زیک

مسافر
مابدولت اپنی سرشت سے لاچار ہیں برادرم زیک
بہرکیف ، مراسلہ ہذا کو بار سہہ درخوراعتناء گرداننے پر مابدولت آپ کا قلبی شکریہ اداکرنے میں مسرت بے پایاں محسوس کرتے ہیں ، اور دیدہ زیب و دلفریب تصاویر سے مزین ایسے خوبصورت و دلچسپ سفری روئداد کے تحریر ہنرمندانہ کے لیے آپ کو مبارک باد و خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔:):)
بہت شکریہ امین

یہ مراسلہ ایک بار میں ہی سمجھ آ گیا
 

زیک

مسافر
کہاں تھے ہم؟ ہاں 3 جولائی کو کاغان گاؤں سے جنوب کی طرف نکلے تھے۔ آج کا دن کافی گرم تھا۔ فضا میں haze تھی۔

جب ہم بالاکوٹ پہنچے تو وہاں 39 ڈگری درجہ حرارت تھا۔ بالاکوٹ میں ایک ریستوران میں لنچ کیا۔

پھر آگے روانہ ہوئے اور گرمی بڑھتی گئی۔

سڑک کے ارد گرد کافی آبادی ہو چکی ہے اور چھوٹے چھوٹ قصبوں سے گزرتے بھی کافی دیر لگتی ہے۔ مانسہرہ سے حویلیاں تک کافی جگہوں پر اتنا وقت لگا کہ میں سوچنے لگا کہ اس سے تیز تو میں سائیکل چلاتا ہوں۔

خیر حویلیاں پہنچ کر ہزارہ موٹروے پر ہو لئے۔ اب رفتار تیز تھی اور ٹریفک نہ ہونے کے برابر۔ برہان انٹرچینج پر اسلام آباد موٹروے پر چلے۔

جنگ بہاتر والا ایگزٹ لیا۔ موٹروے کا ٹول بہت کم ہے۔ سوچا نہ تھا کہ اتنی سستی ہو گی۔

جنگ بہاتر روڈ سے جی ٹی روڈ پر ہو لئے۔ پہلے جی ٹی روڈ کی اس طرف سے دائیں مڑ کر آپ واہ کینٹ میں داخل ہو سکتے تھے لیکن اب آگے سے یو ٹرن کر کے آنا پڑتا ہے۔

بیریئر نمبر 3 سے واہ کینٹ میں داخل ہوئے۔ چونکہ گاڑی فل ٹینک کے ساتھ ملی تھی لہذا واپس بھی ایسے ہی کرنی تھی۔ سوچا بستی کے ساتھ ہی پٹرول پمپ ہے۔ لیکن وہ اب وہاں نہیں رہا بلکہ تھانے کے پاس ہے۔ راستے میں ایم او ڈی سی (؟) والوں نے مال روڈ پر ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ آگے جانے کے لئے ہمیں انہیں انٹری والی پرچی جمع کرانی ہو گی۔ وہ دے کر پٹرول ڈلوایا اور بستی کی طرف واپس ہوئے۔

گاڑی مال روڈ سائیڈ پر کھڑی کر کے سڑک کراس کی اور ناکے والوں سے پرچی واپس مانگی۔ اس کے پاس لاتعداد پرچیاں تھیں اور اسے ہماری پرچی ڈھونڈنے میں کافی وقت لگا۔ اس سارے قصے کا بھی کوئی مقصد سمجھ نہیں آیا۔
اور پھر ہم سسرال والوں کے گھر پہنچ گئے۔

4 جولائی کے مبارک دن کا آغاز واہ کینٹ میں کیا۔ ارادہ تھا کہ برادر نسبتی کے گھر لنچ کریں گے لیکن صبح سویرے ہی معلوم ہوا کہ ان کے ہاں بجلی نہیں ہے کہ ٹرانسفارمر خراب ہو گیا۔ بے پناہ گرمی تھی۔ 43 ڈگری۔ لہذا وہ بھی ہم اے ملنے آ گئے۔

سہ پہر میں نکلے اور ایک کزن سے ملاقات کی۔ پھر سوچا کہ بیٹی کو اپنا بچپن دکھایا جائے۔ آج ٹوکن والی گاڑی تھی لہذا ناکے پر نہیں روکا۔

کافی عرصے بعد سنٹرل پارک جانا ہوا۔ گھر تو سارے وہی ہیں لیکن کافی بدل گیا ہے۔ مسجد، سی ایس ڈی، ڈسپنسری وغیرہ والے حصے میں کافی نئی تعمیر ہے۔ گلنستر روڈ پر گئے تو وہاں گھروں کے نمبر بھی بدل گئے ہیں۔ خیر بیٹی کو وہ گھر باہر سے دکھایا جہاں میں نے ٹین ایج اور کالج کا وقت گزارا۔ پھر انارکلی پر وہ گھر بھی یہاں پیدائش کے بعد کچھ سال گزرے۔ وہاں اب گدوال والی سڑک پر بڑا سا گیٹ لگا ہے۔ سر سید کے ہمارے وقت کے مین کیمپس بھی گئے جو اب لڑکیوں کا ہے۔ ہمارے دور میں مخلوط تعلیم تھی۔

شام کو والدین اور بہن بھی ملنے آ گئے اور ہم سب پی او ایف ہوٹل کھانا کھانے گئے۔ یا تو ہمیں علم نہیں یا واہ کینٹ میں کھانے پینے کی جگہوں کی ابھی بھی کمی ہے۔
 

زیک

مسافر
ڈنر کے بعد کچھ دیر سونے کا ارادہ تھا لیکن بجلی کی آنکھ مچولی نے سونے نہ دیا۔ یوں رات بارہ بجے 5 جولائی کا آغاز ہوا۔ ڈیڑھ بجے برادر نسبتی لینے آ گیا۔ میں اور بیٹی اس کے ساتھ ائرپورٹ چلے۔ جی ٹی روڈ پر اس وقت کوئی رش نہ تھا۔

ائرپورٹ پر سب کچھ پرانے ائرپورٹ سے آسان تھا۔ نہ ہو لمبی لمبی لائنیں جنہیں ہر کوئی توڑ رہا ہو۔ بلڈنگ بڑی اور لوگ کم تھے۔ آسانی اور تیزی سے سارے مرحلوں سے گزرے۔

سیکورٹی کے لئے مردانہ اور زنانہ لائنیں الگ ہیں۔ بیٹی کو وہاں خواتین اہلکاروں کی اردو سمجھ نہ آئی لیکن کوئی مشکل نہ ہوئی۔

ہم کافی جلدی اندر جا کر فارغ تھے۔ ائرپورٹ کے مفت وائی فائی پر وقت برباد کیا۔

ساڑھے پانچ بجے صبح اسلام آباد سے استنبول روانہ ہوئے۔ چھ گھنٹے بعد استنبول ائرپورٹ پر تھے۔ اس بار گیٹ تبدیل کرتے ہوئے سیکورٹی سے جانا پڑا۔

استنبول سے بارہ گھنٹے کی فلائٹ تھی۔ اٹلانٹا کی فضاؤں میں جلدی پہنچ گئی لیکن موسم اور ائر ٹریفک کی وجہ سے اوپر ہی چکر کاٹتی رہی۔ لینڈنگ وقت پر ہی ہوئی۔

جلد ہی ہم ٹرمینل سے باہر تھے۔ وہاں ڈومیسٹک ٹرمینل جانے کے لئے لمبی لائن تھی۔ اچھا ہوا کہ ائرپورٹ والوں نے کئی شٹل بسیں اکٹھی بھیج دیں۔

مقامی ٹرمینل سے ٹرین لی۔ ہماری والی ٹرین لائن ائرپورٹ سے اس وقت نہیں چل رہی تھی۔ لہذا دوسری لائن والی ٹرین پر بیٹھے۔ آدھ رستے میں ایک سٹیشن پر اترے اور وہاں سے اپنی لائن والی ٹرین لی۔ اپنے سٹیشن پر اترے تو معلوم نہ تھا کہ بیوی نے اپنی کار کہاں پارک کی ہے۔ خیر پارکنگ ڈیک میں زیادہ ڈھونڈنا نہ پڑا۔

رات کا وقت تھا اور ہم گھر تھے۔ ائرپورٹ ہی سے میں نے گھر کا اے سی آن کر دیا تھا۔ لہذا گھر کا موسم اچھا تھا۔ ویسے بھی یہاں گرمی تو تھی لیکن اسلام آباد واہ والی نہیں۔
 

زیک

مسافر
6 جولائی

صبح اٹھے۔ ڈاگ بورڈنگ سے پیگی کو پک کیا۔ وہ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔

پھر لانڈری اور گروسری۔

اور یوں ہمارے پاکستان کے سفر کا اختتام ہوا۔

کچھ عمومی تاثرات اگلے چند مراسلوں میں پوسٹ کروں گا۔
 

زیک

مسافر
پاکستانی غسلخانے

دیسی ٹائلٹ کا معاملہ تو رہنے ہی دیں کہ وہ ہماری عادت نہ ہونے کا مسئلہ ہے۔ اگرچہ اس میں بھی زیادہ معاملہ تب بگڑا جب پیٹ خراب ہوا۔

نہانے کا بندوبست آسان ہے لیکن پاکستان ابھی اس میں بہت پیچھے ہے۔

بالٹی ہو یا شاور نہانے کے علاقے کے گرد کوئی دیوار کوئی پردہ کچھ نہیں ہوتا۔ پورے باتھ روم میں پانی پھیل جاتا ہے۔ تولیہ اور کپڑے گیلے ہونے سے بچانا کافی مشکل ہوتا ہے۔

پھر ڈرین کا مسئلہ۔ معلوم نہیں یہ ڈیزائن کی غلطی ہے یا کاریگری کی کمی لیکن باتھ روم میں ڈرین اور فرش کی لیولنگ کا انتظام اکثر انتہائی ناقص دیکھا۔ پانی فوراً ڈرین میں جانے کی بجائے فرش کر کھڑا رہتا ہے۔ ایک ہوٹل میں تو ایک بار نہانے کے بعد دو دن فرش پر تالاب بنا رہا۔ ایک اور ہوٹل میں نہانے لگا تو پانی فرش پر دروازے کی طرف گیا اور کمرے کے قالین پر بہنے لگا۔

اسلام آباد وغیرہ میں تو اوپر ٹنکی سے ٹھنڈے کی بجائے گرم ہی پانی آتا تھا۔ اتنی گرمی میں گرم پانی سے نہانا مزید عذاب تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ جب درجہ حرارت 40 سے اوپر ہو تو باتھ روم میں دو منٹ ہی میں مکمل پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ اور کہیں اے سی ہو یا نہ ہو کچن اور باتھ روم میں لازمی ہے۔

گلگت بلتستان میں جن ہوٹلوں میں رہے (ہنزہ کو چھوڑ کر) وہاں نہانے کے لئے گرم پانی کا کہنا پڑتا تھا۔ صبح موسم اچھا ہوتا تھا اور ٹھنڈا پانی کافی سرد۔ تنزانیہ میں سیرنگٹی میں کیمپنگ کرتے ہوئے شام کو ہم بتا دیتے تھے کہ صبح کتنے بجے نہانے کے لئے گرم پانی چاہیئے اور عین اس وقت مل جاتا تھا۔ پاکستان میں یہ حساب نہیں ہے۔ صبح اٹھ کر آپ ہوٹل والوں کو ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں کہ گرم پانی چاہیئے۔ چھوٹے ہوٹلوں میں مالکان یا سٹاف ہر وقت ملتے بھی نہیں۔ نتیجتاً آپ نہانے سے رہ جاتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
پاکستان میں اتنے پہاڑی علاقے ہیں اور جہاں سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں وہاں ڈرائیونگ سکلز بھی بہتر ہیں۔ لیکن شاہراہ قراقرم یا کاغان روڈ پر لوگ کافی بری ڈرائیونگ کرتے ہیں۔

برے ڈرائیوروں کو چھوڑیں اچھے ٹھیک ٹھاک ڈرائیور پہاڑوں پر موڑ کاٹتے ہوئے گاڑی دوسری طرف والی لین میں لے جاتے ہیں۔ ایسی غلطی تو جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔

دوسرے جہاں کوئی ریڑھی، کھوکھا یا اچھا منظر آیا سڑک ہی پر گاڑی روک لی۔ وہاں ایسی سڑکوں پر pullouts بالکل نہیں تھے۔ ایسے پل آؤٹس کافی کام آ سکتے ہیں کہ جو منظر کی خوبصورتی یا کسی اور وجہ سے رکنا چاہے وہ ٹریفک بلاک نہ کرے۔ اسی طرح سست رفتار گاڑیاں بھی ان کا استعمال کرتے ہوئے اپنے پیچھے آنے والی تیز رفتار گاڑیوں کو جانے دیں
 

زیک

مسافر
نوٹ: پاکستانیوں کے بارے میں یہ تاثرات اسلام آباد اور واہ میں پھرنے اور وادی کاغان اور گلگت بلتستان میں سیاحوں کے مشاہدے کا نتیجہ ہیں۔ لہذا امکان ہے کہ یہ نامکمل ہوں۔

پچیس سال میں پاکستان میں مردوں میں قمیض شلوار کا رواج بڑھا ہے اور اب یہ لباس اتنا کلاس فیکٹر نہیں رہا جتنا ہوا کرتا تھا۔

دوسری طرف نوجوان خواتین اور لڑکیوں کے لباس میں مغرب کا اثر نمایاں ہے۔ شلوار جسے میرے دادا خواتین کا لباس کہتے تھے وہ اب کافی حد تک مردوں کا لباس بنتا جا رہا ہے۔

ایک ہی فیملی میں لباس اور حلیے میں تنوع بھی نئی چیز لگی۔ کچھ فیملی ممبر کافی قدامت پسند کچھ مذہبی اور کچھ ماڈرن وغیرہ۔ اس سے لگتا ہے کہ پاکستان میں individualism پہلے سے کافی بڑھ گئی ہے۔ اگرچہ یورپ اور امریکہ کے مقابلے میں ابھی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

پاکستانی سیاحوں میں ابھی بھی اکثر لڑکوں کے ٹولے نظر آئے۔ فیملیز کی تعداد بڑھی ہے لیکن اتنی نہیں۔ اس کی وجہ سے شاید پچھتر اسی فیصد سیاح مرد تھے۔ ایسی جینڈر ریشو آپ کو امریکہ میں نہیں ملے گی۔
 

زیک

مسافر
پاکستان کا اگلا سفر جانے کب ہو لیکن اس بار سیر سپاٹے کا اتنا مزا آیا کہ سوچا ہے کہ ہر بار کچھ نہ کچھ سیر و سیاحت پاکستان کے ٹرپ میں بھی کی جائے اور اسے دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے تک محدود نہ رکھا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاحت میں ایک بڑی attraction وہاں کے اونچے پہاڑوں میں ٹریکنگ کی تھی۔ اس بارے میں اس ٹرپ میں اندازہ لگانا تھا کہ یہ کیسا رہے گا۔ چونکہ یہ ٹریکنگ کافی بلندی پر ہوتی ہے لہذا altitude sickness کا بھی امکان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں traveler’s diarrhea کا چانس تو ہر وقت رہتا ہے۔ گلیشیر پر ہائیک کرنا بھی خطرناک ہو سکتا ہے اور کسی وقت بھی چوٹ لگ سکتی ہے۔ انٹرنیٹ پر اس بارے میں کافی ریسرچ کی اور پاکستان میں بھی اس پر غور کیا اور دیکھا۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ ایک عام ہائیکر کے لئے وہ facilities نہیں ہیں جو ہم چاہیں اور نہ ہی ولڈرنیس میڈیکل ٹریننگ عام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ معلوم کرنا کہ کونسی ٹریکنگ کمپنیوں کا سٹینڈرڈ اچھا ہے اور وہ ایمرجنسی کے لئے تیار رہتی ہیں بھی انتہائی مشکل بلکہ شاید ناممکن ہے۔

ان تمام وجوہات کی وجہ سے trekking کے لئے ہم دوسرے ممالک ہی جائیں گے اور پاکستان میں صرف آسان ڈے ہائیکنگ ہی پر اکتفا کریں گے۔
 

یوسف سلطان

محفلین
زکریا بھائی بہت عمدہ اور سحر انگیز مناظر تھے۔ کچھ تو ایسے تھے جنہیں دیکھتا ہی رہ گیا۔مثال کے طور پر غروب آفتاب کے وقت کےمناظر۔
 

لاریب مرزا

محفلین
زبردست زیک بھائی!! سفر نامہ اور تصاویر دونوں لاجواب ہیں۔ پاکستان کے ایک حصے کی اپنے انداز میں سیر کرانے کا بہت شکریہ!! :) :)
 

لاریب مرزا

محفلین
شکریہ فہیم۔

ویسے میں نے بیٹی سے پوچھا کہ اسے جو سفر یاد ہیں ان میں سے بہترین کونسے ہیں۔ اس کی فہرست کچھ یوں تھی:
  1. تنزانیہ
  2. پیرو
  3. نیوزی لینڈ
  4. ترکی
  5. پاکستان (اس بار)
اس کے جواب کو سفرنامے کے آخر تک اٹھا رکھتے ہیں
اب اس بارے میں بات ہو جائے۔ :)
 
Top