اردو زبان کے نفاذ اور ترویج سے متعلق خبریں اور کالمز وغیرہ

سید عمران

محفلین
IMG-20190829-140934-HDR.jpg
 
یومن رائٹس واچ جیسے معتبر ادارے کی یہ رپورٹ گذشتہ برس شائع ہوئی تھی۔ پاکستان کے معیاری انگریزی اخبارات میں اس کا تذکرہ تھا۔
یہ رپورٹ ایک جامع سروے پر مبنی ہے جو پاکستان ہی میں مکمل کیا گیا ہے۔ آپ اس کے طریقہ کار پر مبنی سیکشن کا مطالعہ کر کے تسلی کر سکتی ہیں۔
گذشتہ برس اس کا سرسری مطالعہ کیا تھا۔ کچھ نکات یاد رہے کچھ نہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کے شعبہ میں اس رپورٹ اور اس کے مندراجات کا تذکرہ رہا ہوگا۔
بطور ایک سکول ٹیچر اپنے ذاتی پیشہ وارانہ تجربے اور مشاہدے کو سامنے رکھتے ہوئے بتائیے کہ آپ اس رپورٹ کی کن باتیں سے اتفاق یا اختلاف رکھتی ہیں؟
کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں طلبا اور بالخصوص طالبات کی ایک کثیر تعداد آپ کے سکول میں جماعت نہم تک نہیں پہنچ پاتی؟
تعلیمی نصاب کے متعلق اس رپورٹ کا کیا کہنا ہے؟
کیا رپورٹ آپ کے اس مفروضے کی توثیق کرتی ہے کہ انگریزی حصول تعلیم میں ایک اہم ترین رکاوٹ ہے؟

آپ چاہیں تو میں اس رپورٹ کے مطالعے سے ابھرنے والے مکالمے میں آپ سے گفتگو کرنے کو تیار ہوں۔
اس رپورٹ میں تعلیم کے عمومی مسائل نہیں بلکہ لڑکیوں کی تعلیم کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ ان کا اردو یا انگریزی سے کیا تعلق ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
اردو کو ذریعۂ تعلیم بنانے کا فیصلہ: غور طلب نکات
16/09/2019 ڈاکٹر شاہد صدیقی

حال ہی میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ محترم عثمان بزدار صاحب نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اعلان کیا کہ چونکہ پرائمری سطح پر ذریعۂ تعلیم انگریزی ہونے کی وجہ سے اساتذہ اور بچوں کا سارا وقت مضمون کو سمجھنے کے بجائے ترجمہ کرنے میں صرف ہو جاتا ہے اور بچے کچھ نیا نہیں سیکھ پاتے لہٰذا اگلے تعلیمی سال یعنی مارچ 2020 سے پرائمری سطح پر ذریعۂ تعلیم اردو کر دیا جائے گا۔

یہ اعلان اتنا ہی اچانک تھا جتنا ضیاء الحق کا ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ اعلان کہ سارے انگلش میڈیم سکولوں میں آئندہ سے اردو ذریعۂ تعلیم ہو گا۔ یہ ایک غیر حقیقی فیصلہ تھا جسے کچھ ماہ بعد ہی واپس لینا پڑا تھا۔ ایسا ہی ایک فیصلہ بھٹو صاحب نے کیا جب ایک روز تمام پرائیویٹ اداروں کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔ اس کے مضمرات ابھی تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اسی نوع کا ایک فیصلہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں کیا گیا جب انگریزی کو پہلی جماعت سے لازمی مضمون قرار دیا گیا۔

یہ فیصلہ اس بات سے قطع نظر کیا گیا تھا کہ آیا طلب کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں انگریزی پڑھانے والے اساتذہ دستیاب ہوں گے یا نہیں۔ اٹھارہویں ترمیم تعلیم کے تالاب میں ایک اور پتھر تھا جس کے نتیجے میں نئے چیلنجز سامنے آئے۔ اس ترمیم کے ذریعے تعلیم کو ایک صوبائی معاملہ قرار دیا گیا۔ شہباز شریف کے دور میں سرکاری سکولوں میں پرائمری سطح پر انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنانے کے اس فیصلے میں غیر ملکی کنسلٹنٹس کی سفارشات شامل تھیں۔

محترم عثمان بزدار کا یہ فیصلہ بھی دور رس نتائج کا حامل ہو گا اس لیے اس کے نفاذ سے پہلے چند نکات پر غور ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو یہ جاننا اہم ہے کہ زبان کی اہمیت کیا ہے؟ زبان ایک طرف باہمی بات چیت کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف انفرادی اور اجتماعی شناخت کی علامت بھی ہے۔ معروف فرانسیسی ماہرِ عمرانیات Bourdeau کا کہنا ہے کہ معاشرے میں طاقت کا تعین کچھ سرمایے (Capitals) کرتے ہیں۔ ان میں معاشی سرمایہ (Economic Capital) سماجی سرمایہ (Social Capital) ثقافتی سرمایہ (Cultural Capital) شامل ہیں۔

کلچرل کیپیٹل کا ایک حصہ لسانی سرمایہ (Linguistic Capital) ہے۔ سرمایوں کی اس بحث سے واضح ہے کہ کسی بھی معاشرے میں زبان سے آگاہی وہ لسانی سرمایہ ہے جس سے طاقت کا تعین ہوتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کوئی زبان اپنی اصل حالت میں نہ تو اچھی ہوتی ہے نہ بری اور نہ ہی طاقت ور یا کمزور۔ اس زبان کے بولنے والوں کا معاشرتی مرتبہ زبان کو کمزور یا طاقت ور بناتا ہے۔

گلوبلائزیشن کے اس دور میں انگریزی ایک اہم زبان کے طور پر ابھری ہے جس کی بڑی وجہ اچھی ملازمتوں کے حصول میں انگریزی سے آگاہی کی شرط ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی طاقت کے اہم مراکز مثلاً آرمڈ فورسز، جیوڈیشنری اور مقابلے کے امتحان میں انگریزی کا علم بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ ملازمتوں کے علاوہ اعلیٰ سطح کے تعلیم میں انگریزی کا کلیدی کردار ہے کیونکہ کتابوں اور جرائد کی بڑی تعداد انگریزی میں ہے۔

زبان کی ایک تیسری حیثیت سماجی حیثیت سے جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان میں انگریزی چونکہ با ثروت اور با اثر افراد کی زبان ہے لہٰذا اس کی سماجی حیثیت اردو سے برتر تسلیم کی جاتی ہے۔ یوں انگریزی زبان زور آور اور کمزور کے درمیان ایک خط تقسیم بن گئی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کل ایک اچھے سکول کا معیار وہاں انگریزی زبان کی تدریس اور اس کا انگلش میڈیم ہونا ہے۔ ماضی قریب کی صورتحال ہمیں بتاتی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر نے بڑی تیزی سے تعلیمی میدان میں پیش رفت کی ’جس کے نتیجے میں سرکاری سکول لوگوں کی پہلی ترجیح نہیں رہے۔

اس کا مشاہدہ ہم اپنے معاشرے میں آسانی سے کر سکتے ہیں جہاں کم آمدنی والے افراد بھی اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکولوں میں بھیجنا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ والدین کا بچوں کو تعلیم دلوانا ان کی بہترین سرمایہ کاری (Investment) ہے۔ اس سرمایہ کاری میں انگریزی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ چاہے وہ ملازمت کا مرحلہ ہو، اعلیٰ تعلیم کا یا معاشرے میں سماجی مرتبے کا‘ انگریزی سے آشنائی ضروری ہے۔ یوں انگریزی وہ طبقاتی لکیر ہے جو معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ ایک حصے میں با ثروت اور با اثر لوگ آتے ہیں اور دوسرے حصے میں کم زور۔

اردو ذریعۂ تعلیم کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جاپان اور چین میں بھی تو ترقی قومی زبان کے استعمال سے ہوتی ہے۔ اس بحث میں ایک اہم بات فراموش کر دی جاتی ہے کہ جاپان اور چین نے اپنی اپنی قومی زبان کو با ثروت بنانے کے لئے ترجمے کا مضبوط نظام رائج کیا گیا ہے مثلاً جاپان میں مختلف زبانوں میں چھپنے والی اہم کتابوں کا ترجمہ مختصر ترین وقت میں جاپانی زبان میں ہو جاتا ہے۔ اس میں فکشن اور نان فکشن کتابیں اور مضامین شامل ہیں۔

یوں ان ممالک کی اپنی زبانوں میں لوگوں کو وہ معلومات میسر ہوتی ہیں جو دوسری زبانوں میں موجود ہوتی ہیں۔ یوں صرف جاپانی بولنے والے اور پڑھنے والے بھی دوسری زبانوں کے علم سے محروم نہیں ہوتے۔ کیا ہم نے سرکاری سطح پر اس کی کوشش کی۔ اگر پاکستان کی تعلیمی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو بلند بانگ دعووں کی بہتات نظر آتی ہے۔ اردو کے حوالے سے جذباتی نعرے لگائے گئے لیکن عملی طور پر کارکردگی غیر اطمینان بخش رہی ’مثلاً 1948 کی قومی کانفرنس اور پھر 1959 کی شریف کمیشن رپورٹ میں اردو کے حوالے سے سفارشات پیش کی گئیں لیکن ان پر عمل نہ ہو سکا۔

شریف کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پندرہ سال کے اندر اردو کو اس کا اصل مقام دلایا جائے گا۔ پھر 1973 کے آئین میں 10 سال کی مدت دی گئی‘ لیکن یہ سب زبانی وعدے تھے۔ ان کو پورا کرنے کے لیے کوئی مربوط طریقۂ کار وضع نہ ہو سکا۔ پاکستان کے تعلیمی منظر نامے میں طبقاتی فرق سب سے بڑا چیلنج ہے۔ سرکاری سکول اور انگلش میڈیم سکول اس طبقاتی فرق کی علامتیں ہیں۔ سرکاری سکولوں میں انگلش میڈیم کے فیصلے کے پیچھے شاید اس فرق کو کم کرنے کی سوچ کارفرما تھی؛ اگرچہ اس میں اساتذہ کی عدم دستیابی سب سے بڑا مسئلہ تھا ’لیکن کم از کم کتابیں انگریزی میں تھیں۔

اہم بات یہ ہے کہ محترم عثمان بزدار صاحب کے اس فیصلے کا اطلاق صرف سرکاری سکولوں پر ہو گا اور پرائیویٹ سکول انگریزی ذریعۂ تعلیم کو جاری رکھ سکیں گے۔ یوں سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کے درمیان طبقاتی فرق اور زیادہ ہو جائے گا‘ جس کا نقصان سرکاری سکول کے بچوں کو ہو گا۔ اس اعلان میں ایک سروے کا ذکر بھی کیا گیا ہے جس میں 85 فیصد طلبائی، اساتذہ اور والدین نے اردو میڈیم کے حق میں فیصلہ دیا۔ کاش ایک سروے یہ بھی ہوتا کہ پالیسی ساز عہدے داروں کے اپنے بچے کن سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ کیا ان سکولوں میں ذریعۂ تعلیم اردو ہے۔

اس فیصلے کے عملی نفاذ سے پہلے چند نکات غور طلب ہیں :

۔ 1 اس فیصلے تک پہنچنے کے لیے مناسب ہوم ورک کیا گیا یا نہیں؟

۔ 2 کیا یہ فیصلہ ’جس میں سرکاری سکولوں کے بچوں کے لئے اردو اور پرائیویٹ سکول کے بچوں کے لئے انگریزی ذریعۂ تعلیم ہے‘ معاشرے میں طبقاتی فرق کو اور زیادہ گہرا نہیں کرے گا؟

۔ 3 کیا پرائمری سکول تک اردو میں کتابیں پڑھنے والے بچے مڈل کلاس میں اچانک انگریزی کتابوں کو پڑھنے کے لئے تیار ہوں گے؟

۔ 4 کیا اردو زبان میں ترجمے کی روایت چینی یا جاپانی روایات کا مقابلہ کر سکتی ہے؟

۔ 5 کیا ملٹی نیشنل ملازمتوں، اور اعلیٰ سطح پر مقابلے کے امتحان کی تیاری میں انگریزی زبان کی مضبوط بنیاد ایک فیصلہ کن فیکٹر نہیں ہو گا؟

۔ 6 کیا اعلیٰ تعلیم کے لئے انگریزی میڈیم کی بنیاد والے بچوں کو اردو میڈیم کے بچوں پر فوقیت نہیں ہو گی؟

۔ 7 کیا ماضی میں عجلت میںکیے گئے فیصلے بعد میں واپس نہیں لینے پڑے؟

۔ 8 کیا حکام بالا اس پالیسی کے نفاذ کے بعد اپنے بچوں کو اردو میڈیم سکولوں میں بھیجیں گے؟

یہ وہ نکات ہیں جن پر غور تعلیم میں تبدیلی کے حوالے سے ایک صائب فیصلے پر پہنچنے میں مدد دے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
انگریزی زبان لازم یا پاؤں کی زنجیر؟
مناظر علی جمعہ۔ء 20 ستمبر 2019
1811691-angreezizubaanlazim-1568724664-333-640x480.jpg

انگریزی زبان کو صرف بطور مضمون پڑھایا جائے بنیادی تعلیم مادری زبان میں دی جائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)


بچہ پیدا ہونے کے پانچ سال بعد ایک دن اچانک ماں کو احساس ہوا کہ ’’یہ بچہ ہمارا نہیں لگتا، کیوں نہ اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے‘‘۔ شام کو اُس کا شوہر تھکا ہارا ڈیوٹی سے گھر واپس آیا تو اس نے اپنے خدشے کا اظہار اُس سے بھی کیا ’’دیکھو! اِس بچے کی عادتیں بہت عجیب ہیں۔ اِس کا دیکھنا، چلنا، کھانا، پینا اور سونا وغیرہ ہم سے بہت مختلف ہے، مجھے نہیں لگتا کہ یہ ہمارا بچہ ہے، چلو اِس کا ڈی این اے ٹیسٹ کراتے ہیں‘‘۔

شوہر: ’’بیگم! تمہیں یہ بات آج اچانک 5 سال بعد کیوں یاد آگئی؟، یہ تو تم مجھ سے 5 سال پہلے بھی پوچھ سکتی تھیں‘‘۔

بیگم (حیران ہوتے ہوئے): ’’کیا مطلب تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘

شوہر: ’’بیگم یاد کرو اسپتال کی وہ پہلی رات جب ہمارا بچہ پیدا ہوا تھا اور کچھ ہی دیر بعد اس نے پیمپر خراب کردیا تھا، تو تم ہی نے مجھے کہا تھا، ’اے جی سنیے! پلیز بے بی کو چینج تو کردیں‘، تب میں نے بڑی حیرانگی سے تمہاری طرف دیکھا تھا تو تم نے ہی کہا تھا ’ہمارے پیار کی خاطر۔ میں نے 9 مہینے اِسے اپنی کوکھ میں رکھا ہے، اور اب جبکہ میں ہل جل بھی نہیں سکتی تو کیا آپ یہ چھوٹا سا کام بھی نہیں کرسکتے؟‘ تب میں اپنے بچے کو اُٹھا کر دوسرے وارڈ میں گیا، وہاں اپنے گندے بچے کو ’’چینج‘‘ کرکے دوسرے صاف بچے کو اُٹھا کر تمہارے ساتھ لا کر سلادیا تھا۔‘‘

یہ لطیفہ جب فیس بک وال پر دیکھا تو وہاں اس کا اخلاقی سبق بھی لکھا تھا کہ ’’کسی کو کام بتاتے وقت اگر اپنی مادری زبان کے بجائے دوسری زبان کا استعمال کریں گے تو ایسا ہی ’’چینج‘‘ آئے گا۔

مجھے یہاں بہت سے ایسے گھرانوں اور والدین کا خیال آیا جنہیں خود تو انگلش زبان پر عبور حاصل نہیں، مگر وہ اپنے بچوں کو اردو اور انگریزی سکھانے کے چکر میں اپنی زبان بھی خراب کرلیتے ہیں۔ گلابی اردو اور گلابی انگریزی، بلکہ زخمی انگریزی بول بول کر خود کو مصیبت میں ڈالے رکھتے ہیں۔ سب سے زیادہ ظلم بچوں کے ساتھ ایسے لوگ کرتے ہیں۔ ایک تو ہمارا ںظام تعلیم ایسا ہے کہ پنجاب میں نرسری کا بچہ ہمہ وقت یہی سوچتا رہتا ہے کہ والد ’’بوہا‘‘ کہتے ہیں، والدہ ’’دروازہ‘‘ کہتی ہیں اور اسکول والے ’’ڈور‘‘ پڑھاتے ہیں۔ اسی الجھن میں بچے کی توجہ ایک نہیں، دو نہیں بلکہ تین زبانوں کی عجیب کھچڑی پر رہتی ہے۔ اور جن چیزوں پر اسے توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ وہیں کی وہیں پڑی رہتی ہیں۔ نتیجتاً پڑھتے پڑھتے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب ہاتھ میں ڈگری ہوتی ہے تو عملی زندگی میں کامیابی کے بجائے ناکامی زیادہ ہوتی ہے۔ ڈگریوں کے نام پر کاغذات کی ایک فائل ہاتھوں میں ہوتی ہے مگر جہاں بھی نوکری کےلیے جاؤ، زیادہ تر کو مایوسی کا سامنا ہوتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل پنجاب انسٹی ٹیوٹ لینگویج آرٹ اینڈ کلچر لاہور میں تقریب کے دوران ترکی کے پروفیسر حلیل طوکار صاحب کی گفتگو سنی۔ کہنے لگے کہ وہ اردو زبان سے بہت پیار کرتے ہیں۔ انہوں نے اس پر کام بھی بہت کیا ہے مگر انہیں حیرت تب ہوتی ہے جب وہ پاکستان آتے ہیں، اردو میں بات کرتے ہیں تو اگلا بندہ انگریزی میں جواب دیتا ہے۔ حالانکہ ایسا ترکی میں نہیں۔ اُن کے مطابق ترکی میں اگر کوئی ترک باشندہ آپس میں غیرزبان میں بات کرے تو اسے عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو دوسری زبانیں آتی نہیں، یا وہ کم علم ہیں۔ بات صرف اپنی مادری زبان کو ترجیح دینے کی ہے۔

ہم نے کئی بار پنجابی اور اردو زبان کے فروغ کےلیے تقریبات ہوتی دیکھیں۔ ریلیاں نکالی جاتی ہیں، کالم لکھے جاتے ہیں۔ مگر ایسے میں حیرت تب ہوتی ہے جب زبان کی ترویج کے نعرے لگانے والے خود ہی اپنے مطالبے پر عمل نہیں کرتے۔ ایک مرتبہ لاہور میں پنجابی زبان کے فروغ کےلیے ہونے والی تقریب کے بعد ہال کے باہر کھڑے پنجابی بھائیوںکو دیکھا کہ کچھ اردو میں بات کررہے ہیں اور کچھ انگریزی میں۔ جب کہ یہیں کھڑے ایک پنجابی بھائی کو یہ فخر سے کہتے سنا گیا کہ وہ تو کافی کوشش کرتے ہیں کہ گھرمیں پنجابی زبان بولیں کہ ماں بولی زندہ رہے، مگر بیگم اردو بولتی ہیں، چلو قومی زبان ہے، پھر مجھے بھی بولنا پڑتی ہے، بچے بہرحال انگریزی بہت اچھی بولتے ہیں۔

پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو سمیت مختلف علاقوں میں بولی جانے والی زبانیں ان علاقوں کی پہچان ہیں۔ انہیں زندہ رکھنے کےلیے یہاں کے رہائشیوں نے سب سے پہلی ذمے داری ادا کرنی ہے۔ اگر وہی اپنی مادری زبانوں کو بھلا دیں گے اور ان زبانوں کو اپنی اگلی نسلوں تک نہیں پہنچائیں گے تو یہ خدشہ ہے کہ ہم رفتہ رفتہ کہیں قومی زبان اردو سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ بنیادی تعلیم مادری زبانوں میں دی جائے۔ پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتون بچوں کو قومی زبان بھی سکھائی جائے اور انگریزی زبان کو صرف بطور مضمون پڑھایا جائے، ورنہ ہمارے بچے انگریزی سیکھنے کےلیے رٹا ہی لگاتے رہیں گے اور انگریزی زبان قابلیت کی طرف بڑھنے والے ان بچوں کے قدموں کی زنجیر بنی رہے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
:nailbiting::nailbiting::nailbiting:اردو ہے جس کا نام
آمنہ یونس۔ ڈان
فروری 2015 06
زبانِ اردو کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ حاصل ہے، لیکن عجیب بات ہے کہ باقی دنیا کے برعکس ہماری اپنی ہی قوم اسے قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ پاکستان کی تخلیق سے لے کر آج تک اردو زبان ترقی پانے کے بجائے رو بہ زوال ہے۔ ہماری اپنی ہی قوم اردو کو وہ عزت اور وقار دینے کو تیار نہیں جس کی بحیثیت قومی زبان یہ حقدار ہے۔

پاکستان نامی جس ملک کی یہ قومی زبان ہے، وہاں حالات یہ ہیں کہ وہ انسان زیادہ قابل اور پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے جسے فر فر انگریزی بولنے اور لکھنے پر عبور حاصل ہے، لیکن ایک اچھی اردو لکھنے اور بولنے والے کو قابل نہیں سمجھا جاتا۔ کسی بھی جگہ آپ کی کامیابی کی ضمانت یہ ہے کہ آپ انگریزی زبان پر کتنا عبور رکھتے ہیں۔

سرکاری ہو یا نجی، ہر شعبے کی ہر سطح پر انگریزی کے بغیر کام نہیں چلتا۔ تعلیمی اداروں میں بھی انگریزی میڈیم کا تڑکا کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ مانا کہ انگریزی زبان کی اہمیت بین الاقوامی ہے، لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اپنی قومی زبان کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کیا جائے؟ جب کوئی قوم خود ہی اپنی زبان کو وقعت نہیں دے گی تو اقوامِ عالم میں اس کی عزت و تکریم کیونکر ہو گی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ :nailbiting:
میرا سوال صرف اتنا ہے کہ ایک ایسی چیز جس کو آپ نے اپنی قومی شناخت کا درجہ دے رکھا ہے، کہ جناب اردو ہماری قومی زبان ہے، تو پھر کیوں اس کو اپنانے میں اس قدر ہچکچاہٹ کا شکار ہیں؟ دنیا کی ہر قوم اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لیے ہزار جتن کرتی ہے۔ اپنی زبان کے فروغ اور ترویج کے لیے کام کرتی ہے۔ اپنی منفرد پہچان پر فخر کرتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ ہم ہر اس چیز کا مذاق اڑانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے جس کے ساتھ ”قومی“ کا سابقہ لگ جائے۔ ہمارا تو وہ حال ہے کہ ”کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا۔“
 

سیما علی

لائبریرین
ہماری ادبی شان : اردو زبان
وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے
اردو ایک ترقی یافتہ بہترین زبان ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ کسی بھی زبان کا فروغ دراصل تہذیب و تمدن تاریخ و روایات کا فروغ ہے۔کسی کے دل و دماغ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے زبان ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے ۔کسی کے دل تک رسائی کیلئے مہذب انداز ،پاکیزہ گفتگو،شیریں اور معنی خیز الفاظ ،لہجے میں نرمی اور شائستگی کے ساتھ حسن اخلاق اور دل کی صفائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ان اوصاف و آداب کے مجموعہ کو اردو زبان کہتے ہیں۔ اردو کی شیریں بیانی اور دل فریبی کے سبھی قائل ہیں۔اس زبان کے حسن کے لئے یہ کافی ہے کہ اس زبان نے انسانیت اور تہذیب مخالف الفاظ کو اپنے مجموعے میں جگہ نہیں دی یعنی اس میں گالی گلوج کی گنجائش نہیں ہے۔یہ اس زبان کی انفرادی حیثیت بھی ہے۔ یہ واحد زبان ہے جس نے گالی دینا نہیں سکھایا۔دوسری بڑی بات اس زبان کی یہ ہے کہ اس کی تاثیر کا حلقہ مذہب وملک کی قید سے آزاد رہا ہے۔ایک صوفی درویش کے گھر کی پروردہ اور تربیت یافتہ زبان انسان اور انسانیت سے محبت کرنے والے ہر شخص کی آواز بن گئی۔مذہب و برادری کی پرواہ کئے بغیر ہر ایک نے اس زبان کو گلے لگایا۔ وہ اردو جو آزادی کی خواہش کے اظہار کا ذریعہ بنی آج ایک مذہب خاص کے لوگوں کی زبان بتائی جا رہی ہے ۔اسی کی زبان میں کئی بار مشترکہ تباہی کے بعد غم و غصے کا اظہار بھی کیا گیاتھا۔آج جس زبان کو اردو کہتے ہیں وہ ترقی کے کئی مراحل سے ہوکر گزری ہے۔بارہویں صدی کے آغاز میں وسطی ایشیا سے آنے والے لوگ ہندوستان میں بسنے لگے تھے جو فوجی آئے تھے،وہ ساتھ لاتے تھے اپنی کھانے پینے کی عادتیں اورسنگیت۔وہ یہاں کے لوگوں سے اپنے علاقے کی زبان میں بات کرتے تھے جو یہاں کی پنجابی،ہریانوی اور کھڑی بولی سے مل جاتی تھی اور بن جاتی تھی فوجی لشکری زبان جس میںپشتو، فارسی،کھڑی بولی اور الفاظ جملوں سے ملتے جاتے تھے ۔تیرہویں صدی میں سندھی،پنجابی، فارسی، ترکی اور کھڑی بولی کے مرکب سے لشکری کی اگلی نسل وجود میں آئی اور اسے سرائے کی زبان کہا گیا۔اسی دور میں یہاں صوفی خیالات کی لہر بھی پھیل رہی تھی۔صوفیوں کے دروازوں پر بادشاہ آتے اور امراء آتے،سپہ سالار آتے اور غریب آتے اور سب اپنی اپنی زبان میں کچھ کہتے۔اس بات چیت سے جو زبان پیدا ہورہی تھی وہی جمہوری زبان آنے والی صدیوں میں اس ملک کی سب سے اہم زبان بننے والی تھی ۔اس طرح کی ثقافت کا سب سے بڑا مرکز مہرولی میں قطب صاحب کی خانقاہ تھی۔صوفیوں کی خانقاہوں میں جو موسیقی پیدا ہوئی وہ آج آٹھ سو سال(۸۰۰) بعد بھی نہ صرف زندہ ہے بلکہ عام لوگوں کی زندگی کا حصہ ہے۔
اجمیر شریف میں چشتیہ سلسلے کے سب سے بڑے بزرگ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری(غریب نواز) کے دربار میں امیر،غریب ،ہندو اور مسلمان سب آتے تھے اور آشرواد کی جو زبان لے کر جاتے تھے،آنے والے وقت میں اسی کا نام اردو ہونے والا تھا۔صوفی سنتوں کی خانقاہوں پر ایک نئی زبان پروان چڑھ رہی تھی۔مقامی بولیوں میں فارسی اور عربی کے لفظ مل ر ہے تھے اور ہندوستان کو ایک لڑی میں پرونے والی زبان کی بنیاد پڑ رہی تھی۔اس زبان کو اب ہندوی کہا جانے لگا تھا ۔بابا فرید گنج شکر نے اسی زبان میں اپنی بات کہی ۔بابا فرید کے کلام کو گرو گرنتھ صاحب میں بھی شامل کیا گیا ۔دہلی اور پنجاب میں تیار ہو رہی اس زبان کو جنوب میں پہنچانے کا کام خواجہ گیسو دراز نے کیا۔جب وہ گلبرگہ گئے اور وہیں ان کا آستانہ بنا اس دوران دہلی میں اردو کے سب سے بڑے شاعر حضرت امیر خسرو اپنے پیر حضرت نظام الدین اولیاء کے آستانے میں بیٹھ کر ہندوی زبان سنوار رہے تھے۔
امیر خسرو نے لاجواب شاعری کی جو ابھی تک بہترین ادب کا حصہ ہے اور آنے والی نسلیں ان پر فخر کریںگی۔حضرت امیر خسرو سے محبوب الٰہی ،حضرت نظام الدین اولیاء نے ہی فرمایا تھا کہ ہندوی میں شاعری کرو۔اس کے بعد امیر خسرو نے ہندوی میں وہ سب لکھا جو زندگی کو چھوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ ہندوستان اس لئے مجھے عزیز از جان ہے کہ میں نے اس سر زمین پر آنکھ کھولی اور یہ ملک میرے لئے ماں کی گود کی طرح ہے‘ ۔ کلاسیکل موسیقی میں امیر خسرو کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔انھوں نے متعدد راگ راگنیوں کی ایجاد کی ۔خسرو وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اپنے دور کی مروجہ عوامی زبان کو ذریعہ اظہار بنا کر ہندی اور اردو کے مستقبل کی راہ ہموار کی ۔انھیں کھڑی بولی یعنی ہندی اور اردو دونوں زبانوں کا موجد قرار دیا جاتا ہے۔حضرت نظام الدین اولیاء کی دعاؤں سے دہلی میں ہندوی عام زبان بنتی جا رہی تھی۔ اردو کی ترقی میں دہلی کے سلطانون کے سفر فتح کا بھی اہم رول ہے ۔ ۱۲۹۷؁ء میں علاؤالدین خلجی نے جب گجرات پر حملہ کیا تو لشکر کے ساتھ وہاں اس کی زبان بھی گئی۔ ۱۳۲۷؁ء میں جب تغلق نے دکن کا سفر کیا تو دہلی کی زبان ،ہندوی ان کے ساتھ گئی ۔اب اس زبان میں مراٹھی ،تلگو اور گجراتی کے لفظ مل چکے تھے ۔دکنی اور گجری کا جنم ہوچکا تھا۔
اردو زبان میں جذب وانجذاب کا عمل کئی صدیوں سے جاری ہے ۔بر صغیر میں پہلے مقامی بولیوں نے جنم لیا،پھر یہاں عربی زبان کی تاثیر آئی ،پھر اولیائے کرام کی روحانی تاثیر فارسی کو ساتھ لائی ،بعد ازاں مغلیہ دور ترکی بر صغیر میں علمی و ادبی زبان قرار پائی ،ان تمام زبانوں کے الفاظ کے اختلات کا عمل بھی جاری رہا۔حضرت امیر خسرو کے زمانے میں اس کے ریختہ نے بولی کی شکل اختیار کی اور ہندی کہلائی۔شاہجہاں کے دور میں شاہجہان آباد میں عہد شباب کو پہنچی اور اردو کہلائی۔اس کی تعمیر اور تخلیق کاری کا عمل مزید آگے بڑھا اور بڑھتا رہا۔اردو زبان میں انگریزی کی سمائی ہم اسی دور میں سرسید احمد خاں ،مولانا الطاف حسین حالی ،شبلی نعمانی،مولانا محمد حسین آزاد وغیرہ کے ہاں بھر پور طریقے سے دیکھ سکتے ہیں۔اکبر الہ آبادی نے تو انگریزی کے الفاط کو چٹ پٹے انداز میں اپنی شاعری میں خوب برتا اور معنی کی تہہ کو ابھارا ہے۔تقسیم ہند کے بعد ایک بار پھر زبان نے پلٹا کھایا اور اس میں تغیر و تبدل کا عمل شروع ہوا ۔مختلف تہذیبیں ،معاشرتی رویوں کے ساتھ ایک دوسرے کے سامنے آئیں۔تہزیبوں کے ملاپ سے لسانی امتزاج کے نئے پہلو ابھرے،جنھوں نے اردو میں نئے لہجوں کو جنم دیا ۔نئے روز مرہ ،نئے محاورے پیدا کئے اور زبان و بیان نئی تراکیب سامنے آئیں۔
شاہجہاں کے دور میں مغل سلطنت کی راجدھانی دہلی آگئی۔اس دور میں ولی دکنی کی شاعری دہلی پہنچی اور دہلی کے فارسی دانوں کو پتہ چلا کہ ریختہ میں بھی بہترین شاعری ہو سکتی تھی اور اسی سوچ کی وجہ سے ایک جمہوری زبان کے طور پر اپنی شناخت بنا سکی۔دہلی میں مغل سلطنت کے کمزور ہونے کے بعد اودھ نے دہلی سے اپنا ناطہ توڑ لیالیکن زبان کی ترقی مسلسل ہوتی رہی ۔در اصل ۱۸؍ ویں صدی میر،سودا اور درد کے نام سے یاد کی جائے گی۔میر پہلے عوامی شاعر ہیں ۔بچپن غربت میں گزرا اور جب جوان ہوئے تو دہلی پر مصیبت بن کر نادر شاہ ٹوٹ پڑا۔ ان کی شاعری کی جو تلخی ہے وہ اپنے زمانے کے درد کو بیان کرتی ہے ۔بعد میں نظیر کی شاعری میں بھی ظالم حکمرانوں کا ذکر میر تقی میر کی یاد دلاتا ہے۔مغلیہ طاقت کے کمزور ہونے کے بعد ریختہ کے دیگر اہم مراکز ہیں۔
۱۸۲۲؁ء میں اردو صحافت کی بنیاد پڑی جب منشی سدا سکھ لال نے ’جان جہاں نما‘ اخبار نکالا۔دہلی سے ’دہلی اردو اخبار‘ اور ۱۸۵۶؁ء میںلکھنؤ سے ’طلسم لکھنؤ‘ کی اشاعت کی گئی۔لکھنؤ میں نول کشور پریس کے قیام کی اردو کی ترقی میں اہم حصہ داری ہے۔سرسید احمد خاں ،مولانا شبلی نعمانی،اکبر الہ آبادی،ڈاکٹر علامہ اقبال اردو کی ترقی کے بہت بڑے نام ہیں ۔ اقبال کی شاعری ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ اور ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ ہماری تہذیب اورتاریخ کا حصہ ہے اس کے علاوہ مولوی نذیر احمد ،پنڈت رتن ناتھ سرشاراور مرزا ہادی رسوا نے ناول لکھے۔آغاحشر کاشمیری نے ڈرامہ لکھا۔
کانگریس کے کنونشن کی زبان بھی اردو ہی بن گئی تھی۔۱۹۱۶؁ء میں لکھنؤ کانگریس میں ’ہوم رول ‘ کی جو تجویز پاس ہوئی وہ اردو میں ہے ۔ ۱۹۱۹؁ء میں جب جلیاںوالا باغ میں انگریزوں نے نہتے ہندوستانیوں کو گولیوں سے بھون دیا تو اس غم اور غصے کا اظہار پنڈت برج نارائن چکبست اور اکبر الہ آبادی نے اردو میں ہی کیا تھا۔اس موقع پر لکھا گیا مولانا ابوالکلام آزاد کا مضمون آنے والی کئی نسلیں یاد رکھیں گی۔حسرت موہانی نے ۱۹۲۱؁ء کی تحریک میں انقلاب زندہ آباد کانعرہ دیا تھا جو آج انصاف کی لڑائی کا نشان بن گیا ہے۔
بہرحال اردو صرف زبان ہی نہیں بلکہ حق کی آواز رہی ہے۔انگریزوں کو اس کی تاثیر کا کافی علم تھا۔دستی صحافت کی ایک ایک تحریر دل اور کلیجے پر ایسے وار کرتی تھی کہ راتوں کی نیدیں حرام ہو جاتی تھیں۔آزاد،موہانی اور مولوی باقرجیسے اردو کے مسیحاؤں نے اس کی تاثیر کو پہچانااور اس کا استعمال کیا۔انھیں اس کی قیمت چکانی پڑی۔لیکن یہ آواز کبھی دبی نہیں،کبھی بکی نہیں۔اردو کو صرف اردو ہی زندہ کرسکتی ہے ۔یعنی تہذیب ،رواداری محبت اور یکجہتی کی فضا ئیںجہاں قائم ہوگی اردو وہاں پائی جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ صوفی سنتوں کے اخلاق و کردار کا فطری اور طبعی بیانیہ اسی زبان میں رہا۔اردو ہندوستان اور تصوف ملک کی اس وراثت کے امین ہیں جس کے لئے ملک پر ساری دنیا رشک کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
اردو ایک ایسی زبان ہے جسے ہر خاص و عام سمجھتا ہے اور بولتا بھی ہے ۔پچھلے پچاس برسوں میں اردو زبان پر کئی ردے لگ چکے ہیں۔اب اس کی نئی شکل ابھر کرسامنے آتی جا رہی ہے ،اس نئی ابھرتی ہوئی اردو زبان کی رچی ہوئی شکل بعض ناولوں ،ادبی تحریروں اور ٹی وی ڈراموں میں نظر آتی ہے ۔اس زبان میں وہی کھٹ میٹھا پن ہے ،جو پیڑ میں لٹکتی ہوئی امبیا کا ہوتا ہے۔
تہذیب کا مر کز ہے نشان اردو
تاثیر میں جادو ہے بیان اردو
ہے رابطہ ہر ایک زباں سے اس کا
رکھتی ہے عجب لوچ زبان اردو
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو
فخرالدین علی احمد گورنمنٹ پی۔جی کالج
محمود آباد،سیتاپور(یو۔پی)
 

سیما علی

لائبریرین
اردو‘‘ ہماری قومی زبان، ہماری پہچان
Jul 16, 2015
تہمینہ شیر درانی
نوائے وقت
خود دار اور با وقار قومیں ہمیشہ اپنی تہذیب و ثقافت، اپنی زبان کو سینے سے لگا کر رکھتی ہیں۔ اس کی قدر کرتی ہیں اور ان پر فخر کرتی ہیں۔ نہ کہ! ان کی وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا ہو کر خود کو کم تر یا بیرونی دنیا سے کٹ کر الگ تھلگ ہونے کا احساس انہیں اپنی ثقافت اور زبان سے بے رخی اختیار کرنے کا درس دیتا ہے۔ دنیا میں جن اقوام نے ترقی کے مدارج تیزی سے طے کئے ہیں۔ سبھی نے ہمیشہ اپنی ثقافت اور قومی زبان کو فوقیت دی ہے۔ اس امر سے انکار بھی ممکن نہیں۔ کہ انگریزی زبان اور بیرونی دنیا سے رابطے کی دیگر اہم زبانوں کی اپنی جگہ اہمیت اور افادیت اپنی جگہ قائم ہے۔ اور قائم رہنی چاہئے تاکہ! بین الاقوامی معاملات اور علوم و فنون پر دسترس حاصل کرنے میں ہم کہیں پیچھے نہ رہ جائیں۔ لیکن! ہماری قومی زبان اردو کی اپنی جگہ اہمیت اور افادیت ہے۔ جیسا کہ! دیگر ترقی یافتہ ممالک اپنی قومی زبان کو ہمیشہ ہر معاملے میں فوقیت دیتے ہیں۔ ویسے بھی آج اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں چینی اور انگریزی کے بعد تیسری بڑی زبان اردو ہی تو ہے۔ ہمارے لئے تو یہ بات ویسے بھی باعث فخر ہے۔ کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ کیونکہ مسلمان تاجروں، عرب، ایران، ترکی اور دوسرے اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے سپاہیوں اور اہل علم و فن کی ہندوستان آمد ہی اردو کی ابتداء کا ذریعہ بنی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 1948ء میں جلسہ عام میں فرمایا:
’’میں واضح الفاظ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہی ہوگی۔ جو شخص آپ کو اس سلسلے میں غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کرے۔ وہ پاکستان کا پکا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ زبان کے بغیر کوئی قوم نہ تو پوری طرح متحد رہ سکتی ہے۔ اور نہ کوئی کام کرسکتی ہے‘‘ اردو زبان میں پوری پاکستانی قوم کی ثقافتی روح موجود ہے۔ کیونکہ یہ پاکستان کے دیہاتوں اور شہروں میں وسیع پیمانے پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ دنیا کے ہر ملک میں اردو بولنے والے لوگ کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اردو زبان تیزی کے ساتھ بین الاقوامی زبان کا درجہ حاصل کرتی جا رہی ہے۔ اس لئے ہمیں اپنی قومی زبان پر فخر کرنا چاہئے۔ جوکہ ہماری پہچان بھی ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستانی قوم کو ایک بڑی خوشخبری سننے کو ملی جو کہ پوری قوم کا دیرینہ خواب بھی تھا کہ سپریم کورٹ میں قومی زبان اردو کے نفاذ اور دیگر صوبائی زبانوں کی ترویج و اشاعت کے مقدمے میں حکومت کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا۔ کہ اب آئندہ تمام سرکاری اداروں میں اردو رائج کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اردو رائج کرنے کی منظوری کے بل پر وزیراعظم پاکستان نے ’’6‘‘ جولائی کے دن دستخط کئے۔ جسکے تحت آئندہ صدر اور وزیراعظم بیرون ممالک تقاریر قومی زبان میں کریں گے۔ انتظامی حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ وفاق کے زیر انتظام تمام کام کرنیوالے ادارے سرکاری و نیم سرکاری آئندہ اپنی پالیسیوں اور قوانین کا تین ماہ کے اندر اندر اردو میں ترجمہ شائع کریں گے۔ اور ہر طرح کے فارم انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی فراہم کئے جائیں گے۔ اسی طرح تمام عوامی اہمیت کی جگہوں پر راہنمائی کے لئے اردو میں بورڈ آویزاں کئے جائیں گے۔ جبکہ پاسپورٹ آفس، محکمہ انکم ٹیکس، اے جی پی آر، آڈیٹر جنرل واپڈا، سوئی گیس، الیکشن کمشن کی تمام متعلقہ دستاویزات و مراسلات کے علاوہ ڈرائیونگ لائسنس اور یوٹیلٹی بل بھی اردو زبان میں ہی پرنٹ کرائے جائیں گے۔ اسکے علاوہ پاسپورٹ کے تمام اندر جات انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی تحریر ہونگے۔ دیگر یہ کہ ! وفاقی حکومت کے زیر انتظام تمام ادارے اپنی ویب سائٹس بھی اردو میں منتقل کرینگے۔ مندرجہ بالا اردو کے بارے میں اچھی خبر سننے پر محب وطن پاکستانی بے حد خوش ہیں۔ اور دعا کرتے ہیں کہ! یہ حکم نامہ ’’مستقل ہو اور آنے والی حکومتیں بھی جاری رکھیں اور اس پر مکمل عمل دارآمد بھی ہو۔
 

سیما علی

لائبریرین
اردو زبان کے ارتقا میں سرکاری اداروں کا کردار:ایک جائزہ
ادبی مباحثے, تحقیق وتنقید, نصاب اردو1 Aug 18

برٹش حکومت کے شروعاتی دورمیں سرکاری زبان کا درجہ فارسی زبان کو حاصل تھا۔کیوں کہ انگریزوں نے ہندوستانی سلطنت مغلیہ حکومت سے چھینی تھی اور مغلوں کی زبان چونکہ فارسی تھی اس لیے حکومتی کام کاج کی زبان بھی فارسی ہی ٹھہری۔انگریزوں کے ہندوستان پر قابض ہونے کے بعد انگریزی حکومت نے فارسی کا برچسپ ختم کرنے کے لیے علاقائی زبان کو فروغ دینے کی کوشش کی۔یعنی اسی وقت عوام میں جو زبان بولی اور سمجھی جا رہی تھی اس کو فروغ دینے کی خاطر۱۸۰۰عیسوی میں فورٹ ولیم کالج کی بنیادر کھی اور ۱۸۲۵میں دلی کالج قائم کیا۔ان دونوں کالجوں کے قیام کا مقصد الگ الگ تھالیکن ان دونوں کالجوں کے قیام سے اردو زبان کے فروغ میں بہت مدد ملی۔فورٹ ولیم کالج کو قائم کرنے کا مقصد انگریزی افسران کو عوامی بول چال کی زبان سے روشناس کرانا تھا۔تاکہہ وہ محکوم کی زبان سیکھ کر ان کے مسائل کو سمجھ سکیں اور زیادہ دنوں تک حکومت کر سکیں۔پھر انگریزوں کا مقصد چاہے جو بھی
ہو،ا س سے اردو زبان کو پھلنے اور پھولنے کا بہترین موقع ملا۔مختلف علماء جو عوامی زبان یعنی اردو زبان کے ماہر تھے انہیں اکٹھا کرکے ان سے دوسری زبانوں کی کتابوں کا ترجمہ کرایا گیا جو قصہ وکہانی پر مبنی تھا اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ زبان بالکل سادہ اور سلیس ہو۔مرصع،مسجع اور مقفیٰ عبارتوں سے پرہیز کریں کیوں کہ اس دور کی ادبی زبان مقفیٰ مرصع اور مسجّع ہوا کرتی تھی۔اس سے زبان میں سلاست اور روانی پیدا ہوئی اور بہترین قصہ اور کہانیاں وجود میںآئیں جو آج بھی یادگار زمانہ ہے۔مثلا باغ وبہار(میرامن)وغیرہ ، دلی کالج کے قیام کا مقصد ہندوستانی طلبہ کو انگریزی خیالات سے روبرو کرانا تھا اور ذریعہ تعلیم اردو زبان کو رکھا گیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزی اور دوسری زبانوں کی اعلیٰ کتابوں کو اردو زبان میں ترجمہ کرایا گیا اور اسے نصاب تعلیم میں داخل کیا گیا۔تاکہ طلبہ بآسانی اعلیٰ خیالات سے واقف ہو سکیں۔اسی طرح اردو زبان ترقی کے منازل طے کرتی رہی کہ یکایک ۱۸۵۷کی بغاوت کا اثر اردو زبان پر بھی پڑا اور اس کی ترقی کی رفتار دھیمی پڑنے لگی۔یہاں تک کہ آزادی کے کئی دہائی تک اردو زبان کو انہیں مسائل سے نبردآزما ہونا پڑا بالآخر ستر کی دہائی میں کئی سرکاری ادارے کھلے جنہوں نے اس زبان کے فروغ میں اپنے نمایاں کردار ادا کیے ہیں جن کا مقصد اردو زبان وادب کا فروغ اور ارتقا ہے۔یہاں پر اردو اکیڈمیوں کا ذکر لازمی وضروری ہے۔مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے مل کر ملک کے الگ الگ صوبوں میں اردو اکادمی کا قیام کیا ہے۔مثلا آندھرا پردیش اردو اکادمی،بہار اردو اکادمی ،دہلی اردو اکادمی،گجرات اردو اکادمی،ہریانہ اردو اکادمی،ہماچل پردیش اردو اکادمی،جموں وکشمیر اردو اکادمی،کرناٹک اردو اکادمی،مدھیہ پردیش اردو اکادمی،مہاراشٹر اردو اکادمی،اڑیسہ اردو اکادمی،پنجاب اردو اکادمی،راجستھان اردو اکادمی وغیرہ۔

(۱) سوسائٹی کی ساری آمدنی سوسائٹی کے اغراض ومقاصدکے حصول ہی کے لیے خرچ کرنا۔(www.urduacedmydelhi.org)

مذکورہ بالا مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے اردو اکادمی دہلی اردو زبان و ادب کی خدمات بخوبی انجام دے رہی ہے۔ان مقاصد سے الگ ہٹ کر بھی یہ اکادمی اردو زبان کے جاننے والے طلبہ وطالبات کے لیے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری اور اس کے لیے کوچنگ کا بھی اہتمام کرتی ہے۔تاکہ اردو داں طلبہ وطالبات مقابلہ جاتی امتحانوں میں کامیاب ہو سکیں۔اس کے علاوہ دلی کے مختلف علاقوں میں اردو تدریس کے مراکز بھی کھولے ہیں تاکہ صوبۂ دہلی کے عوام جو اردو زبان کے سیکھنے کے خواہش مند ہیں وہ اسے بہ آسانی سیکھ سکیں۔آج کے دور میں یہ اکادمی بقیہ اردو اکادمی کے لیے رہنمائی کا کام کر رہی ہے۔

} قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان:اس ادارہ کا قیام وزارت ترقی انسانی وسائل کے محکمۂ اعلیٰ تعلیم کے ماتحت عمل میں آیا۔اردو زبان وادب کی ترقی کی خاطر ایک اپریل1996سے یہ ادارہ کام کرنا شروع کر دیا۔یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس نے پورے ملک میں اردو زبان وادب کی ترقی کے لیے تدریسی مراکز کھولا ہے۔جہاں اردو داں اور غیر اردو داں طبقہ بآسانی سرٹیفیکیٹ یا ڈپلومہ کی ڈگری کا کورس کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ کمپوٹر کی تعلیم اردو زبان میں دی جاتی ہے اور اس کے سینٹر بھی ملک کے مختلف حصوں میں کھولے گئے ہیں۔اس کے علاوہ اردو ڈیجیٹل لائبریری،اردو آن لائن کورس اوراردو آن لائن آڈیو لائبریری کا اہتمام کیا گیا۔تاکہ لوگ چلتے پھرتے اس سے استفادہ کر سکیں۔یہ ادارہ ملکی اور غیر ملکی سطح پر اردو زبان وادب کے فروغ میں عمل پیرا ہے۔اس کائونسل کے مندرجہ ذیل مقاصد ہیں:

÷’’اردو زبان کو فروغ دینا اور اس کی ترویج وتوسیع کے لیے فضا ہموار کرنا۔

÷ایسے اقدام کرنا جن سے اردو زبان میں سائنسی اور ٹیکنالوجیکل ترقیات کے علوم کی توسیع ہو اور ایسے اعمال وافکار کو بڑھاوا ملے جو اردو زبان کو جدید علوم سے ہم آہنگ کر سکیں۔

÷حکومت ہند کو اردو زبان و تعلیم سے متعلق معاملات
کے بارے میں صلاح ومشورہ دینا۔

÷اردو زبان کے فروغ کے لیے مزید ایسے اقدام کرنا جتنی کائونسل موزوں خیال کرے۔‘‘

مندرجہ بالا مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے(ncpul.website)اس کائونسل نے اردو کی ترقیات میں اہم اقدام اٹھائے۔مثلا تقریبا قیام سے لے کر اب تک اس ادارہ نے گیارہ سو اردو کتابوں کی طباعت واشاعت کی ہے۔اور ان کتابوں کو ملکی وغیر ملکی سطح پر فروخت کا اہتمام بھی کیا ہے۔ظاہر ہے کہ اس سے زبان کے فروغ میں بہت مدد ملے گی۔اس کے علاوہ مختلف موضوعات کے تحت آن لائن لائبریری کھولی گئی تاکہ لوگ اپنی دلچسپی کے مطابق اس لائبریری سے فائدہ حاصل کر سکیں اور ملک کے دور دراز علاقوں تک اردو زبان کی تدریس کے مراکز کھولے ہیں تاکہ خواہش مند حضرات اردو زبان کو بہ آسانی سکیھ سکیں۔ظاہر ہے کہ اس ادارے کی اہمیت وافادیت سے انکار ناممکن ہے۔

اردو اکادمی ،تامل ناڈو اردو اکادمی،اتر پردیش اردو اکادمی،ویسٹ بنگا ل اردو اکادمی،تلنگانہ اردو اکادمی اور چھتیس گڑھ اردو اکادمی ،اس کے علاوہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (N.C.P.U.L)جس کا قیام وزارت ترقی انسانی وسائل،محکمۂ اعلیٰ تعلیم کے ماتحت مرکزی حکومت کی ایماء پر اس ادارہ کا قیام عمل میں آیا ہے۔اس کے علاوہ بھی بہت سے ادارے ہیں جو اردو زبان وادب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔مثلا انجمن ترقی اردو(ہند)،غالب اکادمی ،غالب انسٹی ٹیوٹ وغیرہ۔
لیکن یہاں صرف چند اداروں کا تذکرہ کیا جائے گاجو سب سے زیادہ فعال اور متحرک ہیں اور شب وروز اردو زبان وادب کے فروغ میں سرگرم عمل ہیں۔ان میں سرِ فہرست اردو اکادمی دہلی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور انجمن ترقی اردو (ہند)ہیں۔باقی ادارے بھی وقت اور ضرورت کے مطابق اردو زبان کی خدمات انجام دے رے ہیں مگر کچھ وجوہات کی بنا پر خواہ پیسے کی قلت یا حکومت کی عدم توجہی یا کسی اور وجہ سے اتنے متحرک نہیں ہے جتنا کہ مذکورہ بالا چند اداروں کا ذکر کیا۔یہاں سب سے پہلے اردواکادمی دہلی کا ذکر کیا جائے گا۔

} اردو اکادمی دہلی:

حکومت دہلی نے اس مقصد کو سامنے رکھ کر اردو اکادمی دہلی کو قائم کیا کہ وہ صوبہ میں اردو زبان کی ترقی اور تدریس پر بخوبی توجہ دے سکے۔یہاں کی تہذیب وتمدن اور اردو زبان کی تعلیمی ترقی میں یہ ادارہ اپنا کردار بخوبی نبھا رہاہے۔

مئی 1981میں اس ادارہ یعنی اردو اکادمی دہلی کا قیام عمل میں آیا اور مندرجہ ذیل اغراض ومقاصد کے ساتھ یہ ادارہ اردو زبان وادب کے فروغ میں شب وروش کوشاں ہے۔رجسٹرڈ سوسائٹی کے طور پراردو اکادمی ،دہلی کے اغراض ومقاصد مندرجہ ذیل ہیں:

(۱)دہلی کی لسانی تہذیب کے مشترکہ حصے کے طور پر اردو زبان اور ادب کا تحفظ اور ارتقا۔

(۲)ادبی اور معیاری تصنیفات اور اردو میں بچوں کی کتابوں کی اشاعت اور حوصلہ افزائی۔

(۳)اردو میں ادبی اور سائنسی اور دوسرے موضوعات سے متعلق ایسی اہم کتابوں کے ترجمے کا اہتمام کرنا جن کا ابھی تک اردو زبان میں ترجمہ نہ ہوا ہو۔

(۴)اردو میں کتابوں کی تالیف واشاعت۔

(۵)قدیم اردو ادب کی صحیح ترتیب وتدوین کے بعد اشاعت۔

(۶)اردو کے غیر مطبوعہ معیاری ادب پاروں کی اشاعت۔

(۷)اردو کے مستحق مصنفین کی غیر مطبوعہ تصنیفات کی اشاعت کے لیے مالی اعانت کرنا۔

(۸)گزشتہ ایک سال کے دوران مطبوعہ اردو تصنیفات کے مصنفوں کو انعامات دینا۔

(۹)اردو کے عمر رسیدہ اور مستحق مصنفین کی ماہانہ مالی اعانت۔

(۱۰)اردو کے اسکالروں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک مقررہ مدت کے لیے مالی اعانت۔

(۱۱)مشہور اسکالروں اور دوسری اہم شخصیتوں کو جلسوں کو خطاب کرنے کے لیے دعوت دینا۔

(۱۲)ادبی موضوعات پر سمینار،سمپوزیم،کانفرنس اور نشستیں منعقد کرنا جن میں عالمی ادبی رجحانات کے پس منظر میں اردو کے مسائل پر بحث ومباحثہ،اسی کے ساتھ اردو کی تدریس اور اس کے استعمال کے متعلق سرکاری احکامات کی تعمیل وتکمیل دینا جو کہ اسی طرح کی نشستیں منعقد کرتی ہے۔

(۱۳)اردو میں اعلیٰ معیار کے رسالے،جریدے اور اسی طرح کی دوسری مطبوعات کی اشاعت۔

(۱۴)اکادمی کے ضابطوں کے تحت مطبوعات کی فروخت کا اہتمام۔

(۱۵)اکادمی کے لیے منقولہ اور غیر منقولہ جائداد حاصل کرنا لیکن شرط یہ ہے کہ غیر منقولہ جائداد کے حصول سے سرکار کی پیشگی منظوری ضروری ہوگی۔

(۱۶)اردو کی تعلیم،اس کے استعمال اور سرکاری احکامات کی تکمیل میں حائل دشواریوں اور اردو بولنے والوں کے مطالبوں کو دہلی سرکار کے علم میں لانا۔
۱۷)ایسے سبھی جائز اقدامات کرنا اور قانونی کارروائیاں کرنا جس سے مذکورہ مقاصد کے فروغ وتعمیل میں مدد مل سکتی ہے۔

انجمن ترقی اردو (ہند)

اس ادارہ کا قیام سرسید احمد خاں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔آل انڈیا مسلم ایجوکیشن کانفرنس کا انعقاد سر سید احمد خاں نے محسن الملک کے ساتھ مل کر 1886میں کیا تھا۔جس کا مقصد تھا کہ مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرایاجائے اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طرز پر کالجز اور اسکول کھولے جائیں۔اس کانفرنس کو تین حصوں پر تقسیم کیا گیا تھا۔پہلا عورتوں کی تعلیم،دوسرامردم شماری اور تیسرا اسکول، دوبارہ اس کانفرنس کاانعقاد1903میں ہوا اور اس میں تین اور شقوں کا اضافہ کیا گیا۔پہلا سماجی اصلاحات،دوسرا شعبہ ترقی اردو،اور تیسرا بقیہ بچی ہوئی چیزیں ،یہی شعبہ آگے چل کر انجمن ترقی میں تبدیل ہو گیا۔اس انجمن کو قائم کرنے والے سر سید احمد خان تھے اور ان کا ساتھ دینے والوں میں محسن الملک،شبلی نعمانی،مولانا ابو الکلام آزاد اور مولوی عبد الحق وغیرہ تھے۔اس ادارہ نے اردو زبان وادب کے فروغ میں نمایاں اور اہم کردار ادا کیا ہے جنہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔اس ادارہ کی اہم اشاعت سہ ماہی’’اردو ادب‘‘اور ہفتہ واری’’ہماری زبان‘‘ہیں۔

ڈاکٹر اطہر فاروقی رقمطراز ہیں:

’’1886میںسر سید احمد خان’’ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس‘‘نے جو تنظیم قائم کی تھی اس کے نتیجے میں آگے چل کر1903میں انجمن ترقی اردو کا قیام عمل میں آیا۔سر سید کے دور رس مقاصد کے مطابق انجمن کے قیام کا مقصد خصوصا مسلمانوں کو نئے نظام سے ہم آہنگ کرنا تھا۔یہ وہ دور تھا جب ہندی کے نام ہندو نیشنلزم کی سیاست زور پکڑ چکی تھی اور اردو ہندی تنازعے کے نتیجے میں اردو مسلمانوں اور ہندی ہندئوں کی زبان کے طور پر جانی جانے لگی تھی۔اردو ہندی تنازع میں سر سید اور ان کے رفقاء پہلے ہی سے اردو کے ساتھ تھے۔محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا قیام مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے سر سید کا مشن تھا۔‘‘الی آخرہ۔(مضمون انجمن ترقی اردو(ہند)نئے امکانات کی پیہم وجستجو،ڈاکٹر اطہر فاروقی،کتاب،اکیسویں صدی میں اردو فروغ اور امکان،مرتبہ خواجہ محمد اکرام الدین سنہ اشاعت2014،پبلشر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،دہلی،ص:163)

انجمن ترقی اردو (ہند)کی مختلف شاخائیں ملک کے مختلف حصوں میں اردو زبان وادب کے فروغ میں عمل پیرا ہیں۔اس ادارہ کا دائرہ کار بہت وسیع وعریض ہے۔ملکی سطح پر یہ ادارہ اردو زبان وادب کی ترقی کے لیے کام کرتی ہے۔ملکی سطح پر اسکولوں میںا ردو زبان کی تدریس کی بگڑتی صورت حال کو بہتر کرنے کی ذمہ داری بھی اسی ادارہ کے ذمہ ہے۔اور اس اداری کے قیام کا مقصد اردو زبان وادب کا تحفظ اور اس کی بقا ہے۔

مندرجہ بالا تینوں اداروں پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ان اداروں کا کردار کیا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ادارے اگر فعال اور متحرک نہ ہوتے تو آج اردو زبان وادب کی صورت ہی کچھ اور ہوتی۔ان اداروں کی خدمات لائق تحسین ہیں۔اس کے علاوہ بھی بقیہ صوبوں کے ادارے اپنے حلقہ میں اردو زبان وادب کی ترقی میں سرگرم عمل ہیں۔ان تین اداروں کا دائرہ کار وسیع ہے۔اس لیے ان تینوں اداروں کو مرکز یت حاصل ہے۔بقیہ ادارے ان کی رہنمائی میں اپنے کام بخوبی انجام دے رہے ہیں اور اسی طرح اردو زبان وادب کا فروغ ہوتا رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مدنی اشرف

ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی
 

سیما علی

لائبریرین
عالمی افسانہ میلہ 2020

افسانہ نمبر 32

مٹھی بھر آسمان میں ایک کھڑکی
ؑعذرانقوی ۔ دہلی ، انڈیا
زہرہ!زہرہ! دونوں وقت مل رہے ہیں نیچے آؤ! کیسی باتیں ہیں تم لوگوں کی جو ختم ہی نہیں ہوتیں، دن میں کالج میں دونوں ساتھ رہتی ہو مگر پھر بھی نجمہ کے ساتھ گھنٹوں چھت پر ٹہل ٹہل کر باتیں کرنا ضروری ہے “ دادی کی آواز آئی۔
دادی کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ لیکن نہ وہ مظفر نگر والا گھر تھا..... نہ دادی...، نہ اپنی دوست نجمہ کے ساتھ چھت پر ٹہلنا۔ توبہ ہے! ذرا سی دیر کے لئے بھی آنکھ لگ جائے تو نہ جانے کہاں کہاں کے بھولے بسرے منظر خواب بن کریوں چلے آتے ہیں جیسے کل کی بات ہو.... میں نے آنکھیں ملتے ہوئے چاروں طرف دیکھا، لگتا ہے کہ مغر ب کی نماز کے بعد یونہی ذرا لیٹ گئی تھی تو شاید آنکھ لگ گئی ہو گی۔ میں نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔میرے اس کمرے کی کھڑکی سے بس مٹھی بھر آسمان نظر آتا ہے، باہر نظر ڈالی تو اُداس سی شام رخصت ہورہی تھی، لمبی رات اپنی آمدسے مجھے ڈرا رہی تھی، بے خوابی کا عجب مرض پیچھے لگ گیاہے۔ ایک اونچی سی بلڈنگ کی چھٹی منزل ی پر یہ فلیٹ ہے جس کی پشت پر یہ چھوٹا ساکمرہ مجھے ملا ہے، جس کی کھڑکی سے بالکل قریب ہی ایک اونچی بلڈنگ کھڑی میرا منہ چڑاتی ہے جس کے فلیٹوں کی بالکنیوں کو بھی لوگوں نے لوہے کے جنگلے لگا کر بند کردیا ہے، بس اس کھڑکی اور ساتھ والی بلڈنگ کے درمیان ایک مٹھی بھر آسمان میرا ساتھی ہے۔
یادوں نے پھر سے مجھے گھیر لیا.....بچپن سے جوانی تک دادی اماّں ا ور میں ایک کمرے میں ر ہتے تھے ۔ ایک پورا کمرہ طاہر بھائی کے قبضے میں ہے۔میراد ل چاہتا تھا کہ رات دیر تک لیٹ کر ناول پڑ وھوں لیکن دادی کی نیند خراب ہونے کے ڈرسے نہیں پڑھ سکتی تھی، اپنے چھوٹے سے ٹرانسسٹر پر گانے سننے کا تو سوال ہی نہیں تھا، اور پھر رات بھر انکے خرانٹے۔ صبح وہ فجر کی نماز سے بہت پہلے جاگ جاتی تھیں اور نہ جانے کیا سٹر پٹر کرتی رہتی تھیں۔امتحانوں کے زمانے میں جب مجھے دیر تک پڑھنا ہوتا تھا تب کمرے کے دروازے کے سامنے ہی برآمدے میں تخت پر بیٹھ کر پڑھتی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ بڑے کمرے میں صوفے پر آرام سے لیٹ کر پڑھوں مگر امیّ کہتی تھیں کی دادی کمرے میں اکیلی ہوں گی، رات کو باتھ روم جا نے کے لئے ا ٹھیں گی تو تم ساتھ چلی جانا ورنہ کہیں گرپڑ گئیں اور کوئی ہڈی وڈی توڑ بیٹھیں تو اور مصیبت آجائے گی۔ جب ہماری کوئی پھوپھی دادی سے ملنے آتی تھیں تو ان کا ڈیرہ بھی میرے ہی کمرے میں ہوتا تھا۔ میں بدھ کی شام ریڈیو سیلون سے اپنا پسندیدہ پروگرام ’بناکا گیت مالا ‘ سننے کے لئے ٹرانسسٹر لے کر چھت پرجاکر سنتی تھی، مگر تب بھی دادی مستقل پکارتی رہتی تھیں۔
کتنا دل چاہتا تھا ہ ایک میرا اپنا کمرہ ہو....صرف میرا..... بلا شرکت ِغیرے۔ اس کی تنہائی، اس کی خاموشی بس میرے لئے ہو،جب تک چاہوں جاگوں، لیٹ کر اپنی پسند کی کتابیں پڑھوں اپنے پسندکے گانے سنوں....افوہ! نہ جانے یہ اتنی پرانی یادیں کیسے یوں چلی آتی ہیں جیسے کل کی بات ہو۔شادی کے بعد، بچوں کی پیدائش اورپرورش کے زمانے میں بھی اکثر یہ خواہش جاگ اٹھتی تھی....میں ہوں اور میرا کمرہ ہو....کسی کی دخل اندازی نہ ہو ۔
میری بہو کی آواز نے مجھے یادوں سے حقیقت کی دنیا میں لا پہنچایا۔ وہ میری پوتی سارہ کو ڈانٹ رہی تھی ”کیا ہر وقت کمپیوٹر پر چیٹنگ کرتی رہتی ہو۔باہر نکلو ، لو یہ کھانے کی ٹرے دادی کے کمرے میں لے جاؤ،ان کے کھانے کا وقت ہوگیاہے، پھر ان کو دوا بھی کھانی ہوتی ہے۔“
میں سوچتی رہی جیسے یاد اور خواب پل بھر میں کہیں سے کہیں پہنچا دیتے ہیں اس سرعت سے زندگی بھی گذر گئی۔ شادی، بچوں کی پرورش، بیٹیاں اپنے اپنے گھر کی ہو گیئں بلکہ کہنا چاہئے پردیس کی ہوگئیں۔ایک کناڈا میں دوسری سعودی عرب میں۔وہ تو کہو کہ شوکت میاں کی بہت اچھی ملازمت ہے ہندوستان میں اس لئے بڑھاپے میں اس کا ساتھ ہے۔ اپنا چھوٹا سا گھرہمارے میاں نے بنایا تھا بریلی میں جہاں وہ کالج میں پڑھاتے تھے۔ دل تو چاہتا تھا کہ ان کے بعد ان کی یادوں کیساتھ وہیں رہوں مگر بیچارہ شوکت میرے لئے پریشان رہتا تھا، اس کی ملازمت دہلی میں تھی، اس لئے وہ بریلی والا گھر بیچ کر مجھے اپنے ساتھ دہلی لے آیا۔ اللہ اسے خوش رکھے میرا ہر طرح خیال رکھتا ہے،اور بہو بھی برُی نہیں ہے۔ میرے آرام اور کھانے پینے اور دوا علاج کا سب بہت خیال رکھتے ہیں۔
ہاں! اس گھر میرا ایک کمرہ ہے... گھر؟ اسے گھر نہیں کہا جاسکتا، گھر تو دالان اور صحن والا ہوتا ہے ، یہ تو فلیٹ ہے،جی ہاں اس فلیٹ میں میرا ایک کمرہ ہے، بلا شرکتِ غیرے۔وہی کمرہ جس کی کھڑکی سے بس مٹھی بھر آسما ن نظر آتا ہے۔ برابروالا بڑا کمرہ میری پوتی سارہ کا ہے، ایک چھوٹا سا کمرہ پوتے شارق کا ہے اور بڑا کمرہ بیٹے بہوکا۔ ہمارے فلیٹ کی بالکنی بھی دوسرے فلیٹوں کی طرح لوہے کی جالی لگا دی گئی ہے، چوری چکاری کے ڈر سے،حالانکہ ہم چھٹی منزل پر رہتے ہیں۔
مجھے یہاں آئے ہوئے تقریبا َ ایک سال ہوگیاہے۔ سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں رہتے ہیں۔ اپنے کمرے میں لیٹی کافی دیر پڑھتی رہتی ہوں.......... کتنی دیر پڑھوں.... آنکھیں بھی اب جواب دے رہی ہیں۔ یہاں اردو کے رسالے اور کتابیں بھی مشکل سے ملتی ہیں اور انگلش پڑھنے میں اتنی روانی نہیں ہے۔ دن میں جب بچے اسکول کالج میں ہوتے ہیں، کچھ دیر باہر نکل کر بیٹھ جاتی ہوں۔ بہو سے کہتی ہوں کہ لاؤ سبزی کاٹ دوں مگر وہ کہتی ہے امّی رہنے دیں خواہ مخواہ یہاں کوڑا ہوگا۔بہو کو گھر سجانے اور صاف رکھنے کا جنون ہے، میوزیم جیسا گھر ہے۔لاؤنج میں کوئی کشن ادھر سے ادھر ہوگیا تو آفت آ جاتی ہے۔ایک دیوان جو لاونج میں پڑا ہے اس پر بہو لیٹ کر دوپہر میں اپنے ٹی وی ڈرامے دیکھتی ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ میں زیادہ دیر لاونج میں لیٹ یا بیٹھ جاتی ہوں تو بہو کچھ الجھ سی جاتی ہے حالانکہ زبان سے تو کچھ نہیں کہتی۔ شام چار بجے سے پوتے شارق کے کارٹون شروع ہوجاتے ہیں اور لاونج پر ان کا قبضہ ہوجاتا ہے میں اس کے ساتھ بیٹھ کر کبھی کبھی کارٹون دیکھ لیتی ہوں۔اب تو ٹام اور جیری سے بھی میری اچھی جان پہچان ہوگئی ہے۔ رات کو شوکت اپنے پروگرام دیکھتے ہیں، اور اب تو عجیب عجیب قسم کے پروگرام اور اشتہار ٹی وی پر آتے ہیں۔بیٹے بہو کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے میں شرم آتی ہے اور جب کبھی اکیلی ہوتی ہوں تو ان کمبخت کئی قسم کے ٹی وی کے ریموٹوں کا کون سا بٹن دباؤں سمجھ میں نہیں آتا۔ بہو کو بار بار پکارنا اچھا نہیں لگتا۔
مجھے یا د ہے کہ میری ساس برآمدے میں پلنگ ڈال کر بیٹھتی تھیں جہاں سے آنگن کے دروازے پراور باورچی خانے پر نظر رہ سکے۔ گھر میں کون آیا کون گیا ہر بات کی فکر رہتی تھی۔دروازے کی گھنٹی بجی تو پوچھنا ضروری تھا کہ کون آیاہے۔ کبھی کبھی میں اور بچے بھی الجھ جاتے تھے۔یہاں شوکت کے ہاں دن میں ایک عورت جھاڑو پونچھا کرنے آتی ہے اور ایک بر تن دھونے، دونوں جلدی جلدی اپنا کام ختم کرکے چلتی جاتی ہیں، بلڈنگ کے اور گھروں میں بھی کام کرنا ہوتا ہے۔ یہ کوئی مٖظفر نگر یا بریلی نہیں جہاں جمعدارن اور گھر میں کام کرنے والی بوائیں پان کھانے کے بہانے دیر تک بیٹھی باتیں بناتی رہتی تھیں۔ یہ تو نیا فیشن ایبل علاقہ ہے نوئیڈا۔ یہاں یوں کوئی کسی کے گھر منہ اُ ٹھائے نہیں چلا آتا۔ شہر میں جرم بھی بڑھ گئے ہیں، ہر وقت لوگوں کے دروازے مقفل رہتے ہیں۔جی چاہتا ہے کہ روز باہر نکل کر ٹہل آؤں،
مگر لفٹ میں اکیلے آتے جاتے ڈر لگتا ہے، چھ منزل سیڑھیاں چڑھنا تو اب میرے بس میں نہیں۔

میں عشأ کی نماز پڑھی رہی تھی سار ہ کھانے کی ٹرے کمرے میں رکھ کر چلی گئی۔ باہر لاونج میں شوکت ٹی وی پرکوئی سیاسی تبصرہ سن رہے تھے، بہو کچن میں تھیں۔ڈائننگ ٹیبل پر، پوتا اپنے اسکول کا کوئی پراجکٹ بنا رہا تھا۔ سامان بکھرا ہوا تھا ورنہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ با ہر بیٹھ کر کھانا کھاؤں۔لیکن کمرے میں بیٹھ کر ہی کھالیا۔کھا نا کھانے کو جی تو نہیں چاہ رہا تھا مگر دوا کھانی تھی اس لئے کچھ تو کھانا ہی پڑا۔ سوچا ٹرے اٹھا کر کچن میں رکھ دوں، کمرے سے نکلی تو پائیدان میں پاؤں الجھ گیا اور ٹرے گر گئی۔ شکر ہے کہ میں نہیں گری ورنہ کوئی ہڈی ٹوٹ جاتی تو اور لینے کے دینے پڑ جاتے۔ ہنگامہ سا ہوگیا، شوکت گھبراکر اٹھا ”اماں، کیوں آپ کام کرتی ہیں، کوئی ٹر ے لے جاتا۔“، بہو دوڑی آئی، سارہ کو سخت ڈانٹ پڑی۔ میں چور سی بن کر کمرے میں چلی گئی۔
مجھے رات کو نیند ویسے بھی کم آتی ہے، آج تو نیند کی گولی کھانے کے بعد بھی غائب تھی۔ بس وحشت سی ہوئی تو باہر لاونج میں نکل آئی، سب سونے چلے گئے تھے۔ صرف سارہ کے کمرے میں لائٹ جل رہی تھی۔ سوچا بے چاری بچی کو میری وجہ سے ڈانٹ پڑ گئی،جاکر اس سے بات کروں، ڈرتے ڈرتے اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر گئی۔ حسب معمول وہ اپنے کمپیوٹرکے سامنے بیٹھی تھی۔
”کیا بات ہے دادی! کچھ چاہئے“ وہ بہت ملائمت سے بولی۔میں سو چ رہی تھی کہ اس کا منہ پھولا ہوا ہوگایا وہ سمجھے گی کہ میں اس کی ٹوہ لے رہی ہوں،کہیں چڑ ِنہ جائے۔اس کے لہجے نے میری ہمت بڑھائی، میں اس کے پلنگ پر بیٹھ گئی۔کمرے کا جائزہ لیاصاف ستھرا،سجا بنا کمرہ، کبھی میں نے غور سے دیکھا ہی نہیں تھا۔
”سارہ بیٹی!سوری تمھیں میری وجہ سے ڈانٹ پڑ گئی۔“ میں نے کہا۔
سارہ بولی ” دادی! آپ سوری کیوں کہہ رہی ہیں، میری غلطی تھی“
میں مزید حیران ہوئی یہ سارہ ہے جس کی کھڑم کھڑم قسم کا انگریزی بولنے کا لہجہ مجھے بہت گستاخ لگتا تھا۔ میری ہمت بندھی، میں نے پوچھا
”کیا کرتی رہتی ہوکمپیوٹر پر ہر وقت“ میں نے پوچھا۔
ا س نے بہت تمیز سے جواب دیا ”اس وقت تو میں فیس بک پر ہوں۔ کناڈا والی سیمیں پھوپی کی بیٹی امبرین کا میسج پڑھ رہی ہوں۔روزاس
سے بات ہوتی ہے“ ۔ روز؟ میری بیٹی تو مجھ سے مہینے میں بس ایک آدھ بار فون پر بات کرلیتی ہے،میں نے سوچا۔
سارہ اپنی کرسی چھوڑ کرکھڑی ہوگئی،مجھے اس پر بٹھا دیا”آئیے دیکھیئے، اتنے سارے فوٹو ہیں۔ امبرین کی برتھ ڈے تھی۔ گھر پر بڑی سی پارٹی تھی، رکئے میں دبئی والی پھوپی نسرین کے بیٹے کی تصویریں بھی دکھاتی ہوں۔“
” بیٹی میرا پڑھنے کا چشمہ نہیں ہے“ میں نے کہا۔
”ویٹ اے منٹ ! دادی کہاں ہوگا آپ کا چشمہ، سائیڈٹیبل پر ہے نا، دواؤ ں کے ڈبے کے پاس نا۔“
وہ دوڑ کر میرا چشمہ لے بھی آئی۔ وہ ایک ایک کرکے تصاویر دکھا رہی تھی، سب کے نام بتاتی جارہی تھی، یہ دیکھئے آپ کی پاکستان والی کزن کے بیٹی اور بہو، وہ بھی ٹورانٹو میں رہتے ہیں، یہ ان کے فیملی فرینڈ ہیں۔“
وقت کا پتہ ہی نہیں چلا، میں کسی اور ہی دنیا میں گھوم رہی تھی، سارے بچھڑے لوگ یوں روبرو تھے۔
”اوہ! آپ کا تواب سونے کا وقت ہوگیا“ سارہ نے گھڑی کی طرف دیکھ کر کہا۔
اسے کیا معلوم تھا کہ اپنے کمرے میں جانے کا مطلب یہ نہیں کہ میں سو جاتی ہوں۔میں کمرے سے نکلنے لگی تو اچانک مڑ کر میں نے سارہ کی پیشانی پر پیار کیاجو اس سے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ پوتے شارق کو تواکثر پیار سے لپٹا لیتی تھی لیکن نہ جانے کیوں سارہ سے کچھ جھجک سی تھی۔سارہ نے میرے گلے میں باہیں ڈال دیں۔ ارے! یہ سارہ تھی، جس کو میں اکھڑ اور اکیل کھری سمجھتی تھی۔ایک عجیب سی خوشی کی لہر میرے جسم میں دوڑ گئی، میں نے اسکو لپٹا لیا۔ اس طرح والہانہ انداز میں شاید میں نے کبھی شاروق کو بھی گلے نہیں لگایا تھا۔
۔۔۔۔
اب ہفتے میں کم از کم ایک بار سارہ کے ساتھ میں فیس بکُ میں اپنے رشتہ داروں اور ان کے بچوں کی تصویریں اور پیغام دیکھتی ہوں، وہ میرے لئے کہاں کہاں سے ڈھونڈ کر رشتہ داروں کا پتہ چلاتی ہے، میرے پیغامات لکھتی ہے۔ میرے پرانے البموں سے نکلا کر ساری تصویریں نہ جانے کس طرح کمپیوٹر پر سجا دیں،سب رشتے داروں کی بھیج دیں۔ سارہ کو اب شعر و شاعری کا شوق ہوگیا ہے،مجھ سے پوچھ کر انگریزی رسم الخط میں اردوشعر اپنے دوستوں کو بھیجتی ہے، وہ حیران ہوتی ہے کہ اتنے شعر مجھے کیسے یاد ہیں۔ اسے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ مجھے انگریزی بھی آتی ہے۔ وہ میرے بچپن کی باتیں کھوج کھوج کر پوچھتی ہے،اپنے کالج کے قصے مجھے سناتی ہے۔
کاش! میں پہلے ہی سارہ کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر چلی گئی ہوتی۔ میرے کمرے کی کھڑکی سے صرف مٹھی بھر آسمان ہی نظرآتا ہے تو کیا ہوا۔ اب سارہ نے میرے لیے ایک اورکھڑکی کھول دی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
اُردُو کے شرارتی حروف...
By We Dig it - Jul 09, 2019
شرارتی حروف: وہ حروف ہوتے ہیں جو اپنے سے پہلے آنے والے حرف سے دوستی کر کےاُسے اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں مگر اپنے بعد آنے والے حرف سے دوستی نہیں کرتے اور ناں اُسے اپنےساتھ ملاتے ہیں بلکہ اُس سے فاصلہ کر لیتے ہیں اور اُسےاکیلا چھوڑ دیتے ہیں.
(خود غرضی کی حد نہیں ویسے ۔۔۔؟)





مثالیں ملاحظہ کریں
ا... بات، کام، نام، عام، شام، انجام، آرام۔۔۔
د... بدن، دُودھ، دیوار، دکھ، دروازہ، خدا، خدمت۔۔۔۔
ڈ... ڈبڈبانا، رنڈوا، ڈگری، ڈگمگانا، ڈُوبنا، ڈور، ڈوری۔۔۔۔۔
ذ... نذر، ذرّہ نواز، ذی آبرُو، ذرا ذرا، ذرّات۔۔۔
ر... برس، طرح، فرار، رات، راج، پریت، راکھ۔۔۔۔
ڑ... ٹیڑھا، ریوڑ، ریوڑی، ریڑھا،۔۔۔(یہ حرف کسی لفظ کے شروع میں نہیں آتا۔)
ز... زمزم، معجزہ، زارینہ، زاغ، زانو، زرداری، زیادہ۔۔۔
ژ... ٹیلی ویژن،ژالہ باری، ژرف نگاہ
و... تول، پول، نول، ہیولہ، علوم،نیولا۔۔۔
کچھ لوگ بھی ایسے ہی "سمارٹ" بنتے ہیں ناں...!
کچھ نہ کچھ لینے کے لیے دوسروں کے ساتھ مل جانا...
پر دوجیاں نوں کجھ دین لگیاں انہاں دی جان نکلدی اے:):):):):)
 

جاسمن

لائبریرین
یکساں نظام تعلیم براستہ اردوذریعہ تعلیم
یکساں قومی نصاب تعلیم کی آڑ میں قومی زبان کے خلاف گھناؤنی سازش کا تحقیقی جائزہ
)قلم کاروان اسلام آباد کی آن لائن ادبی نشست مورخہ 21جولائی2020 میں پیش کیاگیا(
تحریروتحقیق:محمداسلم الوری
(سرپرست اعلی تحریک نفاذاردو)
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں بار بار عوام سے اشرافیہ کے مسلط کردہ موجودہ آنگریزی میڈیم استحصالی طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کرکے قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بناکر پورے ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس مقصد کے لئے وفاقی وزیر تعلیم کی سربراہی میں موجودہ طبقاتی نظام کے محافظ و دلدارہ اشرافیہ کے پسندیدہ نمائندوں کی اکثریت پر مشتمل ایک قومی نصاب کونسل اور تکنیکی ماہرین کی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔یکساں نصاب کے مجوزہ مسودہ کو حتمی شکل د ینے کے لئے کونسل کے نامزد 29 ارکان پر مشتمل ارکان کا مشاورتی اجلاس 16جولائی کو اسلام آباد میں منعقد ہوا ہے۔قومی نصاب کونسل کے غورو خوض کے لئے قومی زبان کی بجائے انگریزی زبان میں جاری کردہ یا Concept Paper یا قرطاس کار کے مطالعہ سے وفاقی وزیر تعلیم کی انگریزی نوازی اور قومی زبان مخالف عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں۔قرطاس کار اور کچی سے دسویں جماعت تک مختلف مضامین کی تدریس کے لئے ذریعہ تعلیم سے متعلق قومی نصاب کونسل کی سفارشات پر مشتمل مجوزہ فریم ورک کے سرسری مطالعہ سے درج ذیل حقائق کا پتا چلا ہے:
1۔اب تک اسٹیک ہولڈر ز کے ساتھ کی جانے والی مشاورت میں کسی بھی مرحلہ پر اردو میڈیم میں بچوں کو تعلیم دلوانے کے خواہشمند والدین کی اکثریت کے نمائندوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
2۔ مشاورتی عمل میں اساتذہ کی پیشہ وارانہ تنظیموں اور طلبہ کی نمائندہ تنظیموں کو دعوت نہیں دی گئی۔
3۔ مشاورت کے ہر مرحلہ پر اسٹیک ہولڈر ز کو اس بات سے بالکل لاعلم رکھا گیا ہے کہ دستور پاکستان کے مطابق قومی زبان کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنا ایک آئینی تقاضا ہے جس کی مسلسل خلاف ورزی آئین شکنی کے مترادف ہے۔
4۔ اسٹیک ہولڈر ز کو اس بات سے بھی بے خبر رکھا گیا ہے کہ عدالت عظمی 8 ستمبر 2015 ء کو قومی زبان کو دستور پاکستان کے مطابق پوری قوت سے بلا تاخیر سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا حکم دے چکی ہے۔
5۔ وفاقی وزیر تعلیم کے ماتحت قومی نصاب کونسل نے اس حقیقت سے بھی چشم پوشی کی ہے کہ سابق حکومت کے دور میں وزیراعظم پاکستان نے نفاذ قومی زبان کے لئے دس نکاتی حکمنامہ جاری کیا تھا اور عدالت عظمی کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے اور مقابلے کے تمام امتحانات اردو میں لئے جانے سے متعلق ماہرین تعلیم اور مقتدر ہ قومی زبان کی سفارشات پر من و عن عمل کیا جائے گا۔
6۔ وفاقی وزیرتعلیم وزیراعظم کے وعدوں اور آئین پاکستان کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے مشاورتی عمل کے دوران اسٹیک ہولڈر ز اور انگریزی میڈیم تعلیمی صنعت کے اجارہ داروں کو اپنے عمل اور گفت گو سے یہ تاثر دیتے رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کبھی بھی قومی زبان اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ نہیں کرے گی اور نا ہی مقابلے کے امتحانات کے لئے اردو کو ذریعہ اظہار بنانے کی اجازت دی جائے گی۔
7۔ قومی نصاب کونسل کے مشاورتی اجلاس کے لئے انگریزی میں جاری کردہ قرطاس کار (Concept Paper) سے پتا چلتا ہے کہ ؛
1۔ اردو کو صرف کچی سے تیسری جماعت تک کے طلبا کو معلومات عامہ اور اعداد شناسی اور چوتھی پانچویں جماعتوں میں صرف اردو، اسلامیات اور اخلاقیات کے مضامین کی تدریس کے لئے ذریعہ تعلیم بنایا جائے گا
2۔ ریاضی، سائنس، جغرافیہ، معاشرتی علوم اور کمپیوٹر سمیت دیگر ٹیکنیکل مضامین کے لئے ابتدا ہی سے صرف انگریزی کو پورے ملک میں ذریعہ تعلیم کے طور پر نافذ کیا جائے گا۔
3۔ کچی سے تیسری جماعت کے بچوں کے لئے ذخیرہ الفاظ اور سائنسی اصطلاحات کو بھی انگریزی نصابی کتب میں سنو کر پڑھایا جائے گا
4۔ انگریزی کو ابتدا ہی سے ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھانے کی سفارش کی گئی ہے
تبصرہ:
1۔ آئین پاکستان اور عدالت عظمی کے فیصلہ کی روشنی میں حکومت اور اس کے ماتحت تمام ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ دستور پاکستان کی روح کے مطابق قومی زبان اردو کو بلا تاخیر فوری طور پر اور پوری قوت کے ساتھ سرکای زبان کے طور پر نافذ کریں۔
2۔ عدالت عظمی کے فیصلہ کی روشنی میں یہ بات بھی طے ہوچکی ہے کہ قومی زبان اردو کو پورے ملک میں ذریعہ تعلیم کے طور پر نافذ کیا جائے گا اس لئے قومی نصاب کونسل کی طرف سے ذریعہ تعلیم کے مسئلہ کو زیر غور لانا، اس پر تجاویز و آرا طلب کرنا اور پھر اردو کی جگہ انگریزی کو ابتدا ہی سے لازمی مضمون اور ریاضی سائنس جغرافیہ کمپیوٹر اور مطالعہ پاکستان کے مضامین کی تدریس کے لئے ذریعہ تعلیم تجویز کرانا آئین پاکستان کی خلاف ورزی اور عدالت عظمی کے فیصلوں کی تو ہین اور وزیر اعظم عمران خاں کے وزن سے انحراف کے مترادف ہے
3۔ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے سے متعلق نصاب کونسل کی سفارشات موجودہ عوام دشمن طبقاتی نظام تعلیم اور اس سے جڑے اشرافیہ اور تعلیمی مافیا ز کے کاروباری مفادات اور نظریاتی اغرا ض کو تحفظ دینے کی ایک پہلے سے طے شدہ منصوبہ کی طرف ایک قدم ہے۔
4۔ پہلی جماعت سے انگریزی لازمی کا تجربہ پہلے ہی بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔اس کے نتیجے میں سرکاری اسکولوں میں ترک تعلیم کی شرح میں اضافہ ہوا، بچوں میں خود کشی کا رجحان فروغ پایا، ان کی جسمانی صحت متاثر ہوئی اور نفسیاتی دباو اور ناکامی کے خوف سے طلبا و اساتذہ کی کارکردگی بری طرح ہے متاثر ہوئی ہے۔ اب ایک بار پھر اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے سے انکار اور انگریزی کو جبری مسلط کرنا کسی طرح بھی ایک دانشمندانہ اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا۔
انگریزی ذریعہ تعلیم کی سفارش کرتے ہوئے پاکستان کے درج ذیل زمینی حقائق کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے کہ:

1۔ پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ملک ہے، اس کی قومی و سرکاری زبان اردو ہے جو دنیا بھر خاص طور پر سارک ممالک، وسط ایشیاء اور یوروپی ممالک میں تارکین وطن کے مابین باہمی رابطہ کی دوسری بڑی زبان ہے۔
2۔ریاست پاکستان اور اس کے کروڑوں عوام کے درمیان اردو ہی ابلاغ اور ترسیل معلومات کا واحد اور موثر ترین ذریعہ ہے۔
3۔ اردو زبان کو دستور پاکستان کے مطابق سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کی تمام تیاریاں کئی برس پہلے ہی مکمل کی جاچکی ہیں جب کہ اردو کو ذریعہ تعلیم کے طور پر نافذ کرنے اور اعلی ملازمتوں کے لئے مقابلے کے امتحانات اردو میں لئے جانے کی طرف پیشقدمی بھی تیزی سے جاری ہے۔
4۔ پاکستان میں اب بھی 60 فی صد سے زائد آبادی دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے، 45 فی صد عوام خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں ، اس وقت بھی اڑھائی کروڑ بچے اسکول کی سہولت سے محروم اور 90 فی صد عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔
5۔ سندھ کے پی ، بلوچستان ، گلگت بلتستان اور پنجاب کے دورافتادہ علاقوں میں تعلیمی سہولیات نایاب، اساتذہ ندارد اور تعلیمی مواقع تک رسائی ناپید ہے۔
6۔ سرکاری و نجی شعبہ میں قائم اسکولوں میں تدریسی معیار اور اساتذہ کی انگریزی سمجھنے، بولنے اور لکھنے کی استعداد انتہائی کم ہے۔
7۔ سرکاری اسکولوں میں ریاضی و سائنس کے اساتذہ اور خاص طور پر انگریزی میں سائنسی تصورات کو درست طور پر سمجھنے بیان کرنے اور طلبا کو ذہن نشین کرانے کی صلاحیت و استعداد کے حامل اساتذہ عنقا ہیں۔
8۔ انگریزی میں ریاضی و سائنس کی تدریس ضروری تدریسی عملہ اور ٹیوشن کے بغیر ممکن نہیں۔دوسری طرف مہنگائی کی چکی میں پستے عوام مہنگی نصابی کتابوں، اسٹیشنری اور بھاری ماہانہ ٹیوشن کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ۔
9۔ پہلی جماعت سے انگریزی ذریعہ تعلیم بنانے سے قومی زبان کو سرکاری زبان بنانے، اسے مقابلے کے امتحانات کے لئے ذریعہ اظہار بنانے، جامعات تک اردو کو علم و تحقیق کی زبان بنانے کے لئے کی جانے والے ممتاز ماہرین کی تعلیمی و تحقیقی کاوشیں رائیگاں چلی جائیں گی، علم و ادب کے گرانقدر ذخائر ردی اور اگلی نسل کے لئے ان سے استفادہ ناممکن ہوجائے گا
10۔ انگریزی ذریعہ تعلیم سے بائیس ضخیم جلدوں میں تیار کی گئی لغات، سینکڑوں کشاف، ہزاروں تحقیقی و سائنسی نگارشات ، اردو میں شائع ہونے والے تحقیقی و سائنسی مجلات اخبارات سب بیکار اور بے مصرف قرار پائیں گے۔ کیا ہم بطور قوم یہ بھاری قیمت ادا کرسکتے ہیں۔
11۔ مختلف وفاقی اکائیوں میں صوبائی اختیارات کے تحت قومی زبان کی بجائے علاقائی یا مقامی زبانوں میں تدریس و تعلیم سے سماجی انتشار اور باہمی منافرت جنم لے گی جو قومی وحدت اور ملکی سلامتی کے لئے انتہائی خطرناک ہو گا۔
مذکورہ بالا زمینی حقائق کی روشنی میں انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی تجویز سرکاری سطح پر نفاذ اردو کی اب تک کی کوششوں کو سبوتاز کرنے، قومی زبان کو بے توقیر کرنے ،تعلیم کے نام پر انگریزی میڈیم تعلیمی اداروں کے ذریعے قومی زبان و اقدار اور ملی تہذیب و ثقافت سے عاری غلام نسلوں کو پروان چڑھانے کی ایک اسکیم معلوم ہوتی ہے۔ ذریعہ تعلیم سے متعلق قومی نصاب کونسل کی سفارشات پر مبنی مجوزہ لسانی فریم ورک آئین و قانون کی سنگین خلاف ورزی ، وزیراعظم کے وعدوں سے انحراف ہے۔ اس مذموم منصوبہ سے ملک میں ناخواندگی، ترک تعلیم کی شرح ، بے روزگاری، بدامنی اور طبقاتی منافرت میں اضافہ ہوگا جس کے نتیجے میں قومی اتحاد اور ملکی سالمیت کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔قومی زبان و اقدار کے تحفظ و فروغ کی بجائے قومی وسائل سے اشرافیہ کے قائم کردہ غیر ملکی تعلیمی اداروں کی سرپرستی اور بے حیائی اور دین بیزار مغربی ثقافت کو فروغ دینا آئین و قانون سے سنگین غداری کے مترادف ہے جس کی ہر صورت ہر سطح پر شدید مزاحمت کی جانی چاہئیے۔انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کے مجوزہ فریم ورک پر ڈاکٹر عطاالرحمان ، ڈاکٹر خالد رحمان، مفتی منیب الرحمان، مولانازاہدالراشدی، مولانا حنیف جالندھری، تنظیم اساتذہ ، اور اساتذہ و طلبا کی نمائندہ تنظیمیں پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان تجاویز کو مسترد کر چکی ہیں۔
قومی زبان سے محبت رکھنے اور اپنی نئی نسل کے روشن مستقبل کے حوالے سے فکر مند والدین اور ماہرین کا فرض ہے کہ وہ بیرونی ایجنٹوں کے ایما پر قومی زبان اردو کی بجائے انگریزی کے ناجائز تسلط کو برقرار رکھنے کی ان منصوبہ بند کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے میدان عمل میں آئیں اور قومی زبان و اقدار کے تحفظ کے لئے اپنی آواز بلند کریں۔
 
Top