آپ کے شہر کے پکوان

محمد وارث

لائبریرین
جی جی الحمدللہ یہ حادثہ ہوچکا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم ابھی تک اس حادثے کے اثر سے باہر نہیں نکل پائے۔
تو پھر کب آرہے ہیں کٹوہ گوشت کا ذائقہ چکھنے۔
04%2BKatwa.jpg
اس حادثے کے نتیجے میں "جمیلۃ" مِل گئیں، وقت کے ساتھ ساتھ اللہ "صبرِ جمیل" بھی دے دے گا! :)
 

سید عمران

محفلین
چاۓ ہم پلا دیتے ہیں جناب بس دودھ، چینی، اور پتی لیتے آیے گا باقی اللہ کا شکر ہے سب موجود ہے
اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم چائے کے لیے دودھ،چینی اور پتی کا انتظام کردیتے باقی لوازمات لیتے آیے گا
بہت شکریہ آپ کی دعوتوں کا۔۔۔
ہمیں یہاں کھلانے پلانے والے بہت!!!
 
ہیں ں ں ں!!!
یاز بھائیان کیا بہاولپوری ہیں؟
یاز پائین کسی ایک علاقے کے ہو ہی نہیں سکتے۔ جس حساب سے گھومتے پھرتے اور علاقہ جات کی باریک بینیاں بتاتے، لگتا ہے پاکستان کا کونہ کونہ رہ کر دیکھ چکے ہیں۔ پر۔۔۔۔۔۔۔۔ ھن کتھے نیں !!!
 
گوجرانوالہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس شہر کی آدھی آبادی کھانا بنانے اور آدھی کھانے میں مصروف رہتی ہے اور یہاں کے باسیوں کو صبح کے ناشتے کی میز پر ہی ظہرانے اور دوپہر کے کھانے پر ہی عشائیے کی فکر ستانے لگتی ہے۔

40 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل صوبہ پنجاب کا یہ شہر جہاں فن پہلوانی کی وجہ سے مشہور ہے وہیں کھانے پینے میں بھی اپنا منفرد مقام رکھتا ہے اور یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ گوجرانوالہ والے کھانے کے معیار اور مقدار دونوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔

اس شہر میں دوپہر کے کھانے کا سلسلہ بھی شام پانچ بجے تک چلتا ہے اور پھر ایک گھنٹے کے وقفے کے بعد ریستوران رات کے کھانے کے لیے دوبارہ کھل جاتے ہیں۔

160914102032_gujranwala_food_640x360_bbc_nocredit.jpg

ایک ڈش جو اس شہر کی دنیا بھر میں پہچان بن گئی ہے وہ یہاں کے چڑے اور بٹیرے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے پرندے جہاں ملک کے دیگر علاقوں میں رہنے والوں کی نظر میں اپنی معصومیت کی وجہ سے پسندیدہ ہیں وہیں اس شہر میں کوئی بھی مینیو ان کی بھُنی ہوئی شکل کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔

سال کا کوئی بھی مہینہ یا موسم ہو گوجرانوالہ میں ’بار بی کیو‘ کی دکانوں پر ان کے شائقین کی بھیڑ لگی رہتی ہے کوئی انھیں بھون کر کھانے کا شوقین ہے تو کچھ ان کا کڑاہی گوشت بنوا کر کھانا پسند کرتے ہیں۔

شہباز احمد گوجرانوالہ میں ایک ایسا ہی ریستوران چلاتے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ چڑے اور بٹیرے ایسی ڈشز ہیں جن کی مانگ میں کبھی بھی کمی نہیں آئی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

160914102148_gujranwala_food_640x360_bbc_nocredit.jpg

ان کا کہنا ہے کہ اُن سمیت دیگر ریستورانوں کے شکاریوں کے ساتھ باقاعدہ معاہدے ہوتے ہیں جو ان کے لیے چڑوں اور بٹیروں کا شکار کرتے ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ یہ ڈش گوجرانوالہ کی ایک سوغات کے طور پر جانی جاتی ہے اور بہت سے لوگ نہ صرف دوسرے شہروں بلکہ دوسرے ملکوں سے بھی اس کھانے کے لیے شہر کا رخ کرتے ہیں۔

گوجرانوالہ کو خوش خوراک افراد کا شہر کہا جاتا ہے اور اس کی زندہ مثال یہ ڈش کھانے والے افراد ہیں جو ان پرندوں کو ہڈیوں سمیت ہی کھاتے ہیں اور اگر کوئی شخص گوشت کو ہڈیوں سے الگ کر کے کھانے کی کوشش کرتا دکھائی دے تو اسے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔

160914101924_gujranwala_food_640x360_bbc_nocredit.jpg

شہباز احمد کے مطابق ایک عام آدمی ایک نشست میں ایک سے دو درجن چڑے اور بٹیرے کھاجاتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں اگر اس نے اس کے ساتھ کھانے کی کسی دوسری چیزوں کا بھی آرڈر دیا ہو۔

اُنھوں نے بعض ایسے گاہکوں کا بھی ذکر کیا جو ایک نشست میں ایک سو چڑے اور بٹیرے کھا جاتے ہیں تاہم اُن کا کہنا تھا کہ مہنگی ڈش ہونے کی وجہ سے ایسے گاہکوں کی تعداد کم ہے۔

پہلوانوں کے اس شہر کے رہنے والوں میں ان پرندوں کی مقبولیت کی وجہ ان کا توانائی بخش ہونا بھی بتائی جاتی ہے۔

160914102701_gujranwala_food_640x360_bbc_nocredit.jpg

ریستوران میں موجود ایک شخص نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اکھاڑے میں ڈنڈ پیلنے کے بعد جسم کو جس قوت کی ضرورت ہوتی ہے، گرم تاثیر والے یہ پرندے اسے پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

گوجرانوالہ کے لوگ صرف چڑے اور بٹیرے جیسے چھوٹے پرندوں کے ہی شوقین نہیں بلکہ وہ ساتھ ہی ساتھ اونٹ جیسے بڑے جانور کے گوشت کو بھی نہیں چھوڑتے۔

160914103311_gujranwala_food_640x360_bbc_nocredit.jpg

شہر کے وسطی علاقے میں ایک چھوٹی سے دکان اونٹوں کی ٹکیوں کے لیے مشہور ہے جہاں روزانہ دو اونٹوں کا قیمہ بنا کر ان کی ٹکیاں فروخت ہوتی ہیں اور زبان کے چٹخارے کے لیے لوگ دو دو گھنٹے انتظار کی زحمت اٹھانے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

گوجرانوالہ والوں کا کھانا میٹھے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو جب بات میٹھے کی ہو شہر کی شیرے والی گلاب جامنوں کا کوئی ثانی نہیں۔

قیام پاکستان سے پہلے سے شہر میں قائم ایک دکان پر لوگ صرف گلاب جامن کھانے کے لیے ہی آتے ہیں اور اس دکان کے سپروائزر کے مطابق ایک دن میں دس سے بارہ من گلاب جامن فروخت ہو جاتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گوجرانوالہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس شہر کی آدھی آبادی کھانا بنانے اور آدھی کھانے میں مصروف رہتی ہے اور یہاں کے باسیوں کو صبح کے ناشتے کی میز پر ہی ظہرانے اور دوپہر کے کھانے پر ہی عشائیے کی فکر ستانے لگتی ہے۔

40 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل صوبہ پنجاب کا یہ شہر جہاں فن پہلوانی کی وجہ سے مشہور ہے وہیں کھانے پینے میں بھی اپنا منفرد مقام رکھتا ہے اور یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ گوجرانوالہ والے کھانے کے معیار اور مقدار دونوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔

اس شہر میں دوپہر کے کھانے کا سلسلہ بھی شام پانچ بجے تک چلتا ہے اور پھر ایک گھنٹے کے وقفے کے بعد ریستوران رات کے کھانے کے لیے دوبارہ کھل جاتے ہیں۔

160914102032_gujranwala_food_640x360_bbc_nocredit.jpg

ایک ڈش جو اس شہر کی دنیا بھر میں پہچان بن گئی ہے وہ یہاں کے چڑے اور بٹیرے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے پرندے جہاں ملک کے دیگر علاقوں میں رہنے والوں کی نظر میں اپنی معصومیت کی وجہ سے پسندیدہ ہیں وہیں اس شہر میں کوئی بھی مینیو ان کی بھُنی ہوئی شکل کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔

سال کا کوئی بھی مہینہ یا موسم ہو گوجرانوالہ میں ’بار بی کیو‘ کی دکانوں پر ان کے شائقین کی بھیڑ لگی رہتی ہے کوئی انھیں بھون کر کھانے کا شوقین ہے تو کچھ ان کا کڑاہی گوشت بنوا کر کھانا پسند کرتے ہیں۔

شہباز احمد گوجرانوالہ میں ایک ایسا ہی ریستوران چلاتے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ چڑے اور بٹیرے ایسی ڈشز ہیں جن کی مانگ میں کبھی بھی کمی نہیں آئی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

160914102148_gujranwala_food_640x360_bbc_nocredit.jpg

ان کا کہنا ہے کہ اُن سمیت دیگر ریستورانوں کے شکاریوں کے ساتھ باقاعدہ معاہدے ہوتے ہیں جو ان کے لیے چڑوں اور بٹیروں کا شکار کرتے ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ یہ ڈش گوجرانوالہ کی ایک سوغات کے طور پر جانی جاتی ہے اور بہت سے لوگ نہ صرف دوسرے شہروں بلکہ دوسرے ملکوں سے بھی اس کھانے کے لیے شہر کا رخ کرتے ہیں۔

گوجرانوالہ کو خوش خوراک افراد کا شہر کہا جاتا ہے اور اس کی زندہ مثال یہ ڈش کھانے والے افراد ہیں جو ان پرندوں کو ہڈیوں سمیت ہی کھاتے ہیں اور اگر کوئی شخص گوشت کو ہڈیوں سے الگ کر کے کھانے کی کوشش کرتا دکھائی دے تو اسے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔

160914101924_gujranwala_food_640x360_bbc_nocredit.jpg

شہباز احمد کے مطابق ایک عام آدمی ایک نشست میں ایک سے دو درجن چڑے اور بٹیرے کھاجاتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں اگر اس نے اس کے ساتھ کھانے کی کسی دوسری چیزوں کا بھی آرڈر دیا ہو۔

اُنھوں نے بعض ایسے گاہکوں کا بھی ذکر کیا جو ایک نشست میں ایک سو چڑے اور بٹیرے کھا جاتے ہیں تاہم اُن کا کہنا تھا کہ مہنگی ڈش ہونے کی وجہ سے ایسے گاہکوں کی تعداد کم ہے۔

پہلوانوں کے اس شہر کے رہنے والوں میں ان پرندوں کی مقبولیت کی وجہ ان کا توانائی بخش ہونا بھی بتائی جاتی ہے۔

160914102701_gujranwala_food_640x360_bbc_nocredit.jpg

ریستوران میں موجود ایک شخص نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اکھاڑے میں ڈنڈ پیلنے کے بعد جسم کو جس قوت کی ضرورت ہوتی ہے، گرم تاثیر والے یہ پرندے اسے پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

گوجرانوالہ کے لوگ صرف چڑے اور بٹیرے جیسے چھوٹے پرندوں کے ہی شوقین نہیں بلکہ وہ ساتھ ہی ساتھ اونٹ جیسے بڑے جانور کے گوشت کو بھی نہیں چھوڑتے۔

160914103311_gujranwala_food_640x360_bbc_nocredit.jpg

شہر کے وسطی علاقے میں ایک چھوٹی سے دکان اونٹوں کی ٹکیوں کے لیے مشہور ہے جہاں روزانہ دو اونٹوں کا قیمہ بنا کر ان کی ٹکیاں فروخت ہوتی ہیں اور زبان کے چٹخارے کے لیے لوگ دو دو گھنٹے انتظار کی زحمت اٹھانے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

گوجرانوالہ والوں کا کھانا میٹھے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو جب بات میٹھے کی ہو شہر کی شیرے والی گلاب جامنوں کا کوئی ثانی نہیں۔

قیام پاکستان سے پہلے سے شہر میں قائم ایک دکان پر لوگ صرف گلاب جامن کھانے کے لیے ہی آتے ہیں اور اس دکان کے سپروائزر کے مطابق ایک دن میں دس سے بارہ من گلاب جامن فروخت ہو جاتے ہیں۔
بالکل درست ہے۔ سیالکوٹ سے منچلے دس دس بارہ بارہ کا گروپ اور باقاعدہ پروگرام بنا کر گوجرانوالہ ایسی ہی "لٹرم پٹرم" چیزیں کھانے جاتے ہیں! :)
 
بالکل درست ہے۔ سیالکوٹ سے منچلے دس دس بارہ بارہ کا گروپ اور باقاعدہ پروگرام بنا کر گوجرانوالہ ایسی ہی "لٹرم پٹرم" چیزیں کھانے جاتے ہیں! :)
جب سے گوجرانوالہ سیالکوٹ روڈ ڈبل ہوئی ہے سفر کا دورانیہ اور بھی کم ہو گیا ہے
 
Top