گاندھی گارڈن ایک طنزیہ:از: محمد خلیل الرحمٰن

اف فوہ! فار ایور مس یو بھائی کس ہستی کے تبصرے کو دوبارہ پیش کردیا آپ نے۔ جی ہاں ہم ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے نایاب بھائی مرحوم اور تلمیذ بھائی مرحوم کو۔ہم یہ کہانی اپنے ان تمام دوستوں کے نام کرتے ہیں جو محفل سے عارضی طور پر روٹھے بیٹھے ہیں

نایاب بھائی مرحوم، تلمیذ بھائی مرحوم تو ایسے روٹھے کہ اب آنے کے نہیں۔

دیگر جگری دوست کچھ روٹھ کر محفل سے دور بیٹھے ہیں، کچھ آتے ہیں لیکن بہت کم۔ ہمیں اللہ سے قوی امید ہے کہ ایک دن یہ سب روٹھے محفل کی رونق بڑھانے کے لیے آن موجود ہوں گے۔

شمشاد بھائی، قیصرانی بھائی، جیہ بٹیا، عائشہ عزیز بٹیا، راشد اشرف بھائی، رانا بھائی، محمود احمد غزنوی بھائی، پردیسی بھائی، محمد بلال اعظم بھائی، محسن وقار علی بھائی، سید شہزاد ناصر بھائی، محمد علم اللہ بھائی، نوید ظفر کیانی بھائی
 
گاندھی گارڈن
از محمد خلیل الر حمٰن
جارج آرول کی روح سے معذرت کے ساتھ
(اردو محفل پر اپنے دو سال مکمل ہونے پر محفلین کے لیے ایک تحفہ)


کلاچی کے ساحل پر لنگر انداز جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے یکبارگی وہ رُکا، پلٹ کر مفتوح شہر کی جانب دیکھا اور پھر ایک بار بوجھل قدموں سے اوپر کی جانب چڑھنے لگا۔ عرشے پر پہنچ کر اس سے رہا نہ گیا اور وہ ایک بار پھر شہر کی طرف منہ کیے کھڑا ہوگیا ۔ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی جانب اُٹھادیئے اور چیح کر بولا۔

الوداع اے شہرِ بے مثال!
کاش۔ اے کاش کہ میں تجھے تیری عظمت کے دنوں میں دیکھ سکتا۔

آج وہ اس شہرِ بے مثال سے رخصت ہورہاتھا لیکن چشمِ تصور سے اس کی عظمت کے دنوں کو دیکھ رہا تھا۔​

۱۔خواب​

عروس البلاد کراچی کے عین قلب میں واقع چڑیا گھر جو کبھی گاندھی گارڈن کہلاتا تھا، آج بھی شہر کی سستی ترین اور خوبصورت ترین تفریح گاہ کے طور پرموجود ہے اور روزآنہ لاکھوں بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں کی تفریح ِ طبع کا باعث بنتا ہے، شہر کے قدیم اور خوبصورت باغوں میں سے ایک ہے ۔ یہ باغ ۔۔۔ ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس میں دسیوں اقسام کے جانور، پرندے نیز درندے وغیرہ موجود ہیں۔ اس باغ کی داغ بیل اب سے کوئی ڈیڑھ دو سو برس قبل انگریزوں نے ڈالی جب وہ اِس شہرِ بے مثال کو خوبصورت عمارتوں، چمکتی ہوئی سڑکوں اور ہرے بھرے باغات سے سجانے لگے۔

ہندوستان بھر سے مسلمان اور ہندو رہنماؤں نے تحریکِ آزادی شروع کی اور آخرِ کار انگریزوں کو ملک چھوڑکر جانے پر مجبور کردیا۔ انگریز سرکار نے ہندوستانیوں کے بے انتہاء دباؤ کے تحت بالآخر انھیں آزادی کی نوید سنادی اور خود بوریا بستر سمیٹ کر جہاںسارے ہندوستان کو خالی کرگئے وہیں اِس شہرِ بے مثال سے بھی اپنے انمٹ نقوش چھوڑ کر چلتے بنے۔ گاندھی گارڈن انھی انمٹ نقوش میں سے ایک نقش ہےجس کا نام بعد میں پاکستان سرکار نے بدل کر چڑیا گھر رکھ دیا۔ جانوروں کے لوہے کے بنے پنجروں کو از سرِ نو مضبوط تاروں اور لوہے کے جال کے ساتھ مضبوط تر کردیا گیا۔ اِن کے لوہے کے دروازوں پر نئے اور نسبتاً بڑے تالے نصب کردئیے گئے تاکہ چڑیا گھر میں محصور جانوروں اور پرندوں کو اِس نودریافت شدہ قدر یعنی آزادی کی بھنک بھی نہ پڑنے پائے اور وہ اپنے چھوٹے چھوٹے پنجروں میں ہی قید رہ کر اپنی بقیہ زندگی بھی گزاردیں۔ یہی نہیں بلکہ اُن کی آنے والی نسلیں بھی اِس غلامی میں سسک سسک کر جینے پر مجبور ہوں۔

پھر یوں ہوا کہ ایک دِن شام کو جب سیر کے لیے آنے والے تمام افراد بشمول بچے بڑے اور بوڑھے اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئےتو چڑیا گھر کے رکھوالے مسٹر جونز نے چڑیا گھر کے بڑے گیٹ کو تو مقفّل کردیا ، لیکن جانوروں کے پنجروں کے تالوں کا معائنہ کرنے سے قاصر رہے، اور لڑکھڑاتے ہوئے اپنے گھر کی جانب بڑھے ، جو اِس چار دیواری کے اندر ہی واقع تھا۔ اِس غلطی کا باعِث اِن کی بلا کی مئے نوشی تھی۔ اُن کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی لالٹین بری طرح ڈول رہی تھی۔ اور اسکی مدھم روشنی چاروں جانب ماحول میں عجیب سحر انگیز سائے بکھیر رہی تھی۔ مسٹر جونز نے گھر میں گھس کر دونوں جوتے اُتار کر اِدھر اُدھر پھینکے ، باورچی خانے سے متصل کال کوٹھری سے کچی شراب کی بوتل اُٹھائی باقی ماندہ شراب کو تلچھٹ تک چاٹ گئے۔پھراِس بوتل کو یونہی فرش پر لڑھکاتے ہوئےدبے دبے قدموں کے ساتھ اپنے کمرے کی جانب بڑھے، اور کِواڑ کھول کر اندر اپنے بستر پر ڈھیر ہوگئے اور فوراًہی خرّاٹے لینے لگے۔

کِواڑ بند ہونے کے ساتھ ہی خرّاٹوں کی گونج فضاء میں بلند ہوئی تو چڑیا گھر میں ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک ہلچل مچ گئی۔ اِس سے قبل دن میں ہر چہار جانب اِس بات کا خوب چرچا ہوچکا تھا کہ بوڑھے علامہ یعنی ببر شیر نے گزشتہ شب ایک خواب دیکھا ہے جسے وہ چڑیا گھر کے دیگر جانوروں کو سنانے کا خواہش مند ہے۔
کِواڑ کھڑکنے کی آواز آئی توتمام جانور فوراً اپنے اپنے پنجروں کی بیرونی سلاخوں کے قریب پہنچ گئے ، تمام پرندے اپنے اپنے پنجروں کی چھت سے لٹک گئےاور فضاء میں موجود تمام چیل کوّے اور کبوتر وغیرہ موسِس کوّے کی سربراہی میں شیروں کے پنجرے کے قریب منڈلانے لگے۔ یہ سب کچھ تو ہوا لیکن سبھی چرند پرند درند کو اِس بات کا علم تھا کہ اِس بڈھے شیر کی دھاڑیں شیطان کو بھی پاتال کی تہہ سے نکال لائیں گی، لہٰذا انھیں یقین تھا کہ صبح سے پہلے پہلے یہ خواب اِس چڑیا گھر کے ہر جانور اور پرندے کی زبان پر ہوگا۔
شیروں کا پنجرہ دو حصوں پر مشتمل تھا ایک اندرونی کمرہ اور دوسرا حصہ بیرونی برآمدہ تھا جس میں اس وقت تمام شیر لیٹے ہوئے قیلولہ فرمارہے تھے۔ ببر شیر نے منہ پھیر کر اپنے ساتھیوں کی جانب دیکھا جو اس کی بے چینی سے بے خبر سوئے پڑے تھے۔ ایک جانب جونا شیر جو آج کل گویا سارے زمانے سے خفا تھا، منہ موڑے لیٹا تھا، اسکے قریب ہی اس کی بہن پھاتاں شیرنی لیٹی تھی۔ایک طرف کرنالی شیر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔جونہی موسس نے اپنی کرخت آواز میں چیخ کر علامہ کو بتایا کہ اس وقت میدان بالکل صاف ہے تو وہ ایک شاہانہ شان کے ساتھ اُٹھّا ، بوجھل قدموں کےساتھ چلتا ہوا صحن میں ایستادہ درخت کے تنے پر چڑھ گیا اور دھاڑا۔

’’ میرے عزیز ہم قفسو!
کل رات میں نے ایک نہایت عجیب و غریب خواب دیکھا ہے جسے شریکِ محفل کرنا اور آپ جانوروں کے گوش گزار کرنا اپنے تئیں اپنا فرضِ منصبی جانتا ہوں۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کو اپنا خواب سناؤں، آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ شاید اس کے بعد مجھے آپ سے اس طرح بات کرنے کاموقع پھر نہ ملے۔

میرے ہم قفسو! اس بات سے آپ سب بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح اہلِ ہندوستان نے جد و جہد کرکے انگریز بہادر سے چھٹکارہ حاصل کیا ہے اور آزاد ہوچکے ہیں۔دوستو! کتنے تعجب کی بات ہے کہ جوہندوستانی کل ہماری طرح پنجروں میں قید تھے، آج آزاد ہوکر بھی ہمیں اسی طرح پنجروں میں قید رکھنے پر مصر ہیں جس طرح کل ان کے انگریز آقا نے انھیں قید کیا ہوا تھا۔

اب میں تمہیں سناتا ہوں کہ رات میں نے خواب میں کیسی انہونی بات دیکھی۔ میں نے دیکھا کہ ہم سب جانور آزاد ہیں اور ایک خوبصورت جنگل میں آزادی کے ساتھ ادھر ادھر گھوم رہے ہیں۔ اس خواب کے ساتھ مجھے بچپن میں گایا ہوا ایک خوبصورت گیت بھی یاد آگیا جو میں ابھی تک بھولا ہوا تھا۔اس پیارے سے گیت کو میں بچپن میں ایک دل لبھانے والی دھن میں گایا کرتا تھا جو کچھ یوں تھی۔ اگر چہ آج میرا گلہ کچھ خراب ہے پھر بھی آج آپ کی خاطر میں کوشش کرتا ہوں۔
ببر شیر نے اپنا گلہ صاف کیا تو سارا چڑیا گھر لرز اُٹھا۔ پھر ا س نے اپنی پاٹ دار آواز میں گانا شروع کیا۔
سارے جہاں سے اچھا، جنگل نشاں ہمارا
ہم جانور ہیں اس کے، یہ گلستاں ہمارا

پنجرے میں ہیں اگر ہم، آزاد کل جوہوں گے
سمجھو ہمیں وہیں پر ، دل ہو جہاں ہمارا

دامن میں کھیلتے ہیں جسکے یہ سب درندے
گلشن یہی ہے گویا نام و نشاں ہمارا

جنگل کے سب ہیں باسی، آپس میں بیر کیسا
جب پیار سے رہیں گے ، ہوگا مکاں ہمارا

چرتے ہیں ہم جہاں پر وہ ہے زمین اپنی
اُڑتے ہیں جس فضاء میں وہ آسماں ہمارا​


جانوروں کو ببر شیر کا یہ گانا اس قدر بھایا کہ انھوں نے اس کی آواز میں آواز ملا کر خود بھی گانا شروع کردیا اورکچھ ہی دیر میں چڑیا گھر کے تمام جانور بیک آواز گارہے تھے۔ یہ گانا جو ایک غنائیہ تھا، بیک وقت خوش آواز، بارعب ، وحشت ناک، گرج دار ، چیخم دھاڑ سے بھر پور ،سب کچھ تھا۔ تمام جانوروں کے مل کر گانے کی وجہ سے اس قدر شور برپا ہوا کہ کان پڑی آواز تک سنائی نہ دیتی تھی۔ اس غل غپاڑے نے مسٹر جونز کی نشے بھری نیند کو بھی بھگا دیا۔ وہ اٹھے ، اپنی بھرمار بندوق نکالی اور اس میں بارود بھر کر ایک ہوائی فائر داغ دیا۔ فائر کی آواز سنتے ہی تمام جانور اپنے اپنے پنجروں میں دبک گئے اور یوں یہ ہنگامہ فرو ہوا۔

۲۔ آزادی​

اِس واقعے کے کچھ ہی دن بعد ببر شیر مرگیا ۔ اس طرح اس کی ایک پیشن گوئی پوری ہوئی تو جانوروں کو اس کے خواب پر یقینِ کامل ہوگیا۔ وہ اب دِن رات ببر شیر کا گایا ہوا گیت دہراتے رہتے۔ اسی طرزمیں جس میں اس رات ببر شیر نے انھیں سنایا تھا۔ اس گیت کو گاتے ہوئے ان پر ایک کیف و سرور کا عالم طاری ہوجاتا ۔ خاص طور پر جب وہ اس آخری شعر پر پہنچتے تو نہایت جوش و خروش کے عالم میں جھومنے لگتے۔​

چرتے ہیں ہم جہاں پر وہ ہے زمین اپنی
اُڑتے ہیں جس فضاء میں وہ آسماں ہمارا​

جونا شیر جو سارے عالم سے خفا رہتا تھا، ببر شیر کی موت کے بعد اس کی خفگی گویا دور ہوگئی۔ اس گیت نے اسے بھی ایک نئی زندگی دے دی تھی۔ اب وہ نہایت جوش و خروش کے ساتھ اس گیت کو گایا کرتا اور سب جانور اس کی قیادت میں گیت کے بول دہراتے تو ایک سماں بندھ جاتا۔
کچھ ہی دنوں بعد جونا شیر کو کچھ کر گزرنے کا موقعہ مل گیا۔ ہوا یوں کہ اس دن صبح سویرے جب چڑیا گھر کے رکھوالے نے کھانا دینے کے لیے جونا شیر کے پنجرے کا قفل کھولا اور تازہ گوشت کا لوتھڑا اندر رکھا ہی چاہتا تھا کہ جونا شیر نے جو ایک جانب آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا، یکبارگی لپک کر مسڑ جونز کو ایک ہاتھ رسید کیا ہے تو وہ چاروں خانے چت، پنجرے سے دور سڑک پر جاگرے۔ وہ ابھی اس کاری ضرب اور دہشت کے زیر ِ اثر بے ہوش ہوا ہی چاہتے تھے کہ اچانک انھیں حالات کی سنگنی کا احساس ہوا اور وہ اپنے بے ہوشی کے پروگرام کو موخر کرتے ہوئے زمین سے اٹھے اور بکٹٹ ایک جانب کو بھاگ لیے۔ جونا شیر کوئی عام جانور نہیں تھا کہ وہ مسٹر جونز کی طرف لپکتا، اس نے اطمینان کے ساتھ اپنے پنجرے سے نکل کر ادھر اُدھر دیکھا اور ایک دلخراش دھاڑ سے تمام جانوروں کو نیند سے اُٹھا دیا۔ سب سے پہلے اُس نے بندروں کے پنجرے کو کھولا تاکہ ان کا گروہ جلدی جلدی تمام جانوروں کے پنجروں کو کھول دے۔ ادھر جانور آزاد ہورہے تھے، اُدھر مسٹر جونز نے چڑیا گھر سے باہر بھاگنے ہی میں عافیت سمجھی اور یوں چڑیا گھر کے تمام جانوروں نے آزاد ہوکر جونا شیر کی قیادت میں چڑیا گھر کی باگ ڈور سنبھالی۔ابتک تو جونا شیر ایک قیدی تھا اور مجبوراً ایک چھوٹے سے پنجرے میں وقت گزارنے پر مجبور تھا، اب جو وہ آزاد ہوا ہے تو اس نے چڑیا گھر کے جانوروں کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھال لی اور دن رات ایک کردیئے۔اب وہ دن رات چڑیا گھر کی بیرونی حدود کے چکر لگایا کرتا تاکہ کسی انسان کو چڑیا گھر کی طرف دوبارہ متوجہ ہونے کی ہمت نہ ہو اور جانور سکون کے ساتھ اس نئی حاصل کی ہوئی آزادی کے مزے لوٹ سکیں۔اب چونکہ چڑیا گھر کے باہر سے گوشت کی فراہمی منقطع ہوچکی تھی اور جونا شیر اپنے ساتھی جانوروں کو مار کر کھانا اپنی شان کے خلاف جانتا تھا، لہٰذا گوشت نہ کھانے کی بنا پر وہ رفتہ رفتہ کمزور پڑتا گیا اور اسی حالت میں ایک دن تمام جانوروں کو داغِ مفارقت دے گیا۔

گاندھی گارڈن کے سارے جانور اسکی موت پر خوب روئے۔ دھاڑیں مار مار کر روئے۔ پھر انھوں نے اپنے ان دونوں چہیتے رہنماؤں یعنی ببر شیر اور جونا شیر کی یاد میں ایک ایک قدِ جانور پیتل کا مجسمہ بنوایا اور ان مجسموں کو چڑیا گھر کے بڑے گیٹ کے سامنے نصب کردیا۔ اب جب بھی انھیں اپنے ان محبوب جانوروں کی یاد ستاتی، وہ گیٹ کے پاس پہنچ کر ان کے پیتل کے بنے ہوئے ان خوبصورت مجسموں کے گرد خاموش کھڑے ہوجاتے اور انھیں یاد کرکے ایک مرتبہ پھر روتے۔ دھاڑیں مار مار کر روتے۔

۳۔ قراردادِ مقاصد​

جانوروں کی اس مصیبت میں جب ان کے دو پیارے ان سے بچھڑگئے تھے، کرنالی شیر نے ان کی ڈھارس بندھائی اور انھیں دلاسا دیا۔ وہ ان کا برے دنوں کا ساتھی تھا۔ اب انھوں نے اسے ہی سارے رہنمائی کے حقوق تفویظ کردیئے۔ اب وہ ان کا والی و وارث تھا۔ اسکی پنجہ لہرانے کی عادت نہ صرف چڑیا گھر میں بلکہ اس باہر بھی مشہور ہوگئی۔ سارے جہاں میں اس کی دھاک بیٹھ گئی۔ وہ بھی چڑیا گھر اور سارے جانوروں کی حفاظت کے لیے نت نئے منصوبے بنایا کرتا۔ایک دن کرنالی شیر نے سب جانوروں کو ایک جگہ جمع کیا اور ان کے سامنے ایک تجویز رکھی۔

’’آزاد جنگل کے آزاد جانورو! کیا آج وہ وقت نہیں آگیا کہ ہم اپنے آپ کو کچھ قوانین کے تابع کرلیں؟ کیوں نہ ہم ایک قرارداد کے ذریعے سے ان قوانین کا تعین کرلیں، کیونکہ یہ قانونِ فطرت ہے کہ آزادی بھی کچھ قوانین کے تحت ہی جچتی ہے؟‘‘
دوسرے جانوروں کی تائید سے شہ پاکر اس نے کہنا شروع کیا۔

’’ہر گاہ کہ چڑیا گھر کے تمام چھوٹے بڑے جانوروں اور پرندوں کا یہ اجتماع اس چڑیا گھر میں رہنے والے تمام جانداروں کے لیے ایک قانون بنانے کا عہد کرتا ہے۔‘‘

’’ہر گاہ کہ یہ قانون اس بات کی ضمانت دے گا کہ آئیندہ اس چڑیا گھر میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور معاشرتی انصاف کے اصولوں کی مکمل تعمیل ہوگی۔‘‘

’’جس میں قانون اور اخلاقِ عامہ کی حدود کے اندر بنیادی حقوق بشمول مساوی حیثیت و مساوی مواقع، قانون کی نظر میں مساوات اور سماجی اقتصادی اور سیاسی انصاف، آزادی ء فکر و اظہار اور تنظیم سازی کی آزادی حاصل ہوگی۔‘‘

’’تاکہ اہلِ چڑیا گھر کو خوشحالی نصیب ہواور وہ باہر کے تمام جنگلوں میں رہنے والے جانوروں میں اپنا جائز اور باوقار مقام حاصل کرسکیں۔ اور عالمی امن و ترقی اور تمام جانوروں کی خوشحالی کے لیےاپنا بھرپور کردار اد ا کرسکیں۔‘‘


جانوروں نےا تنی مشکل باتیں آج تک نہیں سنی تھیں لہذا وہ اپنی اپنی بولی بولنے لگے یہاں تک کہ کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دیتی تھی۔ کرنالی شیر نے یکبارگی دھاڑ کر سب کو خاموش کرایا اور پھر یوں گویا ہوا۔

’’مجھے علم ہے کہ یہ باتیں آپ سب جانوروں کے لیے سمجھنا بہت مشکل ہیں لہٰذا میں نے آسان زبان میں جانوروں کے لیے سات سنہری اصول ترتیب دئیے ہیں جو کچھ اس طرح ہیں۔‘‘


۱۔ جو کوئی دو ٹانگوں پر چلتا ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔

۲۔ جو کوئی چار ٹانگوں پر چلتا ہے یا پروں والا ہے وہ ہمارا دوست ہے۔

۳۔ کوئی جانور کپڑے نہیں پہنے گا۔

۴۔ کوئی جانور بستر پر نہیں سوئے گا۔

۵۔ کوئی جانور شراب نہیں پیئے گا۔

۶۔ کوئی جانور کسی دوسرے جانور کونہیں مارے گا۔

۷۔ تمام جانور آپس میں برابر ہیں۔


سب جانوروں نے ان سنہری اُصولوں کو غور سے سنا اور ان کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔ بھیڑوں کی ننھی سی عقل میں صرف ایک بات ہی آئی اور فوراً زور زور سے ممیانے لگیں۔​

چار ٹانگیں اچھی تو دو ہیں خراب
چار ٹانگوں کا تو نہیں ہے جواب​


اسی اثناء میں ایرانی بلی نے پانی کی ٹنکی پر چڑھ کر یہ سب سنہری اصول ٹنکی کی چمکدار سطح پر لکھ دیئے جو اب دور سے بھی نظر آتے تھے۔ آتے جاتے جانوروں کی نظر ان سنہری اصولوں پر پڑتی تو وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے اور زور زور سے دھاڑتے ، ڈکراتے ممیاتے اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔
۴۔ کرنالی شیر کا قتل​

ایک دن ایک ایسا عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جس نے تمام جانوروں کو دہشت زدہ کردیا۔ ہوا یوں کہ صبح سویرے کرنالی شیر کی دہاڑ سن کر سب جانور اُس کے گرد جمع ہوگئے۔کرنالی شیر نے اپنا پنجہ اٹھایا اور اسے ہوا میں لہراتے ہوئے دھاڑا۔
’’ آزاد جنگل کے آزاد جانورو! یاد رکھو۔ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سال کی زندگی سے بہتر ہے۔

ابھی کرنالی شیر کی خوش الحانی کی گو نج ارد گرد کی عمارتوں سے ٹکرا کر لوٹی بھی نہ تھی کہ اچانک ایک جانب سے کچھ بھیڑیے نمودار ہوئے اور اس کی طرف لپکے۔ کرنالی شیر نے جان توڑ کر مقابلہ کیا لیکن بھیڑیوں نے چاروں طرف سے اس کو گھیر لیا اور نوچنے کھسوٹنے لگے۔ کرنالی شیر مرتے دم تک جی داری کے ساتھ مقا بلہ کرتا رہا اور لڑتے لڑتے جان دے دی۔

تمام جانور اس واقعے سے اس قدر دہشت زدہ ہوے کہ ان کے لیے اس وقت کچھ اور سوچنا بھی مشکل ہورہا تھا ۔ وہ اپنی اپنی جانوں کو بچانے کے لیے بھاگے اور اپنے اپنے پنجروں میں اپنے آپ کو چھپالیا۔ کچھ جانوروں کو یاد آیا کہ سنہری اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی تھا کہ کوئی جانور کسی دوسرے جانور کو نہیں مارے گا۔ اگلی صبح جب دہشت کچھ کم ہوئی تو وہ ڈرتے ڈرتے اپنے پنجروں سے باہر نکلے ۔ باکسر گھوڑاجس کی یادداشت دوسرے جانوروں کی بہ نسبت قدرے بہتر تھی اس نے پانی کی ٹنکی کی جانب نظر کی تو دیکھا کہ وہاں پر چھٹے سنہری اصول کی جگہ چونا پھرا ہوا تھا۔اسے اچھی طرح یاد تھا کہ چھٹا اصول یہ تھا کہ کوئی جانور دوسرے جانور کو نہیں مارے گا۔ اس نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا۔ کوئی بھی جانور اس کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ سب اپنی حفاظت کے لیے ادھر ادھر دبکے دبکے پھر رہے تھے۔

۵۔ جوتیوں میں دال بٹتی ہے​

اُس رات بھیڑیوں کے جتھے کا اجلاس ہوا ۔ بھیڑیوں کا سربراہ اکیلا نامی ایک خونخوار بھیڑیا تھا۔ اس نے صلاح دی کہ فی الحال بھیڑیوں کو چاہیے کہ وہ نمظر عام پر نہ آئیں اور اس نے تمام بھیڑیوں کی مشاورت سے بینجمن نامی ایک انتہائی گدھا قسم کے گدھے کو چڑیا گھر کا سربراہ چن لیا۔ دن گزرتے رہے اور گدھے صاحب اپنی گدھا پن کی حرکتوں سے سے جانوروں کو پریشان کرتے رہے۔ سب جانور اس گدھے سے نالاں تھے لیکن انھیں اس بات کا بخوبی علم تھا کہ اصل بادشاہت بھیڑیوں ہی کی ہے۔

اسی دوران کچھ عجیب و غریب واقعات رونما ہونے لگے۔ ہر کچھ دن بعد ایک آدھ جانور غائب ہونے لگا۔ رات کو کسی جانور کی کربناک چیخیں سنائی دیتیں اور اگلی صبح ایک جانور اپنے پنجرے سے غائب ہوتا۔ البتہ چڑیا گھر میں ایک جانب ہڈیوں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر نمودار ہوا جو وقت کے ساتھ ساتھ اونچا ہوتا جارہا تھا۔

۶۔ رکھوالے بادشاہ بنتے ہیں​

سب کچھ ہوا لیکن گدھے نے اپنی گدھے پن کی حرکتیں نہ چھوڑیں یہاں تک کہ اس سے سبھی تنگ آگئے۔ ان سبھی میں اتفاق سے بھیڑیے بھی شامل تھے۔ گدھے کو اور کچھ نہ سوجھتا تو وہ اپنی بھونڈی آواز میں ڈھینچوں ڈھینچوں کرنا شروع کردیتا۔ یہ صورتحال تمام جانوروں کے اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتی اور وہ سب مل کر گدھے پر پِل پڑتے اور مارتے مارتے اُس کا بھرکس نکال دیتے۔ بیچارہ گدھا اپنی مسکین سے صورت لے کر رہ جاتا۔ اب کیا اسے اتنی بھی آزادی حاصل نہیں تھی کہ وہ ڈھینچوں ڈھینچوں ہی کرسکے۔ کمال ہے۔ایک دن بھیڑیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انھوں نے دن دھاڑے ہی اس بیوقوف گدھے کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا اور اس دن کے بعد سے جانورستان پر ان کا راج قائم ہوگیا۔ اب وہ کھلم کھلا اپنے حرکتیں کرنے کے لیے آزاد تھے۔ اب انھیں کوئی بھی ٹوک نہیں سکتا تھا۔ اب تمام جانور ان کے تابعِ فرمان تھے۔ انھیں یہ چڑیا گھر پچھلے چڑیا گھر کی بہ نسبت بہت اچھا لگا۔ اب وہ بلا شرکتِ غیرے چڑیا گھر کی ہر چیز کے مالک تھے۔ اب وہ چڑیا گھر کے بادشاہ تھے۔​
۷۔ جنگِ جون، جنگِ جنون​
جون کے مہینے میں ایک دن ابھی رات کے مختصر لمحات ختم بھی نہیں ہوئے تھے اور سپیدہٗ سحری نمودار ہوا ہی چاہتا تھا اور چڑیا گھر کے جانور صبح کی نشہ آور نیند کے مزے لوٹ رہے تھے کہ اچانک چڑیا گھر کے باہر کی جانب سے بھرمار بندوقوں کے چلنے کی آواز آئی اور چڑیا گھر کا پرانا رکھوالا مسٹر جونز اپنے چندآوارہ گرد دوستوں کے ساتھ فاتحانہ انداز میں چڑیا گھر کی مشرقی دیوار میں ایک بڑا سا سوراخ بنا کر داخل ہوا۔ سب لوگوں کے ہاتھوں میں بھرمار بندوقیں تھیں جنہیں انہوں نے اپنے سامنے تان رکھا تھا اور ان کے خطرناک تیور بتا رہے تھے کہ وہ سامنے آنے والے ہر جانور کو بھون ڈالیں گے۔
وہ صبح بھی بڑی عجیب صبح تھی۔ تمام جانور ہر بڑا کر اُٹھے اور ادھر ادھر بھاگنے لگےاس افرا تفری کے عالم میں انہیں اپنا کچھ ہوش ہی نہ رہا البتہ کچھ جانوروں نے اس صورتحال کا فوراً ادراک کرلیا اور بھاگتے ہوئے جانوروں کو جمع کرکے ایک لائحہ عمل ترتیب دینے میں مصروف ہوگئے۔ چند لمحوں کی اس ملاقات کے بعد تمام جانوروں نے ایک مرتبہ جم کر حملہ آوروں کو گھیر لیا اور چاروں طرف سے ان پر پل پڑے۔ حملہ آوروں نے کب اس طرح کی صورتحال کا مقابلہ کیا تھا۔ وہ تو جانوروں کو ایک ہی ہلے میں زیر کردینے کے ارادے سے آئے تھے۔ جواباً جانوروں کے خوں خوار دانتوں اور زہریلے پنجوں کا سامنا کرنا پڑا تو وہ بدحواس ہوکر بھاگے اور بھاگتے وقت اپنی بھرمار بندوقیں وہیں چھوڑ گئے۔جس جنونی انداز میں جانوروں نے اپنے اس چڑیا گھر کا بچاؤ کیا وہ دیدنی تھا۔ اس دن کے بعد اس جنگ کو جنگِ جون ، جنگِ جنون کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ یہ وہ دن تھا جب سب جانوروں نے مل کر اپنے اس خوبصورت باغ کی حفاظت میں اپنی جانوں کی بھی پروا نہ کی تھی۔ انھیں اپنے اس باغ پر فخر تھا۔ کیوں نہ ہوتا، یہ ان کا اپنا جنگل تھا جہاں پر سب جانور آزاد تھے۔انھوں نے بھگوڑے مسٹر جونز اور ان کے ساتھیوں کے قبضے سے حاصل کی ہوئی بھرمار بندوقوں کو ایک پنجرے میں جمع کردیا اور اسے قومی عجائب گھر قرار دے دیا۔​
۸۔ سلطانی ء جمہور کا آتا ہے زمانہ​
جنگِ جون ، جنگِ جنون کے نتیجے میں جہاں پڑوسیوں پر جانوروں کی دھاک بیٹھ گئی وہیں اس جنگ کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ سب جانور وں میں جذبہ حب الوطنی ایک مرتبہ پھر جاگ اٹھا اور بھیڑئیے جو ابھی تک اس چڑیا گھر کی تقدیر کے مالک بنے بیٹھے تھے، دبک کر ایک طرف کو بیٹھ رہے اور تمام جانوروں نے ایک مرتبہ پھر اتفاقِ رائے سے چند جانوروں کو چن لیا جو ان کے اس باغ کی رکھوالی اور اس پر راج کا حق رکھتے تھے۔ جانوروں کی ایک مشترکہ کونسل ترتیب دی گئی اور ہر فیصلہ اتفاقِ رائے سے کیا جانے لگا۔ یوں ایک مرتبہ پھر اس آزاد جنگل میں جمہوریت نے ایک نیا جنم لیا۔​
۹۔پون چکی بنتی ہے​
کہتے ہیں کہ ایک ولندیزی کے گھر ایک پالتو بلی رہا کرتی تھی۔ یہ بلی دراصل چڑیا گھر سے ہی لائی گئی تھی۔ ایک مرتبہ وہاں کی خوبصورت ایرانی بلی نے کچھ بچے دیئے تو مسٹر جونز نے ان بچوں کو نہایت صفائی کے ساتھ بلی کے پنجرے سے اڑایا اور بیچ ڈالاتھا۔ اس ولندیزی نے جو گارڈن روڈ ہی پر بندر روڈ کے قریب رہتا تھا، مسٹر جونز سے بلی کا ایک بچہ خریدا اور اسے پال لیا۔ ولندیزی کو پون چکی کا ڈیزائین بنانے کا بہت شوق تھا اور وہ دن رات اپنے ڈرائینگ روم میں اپنی میز پر بیٹھا پون چکی کی تصویریں بنایا کرتا۔ ایک دن موقع پاکر بلی نے ان تصویروں میں سے کچھ بنڈل اپنے منہ میں پکڑے اور فوراً ہی وہاں سے رفو چکر ہوگئی اور دوڑتی دوڑتی گاندھی گارڈن پہنچ گئی۔
اب سنیے کہ بلی کی یہ نازیبا حرکت کالے تیندوے کے پلان کے عین مطابق تھی۔ اب جبکہ پون چکی کے ڈیزائن کی ساری ترتیب و تفصیل اس کے ہاتھ میں آگئی تھی، اس نے پہلے تو بلی کی پیٹھ تھپکنی چاہی لیکن شیر کی خالہ بہت چالاک نکلی اور فوراً لپک کر درخت پر چڑھ گئی۔ کالا تیندوا ہنسا اور بولا۔
’’ بی مانو! میں تو صرف تمہاری پیٹھ تھپکنا چاہ رہا تھا ۔ خیر‘‘
اب اس نے تمام جانوروں کو اکٹھا کیا اور ان کے سامنے پون چکی بنانے کی تجویز رکھی۔ سب جانور یہ عجیب و غریب منصوبے کی تفصیل سن کر حیران رہ گئے۔اب کالے تیندوے نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو آواز دی اور نہایت جزباتی انداز میں سب جانوروں سے خطاب کیا۔
’’پون چکی بناؤگے؟‘‘
’’بنائیں گے۔‘‘
’’لڑو گے؟‘‘
’’لڑیں گے‘‘
’’مرو گے؟‘‘
’’مریں گے‘‘
’’گھاس کھاؤ گے‘‘
’’ کھائیں گے‘‘
پھر یوں ہوا کہ جانوروں نے بھوکے رہ کر، گھاس کھا کر، لڑ مر کر پون چکی کا کام شروع کیا اور اسی اسپرٹ میں دن رات کام کرتے ہوئے دو تین مہینوں کے اندر ہی پون چکی کو مکمل کرلیا۔ پون چکی ان کے ہمت و حوصلے کی داستان تھی جو انھوں نے اپنی انتھک محنت سے رقم کی تھی۔ باہر والوں نے سنا تو دنگ رہ گئے۔ اب چڑیا گھر اپنے لیے خود بجلی پیداکرتا تھا جو ایک بیمثال کارنامہ تھا۔​
۱۰۔ میوزیکل چیئر کا کھیل​
کہتے ہیں جمہوریت ایکدم نہیں آجاتی بلکہ رفتہ رفتہ آتی ہے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جو اپنا قالب نکالتا ہےاور یہی ہوا۔ چڑیا گھر کے جانور جمہوریت کے اس قدر عادی ہوگئے کہ اب یہ انھیں اپنی روح میں سمویا ہوا ایک خوبصورت خیا ل محسوس ہوتی۔ رفتہ رفتہ دیگر دوسرے جانور اس کھیل سے اکتا گئے اور اس پُر خطر میدان میں صرف سُور رہ گئے۔ اب یوں ہوتا کہ سور ہی آپس میں انتخاب لڑتے ۔ کبھی ایک سُور جیت جاتا کبھی دوسرا سُور جیت جاتا۔ جہاں دوسرے جانور اس نظام سے لاتعلق ہوئے وہیں سُوروں کو میوزیکل چیئر کا یہ کھیل اس قدر بھایا کہ انھوں نے اس کھیل کو مستقل کھیلنے کا فیصلہ کرلیا۔ اب وہ ہر دوسرے تیسرے ماہ انتخاب انتخاب کھیلا کرتے۔ بھیڑیوں کا جتھا اس کھیل سے بہت محظوظ ہوتا۔ انھیں علم تھا کہ کوئی بھی سور جیتے، جیت اصل میں انھیں کی ہوتی تھی۔​
۱۱۔ ایک غم ناک کہانی کا المناک انجام
بھیڑیوں اور سُوروں کے اِس گٹھ جوڑ نے نت نئے گل کھلانے شروع کردئیے۔ اب رفتہ رفتہ جانوروں کو پھر سے پنجروں میں بند کرنا شروع کردیا گیا۔ یہ سلسلہ شروع تو شر پسند بندروں سے ہوا لیکن بہت آہستہ آہستہ جانوروں کو پنجروں میں منتقل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ، پھر ان کے پنجروں پر قفل لگائے گئے۔ یہاں تک کہ ایک دن ایسا آیا کہ سُوروں اور بھیڑیوں کے علاوہ چڑیا گھر کا ہر جانور دوبارہ پنجرے میں بند ہوچکا تھا۔ جانور حیران پریشان ان سب حرکتوں کو دیکھا کیے۔ انھیں ببر شیر، جونا شیر اور کرنالی شیر کی یاد آتی لیکن وہ اسے ایک بھولا بسرا خواب سمجھ کر نظر انداز کردیتے۔ کبھی کبھی کوئی جانور نیند میں بڑبڑانے لگتا ۔
سارے جہاں سے اچھا، جنگل نشاں ہمارا
ہم جانور ہیں اس کے، یہ گلستاں ہمارا
پنجرے میں ہیں اگر ہم، آزاد کل جوہوں گے
سمجھو ہمیں وہیں پر ، دل ہو جہاں ہمارا
دوسرے جانور اسے سن کر حیران رہ جاتے۔ شاید یہ بے معنی قسم کے الفاظ انھوں نے پہلے بھی سنے تھے، یا شاید انھوں نے کوئی خواب دیکھا تھا۔ کچھ الفاظ تو اِس قدر عجیب تھے کہ جن کو سن کر اِن کی چیخیں نکل جایا کرتیں مثلاً​
چرتے ہیں ہم جہاں پر وہ ہے زمین اپنی
اُڑتے ہیں جس فضاء میں وہ آسماں ہمارا​
جن جانوروں کے پنجرے پانی کی ٹنکی کے سامنے تھے، وہ دیکھتے تھے کہ اِس ٹنکی پر جانورستان کا انوکھا نعرہ درج تھا۔’’ تمام جانور آپس میں برابر ہیں مگر کچھ جانور زیادہ برابر ہیں‘‘۔ بندروں کو یقین تھا کہ کسی زمانے میں اس ٹنکی پر اور کچھ بھی لکھا ہوا ہوتا تھا لیکن اُن کے معصوم ذہن اس سے آگے سوچنے سے معذور تھے۔ اب تو یہی ان کا حال تھا اور یہی ان کا مستقبل۔
، مہ جبین ، ساجد ، راشد اشرف ، فرحت کیانی ، ظفری ، پردیسی ، حسان خان ، محمد بلال اعظم ، جیہ
واہ محترم برادرم محمد خلیل الرحمٰن ، دلپذیر تحریر جس کی کماحقہ مدح سراحی کے لیے مابدولت اپنے تئیں ادائیگیء الفاظ سے تہی دست پاتے ہیں ۔
چشم کشا اور پراز معنیءفراغ بمعیت اندازبیان لاجواب ۔:):)
 
آخری تدوین:
واہ محترم برادرم محمد خلیل الرحمٰن ، لاجواب تحریر جس کی کماحقہ مدح سراحی کے لیے مابدولت اپنے تئیں ادائیگیء الفاظ سے تہی دست پاتے ہیں ۔
چشم کشا اور پراز معنیءفراغ بمعیت اندازبیان لاجواب ۔:):)

محمد امین صدیق بھائی۔ کچھ دیر پہلے آپ سے زبردست کا ٹیگ وصول کرچکے تھے اور آپ کے تبصرے کے انتظار میں تھے۔ تبصرہ آیا اور اب فرہنگِ آصفیہ کی تلاش میں ہیں تاکہ آپ کے تبصرے کی تشریح کرسکیں۔

پسندیدگی پر دلی شکریہ قبول فرمائیے۔ خوش رہیے محترم!
 

imissu4ever

محفلین
شکریہ اور جزاک اللہ استاد محترم۔
جی ہاں کراچی میں گاندھی گارڈن کے نام سے چڑیا گھر موجود ہے جسے اب کراچی چڑیا گھر یا کراچی زو کہتے ہیں۔
گاندھی گارڈن
از محمد خلیل الر حمٰن
جارج آرول کی روح سے معذرت کے ساتھ
(اردو محفل پر اپنے دو سال مکمل ہونے پر محفلین کے لیے ایک تحفہ)


کلاچی کے ساحل پر لنگر انداز جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے یکبارگی وہ رُکا، پلٹ کر مفتوح شہر کی جانب دیکھا اور پھر ایک بار بوجھل قدموں سے اوپر کی جانب چڑھنے لگا۔ عرشے پر پہنچ کر اس سے رہا نہ گیا اور وہ ایک بار پھر شہر کی طرف منہ کیے کھڑا ہوگیا ۔ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی جانب اُٹھادیئے اور چیح کر بولا۔

الوداع اے شہرِ بے مثال!
کاش۔ اے کاش کہ میں تجھے تیری عظمت کے دنوں میں دیکھ سکتا۔

آج وہ اس شہرِ بے مثال سے رخصت ہورہاتھا لیکن چشمِ تصور سے اس کی عظمت کے دنوں کو دیکھ رہا تھا۔​

۱۔خواب​

عروس البلاد کراچی کے عین قلب میں واقع چڑیا گھر جو کبھی گاندھی گارڈن کہلاتا تھا، آج بھی شہر کی سستی ترین اور خوبصورت ترین تفریح گاہ کے طور پرموجود ہے اور روزآنہ لاکھوں بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں کی تفریح ِ طبع کا باعث بنتا ہے، شہر کے قدیم اور خوبصورت باغوں میں سے ایک ہے ۔ یہ باغ ۔۔۔ ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس میں دسیوں اقسام کے جانور، پرندے نیز درندے وغیرہ موجود ہیں۔ اس باغ کی داغ بیل اب سے کوئی ڈیڑھ دو سو برس قبل انگریزوں نے ڈالی جب وہ اِس شہرِ بے مثال کو خوبصورت عمارتوں، چمکتی ہوئی سڑکوں اور ہرے بھرے باغات سے سجانے لگے۔

ہندوستان بھر سے مسلمان اور ہندو رہنماؤں نے تحریکِ آزادی شروع کی اور آخرِ کار انگریزوں کو ملک چھوڑکر جانے پر مجبور کردیا۔ انگریز سرکار نے ہندوستانیوں کے بے انتہاء دباؤ کے تحت بالآخر انھیں آزادی کی نوید سنادی اور خود بوریا بستر سمیٹ کر جہاںسارے ہندوستان کو خالی کرگئے وہیں اِس شہرِ بے مثال سے بھی اپنے انمٹ نقوش چھوڑ کر چلتے بنے۔ گاندھی گارڈن انھی انمٹ نقوش میں سے ایک نقش ہےجس کا نام بعد میں پاکستان سرکار نے بدل کر چڑیا گھر رکھ دیا۔ جانوروں کے لوہے کے بنے پنجروں کو از سرِ نو مضبوط تاروں اور لوہے کے جال کے ساتھ مضبوط تر کردیا گیا۔ اِن کے لوہے کے دروازوں پر نئے اور نسبتاً بڑے تالے نصب کردئیے گئے تاکہ چڑیا گھر میں محصور جانوروں اور پرندوں کو اِس نودریافت شدہ قدر یعنی آزادی کی بھنک بھی نہ پڑنے پائے اور وہ اپنے چھوٹے چھوٹے پنجروں میں ہی قید رہ کر اپنی بقیہ زندگی بھی گزاردیں۔ یہی نہیں بلکہ اُن کی آنے والی نسلیں بھی اِس غلامی میں سسک سسک کر جینے پر مجبور ہوں۔

پھر یوں ہوا کہ ایک دِن شام کو جب سیر کے لیے آنے والے تمام افراد بشمول بچے بڑے اور بوڑھے اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئےتو چڑیا گھر کے رکھوالے مسٹر جونز نے چڑیا گھر کے بڑے گیٹ کو تو مقفّل کردیا ، لیکن جانوروں کے پنجروں کے تالوں کا معائنہ کرنے سے قاصر رہے، اور لڑکھڑاتے ہوئے اپنے گھر کی جانب بڑھے ، جو اِس چار دیواری کے اندر ہی واقع تھا۔ اِس غلطی کا باعِث اِن کی بلا کی مئے نوشی تھی۔ اُن کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی لالٹین بری طرح ڈول رہی تھی۔ اور اسکی مدھم روشنی چاروں جانب ماحول میں عجیب سحر انگیز سائے بکھیر رہی تھی۔ مسٹر جونز نے گھر میں گھس کر دونوں جوتے اُتار کر اِدھر اُدھر پھینکے ، باورچی خانے سے متصل کال کوٹھری سے کچی شراب کی بوتل اُٹھائی باقی ماندہ شراب کو تلچھٹ تک چاٹ گئے۔پھراِس بوتل کو یونہی فرش پر لڑھکاتے ہوئےدبے دبے قدموں کے ساتھ اپنے کمرے کی جانب بڑھے، اور کِواڑ کھول کر اندر اپنے بستر پر ڈھیر ہوگئے اور فوراًہی خرّاٹے لینے لگے۔

کِواڑ بند ہونے کے ساتھ ہی خرّاٹوں کی گونج فضاء میں بلند ہوئی تو چڑیا گھر میں ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک ہلچل مچ گئی۔ اِس سے قبل دن میں ہر چہار جانب اِس بات کا خوب چرچا ہوچکا تھا کہ بوڑھے علامہ یعنی ببر شیر نے گزشتہ شب ایک خواب دیکھا ہے جسے وہ چڑیا گھر کے دیگر جانوروں کو سنانے کا خواہش مند ہے۔
کِواڑ کھڑکنے کی آواز آئی توتمام جانور فوراً اپنے اپنے پنجروں کی بیرونی سلاخوں کے قریب پہنچ گئے ، تمام پرندے اپنے اپنے پنجروں کی چھت سے لٹک گئےاور فضاء میں موجود تمام چیل کوّے اور کبوتر وغیرہ موسِس کوّے کی سربراہی میں شیروں کے پنجرے کے قریب منڈلانے لگے۔ یہ سب کچھ تو ہوا لیکن سبھی چرند پرند درند کو اِس بات کا علم تھا کہ اِس بڈھے شیر کی دھاڑیں شیطان کو بھی پاتال کی تہہ سے نکال لائیں گی، لہٰذا انھیں یقین تھا کہ صبح سے پہلے پہلے یہ خواب اِس چڑیا گھر کے ہر جانور اور پرندے کی زبان پر ہوگا۔
شیروں کا پنجرہ دو حصوں پر مشتمل تھا ایک اندرونی کمرہ اور دوسرا حصہ بیرونی برآمدہ تھا جس میں اس وقت تمام شیر لیٹے ہوئے قیلولہ فرمارہے تھے۔ ببر شیر نے منہ پھیر کر اپنے ساتھیوں کی جانب دیکھا جو اس کی بے چینی سے بے خبر سوئے پڑے تھے۔ ایک جانب جونا شیر جو آج کل گویا سارے زمانے سے خفا تھا، منہ موڑے لیٹا تھا، اسکے قریب ہی اس کی بہن پھاتاں شیرنی لیٹی تھی۔ایک طرف کرنالی شیر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔جونہی موسس نے اپنی کرخت آواز میں چیخ کر علامہ کو بتایا کہ اس وقت میدان بالکل صاف ہے تو وہ ایک شاہانہ شان کے ساتھ اُٹھّا ، بوجھل قدموں کےساتھ چلتا ہوا صحن میں ایستادہ درخت کے تنے پر چڑھ گیا اور دھاڑا۔

’’ میرے عزیز ہم قفسو!
کل رات میں نے ایک نہایت عجیب و غریب خواب دیکھا ہے جسے شریکِ محفل کرنا اور آپ جانوروں کے گوش گزار کرنا اپنے تئیں اپنا فرضِ منصبی جانتا ہوں۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کو اپنا خواب سناؤں، آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ شاید اس کے بعد مجھے آپ سے اس طرح بات کرنے کاموقع پھر نہ ملے۔

میرے ہم قفسو! اس بات سے آپ سب بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح اہلِ ہندوستان نے جد و جہد کرکے انگریز بہادر سے چھٹکارہ حاصل کیا ہے اور آزاد ہوچکے ہیں۔دوستو! کتنے تعجب کی بات ہے کہ جوہندوستانی کل ہماری طرح پنجروں میں قید تھے، آج آزاد ہوکر بھی ہمیں اسی طرح پنجروں میں قید رکھنے پر مصر ہیں جس طرح کل ان کے انگریز آقا نے انھیں قید کیا ہوا تھا۔

اب میں تمہیں سناتا ہوں کہ رات میں نے خواب میں کیسی انہونی بات دیکھی۔ میں نے دیکھا کہ ہم سب جانور آزاد ہیں اور ایک خوبصورت جنگل میں آزادی کے ساتھ ادھر ادھر گھوم رہے ہیں۔ اس خواب کے ساتھ مجھے بچپن میں گایا ہوا ایک خوبصورت گیت بھی یاد آگیا جو میں ابھی تک بھولا ہوا تھا۔اس پیارے سے گیت کو میں بچپن میں ایک دل لبھانے والی دھن میں گایا کرتا تھا جو کچھ یوں تھی۔ اگر چہ آج میرا گلہ کچھ خراب ہے پھر بھی آج آپ کی خاطر میں کوشش کرتا ہوں۔
ببر شیر نے اپنا گلہ صاف کیا تو سارا چڑیا گھر لرز اُٹھا۔ پھر ا س نے اپنی پاٹ دار آواز میں گانا شروع کیا۔
سارے جہاں سے اچھا، جنگل نشاں ہمارا
ہم جانور ہیں اس کے، یہ گلستاں ہمارا

پنجرے میں ہیں اگر ہم، آزاد کل جوہوں گے
سمجھو ہمیں وہیں پر ، دل ہو جہاں ہمارا

دامن میں کھیلتے ہیں جسکے یہ سب درندے
گلشن یہی ہے گویا نام و نشاں ہمارا

جنگل کے سب ہیں باسی، آپس میں بیر کیسا
جب پیار سے رہیں گے ، ہوگا مکاں ہمارا

چرتے ہیں ہم جہاں پر وہ ہے زمین اپنی
اُڑتے ہیں جس فضاء میں وہ آسماں ہمارا​


جانوروں کو ببر شیر کا یہ گانا اس قدر بھایا کہ انھوں نے اس کی آواز میں آواز ملا کر خود بھی گانا شروع کردیا اورکچھ ہی دیر میں چڑیا گھر کے تمام جانور بیک آواز گارہے تھے۔ یہ گانا جو ایک غنائیہ تھا، بیک وقت خوش آواز، بارعب ، وحشت ناک، گرج دار ، چیخم دھاڑ سے بھر پور ،سب کچھ تھا۔ تمام جانوروں کے مل کر گانے کی وجہ سے اس قدر شور برپا ہوا کہ کان پڑی آواز تک سنائی نہ دیتی تھی۔ اس غل غپاڑے نے مسٹر جونز کی نشے بھری نیند کو بھی بھگا دیا۔ وہ اٹھے ، اپنی بھرمار بندوق نکالی اور اس میں بارود بھر کر ایک ہوائی فائر داغ دیا۔ فائر کی آواز سنتے ہی تمام جانور اپنے اپنے پنجروں میں دبک گئے اور یوں یہ ہنگامہ فرو ہوا۔

۲۔ آزادی​

اِس واقعے کے کچھ ہی دن بعد ببر شیر مرگیا ۔ اس طرح اس کی ایک پیشن گوئی پوری ہوئی تو جانوروں کو اس کے خواب پر یقینِ کامل ہوگیا۔ وہ اب دِن رات ببر شیر کا گایا ہوا گیت دہراتے رہتے۔ اسی طرزمیں جس میں اس رات ببر شیر نے انھیں سنایا تھا۔ اس گیت کو گاتے ہوئے ان پر ایک کیف و سرور کا عالم طاری ہوجاتا ۔ خاص طور پر جب وہ اس آخری شعر پر پہنچتے تو نہایت جوش و خروش کے عالم میں جھومنے لگتے۔​

چرتے ہیں ہم جہاں پر وہ ہے زمین اپنی
اُڑتے ہیں جس فضاء میں وہ آسماں ہمارا​

جونا شیر جو سارے عالم سے خفا رہتا تھا، ببر شیر کی موت کے بعد اس کی خفگی گویا دور ہوگئی۔ اس گیت نے اسے بھی ایک نئی زندگی دے دی تھی۔ اب وہ نہایت جوش و خروش کے ساتھ اس گیت کو گایا کرتا اور سب جانور اس کی قیادت میں گیت کے بول دہراتے تو ایک سماں بندھ جاتا۔
کچھ ہی دنوں بعد جونا شیر کو کچھ کر گزرنے کا موقعہ مل گیا۔ ہوا یوں کہ اس دن صبح سویرے جب چڑیا گھر کے رکھوالے نے کھانا دینے کے لیے جونا شیر کے پنجرے کا قفل کھولا اور تازہ گوشت کا لوتھڑا اندر رکھا ہی چاہتا تھا کہ جونا شیر نے جو ایک جانب آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا، یکبارگی لپک کر مسڑ جونز کو ایک ہاتھ رسید کیا ہے تو وہ چاروں خانے چت، پنجرے سے دور سڑک پر جاگرے۔ وہ ابھی اس کاری ضرب اور دہشت کے زیر ِ اثر بے ہوش ہوا ہی چاہتے تھے کہ اچانک انھیں حالات کی سنگنی کا احساس ہوا اور وہ اپنے بے ہوشی کے پروگرام کو موخر کرتے ہوئے زمین سے اٹھے اور بکٹٹ ایک جانب کو بھاگ لیے۔ جونا شیر کوئی عام جانور نہیں تھا کہ وہ مسٹر جونز کی طرف لپکتا، اس نے اطمینان کے ساتھ اپنے پنجرے سے نکل کر ادھر اُدھر دیکھا اور ایک دلخراش دھاڑ سے تمام جانوروں کو نیند سے اُٹھا دیا۔ سب سے پہلے اُس نے بندروں کے پنجرے کو کھولا تاکہ ان کا گروہ جلدی جلدی تمام جانوروں کے پنجروں کو کھول دے۔ ادھر جانور آزاد ہورہے تھے، اُدھر مسٹر جونز نے چڑیا گھر سے باہر بھاگنے ہی میں عافیت سمجھی اور یوں چڑیا گھر کے تمام جانوروں نے آزاد ہوکر جونا شیر کی قیادت میں چڑیا گھر کی باگ ڈور سنبھالی۔ابتک تو جونا شیر ایک قیدی تھا اور مجبوراً ایک چھوٹے سے پنجرے میں وقت گزارنے پر مجبور تھا، اب جو وہ آزاد ہوا ہے تو اس نے چڑیا گھر کے جانوروں کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھال لی اور دن رات ایک کردیئے۔اب وہ دن رات چڑیا گھر کی بیرونی حدود کے چکر لگایا کرتا تاکہ کسی انسان کو چڑیا گھر کی طرف دوبارہ متوجہ ہونے کی ہمت نہ ہو اور جانور سکون کے ساتھ اس نئی حاصل کی ہوئی آزادی کے مزے لوٹ سکیں۔اب چونکہ چڑیا گھر کے باہر سے گوشت کی فراہمی منقطع ہوچکی تھی اور جونا شیر اپنے ساتھی جانوروں کو مار کر کھانا اپنی شان کے خلاف جانتا تھا، لہٰذا گوشت نہ کھانے کی بنا پر وہ رفتہ رفتہ کمزور پڑتا گیا اور اسی حالت میں ایک دن تمام جانوروں کو داغِ مفارقت دے گیا۔

گاندھی گارڈن کے سارے جانور اسکی موت پر خوب روئے۔ دھاڑیں مار مار کر روئے۔ پھر انھوں نے اپنے ان دونوں چہیتے رہنماؤں یعنی ببر شیر اور جونا شیر کی یاد میں ایک ایک قدِ جانور پیتل کا مجسمہ بنوایا اور ان مجسموں کو چڑیا گھر کے بڑے گیٹ کے سامنے نصب کردیا۔ اب جب بھی انھیں اپنے ان محبوب جانوروں کی یاد ستاتی، وہ گیٹ کے پاس پہنچ کر ان کے پیتل کے بنے ہوئے ان خوبصورت مجسموں کے گرد خاموش کھڑے ہوجاتے اور انھیں یاد کرکے ایک مرتبہ پھر روتے۔ دھاڑیں مار مار کر روتے۔

۳۔ قراردادِ مقاصد​

جانوروں کی اس مصیبت میں جب ان کے دو پیارے ان سے بچھڑگئے تھے، کرنالی شیر نے ان کی ڈھارس بندھائی اور انھیں دلاسا دیا۔ وہ ان کا برے دنوں کا ساتھی تھا۔ اب انھوں نے اسے ہی سارے رہنمائی کے حقوق تفویظ کردیئے۔ اب وہ ان کا والی و وارث تھا۔ اسکی پنجہ لہرانے کی عادت نہ صرف چڑیا گھر میں بلکہ اس باہر بھی مشہور ہوگئی۔ سارے جہاں میں اس کی دھاک بیٹھ گئی۔ وہ بھی چڑیا گھر اور سارے جانوروں کی حفاظت کے لیے نت نئے منصوبے بنایا کرتا۔ایک دن کرنالی شیر نے سب جانوروں کو ایک جگہ جمع کیا اور ان کے سامنے ایک تجویز رکھی۔

’’آزاد جنگل کے آزاد جانورو! کیا آج وہ وقت نہیں آگیا کہ ہم اپنے آپ کو کچھ قوانین کے تابع کرلیں؟ کیوں نہ ہم ایک قرارداد کے ذریعے سے ان قوانین کا تعین کرلیں، کیونکہ یہ قانونِ فطرت ہے کہ آزادی بھی کچھ قوانین کے تحت ہی جچتی ہے؟‘‘
دوسرے جانوروں کی تائید سے شہ پاکر اس نے کہنا شروع کیا۔

’’ہر گاہ کہ چڑیا گھر کے تمام چھوٹے بڑے جانوروں اور پرندوں کا یہ اجتماع اس چڑیا گھر میں رہنے والے تمام جانداروں کے لیے ایک قانون بنانے کا عہد کرتا ہے۔‘‘

’’ہر گاہ کہ یہ قانون اس بات کی ضمانت دے گا کہ آئیندہ اس چڑیا گھر میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور معاشرتی انصاف کے اصولوں کی مکمل تعمیل ہوگی۔‘‘

’’جس میں قانون اور اخلاقِ عامہ کی حدود کے اندر بنیادی حقوق بشمول مساوی حیثیت و مساوی مواقع، قانون کی نظر میں مساوات اور سماجی اقتصادی اور سیاسی انصاف، آزادی ء فکر و اظہار اور تنظیم سازی کی آزادی حاصل ہوگی۔‘‘

’’تاکہ اہلِ چڑیا گھر کو خوشحالی نصیب ہواور وہ باہر کے تمام جنگلوں میں رہنے والے جانوروں میں اپنا جائز اور باوقار مقام حاصل کرسکیں۔ اور عالمی امن و ترقی اور تمام جانوروں کی خوشحالی کے لیےاپنا بھرپور کردار اد ا کرسکیں۔‘‘


جانوروں نےا تنی مشکل باتیں آج تک نہیں سنی تھیں لہذا وہ اپنی اپنی بولی بولنے لگے یہاں تک کہ کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دیتی تھی۔ کرنالی شیر نے یکبارگی دھاڑ کر سب کو خاموش کرایا اور پھر یوں گویا ہوا۔

’’مجھے علم ہے کہ یہ باتیں آپ سب جانوروں کے لیے سمجھنا بہت مشکل ہیں لہٰذا میں نے آسان زبان میں جانوروں کے لیے سات سنہری اصول ترتیب دئیے ہیں جو کچھ اس طرح ہیں۔‘‘


۱۔ جو کوئی دو ٹانگوں پر چلتا ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔

۲۔ جو کوئی چار ٹانگوں پر چلتا ہے یا پروں والا ہے وہ ہمارا دوست ہے۔

۳۔ کوئی جانور کپڑے نہیں پہنے گا۔

۴۔ کوئی جانور بستر پر نہیں سوئے گا۔

۵۔ کوئی جانور شراب نہیں پیئے گا۔

۶۔ کوئی جانور کسی دوسرے جانور کونہیں مارے گا۔

۷۔ تمام جانور آپس میں برابر ہیں۔


سب جانوروں نے ان سنہری اُصولوں کو غور سے سنا اور ان کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔ بھیڑوں کی ننھی سی عقل میں صرف ایک بات ہی آئی اور فوراً زور زور سے ممیانے لگیں۔​

چار ٹانگیں اچھی تو دو ہیں خراب
چار ٹانگوں کا تو نہیں ہے جواب​


اسی اثناء میں ایرانی بلی نے پانی کی ٹنکی پر چڑھ کر یہ سب سنہری اصول ٹنکی کی چمکدار سطح پر لکھ دیئے جو اب دور سے بھی نظر آتے تھے۔ آتے جاتے جانوروں کی نظر ان سنہری اصولوں پر پڑتی تو وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے اور زور زور سے دھاڑتے ، ڈکراتے ممیاتے اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔
۴۔ کرنالی شیر کا قتل​

ایک دن ایک ایسا عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جس نے تمام جانوروں کو دہشت زدہ کردیا۔ ہوا یوں کہ صبح سویرے کرنالی شیر کی دہاڑ سن کر سب جانور اُس کے گرد جمع ہوگئے۔کرنالی شیر نے اپنا پنجہ اٹھایا اور اسے ہوا میں لہراتے ہوئے دھاڑا۔
’’ آزاد جنگل کے آزاد جانورو! یاد رکھو۔ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سال کی زندگی سے بہتر ہے۔

ابھی کرنالی شیر کی خوش الحانی کی گو نج ارد گرد کی عمارتوں سے ٹکرا کر لوٹی بھی نہ تھی کہ اچانک ایک جانب سے کچھ بھیڑیے نمودار ہوئے اور اس کی طرف لپکے۔ کرنالی شیر نے جان توڑ کر مقابلہ کیا لیکن بھیڑیوں نے چاروں طرف سے اس کو گھیر لیا اور نوچنے کھسوٹنے لگے۔ کرنالی شیر مرتے دم تک جی داری کے ساتھ مقا بلہ کرتا رہا اور لڑتے لڑتے جان دے دی۔

تمام جانور اس واقعے سے اس قدر دہشت زدہ ہوے کہ ان کے لیے اس وقت کچھ اور سوچنا بھی مشکل ہورہا تھا ۔ وہ اپنی اپنی جانوں کو بچانے کے لیے بھاگے اور اپنے اپنے پنجروں میں اپنے آپ کو چھپالیا۔ کچھ جانوروں کو یاد آیا کہ سنہری اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی تھا کہ کوئی جانور کسی دوسرے جانور کو نہیں مارے گا۔ اگلی صبح جب دہشت کچھ کم ہوئی تو وہ ڈرتے ڈرتے اپنے پنجروں سے باہر نکلے ۔ باکسر گھوڑاجس کی یادداشت دوسرے جانوروں کی بہ نسبت قدرے بہتر تھی اس نے پانی کی ٹنکی کی جانب نظر کی تو دیکھا کہ وہاں پر چھٹے سنہری اصول کی جگہ چونا پھرا ہوا تھا۔اسے اچھی طرح یاد تھا کہ چھٹا اصول یہ تھا کہ کوئی جانور دوسرے جانور کو نہیں مارے گا۔ اس نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا۔ کوئی بھی جانور اس کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ سب اپنی حفاظت کے لیے ادھر ادھر دبکے دبکے پھر رہے تھے۔

۵۔ جوتیوں میں دال بٹتی ہے​

اُس رات بھیڑیوں کے جتھے کا اجلاس ہوا ۔ بھیڑیوں کا سربراہ اکیلا نامی ایک خونخوار بھیڑیا تھا۔ اس نے صلاح دی کہ فی الحال بھیڑیوں کو چاہیے کہ وہ نمظر عام پر نہ آئیں اور اس نے تمام بھیڑیوں کی مشاورت سے بینجمن نامی ایک انتہائی گدھا قسم کے گدھے کو چڑیا گھر کا سربراہ چن لیا۔ دن گزرتے رہے اور گدھے صاحب اپنی گدھا پن کی حرکتوں سے سے جانوروں کو پریشان کرتے رہے۔ سب جانور اس گدھے سے نالاں تھے لیکن انھیں اس بات کا بخوبی علم تھا کہ اصل بادشاہت بھیڑیوں ہی کی ہے۔

اسی دوران کچھ عجیب و غریب واقعات رونما ہونے لگے۔ ہر کچھ دن بعد ایک آدھ جانور غائب ہونے لگا۔ رات کو کسی جانور کی کربناک چیخیں سنائی دیتیں اور اگلی صبح ایک جانور اپنے پنجرے سے غائب ہوتا۔ البتہ چڑیا گھر میں ایک جانب ہڈیوں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر نمودار ہوا جو وقت کے ساتھ ساتھ اونچا ہوتا جارہا تھا۔

۶۔ رکھوالے بادشاہ بنتے ہیں​

سب کچھ ہوا لیکن گدھے نے اپنی گدھے پن کی حرکتیں نہ چھوڑیں یہاں تک کہ اس سے سبھی تنگ آگئے۔ ان سبھی میں اتفاق سے بھیڑیے بھی شامل تھے۔ گدھے کو اور کچھ نہ سوجھتا تو وہ اپنی بھونڈی آواز میں ڈھینچوں ڈھینچوں کرنا شروع کردیتا۔ یہ صورتحال تمام جانوروں کے اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتی اور وہ سب مل کر گدھے پر پِل پڑتے اور مارتے مارتے اُس کا بھرکس نکال دیتے۔ بیچارہ گدھا اپنی مسکین سے صورت لے کر رہ جاتا۔ اب کیا اسے اتنی بھی آزادی حاصل نہیں تھی کہ وہ ڈھینچوں ڈھینچوں ہی کرسکے۔ کمال ہے۔ایک دن بھیڑیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انھوں نے دن دھاڑے ہی اس بیوقوف گدھے کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا اور اس دن کے بعد سے جانورستان پر ان کا راج قائم ہوگیا۔ اب وہ کھلم کھلا اپنے حرکتیں کرنے کے لیے آزاد تھے۔ اب انھیں کوئی بھی ٹوک نہیں سکتا تھا۔ اب تمام جانور ان کے تابعِ فرمان تھے۔ انھیں یہ چڑیا گھر پچھلے چڑیا گھر کی بہ نسبت بہت اچھا لگا۔ اب وہ بلا شرکتِ غیرے چڑیا گھر کی ہر چیز کے مالک تھے۔ اب وہ چڑیا گھر کے بادشاہ تھے۔​
۷۔ جنگِ جون، جنگِ جنون​
جون کے مہینے میں ایک دن ابھی رات کے مختصر لمحات ختم بھی نہیں ہوئے تھے اور سپیدہٗ سحری نمودار ہوا ہی چاہتا تھا اور چڑیا گھر کے جانور صبح کی نشہ آور نیند کے مزے لوٹ رہے تھے کہ اچانک چڑیا گھر کے باہر کی جانب سے بھرمار بندوقوں کے چلنے کی آواز آئی اور چڑیا گھر کا پرانا رکھوالا مسٹر جونز اپنے چندآوارہ گرد دوستوں کے ساتھ فاتحانہ انداز میں چڑیا گھر کی مشرقی دیوار میں ایک بڑا سا سوراخ بنا کر داخل ہوا۔ سب لوگوں کے ہاتھوں میں بھرمار بندوقیں تھیں جنہیں انہوں نے اپنے سامنے تان رکھا تھا اور ان کے خطرناک تیور بتا رہے تھے کہ وہ سامنے آنے والے ہر جانور کو بھون ڈالیں گے۔
وہ صبح بھی بڑی عجیب صبح تھی۔ تمام جانور ہر بڑا کر اُٹھے اور ادھر ادھر بھاگنے لگےاس افرا تفری کے عالم میں انہیں اپنا کچھ ہوش ہی نہ رہا البتہ کچھ جانوروں نے اس صورتحال کا فوراً ادراک کرلیا اور بھاگتے ہوئے جانوروں کو جمع کرکے ایک لائحہ عمل ترتیب دینے میں مصروف ہوگئے۔ چند لمحوں کی اس ملاقات کے بعد تمام جانوروں نے ایک مرتبہ جم کر حملہ آوروں کو گھیر لیا اور چاروں طرف سے ان پر پل پڑے۔ حملہ آوروں نے کب اس طرح کی صورتحال کا مقابلہ کیا تھا۔ وہ تو جانوروں کو ایک ہی ہلے میں زیر کردینے کے ارادے سے آئے تھے۔ جواباً جانوروں کے خوں خوار دانتوں اور زہریلے پنجوں کا سامنا کرنا پڑا تو وہ بدحواس ہوکر بھاگے اور بھاگتے وقت اپنی بھرمار بندوقیں وہیں چھوڑ گئے۔جس جنونی انداز میں جانوروں نے اپنے اس چڑیا گھر کا بچاؤ کیا وہ دیدنی تھا۔ اس دن کے بعد اس جنگ کو جنگِ جون ، جنگِ جنون کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ یہ وہ دن تھا جب سب جانوروں نے مل کر اپنے اس خوبصورت باغ کی حفاظت میں اپنی جانوں کی بھی پروا نہ کی تھی۔ انھیں اپنے اس باغ پر فخر تھا۔ کیوں نہ ہوتا، یہ ان کا اپنا جنگل تھا جہاں پر سب جانور آزاد تھے۔انھوں نے بھگوڑے مسٹر جونز اور ان کے ساتھیوں کے قبضے سے حاصل کی ہوئی بھرمار بندوقوں کو ایک پنجرے میں جمع کردیا اور اسے قومی عجائب گھر قرار دے دیا۔​
۸۔ سلطانی ء جمہور کا آتا ہے زمانہ​
جنگِ جون ، جنگِ جنون کے نتیجے میں جہاں پڑوسیوں پر جانوروں کی دھاک بیٹھ گئی وہیں اس جنگ کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ سب جانور وں میں جذبہ حب الوطنی ایک مرتبہ پھر جاگ اٹھا اور بھیڑئیے جو ابھی تک اس چڑیا گھر کی تقدیر کے مالک بنے بیٹھے تھے، دبک کر ایک طرف کو بیٹھ رہے اور تمام جانوروں نے ایک مرتبہ پھر اتفاقِ رائے سے چند جانوروں کو چن لیا جو ان کے اس باغ کی رکھوالی اور اس پر راج کا حق رکھتے تھے۔ جانوروں کی ایک مشترکہ کونسل ترتیب دی گئی اور ہر فیصلہ اتفاقِ رائے سے کیا جانے لگا۔ یوں ایک مرتبہ پھر اس آزاد جنگل میں جمہوریت نے ایک نیا جنم لیا۔​
۹۔پون چکی بنتی ہے​
کہتے ہیں کہ ایک ولندیزی کے گھر ایک پالتو بلی رہا کرتی تھی۔ یہ بلی دراصل چڑیا گھر سے ہی لائی گئی تھی۔ ایک مرتبہ وہاں کی خوبصورت ایرانی بلی نے کچھ بچے دیئے تو مسٹر جونز نے ان بچوں کو نہایت صفائی کے ساتھ بلی کے پنجرے سے اڑایا اور بیچ ڈالاتھا۔ اس ولندیزی نے جو گارڈن روڈ ہی پر بندر روڈ کے قریب رہتا تھا، مسٹر جونز سے بلی کا ایک بچہ خریدا اور اسے پال لیا۔ ولندیزی کو پون چکی کا ڈیزائین بنانے کا بہت شوق تھا اور وہ دن رات اپنے ڈرائینگ روم میں اپنی میز پر بیٹھا پون چکی کی تصویریں بنایا کرتا۔ ایک دن موقع پاکر بلی نے ان تصویروں میں سے کچھ بنڈل اپنے منہ میں پکڑے اور فوراً ہی وہاں سے رفو چکر ہوگئی اور دوڑتی دوڑتی گاندھی گارڈن پہنچ گئی۔
اب سنیے کہ بلی کی یہ نازیبا حرکت کالے تیندوے کے پلان کے عین مطابق تھی۔ اب جبکہ پون چکی کے ڈیزائن کی ساری ترتیب و تفصیل اس کے ہاتھ میں آگئی تھی، اس نے پہلے تو بلی کی پیٹھ تھپکنی چاہی لیکن شیر کی خالہ بہت چالاک نکلی اور فوراً لپک کر درخت پر چڑھ گئی۔ کالا تیندوا ہنسا اور بولا۔
’’ بی مانو! میں تو صرف تمہاری پیٹھ تھپکنا چاہ رہا تھا ۔ خیر‘‘
اب اس نے تمام جانوروں کو اکٹھا کیا اور ان کے سامنے پون چکی بنانے کی تجویز رکھی۔ سب جانور یہ عجیب و غریب منصوبے کی تفصیل سن کر حیران رہ گئے۔اب کالے تیندوے نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو آواز دی اور نہایت جزباتی انداز میں سب جانوروں سے خطاب کیا۔
’’پون چکی بناؤگے؟‘‘
’’بنائیں گے۔‘‘
’’لڑو گے؟‘‘
’’لڑیں گے‘‘
’’مرو گے؟‘‘
’’مریں گے‘‘
’’گھاس کھاؤ گے‘‘
’’ کھائیں گے‘‘
پھر یوں ہوا کہ جانوروں نے بھوکے رہ کر، گھاس کھا کر، لڑ مر کر پون چکی کا کام شروع کیا اور اسی اسپرٹ میں دن رات کام کرتے ہوئے دو تین مہینوں کے اندر ہی پون چکی کو مکمل کرلیا۔ پون چکی ان کے ہمت و حوصلے کی داستان تھی جو انھوں نے اپنی انتھک محنت سے رقم کی تھی۔ باہر والوں نے سنا تو دنگ رہ گئے۔ اب چڑیا گھر اپنے لیے خود بجلی پیداکرتا تھا جو ایک بیمثال کارنامہ تھا۔​
۱۰۔ میوزیکل چیئر کا کھیل​
کہتے ہیں جمہوریت ایکدم نہیں آجاتی بلکہ رفتہ رفتہ آتی ہے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جو اپنا قالب نکالتا ہےاور یہی ہوا۔ چڑیا گھر کے جانور جمہوریت کے اس قدر عادی ہوگئے کہ اب یہ انھیں اپنی روح میں سمویا ہوا ایک خوبصورت خیا ل محسوس ہوتی۔ رفتہ رفتہ دیگر دوسرے جانور اس کھیل سے اکتا گئے اور اس پُر خطر میدان میں صرف سُور رہ گئے۔ اب یوں ہوتا کہ سور ہی آپس میں انتخاب لڑتے ۔ کبھی ایک سُور جیت جاتا کبھی دوسرا سُور جیت جاتا۔ جہاں دوسرے جانور اس نظام سے لاتعلق ہوئے وہیں سُوروں کو میوزیکل چیئر کا یہ کھیل اس قدر بھایا کہ انھوں نے اس کھیل کو مستقل کھیلنے کا فیصلہ کرلیا۔ اب وہ ہر دوسرے تیسرے ماہ انتخاب انتخاب کھیلا کرتے۔ بھیڑیوں کا جتھا اس کھیل سے بہت محظوظ ہوتا۔ انھیں علم تھا کہ کوئی بھی سور جیتے، جیت اصل میں انھیں کی ہوتی تھی۔​
۱۱۔ ایک غم ناک کہانی کا المناک انجام
بھیڑیوں اور سُوروں کے اِس گٹھ جوڑ نے نت نئے گل کھلانے شروع کردئیے۔ اب رفتہ رفتہ جانوروں کو پھر سے پنجروں میں بند کرنا شروع کردیا گیا۔ یہ سلسلہ شروع تو شر پسند بندروں سے ہوا لیکن بہت آہستہ آہستہ جانوروں کو پنجروں میں منتقل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ، پھر ان کے پنجروں پر قفل لگائے گئے۔ یہاں تک کہ ایک دن ایسا آیا کہ سُوروں اور بھیڑیوں کے علاوہ چڑیا گھر کا ہر جانور دوبارہ پنجرے میں بند ہوچکا تھا۔ جانور حیران پریشان ان سب حرکتوں کو دیکھا کیے۔ انھیں ببر شیر، جونا شیر اور کرنالی شیر کی یاد آتی لیکن وہ اسے ایک بھولا بسرا خواب سمجھ کر نظر انداز کردیتے۔ کبھی کبھی کوئی جانور نیند میں بڑبڑانے لگتا ۔
سارے جہاں سے اچھا، جنگل نشاں ہمارا
ہم جانور ہیں اس کے، یہ گلستاں ہمارا
پنجرے میں ہیں اگر ہم، آزاد کل جوہوں گے
سمجھو ہمیں وہیں پر ، دل ہو جہاں ہمارا
دوسرے جانور اسے سن کر حیران رہ جاتے۔ شاید یہ بے معنی قسم کے الفاظ انھوں نے پہلے بھی سنے تھے، یا شاید انھوں نے کوئی خواب دیکھا تھا۔ کچھ الفاظ تو اِس قدر عجیب تھے کہ جن کو سن کر اِن کی چیخیں نکل جایا کرتیں مثلاً​
چرتے ہیں ہم جہاں پر وہ ہے زمین اپنی
اُڑتے ہیں جس فضاء میں وہ آسماں ہمارا​
جن جانوروں کے پنجرے پانی کی ٹنکی کے سامنے تھے، وہ دیکھتے تھے کہ اِس ٹنکی پر جانورستان کا انوکھا نعرہ درج تھا۔’’ تمام جانور آپس میں برابر ہیں مگر کچھ جانور زیادہ برابر ہیں‘‘۔ بندروں کو یقین تھا کہ کسی زمانے میں اس ٹنکی پر اور کچھ بھی لکھا ہوا ہوتا تھا لیکن اُن کے معصوم ذہن اس سے آگے سوچنے سے معذور تھے۔ اب تو یہی ان کا حال تھا اور یہی ان کا مستقبل۔
، مہ جبین ، ساجد ، راشد اشرف ، فرحت کیانی ، ظفری ، پردیسی ، حسان خان ، محمد بلال اعظم ، جیہ
اف فوہ! فار ایور مس یو بھائی کس ہستی کے تبصرے کو دوبارہ پیش کردیا آپ نے۔ جی ہاں ہم ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے نایاب بھائی مرحوم اور تلمیذ بھائی مرحوم کو۔ہم یہ کہانی اپنے ان تمام دوستوں کے نام کرتے ہیں جو محفل سے عارضی طور پر روٹھے بیٹھے ہیں

نایاب بھائی مرحوم، تلمیذ بھائی مرحوم تو ایسے روٹھے کہ اب آنے کے نہیں۔

دیگر جگری دوست کچھ روٹھ کر محفل سے دور بیٹھے ہیں، کچھ آتے ہیں لیکن بہت کم۔ ہمیں اللہ سے قوی امید ہے کہ ایک دن یہ سب روٹھے محفل کی رونق بڑھانے کے لیے آن موجود ہوں گے۔

شمشاد بھائی، قیصرانی بھائی، جیہ بٹیا، عائشہ عزیز بٹیا، راشد اشرف بھائی، رانا بھائی، محمود احمد غزنوی بھائی، پردیسی بھائی، محمد بلال اعظم بھائی، محسن وقار علی بھائی، سید شہزاد ناصر بھائی، محمد علم اللہ بھائی، نوید ظفر کیانی بھائی
بھائ گاندھی گارڈن ہمارے گھر کے پاس تھا مجھے آج تک یاد ہے کہ پاکستان میں پہلا بن مانس کراچی اسی چڑیا گھر میں آیا تھا ۔ نشتر روڈ پر جو مین دروازہ چڑیا گھر کا ہے اس طرف ٹریفک جام ہو گئ ہجوم کی وجہ سے پھر دو ہفتے تقریباً یہ حال رہا ۔ پھر بو بو بن مانس کو کسی بھلے نے سگریٹ پر لگا دیا۔ لوگ اسکو سگریٹ پیتا دیکھ کر بڑے خوش ہوتے تھے پھر ایک "خیر خواہ" نے اسے بھرا سگریٹ پلا دیا اسکے بعد نشہ ٹوٹنے پر اسکا غصہ بہت بڑھا اور وہ پنجرہ توڑ کر باہر رات کو نکل گیا مگر پکڑا گیا۔ اگلے دن جب میں گیا تو عملہ اس کے پنجرے کی چھت کو لوہے کی تاروں کی مدد سے مزید مضبوط کر رہے تھے
بہر حال گاندھی گارڈن سے بڑی یادیں وابستہ ہیں عید کے دنوں میں وہاں پٹھان بھائوں کا گھمسان کا ریلہ آیا ہوتا تھا پہلی بار انڈوں کی ایک دوسرے سے ٹکرا کر لڑائ کا تماشہ میں نے وہیں دیکھا
سانپ گھر سے شیر چیتا بجو بڑے خطرناک جانور
مگر کراچی کے درندوں نے ان سب کو پیچھے چھوڑ دیا !!!!
 

راشد اشرف

محفلین
photostream


photostream
 

رانا

محفلین
اف فوہ! فار ایور مس یو بھائی کس ہستی کے تبصرے کو دوبارہ پیش کردیا آپ نے۔ جی ہاں ہم ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے نایاب بھائی مرحوم اور تلمیذ بھائی مرحوم کو۔ہم یہ کہانی اپنے ان تمام دوستوں کے نام کرتے ہیں جو محفل سے عارضی طور پر روٹھے بیٹھے ہیں

نایاب بھائی مرحوم، تلمیذ بھائی مرحوم تو ایسے روٹھے کہ اب آنے کے نہیں۔

دیگر جگری دوست کچھ روٹھ کر محفل سے دور بیٹھے ہیں، کچھ آتے ہیں لیکن بہت کم۔ ہمیں اللہ سے قوی امید ہے کہ ایک دن یہ سب روٹھے محفل کی رونق بڑھانے کے لیے آن موجود ہوں گے۔

شمشاد بھائی، قیصرانی بھائی، جیہ بٹیا، عائشہ عزیز بٹیا، راشد اشرف بھائی، رانا بھائی، محمود احمد غزنوی بھائی، پردیسی بھائی، محمد بلال اعظم بھائی، محسن وقار علی بھائی، سید شہزاد ناصر بھائی، محمد علم اللہ بھائی، نوید ظفر کیانی بھائی
جزاک اللہ خلیل بھائی بس روٹھنے والوں میں شامل نہ کریں ہمیں۔ اب گھر میں کمپیوٹر کی سہولت کچھ عرصہ سے نہیں ہے اس لئے لمبا ناغہ ہوگیا۔ (ویسے کونسا ہمارا مختصر ناغہ ہوتا ہے بھلا:))
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ ! کمال کی تحریر !!!!
بہت خوبصورت اردو جامہ پہنایا ہے ۔ ماخوذ کے بجائے طبعزاد تحریر معلوم ہوتی ہے ۔ پرلطف مگر فکر انگیز!

خلیل بھائی آپ کی اس تحریر کو سرخ سلام! :):):)
 
واہ ! کمال کی تحریر !!!!
بہت خوبصورت اردو جامہ پہنایا ہے ۔ ماخوذ کے بجائے طبعزاد تحریر معلوم ہوتی ہے ۔ پرلطف مگر فکر انگیز!

آداب، آداب!!!
جس خوبصورت انداز سے آپ نے پسند کیا اس پر دلی شکریہ قبول فرمائیے

خلیل بھائی آپ کی اس تحریر کو سرخ سلام!

آہا! عرصہ چالیس سال بعد پرولتاریہ کا سرخ سلام باصرہ نواز ہوا۔
 
جن جانوروں کے پنجرے پانی کی ٹنکی کے سامنے تھے، وہ دیکھتے تھے کہ اِس ٹنکی پر جانورستان کا انوکھا نعرہ درج تھا۔’’ تمام جانور آپس میں برابر ہیں مگر کچھ جانور زیادہ برابر ہیں‘‘۔ بندروں کو یقین تھا کہ کسی زمانے میں اس ٹنکی پر اور کچھ بھی لکھا ہوا ہوتا تھا لیکن اُن کے معصوم ذہن اس سے آگے سوچنے سے معذور تھے۔ اب تو یہی ان کا حال تھا اور یہی ان کا مستقبل۔
بازگشت!
 
Top