وزیراعظم نے ملک سے برطانوی نظامِ تعلیم ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا

ابن جمال

محفلین
پاکستان کے علماء اور اسلام پسند حلقے حکومت کے اس دعوے کو قبول کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں کہ مدرسے کے نظامِ تعلیم میں کسی قسم کا سقم یا کمی ہے۔ وہ حکومت کی کسی بھی مداخلت کو قبول نہیں کریں گے۔

ادھر حکومت کے زیرِ انتظام سرکاری اسکولوں کا برا حال ہے۔ متوسط طبقے میں جس کسی کے پاس اس قدر پیسہ ہے یا وہ فاقہ کشی کرنے بعد اتنا پیسہ بچا سکتا ہے وہ اچھی تعلیم کے حصول کے لیے نجی اسکولوں کی جانب دیکھتا ہے۔ نجی اسکولوں نے برطانوی اداروں سے رجسٹریشن کروالی ہے اور بچوں کو ان اداروں سے امتحان دلواکر بچوں کو اس قابل بنادیتے ہیں کہ وہ ملک کے نجی کاروباری و دیگر اداروں کو سنبھال سکیں یا دنیا میں کہیں بھی جاکر کسی بھی مقابلے میں اپنی قابلیت دکھا سکتے ہیں۔

حکومتی پوسٹیں ان نالائقوں کے لیے ہیں جو کوٹہ سسٹم کے ذریعے تعلیم یافتہ بچوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر آتے ہیں۔

حکومت کو اور ان کے نالائق حواریوں کو اصل خطرہ ان بچوں سے ہے جو باہر کی یونیورسٹیوں سے سندیں وصول کرکے اپنا راستہ بنالیتے ہیں۔ ان ٹٹ پونجیوں کو اوقات دکھانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ برطانوی اداروں کو ان حرکات سے روک دیا جائے۔ حکومتی ادارے ہی اپنا غلط سلط کورس زبردستی بچوں کو پڑھوایں اور خود ہی امتحان لے کر رشوت دینے والے بچوں کو اچھے نتائج کی نوید سنائیں۔

سرکاری گھوسٹ اسکولوں کا حال وہی رہے گا جو ہے۔ نجی اسکولوں میں پڑھنے والے بھی چیف ایگزیکٹیو کی طرح تاریخ، جغرافیہ، فزکس، کیمسٹری، اکنامکس وغیرہ سے عاری نکلیں گے، آئیندہ قیادت سنبھالیں گے۔ ( القاعدہ کو پاکستان نے تیار کیا، جیسے تاریخی جملے کہنے کے قابل بنیں گے) ۔

دولت مندوں کے بچے تو ملک سے باہر جاکر پڑھیں گے لیکن متوسط طبقے کے پاس جو ایک طریقہ تھا اپنے بچوں کو تعلیم دلواکر اپنے سے بہتر بنانے کا، اس سے محروم رہ جائیں گے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
اس اقتباس میں سارا زور اس بات پر ہے کہ سرکاری اسکول خرابی کی بنیاد ہیں اورنجی اسکول سے ملک فلاح پارہاہے، حالانکہ اب بھی غریب بچے جو قابل اورباصلاحیت ہوتے ہیں، وہ سرکاری اسکولوں سے ہی پڑھ کر اپنااورملک کا بھلاکرتے ہیں،ان غریب بچوں کو کون سانجی اسکول تعلیم دینے پر آمادہ ہے، جب تک کہ لاکھوں کی فیس ان کی نذر نہ کی جائے، حقیقت یہ ہے کہ ایک نظام تعلیم ہونا بالکل صحیح بات ہے، جو اس کی مخالفت کرتے ہیں وہ گویا ملک میں طبقاتی اجارہ داری کو باقی رکھناچاہتے ہیں، خواہ اس پر کسی بھی الفاظ سے پردہ ڈالاجائے، کون یہ کہتاہے کہ اسکولی معیار تعلیم کو درست نہ کیاجائے؛ لیکن اس کے نام پر ایک ہی ملک میں کئی نظام تعلیم کو جاری رکھنابچوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
لیکن خیر مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ بولنا ضروری ہے تو یہ بتانا چاہوں گی میں نے اپنے اکیڈمک کیرئیر میں پانچ ٹیچرز کو لڑکیوں کے ہاتھوں غلط الزامات سہتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان میں سے تین کی کلاس میں جن لڑکیوں اور ٹیچرز پر الزامات لگائے گئے تھے اتفاق سے وہ میرے ساتھ ہی بیٹھتی تھیں۔ جنھوں نے لگائے تھے وہ جیلسی کا شکار تھیں اور مارکس کم حاصل کرنے پر ان کو تکلیف تھی۔ الحمدللہ میں نے ہی ان خبروں کو ختم کیا تھا۔ ایک ایک کو کنفرنٹ کیا تھا اور ایسے الزامات لگانے والیوں سے لڑی بھی تھی۔ اللہ پاک ان کے لئے اچھا کرے آمین۔ اچھی لڑکیاں تھیں پر حسد کا شکار ہو کر غلطی کر بیٹھی تھیں۔ پھر ان کی طرف سے ایسی حرکتیں دیکھنے میں نہیں آئیں۔
ایم اے او کالج: ہراسانی کے جھوٹے الزام پر ٹیچر کی خودکشی، قصور وار کون؟
ترہب اصغر بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
  • 19 اکتوبر 2019
_109294636_whatsappimage2019-10-19at1.05.44pm.jpg


پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے ایم اے او کالج میں انگریزی پڑھانے والے لیکچرار افضل محمود نے ایک خاتون طالب علم کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزام اور تحقیقات کے بعد اس کے غلط ثابت ہونے کے باوجود انتظامیہ کی جانب سے تصدیقی خط جاری نہ کرنے پر خودکشی کر لی ہے۔

ایم اے او کالج میں انگریزی کے استاد افضل محمود نے نو اکتوبر کو زہر کھا کر خودکشی کر لی تھی۔

افضل محمود کی لاش کے ساتھ ان کی اپنی تحریر میں ایک نوٹ موجود تھا جس پر تحریر تھا کہ وہ اپنا معاملہ اب اللہ کے سپرد کر رہے ہیں اور ان کی موت کے بارے میں کسی کی نہ تفتیش کریں اور نہ ہی زحمت دیں۔

پولیس اور میڈیکل رپورٹ سے ان کی خودکشی اور نوٹ لکھنے کی تصدیق ہو چکی ہے۔

محمد افضل کے ایک دوست نے ایک خط بی بی سی کو دکھایا جو اپنی موت سے ایک دن قبل انھوں نے اپنی سینیئر ساتھی پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمان کو لکھا تھا۔ پروفیسر عالیہ محمد افضل کے خلاف ایک خاتون طالب علم کو ہراساں کرنے کی انکوائری کرنے والی کمیٹی کی سربراہ تھیں۔

افضل محمود نے خودکشی کیوں کی؟
خودکشی کرنے سے ایک روز قبل ڈاکٹر عالیہ کے نام اپنے خط میں افضل محمود نے شکایت کی کہ انھیں ہراس کرنے کے الزام سے بری الذمہ قرار دینے کے باوجود ابھی تک انھیں تحریری طور پر کمیٹی کی طرف سے اس فیصلے سے آگاہ کیوں نہیں کیا گیا ہے۔

’یہ بات ہر طرف پھیل چکی ہے جس کی وجہ سے میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوں اور جب تک کمیٹی مجھے تحریری طور پر اس الزام سے بری نہیں کرتی میرے بارے میں یہ تاثر رہے گا کہ میں ایک برے کردار کا شخص ہوں۔

میری خواہش ہے کہ یا تو تحریری طور پر مجھے ان الزامات سے بری کرنے کا خط جاری کیا جائے یا انکوائری دوبارہ کر لی جائے تاکہ میرے علاوہ باقی اساتذہ جو طلبا کے ساتھ (پڑھائی کے معاملے میں) سختی کرتے ہیں یا انھیں امتحان میں کارکردگی کے مطابق نمبر دیتے ہیں نہ کہ دباؤ کے تحت، انھیں بھی مستقبل میں اس طرح کے الزامات سے بچایا جا سکے۔‘

افضل محمود نے تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس جھوٹے الزام کی وجہ سے میرا خاندان پریشانی کا شکار ہے۔

’میری بیوی بھی آج مجھے بد کردار قرار دے کر جا چکی ہے۔ میرے پاس زندگی میں کچھ نہیں بچا۔ میں کالج اور گھر میں ایک بدکردار آدمی کے طور پر جانا جاتا ہوں۔ اس وجہ سے میرے دل اور دماغ میں ہر وقت تکلیف ہوتی ہے۔‘

افضل محمود آخر میں لکھتے ہیں کہ ’اگر کسی وقت ان کی موت ہو جائے تو ان کی تنخواہ اور اس الزام سے بریت کا خط ان کی والدہ کو دے دیا جائے۔‘

افضل محمود کے خلاف الزام جھوٹا ثابت ہو چکا تھا

افضل محمود پر ایک خاتون طالب علم کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزام کی تفیتیش کرنے والی، ایم اے او ہراسمنٹ کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر عالیہ رحمان نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ افضل محمود پر لگنے والا الزام دوران تفتیش جھوٹا ثابت ہوا تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان تک ماس کمیو نیکشن ڈیپارٹمنٹ کی ایک طالب علم کی ایک درخواست پہنچی تھی جس میں لکھا تھا کہ سر افضل لڑکیوں کو گھور کر دیکھتے ہیں۔

’جب یہ کیس میرے پاس آیا تو میں نے اس لڑکی سے بات کی تو اس نے مجھے کہا کہ اصل میں سر ہمارے نمبر کاٹتے ہیں اور ہماری کلاس میں حاضری کم تھی اس لیے سر نے ہمارے نمبر کاٹ لیے۔‘

’میں نے ان سے کہا کہ اس بات کو سائیڈ پر کریں اور ان کے کریکٹر کی بات کریں اور یہ بتائیں کہ افضل نے ان کے ساتھ کبھی کوئی غیر اخلاقی بات یا حرکت کی؟

جس پر الزام لگانے والی طالبہ نے جواب دیا کہ ’نہیں مجھے تو نہیں کہا لیکن میری کلاس کی لڑکیاں کہتی ہیں کہ وہ ہمیں گھورتے ہیں۔‘

ڈاکٹر عالیہ کے مطابق انھوں نے انکوائری مکمل کرنے کے بعد انکوائری رپورٹ میں یہ لکھ دیا کہ افضل کے اوپر غلط الزامات لگائے گئے ہیں اور وہ معصوم ہیں۔ میں نے اپنی انکوائری رپورٹ میں یہ لکھا تھا کہ افضل بے قصور ہیں اور اس لڑکی کے کو وارننگ جاری کی جائے اور اسے سختی سے ڈیل کیا جائے۔

ڈاکٹر عالیہ نے بتایا کہ انھوں نے افضل سے بھی انکوائری کی اور اپنی تمام تر تحقیقات فائنڈنگز میں لکھ دی تھیں۔

’ساتھ ہی ساتھ میں نے یہ بھی لکھا کہ اس معاملے کو خصوصی طور پر دیکھا جائے تاکہ آئندہ کوئی طالبہ کسی بھی استاد پر غلط الزام نہ لگائے۔‘

پھر افضل کو بری الذمہ قرار کیوں نہیں دیا گیا؟
ڈاکٹر عالیہ نے اس سوال پر کہا کہ ان کا مینڈیٹ اس معاملے کی تفتیش کر کے رپورٹ کالج پرنسپل کے حوالے کرنا تھا۔

’ہم نے اپنی رپورٹ مکمل کر کے تین ماہ قبل پرنسپل صاحب کو بھجوا دی تھی۔ اگلے مرحلے میں پرنسپل صاحب نے افضل کو ایک کلیئرنس لیٹر جاری کرنا تھا جس میں یہ لکھا جاتا کہ افضل بے قصور ہیں اور ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔‘

ڈاکٹر عالیہ نے کہا کہ افضل نے مجھ سے جس سرٹیفیکٹ کا مطالبہ مرنے سے ایک دن پہلے کیا وہ جاری کرنا میرے اختیار میں نہیں تھا۔ ایسا صرف کالج پرنسپل ہی کر سکتے تھے۔ بی بی سی نے کالج کے پرنسپل فرحان عبادت سے اس حوالے سے دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’افضل میرے پاس آیا ہی نہیں اگر وہ آتا تو میں اسے لیٹر جاری کر دیتا۔‘

ڈاکٹر فرحان نے کہا کہ انکوائری رپورٹ مکمل ہونے کے بعد سے افضل نے ان سے کبھی بات نہیں کی جبکہ کہ افضل کو زبانی بتا دیا گیا تھا کہ وہ بے قصور ہیں اور ان کو کلیئر کیا جا چکا ہے۔

تاہم ڈاکٹر فرحان عبادت کے مطابق ’یہ معاملہ ڈاکٹر عالیہ نے حل کرنا تھا میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔‘

ڈاکٹر فرحان کا کہنا ہے مجھے ڈاکٹر عالیہ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ان بچوں کے خلاف بھی ایکشن لینا ہے۔

کیا ایک خط افضل کی جان بچا سکتا تھا؟
ڈاکٹر عالیہ رحمان کے مطابق ’میں نے افضل سے کہا کہ آپ ایک درخواست دے دیں کہ مجھے خط جاری کیا جائے میں وہ آگے تک پہنچا دوں گی۔‘

’8 اکتوبر کی دوپہر افضل میرے پاس آئے اس وقت میں کالج گیٹ سے گھر کے لیے نکل رہی تھی۔ انھوں نے مجھے ایک لیٹر دیا میں نے اس لیٹر کی پہلی تین چار لائنیں پڑھیں جس میں لکھا تھا کہ آپ مجھے کلیرنس لیٹر جاری کردیں میں نے وہ اپنی فائل میں رکھا اور میں چلی گئی۔‘تاہم اگلے دن جب میں کالج پہنچی تو مجھے پتا چلا کہ افضل نے خودکشی کرلی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’میری غلطی ہے کہ میں نے وہ لیٹر پورا نہیں پڑھا کیونکہ لیٹر کی آخری لائنوں میں لکھا تھا کہ میری تنخواہ میری والدہ کو دے دی جائے۔ میں اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ افضل کھبی اپنی جان بھی لے سکتا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ ہنستا کھیلتا رہتا تھا۔‘

ڈاکٹر عالیہ کا کہنا ہے کہ ’افضل کی موت کے بعد میں نے پرنسپل صاحب کو وہ ایپلیکیشن دکھائی جو افضل نے مجھے دی تھی۔ انھوں نے مجھے کہا کہ یہ تو افضل نے آپ کو لکھا ہے تو آپ اس کو دیکھیں جبکہ میں نے ان سے کہا کہ سر میں کیسے دیکھ سکتی ہوں جب تک آپ مجھے اجازت نہیں دیتے لکھ کر۔ انھوں نے جواب دیا کہ چھوڑ دیں جب تک ضرورت نہیں پڑتی آپ صرف اپنے کاغذات مکمل رکھیں، جب آپ سے کوئی مانگے تو دے دیجیے گا۔‘

تاہم ڈاکٹر فرحان نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ڈاکٹر عالیہ کا لیٹر افضل محمود کی موت کے بعد ان کے پاس لے کر آئیں۔

کیاانتظامیہ ہراس کے خلاف اقدامات کے طریقہ کار سے لا علم ہے؟

ایم اے او کالج کے پرنسپل فرحان عبادت نے دعویٰ کیا کہ انھیں ہراس کے خلاف اقدامات کا اختیار تو دیا گیا ہے لیکن اس بارے میں کوئی تربیت یا آگاہی نہیں دی گئی۔

’ہمیں حکومت کی جانب سے کسی قسم کی ٹریننگ یا تربیت نہیں دی جاتی کہ ہم نے ایسے معاملات کو کیسے دیکھنا ہے۔‘

بی بی سی کی نامہ نگار کی جانب سے ڈاکٹر فرحان سے سوال کیا گیا کہ ’کیا تین مہینے میں میں آپ نے اس کیس کو فالو اپ کیا یا ان سٹوڈنٹس کے خلاف ڈسپلن کے تحت کوئی کارروائی کی یا افضل کی موت کے بعد آپ نے معاملے کی چھان بین کی؟ تو ڈاکٹر فرحان نے جواب دیا کہ ’نہیں یہ بات میرے ذہن ہی میں نہیں آئی کہ ایسا کرنا چاہیے۔‘

کالج پرنسپل ڈاکٹر فرحان عبادت نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ میں نے کلیئرنس خط افضل کو جاری نہیں کیا کیونکہ میں سمجھا کہ ڈاکٹر عالیہ نے افضل کو بتا دیا ہے۔ پرنسپل سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ تین ماہ کا وقت گزرنے کے بعد آپ نے اس کیس میں کیا؟ جس پر وہ کسی قسم کا جواب نہ دے سکے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یکساں نصاب کا فائدہ؟
فیصل باری20 اکتوبر 2019

مجھے مختلف ذرائع سے جو کچھ سننے پڑھنے یا دیکھنے کو ملا ہے اس کے مطابق یہ تاثر کافی عام ہے کہ یکساں تعلیم/ نصاب/ کتابوں/ امتحانی عمل کے ذریعے ملک کے بچوں کے درمیان تفریقات میں کمی یا سرے سے ہی خاتمہ لائے جاسکے گی۔ تمام صوبوں، شہروں اور دیہی علاقوں کے بچے بلا صنفی، سماجی و معاشی امتیاز کم و بیش یکساں کورس پڑھیں گے اور ان کا امتحان بھی یکساں انداز میں لیا جائے گا۔ کئی لوگ یہ مانتے ہیں کہ اس طرح بچوں میں پائی جانے والی تفریقات کو ختم کیا جاسکے گا اور ’مساوی مواقع‘ کی دستیابی ممکن ہوسکے گی۔

تاہم مسئلہ یہ ہے کہ یکساں نصاب پر اگر عمل درآمد ہوا تو اس سے تفریقات میں کمی لانے میں مدد نہیں ملے گی۔ پاکستان میں بچوں کا تعلق مختلف سماجی و اقتصادی طبقات اور مختلف تعلیمی پس منظر رکھنے والے خاندانوں سے ہے۔ بچوں کی تعلیم پر کہیں زیادہ سرمایہ مختص کیا جاتا ہے اور کہیں کم، تمام بچے زبان پر یکساں انداز میں عبور نہیں رکھتے ہیں، ان کا تعلق مختلف ثقافتی و مذہبی پس منظر سے ہے جبکہ یہ الگ الگ جغرافیائی ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ یکساں نصاب، ایک جیسی کتابوں یا یکساں امتحانی عمل سے تفریقات میں کمی واقع نہیں ہوگی الٹا اس طرح تفریقات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

اگر امتحانات بہت ہی مشکل ہوئے تو ان میں کامیابی حاصل کرنے والوں اور ناکام ہوجانے والوں کے درمیان تفریق پیدا ہوگی۔ کسے ملازمتوں تک رسائی مل سکتی ہے اور کسے نہیں اس تناظر میں جب میٹرک پاس اور میٹرک فیل کے درمیان فرق کو ادارتی صورت دی جائے گی تو تفریقات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوگا۔

یکساں تعلیمی زبان (مثال کے طور پر اردو) کا نفاذ عمل میں لانے سے اگر گھر میں بولی جانے والی یا مادری زبان نظر انداز ہوجائے تو یوں ہم درحقیقت سیکھنے کے عمل میں بچوں کے لیے مشکلات کر رہے ہوتے ہیں۔

اگر نصاب اور کتب یکساں ہوں تو سندھ میں رہنے والے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے بچوں کو یکساں کتابیں پڑھنی ہوں گی اور یوں ان کی علاقائی ثقافتیں، روایات، تاریخ اور ادب نظر انداز ہوجائے گا (اب کیا بلھے شاہ کا کلام سرے سے نہ پڑھایا جائے یا پھر سب کو لازماً پڑھایا جائے؟)

چند روز قبل وزیراعظم نے کہا تھا کہ پاکستان میں ’ایک قوم‘ وجود میں لانے کے لیے یکساں نصاب ضروری ہے۔ اگرچہ یہ تو واضح نہیں کہ وہ حقیقی معنوں میں کیا کہنا چاہ رہے تھے، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ قوم میں اتحاد و اتفاق کے پہلو کا تعلق صرف غیر مساوات کے خاتمے سے ہی ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے نظریاتی یکسانیت کے تصور کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

مجھے کوئی ایک بھی ایسا ثبوت نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ یکساں نصاب، کتب اور امتحانی طریقہ کار نے ایک بڑے اور گونا گونیت سے بھرپور لوگوں کے گروہ کو نظریاتی طور پر زیادہ یکسانیت یا ہم آہنگی سے بھرپور گروہ بنانے کی راہ ہموار کی ہو۔ کیا اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے لازمی مضامین نے اس حوالے سے مدد فراہم کی؟ کیا اس حوالے سے کوئی ثبوت دستیاب ہے؟ آخر وہ کون سی بات ہے کہ جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ یکساں نصاب سے ہمیں ’ایک قوم‘ بننے جیسے مشکل مقصد کا حصول ممکن ہوگا؟ جس کے نفاذ کی ہم زیادہ صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔

اس قسم کے تجربے پر بھی ایک بڑی لاگت آئے گی۔ ہم یہ تو بڑی آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ اس نوعیت کے تجربے میں کوئی حرج نہیں کہ اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ یکساں نصاب، مجوزہ علمی کتابوں اور طے شدہ امتحانی نظام کو تمام اسکولوں میں متعارف کروانے میں ڈھیر سارا پیسہ اور سیاسی سرمایہ خرچ کرنا پڑے گا۔ ان وسائل کو اگر شعبہ تعلیم میں دیگر جگہوں پر خرچ کیا جائے تو زیادہ اچھی بات ہوگی۔ ہمیں اپنی توجہ ان متعدد اصلاحات پر مرکوز کرنی چاہیے جن کی تعلیمی شعبے میں اشد ضرورت ہے۔ کیا ہمیں اس فرضی ’یکساں نصاب‘ متعارف کروانے سے زیادہ ان اصلاحات کو ترجیح نہیں دینی چاہیے؟

پاکستان میں کم و بیش 2 کروڑ 20 لاکھ 5 سے 16 برس کے بچے اسکول سے باہر ہیں۔ سرکاری یا کم فیس کے لینے والے نجی اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی اکثریت غیر معیاری تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ ان مسائل کو چھوڑ کر ہم اپنے وسائل، وقت اور سیاسی سرمایہ یکسانیت کے معاملات پر لگانے پر تُلے ہیں۔

ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یکساں نصاب، علمی کتب اور امتحانی عمل، کا نفاذ اگر ممکن بھی ہوتا تو بھی اس سے اسکولوں تک رسائی اور معیار جیسے اہم مسائل حل نہیں ہوں گے۔ یکساں نصاب کس طرح 2 کروڑ 22 لاکھ کو اسکول میں داخل کروانے میں مددگار ثابت ہوگا؟

بچوں کے اسکول میں داخلے کی شرح بڑھانے کے لیے زیادہ اسکولوں، اساتذہ، ٹرانسپورٹ کی سہولیات اور اسکولوں میں داخلے کا رجحان بڑھانے کی خاطر خصوصی مراعات دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ نصاب کی یکسانیت سے ان میں سے کسی ایک معاملے پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ معیارِ تعلیم کا بڑی حد تک تعلق کتب، اساتذہ کے فن تدریس اور نصابی علم، ٹیچر میں ترغیب پیدا کرنے، اور تعلیم کی صورتحال کا تعین کرنے کے معیاری طریقے درکار ہوتے ہیں لیکن ان شعبوں میں سدھار لانے کے لیے یکسانیت کون سا کردار ادا کرسکتی ہے؟

حکومت یکسانیت کو برابری (equity) سے جڑے مسائل ختم کرنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ تاہم میں یہاں بھی یہی کہوں گا کہ یکسانیت کے ذریعے برابری قائم نہیں کی جاسکتی۔ بچوں کے حالات، ان کی ضروریات، صلاحیتوں اور خواہشات کی گونا گونیت پر مبنی فریم ورک کی حدود میں رہتے ہوئے برابری سے جڑے مسائل حل کرنا ہوں گے۔ اس حوالے سے یکساں نصاب سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا اُلٹا برابری سے جڑے مسائل بد سے بدتر ہوں گے۔

برابری، اسکولوں تک رسائی اور معیار سے جڑے مسائل کے حل کے لیے شعبہ تعلیم کو متعدد اور بنیادی نوعیت کی اصلاحات درکار ہیں۔ تاہم یکساں نصاب، کتب اور/یا امتحانی نظام کے نفاذ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس عمل سے کوئی ایک بھی ایسا مسئلہ حل نہیں ہوگا جسے ہم حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر یکساں نصاب سے متعلق اس اصلاحاتی عمل کا نفاذ ممکن ہو بھی جاتا تو اس کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھانے پڑیں گے جبکہ اس کے نتیجے میں تعلیم سے جڑے دیگر شعبوں کو ٹھیس بھی پہنچے گی۔
 

سین خے

محفلین
ایم اے او کالج: ہراسانی کے جھوٹے الزام پر ٹیچر کی خودکشی، قصور وار کون؟
ترہب اصغر بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
  • 19 اکتوبر 2019
_109294636_whatsappimage2019-10-19at1.05.44pm.jpg


پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے ایم اے او کالج میں انگریزی پڑھانے والے لیکچرار افضل محمود نے ایک خاتون طالب علم کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزام اور تحقیقات کے بعد اس کے غلط ثابت ہونے کے باوجود انتظامیہ کی جانب سے تصدیقی خط جاری نہ کرنے پر خودکشی کر لی ہے۔

ایم اے او کالج میں انگریزی کے استاد افضل محمود نے نو اکتوبر کو زہر کھا کر خودکشی کر لی تھی۔

افضل محمود کی لاش کے ساتھ ان کی اپنی تحریر میں ایک نوٹ موجود تھا جس پر تحریر تھا کہ وہ اپنا معاملہ اب اللہ کے سپرد کر رہے ہیں اور ان کی موت کے بارے میں کسی کی نہ تفتیش کریں اور نہ ہی زحمت دیں۔

پولیس اور میڈیکل رپورٹ سے ان کی خودکشی اور نوٹ لکھنے کی تصدیق ہو چکی ہے۔

محمد افضل کے ایک دوست نے ایک خط بی بی سی کو دکھایا جو اپنی موت سے ایک دن قبل انھوں نے اپنی سینیئر ساتھی پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمان کو لکھا تھا۔ پروفیسر عالیہ محمد افضل کے خلاف ایک خاتون طالب علم کو ہراساں کرنے کی انکوائری کرنے والی کمیٹی کی سربراہ تھیں۔

افضل محمود نے خودکشی کیوں کی؟
خودکشی کرنے سے ایک روز قبل ڈاکٹر عالیہ کے نام اپنے خط میں افضل محمود نے شکایت کی کہ انھیں ہراس کرنے کے الزام سے بری الذمہ قرار دینے کے باوجود ابھی تک انھیں تحریری طور پر کمیٹی کی طرف سے اس فیصلے سے آگاہ کیوں نہیں کیا گیا ہے۔

’یہ بات ہر طرف پھیل چکی ہے جس کی وجہ سے میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوں اور جب تک کمیٹی مجھے تحریری طور پر اس الزام سے بری نہیں کرتی میرے بارے میں یہ تاثر رہے گا کہ میں ایک برے کردار کا شخص ہوں۔

میری خواہش ہے کہ یا تو تحریری طور پر مجھے ان الزامات سے بری کرنے کا خط جاری کیا جائے یا انکوائری دوبارہ کر لی جائے تاکہ میرے علاوہ باقی اساتذہ جو طلبا کے ساتھ (پڑھائی کے معاملے میں) سختی کرتے ہیں یا انھیں امتحان میں کارکردگی کے مطابق نمبر دیتے ہیں نہ کہ دباؤ کے تحت، انھیں بھی مستقبل میں اس طرح کے الزامات سے بچایا جا سکے۔‘

افضل محمود نے تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس جھوٹے الزام کی وجہ سے میرا خاندان پریشانی کا شکار ہے۔

’میری بیوی بھی آج مجھے بد کردار قرار دے کر جا چکی ہے۔ میرے پاس زندگی میں کچھ نہیں بچا۔ میں کالج اور گھر میں ایک بدکردار آدمی کے طور پر جانا جاتا ہوں۔ اس وجہ سے میرے دل اور دماغ میں ہر وقت تکلیف ہوتی ہے۔‘

افضل محمود آخر میں لکھتے ہیں کہ ’اگر کسی وقت ان کی موت ہو جائے تو ان کی تنخواہ اور اس الزام سے بریت کا خط ان کی والدہ کو دے دیا جائے۔‘

افضل محمود کے خلاف الزام جھوٹا ثابت ہو چکا تھا

افضل محمود پر ایک خاتون طالب علم کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزام کی تفیتیش کرنے والی، ایم اے او ہراسمنٹ کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر عالیہ رحمان نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ افضل محمود پر لگنے والا الزام دوران تفتیش جھوٹا ثابت ہوا تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان تک ماس کمیو نیکشن ڈیپارٹمنٹ کی ایک طالب علم کی ایک درخواست پہنچی تھی جس میں لکھا تھا کہ سر افضل لڑکیوں کو گھور کر دیکھتے ہیں۔

’جب یہ کیس میرے پاس آیا تو میں نے اس لڑکی سے بات کی تو اس نے مجھے کہا کہ اصل میں سر ہمارے نمبر کاٹتے ہیں اور ہماری کلاس میں حاضری کم تھی اس لیے سر نے ہمارے نمبر کاٹ لیے۔‘

’میں نے ان سے کہا کہ اس بات کو سائیڈ پر کریں اور ان کے کریکٹر کی بات کریں اور یہ بتائیں کہ افضل نے ان کے ساتھ کبھی کوئی غیر اخلاقی بات یا حرکت کی؟

جس پر الزام لگانے والی طالبہ نے جواب دیا کہ ’نہیں مجھے تو نہیں کہا لیکن میری کلاس کی لڑکیاں کہتی ہیں کہ وہ ہمیں گھورتے ہیں۔‘

ڈاکٹر عالیہ کے مطابق انھوں نے انکوائری مکمل کرنے کے بعد انکوائری رپورٹ میں یہ لکھ دیا کہ افضل کے اوپر غلط الزامات لگائے گئے ہیں اور وہ معصوم ہیں۔ میں نے اپنی انکوائری رپورٹ میں یہ لکھا تھا کہ افضل بے قصور ہیں اور اس لڑکی کے کو وارننگ جاری کی جائے اور اسے سختی سے ڈیل کیا جائے۔

ڈاکٹر عالیہ نے بتایا کہ انھوں نے افضل سے بھی انکوائری کی اور اپنی تمام تر تحقیقات فائنڈنگز میں لکھ دی تھیں۔

’ساتھ ہی ساتھ میں نے یہ بھی لکھا کہ اس معاملے کو خصوصی طور پر دیکھا جائے تاکہ آئندہ کوئی طالبہ کسی بھی استاد پر غلط الزام نہ لگائے۔‘

پھر افضل کو بری الذمہ قرار کیوں نہیں دیا گیا؟
ڈاکٹر عالیہ نے اس سوال پر کہا کہ ان کا مینڈیٹ اس معاملے کی تفتیش کر کے رپورٹ کالج پرنسپل کے حوالے کرنا تھا۔

’ہم نے اپنی رپورٹ مکمل کر کے تین ماہ قبل پرنسپل صاحب کو بھجوا دی تھی۔ اگلے مرحلے میں پرنسپل صاحب نے افضل کو ایک کلیئرنس لیٹر جاری کرنا تھا جس میں یہ لکھا جاتا کہ افضل بے قصور ہیں اور ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔‘

ڈاکٹر عالیہ نے کہا کہ افضل نے مجھ سے جس سرٹیفیکٹ کا مطالبہ مرنے سے ایک دن پہلے کیا وہ جاری کرنا میرے اختیار میں نہیں تھا۔ ایسا صرف کالج پرنسپل ہی کر سکتے تھے۔ بی بی سی نے کالج کے پرنسپل فرحان عبادت سے اس حوالے سے دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’افضل میرے پاس آیا ہی نہیں اگر وہ آتا تو میں اسے لیٹر جاری کر دیتا۔‘

ڈاکٹر فرحان نے کہا کہ انکوائری رپورٹ مکمل ہونے کے بعد سے افضل نے ان سے کبھی بات نہیں کی جبکہ کہ افضل کو زبانی بتا دیا گیا تھا کہ وہ بے قصور ہیں اور ان کو کلیئر کیا جا چکا ہے۔

تاہم ڈاکٹر فرحان عبادت کے مطابق ’یہ معاملہ ڈاکٹر عالیہ نے حل کرنا تھا میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔‘

ڈاکٹر فرحان کا کہنا ہے مجھے ڈاکٹر عالیہ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ان بچوں کے خلاف بھی ایکشن لینا ہے۔

کیا ایک خط افضل کی جان بچا سکتا تھا؟
ڈاکٹر عالیہ رحمان کے مطابق ’میں نے افضل سے کہا کہ آپ ایک درخواست دے دیں کہ مجھے خط جاری کیا جائے میں وہ آگے تک پہنچا دوں گی۔‘

’8 اکتوبر کی دوپہر افضل میرے پاس آئے اس وقت میں کالج گیٹ سے گھر کے لیے نکل رہی تھی۔ انھوں نے مجھے ایک لیٹر دیا میں نے اس لیٹر کی پہلی تین چار لائنیں پڑھیں جس میں لکھا تھا کہ آپ مجھے کلیرنس لیٹر جاری کردیں میں نے وہ اپنی فائل میں رکھا اور میں چلی گئی۔‘تاہم اگلے دن جب میں کالج پہنچی تو مجھے پتا چلا کہ افضل نے خودکشی کرلی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’میری غلطی ہے کہ میں نے وہ لیٹر پورا نہیں پڑھا کیونکہ لیٹر کی آخری لائنوں میں لکھا تھا کہ میری تنخواہ میری والدہ کو دے دی جائے۔ میں اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ افضل کھبی اپنی جان بھی لے سکتا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ ہنستا کھیلتا رہتا تھا۔‘

ڈاکٹر عالیہ کا کہنا ہے کہ ’افضل کی موت کے بعد میں نے پرنسپل صاحب کو وہ ایپلیکیشن دکھائی جو افضل نے مجھے دی تھی۔ انھوں نے مجھے کہا کہ یہ تو افضل نے آپ کو لکھا ہے تو آپ اس کو دیکھیں جبکہ میں نے ان سے کہا کہ سر میں کیسے دیکھ سکتی ہوں جب تک آپ مجھے اجازت نہیں دیتے لکھ کر۔ انھوں نے جواب دیا کہ چھوڑ دیں جب تک ضرورت نہیں پڑتی آپ صرف اپنے کاغذات مکمل رکھیں، جب آپ سے کوئی مانگے تو دے دیجیے گا۔‘

تاہم ڈاکٹر فرحان نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ڈاکٹر عالیہ کا لیٹر افضل محمود کی موت کے بعد ان کے پاس لے کر آئیں۔

کیاانتظامیہ ہراس کے خلاف اقدامات کے طریقہ کار سے لا علم ہے؟

ایم اے او کالج کے پرنسپل فرحان عبادت نے دعویٰ کیا کہ انھیں ہراس کے خلاف اقدامات کا اختیار تو دیا گیا ہے لیکن اس بارے میں کوئی تربیت یا آگاہی نہیں دی گئی۔

’ہمیں حکومت کی جانب سے کسی قسم کی ٹریننگ یا تربیت نہیں دی جاتی کہ ہم نے ایسے معاملات کو کیسے دیکھنا ہے۔‘

بی بی سی کی نامہ نگار کی جانب سے ڈاکٹر فرحان سے سوال کیا گیا کہ ’کیا تین مہینے میں میں آپ نے اس کیس کو فالو اپ کیا یا ان سٹوڈنٹس کے خلاف ڈسپلن کے تحت کوئی کارروائی کی یا افضل کی موت کے بعد آپ نے معاملے کی چھان بین کی؟ تو ڈاکٹر فرحان نے جواب دیا کہ ’نہیں یہ بات میرے ذہن ہی میں نہیں آئی کہ ایسا کرنا چاہیے۔‘

کالج پرنسپل ڈاکٹر فرحان عبادت نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ میں نے کلیئرنس خط افضل کو جاری نہیں کیا کیونکہ میں سمجھا کہ ڈاکٹر عالیہ نے افضل کو بتا دیا ہے۔ پرنسپل سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ تین ماہ کا وقت گزرنے کے بعد آپ نے اس کیس میں کیا؟ جس پر وہ کسی قسم کا جواب نہ دے سکے۔

افسوسناک! اسٹوڈنٹس کو ایسی نیچ حرکتیں کرتے دیکھا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ زیادہ تر ان کی جانب سے دیکھنے میں آتا ہے جو سخت ماحول اور محنت کا مقابلہ نہیں کر پاتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بچوں کو مارکس حاصل کرنے کے معاملے میں بہت حساس بنا دیا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ صحتمند مقابلے کی فضا پیدا ہو اور ہر کوئی اپنی محنت کے بل بوتے پر آگے بڑھے۔ ہر شاگرد پوری ایمانداری سے اپنی کمزوریوں کو مانے اور ان کو سدھارنے کی کوشش کرے نہ کہ دوسروں کو کچل کر آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ اس سوچ کے بعد ہی کوئی بہتری دیکھنے میں آسکتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایم اے او کالج: ہراسانی کے جھوٹے الزام پر ٹیچر کی خودکشی، قصور وار کون؟
ترہب اصغر بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
  • 19 اکتوبر 2019
_109294636_whatsappimage2019-10-19at1.05.44pm.jpg


پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے ایم اے او کالج میں انگریزی پڑھانے والے لیکچرار افضل محمود نے ایک خاتون طالب علم کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزام اور تحقیقات کے بعد اس کے غلط ثابت ہونے کے باوجود انتظامیہ کی جانب سے تصدیقی خط جاری نہ کرنے پر خودکشی کر لی ہے۔

ایم اے او کالج میں انگریزی کے استاد افضل محمود نے نو اکتوبر کو زہر کھا کر خودکشی کر لی تھی۔

افضل محمود کی لاش کے ساتھ ان کی اپنی تحریر میں ایک نوٹ موجود تھا جس پر تحریر تھا کہ وہ اپنا معاملہ اب اللہ کے سپرد کر رہے ہیں اور ان کی موت کے بارے میں کسی کی نہ تفتیش کریں اور نہ ہی زحمت دیں۔

پولیس اور میڈیکل رپورٹ سے ان کی خودکشی اور نوٹ لکھنے کی تصدیق ہو چکی ہے۔

محمد افضل کے ایک دوست نے ایک خط بی بی سی کو دکھایا جو اپنی موت سے ایک دن قبل انھوں نے اپنی سینیئر ساتھی پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمان کو لکھا تھا۔ پروفیسر عالیہ محمد افضل کے خلاف ایک خاتون طالب علم کو ہراساں کرنے کی انکوائری کرنے والی کمیٹی کی سربراہ تھیں۔

افضل محمود نے خودکشی کیوں کی؟
خودکشی کرنے سے ایک روز قبل ڈاکٹر عالیہ کے نام اپنے خط میں افضل محمود نے شکایت کی کہ انھیں ہراس کرنے کے الزام سے بری الذمہ قرار دینے کے باوجود ابھی تک انھیں تحریری طور پر کمیٹی کی طرف سے اس فیصلے سے آگاہ کیوں نہیں کیا گیا ہے۔

’یہ بات ہر طرف پھیل چکی ہے جس کی وجہ سے میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوں اور جب تک کمیٹی مجھے تحریری طور پر اس الزام سے بری نہیں کرتی میرے بارے میں یہ تاثر رہے گا کہ میں ایک برے کردار کا شخص ہوں۔

میری خواہش ہے کہ یا تو تحریری طور پر مجھے ان الزامات سے بری کرنے کا خط جاری کیا جائے یا انکوائری دوبارہ کر لی جائے تاکہ میرے علاوہ باقی اساتذہ جو طلبا کے ساتھ (پڑھائی کے معاملے میں) سختی کرتے ہیں یا انھیں امتحان میں کارکردگی کے مطابق نمبر دیتے ہیں نہ کہ دباؤ کے تحت، انھیں بھی مستقبل میں اس طرح کے الزامات سے بچایا جا سکے۔‘

افضل محمود نے تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس جھوٹے الزام کی وجہ سے میرا خاندان پریشانی کا شکار ہے۔

’میری بیوی بھی آج مجھے بد کردار قرار دے کر جا چکی ہے۔ میرے پاس زندگی میں کچھ نہیں بچا۔ میں کالج اور گھر میں ایک بدکردار آدمی کے طور پر جانا جاتا ہوں۔ اس وجہ سے میرے دل اور دماغ میں ہر وقت تکلیف ہوتی ہے۔‘

افضل محمود آخر میں لکھتے ہیں کہ ’اگر کسی وقت ان کی موت ہو جائے تو ان کی تنخواہ اور اس الزام سے بریت کا خط ان کی والدہ کو دے دیا جائے۔‘

افضل محمود کے خلاف الزام جھوٹا ثابت ہو چکا تھا

افضل محمود پر ایک خاتون طالب علم کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزام کی تفیتیش کرنے والی، ایم اے او ہراسمنٹ کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر عالیہ رحمان نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ افضل محمود پر لگنے والا الزام دوران تفتیش جھوٹا ثابت ہوا تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان تک ماس کمیو نیکشن ڈیپارٹمنٹ کی ایک طالب علم کی ایک درخواست پہنچی تھی جس میں لکھا تھا کہ سر افضل لڑکیوں کو گھور کر دیکھتے ہیں۔

’جب یہ کیس میرے پاس آیا تو میں نے اس لڑکی سے بات کی تو اس نے مجھے کہا کہ اصل میں سر ہمارے نمبر کاٹتے ہیں اور ہماری کلاس میں حاضری کم تھی اس لیے سر نے ہمارے نمبر کاٹ لیے۔‘

’میں نے ان سے کہا کہ اس بات کو سائیڈ پر کریں اور ان کے کریکٹر کی بات کریں اور یہ بتائیں کہ افضل نے ان کے ساتھ کبھی کوئی غیر اخلاقی بات یا حرکت کی؟

جس پر الزام لگانے والی طالبہ نے جواب دیا کہ ’نہیں مجھے تو نہیں کہا لیکن میری کلاس کی لڑکیاں کہتی ہیں کہ وہ ہمیں گھورتے ہیں۔‘

ڈاکٹر عالیہ کے مطابق انھوں نے انکوائری مکمل کرنے کے بعد انکوائری رپورٹ میں یہ لکھ دیا کہ افضل کے اوپر غلط الزامات لگائے گئے ہیں اور وہ معصوم ہیں۔ میں نے اپنی انکوائری رپورٹ میں یہ لکھا تھا کہ افضل بے قصور ہیں اور اس لڑکی کے کو وارننگ جاری کی جائے اور اسے سختی سے ڈیل کیا جائے۔

ڈاکٹر عالیہ نے بتایا کہ انھوں نے افضل سے بھی انکوائری کی اور اپنی تمام تر تحقیقات فائنڈنگز میں لکھ دی تھیں۔

’ساتھ ہی ساتھ میں نے یہ بھی لکھا کہ اس معاملے کو خصوصی طور پر دیکھا جائے تاکہ آئندہ کوئی طالبہ کسی بھی استاد پر غلط الزام نہ لگائے۔‘

پھر افضل کو بری الذمہ قرار کیوں نہیں دیا گیا؟
ڈاکٹر عالیہ نے اس سوال پر کہا کہ ان کا مینڈیٹ اس معاملے کی تفتیش کر کے رپورٹ کالج پرنسپل کے حوالے کرنا تھا۔

’ہم نے اپنی رپورٹ مکمل کر کے تین ماہ قبل پرنسپل صاحب کو بھجوا دی تھی۔ اگلے مرحلے میں پرنسپل صاحب نے افضل کو ایک کلیئرنس لیٹر جاری کرنا تھا جس میں یہ لکھا جاتا کہ افضل بے قصور ہیں اور ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔‘

ڈاکٹر عالیہ نے کہا کہ افضل نے مجھ سے جس سرٹیفیکٹ کا مطالبہ مرنے سے ایک دن پہلے کیا وہ جاری کرنا میرے اختیار میں نہیں تھا۔ ایسا صرف کالج پرنسپل ہی کر سکتے تھے۔ بی بی سی نے کالج کے پرنسپل فرحان عبادت سے اس حوالے سے دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’افضل میرے پاس آیا ہی نہیں اگر وہ آتا تو میں اسے لیٹر جاری کر دیتا۔‘

ڈاکٹر فرحان نے کہا کہ انکوائری رپورٹ مکمل ہونے کے بعد سے افضل نے ان سے کبھی بات نہیں کی جبکہ کہ افضل کو زبانی بتا دیا گیا تھا کہ وہ بے قصور ہیں اور ان کو کلیئر کیا جا چکا ہے۔

تاہم ڈاکٹر فرحان عبادت کے مطابق ’یہ معاملہ ڈاکٹر عالیہ نے حل کرنا تھا میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔‘

ڈاکٹر فرحان کا کہنا ہے مجھے ڈاکٹر عالیہ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ان بچوں کے خلاف بھی ایکشن لینا ہے۔

کیا ایک خط افضل کی جان بچا سکتا تھا؟
ڈاکٹر عالیہ رحمان کے مطابق ’میں نے افضل سے کہا کہ آپ ایک درخواست دے دیں کہ مجھے خط جاری کیا جائے میں وہ آگے تک پہنچا دوں گی۔‘

’8 اکتوبر کی دوپہر افضل میرے پاس آئے اس وقت میں کالج گیٹ سے گھر کے لیے نکل رہی تھی۔ انھوں نے مجھے ایک لیٹر دیا میں نے اس لیٹر کی پہلی تین چار لائنیں پڑھیں جس میں لکھا تھا کہ آپ مجھے کلیرنس لیٹر جاری کردیں میں نے وہ اپنی فائل میں رکھا اور میں چلی گئی۔‘تاہم اگلے دن جب میں کالج پہنچی تو مجھے پتا چلا کہ افضل نے خودکشی کرلی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’میری غلطی ہے کہ میں نے وہ لیٹر پورا نہیں پڑھا کیونکہ لیٹر کی آخری لائنوں میں لکھا تھا کہ میری تنخواہ میری والدہ کو دے دی جائے۔ میں اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ افضل کھبی اپنی جان بھی لے سکتا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ ہنستا کھیلتا رہتا تھا۔‘

ڈاکٹر عالیہ کا کہنا ہے کہ ’افضل کی موت کے بعد میں نے پرنسپل صاحب کو وہ ایپلیکیشن دکھائی جو افضل نے مجھے دی تھی۔ انھوں نے مجھے کہا کہ یہ تو افضل نے آپ کو لکھا ہے تو آپ اس کو دیکھیں جبکہ میں نے ان سے کہا کہ سر میں کیسے دیکھ سکتی ہوں جب تک آپ مجھے اجازت نہیں دیتے لکھ کر۔ انھوں نے جواب دیا کہ چھوڑ دیں جب تک ضرورت نہیں پڑتی آپ صرف اپنے کاغذات مکمل رکھیں، جب آپ سے کوئی مانگے تو دے دیجیے گا۔‘

تاہم ڈاکٹر فرحان نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ڈاکٹر عالیہ کا لیٹر افضل محمود کی موت کے بعد ان کے پاس لے کر آئیں۔

کیاانتظامیہ ہراس کے خلاف اقدامات کے طریقہ کار سے لا علم ہے؟

ایم اے او کالج کے پرنسپل فرحان عبادت نے دعویٰ کیا کہ انھیں ہراس کے خلاف اقدامات کا اختیار تو دیا گیا ہے لیکن اس بارے میں کوئی تربیت یا آگاہی نہیں دی گئی۔

’ہمیں حکومت کی جانب سے کسی قسم کی ٹریننگ یا تربیت نہیں دی جاتی کہ ہم نے ایسے معاملات کو کیسے دیکھنا ہے۔‘

بی بی سی کی نامہ نگار کی جانب سے ڈاکٹر فرحان سے سوال کیا گیا کہ ’کیا تین مہینے میں میں آپ نے اس کیس کو فالو اپ کیا یا ان سٹوڈنٹس کے خلاف ڈسپلن کے تحت کوئی کارروائی کی یا افضل کی موت کے بعد آپ نے معاملے کی چھان بین کی؟ تو ڈاکٹر فرحان نے جواب دیا کہ ’نہیں یہ بات میرے ذہن ہی میں نہیں آئی کہ ایسا کرنا چاہیے۔‘

کالج پرنسپل ڈاکٹر فرحان عبادت نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ میں نے کلیئرنس خط افضل کو جاری نہیں کیا کیونکہ میں سمجھا کہ ڈاکٹر عالیہ نے افضل کو بتا دیا ہے۔ پرنسپل سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ تین ماہ کا وقت گزرنے کے بعد آپ نے اس کیس میں کیا؟ جس پر وہ کسی قسم کا جواب نہ دے سکے۔
انتہائی افسوسناک خبر ہے۔ قصور وار اللہ ہی جانے کون ہے:

کیا وہ لڑکی جس نے غلط الزام لگایا؟

کیا کالج کی انتظامیہ جنہوں نے بریت کا تحریری ثبوت نہ دیا؟ (کالج والوں کا کہنا ہے کہ کالج کو لکھے گئے خط اور خود کشی میں صرف ایک دن کا وقفہ ہے۔ لیکچرار نے کالج کو خط لکھ کر جواب کا انتظار نہیں کیا)۔

کیا لیکچرار کے گھر کی دو عورتیں؟ لیکچرار نے لکھا کہ والدہ شدید ناراض ہیں اور بیوی گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ (اگر لیکچرار کی والدہ اور بیوی اس مشکل وقت میں اس کا ساتھ دیتیں اور اسکی بات کا یقین کر کے اس کو ثابت قدم رہنے کا کہتیں تو شاید لیکچرار یہ انتہائی قدم نہ اٹھاتا)۔
 

محمد سعد

محفلین
انتہائی افسوسناک خبر ہے۔ قصور وار اللہ ہی جانے کون ہے:

کیا وہ لڑکی جس نے غلط الزام لگایا؟

کیا کالج کی انتظامیہ جنہوں نے بریت کا تحریری ثبوت نہ دیا؟ (کالج والوں کا کہنا ہے کہ کالج کو لکھے گئے خط اور خود کشی میں صرف ایک دن کا وقفہ ہے۔ لیکچرار نے کالج کو خط لکھ کر جواب کا انتظار نہیں کیا)۔

کیا لیکچرار کے گھر کی دو عورتیں؟ لیکچرار نے لکھا کہ والدہ شدید ناراض ہیں اور بیوی گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ (اگر لیکچرار کی والدہ اور بیوی اس مشکل وقت میں اس کا ساتھ دیتیں اور اسکی بات کا یقین کر کے اس کو ثابت قدم رہنے کا کہتیں تو شاید لیکچرار یہ انتہائی قدم نہ اٹھاتا)۔
حقیقی دنیا کے زیادہ تر مسائل اسی طرح پیچیدہ ہوتے ہیں۔ ہمارا reductionist طرز فکر ہمارے لیے ان واقعات سے سیکھ کر آئندہ ان سے بچنے کی تدبیر کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
عمدہ مضمون اور اچھے دلائل۔ تعلیمی نصاب، مختلف علاقوں اور ڈیموگرافکس کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہوئے بھی ایسا ترتیب دیا جا سکتا ہے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام بچوں کو اپنے اچھے برے حالات کے باوجود زندگی میں آگے بڑھنے کی صلاحیت کم و بیش یکساں طور پر دے سکے۔
ساری دنیا پر ایک فارمولے کا اطلاق کم ہی کامیاب ہوتے دیکھا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نصاب کی ترامیم سے کہیں زیادہ (فی الحال) اس بات کی اہمیت ہے کہ نظام تعلیم کے موجودہ معیارات کو ہی کتنا قائم رکھا جاتا ہے ۔
(اساتذہ کی اہلیت اور تعلیمی نظام کی ملک گیر پیمانے پر پابندی وغیرہ ۔)
 
جو نظام تعلیم ااور جو کتب، عورتوں کی تذلیل، مردوں کی غلامی اور ٹیکس (زکواۃ) کی مقدار کٓو بیس فی صد سے کم کرکے ڈھائی فی صد کرکے 55 ممآلک کی معیشیت اور سماجی ڈھانچا تباہ کرچکی ہیں، اس نظام تعلیم اور کتب کو بغداد شریف سے امپورٹ کرٓنا ایک نئے دارالعلوم بریلی اورٓ ایک نئے دارالعلوم دیوبند کی بناد ڈالنے کے مساوی ہے جہاں صرف خالص ذاتوں کے افراد ہی تعٓلیم حاصلٓ کرسکیں گے۔

اچھا ہے ، تباہی ان قوموں کا مقدر بن چکی ہے۔
 
ٓٓ
میرا ایک دوست امتیازی حیثیت میں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر کے پنجاب یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہے۔ اس کے ساتھ جماعت اسلامی اور ٖغیر جماعت اسلامی کے نااہل پی ایچ ڈی نے جو جو سلوک کیا ہے۔ اسی کی ہمت ہے کہ اسے برداشت کر رہا ہے۔ میں نے اسے کئی مرتبہ مشورہ دیا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی چھوڑ دو اور کہیں باہر کی یونیورسٹی میں پڑھاؤ مگر اسے جنون ہے کہ اس نے لوئر مڈل کلاس کے بچوں کو تعلیم دینی ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو اہل آدمی ہوتا ہے اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان سے بھاگ جائے۔

بالکل درست فرمایا آپ نے، ملاء ازم بنتا ہٓی ایسے ہے کہ بدمعاشوں کے گروہ کا راج ، قانون کےراج سے اوپر ہوتا ہے۔
 
یکساں نصاب کا فائدہ؟
فیصل باری20 اکتوبر 2019

مجھے مختلف ذرائع سے جو کچھ سننے پڑھنے یا دیکھنے کو ملا ہے اس کے مطابق یہ تاثر کافی عام ہے کہ یکساں تعلیم/ نصاب/ کتابوں/ امتحانی عمل کے ذریعے ملک کے بچوں کے درمیان تفریقات میں کمی یا سرے سے ہی خاتمہ لائے جاسکے گی۔ تمام صوبوں، شہروں اور دیہی علاقوں کے بچے بلا صنفی، سماجی و معاشی امتیاز کم و بیش یکساں کورس پڑھیں گے اور ان کا امتحان بھی یکساں انداز میں لیا جائے گا۔ کئی لوگ یہ مانتے ہیں کہ اس طرح بچوں میں پائی جانے والی تفریقات کو ختم کیا جاسکے گا اور ’مساوی مواقع‘ کی دستیابی ممکن ہوسکے گی۔

تاہم مسئلہ یہ ہے کہ یکساں نصاب پر اگر عمل درآمد ہوا تو اس سے تفریقات میں کمی لانے میں مدد نہیں ملے گی۔ پاکستان میں بچوں کا تعلق مختلف سماجی و اقتصادی طبقات اور مختلف تعلیمی پس منظر رکھنے والے خاندانوں سے ہے۔ بچوں کی تعلیم پر کہیں زیادہ سرمایہ مختص کیا جاتا ہے اور کہیں کم، تمام بچے زبان پر یکساں انداز میں عبور نہیں رکھتے ہیں، ان کا تعلق مختلف ثقافتی و مذہبی پس منظر سے ہے جبکہ یہ الگ الگ جغرافیائی ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ یکساں نصاب، ایک جیسی کتابوں یا یکساں امتحانی عمل سے تفریقات میں کمی واقع نہیں ہوگی الٹا اس طرح تفریقات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

اگر امتحانات بہت ہی مشکل ہوئے تو ان میں کامیابی حاصل کرنے والوں اور ناکام ہوجانے والوں کے درمیان تفریق پیدا ہوگی۔ کسے ملازمتوں تک رسائی مل سکتی ہے اور کسے نہیں اس تناظر میں جب میٹرک پاس اور میٹرک فیل کے درمیان فرق کو ادارتی صورت دی جائے گی تو تفریقات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوگا۔

یکساں تعلیمی زبان (مثال کے طور پر اردو) کا نفاذ عمل میں لانے سے اگر گھر میں بولی جانے والی یا مادری زبان نظر انداز ہوجائے تو یوں ہم درحقیقت سیکھنے کے عمل میں بچوں کے لیے مشکلات کر رہے ہوتے ہیں۔

اگر نصاب اور کتب یکساں ہوں تو سندھ میں رہنے والے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے بچوں کو یکساں کتابیں پڑھنی ہوں گی اور یوں ان کی علاقائی ثقافتیں، روایات، تاریخ اور ادب نظر انداز ہوجائے گا (اب کیا بلھے شاہ کا کلام سرے سے نہ پڑھایا جائے یا پھر سب کو لازماً پڑھایا جائے؟)

چند روز قبل وزیراعظم نے کہا تھا کہ پاکستان میں ’ایک قوم‘ وجود میں لانے کے لیے یکساں نصاب ضروری ہے۔ اگرچہ یہ تو واضح نہیں کہ وہ حقیقی معنوں میں کیا کہنا چاہ رہے تھے، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ قوم میں اتحاد و اتفاق کے پہلو کا تعلق صرف غیر مساوات کے خاتمے سے ہی ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے نظریاتی یکسانیت کے تصور کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

مجھے کوئی ایک بھی ایسا ثبوت نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ یکساں نصاب، کتب اور امتحانی طریقہ کار نے ایک بڑے اور گونا گونیت سے بھرپور لوگوں کے گروہ کو نظریاتی طور پر زیادہ یکسانیت یا ہم آہنگی سے بھرپور گروہ بنانے کی راہ ہموار کی ہو۔ کیا اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے لازمی مضامین نے اس حوالے سے مدد فراہم کی؟ کیا اس حوالے سے کوئی ثبوت دستیاب ہے؟ آخر وہ کون سی بات ہے کہ جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ یکساں نصاب سے ہمیں ’ایک قوم‘ بننے جیسے مشکل مقصد کا حصول ممکن ہوگا؟ جس کے نفاذ کی ہم زیادہ صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔

اس قسم کے تجربے پر بھی ایک بڑی لاگت آئے گی۔ ہم یہ تو بڑی آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ اس نوعیت کے تجربے میں کوئی حرج نہیں کہ اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ یکساں نصاب، مجوزہ علمی کتابوں اور طے شدہ امتحانی نظام کو تمام اسکولوں میں متعارف کروانے میں ڈھیر سارا پیسہ اور سیاسی سرمایہ خرچ کرنا پڑے گا۔ ان وسائل کو اگر شعبہ تعلیم میں دیگر جگہوں پر خرچ کیا جائے تو زیادہ اچھی بات ہوگی۔ ہمیں اپنی توجہ ان متعدد اصلاحات پر مرکوز کرنی چاہیے جن کی تعلیمی شعبے میں اشد ضرورت ہے۔ کیا ہمیں اس فرضی ’یکساں نصاب‘ متعارف کروانے سے زیادہ ان اصلاحات کو ترجیح نہیں دینی چاہیے؟

پاکستان میں کم و بیش 2 کروڑ 20 لاکھ 5 سے 16 برس کے بچے اسکول سے باہر ہیں۔ سرکاری یا کم فیس کے لینے والے نجی اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی اکثریت غیر معیاری تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ ان مسائل کو چھوڑ کر ہم اپنے وسائل، وقت اور سیاسی سرمایہ یکسانیت کے معاملات پر لگانے پر تُلے ہیں۔

ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یکساں نصاب، علمی کتب اور امتحانی عمل، کا نفاذ اگر ممکن بھی ہوتا تو بھی اس سے اسکولوں تک رسائی اور معیار جیسے اہم مسائل حل نہیں ہوں گے۔ یکساں نصاب کس طرح 2 کروڑ 22 لاکھ کو اسکول میں داخل کروانے میں مددگار ثابت ہوگا؟

بچوں کے اسکول میں داخلے کی شرح بڑھانے کے لیے زیادہ اسکولوں، اساتذہ، ٹرانسپورٹ کی سہولیات اور اسکولوں میں داخلے کا رجحان بڑھانے کی خاطر خصوصی مراعات دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ نصاب کی یکسانیت سے ان میں سے کسی ایک معاملے پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ معیارِ تعلیم کا بڑی حد تک تعلق کتب، اساتذہ کے فن تدریس اور نصابی علم، ٹیچر میں ترغیب پیدا کرنے، اور تعلیم کی صورتحال کا تعین کرنے کے معیاری طریقے درکار ہوتے ہیں لیکن ان شعبوں میں سدھار لانے کے لیے یکسانیت کون سا کردار ادا کرسکتی ہے؟

حکومت یکسانیت کو برابری (equity) سے جڑے مسائل ختم کرنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ تاہم میں یہاں بھی یہی کہوں گا کہ یکسانیت کے ذریعے برابری قائم نہیں کی جاسکتی۔ بچوں کے حالات، ان کی ضروریات، صلاحیتوں اور خواہشات کی گونا گونیت پر مبنی فریم ورک کی حدود میں رہتے ہوئے برابری سے جڑے مسائل حل کرنا ہوں گے۔ اس حوالے سے یکساں نصاب سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا اُلٹا برابری سے جڑے مسائل بد سے بدتر ہوں گے۔

برابری، اسکولوں تک رسائی اور معیار سے جڑے مسائل کے حل کے لیے شعبہ تعلیم کو متعدد اور بنیادی نوعیت کی اصلاحات درکار ہیں۔ تاہم یکساں نصاب، کتب اور/یا امتحانی نظام کے نفاذ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس عمل سے کوئی ایک بھی ایسا مسئلہ حل نہیں ہوگا جسے ہم حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر یکساں نصاب سے متعلق اس اصلاحاتی عمل کا نفاذ ممکن ہو بھی جاتا تو اس کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھانے پڑیں گے جبکہ اس کے نتیجے میں تعلیم سے جڑے دیگر شعبوں کو ٹھیس بھی پہنچے گی۔

ٹیٓکس دیا جائے گا تو ان سب مدوں پر خرٓچ کرنے کے لئے رقم آئے گی ۔ ورنہ کچھ بھی نہیں
 

ابن جمال

محفلین
پوری بحث پڑھنے کے بعد یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یکساں نظام تعلیم سے خطرہ کیاہے، کیا کچھ لوگ جوخود کواشرافیہ یابرہمن سمجھتے ہیں ان کو ڈر ہے کہ ان کو یکساں نظام تعلیم میں اچھوتوں اورہریجنوں کے برابر لاکھڑاکیاجائے گا اور برسوں سے ان کی جو برہمنیت قائم ہے وہ ختم ہوجائے گی، یکساں نظام تعلیم پر ہونے والے تمام اعتراضات لچرپوچ اورفالتو عقل کی پیداوار ہیں اورکسی میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔
معیار تعلیم اچھاکرنے اورزیادہ سے زیادہ بچے تعلیم حاصل کریں ،اس سے انکار کس کو ہے، لیکن یہ کام یکساں نظام تعلیم کے دائرے میں بھی توہوسکتاہے کیوں اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک میں برہمن ،چھتری ،ویش اور اچھوتوں کیلئے الگ الگ نظام تعلیم قائم کیاجائے۔ایک نظام تعلیم ہوناچاہئے، چاہئے پرائیویٹ اسکول ہوں،یاپھر سرکاری اسکول نظام تعلیم ایک ہی رہناچاہئے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اپنے وزیرِ اعظم کے بچوں کو بھی پاکستان بلوالیجیے گورنمنٹ اسکول میں پڑھنے کے لئے، یا پاکستان میں صرف وہی برہمن ہیں؟
صرف برہمن؟ دیوتا کہیے دیوتا حضرت! وہ نہ صرف لکھ پڑھ چکے بلکہ اربوں کھربوں کے مالک بھی ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ ان کا والد جس ملک کا وزیر اعظم کہلواتا ہے اس ملک کے وہ شہری ہی نہیں!

بوجھو تو جانیں! :)
 

محمد وارث

لائبریرین
مجھے اچھی طرح یاد ہے، اور میری طرح جو احباب گورنمنٹ کے اسکولوں کالجوں میں پڑھتے رہے ہیں ان کو بھی یاد ہوگا کہ بارہویں چودہویں کی جماعتوں میں جو انگریزی مضمون لکھنا ہوتا تھا اس میں ایک "ہاٹ ٹاپک" طبقاتی نظامِ تعلیم کی برائیاں اور اس کا خاتمہ ہوتا تھا اور اس کو ہم خوب رٹا مارتے تھے کہ مشہور تھا کہ اس موضوع پر تو مضمون لازمی آتا ہے۔ اللہ جانے وہ رٹا مار دلائل جن سے ہم صفحات سیاہ کیا کرتے تھے کیا ہوئے؟ :)
 
صرف برہمن؟ دیوتا کہیے دیوتا حضرت! وہ نہ صرف لکھ پڑھ چکے بلکہ اربوں کھربوں کے مالک بھی ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ ان کا والد جس ملک کا وزیر اعظم کہلواتا ہے اس ملک کے وہ شہری ہی نہیں!

بوجھو تو جانیں! :)
متفق۔ یہی بات ہم نے بھی کہی تھی کہ ایلیٹ کلاس کے لیے تو کوئی مشکل ہی نہیں، ذوالفقار علی بھٹو کے بچے ہوں، نواز شریف کے بچے ہوں یا عمران خان کے بچے۔ یہ تو باہر ہی پڑھیں گے۔

ہم اپنے بچوں کو اپنا پیٹ کاٹ کر بھی اچھی تعلیم دلانا چاہیں تو یہ بات لغو اور لچر گردانہ جاتی ہے۔ دنیا ٹوٹیلیٹیرین ازم سے دور بھاگ رہی ہے اور ہم ٹوٹیلیٹیرین نظام کی جانب دوڑتے ہوئے چلے جارہے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
باقی بچے پاکستانی کمی کمین، ان کے لیے ایک ایسا نظام بنایا جائے گا کہ کوئی بھی صاحب کے بچوں کی برابری نہ کرسکے۔

ہمارے باقی ماندہ سیاستدانوں کو دیکھ کر لگتا تو نہیں ہے کہ وہ کسی بھی تعلیمی نظام سے گزر کر آئے ہیں۔

عمران خان کو تو اقتدار میں آئے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے کون سے کمی کمین ہم پر حکمران تھے۔

ہمارے ہاں کوئی مخصوص تعلیمی طبقہ برسر اقتدار نہیں رہتا۔ بلکہ استحصالی طبقہ برسرِ اقتدار رہتا ہے چاہے وہ کسی بھی نظامََ تعلیم کی پیداوار ہو۔
 

محمد سعد

محفلین
میں تو اس مخمصے میں پڑا ہوا ہوں کہ یکساں نظام تعلیم سے یہاں مراد کیا ہے۔ کسی کے نزدیک یکساں نظام یہ ہے کہ سب بچے سرکاری سکولوں میں داخل کیے جائیں، کسی نے نزدیک یہ ہے کہ سب کو نصاب ایک ہی پڑھایا جائے جس میں علاقائی اور کلچرل تغیرات کی بھی گنجائش نہ ہو، کسی کے نزدیک یہ ہے کہ جو گنے چنے ادارے کچھ ایسی تعلیم دے رہے ہیں جو طلباء کو کچھ فائدہ پہنچا سکتی ہے انہیں ہی دیس نکالا دے دیا جائے اور سب کو کمتر درجے کے اداروں میں تعلیم حاصل کرنا لازم ٹھہرے۔ ان تینوں میں سے تو ایک بھی صورت کام نہیں کرتی۔ کسی ایسی یکسانیت پر بات کریں جو معاشرے کو بحیثیت مجموعی کچھ فائدہ تو دے۔
 
Top