کیا انسان واقعی اشرف المخلوقات ہے؟

فرقان احمد

محفلین
سوال آپ کا اچھا ہے، لیکن اس موضوع کی مناسبت سے نہیں۔ موضوع ہے کہ اللہ تعالی کی تخلیق کردہ مخلوقات میں بہت سی مخلوقات پر اللہ تعالی نے فضیلت بخشی۔ اس لئے ہم اللہ تعالی کی سب مخلوقات کو زیر غور لائیں گے۔

والسلام
ان 'مخلوقات' کو انٹیلجنٹ تصور کیا جائے گا تو پھر، کچھ سوال جواب تو بنتے ہیں جو کہ ان کی بابت کیے جانے چاہئیں۔ :) ویسے تو ان مخلوقات کا بھی کوئی حساب کتاب ہونا چاہیے ! :) دراصل، ایک طرف یہ دعویٰ ہے کہ یہ کائنات انسان کے لیے بنائی گئی ہے اور کتابِ مبین اسے دعوتِ تسخیرِ کائنات دیتی ہے۔ اگر کائنات خود اس کے مقابل ایک مخلوق کے طور پر موجود ہے، تو پھر، کچھ تو کہانی میں ٹوسٹ آیا ہوا لگتا ہے یہاں! :)
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
چلیے، وہ تو آپ لے آئے تاہم ان 'مخلوقات' کو انٹیلجنٹ تصور کیا جائے گا تو پھر، کچھ سوال جواب تو بنتے ہیں جو کہ ان سے کیے جائیں گے یا کیے جانے چاہیے۔ :) ان کا بھی کوئی حساب کتاب ہونا چاہیے نا! :) دراصل، ایک طرف یہ دعویٰ ہے کہ یہ کائنات انسان کے لیے بنائی گئی ہے اور کتابِ مبین اسے دعوتِ تسخیرِ کائنات دیتی ہے۔ اگر کائنات خود اس کے مقابل ایک مخلوق کے طور پر موجود ہے، تو پھر، کچھ تو کہانی میں ٹوسٹ آیا ہوا لگتا ہے یہاں! :)

تجزیہ دلچسپ اور منفرد ہے، لیکن آپ نے اشرف المخلوقات ہونے کے لیے کن عوامل کو چُنا ہے؟
 

عرفان سعید

محفلین
سورۃ الجن کی ابتدائی آیات۔
ان آیات میں جنوں کے ایک گروہ کا قرآن سننے کا واقعہ ہے، وہاں سے یہ استدلال کہ انسانوں کی طرف مبعوث کیے گئے پیغمبر بیک وقت جنوں کی ہدایت پر بھی مامور کیے گئے، میری سمجھ میں بالکل نہیں آیا۔
دوسرا انسان کی تخلیق کے بعد: انسانوں کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے بھیجے گئے پیغمبر جیسا کہ پچھلے انبیاء علیہم السلام اور رسول اللہﷺ کے دور کے واقعات سے ثابت ہے۔ جو انسانوں اور جنات دونوں کے لیے بیک وقت پیغمبر تھے۔
 

آصف اثر

معطل
ان آیات میں جنوں کے ایک گروہ کا قرآن سننے کا واقعہ ہے، وہاں سے یہ استدلال کہ انسانوں کی طرف مبعوث کیے گئے پیغمبر بیک وقت جنوں کی ہدایت پر بھی مامور کیے گئے، میری سمجھ میں بالکل نہیں آیا۔
آیت # 2 میں:
يَهْدِىٓ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِهٖ ۖ وَلَنْ نُّشْرِكَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا (2)
جو نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے سو ہم اس پر ایمان لائے ہیں، اور ہم اپنے رب کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔

جنوں کا آپ ﷺ پر ایمان لانا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ جنوں کے لیے انسانی پیغمبروں پر ایمان لانا درست ہے، جب کہ کسی بھی آیت یا حدیث میں یہ ثبوت موجود نہیں کہ کسی انسان نے کسی جن پیغمبر پر (اگر ہو) ایمان لایا ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حد تک سنا تھا کہ یہ پوری کائنات آپ ؐ کیلئے ہی بنائی گئی ہے۔
شاید اس متعلق حدیث ضعیف ہے۔ تاہم، اس حوالے سے ہم نے بھی سُن رکھا ہے۔ اُمید ہے، اہل علم رہنمائی فرمائیں گے۔

ویسے، عام طور پر، اس حوالے سے، یعنی کہ انسان اور کائنات کے تعلق کی نسبت سے، یہ آیت پیش کی جاتی ہے۔
''اور اُس نے تمہارے لیے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب کو اپنی طرف سے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیة، 45: 13).
 

جاسم محمد

محفلین
مخلوق اسے کہا جاتا ہے جسے خلق کیا جائے۔ انسان کسی شے کا ان معنوں میں خالق نہیں کہ ایک شے کو عدم سے وجود میں لے آئے۔
دینی تعلیم کے مطابق خدا نے انسان کو عدم سے پیدا کیا، اور اپنی نافرمانی کرنے پر جنت سے بے دخل کر کےزمین پر اتار دیا۔ ایمان کی حد تک یہ بات درست ہے۔
البتہ حقائق (ڈی این اے ٹیسٹنگ) کے بعد یہ نظریہ درست نہیں رہا ۔ کیونکہ اب یہ بلاتردید ثابت ہو چکا ہےکہ دیگر چرند پرند کی طرح انسان بھی حیاتیاتی ارتقا کا ہی نتیجہ ہے۔
اب سوال بس یہ رہ جاتا ہے کہ آخر کس بنیاد پر انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے؟ تو اس کا دینی نکتہ نظر سے جواب یہ ہے کہ انسان پر وحی الٰہیہ کا نزول ہوا ہے۔ وحی الٰہیہ سے مددپاکر انسان اللہ کے بتائے ہوئے رستہ پر چلتے ہوئے اس کا رنگ اختیار کر سکتا ہے۔ دیگر مخلوقات جیسے حیوانات، جنات اور فرشتے خدا کی اس نعمت اور فضل سے محروم ہیں۔ اسی لئے انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
دینی تعلیم کے مطابق خدا نے انسان کو عدم سے پیدا کیا، اور اپنی نافرمانی کرنے پر جنت سے بے دخل کر کےزمین پر اتار دیا۔ ایمان کی حد تک یہ بات درست ہے۔
البتہ حقائق (ڈی این اے ٹیسٹنگ) کے بعد یہ نظریہ درست نہیں رہا ۔ کیونکہ اب یہ بلاتردید ثابت ہو چکا ہےکہ دیگر چرند پرند کی طرح انسان بھی حیاتیاتی ارتقا کا ہی نتیجہ ہے۔
اب سوال بس یہ رہ جاتا ہے کہ آخر کس بنیاد پر انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے؟ تو اس کا دینی نکتہ نظر سے جواب یہ ہے کہ انسان پر وحی الٰہیہ کا نزول ہوا ہے۔ وحی الٰہیہ سے مددپاکر انسان اللہ کے بتائے ہوئے رستہ پر چلتے ہوئے اس کا رنگ اختیار کر سکتا ہے۔ دیگر مخلوقات جیسے حیوانات، جنات اور فرشتے خدا کی اس نعمت اور فضل سے محروم ہیں۔ اسی لئے انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔
اس بات کی وضاحت ہمارے مراسلے میں کر دی گئی تھی کہ مذہبی نقطہء نظر سے ہی اس طرح کا تصور قائم کیا جاتا ہے تاہم آپ نے کمال مہارت سے عبارت کو حذف کر دیا اور سائنس کو ایسے فٹ کیا جیسے کہ کرنے کا حق تھا۔ :) یعنی کہ اپنی بات کو کسی پرانی تقریر سے جوڑ کر اچھا خاصا 'نیا نکور' مراسلہ تخلیق کر لیا۔ یہ بھی ارتقاء کی ایک صورت ہے کہ بندہ کتنا سیانا ہوتا جاتا ہے ڈیجیٹل ایج میں۔ :)
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اس بات کی وضاحت ہمارے مراسلے میں کر دی گئی تھی کہ مذہبی نقطہء نظر سے ہی اس طرح کا تصور قائم کیا جاتا ہے تاہم آپ نے کمال مہارت سے عبارت کو حذف کر دیا اور سائنس کو ایسے فٹ کیا جیسے کہ کرنے کا حق تھا۔ :) یعنی کہ اپنی بات کو کسی پرانی تقریر سے جوڑ کر اچھا خاصا 'نیا نکور' مراسلہ تخلیق کر لیا۔ یہ بھی ارتقاء کی ایک صورت ہے کہ بندہ کتنا سیانا ہو جاتا ہے ڈیجیٹل ایج میں۔ :)
چونکہ اشرف المخلوقات ایک دینی اصطلاح ہےاور دین کا منبع روحانیات ہی ہے۔ اس لئے میں نے اس بارہ میں سائنسی (مادی) اور دینی(روحانی) نکتہ نظر دونوں بیان کر دئے ہیں۔
انسان خدا کی وہ واحد مخلوق ہے جس پر وحی اتری ہے۔ جسے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے رستہ پر چل کر کامیاب ہوجائے۔ یا شیطان کے رستہ پر چلتے ہوئے اللہ کے عذاب کا موجب بنے۔
یہ اختیارو آزادی خدا کی دیگر مخلوقات کے پاس نہیں ہے۔ اسی لئے انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔
 
دینی تعلیم کے مطابق خدا نے انسان کو عدم سے پیدا کیا، اور اپنی نافرمانی کرنے پر جنت سے بے دخل کر کےزمین پر اتار دیا۔ ایمان کی حد تک یہ بات درست ہے۔
البتہ حقائق (ڈی این اے ٹیسٹنگ) کے بعد یہ نظریہ درست نہیں رہا ۔ کیونکہ اب یہ بلاتردید ثابت ہو چکا ہےکہ دیگر چرند پرند کی طرح انسان بھی حیاتیاتی ارتقا کا ہی نتیجہ ہے۔
ہاتھ ہلکا رکھیں بھائی! کچھ عرصہ بعد کوئی نئی تحقیق اس تحقیق کی تردید کرنے کھڑی ہو جائے گی تب کیا کہیں گے۔ تحقیقات بدلتی رہتی ہیں، قرآن کبھی نہیں بدلا۔ ایمان بالغیب بھی آخر ایک انتہائی اہم معاملہ ہے۔
یوں عقلیات کی بنا پر انتہائی قوی نقلیات کو رد کرنا مناسب نہیں۔ اگر عقلیات، مستند نقلیات کے معیار پر پورا نہ اتر سکیں تو یہ عقلیات کا نقص ہے۔ بڑے بڑے دانشور جو اسلام کی ایک ایک تعلیم کی حقانیت کو عقل کی روشنی میں ثابت کرتے رہے، بالاخر ان کے کام بھی ایمان بالغیب ہی آیا۔ عدمِ سجود کے بعد ہزارہا سال گزرنے پر آج شیطان بھی اتنا ہی ہوشیار و چالاک ہو چکا ہے جتنا انسانیت اوج پر پہنچ چکی ہے۔ سائنس و فلسفہ جدیدہ جہاں بے حد افادیت کا حامل ہے، وہیں انسانیت کو جانے انجانے دہریت کی طرف دھکیلنے کے لئے اسی دشمن شیطان کا ایک بہت بڑا ہتھیار بھی بن چکا ہے۔ قدم قدم احتیاط باید!
 

عرفان سعید

محفلین
کسی بھی آیت یا حدیث میں یہ ثبوت موجود نہیں کہ کسی انسان نے کسی جن پیغمبر پر (اگر ہو) ایمان لایا ہے۔
قرآن کے مطابق جنات انسانوں کو دیکھ اور سن سکتے ہیں لیکن انسانوں کو یہ قدرت حاصل نہیں۔ استثنائی صورتیں گرچہ موجود ہیں جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام۔ اس لیے کسی انسان کا کسی جن پیغمبر پر ایمان لانے کا کوئی واقعہ موجود نہیں۔
جنوں کا آپ ﷺ پر ایمان لانا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ جنوں کے لیے انسانی پیغمبروں پر ایمان لانا درست ہے
اس ایمان لانے کی نوعیت کے بارے میں میرا رجحان یہ ہے کہ حق جہاں اور جس صورت میں بھی سامنے آئے، دنیا کی ہر ذی شعور مخلوق اُسے ماننے کی مکلف ہے۔ چنانچہ جنوں کے کسی پیغمبر کی دعوت اگر ہم بھی سن سکتے تو اُس پر اُسی طرح ایمان کے مکلف ہوتے، جس طرح جنوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر اپنے ایمان کا اظہار کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے پیغمبروں پر ہمارے ایمان کی نوعیت بھی یہی ہے۔ ہم اُن کی شریعت کے پابند تو یقیناً نہیں ہیں، لیکن اُنھیں ماننا ہمارے لیے بھی اُسی طرح ضروری ہے، جس طرح اُن کی قوموں کے لیے ضروری تھا۔

سورۃ الجن کی ابتدا جن الفاظ سے ہوتی ہے اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ سب سے پہلی آیت دیکھیں
قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا
کہہ دو (اے پیغمبر ﷺ)، مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن کو سنا تو انھوں نے اپنی قوم کو بتایا کہ ہم نے ایک نہایت دل پذیر قرآن سنا۔

’قُلْ اُوْحِیَ‘ کے الفاظ سے یہ بات صاف عیاں ہے کہ جنوں کے جو تاثرات اس سورہ میں بیان ہوئے ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو براہ راست جنوں کی زبانی نہیں بلکہ وحی الٰہی کے ذریعہ معلوم ہوئے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بیک وقت جنوں کے لیے بھی مبعوث کیا گیا ہو ، تو ’قُلْ اُوْحِیَ‘ کے الفاظ یہاں بے محل ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں تو آنجنابﷺ براہ راست جنوں کو خدا کا کلام سنا رہے ہوتے۔ واللہ اعلم
 
انسان کے شرف و کرامت کے بارے میں بحث کرنے سے پہلے اس شرف و کرامت کا رخ متعین کرنا ضروری ہے۔ یعنی جو لوگ انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیتے ہیں وہ کس اعتبار سے یہ بات کہتے ہیں، دنیوی اعتبار سے یا دینی اعتبار سے۔ دنیوی اعتبار سے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دینے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کو دیگر تمام مخلوقات سے زیادہ باصلاحیت ثابت کیا جائے۔ جبکہ دینی اعتبار سے اشرف المخلوقات قرار دینے کے لئے انسان کی دینی حیثیت کو دیگر تمام مخلوقات سے برتر ثابت کیا جائے۔ جو بات قرینِ قیاس لگتی ہے وہ یہی ہے کہ انسان کا اصل شرف و کرامت دینی اعتبار سے ہے، نہ کہ دنیوی اعتبار سے۔
چنانچہ دنیوی اور مادی صلاحیت اور استعداد سے قطع نظر کر کے دیکھا جائے تو چند امور ایسے ہیں جو اصولی طور پر انسان کی دیگر تمام مخلوقات پر افضلیت ثابت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ نے احکامِ شرعیہ کا مکلف صرف انسان کو بنایا ہے۔ مکلف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ درجے کی عقل اور فہم و فراست حاصل ہونے کے باوجود اپنے اختیار سے اطاعتِ خداوندی کو اختیار کیا جائے۔ اس صفت میں انسان فرشتوں سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے، کیونکہ فرشتوں کو احکاماتِ الہیہ سے روگردانی کا اختیار ہی حاصل نہیں ہے، اور یہ اس وجہ سے ہے کہ ان کے اندر برائی کا مادہ ہی نہیں رکھا گیا، وہ محض نوری مخلوق ہیں۔ یہاں جنات کو لے کر اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ وہ بھی کفر و ایمان اور اچھے برے اعمال کو اپنے اختیار سے اپناتے اور ترک کرتے ہیں۔ لیکن جنات پر انسان کی افضلیت اسی روز ثابت ہو گئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا تھا کہ میں انسان کو اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو علم کی دولت سے نواز کر جنات کے شہنشاہ اور پیشوا کو بھی یہ حکم دیا کہ وہ بھی انسان کو سجدہ کرے۔ حالانکہ ابلیس کا درجہ جنات میں سب سے اعلیٰ تھا اور وہ واحد جن تھا جسے آسمانوں میں فرشتوں کی معیت میں عبادات سرانجام دینے کی اجازت حاصل تھی۔
احکاماتِ شرعیہ کے مکلف ہونے کی وجہ سے ہی انسان کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاءؑ جو روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز تھے وہ بھی انسانوں میں سے ہی مبعوث فرمائے، کسی دوسری مخلوق (فرشتوں یا جنات) میں سے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث نہیں فرمایا۔ انسان کو حاصل ہونے والے ایسے بہت سے دینی اعزازات کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے جو انسان کی دیگر تمام مخلوقات پر دینی افضلیت کو ثابت کرتے ہیں۔
البتہ دنیوی اعتبار سے انسان کی اشرفیت قابلِ غور ہے۔ آئیے بات کو مکمل کرنے کے لئے اس پہلو پر بھی غور کرتے ہیں۔
معروف مفسرِ قرآن حافظ عماد الدین بن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت بنی آدم کے شرف و کرامت کی وجوہات تحریر کرتے ہوئے یہ بھی لکھتے ہیں:
’’(ترجمہ) اللہ تعالیٰ نے انسان کو سماعت، بصارت اور دل (ودماغ) دیا ہے جس کے ذریعے وہ سمجھ بوجھ حاصل کر کے اس سے نفع اٹھاتا ہے، مختلف اشیاء اور دنیا و آخرت کے اعتبار سے ان کے خواص اور نقصان دہ اثرات کے مابین فرق کرتا ہے‘‘۔ اس تفصیل کی روشنی میں جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ انسان کا اصل شرف و امتیاز اس کے فہم و فراست کی وسعت ہے جس کے ذریعے آج وہ کائنات کی طاقتوں کو مسخر کررہا ہے اور اس کی تسخیر کا دائرہ مسلسل ترقی پذیر ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی تمام تر دانشمندی اور قوتِ تسخیر کے باوجود بہت سی مخلوقات ایسی نظر آتی ہیں جو انسان کے دائرۂِ تسخیر سے باہر یا اپنی مخصوص صلاحیتوں میں انسان سے کہیں آگے ہیں۔ آپ کسی ننھے سے پرندے کو ہی دیکھ لیں، جس طرح وہ بنا کسی خارجی آلے کی مدد لئے ہواؤں میں تیر سکتا ہے، انسان کی پہنچ سے یہ عمل (ظاہری اسباب کے درجے میں) باہر ہے۔ لہذا یہ کہنا مشکل ہے کہ انسان دنیوی اعتبار سے کلی طور پر دیگر تمام مخلوقات سے اشرف ہے۔ بلکہ جو بات راہِ اعتدال سے قریب لگتی ہے وہ یہی ہے کہ انسان کا دیگر مخلوقات سے اشرف ہونا کلی طور پر نہیں بلکہ مجموعی طور پر ہے۔ یعنی اگر انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہونے والی جملہ صلاحیتوں کے مجموعے کو دیکھا جائے تو اس قدر کثیر صفات اور صلاحیتیں آپ کو کسی دوسری ایک مخلوق میں دکھائی نہیں دیں گی۔ اگرچہ انفرادی طور پر کسی دوسری مخلوق کو کوئی ایسی صفت حاصل ہو بھی جائے جو انسان میں نہ ہو، مجموعی طور پر انسان کی صلاحیتیں اس سے زیادہ ہیں۔ ’’لقد خلقنا الانسان فی احسنِ تقویم‘‘ (ترجمہ: ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے) کا مفہوم بھی یہی ہو سکتا ہے کہ انسان کی تخلیق جس انداز میں کی گئی ہے وہ مجموعی طور پر تمام مخلوقات سے اعلیٰ ترین سانچہ ہے۔
یہاں اگر روبوٹس (اے آئی) کی بات کی جائے کہ وہ کچھ صلاحیتوں میں انسان سے آگے ہیں تو یہ بھی خود انسان کی اشرفیت کی دلیل ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل و فراست استعمال کرتے ہوئے ایسی چیز ایجاد کی جو کچھ امور میں خود اپنے موجد سے بھی آگے ہے۔ پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ آج روبوٹس جس حالت میں بھی ہیں وہ انسان کے زیرِ تسخیر ہیں۔ یہ مفروضہ کہ آنے والے دور میں روبوٹس خود انسانوں کو مسخر کر کے دنیا پر حکومت کریں گے، تو یہ محض ایک مفروضہ ہے۔ میرے خیال میں جو انسان روبوٹ بنا سکتا ہے وہ کبھی اسے اس جرأت کی اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ خود اسی پر حکومت کرنے لگیں۔ یہ باتیں سائنس فکشن ہونے کی حد تک اچھی لگتی ہیں، حقائق سے اتنی دوری اچھی نہیں ہوتی۔
ایسی باتیں کرتے وقت ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ انسانوں کی تباہی روبوٹس کے ہاتھوں ہونے والی ہے، بلکہ قرآن اختتامِ کائنات تک انسانوں کے دنیا میں وجود کی گواہی دیتا ہے۔۔۔ جب وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ قیامت انسانوں پر قائم ہوگی۔ بطورِ مسلمان ہمیں کسی بھی قسم کا تبصرہ کرتے وقت مجموعی طور پر اسلامی تعلیمات اور نظریات کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ ایک پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش میں دوسرے پہلووں کو یکسر ویرانۂ نظر اندازی میں ڈال دینا یا طاقِ نسیاں پر رکھ دینا کم از کم اہلِ اسلام کو زیبا نہیں دیتا۔
خلاصہ یہ کہ انسان کا اصل شرف و کرامت دینی لحاظ سے ہے، جبکہ دنیاوی لحاظ سے اس کی اشرفیت مجموعی طور پر ہے نہ کہ کلی طور پر۔
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
انسان کے شرف و کرامت کے بارے میں بحث کرنے سے پہلے اس شرف و کرامت کا رخ متعین کرنا ضروری ہے۔ یعنی جو لوگ انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیتے ہیں وہ کس اعتبار سے یہ بات کہتے ہیں، دنیوی اعتبار سے یا دینی اعتبار سے۔ دنیوی اعتبار سے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دینے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان کو دیگر تمام مخلوقات سے زیادہ باصلاحیت ثابت کرنا ضروری ہوگا۔ جبکہ دینی اعتبار سے اشرف المخلوقات قرار دینے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان کی دینی حیثیت کو دیگر تمام مخلوقات سے برتر ثابت کیا جائے۔ جو بات قرینِ قیاس لگتی ہے وہ یہی ہے کہ انسان کا اصل شرف و کرامت دینی اعتبار سے ہے، نہ کہ دنیوی اعتبار سے۔
چنانچہ دنیوی اور مادی صلاحیت اور استعداد سے قطع نظر کر کے دیکھا جائے تو چند امور ایسے ہیں جو اصولی طور پر انسان کی دیگر تمام مخلوقات پر افضلیت ثابت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ نے احکامِ شرعیہ کا مکلف صرف انسان کو بنایا ہے۔ مکلف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ درجے کی عقل اور فہم و فراست ہونے کے باوجود اپنے اختیار سے اطاعتِ خداوندی کو اختیار کیا جائے۔ اس صفت میں انسان فرشتوں سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے، کیونکہ فرشتوں کو احکاماتِ الہیہ سے روگردانی کا اختیار ہی حاصل نہیں ہے، کیونکہ ان کے اندر برائی کا مادہ ہی نہیں رکھا گیا وہ محض نوری مخلوق ہیں۔ یہاں جنات کو لے کر اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ وہ بھی کفر و ایمان اور اچھے برے اعمال کو اپنے اختیار سے اپناتے اور ترک کرتے ہیں۔ لیکن جنات پر انسان کی افضلیت اسی روز ثابت ہو گئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا تھا کہ میں انسان کو اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو علم کی دولت سے نواز کر جنات کے شہنشاہ اور پیشوا کو بھی یہ حکم دیا کہ وہ بھی انسان کو سجدہ کرے۔ حالانکہ ابلیس کا درجہ جنات میں سب سے اعلیٰ تھا اور وہ واحد جن تھا جسے آسمانوں میں فرشتوں کی معیت میں عبادات سرانجام دینے کی اجازت حاصل تھی۔
احکاماتِ شرعیہ کے مکلف ہونے کی وجہ سے ہی انسان کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء جو روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز تھے وہ بھی انسانوں میں سے ہی مبعوث فرمائے، کسی دوسری مخلوق (فرشتوں یا جنات) میں سے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث نہیں فرمایا۔ انسان کو حاصل ہونے والے ایسے بہت سے دینی اعزازات کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے جو انسان کی دیگر تمام مخلوقات پر دینی افضلیت کو ثابت کرتے ہیں۔
البتہ دنیوی اعتبار سے انسان کی اشرفیت قابلِ غور ہے۔ آئیے بات کو مکمل کرنے کے لئے اس پہلو پر بھی غور کرتے ہیں۔
معروف مفسرِ قرآن حافظ عماد الدین بن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفصیلات بنی آدم کے شرف و کرامت کی وجوہات تحریر کرتے ہوئے یہ بھی لکھتے ہیں:
’’(ترجمہ) اللہ تعالیٰ نے انسان کو سماعت، بصارت اور دل (ودماغ) دیا ہے جس کے ذریعے وہ سمجھ بوجھ حاصل کر کے اس سے نفع اٹھاتا ہے، مختلف اشیاء اور دنیا و آخرت کے اعتبار سے ان کے خواص اور نقصان دہ اثرات کے مابین فرق کرتا ہے‘‘۔ اس تفصیل کی روشنی میں جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ انسان کا اصل شرف و امتیاز اس کے فہم و فراست کی وسعت ہے جس کے ذریعے آج وہ کائنات کی طاقتوں کو مسخر کررہا ہے اور اس کی تسخیر کا دائرہ مسلسل ترقی پذیر ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی تمام تر دانشمندی اور قوتِ تسخیر کے باوجود بہت سی مخلوقات ایسی نظر آتی ہیں جو انسان کے دائرۂِ تسخیر سے باہر یا اپنی مخصوص صلاحیتوں میں انسان سے کہیں آگے ہیں۔ آپ کسی ننھے سے پرندے کو ہی دیکھ لیں، جس طرح وہ بنا کسی خارجی آلے کی مدد کے ہواؤں میں تیر سکتا ہے، انسان کی پہنچ سے یہ عمل (ظاہری اسباب کے درجے میں) باہر ہے۔ لہذا یہ کہنا مشکل ہے کہ انسان دنیوی اعتبار سے کلی طور دیگر تمام مخلوقات سے اشرف ہے۔ بلکہ جو بات راہِ اعتدال سے قریب لگتی ہے وہ یہی ہے کہ انسان کا دیگر مخلوقات سے اشرف ہونا کلی طور پر نہیں بلکہ مجموعی طور پر ہے۔ یعنی اگر انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہونے والی جملہ صلاحیتوں کے مجموعے کو دیکھا جائے تو اس قدر کثیر صفات اور صلاحیتیں آپ کو کسی دوسری ایک مخلوق میں دکھائی نہیں دیں گی۔ اگرچہ انفرادی طور پر کسی دوسری مخلوق کو کوئی ایسی صفت حاصل ہو بھی جائے جو انسان میں نہ ہو، مجموعی طور پر انسان کی صلاحیتیں اس سے زیادہ ہیں۔ ’’لقد خلقنا الانسان فی احسنِ تقویم‘‘ (ترجمہ: ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے) کا مفہوم بھی یہی ہو سکتا ہے کہ انسان کی تخلیق جس انداز میں کی گئی ہے وہ مجموعی طور پر تمام مخلوقات سے اعلیٰ ترین سانچہ ہے۔
یہاں اگر روبوٹس کی بات کی جائے کہ وہ کچھ صلاحیتوں میں انسان سے آگے ہیں تو یہ بھی خود انسان کی اشرفیت کی دلیل ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل و فراست استعمال کرتے ہوئے ایسی چیز ایجاد کی جو کچھ امور میں خود اپنے موجد سے بھی آگے ہے۔ پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ آج روبوٹس جس حالت میں بھی ہیں وہ انسان کے زیرِ تسخیر ہیں۔ یہ فریضہ کہ آنے والے دور میں روبوٹس خود انسانوں کو مسخر کر کے دنیا پر حکومت کریں گے تو یہ محض ایک مفروضہ ہے۔ میرے خیال میں جو انسان روبوٹ بنا سکتا ہے وہ کبھی اسے اس جرأت کی اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ خود اسی پر حکومت کرنے لگیں۔ یہ باتیں سائنس فکشن ہونے کی حد تک اچھی لگتی ہیں، حقائق سے اتنی دوری اچھی نہیں ہوتی۔
ایسی باتیں کرتے وقت ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ انسانوں کی تباہی روبوٹس کے ہاتھوں ہونے والی ہے، بلکہ قرآن اختتامِ کائنات تک انسانوں کے دنیا میں وجود کی گواہی دیتا ہے۔۔۔ جب وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ قیامت انسانوں پر قائم ہوگی۔ بطورِ مسلمان ہمیں کسی بھی قسم کا تبصرہ کرتے وقت مجموعی طور پر اسلامی تعلیمات اور نظریات کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ ایک پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش میں دوسرے پہلووں کو یکسر ویرانۂ نظر اندازی میں ڈال دینا یا طاقِ نسیاں پر رکھ دینا کم از کم اہلِ اسلام کو زیبا نہیں دیتا۔
خلاصہ یہ کہ انسان کا اصل شرف و کرامت دینی لحاظ سے ہے، جبکہ دنیاوی لحاظ سے اس کی اشرفیت مجموعی طور پر ہے نہ کہ کلی طور پر۔
ماشاءاللہ بہت اچھا لکھا جیتے رہیے. میں بھی اسی طرح کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر آپ نے بہت اچھا لکھا ہے.
انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام میرے نذدیک اشرف المخلوقات ہیں. ہمیں انہی جیسا بننے کی کوشش کرنی چاہئے. صراط الذین انعمت علیہم
 
ماشاءاللہ بہت اچھا لکھا جیتے رہیے. میں بھی اسی طرح کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر آپ نے بہت اچھا لکھا ہے.
انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام میرے نذدیک اشرف المخلوقات ہیں. ہمیں انہی جیسا بننے کی کوشش کرنی چاہئے. صراط الذین انعمت علیہم
شکریہ جناب! آپ کی جانب سے تعریفی کلمات دیکھ کر میں بہت خوش ہوا، اور تحریر کو دوبارہ پڑھا تو سمجھ میں آیا کہ آپ نے تعریف کے ذریعے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو اچھا لکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ چنانچہ عبارت میں موجود متعدد ادبی اغلاط پر نظر گئی اور ان کی تصحیح کی کوشش کی۔ مزید بہتری کے لئے اہلِ قلم سے اصلاح کی استدعا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
خلاصہ یہ کہ انسان کا اصل شرف و کرامت دینی لحاظ سے ہے، جبکہ دنیاوی لحاظ سے اس کی اشرفیت مجموعی طور پر ہے نہ کہ کلی طور پر۔
ایسا ہی ہے۔ اگر صرف حیاتیاتی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو بہت سے جاندار انسان سے کہیں زیادہ اشرف ہیں۔
 
Top