حقیقی غلامی : زبان دانی کا رجحان

جاسم محمد

محفلین
جہاں تک میں نے پڑھا ہے محمد بن قاسم، حجاج بن یوسف کا بھتیجا تھا جو عرب سے آیا تھا نہ کہ چین سے
ارے جانے دو، ناروے سے آیا تھا!
392-B2-C0-A-4393-4-E72-8899-D5-C3-C9-A6-BB78.jpg

محمد بن قاسم کے بارہ میں مطالعہ پاکستان میں لکھا ہے کہ ان کی وجہ سے پہلی بار اسلام موجودہ پاکستان میں آیا۔ یوں کئی صدیوں بعد یہاں ہندوؤں سے مختلف “مسلم قوم” (دو قومی نظریہ) نے جنم لیا۔ جس کی بنیاد پر آج بنگال الگ ہونے کے باوجود پاکستان کا وجود ہے۔
اس لحاظ سے محمد بن قاسم کو مطالعہ پاکستان میں پہلا پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

محمد بن قاسم کون تھا؟ خالصتا عرب تھا۔ اس لئے قیامت تک پاکستانی عربوں سے مرعوب رہیں گے۔ جیسے امریکی آج بھی اپنی جڑ “یورپی کولمبس” کو نہیں بھول سکتے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

عثمان ندیم

محفلین
392-B2-C0-A-4393-4-E72-8899-D5-C3-C9-A6-BB78.jpg

محمد بن قاسم کے بارہ میں مطالعہ پاکستان میں لکھا ہے کہ ان کی وجہ سے پہلی بار اسلام موجودہ پاکستان میں آیا۔ یوں کئی صدیوں بعد یہاں ہندوؤں سے مختلف “مسلم قوم” (دو قومی نظریہ) نے جنم لیا۔ جس کی بنیاد پر آج بنگال الگ ہونے کے باوجود پاکستان کا وجود ہے۔
اس لحاظ سے محمد بن قاسم کو مطالعہ پاکستان میں پہلا پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
جیسے امریکی زیک بڑے فخر سے کولمبس کو تاریخ کا پہلا امریکی مانتے ہیں کیونکہ اس نے امریکہ “دریافت” کیا تھا۔ حالانکہ کولمبس سے پہلے بھی امریکہ میں مختلف اقوام آباد تھیں۔ البتہ آج امریکہ بہادر کا وجود پہلے امریکی کولمبس کی مرہون منت ہے۔
محمد بن قاسم کون تھا؟ خالصتا عرب تھا۔ اس لئے قیامت تک پاکستانی عربوں سے مرعوب رہیں گے۔ جیسے امریکی آج بھی اپنی جڑ “یورپی کولمبس” کو نہیں بھول سکتے۔
محمد بن قاسم ضرور پہلا پاکستانی ہے لیکن چین سے نہیں آیا تھا۔
 

زیک

مسافر
عنوان سے شدید اختلاف ہے۔ حقیقی غلامی مضمون میں بیان صورتحال سے انتہائی بدتر ہے۔

رہی بات زبان اور منصب کی تو یہ ایک مسئلہ ہے لیکن جب معاشرے میں طبقات کی ایسی تقسیم موجود ہے تو اس کا یہی نتیجہ نکلے گا۔
 

ابو ہاشم

محفلین
ہمارے معاشرے میں اک عجب روایت پڑ گئی ہے۔ خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں یہ چیز زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس معاشرے میں انگریزی زبان بولنے والے شخص کو زیادہ پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے۔
پنجاب کے کسی بھی علاقے کی بات کیجیے ادھر زیادہ تر کم پڑھے لکھے لوگ انگریزی زبان بولنے والے کو یوں سمجھتے ہیں گویا کہ علم کا اک سمندر ہو۔ اردو بولنے والے کو علم کی اک نہر سمجھا جاتا ہے جبکہ پنجابی بولنے والے کو اک گندا نالا تصور کیا جاتا ہے۔
کچھ زیادہ مبالغہ نہیں ہو گیا؟ خصوصاً دیہاتی علاقوں کے بارے میں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کچھ زیادہ مبالغہ نہیں ہو گیا؟ خصوصاً دیہاتی علاقوں کے بارے میں۔
دیہی علاقوں میں واقعی صورت حال اتنی خراب نہیں ہے۔
یہ مسئلہ زیادہ تر شہری آبادیوں میں ہے۔ جہاں کے برگر بچوں کو اپنی مادری زبان پر ابھی عبور نہیں ہوتا تو انگریزی بولنا شروع کر دیتے ہیں۔
اسکی سب سے واضح مثال بلاول بھٹو زرداری اور ان کی بہنوں کا پاکستان میں گزرا بچپن ہے۔ یہ بچپن سے ہی گھر میں مادری زبان کی بجائے انگریزی بولتے تھے۔
 

ابو ہاشم

محفلین
میرا تعلق بھی دیہاتی علاقے سے ہے ( وادئ سون ضلع خوشاب ) وہاں میرے مشاہدے میں ایسی صورتحال ایک بار بھی پیش نہیں آئی نہ ہی کبھی کسی سے اس طرح کی کوئی بات سنی ہے۔
 

عثمان ندیم

محفلین
میرا تعلق بھی دیہاتی علاقے سے ہے ( وادئ سون ضلع خوشاب ) وہاں میرے مشاہدے میں ایسی صورتحال ایک بار بھی پیش نہیں آئی نہ ہی کبھی کسی سے اس طرح کی کوئی بات سنی ہے۔
کیا آپ کے خیال میں ان پڑھ اور کم عقل لوگ انگریزی زبان سے مرعوب نہیں ہوتے؟؟
 
ہمارے معاشرے میں اک عجب روایت پڑ گئی ہے۔ خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں یہ چیز زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس معاشرے میں انگریزی زبان بولنے والے شخص کو زیادہ پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ زبان تو گفتگو کا ایک ذریعہ ہے۔ وہ کوئی بھی زبان ہو سکتی ہے مثلاً اردو، پنجابی، فارسی، پشتو، سرائیکی، انگریزی یا کوئی بھی اور زبان جو ایک علاقے میں مروج ہو۔

پنجاب کے کسی بھی علاقے کی بات کیجیے ادھر زیادہ تر کم پڑھے لکھے لوگ انگریزی زبان بولنے والے کو یوں سمجھتے ہیں گویا کہ علم کا اک سمندر ہو۔ اردو بولنے والے کو علم کی اک نہر سمجھا جاتا ہے جبکہ پنجابی بولنے والے کو اک گندا نالا تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ پنجابی بولنے سے ہچکچاتے ہیں اور کبھی کبھار تو جب محفل میں بیٹھے ہوں تو پنجابی زبان کو اپنی عزت پر حرف سمجھتے ہیں۔ اس لیے دیہاتی اپنے بچوں کی پرورش میں اس مشکل کا سامنا کرتے ہیں کہ خود ان کو اردو بھی اچھے سے نہیں آتی اور بچوں کو انگریزی سکھاتے سکھاتے اپنا مذاق بنوا لیتے ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ پنجابی بوڑھے لوگوں کی زبان ہے، اردو جوان لوگوں کی جبکہ انگریزی بچوں کی زبان ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہی بچے بڑھاپے کو پہنچ جائیں گے سوچیے کہ تب پنجابی بولنے والے کتنے لوگ رہ جائیں گے؟ کیا ہمارا پنجاب پنجابی زبان سے خالی ہو جائے گا؟ کیا عظیم پنجابی شعرا بابا بلھے شاہ، وارث شاہ وغیرہ کی شاعری پڑھنے اور سمجھنے والا کوئی نہیں ہو گا؟ کیا لوگ پنجابی کے عظیم قصوں ہیر رانجھا اور مرزا صاحباں سے نا آشنا ہوں گے؟ جبکہ یہ سب پنجابی ادب ہماری شان ہے۔

دراصل ہم آج بھی آزاد نہیں ہوئے 1947ء میں ہم نے ظاہری آزادی تو حاصل کر لی مگر باطنی طور پر ہم آج بھی غلام ہیں۔ انگریزوں نے ہمارے اذہان کا رخ بدل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس قوم میں کوئی لیڈر نہیں ہے۔ ہم بے لگام ہیں۔ ہمارے تنزل کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ غلامی ہے جو کہ میرے نزدیک حقیقی اور باطنی غلامی ہے۔

انگلش بین الاقوامی رابطہ کی زبان ہے اس کو بولنا یا سمجھنا ذہنی غلامی کیسی؟
 

جاسم محمد

محفلین
انگلش بین الاقوامی رابطہ کی زبان ہے اس کو بولنا یا سمجھنا ذہنی غلامی کیسی؟
میرے خیال میں ان کا مطلب یہ ہے کہ جہاں انگریزی بولے بغیر گزارہ نہیں جیسا کہ یورپ و امریکہ وہاں تو ٹھیک ہے۔
البتہ پاکستان جہاں کئی مقامی زبانیں پہلے سے موجود ہیں۔ اس کے باوجود یہاں انگریزی بولنا مغرب سے مرعوب ہونے کی نشانی ہے۔
 

عثمان ندیم

محفلین
انگلش بین الاقوامی رابطہ کی زبان ہے اس کو بولنا یا سمجھنا ذہنی غلامی کیسی؟
آپ سمجھے نہیں۔ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ اسے سمجھنا بھی چاہیے اور بولنا بھی چاہیے۔ مگر ہمارے معاشرے میں علم کا پیمانہ زبان کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے۔ ہم انگریزی زبان بولیں مگر علاقائی زبانوں مثلاً پنجابی بولنے والے کو کم تر نہ سمجھیں۔ ہمیں اپنی ثقافت اور زبان کو بھی ترقی دینا ہے۔
 
آپ سمجھے نہیں۔ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ اسے سمجھنا بھی چاہیے اور بولنا بھی چاہیے۔ مگر ہمارے معاشرے میں علم کا پیمانہ زبان کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے۔ ہم انگریزی زبان بولیں مگر علاقائی زبانوں مثلاً پنجابی بولنے والے کو کم تر نہ سمجھیں۔ ہمیں اپنی ثقافت اور زبان کو بھی ترقی دینا ہے۔[/QUOTE

احساس کمتری آپ کا اپنا ہو سکتا ہے ہم نے تو دیہات میں ایسا کبھی محسوس نہیں کیا، بلکہ ایک دو بار پنچائیت میں کچھ بزرگوں کو انگلش کے لفظ پنجابی زبان میں فٹ کرتے دیکھا
مثال کے طور پر
پبلک دی اے رائے ہے کہ اس الیکشن تے لوکل کینڈیڈیٹ نوں سپورٹ کیتا جاوے
 
احساس کمتری آپ کا اپنا ہو سکتا ہے ہم نے تو دیہات میں ایسا کبھی محسوس نہیں کیا، بلکہ ایک دو بار پنچائیت میں کچھ بزرگوں کو انگلش کے لفظ پنجابی زبان میں کمال مہارت سے استعمال کرتے دیکھا
مثال کے طور پر

پبلک دی اے رائے ہے کہ اس الیکشن تے لوکل کینڈیڈیٹ نوں سپورٹ کیتا جاوے
 

عثمان ندیم

محفلین
احساس کمتری آپ کا اپنا ہو سکتا ہے ہم نے تو دیہات میں ایسا کبھی محسوس نہیں کیا، بلکہ ایک دو بار پنچائیت میں کچھ بزرگوں کو انگلش کے لفظ پنجابی زبان میں کمال مہارت سے استعمال کرتے دیکھا
مثال کے طور پر

پبلک دی اے رائے ہے کہ اس الیکشن تے لوکل کینڈیڈیٹ نوں سپورٹ کیتا جاوے
آپ شاید مجھے غلط ثابت کرنا چاہ رہے ہیں مگر میرا نقطہ نظر آپ سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ میری بات کو آپ کسی اور زاویے سے دیکھتے نظر آتے ہیں۔
 
مرعوبیت موجود ہے، مگر شاید گاؤں دیہات میں اتنی شدت نہیں، جتنی آپ بیان کر رہے ہیں۔
بلکہ میرے مشاہدہ میں یہ مرعوبیت گاؤں دیہات کی نسبت شہر میں زیادہ ہے۔ گاؤں دیہات میں اب بھی مقامی زبانوں کا استعمال اور عزت موجود ہے۔
 
ہمارے ایک سابق ائرفورس آفیسر ٹیچر تھے۔ وہ انگریزی یا اردو دونوں میں سے کسی ایک زبان میں لیکچر شروع کرتے اور اختتام پنجابی پر ہوتا۔
کہا کرتے تھے کہ مجھے یاد دلا دیا کرو۔ مگر ہم کہتے تھے کہ سر آپ کے پنجابی لیکچر کا اپنا مزا ہے۔ :)
 
Top