آپ کے پسندیدہ ادیب

یاقوت

محفلین
اور "" جنت کے پتے '" کا ذکر نہ کرنا ناانصافی نہیں ہوگا؟؟؟
جنت کے پتے نمرہ احمد کی ایک بہترین اور قابل ستائش تحریر ہے۔میرا اس کتاب کے بارے میں یہ ماننا ہے کہ نوجوان لڑکیوں کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔مختصراََ اتنا کہوں گا کہ وہ لڑکیاں جو آج کے گئے گزرے دورمیں مذہب پر عمل کرنا چاہتی ہیں انکے لیے ایک بہترین راہنما کتاب ہے ۔حالات حاضرہ میں ماڈرن اایج کی لڑکی کو اسلام سے جو نام نہاد شکوے اور معاشرے میں درپیش حقیقی مسائل جنہیں اللہ کی بندیاں سمجھتی نہیں ہیں انکا انتہائی خوبصورتی سے جواب دیا گیا اور احاطہ کیا گیا ہے۔یہ کہانی ہے ایک اونچے گھرانے کی لڑکی کی جسکا سفر فیشن اور آسائش کی زندگی سے اللہ کی مرضیوں کو سمجھنے تک کا ہے۔
 

یاقوت

محفلین
کل ہی کتب خانے سے یوسفی صاحب کی ’’ خاکم بدہن ‘‘ اٹھالایا ہوں۔ غضب کا انداز تحریر اور بلا کی جاذبیت۔
اور اگر حقیقت کہوں تو سچ یہ ہے کہ آپ کا تعارف بہت کم کم سنا تھا۔ ورنہ آپ کی تمام کتابیں ہزار بار یونہی لائبریری میں آتے جاتے دیکھا کرتا تھا۔ اور سوچا کرتا تھا کہ موقع ملے تو دوسری ضروری کتابوں سے فارغ ہولوں پھر کھولوں۔ مگر جس میدان میں قدم رکھا ہزارہا ایسی کتابیں نظر آئیں۔ لگا کہ زندگی تو کتابوں کیلئے اپنی تنگی کے باوجود مزید تنگ ہے۔ خیر!!!

ایک جگہ کسی باذوق فرد کے بارے میں رقم طراز ہیں: ’’ کسی نے ان کے سامنے غالب کا شعر غلط پڑھ دیا۔ تیوریاں چڑھا کر بولے: میاں ! یہ کوئی قرآن و حدیث ہے ، جیسے چاہا پڑھ دیا۔‘‘
خدا گواہ کہ مسکراہٹیں بکھر گئیں۔

محترم المقام بافقیہ صاحب۔۔۔۔
وقت نکال کر محترم یوسفی صاحب کے بارے میں ایک تفصیلی تاثراتی مراسلہ لکھیں اسی لڑی میں۔
خاص طور پر زرگزشت اور آب گم کو ضرور پڑھیے گا اوہ یہ میں کیا کہہ رہاہوں یوسفی سارے کا سارا پڑھیں محترم۔۔۔۔
 

بافقیہ

محفلین
محترم المقام بافقیہ صاحب۔۔۔۔
وقت نکال کر محترم یوسفی صاحب کے بارے میں ایک تفصیلی تاثراتی مراسلہ لکھیں اسی لڑی میں۔
خاص طور پر زرگزشت اور آب گم کو ضرور پڑھیے گا اوہ یہ میں کیا کہہ رہاہوں یوسفی سارے کا سارا پڑھیں محترم۔۔۔۔
ضرور۔ ان شاءاللہ
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کل ہی کتب خانے سے یوسفی صاحب کی ’’ خاکم بدہن ‘‘ اٹھالایا ہوں۔ غضب کا انداز تحریر اور بلا کی جاذبیت۔
اور اگر حقیقت کہوں تو سچ یہ ہے کہ آپ کا تعارف بہت کم کم سنا تھا۔ ورنہ آپ کی تمام کتابیں ہزار بار یونہی لائبریری میں آتے جاتے دیکھا کرتا تھا۔ اور سوچا کرتا تھا کہ موقع ملے تو دوسری ضروری کتابوں سے فارغ ہولوں پھر کھولوں۔ مگر جس میدان میں قدم رکھا ہزارہا ایسی کتابیں نظر آئیں۔ لگا کہ زندگی تو کتابوں کیلئے اپنی تنگی کے باوجود مزید تنگ ہے۔ خیر!!!

ایک جگہ کسی باذوق فرد کے بارے میں رقم طراز ہیں: ’’ کسی نے ان کے سامنے غالب کا شعر غلط پڑھ دیا۔ تیوریاں چڑھا کر بولے: میاں ! یہ کوئی قرآن و حدیث ہے ، جیسے چاہا پڑھ دیا۔‘‘
خدا گواہ کہ مسکراہٹیں بکھر گئیں۔
مزید تعارف کا انتظار رہے گا۔ بہت شہرہ سنا ہم نے بھی
 

بافقیہ

محفلین
مرزا محمد ہادی رسوا ایک ادیب اور شاعر ہیں۔ بڑے کمال کے۔۔۔

’’امراؤ جان ادا‘‘ آپ کی مشہور زمانہ ناول ہے۔

اور آنجناب کا ایک خوبصورت شعری ڈرامہ ’’ مرقع لیلی مجنون‘‘ ۔ آج بھی بار بار پڑھنے کیلئے بیتاب ہوں۔
 

بافقیہ

محفلین
دوستو! ڈپٹی نذیر احمد سے کوئی دشمنی ہے کیا؟!!۱

یہ ایسی ہستی ہیں کہ ہندوستان کے زوال پذیر معاشرے کو صحیح سمت دینے اور ہندوستان کی پرانی من گھڑت روایات پر قدغن لگانے میں جن کا بہت اہم رول رہا ہے۔ گرچہ ان کی تحریر آج کے ترقی یافتہ زبان کے شانہ بہ شانہ چلنے میں ذرا تأمل کرے۔ لیکن دور حاضر میں بھی آپ کی تصنیفات کلاسیکی ادب میں اپنا ممتاز مقام رکھتی ہیں۔۔۔

آپ کی توبۃ النصوح ، ابن الوقت اور بنات النعش وغیرہ لا جواب ناول ہیں۔
 

بافقیہ

محفلین
منٹو کا شاید کسی نے ذکر نہیں کیا!!! :)
کیا رائے ہے احباب؟!

اگر کسی کو منٹو پسند ہو تو اپنے پسندیدہ افسانوں کا ذکر ضرور کیجئے۔ تاکہ کم وقت میں منتخب افسانے نظر سے گزرسکیں۔
 

بافقیہ

محفلین
محمد حسین آزاد ۔۔۔

آب حیات ، سخن دان فارس اور نیرنگ خیال آپ کی تصنیفات میں لاجواب ہیں۔

آب حیات سے ایک اقتباس:۔

ملک الشعراء خاقانیٔ ہند شیخ ابراہیم ذوقؔ

جب وہ صاحب کمال عالم ارواح سے کشور اجسام کی طرف چلا تو فصاحت کے فرشتوں نے باغ قدس کے پھولوں کا تاج سجایا جن کی خوشبو شہر عام بن کر جہاں میں پھیلی اور رنگ نے بقائے دوام سے آنکھوں کو طراوت بخشی۔ وہ تاج سر پر رکھا گیا تو آب حیات اس پرشبنم ہو کر برسا کہ شادابی کو کمہلاہٹ کا اثر نہ پہنچے۔ ملک الشعرانی کا سِکہ اس کے نام سے موزوں ہوا اور اس کے طغرائے شاہی میں یہ نقش ہوا کہ اس پہ نظم اردو کا خاتمہ کیا گیا۔ چناں چہ اب ہرگز امید نہیں کہ ایسا قادر الکلام پھر ہندوستان میں پیدا ہو۔ سبب اس کا یہ ہے کہ جس باغ کا بلبل تھا وہ باغ برباد ہو گیا نہ ہمصفیر رہے نہ ہم دوستاں رہے، نہ اس بولی کے سمجھنے والے رہے جو خراب آباد اس زبان کے لئے ٹکسال تھے وہاں بھانت بھانت کا جانور بولتا ہے، شہر چھاونی سے بدتر ہو گیا۔ امراء کے گھرانے تباہ ہو گئے، گھرانوں کے وارث علم و کمال کے ساتھ روٹی سے محروم ہو کر حواس کھو بیٹھے، وہ جادو کار طبیعتیں کہاں سے آئیں جو بات بات میں دل پسند انداز اور عمدہ تراشیں نکالتی تھیں، آج جن لوگوں کو زمانہ کی فارغ البالی نے اس قسم کے ایجاد و اختراع کی فرصتیں دی ہیں وہ اور اصل کی شاخیں۔ انھوں نے اور پانی سے نشو و نما پائی ہے۔ وہ اور ہی ہواؤں میں اڑ رہے ہیں۔ پھر اس زبان کی ترقی کا کیا بھروسہ۔ کیسا مبارک زمانہ ہو گا جب کہ شیخ مرحوم اور میرے والد مغفور ہم عمر ہونگے۔ تحصیل علمی ان کی عمروں کی طرح حالت طفولیت میں ہو گی۔ صرف و نحو کی کتابیں ہاتھوں میں ہوں گی اور ایک استاد کے دامن شفقت میں تعلیم پاتے ہوں گے۔ ان نیک نیت لوگوں کی ہر ایک بات استقلال کی بنیاد پر قائم ہوتی تھی، وہ رابطہ ان کا عمروں کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور اخیر وقت تک ایسا نبھ گیا کہ قرابت سے بھی زیادہ تھا۔ ان کے تحریر حالات بعض باتوں کے لکھنے کو لوگ فضول سمجھیں گے مگر کیا کروں جی یہی چاہتا ہے کہ کوئی حرف اس گراں بہا داستان کا نہ چھوڑوں۔ پہ اس سبب سے کہ اپنے پیارے اور پیار کرنے والے بزرگ کی ہر بات پیاری ہوتی ہے، ۔۔۔۔ نہیں! اس شعر کے تیلے کا ایک رونگٹا بھی بیکار نہ تھا۔ ایک صنعت کاری ۔۔۔۔ کل میں کون سے پرزے کہ کہہ سکتے ہیں کہ نکال ڈالو۔ یہ کام کا نہیں اور کون سی حرکت اس کی ہے جس سے حکمت انگیز فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ اسی واسطے میں لکھوں گا اور سب کچھ لکھوں گا، جو بات ان کے سلسلۂ حالات میں مسلسل ہو سکے گی ایک حرف نہ چھوڑوں گا۔۔۔
 

عدنان عمر

محفلین
میں نے آپ کی کچھ کتابیں پڑھی ہیں۔ جو انداز ، شگفتگی اور ہمہ موضوع سے دلچسپی کا اظہار ’’ اردو کی آخری کتاب‘‘ میں ہے، اپنے ناقص علم میں کہیں نظر نہ آیا۔
’’اردو کی آخری کتاب‘‘ خواہش ہے کہ یہ کتاب بار بار پڑھوں۔
ہم تو ابن انشا صاحب کے فکاہیہ کالموں
کے بھی اسیر ہیں ہیں
 
ناول نگاروں میں
١۔انوار صدیقی
٢۔ابنِ صفی
٣۔عبداللہ حسین
افسانہ نگاروں میں
١۔منٹو
٢۔شفیق الرحمان
مزاح نگاروں میں
١۔مشتاق احمد یوسفی
٢شفیق الرحمان
٣۔ابن انشا
٤۔کرنل محمد خان
نثاروں میں سے
١۔شہنشاہِ اردو ابوالکلام
 
انوار صدیقی اور عبداللہ حسین کم از کم میرے لئے نئے ہیں۔ کچھ تعارف ہوجائے۔ مختصر ہی سہی۔
انوار صدیقی مرحوم کی پراسرار کہانیاں بہت معروف ہیں ”سب رنگ“میں قسط وار شاٸع ہوتی تھیں اپنے دور میں انکی کہانیاں بہت معروف تھیں ۔انکی مشہور کہانیوں میں ”اقابلا“ ”انکا“”غلام روحیں “ بہت مشہور ہیں اورسحرطاری کر دیتی ہیں
 
انوار صدیقی اور عبداللہ حسین کم از کم میرے لئے نئے ہیں۔ کچھ تعارف ہوجائے۔ مختصر ہی سہی۔
عبداللہ حسین کا ناول ”اداس نسلیں “ بہت مشہور ہے ۔اس پرمقالہ بھی شاٸع ہوچکا ۔جنگ کےتناظر میں اور تقسیم کے تناظر میں لکھا گیا بہترین ناول ہے۔اس کے علاوہ ”باگھ“ ”رات“اور”نشیب“بھی بہت اچھے ناول ہیں انکے
 

جاسمن

لائبریرین
منٹو کا شاید کسی نے ذکر نہیں کیا!!! :)
کیا رائے ہے احباب؟!

اگر کسی کو منٹو پسند ہو تو اپنے پسندیدہ افسانوں کا ذکر ضرور کیجئے۔ تاکہ کم وقت میں منتخب افسانے نظر سے گزرسکیں۔

مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ بہت پسند ہے۔ بچے چھوٹے تھے تو ان کو سنائی تھی۔
 

بافقیہ

محفلین
مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ بہت پسند ہے۔ بچے چھوٹے تھے تو ان کو سنائی تھی۔
آپی جان! آپ کی تو باتیں ہمیں اس دور کے اعتبار سے افسانوی لگتی ہیں۔ سن کر ہزاروں من مٹی کے نیچے دبا یہ دل اچھل کر زمین پر کھلی فضا میں آجاتا ہے۔ پھر گردش زمانہ کی علم دشمنی اور جہالت پروری اُسے وہیں بلکہ اس سے بھی نیچے دفن کردیتا ہے۔
بچوں کی تربیت میں آپ کا کردار اس زمانے میں علم دوست حلقوں کے لئے قابل رشک ہے۔

حیرت ہوتی ہے: کیوں باذوق اور اہل علم حضرات کی اولاد بے ذوق بلکہ بد ذوق نکلتی ہے!:cry:
 
Top