زبیر صدیقی

محفلین
السلام علیکم صاحبان ؛ اساتذہ؛
ایک اور غزل کی جسارت کر رہا ہوں۔ ذرا راہنمائی فرمائیں۔ الف عین محمد خلیل الرحمٰن سید عاطف علی

ہر کچھ نہیں اچھا ہے جو اچھا دکھائی دے
کائی ہمیشہ دور سے سبزہ دکھائی دے

میں تب کہوں گا "دیکھ رہا ہوں میں آئینہ"
خامی بھی میری عکس کے ہمراہ دکھائی دے

چہرے پہ چہرہ رکھ کے گماں آپ کو یہ ہے
باقی ہر ایک جیسا ہے ویسا دکھائی دے

خود سے بھی دوسروں سے بھی سچ کہہ سکو اگر
پھر یک بیک یہ زندگی سادہ دکھائی دے

چشم و نظر اگر ہے تو حسنِ نظر یہ ہو
ہو درد و غم کسی کا بھی، اپنا دکھائی دے

حیرت زدہ چلے گئے، حیرت یہ رہ گئی
کہ وقت کیوں ہمیشہ سرکتا دکھائی دے

مل جائے وہ نظر، یہی لگنے لگے زرّہ
اب تک میری نظر کو یہ دنیا دکھائی دے


والسلام
 
مکرمی زبیرؔ صاحب، آداب!
ماشاءاللہ اچھے مضامین باندھے ہیں۔ ایک آدھ مقام پر آپ سے کچھ چوک ہوئی ہے۔

ہر کچھ نہیں اچھا ہے جو اچھا دکھائی دے
کائی ہمیشہ دور سے سبزہ دکھائی دے
ہر کچھ؟؟؟ سب کچھ کہنے میں کیا مانع ہے بھئی؟ :)
دوسرے یہ کہ ’’ہر کچھ نہیں اچھا ہے‘‘ میں ’’ہے‘‘ زائد، بلکہ بے محل ہے۔ اصل میں تو شعر کے مضمون کے حساب سے یہاں ’’ہوتا‘‘ کا مقام ہے۔

میں تب کہوں گا "دیکھ رہا ہوں میں آئینہ"
خامی بھی میری عکس کے ہمراہ دکھائی دے
دوسرا مصرعہ بحر سے خارج ہے۔ ’’ہمراہ‘‘ کی ہ تقطیع میں نہیں آرہی۔ یہ حرفِ صحیح ہے، جس کو شمار کرنا لازم ہے۔ مزید یہ کہ پہلے مصرعے ’’تب‘‘ کلمۂ شرط ہے ۔۔۔ سو دوسرے مصرعے میں ’’جب‘‘ کے ذریعے اس کی وضاحت کرنا مستحسن ہوگا۔

چہرے پہ چہرہ رکھ کے گماں آپ کو یہ ہے
باقی ہر ایک جیسا ہے ویسا دکھائی دے
یہاں پہلے مصرعے میں گمان کی بجائے شاید خواہش یا ارمان زیادہ برمحل ہوں گے۔
چہرے پہ چہرہ رکھ کے ہے خواہش یہ آپ کی!
باقی ہر ایک ۔۔۔ الخ

حیرت زدہ چلے گئے، حیرت یہ رہ گئی
کہ وقت کیوں ہمیشہ سرکتا دکھائی دے
دوسرا مصرعہ وزن میں نہیں۔ آپ ’’کہ‘‘ کو دوحرفی باندھ رہے ہیں، جو درست نہیں۔

مل جائے وہ نظر، یہی لگنے لگے زرّہ
اب تک میری نظر کو یہ دنیا دکھائی دے
مفہوم واضح نہیں ہے۔ علاوہ ازیں، مصرعہ ثانی میں ’’میری‘‘ کی بجائے ’’مری‘‘ کہیں، ورنہ مصرعہ وزن میں پورا نہیں ہوگا۔

دعاگو،
راحلؔ
 

زبیر صدیقی

محفلین
جناب محمّد احسن سمیع :راحل: احسن سمیع :راحل: صاحب؛ نوازش اور شکریہ
  1. مطلع میں ٹائپ-چوک ہو گئی تھی۔ 'ہے' کی جگہ 'ہو' تھا۔ آپ نے صحیح نشاندی کی۔ میں نے تبدیل کر دیا ہے۔
  2. آئینہ والا اور حیرت والا شعر بھی حسب ہدایت تبدیل کر دیا ہے۔
  3. آخری شعر میں بھی غلطی ہو گئی کی۔ یہ مری ہی تھا۔ معذرت۔ اس شعر کی نثر یہ ہے کہ "ابھی میری نظر کو یہ دنیا، 'دنیا' دکھائی دے رہی ہے، دعا ہے کہ مجھے 'وہ' نظر مل جائے کہ یہ دنیا 'ذرہ' دکھائی دے۔ امید ہے کے واضح ہو گیا ہو گا۔
  4. تصیح کے ساتھ غزل لکھتا ہوں۔ ذرا دوبارہ دیکھئے۔

سب کچھ نہیں اچھا ہو جو اچھا دکھائی دے
کائی ہمیشہ دور سے سبزہ دکھائی دے

میں تب کہوں گا دیکھ رہا ہوں میں آئینہ ۔۔۔یا پھر| میں تب کہوں گا دیکھ رہا ہوں میں آئینہ
خامی بھی جبکہ نقش سے یکجا دکھائی دے ۔۔۔۔۔| جب عکس اور نقص کا ناتا دکھائی دے

چہرے پہ چہرہ رکھ کے یہ کیوں چاہتے ہیں آپ
باقی ہر ایک جیسا ہے ویسا دکھائی دے

خود سے بھی دوسروں سے بھی سچ کہہ سکو اگر
پھر یک بیک یہ زندگی سادہ دکھائی دے

چشم و نظر اگر ہے تو حسنِ نظر یہ ہو
ہو درد و غم کسی کا بھی، اپنا دکھائی دے

حیرت زدہ چلے گئے، حیرت یہ رہ گئی ۔۔۔ یا پھر | حیرت زدہ چلے گئے، حیرت یہ رہ گئی
کیوں وقت یہ ہمیشہ سرکتا دکھائی دے ۔۔۔۔۔ | ہر دم ہی کیوں یہ وقت سرکتا دکھائی دے

مل جائے وہ نظر، یہی لگنے لگے ذرّہ
اب تک مری نظر کو یہ دنیا دکھائی دے

والسلام
 

زبیر صدیقی

محفلین
السلام علیکم
مطلع یوں بھی کہ سکتے ہیں
لازم نہیں اچھا ہو جو اچھا دکھائی دے​
بہت شکریہ بدرالقادری بھائی۔ یہ یقیناً بہت ہی اچھی تجویز ہے اور بہت خوبصورت مصرعہ ہے جو کہ میرے قد سے بہت بڑا ہے۔ کاش میں یہ کہہ سکتا۔
 
بہت شکریہ بدرالقادری بھائی۔ یہ یقیناً بہت ہی اچھی تجویز ہے اور بہت خوبصورت مصرعہ ہے جو کہ میرے قد سے بہت بڑا ہے۔ کاش میں یہ کہہ سکتا۔
نہیں نہیں زبیر صاحب بالکل آپ کا مصرعہ ہے۔
یہ مصرعہ اُس وجد و حال کی عطا ہے جو آپ غزل اور نایاب صوفیانہ طرظِ بیان نے عنایت فرمایا تھا۔
 

الف عین

لائبریرین
اس بحر پر شاید قدرت کی کمی ہے۔ یہ دو ملتی جلتی بحریں ہیں۔
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن/فاعلات ( دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی)
اور
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ( ہی بس کہ ہر اک آن کے اشارے میں نشاں اور)
راحل میاں نے بھی اس پر غور نہیں کیا۔ بدر القادری کا مجوزہ مصرع بھی دوسری بحر میں ہے جب کہ اس غزل کی بحر پہلی والی ہے، یعنی مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن۔ مطلع کا پہلا مصرع اس بحر میں نہیں۔ ہاں، اچھا اگر بغیر تشدید کے بولا جائے تو آ سکتا ہے۔ بدر کا مصرعہ بہتر ہے، اسے یوں کہا جائے
لازم نہیں جو اچھا ہے، اچھا دکھائی دے
( لازم نہیں اچھا ہے جو اچھا دکھائی دے۔۔۔. مفعول مفاعیل مفاعیل فاعلن میں تقطیع ہو رہا ہے، یہ بھی دوسری بحر میں بھی مکمل درست نہیں )
اگرچہ اس کے پہلے 'اچھا' کے الف کا اسقاط اتنا اچھا نہیں
 

الف عین

لائبریرین
میں تب کہوں گا دیکھ رہا ہوں میں آئینہ ۔۔۔یا پھر| میں تب کہوں گا دیکھ رہا ہوں میں آئینہ
خامی بھی جبکہ نقش سے یکجا دکھائی دے ۔۔۔۔۔| جب عکس اور نقص کا ناتا دکھائی دے
.. پہلے مصرع کا متبادل بھی وہی مصرع ہے! دوسرے مصرعے کا پہلا متبادل بہتر لگ رہا ہے

چہرے پہ چہرہ رکھ کے یہ کیوں چاہتے ہیں آپ
باقی ہر ایک جیسا ہے ویسا دکھائی دے
... درست

خود سے بھی دوسروں سے بھی سچ کہہ سکو اگر
پھر یک بیک یہ زندگی سادہ دکھائی دے
... اولی میں 'اور' کی کمی ہے، ایک تجویز
سچ کہہ سکو جو خود سے بھی اور دوسروں سے بھی
دوسرے مصرعے میں زندگی کی ی کا اسقاط روانی کو متاثر کرتا ہے
اگر اس جگہ حیات لاؤ تو بہتر ہے، یعنی
پھر/ تب یک بیک حیات یہ سادہ.....

چشم و نظر اگر ہے تو حسنِ نظر یہ ہو
ہو درد و غم کسی کا بھی، اپنا دکھائی دے
... میں یہ شعر کہتا تو یوں کہتا شاید
چشم و نظر اگر ہے تو حسنِ نظر بھی ہو
جو درد و غم کسی کا ہو، اپنا....
ویسے شعر میں کوئی اور خامی نہیں

حیرت زدہ چلے گئے، حیرت یہ رہ گئی ۔۔۔ یا پھر | حیرت زدہ چلے گئے، حیرت یہ رہ گئی
کیوں وقت یہ ہمیشہ سرکتا دکھائی دے ۔۔۔۔۔ | ہر دم ہی کیوں یہ وقت سرکتا دکھائی دے
.. ٹھیک، پہلا متبادل بہتر ہے

مل جائے وہ نظر، یہی لگنے لگے ذرّہ
اب تک مری نظر کو یہ دنیا دکھائی دے
... پہلے مصرع میں وہی مطلع والی بات ہے کہ بعد کا ٹکڑا دوسری بحر میں آ گیا ہے۔ یا یوں کہوں کہ ذرہ، ذرا کی طرح بغیر شد کے تقطیع ہو رہا ہے،
ذرّہ دکھائی دینے لگے، وہ نظر ملے
شاید بہتر ہو۔
دوسرے مصرعے میں 'یہ' کہ بہ نسبت 'جو' مجھے بہتر لگ رہا ہے
 

زبیر صدیقی

محفلین
محترم استاد ۔ الف عین صاحب

آپ کی ذرہ نوازی ہے۔ آج تو آپ نے عید کر دی ہے (کہاں میں اور کہاں یہ مقام اللہ اللہ :bashful: )۔ بہت شکریہ۔ تصیح شدہ غزل کچھ یوں ہے

سب کچھ نہیں اچھا ہو جو اچھا دکھائی دے
کائی ہمیشہ دور سے سبزہ دکھائی دے

میں تب کہوں گا دیکھ رہا ہوں میں آئینہ
خامی بھی جب کہ نقش سے یکجا دکھائی دے

چہرے پہ چہرہ رکھ کے یہ کیوں چاہتے ہیں آپ
باقی ہر ایک جیسا ہے ویسا دکھائی دے

سچ کہہ سکو جو خود سے بھی اور دوسروں سے بھی
پھر یک بیک حیات یہ سادہ دکھائی دے

چشم و نظر اگر ہے تو حسنِ نظر بھی ہو
جو درد و غم کسی کا ہو، اپنا دکھائی دے

حیرت زدہ چلے گئے، حیرت یہ رہ گئی
کیوں وقت یہ ہمیشہ سرکتا دکھائی دے

مل جائے وہ نظر کہ یہ لگنے لگے ذرّہ
اب تک مری نظر کو جو دنیا دکھائی دے

والسلام
 

الف عین

لائبریرین
مطلع اور آخری شعر کے پہلے مصرعے اب بھی غلط بحر میں ہیں، شاید میری بات واضح نہیں ہو سکی۔ میرے مشورے تو تھے
لازم نہیں جو اچھا ہے، اچھا دکھائی دے
ذرّہ دکھائی دینے لگے، وہ نظر ملے
 

زبیر صدیقی

محفلین
مطلع اور آخری شعر کے پہلے مصرعے اب بھی غلط بحر میں ہیں، شاید میری بات واضح نہیں ہو سکی۔ میرے مشورے تو تھے
لازم نہیں جو اچھا ہے، اچھا دکھائی دے
ذرّہ دکھائی دینے لگے، وہ نظر ملے

السلام علیکم -
جی بہتر۔ ان کو ایسے ہی کر دوں گا۔ دوبارہ نشاندہی کا شکریہ۔ میرے خیال میں غزل دوبارہ بھیجنے کی ضرورت تو نہیں؟
 
السلام علیکم -
جی بہتر۔ ان کو ایسے ہی کر دوں گا۔ دوبارہ نشاندہی کا شکریہ۔ میرے خیال میں غزل دوبارہ بھیجنے کی ضرورت تو نہیں؟
غزل کی فائنل اصلاح شدہ صورت بھی اسی لڑی میں لگادیجیے اور داد سمیٹیے۔
 

زبیر صدیقی

محفلین
غزل کی فائنل ہیئت بھی اسی لڑی میں لگادیجیے اور داد سمیٹیے۔

لازم نہیں جو اچھا ہے، اچھا دکھائی دے
کائی ہمیشہ دور سے سبزہ دکھائی دے

میں تب کہوں گا دیکھ رہا ہوں میں آئینہ
خامی بھی جب کہ نقش سے یکجا دکھائی دے

چہرے پہ چہرہ رکھ کے یہ کیوں چاہتے ہیں آپ
باقی ہر ایک جیسا ہے ویسا دکھائی دے

سچ کہہ سکو جو خود سے بھی اور دوسروں سے بھی
پھر یک بیک حیات یہ سادہ دکھائی دے

چشم و نظر اگر ہے تو حسنِ نظر بھی ہو
جو درد و غم کسی کا ہو، اپنا دکھائی دے

حیرت زدہ چلے گئے، حیرت یہ رہ گئی
کیوں وقت یہ ہمیشہ سرکتا دکھائی دے

ذرّہ دکھائی دینے لگے، وہ نظر ملے
اب تک مری نظر کو جو دنیا دکھائی دے

تمام احباب کا تہہ دل سے شکریہ۔
 
Top