بغرض اصلاح : ’ مضطرب روح کو ایک مژدہ ملا‘

فاخر

محفلین
غزل
افتخاررحمانی فاخرؔ
اساتذہ کرام کی خدمت میں

مضطرب روح کو ایک مژدہ ملا
خواب میں ہی سہی اس کا تحفہ ملا

ایک عرصہ ہوا اس کو دیکھا نہیں
وہ سراپا مگر ناز و عشوہ ملا

کج کلا ہی کبھی طرۂ ناز تھی
آج کیوں تندخو رشک بذلہ ملا

مدتوں ڈھونڈتا پھر رہا تھا جسے
بھیڑ میں جگمگاتا وہ چہرہ ملا

اس طرح منتیں میری پوری ہوئیں
ناگہاں عارض و لب کا بوسہ ملا

ناز ہے دولتِ بے بہا پر مجھے
ہجر کی شب مجھے اس کا صد قہ ملا

لذت ِ جام و شیشہ بیاں کیاکروں
اس کے ہونٹوں کا جو جام و مینا ملا

نذر کے واسطے اِس کرم پر اسے
آہ دل میں مگر آہ و گریہ ملا:cry: !
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک عرصہ ہوا اس کو دیکھا نہیں
وہ سراپا مگر ناز و عشوہ ملا
مصرعے اچھی طرح مربوط نہیں ۔(بقول اعجاز بھائی دولختی ہے )
کج کلا ہی کبھی طرۂ ناز تھی
آج کیوں تندخو رشک بذلہ ملا
صفات کسی واضح مضمون پر متحد نہیں لگ رہیں ۔رشک بذلہ کیا معنی ہوا اور کج کلاہی سے تند خوئی کا کیا ربط ہوا ؟
کیا نذر کرتا میں اِس کرم پر اسے؟
یہاں نذر کا تلفظ درست نہیں بندھا۔ یہ نذر ذ ساکن کے ساتھ ہے ۔
ویسے باقی اشعار اچھے ہیں ۔ :)
 

فاخر

محفلین
اچھی خوبصورت غزل ہے کافی دنوں کے بعد نظر آئے ہیں
جزاك الله !
’’خوبصورت غزل ہے‘‘ حوصلہ افزائی کا بہت بہت شکریہ! لیکن اساتذہ کی رائے ماقبل میں دیکھا ہوگا؟ان کی رائے آپ سے مختلف ہے ،علاوہ ازیں الف عین صاحب کا سیدعاطف صاحب کے تبصرہ پر ’’لائک‘‘ کا بٹن بھی دبا ہوا ہے ۔ تاہم اساتذہ کی رائے اور آپ کی محبت سر آنکھوں پر۔ ہمارے لیے یہ سعادت ہے۔
 

فاخر

محفلین
مصرعے اچھی طرح مربوط نہیں ۔(بقول اعجاز بھائی دولختی ہے )

صفات کسی واضح مضمون پر متحد نہیں لگ رہیں ۔رشک بذلہ کیا معنی ہوا اور کج کلاہی سے تند خوئی کا کیا ربط ہوا ؟

یہاں نذر کا تلفظ درست نہیں بندھا۔ یہ نذر ذ ساکن کے ساتھ ہے ۔
ویسے باقی اشعار اچھے ہیں ۔ :)
جی درست فرمایا ۔ کئی مصرعوں میں ربط نہیں ہے ،ربط کی کوشش کرتا ہوں ۔ اور آخری شعر میں ’’نذر‘‘ کا وزن ’’فعل‘‘ ہی ہے ،مبتدی ہونے کی وجہ سے ’’فَعل‘‘ ہوگیا ہے ۔ اس کو ٹھیک کرتا ہوں ۔
 

فاخر

محفلین
نظرثانی کے بعد اساتذہ سخن کی خدمت میں :
الف عین اور @سیدعاطف علی صاحبان


مضطرب روح کو ایک مژدہ ملا
خواب میں ہی سہی اس کا تحفہ ملا

مستقل دیتا تھا نازنیں کو صدا
وہ سراپا مگر ناز و عشوہ ملا

کج کلا ہی کبھی طرۂ ناز تھی
آج کیوں مجھ سے وہ بالمشافہ ملا؟

مدتوں ڈھونڈتا پھر رہا تھا جسے
بھیڑ میں جگمگاتا وہ چہرہ ملا

اس طرح منتیں میری پوری ہوئیں
ناگہاں عارض و لب کا بوسہ ملا

ناز ہے دولتِ بے بہا پر مجھے
ہجر کی شب مجھے اس کا صد قہ ملا

لذت ِ جام و شیشہ بیاں کیاکروں
اس کے ہونٹوں کا جو جام و مینا ملا

نذر کے واسطے اِس کرم پر اسے
کچھ نہ دل میں بجز آہ و گریہ ملا !
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مسلسل غزل لگتی ہے، کیا مبارکباد دی جائے؟
مضطرب روح کو ایک مژدہ ملا
خواب میں ہی سہی اس کا تحفہ ملا
... ربط یہاں بھی مضبوط تو نہیں مگر چل سکتا ہے

ایک عرصہ ہوا اس کو دیکھا نہیں
وہ سراپا مگر ناز و عشوہ ملا
... یہ یا اس کا نیا روپ، دونوں میں یہ غلطی محسوس ہوتی ہے کہ سراپا ناز وغیرہ تھا یا ہے کے ساتھ تو درست ہے لیکن ملا فعل کے ساتھ نہیں۔ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ جب ملا تو سراپا.... تھا میکن بیانیہ کی یہ صورت پہلے مصرع سے ربط نہیں رکھتی۔ کہ کچھ مضمون ایسا ہونا چاہیے تھا کہ ہم تو اسے سادہ مزاج سمجھتے تھے!

کج کلا ہی کبھی طرۂ ناز تھی
آج کیوں تندخو رشک بذلہ ملا
... بات ہو چکی

مدتوں ڈھونڈتا پھر رہا تھا جسے
بھیڑ میں جگمگاتا وہ چہرہ ملا

اس طرح منتیں میری پوری ہوئیں
ناگہاں عارض و لب کا بوسہ ملا
دونوں درست

ناز ہے دولتِ بے بہا پر مجھے
ہجر کی شب مجھے اس کا صد قہ ملا
... کس دولت پر ناز کی بات کر رہے ہیں؟ واضح نہیں

لذت ِ جام و شیشہ بیاں کیاکروں
اس کے ہونٹوں کا جو جام و مینا ملا
... جو جام... میں تنافر کی کیفیت ہے
جب لبوں کا ترا جام...
ایک ممکنہ صورت

نذر کے واسطے اِس کرم پر اسے
آہ دل میں مگر آہ و گریہ ملا یا نئی شکل...
کس کرم پر؟ یہ واضح نہیں
دوسرے مصرعے کی بہتر صورت یوں ہو سکتی ہے
کچھ نہ دل میں بجز آہ و گریہ ملا
 

الف عین

لائبریرین
اا عرصے میں پوری غزل روائز ہو گئی ہے
بس یہی ایک شعع دیکھنے کے لیے باقی ہے
کج کلا ہی کبھی طرۂ ناز تھی
آج کیوں مجھ سے وہ بالمشافہ ملا
پہلے مصرع میں 'جس کی' کے بغیر ربط نہیں بنتا۔
 

فاخر

محفلین
غزل
ایک بار پھر ،کئی مصرعوں میں حذف و ترمیم کے بعد:
الف عین سید عاطف علی

مضطرب روح کو ایک مژدہ ملا
خواب میں ہی سہی اس کا تحفہ ملا

مستقل دیتا تھا نازنیں کو صدا
’’وہ سراپا بصد ناز و عشوہ ملا‘‘ -----------یہ مصرعہ :جناب@محمد خلیل الرحمٰن صاحب کا تجویز کردہ ہے۔

کج کلاہی کبھی طرۂ ناز تھی
کل مجھے وہ مگر بالمشافہ ملا

مدتوں ڈھونڈتا پھر رہا تھا جسے
بھیڑ میں جگمگاتا وہ چہرہ ملا

الغرض منتیں میری پوری ہوئیں
پے بہ پے عارض و لب کا بوسہ ملا

ناز ہے دولتِ بے بہا پر مجھے
ہجر کی شب میں اُس کا جو صدقہ ملا

لذت ِ جام و شیشہ بیاں کیا کروں
اس کے ہونٹوں کا جب جام و شیشہ ملا

نذر کے واسطے اِس کرم پر اسے
’’کچھ نہ پایا بجز آہ و گریہ ملا!‘‘-----(یہ مصرعہ الف عین صاحب کا تجویز کردہ ہے)

کیسی ہے اے خدا یہ مری مفلسی
میرے دامن میں ہی اشک و نالہ ملا

اے دل سوختہ شکر تو کر ادا
رنج سے تو تجھے اب افاقہ ملا
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
شعر نمبر 2، 3 اور 6 پر میرے پرانے کمینٹس دوبارہ دیکھیں
دو نئے اشعار
کیسی ہے اے خدا یہ مری مفلسی
میرے دامن میں ہی اشک و نالہ ملا
.. کیسی کی ی کا اسقاط ناگوار ہے اس کے علاوہ مصرع میں ربط کی کمی ہے

اے دل سوختہ شکر تو کر ادا
رنج سے تو تجھے اب افاقہ ملا
... افاقہ ہوا محاورہ ہے، ملا نہیں
دل سوختہ کی معنویت؟
 

فاخر

محفلین

فاخر

محفلین
شعر نمبر 2، 3 اور 6 پر میرے پرانے کمینٹس دوبارہ دیکھیں
دو نئے اشعار
کیسی ہے اے خدا یہ مری مفلسی
میرے دامن میں ہی اشک و نالہ ملا
.. کیسی کی ی کا اسقاط ناگوار ہے اس کے علاوہ مصرع میں ربط کی کمی ہے

اے دل سوختہ شکر تو کر ادا
رنج سے تو تجھے اب افاقہ ملا
... افاقہ ہوا محاورہ ہے، ملا نہیں
دل سوختہ کی معنویت؟
پھر کوشش کرتا ہوں ۔
 

فاخر

محفلین
غزل کو غزل مسلسل کہی گئی تھی ۔ لیکن یہ ناقص ہی تھی ۔ سوچا جب مسلسل کہہ دیا گیا ہے تو پھر کیوں نہ اس کو باقاعدہ غزل مسلسل ہی مان لیا جائے۔ کچھ اشعار میں ترمیم اور اضافے کے بعد پیش ہے۔ اپنی آراء سے ضرور نوازیں ۔ مجھے گمان اغلب ہے کہ یہ کوشش بھی نامراد ہی جائے گی۔
الف عین سید عاطف علی اور دیگر صاحبان

مضطرب روح کو ایک مژدہ ملا
خواب میں ہی سہی اس کا تحفہ ملا

مستقل جس کی کرتا تھا میں منتیں
وہ ہمیشہ بصد ناز و عشوہ ملا

جس کی فطرت سدا شوخی و ناز تھی
وہ ستم گر مجھے بالمشافہ ملا

الغرض منتیں میری پوری ہوئیں
پیار اس کا مجھے بے تحاشہ ملا

ناز ہے دولتِ بے بہا پر مجھے
ہجر کی شب میں اُس کا جو صدقہ ملا

اے مرے ہم نشیں کیا بتاؤں تجھے
تحفہ ٔ یار میں مجھ کو کیا کیا ملا

جستجو ہے تجھے گر تو پھر جان لو
’’پے بہ پے عارض و لب کا بوسہ ملا‘‘

لذت ِ ’کیف‘ کو میں بیاں کیا کروں
اُس کے ہونٹوں سے جو جام و مینا ملا

آسمان و زمیں دم بخود رہ گئے
جب مرا دلربا مسکراتا ملا

کلفت و غم سبھی دور ہو بھی گئے
رنج وغم کا مرے جب مسیحا ملا

’مرحبا‘ کی صدائیں بھی آنے لگیں
مجھ سے جب ماہ رو فاتحانہ ملا

’’بوسۂ دلبرانہ پہ کیا اس کو دوں؟‘‘-------اس کرم پر اسے نذر کیواسطے
میرے دامن میں تو اشک و قطرہ ملا

دل نے چاہا بہت نذر کچھ تو کریں
کچھ نہ پاپا بجز آہ و گریہ ملا

مفلسی میں مرے پاس کچھ بھی نہیں
ہاں! دعا کے لیے ہاتھ اٹھتا ملا
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
جس کی فطرت سدا شوخی و ناز تھی
وہ ستم گر مجھے بالمشافہ ملا
... بالمشافہ کے ساتھ پہلا مصرع ربط نہیں رکھتا

ناز ہے دولتِ بے بہا پر مجھے
.. یہ لکھ چکا ہوں کہ جب تک 'اس دولت' نہیں کہا جائے، ربط نہیں پیدا ہوتا
ناز ہے اس خزانے پہ مجھ کو بہت
یا اس قسم کا کوئی مصرع بہتر ہو گا

آسمان و زمیں دم بخود رہ گئے
جب مرا دلربا مسکراتا ملا
.. یہ تو مختلف بات ہو گئی! تو کیا ہمیشہ روتا ملتا تھا جو سب کو اتنا تعجب ہوا؟

کلفت و غم سبھی دور ہو بھی گئے
رنج وغم کا مرے جب مسیحا ملا
... بھی' بھرتی کا ہے
دوسرا مصرع
جب مرت رنج و......
سادہ اور رواں ہے

’مرحبا‘ کی صدائیں بھی آنے لگیں
مجھ سے جب ماہ رو فاتحانہ ملا
... فاتحانہ؟ یہ شعر نکال ہی دو

’’بوسۂ دلبرانہ پہ کیا اس کو دوں؟‘‘-------اس کرم پر اسے نذر کیواسطے
میرے دامن میں تو اشک و قطرہ ملا

دل نے چاہا بہت نذر کچھ تو کریں
کچھ نہ پاپا بجز آہ و گریہ ملا

مفلسی میں مرے پاس کچھ بھی نہیں
ہاں! دعا کے لیے ہاتھ اٹھتا ملا
... ان تینوں اشعار کے بدلے صرف یہ رکھیں
دل نے چاہا/سوچتا تھا کروں نذر، دل میں مگر
کچھ نہ پاپا بجز آہ و گریہ ملا
ہی کافی ہے، باقی دو اشعار نکال دو
 
Top