نہ کھاتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

عرفان سعید

محفلین
(اقبال سے معذرت کے ساتھ)

نہ کھاتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
جو کھائی تھی مرغی وہ بیمار کیا تھی

تمہاری سہیلی نے سب راز کھولا
خطا اس میں شوہر کی سرکار کیا تھی

بھری بزم میں بیوی نے بھی لتاڑا
چھڑی ہاتھ میں تھی یا تلوار، کیا تھی

تو بھاگا نظرآتے ہی اس کا ابا
ذرا یہ بتا تیری رفتار کیا تھی

ملی ہے جو دفتر میں تجھ کو ترقی
کوئی ہاتھ میں آئی بھی کار کیا تھی

(عرفان)
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
واہ۔۔۔۔ :):):)
یہاں آخری شعر کے پہلے مصرع کی بندش بحر میں سما نہیں رہی۔ ترتیب بدل کر دیکھیں۔
ملی ھے جو دفتر میں تجھ کو ترقی۔
 
Top