عنوان تو اہالیان محفل کے دل میں محبوب کے ابرو کے تیر طرح لگا ہے جا کر۔۔۔ جسے دیکھو نیم بسمل نظر آرہا ہے۔۔۔ :devil:

جاسم عین شین قاف کے ہاسے کا اقتباس اور "محفلی کافر" کے اقتباس کے دوران 'آھو نی آھو'
بقول علامہ رضوی صاب "گل وچ ہور اے"
جہیڑی تہانوں وی پتہ ای اے۔
 

زیک

مسافر
دراصل کاغذی کارروائی بہت بڑھ گئی ہے۔

چار پانچ سال قبل آخری ٹوکن لینے کے لیے کاغذات جمع کروانے گیا تو پہلا سوال یہ ہوا کہ آپ تو سٹیٹ سے باہر رہائش پذیر ہیں ٹوکن کس لیے چاہیے۔ بتایا کہ بچے پڑھتے ہیں، تو جواباً کہا کہ اگر سرکاری سکول میں پڑھتے ہیں تو وہاں سے لیٹر لے کر آئیں اگر پرائیویٹ میں پڑھتے ہیں تو ویری سوری۔ کھڑکی چھوڑ سکول کی طرف نکل لیے، وہاں گئے تو اندر جانے کی اجازت نا ملے، پھر کسی طرح پیغام رسانی ہوئی تو حکم آیا درخواست لکھ کر شناختی کارڈ کی کاپی اور بچے کی جمع کروائی آخری فیس کی سلپ کی کاپی ساتھ لگا کر جمع کروا دیں، اور تین چار دن بعد لیٹر لے لیجے گا۔ تین چار دن گزر گئے۔ لیٹر ملا پھر کھڑکی تک پہنچے تو کاغذات چیک کرنے والے نے کہا کہ پاکستانی لائسنس اسی سال ایکسپائیر ہونے والا ہے۔ پہلا حکم یہ ہوا کہ جتنی مدت کا ٹوکن مطلوب ہے اتنی مدت کا لائسنس بھی باقی ہونا چاہیے۔ بہتیرا کہا کہ چار ماہ رہتے ہیں کروا لوں گا آپ پورے سال کا دے دیں لیکن اگلے چار ماہ سے زائد ٹوکن دینے پر راضی نا ہووے۔ خیر پھر کسی طریقے پر راضی کر لیا تو شناختی کارڈ پر لکھا ایڈریس دیکھ کر بولے کہ آپ کینٹ بورڈ سے کلئیرنس سرٹیفیکیٹ لے کر آئیں کہ آپ سٹیٹ کی حدود سے تو باہر ہیں لیکن کینٹ بورڈ میں آتے ہیں۔

کینٹ بورڈ کی طرف نکل لیے وہاں جا کر رابطہ کیا تو انھوں نے فوٹوسٹیٹ والی دکان سے کلئیرنس سرٹیفیکیٹ کی کاپی لانے کا کہا۔ لایا اور اسے پُر کر کے دیا تو بولے بس یہ جمع ہو گئی ہے آپ دو دن بعد چکر لگائیے تاکہ اس دوران ہم ریکارڈ چیک کر سکیں، گھر کو واپسی ہو گئی۔ دو دن بعد گئے تو صاحب بولے ہم نے ریکارڈ دیکھا ہے آپ نے کینٹ بورڈ کو فلاں فلاں ٹیکس جمع نہیں کروایا ہوا، میں تفصیل لکھ دیتا ہوں آپ اکاؤنٹ والوں سے واؤوچر بنوا لیں اور نیشنل بینک میں جمع کروا کے تین فوٹو کاپیاں کروائیں اور یہیں واپس جمع کروا دیں۔ کوئی 22، 25 سو کے لگ بھگ تھا۔ یہ کارروائی پوری کر کے واپس ہوا تو کاغذات جمع کر لیے اور پھر تین دن کا وقت دے دیا کہ اس دوران اکاؤنٹس والے بینک سے کنفرم کروا لیں گے اور ایسا اس لیے ضروری ہے کہ سال دو سال قبل کچھ ناہنجاروں نے واؤچر پر جعلی سٹیمپس لگا کر بھی کلئیرنس سرٹیفیکٹ لے لیے تھے۔ خیر تین دن اور سہی۔

تین کی بجائے ہفتہ لگ گیا کہ متعلقہ آفیسر کراچی گیا ہوا تھا اور، دفتر میں سرکاری ایمرجنسی ڈاک کے علاوہ کسی کے پاس دستخط کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ کلئیرنس ملا تو پھر ٹوکن آفس کی طرف ہو لیے۔ کاغذات کی نئے سرے سے جانچ پڑتال ہوئی، کوئی سقم نا پا کر ایک اور صاحب کے حوالے کر دیا کہ اب ٹوکن کی فیس کا واؤچر بنوائیں اور جمع کروائیں۔ ہر دو کھڑکیوں پر لمبی قطاریں تھیں۔ کوئی ایک بجے کے لگ بھگ واؤچر ملا اور پھر نیشنل بینک اور اور قطار میں لگ گیا۔ 1200 کے لگ بھگ جمع کروایا اور واپس ٹوکن آفس کی قطار میں۔ کاغذ جمع ہوئے تو ہفتے بعد آنے کا وقت مل گیا۔

وہ آخری ٹوکن تھا، ختم ہوا تو نیا نہیں بنوایا، اپنی مجبوریات اور ضروریات کو سٹیٹ سے باہر منتقل کر لیا۔ ضرورت ہوئی تو پبلک ٹرانسپورٹ اور اشد ضرورت ہوئی تو موٹر سائیکل۔ جہاں گاڑی بِنا کام نہیں وہاں لائین میں لگ کر انٹری کروا لی۔اور اب تو دو سال سے یہ بھی نہیں کیا۔

اسلم مارکیٹ کے بینک میں ایک بچے کی فیس جمع کروانی ہوتی ہے تو دو ماہ میں ایک بار جمع کروانے جاتا ہوں۔ ایک ماہ لیٹ پر 50 روپے کا فائن پڑتا ہے جو باخوشی ادا کر دیتا ہوں کہ ایک پھیرا لگانے سے تو جان بچ گئی ہے۔ :)
یہ پی او ایف ہوٹل کے کچھ بعد ناکہ بندی کا کیا چکر ہے؟ اس طرف جاؤ تو روک کر وجوہات پوچھنا شروع کر دیتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
جو بھی ملا اُسی کا دل حلقہ بگوش یار تھا
اس نے تو سارے شہر کو کر کے غلام رکھ دیا

فراز نے تو نہ جانے کس کے لئے کہا تھا لیکن زیک بھائی سے مل کر آنے والے سب کے سب لوگ اُن کے مداح نظر آتے ہیں۔
جان بوجھ کر ایسے لوگوں کو چنا تھا جو مداح بن سکیں۔ ناقدین کو وقت سے پہلے خبر ہی نہ ہونے دی کہ پہنچ نہ جائیں
 

زیک

مسافر
2008 میں سپیڈی جنت کے طلبگاروں نے کام دکھایا تھا، وہ اور شہیدان تو چلے گئے، پر ہم باقیوں کے لیے ہمیشہ کی سردردی چھوڑ گئے۔

اس کے بعد پورے واہ سٹیٹ ایریا کے گرد لگ بھگ 14 سے 16 کلومیٹر لمبی اور 12 فٹ اونچی دیوار بنائی گئی، جس پر خاردار تاریں بھی لگائی گئیں۔ پیدل، سائیکل اور موٹر سائیکل کا داخلہ بھی 5 انٹری گیٹس کے علاوہ مکمل بند کر دیا گیا۔ ہزاروں لوگ روزانہ اپنے کام کاج کے لیے سٹیٹ ایریا میں جاتے رہتے تھے، سو وقت و فیول کا ضیاع، لمبی قطاروں کی تکلیف اور روزانہ ہی لیٹ ہونے سے جڑی چخ چخ شروع ہوگئیں تو مارکیٹ و عوام والوں نے احتجاج اور ہڑتالیں شروع کر دیں۔ لیکن خاکیان ٹس سے مس نا ہوئے۔ آخر بلدیاتی نمائندوں اور سول ایڈمینسٹریشن نے خاکیان کو سمجھایا بجھایا تو دیوار واہ کینٹ میں مختلف آبادیوں کے پاس کہیں ایک اور کہیں دو وکٹ گیٹ بنانے کی اجازت ملی جن کے کھلنے بند ہونےکے اوقات مقرر ہوئے اور سیکورٹی گارڈز کی تعیناتی بھی۔ 6 سے لیکر 10 بجے تک۔ کوئی بڑا آ جائے یا بڑا دن آ جائے تو تقریبات کے دورانیے میں پھر بند۔

ہم 21 کروڑ 90 لاکھ یرغمالی ہیں۔
سینٹرل پارک بیٹی کو اپنا پیدائشی گھر دکھانے گیا تو وہاں بھی گدوال کی طرف والی سڑک کے آغاز پر ایک گیٹ پایا
 

زیک

مسافر
امریکی لائسنس کو آپ گھر میں رکھ کر ہی جائیں ایسی جگہوں پر اور صرف اپنی اردو سے ہی آئی ڈی کا کام چلانے کی کوشش کریں۔
کاغان اور گلگت بلتستان میں تقریباً ہر پولیس و فوجی چوکی پر اردو سے ہی خود کو پاکستانی ثابت کیا۔ البتہ کچھ جگہ کارڈ بھی دکھانا پڑا اور ایک جگہ پاسپورٹ تک بات پہنچ ہی گئی لیکن گن بردار گارڈ سے پھر بھی بچت ہو گئی۔
 
یہ پی او ایف ہوٹل کے کچھ بعد ناکہ بندی کا کیا چکر ہے؟ اس طرف جاؤ تو روک کر وجوہات پوچھنا شروع کر دیتے ہیں۔
لالہ رُخ، لالہ زار اور آفیسرز کالونی کو دیوارِ واہ کینٹ سے باہر نہیں نکال پائے تو اس طرف سے آنے والوں کے لیے ایک مستقل ناکہ لگا دیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ لالہ رخ ااور لالہ زار والے آفیسرز کالونی کی وجہ سے بچ گئے ہیں، جہاں پوِترمخلوق کی ایک بڑی تعدادقیام پزیر ہے۔ جنرل پاشا کا گھر بھی ادھر ہی ہے۔
سینٹرل پارک بیٹی کو اپنا پیدائشی گھر دکھانے گیا تو وہاں بھی گدوال کی طرف والی سڑک کے آغاز پر ایک گیٹ پایا
آہا۔۔۔۔ نہیں معلوم کہ مجھے تو اس طرف گئے ہوئے بھی عرصہ بیت گیا۔
آپ کا گھر گلنستر روڈ پر تھا ؟
 

زیک

مسافر
سچ تو یہ ہے کہ لالہ رخ ااور لالہ زار والے آفیسرز کالونی کی وجہ سے بچ گئے ہیں، جہاں پوِترمخلوق کی ایک بڑی تعدادقیام پزیر ہے۔ جنرل پاشا کا گھر بھی ادھر ہی ہے۔
آفیسرز کالونی میں کافی گھر کمرشل مقاصد کے لئے استعمال ہوتے دیکھ کر حیرت ہوئی
 

زیک

مسافر
کینٹ ایریا میں سویلئن کے داخلے کی فیکٹری

میں اکثر ایسے حالات میں اپنے کولیگز کو کہتا ہوں کہ ہم سیالکوٹ کینٹ میں نہیں بلکہ جموں کینٹ میں داخل ہو رہے ہیں۔ :)

2008 میں سپیڈی جنت کے طلبگاروں نے کام دکھایا تھا، وہ اور شہیدان تو چلے گئے، پر ہم باقیوں کے لیے ہمیشہ کی سردردی چھوڑ گئے۔

اس کے بعد پورے واہ سٹیٹ ایریا کے گرد لگ بھگ 14 سے 16 کلومیٹر لمبی اور 12 فٹ اونچی دیوار بنائی گئی، جس پر خاردار تاریں بھی لگائی گئیں۔ پیدل، سائیکل اور موٹر سائیکل کا داخلہ بھی 5 انٹری گیٹس کے علاوہ مکمل بند کر دیا گیا۔ ہزاروں لوگ روزانہ اپنے کام کاج کے لیے سٹیٹ ایریا میں جاتے رہتے تھے، سو وقت و فیول کا ضیاع، لمبی قطاروں کی تکلیف اور روزانہ ہی لیٹ ہونے سے جڑی چخ چخ شروع ہوگئیں تو مارکیٹ و عوام والوں نے احتجاج اور ہڑتالیں شروع کر دیں۔ لیکن خاکیان ٹس سے مس نا ہوئے۔ آخر بلدیاتی نمائندوں اور سول ایڈمینسٹریشن نے خاکیان کو سمجھایا بجھایا تو دیوار واہ کینٹ میں مختلف آبادیوں کے پاس کہیں ایک اور کہیں دو وکٹ گیٹ بنانے کی اجازت ملی جن کے کھلنے بند ہونےکے اوقات مقرر ہوئے اور سیکورٹی گارڈز کی تعیناتی بھی۔ 6 سے لیکر 10 بجے تک۔ کوئی بڑا آ جائے یا بڑا دن آ جائے تو تقریبات کے دورانیے میں پھر بند۔

ہم 21 کروڑ 90 لاکھ یرغمالی ہیں۔

کیا ایک سادہ آئی ڈی رجسٹر کرنا کافی نہیں چھاؤنی میں داخل ہونے کے لیئے؟
اور چھاؤنی کے رہائشی علاقے میں داخلے کے لئے اجازت کیوں چاہیے؟

ایک نئی بات پتا چلی۔ ایک دوست کی فیملی کچھ پاکستانی اور کچھ غیر پاکستانی ہے۔ وہ ایک شادی پر پاکستان ہیں۔ شادی ہال ایک بڑے شہر کے کھلے کینٹ میں ہے اور شادی ہال والوں نے تمام غیرملکی مہمانوں کے پاسپورٹ اور ویزے مانگے ہیں۔
 
Top