ہے۔اس سے قدرت بنی نوع انسان کو متنبہ کرنا چاہتی ہے کہ وہ اپنی غیر فطری اور لالچ وہوس پہ مبنی سرگرمیوں سے باز آ جائے ورنہ کرہ ارض پہ زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔دوسرے گروہ کے مطابق یہ کسی لیبارٹری میں بنایا گیا۔مثلاً کہا گیا کہ چینی ماہرین ووہان کی لیبارٹری میں کورونا وائرسوں پر تحقیق کر رہے تھے۔انھوں نے ہی سارس کوو 2 بنایا۔کسی کی بداحتیاطی کے سبب لیبارٹری سے باہر نکل کر اس نے زبردست عالمی وبا پیدا کر دی۔

یہ نظریہ بھی سامنے آیا کہ امریکا نے اسرائیل اور برطانیہ کے تعاون سے اسے تیار کیا۔مدعا یہ تھا کہ ابھرتی سپرپاور،چین کو خصوصاً معاشی نقصان پہنچایا جا سکے۔گو اس نے بعد میں دنیائے مغرب کو بھی اپنی بے رحم لپیٹ میں لے لیا۔اگر یہ دعوی درست ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم نے کسی لیبارٹری میں جنم لیا تو یہ بات آشکارا کرتی ہے کہ جنگ وجدل کی تکنیک نئے دور میں داخل ہو چکی۔اب متحارب عالمی قوتیں محض میزائلوں ،جنگی طیاروں اور ٹینکوں ہی نہیں وائرسوں اور جراثیم کے ذریعے بھی ایک دوسرے پر حملے کر کے نقصان پہنچانے کی کوششیں کرنے لگی ہیں۔ان حملوں میں مگر عموماً معصوم اور بے گناہ انسانوں کی قیمتی جانیں ہی جاتی ہیں۔یہ حکمران طبقے کی مفاد پرستی عیاں کرنے والا جنگوں کا بھیانک روپ ہے۔
 
Top