سرحد کے اس پار * تبصرہ جات

فرقان احمد

محفلین
مغلوں کے ہر قلعہ میں مسجد کا نام موتی ہی کیوں رکھا گیا؟؟؟
شاہ جہاں کا دور مسجدوں کی تعمیر کا شاہ کار دور کہلاتا ہے۔ اس دور میں لوگ مسجد کو سب سے قیمتی چیز سے منسوب کرتے تھے۔ موتی مسجد ،انسان کو قدرت کا عظیم عطیہ ہے۔ اس نام سے منسوب کئی مسجدوں میں اپنے دور کی مشہور مسجدیں کہلاتی ہیں۔ موتی مسجد کی تعمیر کے بعد اس کی خوبصورتی سے لوگ اتنے متاثر ہوئے کہ اس کے طرز تعمیر پر دنیا کے بیشتر حصوں میں مسجدیں قائم ہوئیں۔ موتی مسجد کے نام پر ہندوستان، پاکستان میں کئی مسجدیں بنائی گئیں۔ یہ وہ مسجدیں ہیں جن کی طرز وتعمیر اور خوب صورتی پر دنیا کے بڑے بڑے آرکیٹیکٹ حیران رہتے ہیں۔ زیر نظر مضمون ہند ۔پاک میں موجود موتی مسجد کے نام سے منسوب کئی مسجدوں کے ذکر کا احاطہ کرتا ہے اور ہمیں درس دیتا ہے کہ اگر جذبہ ایمانی میں اخلاص حوصلہ ہو تو اللہ کا گھر بھی حسین تر ہو جاتا ہے، بلکہ آرکیٹیکٹ کی دنیا میں بھی اپنی الگ شناخت پیش کرتا ہے۔
 
موتی مسجد کی ایک تخیلاتی تصویر!!!
900-The-Pearl-Mosque-at-Agra.jpg
امام صاحب نے صفیں سیدھی نہیں کروائیں؟
 
تاج محل کا تذکرہ تو لاجواب ہو گیا۔
یقین جانیے کہ اتنی تفصیل سے پہلی بار ہی دیکھا اور پڑھا تاج محل کے بارے میں۔
تصاویر کے کریڈٹس بھی شامل کر دیجیے گا، جہاں سے حاصل کیں۔
 

بافقیہ

محفلین
صبح ناشتہ کرکے بس میں بیٹھے اور سہارن پور کے قریب واقع ایک چھوٹے سے گاؤں رام پور جا اُترے۔ رام پور نام کی ایک بڑی ریاست بھی اتر پردیش کے صوبے میں واقع ہے۔یہاں کی چاقو چھریاں اور پٹھان بہت مشہور ہیں۔ لیکن ہمارا وہاں جانے کا کوئی قصد نہ تھا۔ بس رام پور گاؤں کے کنارے اتار کر دھواں اُڑاتی آگے بڑھ گئی۔ یہاں آنٹی کی خالہ زاد بہن کا گھر تھا، ان کے میاں بڑے زمیں دار تھے لہٰذا اپنی شان کے مطابق ہمیں ریسیو کرنے ’’مرسڈیز بیل ‘‘ بھیج دی۔ یہ بیل ہی ہے اسے بینز نہ پڑھا جائے، البتہ مرسڈیز کا اضافہ اضافی ہے۔
بیل گاڑی میں کیسے بیٹھیں؟ ہم جھجھک گئے۔ ایسا ایڈونچر کبھی نہ کیا تھا۔ بیٹھیں تو کہاں؟ یہاں فرنٹ یا بیک سیٹ تو کیا کسی سیٹ کا کوئی وجود نہ تھا۔ محمود و ایاز سب کے لیے ایک جیسا نقشہ تھا۔ ہمیں جھجھکتے دیکھ کر آنٹی بولیں:
’’سب سے پہلے اس کو بٹھاؤ، ورنہ یہ سب کا سفر غارت کردے گا۔‘‘
اس سے پہلے بچہ پارٹی ہمیں زبردستی ذلیل کرکے بٹھاتی ہم نے خود ہی عزت سے بیٹھ جانے میں عافیت جانی۔ جس عجیب و غریب طریقے سے مختلف زاویوں کے ساتھ ہم بیل گاڑی پر کبھی چڑھے کبھی اُترے وہ الگ کہانی ہے جو ناقابل بیان کے زمرے میں آجاتی ہے لہٰذا اس کا ذکر حذف کرتے ہیں اور بیل گاڑی پر لدنے کے بعد کا احوال بیان کرتے ہیں۔ لرزتے کانپتے ہم بیل گاڑی پر لدے تو فرنٹ سیٹ پر جگہ ملی۔ بیل وقفے وقفے سے اپنی دم ہلاتا تو ہمیں تقریباً چھوتے ہوئے گزرتی۔ ہم اس سے بچنے کے لیے پیچھے ہونے کی کوشش کرتے تو سارے کزن مل کر ہمیں مزید آگے کی طرف کھسکا دیتے:
’’اب کے اگر کسی نے دھکا دیا تو ہم سیدھا بیل پر سوار ہوجائیں گے۔‘‘مگر ہماری منمناہٹ خاطر میں نہ لائی گئی اور کزنز کی یہ پریکٹس جاری رہی۔
سامنے الگ تماشہ چل رہا تھا۔ آنٹی اور معین میں کشمکش ہورہی تھی۔ ہر فریق فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کا متمنی تھا۔ اس جنگ کو جیتنے کے لیے دھینگا مشتی ہورہی تھی۔ بالآخر آنٹی نے اپنی جسامت، ڈیل ڈول اور بڑے ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھا لیا۔ معین کو ان کے برابر میں جگہ ملی۔ اس کی چمکدار آنکھوں میں انتقام کے شعلے لپک رہے تھے۔ آخر بول اٹھا:
’’آنٹی میرے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ میں اس کا بدلہ لے کر رہوں گا۔‘‘ ٹھٹھول بازیوں میں مگن آنٹی نے اس کی سننا تک گوارا نہ کی۔ لیکن یہ جو کیا بہت برا کیا۔ انہیں کیا معلوم تھا عنقریب ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ نہ جانے معین کے دماغ میں کیا کھچڑی پک رہی تھی ہم نے صرف اتنا دیکھا کہ اچانک اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ہم سمجھ گئے آگیا ہوگا ذہن میں کوئی شیطانی منصوبہ۔ ہم بالکل صحیح سمجھے تھے۔معین کچھ دیر تو ہمیں شرارت بھری نظروں سے دیکھتا رہا پھر جھک کر کان میں بولا:
’’عمران بھائی آپ میری جگہ پر آجاؤ، میں ابھی آنٹی کو آگے بیٹھنے کا مزہ چکھاتا ہوں۔‘‘
ہم ویسے ہی بیزار بیٹھے تھے فوراً جگہ بدلنے پر آمادہ ہوگئے۔ دونوں نے کھسک کر ایک دوسرے سے جگہ بدل لی۔ ابھی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عنقریب کیا ہونے جارہا ہے، کسی کو ذرا بھی ہوا لگ جاتی تو شاید وہ نہ ہوپاتا جو ہوگیا تھا۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ معین نے ہوا میں لہراتی بیل کی پونچھ ایک ہاتھ میں پکڑی اور دوسرے ہاتھ میں آنٹی کا ہاتھ پکڑ کر بولا:
’’آنٹی یہ لیں، ذرا دھیان سے پکڑئیے گا۔‘‘
آنٹی جو گردن موڑے اپنے برابر والی سے باتوں میں مصروف تھیں بے دھیانی میں بیل کی دم پکڑ لی۔ لیکن جیسے ہی انتہائی ناگوار للبلی سی دُم اور پونچھ کے بالوں کا احساس ہوا تو گردن موڑ کر دیکھا کہ کیا چیز پکڑ لی۔ جیسے ہی منظر پر نظر پڑی انتہائی لرزہ خیز چیخ ماری،جھٹکے سے دُم چھوڑی، ایک زوردار دھپ معین کے لگائی اور انتہائی کراہت آمیز لہجے میں کہا:
’’اییییہہ۔ کم بخت یہ کیا چیز تھی۔‘‘
’’بیل کی دم تھی۔‘‘ انتہائی اطمینان سے جواب دیا گیا۔
’’میرے ہاتھ میں کیوں دی؟‘‘ لہجہ ایسا تھا جیسے ابھی قے ہوجائے گی۔ بار بار ہاتھ بیل گاڑی سے رگڑتی جاتیں جیسے ان دیکھی گندگی اور جراثیم صاف کر رہی ہوں۔
’’بیل کے پاس بیٹھیں گی تو دم ہی ملے گی، سونے چاندی کے پہاڑ نہیں ۔‘‘ بدلہ لے کر معین کی طبیعت ہلکی ہوچکی تھی اور آنٹی کی بھاری۔
گھر عام سا لیکن کافی بڑا اور کشادہ تھا۔ تھوڑی دیر آرام کے بعد کھانا کھایا پھر زمیں دار صاحب کی زمینیں دیکھنے پہنچ گئے۔ سردیوں کی شروعات ہوا چاہتی تھیں۔ گنّے کے کھیت میں گنے لگے ہوئے تھے۔ یہاں گنے کو ’’اِیخ‘‘ کہتے ہیں، نہ جانے کیوں؟ شاید اس لیے کہ ہم بھی تو انہیں گنّا کہتے ہیں، اب تو بعض لوگ اسے ’’گناہ‘‘ بھی لکھنے لگے ہیں اور سر عام اس کا جوس نکال کر دھڑلے سے فروخت کرتے ہیں۔
کھیت سے گنے توڑ کر پاس بہتی چھوٹی سے نہر میں دھوئے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد کا مرحلہ نہایت پریشان کن تھا۔ لوگ باگ دانتوں سے گنا چھیل، بغیر گنڈیریاں بنائے ثابت ڈنڈے پہ منہ مارنے لگے۔ یہ سب ہمیں کہاں آتا تھا۔ افسوس ہم زندگی بھر دنیا کے کتنے ہنروں سے بے بہرہ رہے۔ ہم افسردہ کھڑے تھے تبھی کسی نے چِھلا چِھلایا گنا ہمیں پیش کیا۔ شاید ہماری پریشانی بھانپ گیا تھا۔ لیکن گنے کا یہ ڈنڈا بھی ہمارے مسئلہ کا حل نہ تھا۔ ہم اسے ہاتھ میں لیے بے بسی سے تک رہے تھے کہ پہلے کہاں منہ مارا جائے، مگر افسوس ککھ وی پلّے نہ پڑا ۔ اب کوئی اپنے دانتوں سے نچا گنا چھیل کر ہمیں دیتا تو اسے کھانے پر بھی طبیعت آمادہ نہ ہوتی۔ ہم سمندر کے کنارے بھی پیاسے ہی رہے۔
رات کو کھانے کے بعد آنٹی کو رشتے داروں سے ملاقات کی سوجھی۔ نہ جانے کس کس کے یہاں گئے بس ایک نقشہ یاد رہ گیا۔ ایک گھر میں داخل ہوئے، کم واٹ کا بلب جل رہا تھا، صحن میں ملگجی روشنی پھیلی ہوئی تھی، تبھی ایک لڑکی سادہ سا لباس پہنے سر پر دوپٹہ جمائے لنگڑاتی ہوئی آئی، حال احوال پوچھا، کمرہ میں بٹھایا اور ناشتہ پانی کا بندوبست کرنے چلی گئی۔ ہمیں دیکھ کر دُکھ ہوا کہ اس عمر میں کیا روگ لگ گیا تھا۔ آنٹی نے ہماری صورت پر بارہ بجتے دیکھ کر کہا:
’’یہ ویسی معذور نہیں جیسا تم سمجھ کر منہ پر بارہ بجائے بیٹھے ہو۔ اسے عرق النساء کی بیماری ہے۔ علاج کروارہی ہے صحیح ہوجائے گی۔ اب چہرہ سے یہ نحوست ہٹاؤ ورنہ تمہیں دیکھ کر دہل جائے گی کہ پتا نہیں مجھے کیا بیماری لگ گئی۔‘‘ آنٹی نے نحوست ہٹانے کا کہا اور ہم نے فوراً ہٹا لی۔
اگلے دن دیوبند پہنچ گئے تھے۔
پاکستان واپسی کی گھڑیاں سر پر کھڑی تھیں۔یہاں ہماری دلچسپی کی صرف ایک چیز باقی رہ گئی تھی۔
تاج محل!!!
گلابی شہر جے پور اور بمبئی انڈیا والوں نے نہیں دیکھنے دئیے اور سری نگر اور ڈل جھیل چچا نے۔ دہرہ دون جاتے سمے ہم نے چچا سے فرمائش کی تھی کہ کشمیر بھی لے چلیں۔ تب چچا نے کہا :
’’وہاں تو آگ لگی ہوئی ہے، انڈین نہیں جاسکتے پاکستانیوں کو تو اس کا خواب بھی نہیں دیکھنا چاہیے۔‘‘
اس کے بعد سے ہم نے کشمیر اپنے خوابوں میں بھی دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔
لیکن تاج محل؟؟؟
آہ !!!
اسے کیسے بھلادیں؟؟؟
اپنے والد سے اس کے طلسماتی، کرشماتی اور ساحرانہ کشش کے جو قصے سن رکھے تھے انہیں عملی جامہ پہنائے بغیر کیسے رہا جاسکتا تھا۔ پاکستان میں ہی چچا سے وعدہ لے لیا تھا کہ کچھ دکھائیں نہ دکھائیں تاج محل آپ کو ہرحال میں دکھانا ہوگا، چاہے کچھ بھی ہوجائے۔اس وقت تو انہوں نے ہامی بھر لی تھی لیکن اب جب کہ دم واپسیں کی ساعتیں سر پر کھڑی تھیں چچا نے سب کچھ دکھا دیا تھا لیکن تاج محل دکھانے کا نام تک نہیں لے رہے تھے۔
ہر شام جب سورج ڈوبتا ہمارا دل بھی ڈوب جاتا۔ آج کا دن بھی نکل گیا اور تاج محل کا کوئی تذکرہ نہ ہوا۔ اگر چچا نے تاج محل نہ دکھایا تو عمر بھر اس کا افسوس رہے گا۔ نہ جانے زندگی میں دوبارہ آنا ہو یا نہیں۔ اس بار بھی جتنی مشکلوں سے یہاں پہنچے ہیں یہ ہم جانتے ہیں یا ہمارے قارئین!!!
ہائے عمران بھائی! میں نے سفر نامہ درمیان سے شروع کردیا۔
مزیدار اس قدر ہے کہ کام میں حرج کے باوجود چھوڑنے کا دل نہیں کرتا۔ اور ویسے تذکرہ بھی تو ہمارے ملک ہندوستاں کا ہے۔:)
 

سید عمران

محفلین
عزیزم آپ کا سفر نامہ بڑا دلچسپ ہے لیکن دو یا تین دن سے اس میں اضافہ نہیں ہوا ہے
برائے مہربانی اس کو تکمیل تک پہنچادیں
جی مصروفیات میں سے جیسے جیسے وقت نکلتا ہے کچھ نہ کچھ یادداشتیں قلم بند کرتے جاتے ہیں...
ان شاء اللہ جلد ہی مزید پیش کریں گے!!!
 
بھیا آخر کب تو آپ گوگل سے اٹھائی تصویر دیکھا دیکھا کر ہمارا دل بہلاتے رہیں گے ،
کچھ تاج محل کی تفریح کا احوال بھی بیان کریں ،
بلکہ آپ اب سرحد پار سے واپس آجائیں ہمارا یہاں تنہا دل نہیں لگا رہا ۔
 
Top