حسان خان

لائبریرین
حمدیہ بیت:
فاتحهٔ فِکرت و ختمِ سُخُن
نام خُدایست بر او ختم کُن

(نظامی گنجوی)
فِکر کی ابتدا اور سُخن کا اختتام خُدا کا نام ہے، [لہٰذا] اُس پر ختم کرو۔
 

حسان خان

لائبریرین
«نِظامی گنجوی» نے اپنی مثنوی «مخزن الاسرار» کا آغاز اِس بیت سے کیا ہے:
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
هست کلیدِ درِ گنجِ حکیم

(نظامی گنجوی)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» [خُدائے] حکیم کے خزانے کے در کی کلید ہے۔

× بیت کے مصرعِ اوّل کا وزن «مفعولن مفعولن فاعلن» اور مصرعِ ثانی کا وزن «مفتعلن مفتعلن فاعلن» ہے۔ کسی بیت کے مصرعوں میں اِن دو اوزان کا باہم آنا جائز ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
«امیر خُسرَو دهلوی» نے اپنی مثنوی «مطلع الانوار» کا آغاز اِس بیت سے کیا ہے:
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
خُطبهٔ قُدس است به مُلکِ قدیم

(امیر خسرو دهلوی)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» مُلکِ قدیم و ازل میں خُطبۂ قُدْس ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«عُرفی شیرازی» نے اپنی مثنوی «مجمع الابکار» کا آغاز اِس بیت سے کیا ہے:
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
موجِ نخُست است ز بحرِ قدیم

(عُرفی شیرازی)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» بحرِ قدیم و ازل کی مَوجِ اوّل ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
آمدِ بہار کے موقع پر کہی گئی ایک بیت:
آمد بهارِ خُرّم با رنگ و بُویِ طِیب
با صد هزار نُزهت و آرایشِ عجیب

(رودکی سمرقندی)
رنگ و بُوئے خُوب کے ساتھ، اور صد ہزار خوشحالی اور عجیب و نادر آرائش کے ساتھ بہارِ سرسبز و باطراوت آ گئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
«عبدالرحمٰن جامی» نے اپنی مثنوی «تُحفة الاحرار» کا آغاز اِس بیت سے کیا ہے:
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
هست صلایِ سرِ خوانِ کریم

(عبدالرحمٰن جامی)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» [خُدائے] کریم کے دسترخوان کی جانب صدائے دعوت ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تیزیِ مژگانِ خونریزی ترا حاصل نکرد
تیغ ہائے آہنی ہرچند سر بر سنگ زد


عارف لاہوری

خونریزی میں تیری پلکوں کی سی تیزی حاصل ہو نہ سکی، ہرچند کہ آہنی تلواروں نے پتھر پر بہت سر مارا۔ (تلوار کو تیز کرنے کے لیے پتھروں پر رگڑتے تھے)۔
 

اکمل زیدی

محفلین
حسان خان محمد وارث
آپ حضرات سے درخواست ہے درج ذیل شعر کا مطلب (ایک مسدس کی بیت ہے )بتا دیں مجالس میں بہت سنا ہے مگر سمجھ نہیں آیا۔۔

اجل رسیدہ منم می رَوَم بہ کرب و بلا
گذشت نوبتِ مسلم ، رسیدنوبتِ ما
 

محمد وارث

لائبریرین
حسان خان محمد وارث
آپ حضرات سے درخواست ہے درج ذیل شعر کا مطلب (ایک مسدس کی بیت ہے )بتا دیں مجالس میں بہت سنا ہے مگر سمجھ نہیں آیا۔۔

اجل رسیدہ منم می رَوَم بہ کرب و بلا
گذشت نوبتِ مسلم ، رسیدنوبتِ ما
اس شعر میں مسلم سے مراد شاید حضرت مسلم بن عقیل ہیں، اور مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ میری اجل (موت) کا وقت آ گیا اور میں کربلا کی طرف چلا جاتا ہوں، مسلم کی باری گزر گئی اور ہماری باری آ گئی۔
 

اکمل زیدی

محفلین
اس شعر میں مسلم سے مراد شاید حضرت مسلم بن عقیل ہیں، اور مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ میری اجل (موت) کا وقت آ گیا اور میں کربلا کی طرف چلا جاتا ہوں، مسلم کی باری گزر گئی اور ہماری باری آ گئی۔
بہت بہت شکریہ وارث بھائ ۔۔۔
جی وہ جناب مسلم بن عقیل ہی مراد ہے
 

اکمل زیدی

محفلین
بہت بہت شکریہ وارث بھائ ۔۔۔
جی وہ جناب مسلم بن عقیل ہی مراد ہے
وارث بھائ لگے ہاتھوں ایک بات اور اگر میں اسے اردو میں پڑھنا چاہوں تو اسے اس طرح کرسکتا ہوں ۔۔یا کوئ بہتر مشورہ دیں کیونکہ مسدس کے اوپر کے چار شعر اردوو میں ہیں مگر یہ بیت اسی طرح پڑھی جاتی ہے جو یقیناً عقیدتی تاثر تو پیدا کر دیتی ہے مگر اغلب امکاں ہے کے سامعین نابلد ہوتے ہوں ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔۔۔

اجل کا وقت ہے کربلا بلاتی ہے
مسلم گذر گئے ہماری باری آتی ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائ لگے ہاتھوں ایک بات اور اگر میں اسے اردو میں پڑھنا چاہوں تو اسے اس طرح کرسکتا ہوں ۔۔یا کوئ بہتر مشورہ دیں کیونکہ مسدس کے اوپر کے چار شعر اردوو میں ہیں مگر یہ بیت اسی طرح پڑھی جاتی ہے جو یقیناً عقیدتی تاثر تو پیدا کر دیتی ہے مگر اغلب امکاں ہے کے سامعین نابلد ہوتے ہوں ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔۔۔

اجل کا وقت ہے کربلا بلاتی ہے
مسلم گذر گئے ہماری باری آتی ہے
مفہوم آپ کا درست ہے زیدی صاحب لیکن وہی "تول تکڑی" والی بات، چونکہ مسدس کے سارے مصرعے ایک ہی وزن میں ہوتے ہیں سو ان دو مصرعوں کو بھی باقی کے وزن میں لانا ہوگا۔
 

حسان خان

لائبریرین
«محمد ارشد بن علی‌اکبر ارشد هِرَوی» نے اپنی مثنوی «ابرِ گُهربار» کا آغاز اِس بیت سے کیا ہے:
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
رشْحهٔ اوّل ز سحابِ قدیم

(محمد ارشد بن علی‌اکبر ارشد هِرَوی)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» ابرِ قدیم کا قطرۂ اوّل ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
«محمد حُسین قزوینی» نے اپنی مثنوی «اشترنامه» کا آغاز اِس بیت سے کیا ہے:
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
قادرِ غفّار و قدیر و قدیم

(محمد حُسین قزوینی)
خدائے رحمٰن و رحیم کے نام سے، کہ جو قادرِ غفّار و قدیر و قدیم ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
«مولوی محمد عبدالرئوف 'وحید'» نے اپنی مثنوی «تاجِ سُخن» کا آغاز اِس بیت سے کیا ہے:
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
تاجِ سُخن راست چو دُرِّ یتیم

(مولوی محمد عبدالرئوف 'وحید')
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» تاجِ سُخن کے لیے دُرِّ یگانہ کی مانند ہے۔
× دُر = موتی
 

حسان خان

لائبریرین
«عبدالرحمٰن جامی» کے ایک دیوان «فاتحة الشّباب» کے اوّل میں یہ بیت آئی ہے:
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
اعظمِ اسمایِ علیمِ حکیم

(عبدالرحمٰن جامی)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» خدائے علیم و حکیم کا اِسم اعظم ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
«محمد حسن دهلوی» نے اپنی مثنوی «تُحفهٔ میمونه» کا آغاز اِس بیت سے کیا ہے:
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
کرد خدا رحمتِ خود را عمیم

(محمد حسن دهلوی)
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم۔۔۔ خدا نے اپنی رحمت کو عام کر دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مثنویِ «جَنّات الوصال» کی «جنّتِ ششُم» کی بیتِ اوّلین:
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
فاتح الابوابِ جنّاتِ نعیم

(نظام علی شاه کِرمانی)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» جنّاتِ نعیم کے ابواب کو کھولتی ہے۔
 
Top