سید عمران

محفلین
اور۔۔۔
دروازہ پار کرتے ہی ہوش و حواس کے پرزے پرزے اُڑ گئے!!!

W020181212576671975805.jpg
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
تاج محل کے پچیس فٹ بلند پلیٹ فارم پر چڑھنے کے لیے جو سیڑھیاں بنی ہیں ان کا راستہ سامنے سے نظر نہیں آتا۔ تاج محل کی تصویر کو غور سے دیکھیں تو چبوترے کے نیچے بالکل درمیان میں ایک لمبا سا حجرہ بنا نظر آئے گا۔ اس کے دائیں اور بائیں پہلوؤں سے سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں۔
taj-mahal-architecture.jpg
 

سید عمران

محفلین
اوپر پہنچ کر دربارِ محبت کے احترام میں سب سے پہلے جوتے اتارنے پڑتے ہیں۔۔۔
اور پھر یہ دم بخود کردینے والا منظر !!!

Taj-Mahal-marbles-441.jpg
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اس محراب کے تین اطراف میں قرآنی آیات لکھی ہیں۔ اس کیلی گرافی بھی میں آپٹیکل الیوژن کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ نیچے سے آیات دیکھیں تو بظاہر اوپر تک ایک جیسا سائز لگے گا، لیکن اصل میں جیسے جیسے اوپر جاتی ہیں سائز بڑا ہوتا جاتا ہے۔ یوں نیچے کھڑے ہوکر پڑھنے میں تمام الفاظ ایک جتنے دِکھتے ہیں!!!

6076487-Taj-Mahal-Inscriptions-0.jpg
 

سید عمران

محفلین
غور سے دیکھیں تو واضح طور پر نظر آئے گا کہ نیچے سے اوپر جاتے ہوئے کیلی گرافی کے سائز میں اضافہ ہورہا ہے!!!

12249554-close-up-of-the-taj-mahal-archway.jpg
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اوپر بنی بالکونیوں سے لی گئی تصویر۔۔۔
جالیوں کے عین درمیان میں ممتاز محل کی قبر ہے۔۔۔
اس کے برابر زبردستی شاہجہاں کو دفنا کر توزان کا سارا حسن زائل کردیا گیا۔۔۔
شاہجہاں یہاں دفن ہونا نہیں چاہتا تھا۔۔۔
وہ اپنے لیے تاج محل کے عین سامنے جمنا کی دوسری طرف سیاہ تاج محل بنانا چاہتا تھا۔۔۔
لیکن عین اُس وقت، وقت کچھ اور کہانی لکھ رہا تھا!!!

hqdefault.jpg
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
چبوترے کے اوپر ممتاز محل اور شاہجہاں کی قبریں نقلی ہیں۔۔۔
اصلی قبریں نیچے ہیں۔۔۔
ہم نیچے گئے۔۔۔
شدید ترین حبس اور آکسیجن کی کمی محسوس ہوئی۔۔۔
قبروں پر بنی میناکاری کے سوا وہاں دیکھنے کے لیے کچھ نہ تھا۔۔۔
کاری گری کے جو مظاہرے کیے گئے اوپر ہی کیے گئے ۔۔۔
ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور تھے!!!

26-taj-mahal-inside-preview.jpg
 

سید عمران

محفلین
شاہجہاں نے تاج محل کی تعمیر کے لیے سروے کروایا تو معلوم ہوا کہ دریائے جمنا کے ریتیلے اور نم آلود کنارے پر ایسی بھاری بھرکم عمارت کا وجود قائم رہنا ناممکنات میں سے ہے۔ اپنی تعمیر کے کچھ ہی عرصہ بعد یہ عمارت زمین میں دھنس جائے گی۔ بادشاہ کے اصرار پر کافی سوچ بچار ہوئی، بار بار سروے ہوئے، اس جد وجہد کے بعدبالآخر ایک حل سمجھ میں آیا اور بادشاہ کے اذن پہ اس پر کام شروع ہوگیا۔

سب سے پہلے کافی گہرائی تک کھدائی کرکے اس میں کنکروں اور پتھروں کی تہہ بچھائی گئی۔ اس پر سیمنٹ کنکریٹ کا پختہ فرش بنا کر سینکڑوں کی تعداد میں مضبوط پلرز تعمیر کیے گئے۔ پلرز کے درمیان خالی جگہ مٹی سے بھری گئی پھر ان پلرز پر پختہ سیمنٹ کی سلیبیں رکھی گئیں اور ان پر تاج محل کھڑا کیا گیا۔ سفید تاج محل کے نیچے سرخ رنگ کا فرش بچھا آج بھی نظر آتا ہے جس کے بل بوتے پر حسن و جمال کے اس پیکر کی شان جلوہ افروز ہے۔تاج محل کی اصل تعمیر سرخ پتھروں سے کی گئی ہے جن پر سفید سنگ مرمر چسپاں کیا گیا ہے۔اس سارے سلسلہ میں تاج محل کی لاگت بھی بڑھ گئی اور تعمیر کا دورانیہ بھی۔

بیس سے بائیس سال کے عرصے میں تعمیر ہونے والے تاج محل کی لاگت کا اندازہ اُس وقت کے چار کروڑ روپے لگایا جاتا ہے۔ یہ رقم آج کے تریپن ارب روپے سے بھی تجاوز کرجاتی ہے۔تاج محل کی تعمیر کے بعد اس کے باغات اور متعلقات کی تعمیر و تزئین میں مزید پانچ سال کا عرصہ لگا۔

غور سے دیکھیں تو تاج محل کے چاروں مینار تھوڑے ترچھے نظر آئیں گے۔ یہ تعمیراتی نقص نہیں ہے بلکہ انہیں دانستہ طور پر باہر کی جانب تھوڑا ترچھا رکھا گیا ہے تاکہ زلزلہ آنے کی صورت میں تاج محل پر نہ گریں، باہر کی جانب گرجائیں۔۔۔
حد ہوتی ہے اتنی نزاکت کی بھی!!!

تاج محل کے تہہ خانے سے ایک سرنگ آگرہ قلعہ کی جانب نکلتی ہے۔ امتداد زمانہ سے یہ اب خستہ حال ہے اور اس کا دہانہ جالی کا دروازہ لگا کر بند کردیا گیا ہے۔

تاج محل کے مشرقی جانب سرخ پتھروں سے تعمیر کردہ ایک عمارت ہے، یہ مسافر خانہ یا مہمان خانہ تھی۔ تاج محل اور اس عمارت کے درمیان پانی کا حوض ہے۔ بالکل یہی طرز تعمیر تاج محل کے مغرب کی جانب کاپی پیسٹ کیا گیا ہے۔ مگر یہ دوسری عمارت مسجد کی ہے۔

شاہجہاں کو اللہ تعالیٰ نے جمالیاتی ذوق سے خوب نوازا تھا۔اس نے دریافت کیا کہ تاج محل کا سب سے دلکش نظارہ جمنا کے پار سے ہوتا ہے۔ اس غرض کے لیے اس نے عین تاج محل کے سامنے جمنا کے دوسرے کنارے پر ایک باغ بنوایا۔ اس باغ کا نام مہتاب باغ تجویز کیا۔ شاید اس کی وجۂ تسمیہ یہ ہو کہ یہاں سے چاندنی راتوں میں تاج محل کا مسحور کن نظارہ کیا جاتا ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اسی جگہ شاہجہاں نے اپنے لیے سیاہ تاج محل تعمیر کرنے کا ارادہ کیا تھا۔

یہاں دریا کے کنارے ہلالی انداز میں نشستیں، فوارے اور حوض تعمیر کیا گیا تھا۔ مگر دریائے جمنا کی طغیانیوں اور زمانے کی دست برد سے اس باغ کا وجود ناپید ہوگیا۔ چند برس قبل بھارتی حکومت نے سروے کروایا تو کھدائی کے دوران مغلیہ تعمیر کے کچھ آثار ظاہر ہوئے۔ انہی خطوط پر کام کرتے ہوئے اب یہاں ایک خوشنما باغ قائم کردیا گیا ہے!!!
 
آخری تدوین:
Top