الفاظ کے تلفظ کی درست ادائیگی

یوسف-2

محفلین
’’ اِن شاء اللہ ‘‘ کو اب بھی بہت سے پڑھے لکھے لوگ ’’ انشا ء اللہ‘‘ لکھتے ہیں، جو کہ معنوی اعتبار سے غلط ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
یوسف بھائی صحیح والا کون سا ہے؟

اِنشاء اللہ صحیح نہیں ہے کیا؟

مزید یہ ماشاء اللہ کی املاء صحیح ہے یا نہیں؟
 

یوسف-2

محفلین
شمشاد بھائ!
ان شاء اللہ صحیح ہے۔ ’’انشاء‘‘ تو انشاء پردازی والا لفظ ہے۔
ماشاء اللہ کی یہ املاء تو ماشاء اللہ بالکل درست ہے۔ اس میں آپ کو شک کیسے ہوا؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
حکیم محمد سعید رحمۃ اللہ علیہ نے بچوں کے لئے ایک رسالہ جاری کیا تھا جو آج بھی کراچی سے شائع ہوتا ہے۔ ماہنامہ نونہال، اس کے ہر شمارے میں ایک صفحہ ’’غلط العوام الفاظ ‘‘ کی تصحیح ہوتی ہے۔ اس رسالہ کے مطابق:
’’مدیر اعلیٰ ‘‘ نہیں بلکہ ’’مدیر اعلا‘‘ درست ہے۔
۔ میری رائے میں "اعلا" در اصل "الف" کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہے جیسا کہ اعلائے کلمۃاللہ ۔ چناں چہ مدیر اعلیٰ کو مدیر اعلیٰ ہی ہونا چا ہئیے۔۔۔۔۔حکیم صاحب کی رائے کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ حکمت کے میدان میں زیادہ توجہ کی طالب اور حجت متصور ہو گی۔۔ کوئی تحقیق کرے تو خوشامدید۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
محبت ہی کرنی ہے ناں تو چاہے پیش سے کر لو چاہے زبر سے لیکن محبت ہونی چاہیے۔
بہت شکریہ آپ کے مراسلے کا۔
بہت خوب ---- یعنی محبت کرنی ہی ہو تو مھبت کر لیجئے۔۔۔ :lol:۔۔۔۔۔ میری رائے میں محبت کیسے ہی کی جائے کوئی فرق نہیں پڑتا ،لیکن جب "محبت" لکھنے کی ضرورت پڑے تو صحیح لکھا جانا چاہیئے ۔یعنی زبر کے ساتھ۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
قرآن پاک میں سورہ توحید یعنی قل ھو اللہ احد کانام سُوْرَۃُ الْاِخْلاَصْ ہے۔ لہذا اخلاص الف کی زیر کے ساتھ ہی درست ہے جیسا کہ محترم یوسف ثانی صاحب وضاحت فرما چکے ہیں۔ اسی طرح لفظ خُلُوْصْ خ پرپیش کے ساتھ درست ہے جبکہ اکثروبیشتر لوگ خ پر زبر لگا کر پڑھتے ہیں جو کہ غلط ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
غیر زبانوں کے الفاظ - شمس الرحمن فاروقی

غیر زبانوں کے الفاظ
از : شمس الرحمن فاروقی
[بحوالہ : "لغات روزمرہ"، تیسرا اضافہ و تصحیح شدہ ایڈیشن]

غیر زبانوں کے جو لفظ کسی زبان میں پوری طرح کھپ جاتے ہیں، انھیں "دخیل" کہا جاتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ صرف اور نحو کے اعتبار سے دخیل لفظ اور غیر دخیل لفظ میں کوئی فرق نہیں۔
جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا تو وہ ہمارا ہوگیا اور ہم اس کے ساتھ وہی سلوک روا رکھیں گے جو اپنی زبان کے اصلی لفظوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں، یعنی اسے اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق اپنے رنگ میں ڈھال لیں گے اور اس پر اپنے قواعد جاری کریں گے۔ لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی دخیل لفظ کے معنی، تلفظ، جنس یا املا ہماری زبان میں وہ نہ ہوں جو اس زبان میں تھے جہاں سے وہ ہماری زبان میں آیا ہے۔ اردو میں عملاً اس اصول کی پابندی تقریباً ہمیشہ ہو ئی ہے۔ لیکن شاعری میں اکثر اس اصول کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ صرف و نحو کی کتابوں میں بھی بعض اوقات اس اصول کے خلاف قاعدے بیان کیے گئے ہیں۔ یہ دونوں باتیں غلط اور افسوسناک ہیں۔ نحوی کا کام یہ ہے کہ وہ رواج عام کی روشنی میں قاعدے مستنبط کرے، نہ کہ رواج عام پر اپنی ترجیحات جاری کرنا چاہے۔ شاعر کا منصب یہ ہے کہ وہ حتی الامکان رواج عام کی پابندی کرتے ہوئے زبان کی توسیع کرے، اس میں لچک پیدا کرے نہ کہ وہ رواج عام کے خلاف جا کر خود کو غلط یا غیر ضروری اصولوں اور قاعدوں کا پابند بنائے۔

اردو میں دخیل الفاظ بہت ہیں اور دخیل الفاظ کے ذخیرے سے بھی بہت بڑا ذخیرہ ایسے الفاظ کا ہے جو دخیل الفاظ پر تصرف کے ذریعہ بنائے گئے ہیں۔ یہ تصرف کئی طرح کا ہو سکتا ہے۔

(1) غیر زبان کے لفظ پر کسی اور زبان کے قاعدے سے تصرف کر کے نیا لفظ بنانا۔ اس کی بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:
* فارسی لفظ "رنگ" پر عربی کی تاے صفت لگا کر "رنگت" بنا لیا گیا۔
* فارسی "نازک" پر عربی قاعدے سے تاے مصدر لگا کر "نزاکت" بنا لیا گیا۔
* عربی لفظ "طرفہ" پر فارسی کی علامت فاعلی لگا کر "طرفگی" بنایا گیا۔
* فارسی لفظ "دہ /دیہہ" پر عربی جمع لگا کر "دیہات" بنایا اور اسے واحد قرار دیا۔
* عربی لفظ "شان" کے معنی بدل کر اس پر فارسی کا لاحقۂ کیفیت لگایا اور "شاندار" بنا لیا۔
* عربی لفظ "نقش" پر خلاف قاعدہ تاے وحدت لگا کر "نقشہ" بنا یا، اس کے معنی بدل دیے، اور اس پر فارسی لاحقے لگا کر "نقشہ کش/نقش کشی؛ نقشہ نویس/ نقشہ نویسی؛ نقشہ باز" وغیر بنا لیے۔
* عربی لفظ "تابع" پر فارسی لاحقہ "دار" لگا لیا اور لطف یہ ہے معنی اب بھی وہی رکھے کیوں کہ "تابع" اور "تابع دار" ہم معنی ہیں۔

(2) غیر زبان کے لفظ پر اپنی زبان کے قاعدے سے تصرف کرنا۔ اس کی بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:
* عربی "حد" پر اپنا لفظ "چو" بمعنی "چار" اضافہ کیا ، پھر اس پر یاے نسبتی لگا کر "چو حدی" بنا لیا۔
* عربی لفظ "جعل" کے معنی تھوڑا بدل کے اس پر اردو کی علامت فاعلی لگا کر "جعلیا" بنایا گیا۔ فارسی کی علامت فارعلی لگا کر "جعل ساز" بھی بنا لیا گیا۔
* عربی لفظ "دوا" کو "دوائی" میں تبدیل کر کے اس کی جمع اردو قاعدے سے "دوائیاں" بنی۔
* فارسی لفظ "شرم" پر اپنا لاحقۂ صفت بڑھا کر "شرمیلا" بنا لیا۔
* فارسی لفظ "بازار" پر اردو لفظ "بھاؤ" لگا کر اردو قاعدے کی اضافت بنا لی گئی؛ "بازار بھاؤ"۔

(3) اپنی زبان کے لفظ پر غیر زبان کا قاعدہ جاری کر کے نیا لفظ بنا لینا۔ بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:
* "اپنا" میں عربی کی تاے مصدری اور اس پر ہمزہ لگا کر "اپنائیت" بنایا گیا۔ لکھنؤ میں "اپنایت" بولتے تھے لیکن بعد میں وہاں بھی "اپنائیت" رائج ہوگیا۔ "آصفیہ" میں "اپنائیت" ہی درج ہے۔
* اردو کے لفظ پر "دار" کا فارسی لاحقہ لگا کر متعدد لفظ بنائے گئے؛ "سمجھ دار، چوکیدار، پہرے دار" وغیرہ۔
* اردو کے لفظ "دان" کا لاحقہ لگا کر بہت سے لفظ بنا لیے گئے ، جیسے:" اگردان، پیک دان، پان دان " وغیرہ۔

(4) غیر زبان کے لفظ سے اپنے لفظ وضع کرلینا۔ بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:
* مصدر "گرم" سے "گرمانا"؛"شرم" سے "شرمانا" وغیرہ۔
* اسم "نالہ" سے "نالش"؛ "چشم" سے "چشمہ(بمعنی عینک)" وغیرہ۔
* صفت "خاک" سے "خاکی" (رنگ، انگریزی میں Khaki کا تلفظ "کھیکی")

(5) غیر زبان کے طرز پر نئے لفظ بنا لینا۔ مثلاً حسب ذیل لفظ فارسی / عربی میں نہیں ہیں، اردو والوں نے وضع کیے ہیں:
* بکر قصاب؛ دل لگی؛ دیدہ دلیل؛ ظریف الطبع؛ قابو پرست؛ قصائی؛ ہر جانہ؛ یگانگت وغیرہ۔

(6) اپنا اور غیر زبان کا لفظ ملا کر، یا غیر زبان کے دو لفظ ملا کر اپنا لفظ بنا لینا، مثلاً:
آنسو گیس (اردو، انگریزی)؛ بھنڈے بازار (اردو، فارسی)؛ خچر یاتری (اردو ، انگریزی)؛ خود غرض (فارسی، عربی)؛ گربہ قدم (فارسی، عربی) وغیرہ

جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے، دخیل الفاظ ، چاہے وہ براہ راست دخیل ہوئے ہوں یا ان کے زیر اثر مزید لفظ بنے ہوں، سب ہمارے لیے محترم ہیں۔ کسی دخیل لفظ، کلمے یا ترکیب کو، یا اس کے رائج تلفظ یا املا کو یہ کہہ کر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ جس زبان سے یہ لیا گیا ہے وہاں ایسا نہیں ہے۔ جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا تو اس کے غلط یا درست ہونے کا معیار ہماری زبان،اس کے قاعدے، اور اس کا روز مرہ ہوں گے نہ کہ کسی غیر زبان کے۔

ہمارے یہاں یہ طریقہ عام ہے کہ کسی لفظ یا ترکیب یا اس کے معنی کے لیے فارسی سے سند لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ فارسی میں ایسا ہے، اس لیے اردو میں بھی ٹھیک ہے۔ یہ طریقہ صرف اس حد تک درست ہے جب تک فارسی کی سند ہمارے روزمرہ یا ہمارے رواج عام کے خلاف نہ پڑتی ہو۔
"فارسی میں صحیح ہے اس لیے اردو میں صحیح ہے"، یہ اصول بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ اصول کہ "فارسی [یا عربی] میں غلط ہے، اس لیے اردو میں بھی غلط ہے۔"
مثال کے طور پر "مضبوط" کو جدید فارسی میں "مخزون" کے معنی میں بولتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ مثلاً "یہ کتاب نیشنل لائبریری میں مخزون ہے"۔ یہاں فارسی والا "مضبوط" کہے گا۔ ظاہر ہے کہ فارسی کی یہ سند اردو کے لیے بے معنی ہے۔

یہ بات صحیح ہے کہ اردو نے فارسی /عربی سے بے شمار الفاظ ، محاورات اور تراکیب حاصل کیے ہیں۔
لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ اگر اردو میں کسی عربی/فارسی لفظ کے بارے میں کوئی بحث ہو تو ہم عربی/فارسی کی سند لا کر جھگڑا فیصل کرلیں۔ لیکن شرط یہی ہوگی کہ عربی /فارسی کی سند ہمارے رواج عام یا روزمرہ کے خلاف نہ ہو۔ مثلاً لفظ "کتاب" کی جنس کے بارے میں اختلاف ہو تو یہ سند فضول ہوگی کہ عربی میں "کتاب"مذکر ہے، لہٰذا اردو میں بھی یہ لفظ مذکر ہوگا/ہونا چاہیے۔ اسی طرح، اگر یہ سوال اٹھے کہ "طشت از بام ہونا" صحیح ہے کہ نہیں، تو یہ استدلال فضول ہوگا کہ فارسی میں "طشت از بام افتادن" ہے، لہٰذا اردو میں بھی "طشت از بام گر پڑنا" ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے یہاں یوں بولتے ہیں، "سارا معاملہ طشت از بام ہو گیا"، جب کہ فارسی میں یہ محاورہ "طشت" کے حوالے سے بولتے ہیں، یعنی یوں کہتے ہیں:"طشت از بام افتاد"۔ ظاہر ہے کہ یہ ضد کرنا بھی غلط ہے کہ اردو میں بھی یوں ہی بولنا چاہیے۔
یا مثلاً اردو میں "لطیفہ" کے معنی ہیں، "کوئی خندہ آور چھوٹی سی کہانی یا چٹکلا"۔ یہ معنی نہ فارسی میں ہیں نہ عربی میں۔ لیکن ظاہر ہے کہ اردو میں رائج معنی کو اس بنا پر مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر کوئی شخص "لطیفہ" کو اردو میں "سخن خوب و نیکو" ، یا "اچھی چیز، اچھائی" کے معنی میں استعمال کرے اور کہے کہ (مثلاً) "مقدمہ شعر و شاعری لطیفوں [یا لطائف] سے بھری ہوئی ہے" درست استعمال ہے ، کیوں کہ فارسی میں "لطیفہ"بمعنی "سخن خوب" اور عربی میں بمعنی "اچھی چیز" وغیرہ ہے، تو اس کی بات قطعی غلط قرار دی جائے گی۔
لہٰذا بنیادی بات یہی ہے کہ جو استعمال، لفظ ، ترکیب، کلمہ ، اردو کے قاعدے یا رواج کے مطابق ہے، وہ صحیح ہے۔ دوسری بات یہ کہ اردو پر غیر زبانوں، خاص کر عربی /فارسی کے قاعدے جاری کرنا درست نہیں ہے، اس لے کو جتنا دھیما کیا جائے ، اچھا ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
میری ذاتی رائے:
وہ الفاظ و تراکیب جو عربی سے اردو میں ’ کسی اسلامی تعلیم کے حوالے' سے داخل ہوئے ہیں، انہیں دیگر عام عربی الفاط کی طرح کے ’دخیل الفاظ“ قرار دیکر انہیں توڑا مروڑا نہیں جاسکتا۔ جیسے اردو میں بھی عربی ترکیب ’’ان شاء اللہ ‘‘ اسی معنیٰ میں مستعمل ہے، جن معنوں میں عربی میں۔ لہٰذا اسے کبھی بھی ’’انشاء اللہ‘‘ لکھنا درست نہ ہوگا، بالخصوص اس صورت میں کہ اردو میں ’’انشاء‘‘ کو ایک دوسرا مفہوم موجود ہے جو عربی کے ’’ان شاء ‘‘ سے الگ ہے۔
اسی طرح (کم از کم مسلمانوں کو) اردو کے ایسے مروج محاوروں اور تراکیب کے استعمال سے دور رہنا چاہئے جس سے اسلامی شعائر کی تضحیک کا پہلو نکلتا ہو۔ خواہ انہیں اردو زبان و ادب کے اساتذہ کی ’’سند‘‘ ہی کیوں نہ حاصل ہو۔ جیسے۔۔۔
1۔ نماز بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے۔
2۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو۔۔۔ ( کیونکہ یہ ایک ذو معنی فقرہ ہے 1۔ اللہ نہ کرے کہ میں جھوٹ بولوں 2۔ نعوذ باللہ ۔۔۔ اگر اللہ مجھ سے جھوٹ نہ ’’بلوائے‘‘ تو۔۔۔ )
3۔ نو سو 900 چوہے کھا کر بلی حج کو چلی
یہ اور اسی قسم اور بہت سے تراکیب و محاورے اردو زبان و ادب میں (دانستہ یا نا دانستہ) "ایک سازش‘‘ کے تحت داخل کئے گئے تھے تاکہ مسلمانوں کو ان کے اپنے دین و مذہب سے دور کیا جاسکے۔ واضح رہے کہ متحدہ ہندوستان میں ’’اردو زبان و ادب‘‘ کے فروغ کے دوران ایک عرصہ تک انگریزوں کی حکمرانی رہی ہے، جنہوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اور وہ ہندوؤں سے مل کرممسلمانوں کو پیچھے دھکیلنے میں لگے رہے۔ اور اردو زبان و ادب کی ترقی میں مسلمانوں کے علاوہ انگریز سرکار کی پالیسیوں اور ہندوؤں کا بھی بڑا کردار ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس لفظ محبت کے تلفظ پر ایک اور فورم میں خاصہ طویل مکالمہ ہوا تھا۔ عربی میں بلا شبہ محبت کی میم پر زبر ہے، لیکن ’’مشرف بہ اردو‘‘ ہونے کے بعد میم کی زبر پیش میں تبدیل ہوگئی ہے۔ بیشتر اردو لغات میں میم پر پیش ہی ہے۔ البتہ جب اصل مآخذ بتلایا جاتا ہے تو میم پر زبر ڈال دیتے ہین، تاکہ عربی دان ناراض نہ ہوں۔:( جیسے عربی میں تو استاذ کہتے ہیں لیکن اردو میں استاد (دال کے ساتھ) لکھتے اور بولتے ہیں۔ حالانکہ اردواور عربی دونوں میں جمع مشترک یعنی ’’اساتذہ‘‘ ہی مستعمل ہے۔

اردو مین محبت کی میم پر زبر لگانے کے حامی اگر اردو اساتذہ کے حوالہ سے ثبوت بھی پیش کردیں تو جانیں۔:)
میں نے کئی ( اردو بولنے والے ) لوگوں سے " استاذ صاحب " بھی سنا ہے۔ سو کیا یہ نہیں کہا جاے گا کہ اردو میں استاد اور اور استاذ دونوں مستعمل ہیں ۔چنانچہ صحت کی تحقیق کے لیے جب مرجع کی جا نب رجوع کیا جائے گا تو دبی ہوئی خفت پھر منھ چڑائے گی:) ۔میں عربی زبان کا طالب علم ہوں ہمارے عربی لغت کے "استاذ صاحب" کے قول کے مطابق ماہرین لغات کا اختلاف بھی فقہ کے علماء کی طرح متنوع اور وسیع ہوتاہے۔۔۔۔اسے صرف ایک مشاہدہ اور رائے سمجھیں :) ۔اور اپنی مرضی کے مطابق محبت پہ پیش یا زبر لگایئں۔
 

یوسف-2

محفلین
میں نے کئی ( اردو بولنے والے ) لوگوں سے " استاذ صاحب " بھی سنا ہے۔ سو کیا یہ نہیں کہا جاے گا کہ اردو میں استاد اور اور استاذ دونوں مستعمل ہیں ۔چنانچہ صحت کی تحقیق کے لیے جب مرجع کی جا نب رجوع کیا جائے گا تو دبی ہوئی خفت پھر منھ چڑائے گی:) ۔میں عربی زبان کا طالب علم ہوں ہمارے عربی لغت کے "استاذ صاحب" کے قول کے مطابق ماہرین لغات کا اختلاف بھی فقہ کے علماء کی طرح متنوع اور وسیع ہوتاہے۔۔۔۔اسے صرف ایک مشاہدہ اور رائے سمجھیں :) ۔اور اپنی مرضی کے مطابق محبت پہ پیش یا زبر لگایئں۔
عموما" مدرسوں اور دارالعلوم کے طالب علم ’’استاذ‘‘ بولتے ہیں۔ ’’خالص اردو ‘‘ کے ادباء و شعراء کی تحریروں میں شاید ہی کہیں ’’استاذ‘‘ لکھا ہوا ملے۔ ویسے آپ کے استاذ صاحب کا کہنا بالکل درست ہے کہ ماہرین لغات میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ایسے اختلافات کی صورت میں ’’میجاریٹی‘‘ کی رائے کو ’’اتھاریٹی‘‘ سمجھاجانا چاہئے۔ جیسے اردو کے بہت سے بڑے بڑے ادیب :
طوطا کو توتا
طمانچہ کے تمانچہ
اعلیٰ کو اعلا
لکھنے کے قائل ہیں، لیکن فقہائے اردو ادب کی اکثریت اس رائے کو نہیں مانتی۔:)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میجارٹی والا تصور کو میں نے ہمیشہ ایک بہت "دنیاوی"( منڈین ) نو عیت کا تصور سمجھا ہے۔آج کل کے ادباء اور شعراء کی کھیپ برساتی پتنگوں سے بھی بڑھ گئی ہے اور یہی ادب کی اتھارٹی مانی جارہی ہے۔۔ چناں چہ ایسی " جمہوری" اتھارٹی کے بہاؤ ( یا بھنبھناہٹ) میں میجارٹی کو مان کر ہم بقول ڈاکٹر اقبال " کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید" کے
مصداٖ ق نہ بن جائیں :lol: ۔۔۔۔ اختلاف کو اگرصحت مندانہ طور پہ سمجھا جائے تو یہ پروڈکٹو فکر کے لیے مہمیزکے طور کام کرتا ہے اور ارتقاء میں اپنا کردار ادا کرتاہے۔
سو اس قسم کے " حسین" اختلاف کو "میجارٹی" کے منڈین تصور سے ختم کرنا ( میری رائے میں) فکری جمود کو تقویت بخشتاہے ۔ چناں چہ کہیں بھی دیکھا جائے مرجع کی اہمیت کسی طرح کم نہیں سمجھی جاسکتی ۔ بنا بریں اپنی ذاتی فکر کی استعداد ،گہرائی اور رائے کے مطابق جس سے اتفاق ہو ( دیگر آراء کواحترام سے دیکھتے ہوئے ) اسے قبول کرنے کو بہتر تصور کیا جانا چاہیے۔۔۔۔۔ مزید براں یہ امر صحتمندانہ فکری وسعت اور ذہنی کشادگی کا عکاس ہو ہو جاتا ہے۔ :snicker: ۔۔۔۔
فی زمانہ جمہوری اور عوامی نوع کے آزادانہ تصورات کے مروجہ دھاروں میں بہنے کی بجائے جڑوں کو پہچاننے اور صیرفی نگاہ سے دیکھنے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔۔۔
بقول ڈاکٹر اقبال
ز جوہرے کہ نہان است در طبیعت ما
مپرس صیرفیان را کہ ما عیار خودیم
 

Miss

محفلین
میرا تعلق لاہور سے ہونے کے با عث "ر" اور "ڑ" کی صحیح اداءیگی کر نے سے قاصر
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرا تعلق لاہور سے ہونے کے با عث "ر" اور "ڑ" کی صحیح اداءیگی کر نے سے قاصر

میرا تعلق بھی لاہور سے ہے بلکہ اندرون لاہور سے۔ مجھے کبھی ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوا لیکن ہمارے ایک دوست کو بھی یہی مسئلہ تھا جو آپ کو ہے تو میں اسے کہا کرتا تھا کہ تم گلزار کا لکھا یہ گیت گایا کرو۔
چھڑی رے چھڑی کیسی گلے میں پڑی
پیروں کی بیڑی کبھی لگے ہتھکڑی
سیدھے سیدھے راستوں کو تھوڑا سا موڑ دے دو
بے جوڑ روحوں کو ہلکا سا جوڑ دے دو
جوڑ دو نہ ٹوٹ جائے خوابوں کی لڑی
 

سیما علی

لائبریرین
شمشاد بھائ!
ان شاء اللہ صحیح ہے۔ ’’انشاء‘‘ تو انشاء پردازی والا لفظ ہے۔
ماشاء اللہ کی یہ املاء تو ماشاء اللہ بالکل درست ہے۔ اس میں آپ کو شک کیسے ہوا؟
بہت اعلیٰ اصلاح ہوگئی ان شاء اللہ صحیح ماشاء اللہ درست
جزاک اللہ
 

سیما علی

لائبریرین
میجارٹی والا تصور کو میں نے ہمیشہ ایک بہت "دنیاوی"( منڈین ) نو عیت کا تصور سمجھا ہے۔آج کل کے ادباء اور شعراء کی کھیپ برساتی پتنگوں سے بھی بڑھ گئی ہے اور یہی ادب کی اتھارٹی مانی جارہی ہے۔۔ چناں چہ ایسی " جمہوری" اتھارٹی کے بہاؤ ( یا بھنبھناہٹ) میں میجارٹی کو مان کر ہم بقول ڈاکٹر اقبال " کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید" کے
مصداٖ ق نہ بن جائیں :lol: ۔۔۔۔ اختلاف کو اگرصحت مندانہ طور پہ سمجھا جائے تو یہ پروڈکٹو فکر کے لیے مہمیزکے طور کام کرتا ہے اور ارتقاء میں اپنا کردار ادا کرتاہے۔
سو اس قسم کے " حسین" اختلاف کو "میجارٹی" کے منڈین تصور سے ختم کرنا ( میری رائے میں) فکری جمود کو تقویت بخشتاہے ۔ چناں چہ کہیں بھی دیکھا جائے مرجع کی اہمیت کسی طرح کم نہیں سمجھی جاسکتی ۔ بنا بریں اپنی ذاتی فکر کی استعداد ،گہرائی اور رائے کے مطابق جس سے اتفاق ہو ( دیگر آراء کواحترام سے دیکھتے ہوئے ) اسے قبول کرنے کو بہتر تصور کیا جانا چاہیے۔۔۔۔۔ مزید براں یہ امر صحتمندانہ فکری وسعت اور ذہنی کشادگی کا عکاس ہو ہو جاتا ہے۔ :snicker: ۔۔۔۔
فی زمانہ جمہوری اور عوامی نوع کے آزادانہ تصورات کے مروجہ دھاروں میں بہنے کی بجائے جڑوں کو پہچاننے اور صیرفی نگاہ سے دیکھنے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔۔۔
بقول ڈاکٹر اقبال
ز جوہرے کہ نہان است در طبیعت ما
مپرس صیرفیان را کہ ما عیار خودیم
سید صاحب !!!!!
بہت خوب ،میجارٹی کے بارے میں آپکا تصور سو فی صد درست،
کتنا آسان ہے تائید کی خو کر لینا!!!!
کتنا دشوار ہے اپنی کوئی رائے رکھنا
کیا عمدہ بات کی آپ نے آجکل ادباء شعراء کی کھیپ بہت
بہتر ین “برستاتی پتنگوں” سے بڑھ گئی ہے۔آپکی رائے سے اتفاق۔۔۔ماشاء اللہ ماشاء اللہ ۔۔۔سلامت رہیے ،ڈھیروں دعائیں۔۔۔۔۔بار با ر پڑھا بہت اچھا لگا آپکا نکتہ نظر تھوڑا بہت کوشش کرتی ہوں لکھنے کی ۔ماشاءاللہ آپ کے لفظوں کا چناؤ بہت حسین۔۔۔۔۔
 
Top