اسے اپنے کل ہی کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا

دوست

محفلین
احمد ندیم قاسمی کی یہ غزل مجھے بہت پسند ہے۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------
اسے اپنے کل ہی کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اسکی صبحِ عروج تھی وہ میرا وقتِ زوال تھا
میرا درد کیسے وہ جانتا میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود فنا کے ساتھ میں تھا اسے روکنا بھی محال تھا
وہ جو اسکے سامنے آگیا روشنی میں نہا گیا
عجب اسکی ہیبتِ حسن تھی عجب اسکا رنگِ جمال تھا
دمِ واپسی اسے کیا ہوا نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے بکھر گیا وہ جو اپنی آپ مثال تھا
وہ ملا تو صدیوں بعد بھی میرے لب پہ کوئی گلا نہ تھا
اسے میری چپ نے رُلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا
میرے ساتھ لگ کے وہ رودیا اور صرف اتنا ہی کہہ سکا
جسے جانتا تھا میں زندگی وہ تو صرف وہم و خیال تھا
--------------------------------------------------------------------------------------------------------
 
بہت پسندیدہ سی غزل ہے یہ میری بھی۔

اسے میری چپ نے رلا دیا ،جسے گفتگو میں کمال تھا


جہاں تک میرا خیال ہے یہ احمد ندیم قاسمی کی غزل نہیں ۔
 

فرذوق احمد

محفلین
بہت اچھی غزل ہے
ویسے احمد ندیم قاسمی صاحب بھی بہت مشکل لکھتے ہے کوئی شعر ہی سمجھ میں آتا ہے ورنہ تو اوپر سے ہی گزر جاتے ہیں

اچھا دوست بھائی آپ نے احمد فراز کی کتاب دردِآشوب مجھے امید ہے پڑھی ہو گی
اگر پرھی ہے تو اس میں ایک نظم ہے

ممدوح

اگر کسی روز آپ یہ لکھ دے تو نوازش ہو گی کیونکہ مجھے یہ بہت پسند ہے
 

دوست

محفلین
بھائی پڑھا تو سب کو ہے مگر یاد نہیں۔دیکھوں گا اس نظم کو اگر وقت ملا تو ضرور مہیا کرنے کی کوشش کروں گا۔
 

ماہا عطا

محفلین
احمد ندیم قاسمی کی یہ غزل مجھے بہت پسند ہے۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------
اسے اپنے کل ہی کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اسکی صبحِ عروج تھی وہ میرا وقتِ زوال تھا
میرا درد کیسے وہ جانتا میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود فنا کے ساتھ میں تھا اسے روکنا بھی محال تھا
وہ جو اسکے سامنے آگیا روشنی میں نہا گیا
عجب اسکی ہیبتِ حسن تھی عجب اسکا رنگِ جمال تھا
دمِ واپسی اسے کیا ہوا نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے بکھر گیا وہ جو اپنی آپ مثال تھا
وہ ملا تو صدیوں بعد بھی میرے لب پہ کوئی گلا نہ تھا
اسے میری چپ نے رُلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا
میرے ساتھ لگ کے وہ رودیا اور صرف اتنا ہی کہہ سکا
جسے جانتا تھا میں زندگی وہ تو صرف وہم و خیال تھا
--------------------------------------------------------------------------------------------------------
بہت پسندیدہ سی غزل ہے یہ میری بھی۔

اسے میری چپ نے رلا دیا ،جسے گفتگو میں کمال تھا


جہاں تک میرا خیال ہے یہ احمد ندیم قاسمی کی غزل نہیں ۔
بہت اچھی غزل ہے۔۔۔لیکن شاعر زاہد فخری ہیں
 

حبیب صادق

محفلین
عمدہ انتخاب
اسے اپنے کل ہی کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اسکی صبحِ عروج تھی وہ میرا وقتِ زوال تھا
میرا درد کیسے وہ جانتا میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود فنا کے ساتھ میں تھا اسے روکنا بھی محال تھا
وہ جو اسکے سامنے آگیا روشنی میں نہا گیا
عجب اسکی ہیبتِ حسن تھی عجب اسکا رنگِ جمال تھا
دمِ واپسی اسے کیا ہوا نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے بکھر گیا وہ جو اپنی آپ مثال تھا
وہ ملا تو صدیوں بعد بھی میرے لب پہ کوئی گلا نہ تھا
اسے میری چپ نے رُلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا
میرے ساتھ لگ کے وہ رودیا اور صرف اتنا ہی کہہ سکا
جسے جانتا تھا میں زندگی وہ تو صرف وہم و خیال تھا
 
Top