سید عاطف علی

لائبریرین
نہ صرف یہ کہ ویکسین کو غیرمسلموں کی سازش قرار دینا نئی بات نہیں بلکہ یہ پاکستان اور سی آئی اے کے بن لادن آپریشن تک بھی محدود نہیں بلکہ کافی پرانی روایت ہے۔
ارے بھائی یہ تیسرے عوامی درجے کی باتیں ہیں ۔جیسے شام کے چھوٹے اخبار کی خبریں ہوتی ہیں ۔ بقول شخصے پاکستان کے شام کے اخبار پڑھیں تو لگتا ہے کہ پاکستان اگلی صبح تک ہی چلے گا۔
آپ یہ بتائیں کہ کیا پولیو کی ٹیموں کے علاوہ کسی ویکسین کی ٹیم یا ہسپتال پر کوئی تشدد کا واقعہ پیش آیا جس کا پولیو والی ٹیموں کے متعدد واقعات سے مقابلہ ہو ؟ کب سے دوسرے امراض کی ویکسین بچوں کو لگائی جارہی ہے ۔ میرے بچپن میں چھے بیماریوں کے اکثر ٹیکے لگا کرتے تھے دو سال کی عمر تک ۔ اب تو شاید پانچ سال یا زیادہ عمر تک لگتے ہیں ۔۔۔ لیکن ایسے واقعات تو نہ کبھی دیکھے نہ سنے۔
ہمارے ایک رشتہ دار انہی واقعات میں چہرے پر گولی کھا چکے ہیں ۔
 

سین خے

محفلین
پولیو وائرس سے پاکستان میں 100 افراد شکار، سنچری مکمل
شبیر حسین جمع۔ء 29 نومبر 2019
1898731-POLIOWEB-1574976689-420-640x480.jpg

پختونخوا کے 12 اضلاع و دیگر علاقوں میں 66 متاثر، لاہور، جہلم میں 5 کیسز رجسٹرڈ فوٹو: فائل


اسلام آباد: پولیو وائرس نے پاکستان میں رواں برس 100 افرادکا شکارکر کے سنچری مکمل کرلی۔

ملک بھر میں اب تک پولیو ٹائپ ون اور تھری کے91 جبکہ پولیو ٹائپ ٹوکے 9 کیسز سامنے آچکے ہیں۔ انسداد پولیو پروگرام کے مطابق رواں برس ملک بھرکے کل28 اضلاع میں پولیو ٹائپ ون اور تھری کے اب تک91 کیسز سامنے آ چکے ہیں ۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے 12 اضلاع، بنوں، ہنگو، ڈی آئی خان، شانگلہ، طورغر، لکی مروت، چارسدہ، باجوڑ، خیبر ، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور ٹانک میں پولیو کے کل 66 کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سے محض بنو ں میں پولیو کے 24 کیسز رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔

صوبہ بلوچستان کے4 اضلاع، جعفر آباد، قلعہ عبداللہ،کوئٹہ و ہرنائی میں7 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

صوبہ پنجاب کے2 اضلاع، لاہور اور جہلم میں 5 کیسز رجسٹرڈ ہوئی ہیں جبکہ صوبہ سندھ کے10 اضلاع لیاری ٹاؤن،گلشن اقبال،اورنگی ٹاون، لاڑکانہ، حیدرآباد، جامشورو، سجاول ،جمشید ٹاون، کیماری ٹاون اور شہید بینظیر آباد میں پولیو کے13 کیسز سامنے آچکی ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ رواں سال کے دوران پولیو ٹائپ ٹوکے9کیسز بھی سامنے آئی ہیں حالانکہ یہ وائرس پاکستان میں1999 میں ختم ہوچکا تھا جبکہ عالمی ادارہ صحت نے2016 میں دنیا بھر سے اس پولیو وائرس کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔
سین خے

جاسم بھائی کیا پچھلے سالوں کے سٹیٹس مل سکتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ پولیو کیسز میں اضافہ ہوا ہے یا کمی ہوئی ہے۔ ویسے یہ اضافہ ہی محسوس ہو رہا ہے۔

ٹائپ ٹو کے دوبارہ کیسز سامنے آنا انتہائی افسوسناک ہے۔ یہ مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔ ہونا تو یہی چاہئے کہ انکوائری کی جائے اور متعلقہ افسران کا ٹرائل ہو۔ لیکن لگتا نہیں ہے کہ ایسا ہوگا۔

اس سارے نظام کو از سر نو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک مجرمانہ غفلت اور کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوگا تو چاہے عوام کے خدشات جتنے بھی دور کرنے کی کوشش کر لی جائے پولیو کا خاتمہ واقعی ممکن نہیں سکے گا۔
 

فاخر رضا

محفلین
میں جھوٹ نہیں بولتا اور یہ کہانی نہیں حقیقت ہے. کوئی بھی میرے پاس آکر دیکھ سکتا ہے
میرے آئی سی یو میں ایک تیرہ سال کا بچہ داخل ہے. وہ وینٹیلیٹر پر ہمارے پاس آپریشن ٹھیٹر سے شفٹ ہوا. بیماری، ٹائیفائیڈ بگڑ گیا اور آنت میں کئی جگہ سوراخ ہوگئے. ایک آپریشن ہوا پھر دوسرا. اج اللہ کا شکر ہے بہتر ہے. مشین سے باہر آگیا ہے مگر آنت کے دو حصے پیٹ سے باہر نکال دیئے گئے ہیں. خوراک ابھی خون کے ذریعے ڈرپ لگا کر دے رہے ہیں.
ہر سال پاکستان میں ہزاروں ایسے کیس ہوتے ہیں اور بیشمار بچے مر جاتے ہیں.
علاج اگر بروقت بھی کیا جائے تو کم از کم پندرہ ہزار کا خرچہ ہے اور اگر خطرناک قسم کا مرض ہو تو تقریباً ایک لاکھ اور اگر آپریشن کی نوبت آجائے تو کچھ نہ پوچھیے.
بچاؤ ممکن ہے ایک انجیکشن کے ذریعے اور وہ بھی فری لگایا جارہا ہے
جب قوم عقل کے پیچھے لٹھ لے کر پڑی ہو تو کوئی حال نہیں ہے.
اس میں گورنمنٹ کا failure یہ ہے کہ وہ صاف پانی جس میں گٹر کے پانی کی ملاوٹ نہ ہو فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے. ہم چھوٹے تھے تو نلکے سے منہ لگا کر پانی پیتے تھے اب ایسا سوچ بھی نہیں سکتے. ہر ماہ سترہ سو روپے پینے کے پانی کا بل دیتے ہیں. میں نے اپنے تین بچوں کو انجیکشن لگوائے ہیں.
یہی کہانی ہر ویکسین کی ہے اگر کہیں گے تو پولیو کی بھی سنا سکتا ہوں اپنے گھر کی
کیا پولیو ہونے کے بعد انسان میں چاہے مرد ہو یا عورت تولید نسل کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے. خدا سے توبہ کریں کہ کسی کے گھر میں کوئی پولیو کی بچی یا بچہ ہو. تولید نسل تو دور کی بات وہ بیچارے چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتے
ایک argument یہ ہوتا ہے کہ اگر ملیریا ہوجائے تو دوا کھالیں وہ ٹھیک ہوجائے گا، یہ صورت حال پولیو کی نہیں ہے. جسے ہوجاتا ہے اسے ہوجاتا ہے
علاج کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی رعایت دی ہے. کچھ کینسر اور دیگر امراض میں خواتین کی بچہ دانی آپریشن کرکے بکال دی جاتی ہے اور اسی طرح کا ملتا جلتا عمل مردوں میں بھی ہوتا ہے تاکہ کینسر نہ پھیل سکے. اس کے لئے تو تمام لوگ راضی ہیں مگر ایک بے ضرر ویکسین لگوانے کے لئے نہیں ہیں.
ایسے لوگوں کی عقل پر دونوں ہاتھوں سے ماتم کرنا چاہیے
وما علینا الا البلاغ
 

جان

محفلین
میں جھوٹ نہیں بولتا اور یہ کہانی نہیں حقیقت ہے. کوئی بھی میرے پاس آکر دیکھ سکتا ہے
میرے آئی سی یو میں ایک تیرہ سال کا بچہ داخل ہے. وہ وینٹیلیٹر پر ہمارے پاس آپریشن ٹھیٹر سے شفٹ ہوا. بیماری، ٹائیفائیڈ بگڑ گیا اور آنت میں کئی جگہ سوراخ ہوگئے. ایک آپریشن ہوا پھر دوسرا. اج اللہ کا شکر ہے بہتر ہے. مشین سے باہر آگیا ہے مگر آنت کے دو حصے پیٹ سے باہر نکال دیئے گئے ہیں. خوراک ابھی خون کے ذریعے ڈرپ لگا کر دے رہے ہیں.
ہر سال پاکستان میں ہزاروں ایسے کیس ہوتے ہیں اور بیشمار بچے مر جاتے ہیں.
علاج اگر بروقت بھی کیا جائے تو کم از کم پندرہ ہزار کا خرچہ ہے اور اگر خطرناک قسم کا مرض ہو تو تقریباً ایک لاکھ اور اگر آپریشن کی نوبت آجائے تو کچھ نہ پوچھیے.
بچاؤ ممکن ہے ایک انجیکشن کے ذریعے اور وہ بھی فری لگایا جارہا ہے
جب قوم عقل کے پیچھے لٹھ لے کر پڑی ہو تو کوئی حال نہیں ہے.
اس میں گورنمنٹ کا failure یہ ہے کہ وہ صاف پانی جس میں گٹر کے پانی کی ملاوٹ نہ ہو فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے. ہم چھوٹے تھے تو نلکے سے منہ لگا کر پانی پیتے تھے اب ایسا سوچ بھی نہیں سکتے. ہر ماہ سترہ سو روپے پینے کے پانی کا بل دیتے ہیں. میں نے اپنے تین بچوں کو انجیکشن لگوائے ہیں.
یہی کہانی ہر ویکسین کی ہے اگر کہیں گے تو پولیو کی بھی سنا سکتا ہوں اپنے گھر کی
کیا پولیو ہونے کے بعد انسان میں چاہے مرد ہو یا عورت تولید نسل کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے. خدا سے توبہ کریں کہ کسی کے گھر میں کوئی پولیو کی بچی یا بچہ ہو. تولید نسل تو دور کی بات وہ بیچارے چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتے
ایک argument یہ ہوتا ہے کہ اگر ملیریا ہوجائے تو دوا کھالیں وہ ٹھیک ہوجائے گا، یہ صورت حال پولیو کی نہیں ہے. جسے ہوجاتا ہے اسے ہوجاتا ہے
علاج کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی رعایت دی ہے. کچھ کینسر اور دیگر امراض میں خواتین کی بچہ دانی آپریشن کرکے بکال دی جاتی ہے اور اسی طرح کا ملتا جلتا عمل مردوں میں بھی ہوتا ہے تاکہ کینسر نہ پھیل سکے. اس کے لئے تو تمام لوگ راضی ہیں مگر ایک بے ضرر ویکسین لگوانے کے لئے نہیں ہیں.
ایسے لوگوں کی عقل پر دونوں ہاتھوں سے ماتم کرنا چاہیے
وما علینا الا البلاغ
آپ نے بہت جامع اور زبردست بات کہی۔ جزاک اللہ!
 

جان

محفلین
پاکستانی علماء کی اکثریت نے خود تو اس دنیا میں کوئی مثبت کنٹریبیوشن کی نہیں اور جنہوں نے کی ہے اس کے پیچھے بھی بغض و عناد میں لٹھ لے کے پڑی ہے، ایسا شاید اس لیے ہے کہ اپنے اندر چھپے احساس کمتری کو کم کرنے اور ظاہری برتری کو مینٹین رکھنے کے لیے دوسروں پر اللہ اور شریعت کا نام لے کر کیچڑ اچھالتے رہو، یعنی خود کچھ نہیں کرنا بلکہ جو کرے اس کی بھی ٹانگیں کھینچے رکھو تاکہ اپنی ظاہری 'پھوں پھاں' برقرار رہے۔ پاکستان میں اسلام کو بدنام کرنے اور لوگوں کو دہریت کی طرف راغب کرنے میں ان کا کردار نمایاں ہے، یہ تو کل جب رب کے روبرو حساب دینا پڑے گا تب سمجھ میں آئے گا۔ ابھی فتوے جاری رکھیں لوگوں میں جھوٹ، شدت، بغض اور بدگمانی کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے رکھیں اور ان کی جانوں سے کھیلے رکھیں لیکن یہ قطعی نہ بھولیں کہ آخرت برحق ہے جہاں ان کے اعمال کا ان کو پورا پورا صلہ دیا جائے گا اور یہ میرے رب کا وعدہ ہے۔
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
ایک مفتی یا مجتہد کا کام کسی ویکسین کے بارے میں تحقیقی رپورٹ پیش کرنا نہیں ہے، نہ ہی وہ اس علم میں ماہر ہے. وہ کسی نہ کسی تحقیق کی بنیاد پر فتویٰ یا اجتہاد کرسکتا ہے. ایسے میں وہ خود صرف اصولی بات کرسکتا ہے. مثلاً اگر کوئی دوا یا ویکسین انسان کی تولید کی قوت ختم کردے تو سوائے جان بجانے کی صورت کے اسکا استعمال جائز نہیں. یہ ایک عمومی statement ہوگا نہ کہ پولیو ویکسین کا نام لیکر کوئی فتویٰ
ایسے فتاویٰ کی علمی حیثیت کم ہوتی ہے اور ویسے بھی یہ وقتی قسم کے ہوتے ہیں جیسے ایک زمانے میں لاؤڈ-اسپیکر کے خلاف فتوے آئے تھے. بعد میں عقل آنے پر سب استعمال کرنے لگے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
پولیو کے قطرے آج شروع نہیں ہوئے اور نہ کسی وجہ سے انہیں روکا جائے گا سوائے اسکے کہ دنیا سے پولیو ختم ہو جائے
پولیو کی ویکسین انجکشن کی صورت میں تیس چالیس سال سے موجود تھی ۔ پھر یہ اورَل قطروں کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ کیا سہولت کے پیش نظر ایسا ہوا یا یہ زیادہ مؤثر ہیں ؟
 

فاخر رضا

محفلین
پولیو کی ویکسین انجکشن کی صورت میں تیس چالیس سال سے موجود تھی ۔ پھر یہ اورَل قطروں کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ کیا سہولت کے پیش نظر ایسا ہوا یا یہ زیادہ مؤثر ہیں ؟
پولیو کے اورل قطرے کم از کم بیس سال سے موجود ہونگے۔ اصل تاریخ اجرا بھی ڈھونڈی جاسکتی ہے۔
ضرورت ہمیشہ مریض کی آسانی دیکھ کر پیدا کی جاتی ہے۔ کون ماں اپنے بچے کو رلا کر خوش ہوتی ہے۔ سوئی کا خوف بڑے بڑوں کو ہوتا ہے۔
جب قطرے پلانا بھی موثر ہو تو پھر کیوں کسی ماں کو مجبور کیا جائے کہ وہ ٹیکہ لگوائے۔
دوا کی کمپنیاں آپس میں مقابلے پر ہوتی ہیں کہ دوا کو اورل فارم میں پلانے کا انتظام کیا جائے
امید ہے اب یہ کنفیوژن دور ہو گئی ہوگی
 

محمد سعد

محفلین
پولیو کی ویکسین انجکشن کی صورت میں تیس چالیس سال سے موجود تھی ۔ پھر یہ اورَل قطروں کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ کیا سہولت کے پیش نظر ایسا ہوا یا یہ زیادہ مؤثر ہیں ؟
سہولت بنیادی وجہ نہیں ہے۔ مراسلہ نمبر 7 میں کچھ تفصیل موجود ہے۔
OPV Oral Polio Vaccine:

یہ ویکسین منہ سے قطرے پلانے والی ویکسین ہے۔ یہ البرٹ سیبن (Albert Sabin) کی بنائی زندہ ویکسین (Live vaccine) ہے۔ او پی وی ویکسین کا عمل (action) دو شاخہ ہے۔

او پی وی مختصر عرصے (Short term) کے لئے میوکوزل قوت مدافعت پیدا کرتی ہے اور طویل مدتی (Long term) ہیومرل قوت مدافعت پیدا کرتی ہے۔ او پی وی ہیومرل قوت مدافعت کے ذریعے تینوں پولیو وائرس کے سیروٹائپس (serotypes) کے خلاف خون میں تحفظ فراہم کرتی ہے جس کی بدولت انفیکشن کی صورت میں وائرس اعصابی نظام پر حملہ آور ہونے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ میوکوزل قوت مدافعت کی وجہ سے آنتوں میں وائرس تعداد بڑھانے (replication) سے رک جاتا ہے۔ چونکہ وائرس آنتوں میں ریپلیکیٹ نہیں ہو پاتا ہے، اس لئے وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں فضلے (Feces) کے ذریعے منتقل نہیں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پولیو وبا (endemic) رہا ہے، وہاں او پی وی کا استعمال کیا جاتا رہا ہے تاکہ آنتوں کی قوت مدافعت سے استفادہ کرتے ہوئے اس کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔ تمام ممالک جہاں سے پولیو ختم کیا جا چکا ہے، وہاں او پی وی کے ذریعے ہی ممکن ہو سکا ہے۔

او پی وی ویکسین میں موجود وائرس کو وہی راستہ (Route) دیا جاتا ہے جو کہ حقیقت میں وائرس کا روٹ ہے تاکہ ویکسین ان تمام مقامات (sites) پر جہاں وائرس ریپلیکیٹ ہوتا ہے، قوت مدافعت کو بڑھا سکے۔

او پی وی پیدائش کے فوری بعد بچے کو جب دی جاتی ہے تو نتیجے میں جسم میں اینٹی باڈیز کی سطح بڑھ جاتی ہے۔ اس خوراک (dose) اور اس کے بعد کی خوراکوں (doses) کی وجہ سے سیروکنورژن ریٹسSeroconversion (the development of antibodies in the blood in response to an infection or immunization) بڑھ جاتے ہیں۔

او پی وی میں پولیو وائرس کی تینوں سیروٹائپس کی زندہ لیکن کمزور سٹرینز (live attenuated strains) موجود ہوتی ہیں۔ یہ سٹرینز اس بنیاد پر منتخب کی جاتی ہیں کہ یہ پولیو کے انفیکشن کے خلاف مطلوبہ مدافعتی رد عمل جسم میں ظاہر کر سکیں لیکن ان میں اتنی طاقت نہ ہو کہ یہ اعصابی نظام (nervous system) پر حملہ آور ہو سکیں۔

اسی لئے تین یا تین سے زائد خوراکیں او پی وی ویکسین کی دی جاتی ہیں تاکہ مطلوبہ سیروکنورژن کی سطح جسم میں حاصل ہو جائے۔
 

سین خے

محفلین
پولیو کی ویکسین انجکشن کی صورت میں تیس چالیس سال سے موجود تھی ۔ پھر یہ اورَل قطروں کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ کیا سہولت کے پیش نظر ایسا ہوا یا یہ زیادہ مؤثر ہیں ؟

اورل قطرے اصل میں opv ویکسین ہے۔ یہ لائیو ویکسین ہے۔ اس میں وائرس زندہ استعمال کیا جاتا لیکن یہ کمزور وائرس ہوتا ہے۔ چونکہ پولیو وائرس کا روٹ منہ کے ذریعے ہے تو متعلقہ قوت مدافعت حاصل کرنے کے لئے اسے وہی راستہ دیا جاتا ہے۔

پولیو وائرس کا اصل ٹارگٹ انسانی آنتیں ہوتی ہیں ۔ یہ آنتوں میں پہنچ کر لاکھوں کی تعداد میں اپنی کاپی بنا لیتا ہے۔ opv کے ذریعے mucosal immunity حاصل ہو جاتی ہے جبکہ ipv یعنی انجیکشن والی ویکسین سے نہیں حاصل ہوتی ہے۔ ipv میں مردہ وائرس استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ قطروں کی صورت میں نہیں دی جا سکتی ہے۔

اس پر تفصیلی طور پر شروع کے مراسلوں میں لکھا ہے۔ مراسلہ نمبر 4 سے لے کر مراسلہ نمبر 10 تک opv اور ipv کے مابین فرق اور ان دو سے پیدا ہونے والی قوت مدافعت کے بارے میں لکھا ہوا ہے۔
 

سین خے

محفلین
میں جھوٹ نہیں بولتا اور یہ کہانی نہیں حقیقت ہے. کوئی بھی میرے پاس آکر دیکھ سکتا ہے
میرے آئی سی یو میں ایک تیرہ سال کا بچہ داخل ہے. وہ وینٹیلیٹر پر ہمارے پاس آپریشن ٹھیٹر سے شفٹ ہوا. بیماری، ٹائیفائیڈ بگڑ گیا اور آنت میں کئی جگہ سوراخ ہوگئے. ایک آپریشن ہوا پھر دوسرا. اج اللہ کا شکر ہے بہتر ہے. مشین سے باہر آگیا ہے مگر آنت کے دو حصے پیٹ سے باہر نکال دیئے گئے ہیں. خوراک ابھی خون کے ذریعے ڈرپ لگا کر دے رہے ہیں.
ہر سال پاکستان میں ہزاروں ایسے کیس ہوتے ہیں اور بیشمار بچے مر جاتے ہیں.
علاج اگر بروقت بھی کیا جائے تو کم از کم پندرہ ہزار کا خرچہ ہے اور اگر خطرناک قسم کا مرض ہو تو تقریباً ایک لاکھ اور اگر آپریشن کی نوبت آجائے تو کچھ نہ پوچھیے.
بچاؤ ممکن ہے ایک انجیکشن کے ذریعے اور وہ بھی فری لگایا جارہا ہے
جب قوم عقل کے پیچھے لٹھ لے کر پڑی ہو تو کوئی حال نہیں ہے.
اس میں گورنمنٹ کا failure یہ ہے کہ وہ صاف پانی جس میں گٹر کے پانی کی ملاوٹ نہ ہو فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے. ہم چھوٹے تھے تو نلکے سے منہ لگا کر پانی پیتے تھے اب ایسا سوچ بھی نہیں سکتے. ہر ماہ سترہ سو روپے پینے کے پانی کا بل دیتے ہیں. میں نے اپنے تین بچوں کو انجیکشن لگوائے ہیں.
یہی کہانی ہر ویکسین کی ہے اگر کہیں گے تو پولیو کی بھی سنا سکتا ہوں اپنے گھر کی
کیا پولیو ہونے کے بعد انسان میں چاہے مرد ہو یا عورت تولید نسل کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے. خدا سے توبہ کریں کہ کسی کے گھر میں کوئی پولیو کی بچی یا بچہ ہو. تولید نسل تو دور کی بات وہ بیچارے چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتے
ایک argument یہ ہوتا ہے کہ اگر ملیریا ہوجائے تو دوا کھالیں وہ ٹھیک ہوجائے گا، یہ صورت حال پولیو کی نہیں ہے. جسے ہوجاتا ہے اسے ہوجاتا ہے
علاج کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی رعایت دی ہے. کچھ کینسر اور دیگر امراض میں خواتین کی بچہ دانی آپریشن کرکے بکال دی جاتی ہے اور اسی طرح کا ملتا جلتا عمل مردوں میں بھی ہوتا ہے تاکہ کینسر نہ پھیل سکے. اس کے لئے تو تمام لوگ راضی ہیں مگر ایک بے ضرر ویکسین لگوانے کے لئے نہیں ہیں.
ایسے لوگوں کی عقل پر دونوں ہاتھوں سے ماتم کرنا چاہیے
وما علینا الا البلاغ

جھوٹ کی کیا بات ہے فاخر بھائی۔ ایک دن انسان ہسپتال چلا جائے زندگی اور دنیا کی حقیقت بڑے بھیانک طریقے سے سمجھ آجاتی ہے۔

اور صفائی کی طرف آپ نے بالکل ٹھیک اشارہ کیا ہے۔ ہمارے یہاں چونکہ نکاسی کا نظام اتنا ابتر ہے وائرس چونکہ باآسانی حملہ آور ہو سکتا ہے اور چونکہ پولیو کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا ہے اسی لئے ہمارے یہاں سے آج تک opv ختم نہیں کی جا سکی ہے۔

باہر کے ممالک ipv کی طرف اسی لئے چلے گئے کیونکہ ان کے یہاں وائرس کی گندگی کے ذریعے انسانوں تک رسائی نہیں ہے اور ان کے یہاں پولیو کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔ ipv mucosal immunity چونکہ پیدا نہیں کر سکتی ہے تو ان کے یہاں ہیومرل قوت مدافعت بھی وائرس سے بچاؤ کے لئے کافی سمجھی جاتی ہے۔
 
آخری تدوین:

سین خے

محفلین
opv اور ipv پچاس کی دہائی میں بنائی گئی تھیں۔ ان کے بنانے والے سائنسدان البرٹ سیبن اور جونس سالک ہیں۔ جونس سالک کی مردوہ وائرس کی ویکسین سے البرٹ سیبن اختلاف کرتے تھے کہ طویل مدتی قوت مدافعت اس سے حاصل نہیں کی جا سکتی ہے۔ سیبن کی زندہ وائرس کی ویکسین کا ٹرائل سالک کی ویکسین کے ٹرائل کے بعد ہوا تھا۔

ان دونوں سائنسدانوں نے کبھی اپنی ویکسین پیٹنٹ نہیں کروائیں۔ انھوں نے یہ ویکسین انسانیت کے نام تحفہ کر دی تھیں۔

ان کی تفصیلی تاریخ یہاں پڑھی جا سکتی ہے۔

NMAH | Polio: Two Vaccines
 

جاسم محمد

محفلین
پولیو کے اورل قطرے کم از کم بیس سال سے موجود ہونگے۔ اصل تاریخ اجرا بھی ڈھونڈی جاسکتی ہے۔
ضرورت ہمیشہ مریض کی آسانی دیکھ کر پیدا کی جاتی ہے۔ کون ماں اپنے بچے کو رلا کر خوش ہوتی ہے۔ سوئی کا خوف بڑے بڑوں کو ہوتا ہے۔
جب قطرے پلانا بھی موثر ہو تو پھر کیوں کسی ماں کو مجبور کیا جائے کہ وہ ٹیکہ لگوائے۔
دوا کی کمپنیاں آپس میں مقابلے پر ہوتی ہیں کہ دوا کو اورل فارم میں پلانے کا انتظام کیا جائے
امید ہے اب یہ کنفیوژن دور ہو گئی ہوگی
ایک اور اہم وجہ قیمت ہے۔ مغربی ممالک سنہ 2000 سے پولیو کیلئے انجکشن پر منتقل ہو چکے ہیں۔ کیونکہ وہ اس کی قیمت ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں یہ سب ممکن نہیں ہے۔
 

سین خے

محفلین
ملائیشیا کی تیس سالہ تاریخ میں پہلا پولیو وائرس کا کیس سامنے آیا ہے۔ ملائیشیا کو 1992 پولیو سے آزاد قرار دیا گیا تھا۔

ستمبر 2019 میں فلپائن میں بھی پولیو کا آؤٹ بریک ہوا ہے۔ لیب ٹیسٹس سے معلوم ہوا ہے کہ ملائیشیا کے پولیو وائرس کا جنیاتی تعلق فلپائن کے پولیو وائرس سے ہے۔

حالیہ سالوں میں ملائیشیا میں بھی ویکسین کے خلاف منظم تحریک دیکھنے میں آئی ہے۔ بحث وہی حلال اور حرام کی ہے۔ ملائیشیا میں لوگ پولیو ویکسین کے ساتھ ایم ایم آر ویکسین کروانے سے بھی اب کترانے لگے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں inoculation rate اب 95 فیصد سے 89 فیصد پر آچکا ہے جو کہ ماس پروٹیکشن کے لئے ناکافی ہے۔

WHO, Unicef: Sabah polio outbreak a rare strain, genetically confirmed from Philippines | Malay Mail
 
آخری تدوین:

عباس اعوان

محفلین
اس وقت عالمی منظرنامے پر ملک سموا، اینٹی ویکسی نیشن کے حوالے سے ایک ٹیسٹ کیس کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
بحرالکاہل میں موجود دو جزیروں پر مشتمل ملک سموا(Samoa) میں اس وقت خسرہ وبائی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس کی وجہ ویکسی نیشن کی شرح میں کمی بتائی جا رہی ہے۔ ویکسی نیشن میں کمی کا یہ رجحان اس وقت دیکھنے میں آیا جب 2018 میں خسرہ کی ویکسین دیے جانے کے بعد 2 شیر خوار بچوں کی موت واقع ہو گئی تھی۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ ٹیکہ لگانے والی 2 نرسوں نے ویکسین کو غلط طریقے سے تیار کیا، انہوں نے ویکسین پاؤڈر میں مجوزہ رقیق کنندہ مادہ (Diluent) کی بجائے ایکسپائر شدہ بے حس کر دینے والی دوا (Anaesthetic)کا استعمال کیا۔
سموا میں 9دسمبر 2019تک خسرہ سے 70 اموات واقع ہو چکی ہیں۔ملک کی کل آبادی قریباً 2 لاکھ ہے۔
مزید:
https://www.washingtonpost.com/opin...0d9274-183a-11ea-9110-3b34ce1d92b1_story.html
2019 Samoa measles outbreak - Wikipedia
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
جہاں تک علمائے کرام پر بہتان تراشی کی گئی ہے اس پر بعد میں بات ہوگی۔

البتہ یہ اطمینان ضرور ہوا ہے کہ یہ بندہ اس طبقے کا کارندہ ہے جو جدید دور میں اپنے سوڈو سائنس کا سہارا لے کر علمائے حق کو بدنام کرنے میں مصروف عمل ہے، کیوں کہ عقائد میں شکست کے بعد اب ان کے پاس یہی ایک راستہ بچا ہے۔
 

آصف اثر

معطل
اگر مدیران اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح نہیں نبھاسکتے تو براہِ کرام مستعفی ہوجائے۔
بصورتِ دیگر پورے مراسلے کو حذف کرنے کے بجائے صرف مطلوبہ الفاظ کو حذف کردیا کریں۔ اور وہ بھی ہردو جانب کے۔ محض ایک فریق کو نشانہ بنانا خود ذہنی بچپنے اور تعصب کی دلیل ہے۔
 
Top