تخلیق یا ارتقاء

جاسمن

لائبریرین
ماشاءاللہ آپ اپنے اپنے خیالات میں بہت پختہ ہیں۔ اللہ نے علم بھی دیا ہے۔ آپ اپنے خیالات و آراء کا اظہار بہت اچھے طریقہ سے کر بھی رہے ہیں۔ اللہ سے دونوں بھائیوں کے لیے دعا ہے کہ وہ آپ کو آسانیاں اور خوشیاں عطا فرمائے۔ آپ دونوں سمیت ہم سب کو نورِ ہدایت اور نورِ بصیرت عطا فرمائے۔ اپنی نظروں میں چھوٹا اور لوگوں کی نظروں میں بڑا بنائے۔ آمین!
بھائیو! انسان آخر دم تک سیکھتا رہتا ہے۔ ہم بھی سیکھ رہے ہیں۔ اور اس دھاگہ نے ہمیں دو تو کیا گویا چار اطراف کی سیر تو ضرور ہی کرا دی ہے۔:D
لیکن ہم جب بھی بات کریں تو یہ دھیان رہے کہ ہمارے مخاطب بھی ہمارے ہی طرح ہیں۔ جس طرح ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہمیں دوسروں سے عزت و احترام ملے۔ ایسے ہی دوسرے بھی ہماری طرف سے عزت و احترام کے مستحق ہیں۔
کوشش کریں کہ اپنی بات ذاتیات پہ اترے بغیر کر سکیں۔ اس سے ماحول تو پُرسکون رہے گا ہی ۔۔۔یقین مانیں آپ کے اور ہمارے دل مطمئن ہوں گے۔
آپ کے پاس مجھ سے کہیں زیادہ علم ہے کہ اللہ سب کا "رب" ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
ایک اور مضمون کا ربط پیش ہے (پہلے بھی محفل پر شریک کر چکا ہوں) :) : The Relativity of Wrong
اچھا مضمون ہے۔ پڑھ کر اچھا لگا!!
یہی کہ اِن کی figurative یا non-literal تشریح ممکن ہے۔
پہلے سائنسی دلائل کو مان کر اور ذہن بنا کر قرآن کریم کی فگریٹو تشریح ممکن ہونے کی بات کریں؟
 

زیک

مسافر
کبھی کہا جاتا ہے کہ کسی سپیشی کے خواص کی تبدیلی کو ارتقا نہ سمجھا جائے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ سمجھا جائے۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی!
مذہبی افراد microevolution پر اعتراض نہیں کر سکتے کہ اس کی نشانیاں تو روز نظر آتی ہیں لہذا جذباتی ہو کر اسے ارتقا ماننے ہی سے انکار کر دیتے ہیں حالانکہ یہ غلط ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
زندگی کا ظہور یا زندگی کی ابتدا abiogenesis کا میدان ہے، ارتقا کا نہیں۔ Abiogenesis کے لیے فی الوقت کوئی متفقہ تھیوری موجود نہیں ہے، البتہ کچھ hypotheses ضرور تجویز کیے گئے ہیں جن پر تحقیق جاری ہے۔ اس ضمن میں Miller–Urey experiment کا مطالعہ بھی دلچسپ ہے۔
شکریہ! تاہم، ہم یہ نہ کہیں گے کہ جاسم صاحب ارتقاء کے موضوع سے ہٹ گئے کیونکہ ان بے جان مالیکولز کا تذکرہ موصوف نے فرمایا تھا۔ آپ نے جو معلومات فراہم کی ہیں، اس کے لیے شکریہ! اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آغاز و آفرینش کائنات کے حوالے سے سائنس دان کسی تھیوری پر متفق نہ ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
جانداروں کا آغاز۔ کائنات کے آغاز پر تو کافی حد تک متفق ہیں بگ بینگ تھیوری کی صورت۔

یہ بھی نوٹ کریں کہ ایبائیوجینسس کے بارے میں کئی قیاس ہیں لیکن ارتقا کے سلسلے میں سائنسدان متفق ہیں
ہم تدوین کر ہی رہے تھے کہ آپ کا مراسلہ سامنے آ گیا۔ اس لیے مراسلے کو جوں کا توں رہنے دیتے ہیں۔ معلومات میں اضافے کے لیے شکریہ!
 

جاسم محمد

محفلین
اگر کسی کو اس مضمون کا ترجمہ پڑھنے میں دلچسپی ہو تو اس کے ترجمے کا پی ڈی ایف فائل کا لنک پوسٹ کے آخر میں ہے۔
جزاک اللہ۔ زمین پر ظہور زندگی و ارتقا سے متعلق اس بہترین مضمون کو ٹیکسٹ فارمیٹ میں یہاں پیش کر سکتے ہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
کبھی کہا جاتا ہے کہ کسی سپیشی کے خواص کی تبدیلی کو ارتقا نہ سمجھا جائے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ سمجھا جائے۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی!
انواع کے جینوم میں ہر وہ تغیر و تبدیلی جو اگلی نسلوں تک منتقل ہو جائے ارتقا کہلاتی ہے۔ انواع کے خواص میں تبدیلی ان کی اگلی نسلوں کےجینوم(DNA or RNA) میں قدرتی تغیر (mutation) اور ماحول کے قدرتی انتخاب (natural selection) کی وجہ سے نظر آتی ہے:
27300_evo_resources_resource_image_320_original.gif

18256_evo_resources_resource_image_321_original.gif

61275_evo_resources_resource_image_322_original.gif

29583_evo_resources_resource_image_323_original.gif

الغرض روئے زمین پر موجود ہرجاندار اسی پراسیس سے بار بار گزرتے ہوئے ارتقا کرتا رہا ہے۔ کر رہا ہے۔ اور کرتا رہے گا۔ روک سکو تو روک لو!
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
جاسم صاحب ارتقاء کے موضوع سے ہٹ گئے کیونکہ ان بے جان مالیکولز کا تذکرہ موصوف نے فرمایا تھا۔
جانداروں کا آغاز۔ کائنات کے آغاز پر تو کافی حد تک متفق ہیں بگ بینگ تھیوری کی صورت۔
زمین پر زندگی کا ظہور اور اس کے ارتقا کا آپس میں علیت یا سببیت کا رشتہ ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ پہلے سے موجود زندگی کے بغیر اس کا ارتقا ہو جائے۔ ارتقا کے لئے کسی زندہ شے کا موجود ہونا ضروری ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
وجاہت حسین !
آصف اثر !
ماشاءاللہ آپ دونوں اپنے اپنے خیالات میں بہت پختہ ہیں۔ اللہ نے علم بھی دیا ہے۔ آپ اپنے خیالات و آراء کا اظہار بہت اچھے طریقہ سے کر بھی رہے ہیں۔ اللہ سے دونوں بھائیوں کے لیے دعا ہے کہ وہ آپ کو آسانیاں اور خوشیاں عطا فرمائے۔ آپ دونوں سمیت ہم سب کو نورِ ہدایت اور نورِ بصیرت عطا فرمائے۔ اپنی نظروں میں چھوٹا اور لوگوں کی نظروں میں بڑا بنائے۔ آمین!
بھائیو! انسان آخر دم تک سیکھتا رہتا ہے۔ ہم بھی سیکھ رہے ہیں۔ اور اس دھاگہ نے ہمیں دو تو کیا گویا چار اطراف کی سیر تو ضرور ہی کرا دی ہے۔:D
لیکن ہم جب بھی بات کریں تو یہ دھیان رہے کہ ہمارے مخاطب بھی ہمارے ہی طرح ہیں۔ جس طرح ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہمیں دوسروں سے عزت و احترام ملے۔ ایسے ہی دوسرے بھی ہماری طرف سے عزت و احترام کے مستحق ہیں۔
کوشش کریں کہ اپنی بات ذاتیات پہ اترے بغیر کر سکیں۔ اس سے ماحول تو پُرسکون رہے گا ہی ۔۔۔یقین مانیں آپ کے اور ہمارے دل مطمئن ہوں گے۔
آپ کے پاس مجھ سے کہیں زیادہ علم ہے کہ اللہ سب کا "رب" ہے۔
بہت شکریہ اور گُڈ جاب جاسمن۔ میں عموما ایسے سلسلوں میں حصہ لینے سے گریز کرتی ہوں کیوں کہ اکثر لوگ گفتگو کو بحث برائے بحث اور پھر ذاتیات پر اترنے کی طرف لے جاتے ہیں۔ جو کہ کسی صورت بھی درست نہیں۔
مدیران اور منتظمین سے یہ توقع رہتی ہے کہ وہ گفتگو کو جو موڈریٹ کریں جو ہمیشہ بہت موثر طریقے سے ہوتا بھی آیا ہے۔ موڈریٹر چاہے خود واضح طور پر بھی کسی ایک نقطہ نظر سے متفق ہو، اسے پھر بھی صورت حال کو سنبھالے رکھنا ہوتا ہے جو کہ آسان کام نہیں ہے۔ آپ لوگ ما شاءاللہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔
جیسے ابھی آپ نے نام لے کر اپنا پوائنٹ سب کو سمجھا دیا، میرا خیال ہے کہ یہ بھی ایک اچھی حکمتِ عملی ہے کیوں کہ بعض اوقات دلائل دینے کے جوش میں ہمیں خود اندازہ نہیں ہوتا کہ ہم کتنے جذباتی ہو چکے ہیں اور کتنی غیر ذمہ دارانہ باتیں کر چکے ہیں یا دوسروں کی دل آزاری کر چکے ہیں۔
 
آخری تدوین:

وجاہت حسین

محفلین
وجاہت حسین !
آصف اثر !
ماشاءاللہ آپ دونوں اپنے اپنے خیالات میں بہت پختہ ہیں۔ اللہ نے علم بھی دیا ہے۔ آپ اپنے خیالات و آراء کا اظہار بہت اچھے طریقہ سے کر بھی رہے ہیں۔ اللہ سے دونوں بھائیوں کے لیے دعا ہے کہ وہ آپ کو آسانیاں اور خوشیاں عطا فرمائے۔ آپ دونوں سمیت ہم سب کو نورِ ہدایت اور نورِ بصیرت عطا فرمائے۔ اپنی نظروں میں چھوٹا اور لوگوں کی نظروں میں بڑا بنائے۔ آمین!
بھائیو! انسان آخر دم تک سیکھتا رہتا ہے۔ ہم بھی سیکھ رہے ہیں۔ اور اس دھاگہ نے ہمیں دو تو کیا گویا چار اطراف کی سیر تو ضرور ہی کرا دی ہے۔:D
لیکن ہم جب بھی بات کریں تو یہ دھیان رہے کہ ہمارے مخاطب بھی ہمارے ہی طرح ہیں۔ جس طرح ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہمیں دوسروں سے عزت و احترام ملے۔ ایسے ہی دوسرے بھی ہماری طرف سے عزت و احترام کے مستحق ہیں۔
کوشش کریں کہ اپنی بات ذاتیات پہ اترے بغیر کر سکیں۔ اس سے ماحول تو پُرسکون رہے گا ہی ۔۔۔یقین مانیں آپ کے اور ہمارے دل مطمئن ہوں گے۔
آپ کے پاس مجھ سے کہیں زیادہ علم ہے کہ اللہ سب کا "رب" ہے۔


ٹیگ تو کر دیا لیکچر میں۔ غلطی بھی بتا دی ہوتی۔ اور حیرت کی بات یہ کہ بس دو ہی نام نظر آئے۔ شاباش ہے آپ کو، آئندہ اب پرہیز ہی کریں گے محفل میں کچھ کہنے سے۔شکریہ۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
ٹیگ تو کر دیا لیکچر میں۔ غلطی بھی بتا دی ہوتی۔ اور حیرت کی بات یہ کہ بس دو ہی نام نظر آئے۔ شاباش ہے آپ کو، آئندہ اب پرہیز ہی کریں گے محفل میں کچھ کہنے سے۔شکریہ۔
آپ کی کچھ باتوں سے اتفاق نہیں لیکن کم از کم مجھے آپ کے طرف سے کوئی غیر معیاری گفتگو دکھائی نہیں دی۔ ایسا صرف وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کی نظر میں علم اور جہالت برابر ہیں
 

ربیع م

محفلین
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زمرے میں ارتقاء یا تخلیق پر سائنسی حوالے سے گفتگو کے دوران نجانے کب بات آدم علیہ السلام کی جنت سے بے دخلی تک جا پہنچی ۔ اور میں نجانے کیوں اس میں ناچاہتے ہوئے بھی کود رہا ہوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ اس لڑی یا زمرے کا موضوع نہیں اور اپنے علم قابلیت اور مرتبے میں میں سب سے کمتر ہوں ۔ بہرحال مدیران اور منتظمین اگر میری بے ربط باتوں کو موضوع اور زمرے سے ہٹا ہوا دیکھ کر ہٹانا یا منتقل کرنا چاہیں تو میری طرف سے اجازت ہے ۔

یہاں بہت سی سمتوں میں رواں گفتگو کے دوران ارتقاء کو قرآن کریم سے ثابت کرنے کا ذکر بھی چھڑ گیا ہے اور اسی کے ضمن میں یہ بات بھی چل نکلی کہ آدم علیہ السلام اور ان کی زوجہ ( یا ایک فریق کے مطابق زوج سے مراد بیوی نہیں کچھ اور ہے ، اب کچھ اور کیا ہے یہ وہ بھی نہیں بتا پا رہے ) جس جنت سے نکالے گئے وہ جنت ارضی تھی یا جنت خلد وہ جنت جس میں اہل ایمان روزقیامت حساب کے بعد داخل ہوں گے ۔

درحقیقت یہ بہت قدیم بحث ہے ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جس جنت میں آدم علیہ السلام اور ان کی زوجہ کو ٹھہرایا گیا تھا وہ سلف امت اور علماء کے ہاں جنت خلد ہی ہے جبکہ اس کا انکا ر کرنے والوں کی اکثریت یا تو ملحدین کی ہے یا ان عقل پرست متکلمین کی جو قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور معجزات اور ایسی باتیں جو انسانی عقل کے احاطہ میں نہیں آ سکتیں ان کی تاویلات کرتے ہیں ۔

وہ محض اس بنیاد پر انکار کرتے ہیں کہ ایسا ہونا ازروئے عقل درست معلوم نہیں ہوتا چنانچہ کھینچ تان کر اس کا انکا ر کرتے ہیں چاہے اس کیلئے کئی معانی گھڑنے پڑیں ، ایسے لوگوں کی اکثریت معجزات اور یہاں تک کہ روزحساب اور جنت وجہنم سے ہی انکاری ہے ۔

جنت سے مراد دنیا کی جنت ہے ؟

صاحب تحریر کا کہنا ہے کہ جنت سے مراد کوئی بھی باغ ہو سکتا ہے جیسا کہ قرآن میں بھی کئی مقامات پر جنت بمعنی ٰ باغ ذکر کیا گیا ہے ؟

ان کے دعویٰ کو دیکھا جائے تو جنت قرآن میں جہاں کہیں بھی بمعنیٰ عام باغ کے آیا ہے وہاں نکرہ کی صورت میں آیا ہے جب کہ جہاں جنت خلد کا تذکرہ ہے وہاں جنت معرفہ ہے جیسا کہ آدم علیہ السلام کے واقعہ میں جتنی بار بھی جنت کا ذکر ہے وہ معرف بالالف واللام ہے ۔اس طرح سے یہ ایک عَلَم (عربی گرائمر کی رو سے ایک خاص جگہ کا نام) ہوگیا اگر اس سے مراد کوئی عام جنت بمعنی باغ ہوتا تواسے نکرہ لایا جاتا۔

اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ نے جنت آدم کی جو خوبیاں بیان کی ہیں وہ بھی دنیا کے کسی باغ میں نہیں ۔

سورۃ طہ میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں :

إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى (118 وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَى (119)

بیشک تیرے لئے یہ ہے کہ تو اس میں نہ بھوکا ہو گا اور نہ ننگا ہو گا اور یہ کہ تو اس میں نہ پیاسا ہو گا اور نہ دھوپ کھائے گا

دنیا میں کوئی ایسا باغ نہیں جس میں آدمی کو بھوک پیاس نہ لگے نہ انسان ننگا ہو اور نہ ہی دھوپ اسے تنگ کرے ۔

اسی طرح بہت سی احادیث میں اس بارے میں وضاحت موجود ہے جیسا کہ :

روى مسلم (195) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وعَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( يَجْمَعُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى النَّاسَ ، فَيَقُومُ الْمُؤْمِنُونَ حَتَّى تُزْلَفَ لَهُمُ الْجَنَّةُ ، فَيَأْتُونَ آدَمَ ، فَيَقُولُونَ: يَا أَبَانَا ، اسْتَفْتِحْ لَنَا الْجَنَّةَ ، فَيَقُولُ : وَهَلْ أَخْرَجَكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا خَطِيئَةُ أَبِيكُمْ آدَمَ ، لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَلِكَ ، اذْهَبُوا إِلَى ابْنِي إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ اللهِ ... )


صحیح مسلم میں ابو ہریرۃ اور حذیفہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تبارک وتعالیٰ لوگوں کو جمع کریں گے ،مومن کھڑے ہوں گے یہاں تک کہ جنت ان کے قریب لائی جائے گی تو وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے ہمارے باپ ! ہمارے لیے جنت کھلوائیے ، وہ جواب میں کہیں گے کہ تمہیں جنت سے تمہارے باپ کی غلطی نے ہی نکلوایا ہے میں اس کا اہل نہیں ، میرے بیٹے ابراہیم خلیل اللہ کے پاس جاؤ۔۔۔

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جس جنت سے انھیں نکالا گیا یہ بعین وہی جنت ہے جس کے کھلوانے کا ان سے مطالبہ کیا جائے گا

اهْبِطُوا کا معنی ٰ

فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (36)

وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ کا اهْبِطُوا کے بعد آنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس سے قبل زمین پر نہ تھے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ زمین پر نہ تھے انھیں زمین پر اتارا گیا، اگر وہ زمین پر ہوتے اور زمین کے ایک ٹکڑے سے دوسری جگہ ان کو منتقل کیا جاتا جیسا کہ قوم موسیٰ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا تو زمین میں ایک مقررہ مدت تک ان کا مستقر اور متاع اس ھبوط (انتقال)سے پہلے ہونا تھا۔

اسی کو مزید واضح کرتے ہوئے سورۃ اعراف میں فرمایا:

قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (24)

اس بات کا واضح بیان ہے کہ زمین کی جانب اس کے غیر سے نزول ہو رہا ہے ۔

اگلی آیت میں :

قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ (25)

اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے پہلے وہ ایسی جگہ پر نہ تھے جہاں انھیں زندہ کیا جاتا انھیں مارا جاتا اور اس سے انھیں نکالا جاتا ، اس جگہ پر تب پہنچے جب انھیں جنت سے اتارا گیا۔


زوج سے کیا مراد ؟

صاحب تحریر کا بھرپور اصرار ہے کہ اس زوج سے مراد کچھ اور تو ہو سکتا ہے لیکن بیوی ہرگز نہیں ، حالانکہ یہ ترجمہ میں عام اصول ہے کہ جب ایک لفظ کے کئی ایک مطالب ہوں تو سب سے پہلے معروف ترین اور سب سے موزوں ترجمہ لیا جاتا ہے الا کہ کوئی قرینہ صارفہ ہو۔

یہاں قرینہ صارفہ بظاہر نظر تو آتا نہیں البتہ موصوف مصر ہیں کہ بیوی کا ترجمہ نہیں کرنا جبکہ باقی جو مرضی ترجمہ کر لیجئے ۔ قرآن کریم اس کی وضاحت ایک دوسری جگہ پر ہی کر دیتا ہے ۔

يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ ۔۔۔(27)

اے بنی آدم ! کہیں شیطان تمہیں فتنے میں نہ ڈال دے ، جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا ،

یہاں اب واضح معلوم ہو رہا ہے کہ زوج کا مطلب کیا ہے.

اس کے باوجود اگر آپ اس بات پر بضد رہنا چاہتے ہیں کہ یہ دنیا کا کوئی عام باغ تھا اور زوج سے مراد ان کی بیوی نہیں تو بصد شوق رہیں ۔

والسلام
 
آخری تدوین:

وجاہت حسین

محفلین
آپ کی کچھ باتوں سے اتفاق نہیں لیکن کم از کم مجھے آپ کے طرف سے کوئی غیر معیاری گفتگو دکھائی نہیں دی۔ ایسا صرف وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کی نظر میں علم اور جہالت برابر ہیں
شکریہ جناب۔
جب میں اختلاف کرتا ہوں تو میں یہ بھی توقع رکھتا ہوں کہ میری بات سے بھی سخت اختلاف کیا جائے گا۔ اس کا رد کیا جائے گا۔ یہ چیز میرے لئے ذرہ برابر تکلیف کا باعث نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اختلاف علم میں ارتقاء کا باعث بنتا ہے۔ ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو کھلے دل و دماغ سے سننا چاہیئے۔ مجھے گفتگو کے دوران کوئی مسئلہ نہیں ہوا، کیونکہ جب کبھی بحث ہوتی ہے یہ چیزیں فطرتاً ہو جاتی ہیں۔

البتہ بلا امتیاز ہر ایک کو ایک ہی رنگ میں رنگ کر لیکچر دینے والوں کی بات پر تکلیف ہوئی، کانٹوں میں پھول رکھ کر دینے والی بات تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ زمین پر نہ تھے انھیں زمین پر اتارا گیا
صحیح فرمایا۔ میں اس منطق کے حق میں بالکل نہیں ہوں کہ کسی نئی سائنسی دریافت، تھیوری وغیرہ کی بنیاد پر زمانہ سلف سے چلے آنے والی دینی تشریحات کو تبدیل کر دیا جائے۔ یا قدیم مذہبی نظریات میں دور جدید کے سائنسی نظریات ٹھونس کر ان میں باہم مطابقت پیدا کرنے کی بھونڈی سی کوشش کی جائے۔ اور اس کا جواز ان ”نئے مطالب“ کو بنایا جائے، جو سائنسی تحقیق سے حال ہی میں حاصل ہوئے ہوں۔
ایسا بار بار کرنے سے کئی خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ جیسے جدیدسائنسی نظریات کو مکمل پڑھنے، سمجھنے کی بجائے محض اس پر مطمئن ہو جانا کہ مذہب بھی تو وہی کہتا ہے جو سائنس کہہ رہی ہے۔ یوں مزید فکر و تدبر کے دروازے خود پر ہمیشہ کے لئے بند ۔
نیز جدید سائنسی نظریات کا قدیم آبائی مذہب سے تقابل کر کے ہمارے جان سے قیمتی ایمان کو غیر ضروری ٹھیس و تکلیف پہنچائی جاتی ہے۔ جبکہ سائنسی محققین، اکابرین و فلسفیوں کی اپنےاپنے میدان میں محنت کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہوتا کہ معاشرہ میں صدیوں سے قائم دین و مذہب کے ساتھ ٹکراؤ پیدا کیا جائے۔ یاکسی کے دین ایمان کو ناحق ضرب لگائی جائے۔
سائنسی علوم حاصل کرنے کا بنیادی مقصد سائنس کے مروجہ طریق کے مطابق قدرت کی تسخیر ہے۔ جس کا بیان قرآنی تعلیمات کی روشنی میں واضح ہے:
غاروں سے لے کر جدید دنیا تک کے اب تک کے سفر میں اﷲ تعالی کا قانون ِ تدریج عمل میں رہا اور ائندہ بھی رہے گا۔ اﷲ تعالی نے انسان کو تدریج کے ساتھ علم کی دولت سے فیض یاب کیا ہے۔ انسان کو آج تمام تر علمی اور تکنیکی ترقی حاصل کرنے کے بعد بھی آفاقی مظاہر پر ناتمام تسخیر ہی حاصل ہے۔ اس سے کائنات پر اﷲ تعالی زبردست گرفت کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر اﷲ تعالی نے سورہ ابراہیم آیت 33 میں کہا ہے کہ اسی نے سورج اور چاند کو ہمارے لیے مسخر کر دیا ہے لیکن مسخر کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سورج کو اب انسان جس سمت سے چاہے نکال سکتا ہے بل کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج پر تحقیق کرکے انسان اپنی زندگی کے اعتبار سے، سورج کے کچھ منفی اور مثبت پہلوؤں پر محدود اور ناتمام دسترس حاصل کر سکتا ہے۔

انسان اشرف المخلوقات صرف اس لئے نہیں ہےکہ وہ قرآن سے ہدایت پا کر بس روحانی دنیا میں مگن رہے۔ بلکہ روحانیت کے ساتھ ساتھ اپنا ذہین ترین دماغ بروئے کار لا تے ہوئے مادی دنیا کی تسخیر کا شرف بھی حاصل کرے۔ جو جو اس دماغ کی قوت سے مادی دنیا مسخر کر لیتے ہیں۔ان کو سائنسی نظریہ ارتقا سمجھ میں آجاتا ہے۔ جنہوں نے دماغ کھولنا ہی نہیں۔ ان کا علاج تو بڑے سے بڑے حکیم کے پاس بھی نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:
شکریہ جناب۔
جب میں اختلاف کرتا ہوں تو میں یہ بھی توقع رکھتا ہوں کہ میری بات سے بھی سخت اختلاف کیا جائے گا۔ اس کا رد کیا جائے گا۔ یہ چیز میرے لئے ذرہ برابر تکلیف کا باعث نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اختلاف علم میں ارتقاء کا باعث بنتا ہے۔ ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو کھلے دل و دماغ سے سننا چاہیئے۔ مجھے گفتگو کے دوران کوئی مسئلہ نہیں ہوا، کیونکہ جب کبھی بحث ہوتی ہے یہ چیزیں فطرتاً ہو جاتی ہیں۔

البتہ بلا امتیاز ہر ایک کو ایک ہی رنگ میں رنگ کر لیکچر دینے والوں کی بات پر تکلیف ہوئی، کانٹوں میں پھول رکھ کر دینے والی بات تھی۔
مجھے بھی آپ کے اندازِ استدلال سے اختلاف ہونے کے باوجود آپ کے انداز تحریر میں کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آئی۔
 
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زمرے میں ارتقاء یا تخلیق پر سائنسی حوالے سے گفتگو کے دوران نجانے کب بات آدم علیہ السلام کی جنت سے بے دخلی تک جا پہنچی ۔ اور میں نجانے کیوں اس میں ناچاہتے ہوئے بھی کود رہا ہوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ اس لڑی یا زمرے کا موضوع نہیں اور اپنے علم قابلیت اور مرتبے میں میں سب سے کمتر ہوں ۔ بہرحال مدیران اور منتظمین اگر میری بے ربط باتوں کو موضوع اور زمرے سے ہٹا ہوا دیکھ کر ہٹانا یا منتقل کرنا چاہیں تو میری طرف سے اجازت ہے ۔

یہاں بہت سی سمتوں میں رواں گفتگو کے دوران ارتقاء کو قرآن کریم سے ثابت کرنے کا ذکر بھی چھڑ گیا ہے اور اسی کے ضمن میں یہ بات بھی چل نکلی کہ آدم علیہ السلام اور ان کی زوجہ ( یا ایک فریق کے مطابق زوج سے مراد بیوی نہیں کچھ اور ہے ، اب کچھ اور کیا ہے یہ وہ بھی نہیں بتا پا رہے ) جس جنت سے نکالے گئے وہ جنت ارضی تھی یا جنت خلد وہ جنت جس میں اہل ایمان روزقیامت حساب کے بعد داخل ہوں گے ۔

درحقیقت یہ بہت قدیم بحث ہے ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جس جنت میں آدم علیہ السلام اور ان کی زوجہ کو ٹھہرایا گیا تھا وہ سلف امت اور علماء کے ہاں جنت خلد ہی ہے جبکہ اس کا انکا ر کرنے والوں کی اکثریت یا تو ملحدین کی ہے یا ان عقل پرست متکلمین کی جو قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور معجزات اور ایسی باتیں جو انسانی عقل کے احاطہ میں نہیں آ سکتیں ان کی تاویلات کرتے ہیں ۔

وہ محض اس بنیاد پر انکار کرتے ہیں کہ ایسا ہونا ازروئے عقل درست معلوم نہیں ہوتا چنانچہ کھینچ تان کر اس کا انکا ر کرتے ہیں چاہے اس کیلئے کئی معانی گھڑنے پڑیں ، ایسے لوگوں کی اکثریت معجزات اور یہاں تک کہ روزحساب اور جنت وجہنم سے ہی انکاری ہے ۔

جنت سے مراد دنیا کی جنت ہے ؟

صاحب تحریر کا کہنا ہے کہ جنت سے مراد کوئی بھی باغ ہو سکتا ہے جیسا کہ قرآن میں بھی کئی مقامات پر جنت بمعنی ٰ باغ ذکر کیا گیا ہے ؟

ان کے دعویٰ کو دیکھا جائے تو جنت قرآن میں جہاں کہیں بھی بمعنیٰ عام باغ کے آیا ہے وہاں نکرہ کی صورت میں آیا ہے جب کہ جہاں جنت خلد کا تذکرہ ہے وہاں جنت معرفہ ہے جیسا کہ آدم علیہ السلام کے واقعہ میں جتنی بار بھی جنت کا ذکر ہے وہ معرف باللام ہے ۔اس طرح سے یہ ایک عَلَم (عربی گرائمر کی رو سے ایک خاص جگہ کا نام) ہوگیا اگر اس سے مراد کوئی عام جنت بمعنی باغ ہوتا تواسے نکرہ لایا جاتا۔

اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ نے جنت آدم کی جو خوبیاں بیان کی ہیں وہ بھی دنیا کے کسی باغ میں نہیں ۔

سورۃ طہ میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں :

إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى (118 وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَى (119)

بیشک تیرے لئے یہ ہے کہ تو اس میں نہ بھوکا ہو گا اور نہ ننگا ہو گا اور یہ کہ تو اس میں نہ پیاسا ہو گا اور نہ دھوپ کھائے گا

دنیا میں کوئی ایسا باغ نہیں جس میں آدمی کو بھوک پیاس نہ لگے نہ انسان ننگا ہو اور نہ ہی دھوپ اسے تنگ کرے ۔

اسی طرح بہت سی احادیث میں اس بارے میں وضاحت موجود ہے جیسا کہ :

روى مسلم (195) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وعَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( يَجْمَعُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى النَّاسَ ، فَيَقُومُ الْمُؤْمِنُونَ حَتَّى تُزْلَفَ لَهُمُ الْجَنَّةُ ، فَيَأْتُونَ آدَمَ ، فَيَقُولُونَ: يَا أَبَانَا ، اسْتَفْتِحْ لَنَا الْجَنَّةَ ، فَيَقُولُ : وَهَلْ أَخْرَجَكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا خَطِيئَةُ أَبِيكُمْ آدَمَ ، لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَلِكَ ، اذْهَبُوا إِلَى ابْنِي إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ اللهِ ... )


صحیح مسلم میں ابو ہریرۃ اور حذیفہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تبارک وتعالیٰ لوگوں کو جمع کریں گے ،مومن کھڑے ہوں گے یہاں تک کہ جنت ان کے قریب لائی جائے گی تو وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے ہمارے باپ ! ہمارے لیے جنت کھلوائیے ، وہ جواب میں کہیں گے کہ تمہیں جنت سے تمہارے باپ کی غلطی نے ہی نکلوایا ہے میں اس کا اہل نہیں ، میرے بیٹے ابراہیم خلیل اللہ کے پاس جاؤ۔۔۔

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جس جنت سے انھیں نکالا گیا یہ بعین وہی جنت ہے جس کے کھلوانے کا ان سے مطالبہ کیا جائے گا

اهْبِطُوا کا معنی ٰ

فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (36)

وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ کا اهْبِطُوا کے بعد آنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس سے قبل زمین پر نہ تھے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ زمین پر نہ تھے انھیں زمین پر اتارا گیا، اگر وہ زمین پر ہوتے اور زمین کے ایک ٹکڑے سے دوسری جگہ ان کو منتقل کیا جاتا جیسا کہ قوم موسیٰ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا تو زمین میں ایک مقررہ مدت تک ان کا مستقر اور متاع اس ھبوط (انتقال)سے پہلے ہونا تھا۔

اسی کو مزید واضح کرتے ہوئے سورۃ اعراف میں فرمایا:

قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (24)

اس بات کا واضح بیان ہے کہ زمین کی جانب اس کے غیر سے نزول ہو رہا ہے ۔

اگلی آیت میں :

قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ (25)

اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے پہلے وہ ایسی جگہ پر نہ تھے جہاں انھیں زندہ کیا جاتا انھیں مارا جاتا اور اس سے انھیں نکالا جاتا ، اس جگہ پر تب پہنچے جب انھیں جنت سے اتارا گیا۔


زوج سے کیا مراد ؟

صاحب تحریر کا بھرپور اصرار ہے کہ اس زوج سے مراد کچھ اور تو ہو سکتا ہے لیکن بیوی ہرگز نہیں ، حالانکہ یہ ترجمہ میں عام اصول ہے کہ جب ایک لفظ کے کئی ایک مطالب ہوں تو سب سے پہلے معروف ترین اور سب سے موزوں ترجمہ لیا جاتا ہے الا کہ کوئی قرینہ صارفہ ہو۔

یہاں قرینہ صارفہ بظاہر نظر تو آتا نہیں البتہ موصوف مصر ہیں کہ بیوی کا ترجمہ نہیں کرنا جبکہ باقی جو مرضی ترجمہ کر لیجئے ۔ قرآن کریم اس کی وضاحت ایک دوسری جگہ پر ہی کر دیتا ہے ۔

يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ ۔۔۔(27)

اے بنی آدم ! کہیں شیطان تمہیں فتنے میں نہ ڈال دے ، جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا ،

یہاں اب واضح معلوم ہو رہا ہے کہ زوج کا مطلب کیا ہے.

اس کے باوجود اگر آپ اس بات پر بضد رہنا چاہتے ہیں کہ یہ دنیا کا کوئی عام باغ تھا اور زوج سے مراد ان کی بیوی نہیں تو بصد شوق رہیں ۔

والسلام
اچھی تحریر۔
 

یاسر شاہ

محفلین
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زمرے میں ارتقاء یا تخلیق پر سائنسی حوالے سے گفتگو کے دوران نجانے کب بات آدم علیہ السلام کی جنت سے بے دخلی تک جا پہنچی ۔ اور میں نجانے کیوں اس میں ناچاہتے ہوئے بھی کود رہا ہوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ اس لڑی یا زمرے کا موضوع نہیں اور اپنے علم قابلیت اور مرتبے میں میں سب سے کمتر ہوں ۔ بہرحال مدیران اور منتظمین اگر میری بے ربط باتوں کو موضوع اور زمرے سے ہٹا ہوا دیکھ کر ہٹانا یا منتقل کرنا چاہیں تو میری طرف سے اجازت ہے ۔

یہاں بہت سی سمتوں میں رواں گفتگو کے دوران ارتقاء کو قرآن کریم سے ثابت کرنے کا ذکر بھی چھڑ گیا ہے اور اسی کے ضمن میں یہ بات بھی چل نکلی کہ آدم علیہ السلام اور ان کی زوجہ ( یا ایک فریق کے مطابق زوج سے مراد بیوی نہیں کچھ اور ہے ، اب کچھ اور کیا ہے یہ وہ بھی نہیں بتا پا رہے ) جس جنت سے نکالے گئے وہ جنت ارضی تھی یا جنت خلد وہ جنت جس میں اہل ایمان روزقیامت حساب کے بعد داخل ہوں گے ۔

درحقیقت یہ بہت قدیم بحث ہے ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جس جنت میں آدم علیہ السلام اور ان کی زوجہ کو ٹھہرایا گیا تھا وہ سلف امت اور علماء کے ہاں جنت خلد ہی ہے جبکہ اس کا انکا ر کرنے والوں کی اکثریت یا تو ملحدین کی ہے یا ان عقل پرست متکلمین کی جو قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور معجزات اور ایسی باتیں جو انسانی عقل کے احاطہ میں نہیں آ سکتیں ان کی تاویلات کرتے ہیں ۔

وہ محض اس بنیاد پر انکار کرتے ہیں کہ ایسا ہونا ازروئے عقل درست معلوم نہیں ہوتا چنانچہ کھینچ تان کر اس کا انکا ر کرتے ہیں چاہے اس کیلئے کئی معانی گھڑنے پڑیں ، ایسے لوگوں کی اکثریت معجزات اور یہاں تک کہ روزحساب اور جنت وجہنم سے ہی انکاری ہے ۔

جنت سے مراد دنیا کی جنت ہے ؟

صاحب تحریر کا کہنا ہے کہ جنت سے مراد کوئی بھی باغ ہو سکتا ہے جیسا کہ قرآن میں بھی کئی مقامات پر جنت بمعنی ٰ باغ ذکر کیا گیا ہے ؟

ان کے دعویٰ کو دیکھا جائے تو جنت قرآن میں جہاں کہیں بھی بمعنیٰ عام باغ کے آیا ہے وہاں نکرہ کی صورت میں آیا ہے جب کہ جہاں جنت خلد کا تذکرہ ہے وہاں جنت معرفہ ہے جیسا کہ آدم علیہ السلام کے واقعہ میں جتنی بار بھی جنت کا ذکر ہے وہ معرف باللام ہے ۔اس طرح سے یہ ایک عَلَم (عربی گرائمر کی رو سے ایک خاص جگہ کا نام) ہوگیا اگر اس سے مراد کوئی عام جنت بمعنی باغ ہوتا تواسے نکرہ لایا جاتا۔

اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ نے جنت آدم کی جو خوبیاں بیان کی ہیں وہ بھی دنیا کے کسی باغ میں نہیں ۔

سورۃ طہ میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں :

إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى (118 وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَى (119)

بیشک تیرے لئے یہ ہے کہ تو اس میں نہ بھوکا ہو گا اور نہ ننگا ہو گا اور یہ کہ تو اس میں نہ پیاسا ہو گا اور نہ دھوپ کھائے گا

دنیا میں کوئی ایسا باغ نہیں جس میں آدمی کو بھوک پیاس نہ لگے نہ انسان ننگا ہو اور نہ ہی دھوپ اسے تنگ کرے ۔

اسی طرح بہت سی احادیث میں اس بارے میں وضاحت موجود ہے جیسا کہ :

روى مسلم (195) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وعَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( يَجْمَعُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى النَّاسَ ، فَيَقُومُ الْمُؤْمِنُونَ حَتَّى تُزْلَفَ لَهُمُ الْجَنَّةُ ، فَيَأْتُونَ آدَمَ ، فَيَقُولُونَ: يَا أَبَانَا ، اسْتَفْتِحْ لَنَا الْجَنَّةَ ، فَيَقُولُ : وَهَلْ أَخْرَجَكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا خَطِيئَةُ أَبِيكُمْ آدَمَ ، لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَلِكَ ، اذْهَبُوا إِلَى ابْنِي إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ اللهِ ... )


صحیح مسلم میں ابو ہریرۃ اور حذیفہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تبارک وتعالیٰ لوگوں کو جمع کریں گے ،مومن کھڑے ہوں گے یہاں تک کہ جنت ان کے قریب لائی جائے گی تو وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے ہمارے باپ ! ہمارے لیے جنت کھلوائیے ، وہ جواب میں کہیں گے کہ تمہیں جنت سے تمہارے باپ کی غلطی نے ہی نکلوایا ہے میں اس کا اہل نہیں ، میرے بیٹے ابراہیم خلیل اللہ کے پاس جاؤ۔۔۔

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جس جنت سے انھیں نکالا گیا یہ بعین وہی جنت ہے جس کے کھلوانے کا ان سے مطالبہ کیا جائے گا

اهْبِطُوا کا معنی ٰ

فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (36)

وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ کا اهْبِطُوا کے بعد آنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس سے قبل زمین پر نہ تھے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ زمین پر نہ تھے انھیں زمین پر اتارا گیا، اگر وہ زمین پر ہوتے اور زمین کے ایک ٹکڑے سے دوسری جگہ ان کو منتقل کیا جاتا جیسا کہ قوم موسیٰ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا تو زمین میں ایک مقررہ مدت تک ان کا مستقر اور متاع اس ھبوط (انتقال)سے پہلے ہونا تھا۔

اسی کو مزید واضح کرتے ہوئے سورۃ اعراف میں فرمایا:

قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (24)

اس بات کا واضح بیان ہے کہ زمین کی جانب اس کے غیر سے نزول ہو رہا ہے ۔

اگلی آیت میں :

قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ (25)

اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے پہلے وہ ایسی جگہ پر نہ تھے جہاں انھیں زندہ کیا جاتا انھیں مارا جاتا اور اس سے انھیں نکالا جاتا ، اس جگہ پر تب پہنچے جب انھیں جنت سے اتارا گیا۔


زوج سے کیا مراد ؟

صاحب تحریر کا بھرپور اصرار ہے کہ اس زوج سے مراد کچھ اور تو ہو سکتا ہے لیکن بیوی ہرگز نہیں ، حالانکہ یہ ترجمہ میں عام اصول ہے کہ جب ایک لفظ کے کئی ایک مطالب ہوں تو سب سے پہلے معروف ترین اور سب سے موزوں ترجمہ لیا جاتا ہے الا کہ کوئی قرینہ صارفہ ہو۔

یہاں قرینہ صارفہ بظاہر نظر تو آتا نہیں البتہ موصوف مصر ہیں کہ بیوی کا ترجمہ نہیں کرنا جبکہ باقی جو مرضی ترجمہ کر لیجئے ۔ قرآن کریم اس کی وضاحت ایک دوسری جگہ پر ہی کر دیتا ہے ۔

يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ ۔۔۔(27)

اے بنی آدم ! کہیں شیطان تمہیں فتنے میں نہ ڈال دے ، جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا ،

یہاں اب واضح معلوم ہو رہا ہے کہ زوج کا مطلب کیا ہے.

اس کے باوجود اگر آپ اس بات پر بضد رہنا چاہتے ہیں کہ یہ دنیا کا کوئی عام باغ تھا اور زوج سے مراد ان کی بیوی نہیں تو بصد شوق رہیں ۔

والسلام

السلام علیکم !

بخوبی جنّت سے دنیا کے ھبوط کو ثابت کیا -فیصلہ کن استدلال -مزہ آگیا -آپ کو تو ابتدا سے شامل رہنا چاہیے تھا بحث میں -اہل علم حضرات کی بات سامنے نہیں آئے گی تو تیری میری اِس اُس کی آئے گی جو کہ نقصان دہ ہے -میں نے اسی موقعہ کی مناسبت سے لکھ رکھا ہے :


خمیسو خان گوالے ہیں گائے رکھتے ہیں
کرو جو دین کی بات ایک رائے رکھتے ہیں
 
Top