اردو زبان کے نفاذ اور ترویج سے متعلق خبریں اور کالمز وغیرہ

جاسمن

لائبریرین
اردو پاکستان کی قومی زبان ہے لیکن درحقیقت پاکستان میں اردو کا مکمل نفاذ نہیں ہے۔ ہم بیک وقت دو کشتیوں میں سوار ہیں۔
ایسے حالات میں اردو سے محبت کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔
اردو کے نفاذ اور ترویج کے لیے کہیں نہ کہیں کوئی تحریک/کوشش ہوتی رہتی ہے۔
اس حوالہ سے خبریں، کالمز، مضامین۔۔۔وغیرہ سب کچھ یہاں شریک کریں گے۔
 

جاسمن

لائبریرین
پاکستان قومی زبان تحریک
الحمدللہ

پاکستان قومی زبان تحریک کی طرف سے پاکستان میں ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر نفاذ اردو کے لئے جدوجہد آج سے لگ بھگ دس برس پیشتر شروع کی گئی تھی۔
اس دوران میں پاکستان میں نفاذ اردو کے حوالے سے اس تحریک نے بے مثال جدوجہد کی۔ جلسے کئے، جلوس نکالے، مظاہرے کئے۔ کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے رابطے کئے۔ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے۔ جو کام 62 برس میں نہ ہو سکا تھا تحریک نے پچھلے دس برس میں وہ سب کر دکھایا۔
پہلے 6 جولائی 2015ء کو وزیراعظم پاکستان کے دفتر سے نفاذ اردو کے لئے قلیل مدتی اور طویل مدتی اقدامات اٹھائے جانے کا اعلان کیا گیا۔ بعد ازاں تحریک کے کام کو دیکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ پاکستان نے 12 بر س سے ایک نیم مردہ مقدمے کی سماعت شروع کی اور اس پر 8 ستمبر 2015ء کو پاکستان میں نفاذ اردو کا تاریخی فیصلہ دیا۔
اس وقت پاکستان کا ہر خاص و عام تحریک کی جدوجہد سے واقف ہے، اس کے مطالبہ کو جانتا ہے اور اس کے ساتھ ہم آواز ہے۔
پچھلے دس برسوں میں معاشرے کا کون سا طبقہ ہے جو ہماری جدوجہد سے متاثر نہ ہوا ہو۔ اخبارات اور جرائد میں نفاذ اردو کے موضوع پر ہزاروں اداریے، کالم، مضامین اور فیچر چھاپے جا چکے ہیں اور نفاذ اردو کی منزل اب بس ایک قدم کی دوری پر ہے۔
الحمدللہ نہ صرف کراچی سے خیبر تک بلکہ پوری دنیا میں اس تحریک کی آواز کی بازگشت گونج رہی ہے۔ نصیب نصیب کی بات ہے پاکستان میں نفاذ اردو کا تاج گزشتہ حکومت کے سر پر بھی رکھا جا سکتا تھا مگر وہ لوگ اس اعزاز سے بہرہ ور نہ ہو سکے۔ امید ہے موجودہ حکومت کے وابستگان اس عظیم طاقت کو جان سکیں گے جو نفاذ اردو سے وابستہ ہے اور اس طاقت کو پاکستان کی بہتری، ترقی اور خوشحالی کے لئے استعمال کریں گے۔
بہت پر امید ہیں۔ دوستو ہمارا اگلا قدم منزل پر ہوگا، رکنا نہیں تھکنا نہیں منزل تک پہنچ کر دم لینا ہے۔
میں اپنے تمام ساتھیوں، دوستوں کو مبارکباد دیتا ہوں، ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کو اسی عزم، اسی حوصلے، اسی ولولے اور اسی جرات سے ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتا ہوں۔
اردو کی بحالی ملک کی خوشحالی
انگریزی سے نجات قوم کی حیات
ہمارا عزم پاکستان کے ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر اردو کا فوری اور مکمل نفاذ۔
پاکستان زندہ باد
تحریر
پروفیسر محمد سلیم ہاشمی
 

جاسمن

لائبریرین
انگریزی تو صرف ایک بہانہ ہے
ہم نے جس اسکول میں تعلیم حاصل کی اسکول انگریزی میڈیم تھا پڑھایا انگریز ی میں لیکن سمجھایا اُردو میں جاتا تھااور جو مضامین ہمیں اُردو میں پڑھائے جاتے تھے وہ آج بھی پتھر پہ لکیر کی طرح ہمارے ذہن پر نقش ہیں ہمیں حساب اُردو میں پڑھایاگیاہم نےپہاڑے اُردو میں یادکیے {دو ایکم دو ، دو دُونی چار} شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں اعدادوشمارکے دوران کبھی کیلکیولیٹر کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔ پھر یکدم ہرطرف سے انگریزی کی یلغارشروع ہوگئی کہ انگریزی نہیں تو کچھ بھی نہیں اورزندگی کاوہ سُنہری دور کہ جس میں بہت کچھ سیکھا جاسکتا تھا وہ صرف ایک زبان غیر کی گتھیاں سُلجھانے میں ضائع ہوگیا ۔
ضائع کا لفظ ہم نے اس لیے استعمال کیا کہ آج جب ہم تنہائی میں بیٹھ کر خود سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر ہمیں ساری تعلیم سات سمندر پار کی زبان میں کیوں دی گئی؟ جب کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ:
انگریزی کوپوری قوم پر لادنے والے سیاست دان جب اسی عوام سے ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں تو وطن کی قومی زبان میں مانگتے ہیں اور جب قومی زبان کا قرض اُتارنے کا وقت آتا ہے تو ان کو انگریزی کے دورے پڑنے لگتے ہیں
ہم دیکھتے ہیں کہ:
تعلیمی اداروں میں داخلوں کی تمام زبانی اور اکثر و بیشترتحریری کارروائی وطن عزیز کی قومی زبان اُردو میں ہی ہوتی ہے لیکن داخلوں کے بعد اُسی زبان پر پابندی عائد کردی جاتی ہے { یعنی جب عوام سے کچھ لینا ہوتا ہے تو ذریعہ اظہار اُردو اور جب عوام کو کچھ دینے کی باری آتی ہے تو پھر زبان غیر}
پھرہم دیکھتے ہیں کہ: ملازمت کے لیے انٹرویو انگریزی میں اور ملازمت کے بعدوہی افسرآپ سےاُردو میں بات کرے گا یعنی جب کچھ دینا ہے تو انگریزی اور جب کام لینا ہے تو پھر اُردو ۔
یہ بالکل اُسی طرح ہے کہ آپ کسی سے کچھ مانگنے جائیں اگراُسے دینا نہیں ہوگا تو وہ بہانے کرے گا انگریز ی ایسا ہی ایک بہانہ ہے ۔
اور پھرہم دیکھتے ہیں کہ: کہ وطن عزیز میں تمام ذرائع ابلاغ پر اُردو کا غلبہ ہے تمام اخبارات، تمام چینلز ایک دوسرے کے ساتھ روابط، تمام محافل ، بوڑھے ، جوان ،بچے، عورتیں ، مرد غرض کہ وطن کاہرباشندہ بہترانداز میں اگر اپنی مادری زبان کے بعد کسی زبان کو ذریعہ اظہار بناسکتاہے تو وہ صرف اورصرف اُردو ہی ہے۔ جب اتنے بے شمار کا م اُردو میں ہورہے ہیں تو جو نہیں ہورہا کیا وہ ہو نہیں سکتا؟
زبان ہی سکھانا مقصود ہوتاتو حکومت کی جانب سے انگریز ی زبان سکھانے کے مراکز قائم کیے جاتے جہاں علیحدہ سے زبان کی سکھائی جاتی پوری تعلیم کو انگریزی میں کرنے کا کیا مقصد ہے؟
عظیم عارض
 
اردو زبان کی اہمیت

روایت
اردو زبان ایک ایسی زبان ہے جس نے مختلف قوموں میں رابطے کی زبان کا کردار ادا کیا۔اردو زبان کی ارتقاء کے بارے دیکھا جائے تو اس کو اولیاء کی زبان کہا جاتا ہے۔ دکن میں اس کو دکنی، گوجرہ میں کوجری اور ہندوستان میں اسے ہندی یا پھر ہندوی بھی کہا جاتا تھا۔اس کے قدیم ناموں میں ریختہ، اردوئے معلیٰ اور پھر لشکری زبان کے نام سے جانا جانے لگا۔

معنی و مفہوم
اردو زبان رابطے کی زبان ہے۔ یہ لفظ ترکی زبان سے ہے جس کے معنی لشکر کے ہیں۔اس زبان کو لشکری زبان اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ ہندوستان میں کئی طرز کی عوم آتی تھی تو آپس میں ایک دوسرے کو اپنی بات سمجھانے کے لیے اپنی آبائی زبان کے الفاط بھی استعمال کرتے تھے اور یوں مقامی لوگوں کے الفاظ بھی اپنی زبان میں داخل کرتے رہتے اور پھر ایک بڑی زبان کا وقوع ہوا جو آج دنیا کی تیسری بڑی زبان مانی جاتی ہے۔

نظریات
اردو کے وقوع کے متعلق مختلف لوگوں نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔ مہاتما گاندھی کا کہنا ہے کہ اردو زبان قرآن کے حروف کی زبان ہے۔ حافظ محمود شیرانی نے اپنی تصنیف پنجاب میں اردو میں کہا ہے کہ اردو زبان کا اصل ماخذ پنجابی زبان ہے۔اسی طرح دکن میں اردو میں نصیر الدین ہاشمی کا کہنا ہے کہ اردو زبان کی بنیاد دکن ہے۔ سندھی زبان میں لکھی گئی تصنیف کے مصنف کا کہنا ہے کہ اردو زبان اصل میں سندھی سے ہے۔لیکن اگر مکمل تاریخ کو دیکھا جائے تو اردو زبان کی اصل جڑ اولیاء کے وہ رسائل ہیں جو اس دور میں تبلیغ کا ذریعہ بنے تھے۔

ضرورت اور اہمیت
اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے اور پاکستان کی قومی زبان ہے۔ 1973 کے آئین کے تحت شق 251 کے مطابق اردو کو دفتری زبان بنانے کا اعلان ہوا مگر افسوس کہ آج تک اس پر عمل درآمد نہ ہوا۔ اردو زبان کی آج کے دور میں ملک کے بڑھتے بچوں کو بہت ضرورت ہے کیونکہ وہ تعلیم ہی اثر رکھتی ہے جوانسان اپنی قومی زبان میں حاصل ہوتا ہے اس سے یہ ہوتا ہے کہ طالب علم کو غیر زبان سیکھنے میں جو وقت برباد کرنا پڑتا ہے وہ بچ جاتا ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کی نئی نسل کو اپنی قومی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی آپشن دینی چاہیئے کیونکہ اپنی زبان سے دوری ہماری نسل کو دین سے بھی دور کر رہی ہے۔ غیر زبان کی لپیٹ میں اردو لکھنا اور بولنا نئے بچوں کے لیے کسی محاذ سے کم نہیں رہا۔ پاکستان اپنی قومی زبان میں بھی ترقی کر سکتا ہے اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکتا ہے جس طرح چین نے کیا۔
لنک
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
قرارداد بقا پاکستان ۔/ یوم عہد تجدید پاکستان
میں آج 23 مارچ 2019کو پاکستان کو کرپشن ۔ جھوٹ ۔ غداری ۔ جہالت۔ فرقہ پرستی ۔ لسانیت ۔ غنڈہ گردی ۔ بیماری ۔ سے پاک کرنے کی قرارداد پیش کرتی ھوں اؤر عہد کرتی ھوں کہ آئندہ مندرجہ بالا خباثتوں کو اس ثانی مدینہ سے ختم کرنے کے لئے بھر پور کوشش کروں گی اور ھر کوشش کرنے والے کا ساتھ دوں گی
پاکستان سے ہرحال میں انگریزی کی بالا دستی کےخاتمے کی کوشش کروں گی. پاکستان کے تینوں آئین ، فر مان قائد اور اعلی عدلیہ کے فیصلے کی روشنی میں ہر ممکن نفاذ اردو کے لئے کوشش کروں گی. نفاذ اردو تحریک دراصل تحریک پاکستان کی تکمیل ھے. اردو ھندی تنازعے نے برصغیر میں دو قومی نظرئیے کو جنم دیا جو باَلاخر تخلیق پاکستان پر منتج ہوا. لہذا وطن عزیز میں نفاذ اردو کے بغیر ابھی تحریک پاکستان کی تکمیل نھیں ہوئ!
آئندہ کسی جھوٹے ۔کرپٹ اور ملک لوٹنے والے جاھل عناصر کو ووٹ نہیں دوں گی۔
اپنے ملک اور قوم کی عزت وقار بلند کرنے کی ھر سطح پر کوشش کروں گی
ظالم کی مخالفت اور مظلوم کا ساتھ دوں گی.
ملک میں قانون اور عدل کی حکمرانی کے لئے ھر ممکن کوشش کروں گی.
برے اور جھوٹے کو غلط کہوں گی بے شک وہ فوج۔ سنیاستدان ۔ عدلیہ ۔ مولویوں ۔ پیروں ۔ یا کسی بھی معزز سے معزز طبقے سے ھی کیوں نا ھو۔

آپ میں سے کون کون صدقے دل سے حلفیہ اس قرارداد کی حمایت کرتا ھے ؟
فاطمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک
 
اُردو کے اہم ادبی رسائل و جرائد کی مختصر تاریخ
اکادمی ادبیات پاکستان کے تحت شائع ہونے والی کتاب ’’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘‘ کے مصنف ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں: ’’اردو کے قدیم ادبی رسائل کے آثار اب دستیاب نہیں۔ 1857 سے ما قبل ادبی جریدہ نگاری کا تجزیہ کیا جائے تو ہمیں اس کی کوئی واضح جہت نظر نہیں آتی۔ ابتدا میں ہفتہ وار اخبارات ہی کو ادبی مضامین اور شعری تخلیقات کی اشاعت کے لیے استعمال کرلیاجاتاتھا۔ انیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں فروغِ ادب کی ایک موثر صورت ’’گل دستہ‘‘ کی اشاعت اور ترویج تھی۔ اس قسم کا پہلا ’’گل دستہ‘‘ جاری کرنے کا سہرا مولوی کریم الدین پانی پتی کے سر ہے،جنہوں نے ’’گلِ رعنا‘‘ نکالا۔‘‘
1857 کی جنگ آزادی کے بعد اہم اخبارات اوررسائل وجرائد،جنہوں نے ادبی خدمات انجام دیں، ان میں اودھ اخبار، اودھ پنچ، تہذیب الاخلاق، انجمن، حسن، افسر اور کئی ادبی گل دستے سرفہرست تھے۔ انیسویں صدی میں تقریباً پچاس ادبی وعلمی جرائد ایسے تھے، جن کا مطالعہ کرکے ہمیں اس صدی کی ادبی روایات سے واقفیت ہوتی ہے۔
بیسویں صدی میں تقسیم سے قبل جن ادبی جریدوں کے ناموں کی بہت گونج سنائی دیتی تھی ان میں مخزن، زمانہ، اردوئے معلّیٰ، زبان، عصمت، ہم درد، الناظر، الہلال، علی گڑھ میگزین، ہمایوں، اردونگار، ادبی دنیا، نیرنگِ خیال، عالم گیر، ساقی، شاعر، ادبِ لطیف، شاہ کار، سب رس، آج کل، کتاب، افکار، نیا دور نمایاں تھے۔ اس دور میں ادبی رسائل وجرائد کی مجموعی تعداد تقریباً 70 تھی۔ ان میں سے کئی رسالے تقسیم کے بعد بھی جاری رہے۔ آزادی کے برس یعنی 1947 میں بھی چند نئے ادبی جرائد کا اجرا ہوا، جن میں سحر، فانوس، کائنات، چراغِ راہ اور سویرا جیسے رسائل تھے جنہوں نے نئے ملک کی تخلیق کے ساتھ ہی اپنا تخلیقی سفر بھی شروع کیا اور ادبی حلقوں میں مقبولیت حاصل کی۔
دوحہ اور دہلی سے شایع ہونے والے ’’مجلّہ دستاویز‘‘ کی خصوصی اشاعت ’’اردو کے اہم ادبی رسائل و جرائد نمبر‘‘ کے مطابق ’’بیسویں صدی کے اختتام تک بھارت کے چند اہم ادبی جریدوں میں شاہ راہ، تحریک، نیادور، سوغات اور شب خون شامل تھے اور اب، عہدِ حاضر میں دہلی سے تقریباً 25، ریاست مہاراشٹر سے 18، ریاست بہار سے 16، اترپردیش سے 12، آندھراپردیش سے 10، مغربی بنگال سے 5، مدھیہ پردیش سے 5، راجستھان سے 2، جھاڑکھنڈ سے2، اڑیسہ سے 3، تامل ناڈو سے 1، کشمیر سے 6، کرناٹک اور کیرالہ سے 5، ریاست گجرات سے 2، پنجاب سے 2، ریاست ہریانہ سے 2، ہماچل پردیش سے 1، چھتیس گڑھ سے 1 اور دیگر ریاستوں سے متفرق تعداد میں رسائل وجرائد شایع ہوتے ہیں۔‘‘
تقسیم کے بعد 1948سے1999تک پاکستان میں شایع ہونے والے رسائل وجرائد کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔سب کا اندراج ممکن نہیں، البتہ چند اہم نوعیت کے جریدے،جنہوں نے ادبی سرگرمیوں کے فروغ میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا، ان میں چٹان، نقوش، قومی زبان، سنگ میل، اردو ادب، ماہِ نو، نئی قدریں، انشاء، مہر نیم روز، قند، لیل و نہار، صحیفہ، داستاں، شعور، نصرت، سات رنگ، قلم کار، اسلوب، فنون، سیپ، اوراق، تخلیق، الفاظ، پاکستانی ادب، غالب، احساس، معاصر، ادبیات، حروف، قرطاس، تلاش، آج، بادبان، مکالمہ، چہارسو، نقاط، اردونامہ، الحمرا، الاقربا، دنیائے ادب، ارتقا اور دیگر شامل ہیں۔
ڈاکٹر انور سدید کی کتاب ’’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘‘ اس موضوع کو تفصیل سے پڑھنے کے لیے بہترین انتخاب ہوسکتی ہے۔ اسی تناظر میں دوحہ اور دہلی سے شایع ہونے والا ’’مجلّہ دستاویز‘‘ کا ’’اردو کے اہم ادبی رسائل و جرائد نمبر‘‘ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ ڈاکٹر انور سدید کی تحقیق کا دائرہ 80 کی دہائی تک ہے۔ مجلّہ دستاویز، کی تحقیق 2011 تک محدود ہے۔پھر اس مجلے میں پاکستان کے بہت سے اہم جرائد کا ذکر نہیں ہے۔البتہ مجموعی حیثیت میں یہ نمبر اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی ’’تاریخ ِادبِ اردو‘‘ اور ڈاکٹر سلیم اختر کی ’’اردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘ میں بھی ادبی رسائل وجرائد کا برائے نام ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح مختلف اوقات میں چھپنے والے مضامین میں کبھی کبھار ادبی جرائد کا مختصراً ذکر پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ یہ عنوان ایک سنجیدہ اور تفصیلی تحقیق کا متقاضی ہے۔ادب کے سنجیدہ طالب علموں کو اس موضوع پر طبع آزمائی کرنی چاہیے، یہ انتہائی دل چسپ تحقیق ثابت ہوگی۔
اکیسویں صدی سے پاکستان میں ادبی جرائدکے تناظر میں ایک نیا عہد شروع ہوتا ہے۔2000سے 2014 تک متعدد نئے ادبی رسالے شایع ہوئے اور کئی اشاعت کے کچھ عرصے بعد چھپنا بند ہوگئے۔ اس عرصے میں پاکستان کے مختلف شہروں سے شایع ہونے والے چند نمایاں رسائل وجرائد میں کراچی سے دنیازاد، روشنائی، جوش شناسی، زرنگار، اجرا، اسالیب، کولاژ، اجمال، رنگِ ادب، لاہور سے نمودِ حرف، لوح، گجرات سے تناظر، فیصل آباد سے نقاط، ملتان سے پیلھوں، پشاور سے احساس، کوئٹہ سے سنگت، قلم قبیلہ وہ ادبی رسالے ہیں، جو باقاعدگی سے شایع ہوتے رہے ہیں اور انہیں ادبی دنیا میں مقبولیت حاصل ہوئی۔یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ ادبی رسائل وجرائد کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ سوائے چند اخبارات کے سب نے ادبی صفحات کو فراموش کردیا۔ اس تمام صورت حال کے باوجود ادبی رسائل و جرائد کا شایع ہونا غنیمت ہے۔
جن ادبی رسالوں کی اشاعت 2000سےپہلے ہوئی، ان میںسے کئی تو ایسے ہیں جن کی اشاعتی عمر کا عرصہ کئی دہائیوں پر مشتمل ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے جن رسائل کی اشاعت جاری تھی اور بعد میں بھی وہ چھپتے رہے، ان میں اردو، ہمایوں، نگار، عالم گیر، نیرنگِ خیال، ساقی، ادبِ لطیف، شاہ کار، کتاب، نظام، افکار، سویرا، نیا دور اور عصمت جیسے رسائل شامل ہیں۔ان کے علاوہ مختلف ادوار میں جن رسالوں نے ادبی خدمات کی ابتدا کی اور وہ اب تک کام یابی سے اشاعت پذیر ہی نہیں بلکہ مقبول بھی ہیں، ان میں فنون، قومی زبان، سیپ، ادبیات، قرطاس، آج، چہار سو اور دنیائے ادب شامل ہیں۔ کچھ ایسے بھی ادبی رسالے ہیںجنہوں نے ادب کے اس تخلیقی سفر میں اپنا حصہ ڈالا، مگر وہ ایک عرصے کے بعد اپنی اشاعت برقرار نہ رکھ سکے۔ان میں سرِفہرست نقوش ہے، جس کے پرانے شمارے آج بھی خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر ادبی رسائل میں قند، آرٹس انٹرنیشنل، کلاسک سندھ اور سخن زار جیسے رسالے شامل ہیںجنہوں نے آغاز بہت اچھا کیا تھا، مگر اپنی اشاعت برقرار نہ رکھ سکے۔
خالص ادبی رسائل وجرائدکےعلاوہ مختلف جامعات کے رسالوں نے بھی ادب کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا۔ مختلف ادوار میں ایسے رسالوں کی اشاعت جاری رہی جن میں تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں کو فروغ دیا گیا۔ ان میں گورنمنٹ کالج لاہور سے راوی، اردو کالج کراچی سے برگِ گل، مرے کالج، سیالکوٹ سے مشعلِ راہ، گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے مہک، بہاؤالدین یونیورسٹی سےیونیورسٹی میگزین، گورنمنٹ انٹرکالج بہاول پور سے مطلعِ نو، گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے بیکن، گورنمنٹ کالج سرگودھا سے نویدِ صبح،جامعہ سندھ، حیدرآباد سے صریر نامہ، جامعہ پشاور سے یونیورسٹی جرنل، اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں سے شائع ہونے والے علمی مجلے شامل ہیں۔
ہر دور میں شایع ہونے والے ادبی رسائل وجرائد نے صرف قارئین کے ادبی ذوق ہی کی تسکین نہیں کی، بلکہ تحقیق کے طالب علموں کے لیے راستہ ہم وار کیا اور تنقید کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ تنقید نگار، ادیب اور تخلیق، دونوں کے قدوقامت کا جائزہ لیتے تھے۔ تخلیقی محاکمے کے ذریعے قارئین کو یہ بتایا کرتے تھے کہ کس تخلیق کی گہرائی کیا ہے اور اگر کسی کام پر تنقید کرنی ہے، تو اس کی نوعیت کیا ہونی چاہیے اور دوسرے معنوں میں اخلاقیات کیا ہونی چاہییں۔
عہدِ حاضر میں تو کسی کتاب یا ادیب پر تنقیدی پہلو سے کچھ لکھ دیا جائے تو وہ اسے اپنی ذات پر حملہ سمجھ بیٹھتا ہے۔ کم ازکم ادبی جرائد نے تربیت کی ایک ایسی فضا قائم کی تھی، جس میں صاحب کتاب اور قارئین، دونوں کو اپنی حدود اور دوسرے کے حقوق کے متعلق معلومات تھیں۔ آج کے دور میں یہ کمی موجودہ ادبی رسائل پوری نہیں کر پا رہے۔ اگر کسی جریدے نے ہمت کرکے تنقیدی پہلوئوں کو نمایاں کیا تو لوگوں نے اسے مقدمہ بازی میں الجھادیا۔ یہ افسوس ناک رویہ ہے۔
پاکستان کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر معاشرہ جس طرح سفّاکی کا شکار ہورہا ہے، ہمیں سچّے ادب اور ادیبوں کی بے حد ضرورت ہے، جن کی تحریریں نہ صرف معاشرے کی عکاس ہوں بلکہ قلوب میں شعور کی روشنی بھی بڑھا سکیں۔ عہدِحاضر میں جو بھی حضرات رسائل وجرائد کی اشاعت کو ممکن بنائے ہوئے ہیں، ان کے حوصلے کی داد دینی چاہیے۔ سیپ کے مدیر نسیم درانی نے ایک انٹرویومیں کہا تھا:’’یہ گھر پھونک، تماشا دیکھ والا، معاملہ ہے‘‘۔ اس کے باوجود ادبی رسائل وجرائد کے تمام مدیران، جنہوں نے اس اعلیٰ ادبی روایت کی وراثت کو قائم رکھا ہوا ہے مبارک باد کے مستحق ہیں۔
خرم سہیل
 

جاسمن

لائبریرین
امریکہ میں مقیم پاکستان قومی زبان تحریک کے بزرگ رہنما، ادیب، شاعر، سابق سفیر، نوبل پرائز کےلئے منتخب کتاب کے مصنف، جناب قمر نقشبندی نقوی بخاری رقم طراز ہیں:
بسمِ اللہِ الرّح٘منِ الرّحِیم اگر مختلف ممالک کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ہر ملک کی اپنی ایک "قومی" زبان ہے۔ تعلیم اُسی زبان میں ہوتی ہے، لیکن نصاب میں "اختیاری" زبانوں کی ایک فہرست ہوتی ہے اور طالب علم کو اجازت ہوتی ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنی زبان کے ساتھ، کوئی دوسری زبان بھی پڑ ھ سکتا ہے، اس فہرست میں انگریزی، فرا نسیسی، جرمن، روسی، اسپینش، وغیرہ متعدد زبانیں ہیں۔ تعلیم تو قومی زبان میں ہی ہوتی ہے لیکن ان میں سے کوئی ایک زبان بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ امریکہ میں بھی یہی طریقۂ تعلیم ہے۔ میرے پوتے، نواسے، پوتیاں، سب ہی اب دانشگاہوں میں ہیں۔ اصل تعلیم تو انگریزی میں ہوئی، ساتھ انھوں نے فرنچ اختیاری مضمون کے طور پر لی۔ اب سارے بچے فرنچ بھی جانتے ہیں لیکن تعلیم انگریزی میں ہوئی۔ پاکستان میں بھی یہی طریقۂ تعلیم ہونا چاہیے جو ایک منطقی اور مناسب طریقہ ہے۔ یعنی تعلیم کی زبان "اردو" ہو، دوسری کوئی ایک زبان اختیاری مضمون کے طور پر پڑھی جائے۔۔۔۔۔۔وہ انگریزی بھی ہو سکتی ہے اور فرنچ یا روسی بھی۔
زبردستی انگریزی پڑھنے کی کوئی وجہ نہیں۔
فاطمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک
 

جاسمن

لائبریرین
جناب. وسیم احمد رقم طراز ہیں:-
علمِ نفسیات میں ہونے والی جدید تحقیقات اس امر کا پتہ دیتی ہیں کہ ایک عام ذہنی صلاحیت کا حامل انسان ، کسی بھی ایشو کی چار جہتوں پر مرکوز کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو سکتا ہے اگر اسے مناسب تعلیم و تربیت کی سہولت میسر ہو...

اس تحقیق سے میں یہ نتیجہ اخذ میں خود کو حق بجانب سمجهتا ہوں کہ ایک عام فرد چار زبانیں بغیر کسی دقت سے سیکھ اور استعمال کر سکتا ہے...

اگر اس پہلو کو مدنظر رکھ کر ملک کے تعلیمی شعبے پر لاگو کیا جائے تو ایک خوشگوار اور متوازن صورت حال سامنے آتی ہے...

بنیادی تعلیمی زبان کا اردو ہونا تو کسی شک و شبہ سے بالاتر امر ہے...
اگر نرسری(کچی) ، پریپ(پکی) کے بعد بنیادی تعلیم کو 3 برابر دورانیہ کے حصوں میں تقسیم کر لیا جائے تو لسانی حوالے سے ایک بہترین لائحۂ عمل ترتیب دیا جا سکتا ہے...

عربی زبان کی مبادیات کا شعور ہمارا دینی تقاضا ہے... چنانچہ اسلامیات کے لازمی مضمون میں بنیادی عربی زبان کو شامل کیا جانا چاہیے...

1... یہ سیٹ اپ کلاس اول ، دوئم ، سوئم اور چہارم تک چلے... (پرائمری سکول)

2... پانچویں ، چهٹی ، ساتویں اور آٹهویں میں ماں بولی کا اضافی لازمی مضمون شامل ہونا چاہیے... (مڈل سکول)

3... نویں ، دسویں ، گیارہویں ، بارویں کلاس میں مادری زبان کے لازمی مضمون کی جگہ کوئی ایک غیر ملکی زبان کو سیکھنے کا آپشن موجود ہونا چاہیے... (سیکنڈری سکول)

یہ فارمولا اپنا کر ہم اپنی ثقافتوں کے فروغ کے ساتھ ساتھ دین اور دنیا کے ساتھ بہتر انداز سے جڑ سکتے ہیں...
فاطمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک
 

جاسمن

لائبریرین
IMG-20190703-WA0030.jpg
 

جاسمن

لائبریرین
اس مراسلہ کے الفاظ میرے نہیں ہیں تاہم میرا خیال ہے کہ ایک وقت میں انسانی ذہن چار مختلف جہتوں میں سفر کر سکتا ہے/سوچ سکتا ہے۔ یہ چار رخ کوئی سے بھی ہوسکتے ہیں۔ مختلف میدانوں میں یہ رخ مختلف ہوسکتے ہیں۔
یہ میرا خیال ہے۔
 
Top