پاکستان ایک نئے روحانی سفر کا آغاز !!

فرقان احمد

محفلین

جاسم محمد

محفلین
سہیل وڑائچ صاحب کا یہ کالم ایک طنزیہ شاہکار معلوم پڑتا ہے۔
جی ہاں۔ صاحب مضمون طنز کر رہے ہیں۔ ذیل میں ایک جملہ ملاحظہ فرمائیں:
پاکستان کا ایٹمی ملک بننا بھی ایک روحانی معجزہ تھا وگر نہ مادی طور پر کوئی اسلامی ملک ایٹم بم بنا سکتاہے؟
یہ کون نہیں جانتا کہ ایٹمی قوت کا حصول مادی ایٹم کو توڑے بغیر ممکن نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
زیارت اور عمران خان سے شادی کا حکم دینے کی خبروں کو بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی قرار دے دیا ہے۔

بشریٰ بی بی نے نجی ٹی وی چینل کو دئیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ مجھے کبھی بھی نبی کریمﷺ کی زیارت نہیں ہوئی یا عمران خان سے شادی کرنے کا حکم نہیں دیا۔ یہ بالکل جھوٹ ہے اور جس نے بھی یہ کہا ہے مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ اپنی زبان سے ایسے الفاظ ادا کر سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ نبی کریمﷺ کی کرم نوازی سے گھر بنتے ہیں، گھر ٹوٹتے نہیں ہیں، یہ بالکل جھوٹ ہے اور اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ جیسا کہ کچھ دن پہلے خبر چلی کہ میری بی بی فاطمہ سے بات ہوئی ہے، تو میں یہ سن کر اتنی حیران ہوئی کہ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر خود سے پوچھا کہ کیا میں بی بی فاطمہ سے بات کر سکتی ہوں۔

ربط

میری طرف سے معذرت ۔

 
زیارت اور عمران خان سے شادی کا حکم دینے کی خبروں کو بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی قرار دے دیا ہے۔

بشریٰ بی بی نے نجی ٹی وی چینل کو دئیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ مجھے کبھی بھی نبی کریمﷺ کی زیارت نہیں ہوئی یا عمران خان سے شادی کرنے کا حکم نہیں دیا۔ یہ بالکل جھوٹ ہے اور جس نے بھی یہ کہا ہے مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ اپنی زبان سے ایسے الفاظ ادا کر سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ نبی کریمﷺ کی کرم نوازی سے گھر بنتے ہیں، گھر ٹوٹتے نہیں ہیں، یہ بالکل جھوٹ ہے اور اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ جیسا کہ کچھ دن پہلے خبر چلی کہ میری بی بی فاطمہ سے بات ہوئی ہے، تو میں یہ سن کر اتنی حیران ہوئی کہ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر خود سے پوچھا کہ کیا میں بی بی فاطمہ سے بات کر سکتی ہوں۔

ربط

میری طرف سے معذرت ۔
عجیب چکر ہے۔ :)
 
بچپن صوفیوں کے مزاروں پر متھا ٹیکنے اور قوالیاں سننے میں گزرا تھا، جوانی میں سارا اشفاق احمد اور مختار پڑھ ڈالا اور اب بڑھاپے کی دہلیز پر اپنے دیس کے لوگوں کے حالات و واقعات سمجھنے کے لیے ٹی وی پر بیٹھے سیانوں کی بجائے کبھی کبھی عمیرہ احمد کا ناول پڑھ لیتا ہوں یا ڈرامہ دیکھ لیتا ہوں۔

بچپن سے ہمیں ایک ہی بات سمجھائی گئی تھی کہ اس مملکت خداداد کا ظاہری نظام ظاہری ہے۔ یہ اسمبلیاں، یہ جی ایچ کیو، یہ اے سی ڈی صرف ایک پردہ ہے جس کے پیچھے ایک روحانی نیٹ ورک موجود ہے وہی اس ملک کا محافظ ہے۔ ایک بزرگوں، بابوں کا خفیہ سلسلہ ہے جو ہمارا نظام چلاتا ہے۔ محترم چیف جسٹس نے اپنے آپ کو اشفاق احمد کا بابا قرار دے کر اس روحانی تھیوری کو 100 فیصد درست ثابت کر دیا تھا۔

اگر میرے جیسے تشکیک کے مارے ذہنوں میں کچھ شک شبہ تھا تو وہ خاتون اوّل محترم بشری بی بی کے پہلے انٹرویو کو دیکھ کر دور ہو گیا۔ اب ہمیں یقین ہو جانا چاہیے کہ ہمارے روحانی سفر کی منزل قریب ہے۔

چشم نظارہ تاب لا سکے تو ذرا تصور کریں کہ اسلام آباد کے بنی گالہ کی ایک سرسبز پہاڑی پر ایک ایچی سن کالج اور آکسفورڈ کا پڑھا ہوا شہزادہ اور اس کے پہلو میں پاک پتن کی عبادت گزار مہارانی (اللہ نے مجھے ہمییشہ مہارانیوں کی طرح رکھا ہے) ایک ساتھ کھڑے ہو کر درود شریف پڑھ رہے ہیں اور بارش کی دعا مانگ رہے ہیں۔ کیا اسلام آباد جیسے بابرکت شہر نے روحانیت اور روحانیت سے بھرا ہوا ایسا منظر پہلے کبھی دیکھا ہے؟ یہ قدرت اللہ شہاب کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ یہ بانو قدیسہ کے فلسفے کی عملی تفسیر ہے۔ یہ ایک ایسی حسین تصویر ہے جو حضرت مولانا طارق جمیل کے سارے بیانات سے زیادہ پرتاثیر ہے۔

روحانی معاملات میں دل تھوڑا کمزور ہے۔ کسی ماٹھے بریلوی مولوی کو بھی سن لوں تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔ آج کل حضرت خادم رضوری کو نہیں سنتا کہ کہیں طیش میں آکر اکیلا ہی کسی کافر ملک کو فتح کرنے نہ نکل پڑوں۔ اب بھی اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ کراچی کے محافظ پیر عبداللہ شاہ غازی کا ہمسایہ ہوں اور کچھ لوگ شاید ہمیں بدعتی سمجھیں میں تو غازی کے مزار پر ڈھول بجانے والے اور اسی ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالنے والے کو بھی عبادت گزار مانتا ہوں۔

بشریٰ بی بی کی صاف گوئی بھی مجھے پسند آئی۔ پاکستانی عوام کے لیے ان کا پیغام سیدھا سیدھا سا تھا کہ تم خوش قسمت لوگ ہو کہ تمھیں عمران خان جیسا وزیراعظم ملا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تم سے خوش ہے۔ عمران خان سیاستدان نہیں بلکہ اس قوم پر اللہ کا احسان ہے۔ باقی اب صبر شکر کرو اور ہر روز یہ سوچنا چھوڑ دو کہ تبدیلی کب آئے گی۔

انھوں نے باتوں ہی باتوں میں یہ بھی کہہ ڈالا کہ اس ملک میں دین کی باتیں کون کرتا ہے حالانکہ خود پورے 45 منٹ انھوں نے دین کی باتیں ہی کیں۔ ہم شاید ان جیسے پرہیز گار اور دین دار نہ ہوں لیکن دین کی باتیں کرنے اور سننے میں ورلڈ چیمپئین ہیں۔

بشری بی بی نے یہ بھی کہا کہ دنیا میں دو ہی لیڈر ہیں اردوغان اور عمران خان۔ دل کو دھچکا سا لگا کہ بابا فرید کا سچا ماننے والا اردوغان کا دیوانہ کیسے ہو سکتا ہے۔ شاید اس لیے کہ وہ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے لیکن دست بدست عرض ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے اور جس کی آنکھیں پسند نہ ہوں اسے جیل میں ڈال دیتا ہے۔

اگر عمران خان ترکی میں ہوتے اور اردوغان سے اختلاف کرتے تو توہینِ اردوغان کے الزام میں اندر ہوتے اور بشری بی بی پر پیر پرستی کا الزام لگا کر سزا سنائی جا چکی ہوتی لیکن یہ معرفت کی باتیں ہیں کون دلاں دیا جانے ہُو۔

پاکپتن کے پاس ہی بابا فرید سے چھوٹے لیکن ویسے بڑے پیر ہیں حجرہ شاہ مقیم والے ہمیں بچپن میں وہاں لے جایا جاتا تھا یہ وہ حجرہ شاہ مقیم ہے جہاں پر جٹی عرض کرتی تھی کہ گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے۔

بشری بی بی کی بشارتوں اور برکتوں سے عمران خان اور ان کی پارٹی ہی نہیں بلکہ پورا ملک فیض یاب ہو گا۔ انھوں نے میرا دل تو اسی وقت ہی جیت لیا جب جائے نماز پر کتے کو ڈانٹنے والا واقعہ سنایا۔ بقول ان کے موٹو نامی کتا صوفے کے پیچھے جا کر چھپ گیا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ یہ واقعہ سنتے ہوئے میں بھی آبدیدہ ہو گیا۔

ان سے اور ان کے رہنما سے نظریاتی اختلاف ہو سکتا ہے لیکن کب ہمارا کوئی رہنما ٹی وی پر بیٹھ کر جانوروں سے صلہ رحمی کی بات کرتا ہے۔ امید ہے پی ٹی آئی کے جوشیلے بھی جو اپنے مخالفین کو کتا، کتا کہتے نہیں تھکتے بشری بی بی سے خدا ترسی اور پیار کے دو بول سیکھیں گے۔

مجھے تو بلھے شاہ یاد آگئے جو فرما گئے تھے 'کتے تیھوں اُتے' اور دل سے دعا نکلی اللہ جوڑی سلامت رکھے۔


ربط
 

محمد وارث

لائبریرین
مقدس فرشتے اور روحانی حکومت۔۔۔!

اے کاش، کوئی انصافی اس عنوان کو لے کر کتاب لکھ مارے۔
میں تو اس وقت کے بارے میں سوچ رہا ہوں اور خیالوں ہی میں دھمال ڈال رہا ہوں جب پاکستان کے قومی ترانے کو قوالی کی طرز پر کمپوز کیا اور گایا جائے گا۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
مقدس فرشتے اور روحانی حکومت۔۔۔!
میں تو اس وقت کے بارے میں سوچ رہا ہوں اور خیالوں ہی میں دھمال ڈال رہا ہوں جب پاکستان کے قومی ترانے کو قوالی کی طرز پر کمپوز کیا اور گایا جائے گا۔ :)
پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کو ہمیشہ یہ تکلیف لاحق رہی ہے کہ پاکستان جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، کی جمہوری حکومت میں اسلامی نمائندوںکا فقدان ہے۔ اس "خلا" کو پر کرنے کیلئے مذہبی جماعتوں کی سیاست میں شمولیت ناگزیر رہی ہے۔
ماضی میں وزیر اعظم عمران خان کی پہلی اہلیہ جمائما خان پر یہودی، صیہونی ایجنٹ ہونے کے الزامات لگانے والوں کا مقصد بھی یہی تھا کہ پاکستان میں ایسے شخص کو حکومت نہیں ملنی چاہئے جس کا نجی کیریکٹر متنازعہ ہو۔ شو مئی قسمت قائد تحریک عمران خان صاحب نے ان مسائل سے نبٹنے کیلئے عین اسلامی، باحیا اور نیک صفت خاتون بشریٰ مانیکا سے شادی کر لی۔ اب بال عوام کی کورٹ میں تھا کہ وہ اس نئی دلہن کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ مگر نتائج وہی ڈھاک کےتین پات والے برآمد ہوئے۔
کبھی ان کے پردہ کو نشانہ بنایا گیا تو کبھی مذہبی رسومات کو۔ یہاں تک کہ ان کی روحانی زندگی کو سیاست سے جوڑ کر طرح طرح کے بہتان باندھے گئے۔ رہی سہی کسر عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان نے پوری کر دی۔
ماضی میں عمران خان کے مخالفین و ناقدین جمائما خان اور ریحام خان کا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے۔ اب بشریٰ مانیکا کو نہیں بخشتے۔عمران خان کی بیگمات پر مسلسل حملوں سے ان کی سیاست پر تو آج تک کوئی اثر نہیں پڑا۔ الٹا ان کو بدنام کرنے والے سارے جہاں میں ذلیل و خوار ہو گئے۔ لیکن سبق پھر بھی نہیں سیکھتے۔ لگے رہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کو ہمیشہ یہ تکلیف لاحق رہی ہے کہ پاکستان جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، کی جمہوری حکومت میں اسلامی نمائندوںکا فقدان ہے۔ اس "خلا" کو پر کرنے کیلئے مذہبی جماعتوں کی سیاست میں شمولیت ناگزیر رہی ہے۔
ماضی میں وزیر اعظم عمران خان کی پہلی اہلیہ جمائما خان پر یہودی، صیہونی ایجنٹ ہونے کے الزامات لگانے والوں کا مقصد بھی یہی تھا کہ پاکستان میں ایسے شخص کو حکومت نہیں ملنی چاہئے جس کا نجی کیریکٹر متنازعہ ہو۔ شو مئی قسمت قائد تحریک عمران خان صاحب نے ان مسائل سے نبٹنے کیلئے عین اسلامی، باحیا اور نیک صفت خاتون بشریٰ مانیکا سے شادی کر لی۔ اب بال عوام کی کورٹ میں تھا کہ وہ اس نئی دلہن کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ مگر نتائج وہی ڈھاک کےتین پات والے برآمد ہوئے۔
کبھی ان کے پردہ کو نشانہ بنایا گیا تو کبھی مذہبی رسومات کو۔ یہاں تک کہ ان کی روحانی زندگی کو سیاست سے جوڑ کر طرح طرح کے بہتان باندھے گئے۔ رہی سہی کسر عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان نے پوری کر دی۔
ماضی میں عمران خان کے مخالفین و ناقدین جمائما خان اور ریحام خان کا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے۔ اب بشریٰ مانیکا کو نہیں بخشتے۔عمران خان کی بیگمات پر مسلسل حملوں سے ان کی سیاست پر تو آج تک کوئی اثر نہیں پڑا۔ الٹا ان کو بدنام کرنے والے سارے جہاں میں ذلیل و خوار ہو گئے۔ لیکن سبق پھر بھی نہیں سیکھتے۔ لگے رہیں۔
ماروں گھٹنا، پھوٹے آنکھ!
 
میں سراسر گنہگار اور مادیت پرست ہوں جبکہ میری بہن مبارک پروین سرتاپا، پاکیزہ اورروحانیت پرست ہے۔ میں راندۂ درگاہ ہوں جبکہ اس کی دعائیں قبولیت کا درجہ پاتی ہیں۔ میں اور مبارک پروین جڑواں ہیں لیکن وہ چونکہ مجھ سے دومنٹ پہلے پیدا ہوئی ہے اس لئے درجے اور عمر دونوں میں مجھ سے بڑی ہے۔ اسی لئے میں اسے کبھی بہنا، کبھی آپا اورکبھی باجی کہتا ہوں۔


مجھے اعتراف ہے کہ میں بچپن ہی سے نکما، نالائق اورموٹے ذہن کا مالک ہوں اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ میری بہن نے روحانیت کا طویل سفر طے کیا ہے۔ وہ بچپن سے پچپن (موجودہ عمر) تک مسلسل چلے کاٹتی رہی ہے۔

میں سست الوجود، کبھی اتنی محنت ہی نہیں کرسکا۔ آج میری بہن روحانیت کے اعلیٰ درجے تک پہنچ چکی ہےجبکہ میں روحانیت سےمکمل خالی ہوں اور درجات میں نیچے سے نیچے جارہا ہوں۔ میری بہنا کمالات کے عروج کو چھوچکی ہیں جبکہ میں ناہنجار کہتری کے بھی زوال کو پہنچ چکا ہوں۔

میری باجی، انسان تو انسان جانوروں کے دکھ بھی جان لیتی ہے۔ وہ بے زبان کتے اور بلیوں کی زبان سمجھتی ہے۔ ان کے بہتے ہوئے آنسوئوں اور ان کی خوشی اور غم کو محسوس کرسکتی ہے۔ ان کی بھوک اور پیاس کابھی اسے پتا چل جاتا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ وہ گونگے پودوں اور درختوںکے احساسات بھی پڑھ لیتی ہے۔ درخت کو پانی کی ضرورت ہے یا پھر بارش نہ ہونے سے اسے سوکھنے کا ڈر ہے، یہ سب میری بہن کے احاطہ ٔ علم میں ہوتاہے۔ میں نے خود کئی درختوں کو اپنی بہن کو پانی مانگنے کے لئے آوازیں دیتے دیکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ میری بہن کو اس کی نیکیوں کا اجر مل چکا ہے اور یہ سب اسی کے مظاہر ہیں۔

میں دل کا بھی کالا ہوں اور مجھے پسند بھی کالا رنگ ہی ہے۔ خطا کار ہوں اور باقی خطاکاروں بداعمالوں کو بھی گلے لگا لیتا ہوں۔ میری بہن مگر اکملیت پسند (perfectonist)ہے اسے سفید رنگ اچھا لگتا ہے۔ اس کا کمرہ سفید چادروں اور سفید پردوں سے ڈھکا رہتا ہے۔

وہ خود بھی سفید لباس پہنتی ہے۔ کہتے ہیںکہ جنت کا رنگ بھی سفید اور سنہرا ہی ہے۔ مبارک پروین سفید لباس میں ملبوس جنت کی حور محسوس ہوتی ہے۔مجھے تو کبھی کبھی اس کے سر کے اوپر سے نور کا ہالااوپر کو جاتا ہوابھی محسوس ہوتا ہے۔ خدا جانے یہ میرا وہم ہے یا حقیقت؟

میری بہن اپنے روحانی درجے کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی بلکہ اس کو چھپاتی ہے۔ کسی بداعمال کو روحانی کمال یا معجزے کی خبر مل جائے تو میری اوتار بہن فوراً اس کی تردید کردیتی ہے۔ وہ اپنی نیکی اور اپنی روحانیت کی تشہیر سےگریزاں رہتی ہے۔

وہ نہیں چاہتی کہ خطاکاروں کا ہجوم میری بہن کی جنتی روح کو عبادت گزاری کے دوران پریشان کرے۔ میری بہن مبارک پروین جتنا اپنی روحانیت کو چھپاتی ہے، اپنے معجزوں کو دباتی ہے، اتنی ہی اس کی شہرت بڑھتی ہے وہ تردید کرتی ہے جبکہ اس کے مریدین تصدیق۔

یوں میری بہن روحانیت کو خفیہ رکھنے کےباوجود مادی دنیا کے درجات بھی حاصل کرتی جارہی ہے جبکہ میں پاجی مادی دنیاکے لئے جدوجہد کرنے کے باوجود اس شعبے میں بھی مسلسل ناکامیوںکا منہ دیکھ رہا ہے۔

اب غور کرتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ مبارک پروین بچپن ہی سے سیانی تھی۔ اس میں کامن سینس بھی ہمیشہ سے زیادہ تھی۔ ہم دونوں بہن بھائی خاندانی طور پر چشت اہل بہشت کے سلسلہ ٔ عالیہ سے منسلک ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ میں ان فیوض و برکات سے محروم ہوں جن سے میری بہن فیض یاب ہو رہی ہے۔

وہ جو کہتی ہے ،پورا ہو جاتا ہے۔ وہ جوچاہتی ہے ،لے لیتی ہے۔ وہ مستقبل کے بارے میں جوبھی سوچتی ہے وہ درست ہی نکلتا ہے۔ ایک طرف وہ دیوتا سمان روح ہے اور دوسری طرف میں بداعمال شخص۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جھوٹ بھی بولے تو لوگ اسے سچ سمجھتے ہیں اور میں سوفیصد سچ بھی کہوں تو لوگ مجھے جھوٹا جانتے ہیں۔

وہ یہاں رہے یا وہاں رہے مہارانیوں کی طرح رہتی ہے۔ میں جہاںبھی جائوں میرا حال نوکروںاور نوکرانیوں والا ہی ہوتاہے۔ ایسا شاید اس لئے بھی ہے کہ میں اسی مادی دنیا کا کل پرزہ ہوں جبکہ مبارک پروین روحانی دنیا کا استعارہ۔ میں انسانی خدمت کرتا ہوں لوگوں سے گھل مل کرباتیں کرتاہوں تو مجھے کہا جاتا ہے کہ یہ سیاست کرتا ہے۔

میری بہن بوڑھوں اور بوڑھیوں کے حق میں بات کرے تو اسے روحانیت کہا جاتاہے۔ ہر طرف سے واہ واہ ہوتی ہے بس میری قسمت خراب اور میری بہن کی قسمت بہت ہی اچھی ہے…..تاریخی طور پر میری بہن اسکندریہ کی مصری ملکہ قلوپطرہ سے بہت مشابہت رکھتی ہے۔ قلوپطرہ کے پراسرار روحانی کمالات آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔

قلوپطرہ اپنی عقل اور اپنی حکمت کاری سے سلطنت ِ عظمیٰ روما کے دوطاقتور ترین بادشاہوں جولیس سیزر اور انٹونی کو اپنی انگلیوں پر نچاتی رہی۔ میری بہن مبارک پروین اقتدار کی بالکل متمنی نہیںہے وہ تو بس چاہتی ہے کہ جسے وہ چاہتی ہے اقتدار ملنے کے بعد اسے بام عروج بھی ملے۔

وہ سیزر، انٹونی اوراسکندر اعظم سے بھی بڑا آدمی بن جائے۔ میری بہن میں خوبیاں ہی خوبیاں ہیں۔ اس قدر خوبیاں کہ مجھے وہ زمینی نہیں بلکہ آسمانی مخلوق لگتی ہے۔ شاید نظر بٹو کے طور پر ایک خامی ضروری ہے اس میں غصہ بہت ہے۔

کہتے ہیں کہ کئی روحانی طاقت والے لوگ جمالی ہوتی ہیں اور کئی جلالی۔ میری بہن جلالی ہے۔ جوانی کے زمانے میں تو وہ کئی نوکرانیوںکو خود اپنے ہاتھوں سے پیٹ چکی ہے۔ اب بھی اسے غصہ آئے تو وہ مجھ پر نکال دیتی ہے اور اگر میں نہ ہوں تو جو بھی سامنے ہو وہ اس کی زد میں آ جاتا ہے۔

اگر اسے کسی کی بات بری لگ جائے تو پھر اسے غصہ آ جاتا ہے اور کئی بار وہ دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے حدیں بھی عبور کرلیتی ہے۔ اس میں فرشتوں جیسی خوبیاں ضرور ہیں لیکن آخر انسان ہے کچھ نہ کچھ خامیاں توہوتی ہوں گی۔

میری بہنا اس وقت دنیا میں سب سے اونچے مقام پر ہے۔ اسے صحافی اور اینکر بونے نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی باتوں کو رد کرنا، تردید کرنا، تذلیل کرنا اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ غلط کار لوگ اس کے عہد میں ذلیل ہوتے رہیں گے ان کی یہی قسمت ہے اور تماشائی تالیاں بجاتے رہیںگے۔

میں چونکہ اپنی بہن کا ہم راز بھی ہوں اور اس کا ہم درد بھی، اس لئے اکیلے میں اسے سمجھاتا رہتا ہوں کہ جو کچھ حاصل کرلیا ہے اسے بچانے کی کوشش کرو ۔

روحانی کمالات اوپر بھی لے جاتے ہیں اور اگر انسان میں بڑائی اور تکبر آ جائے تو اسے نیچے بھی گرا دیتے ہیں۔ میں یہ بھی کہتارہتاہوں کہ تمہاری خوبیاں ایک طرف، تمہارا غصہ، تمہارا دوسروں کو حقیر اور اپنے آپ کو پاکیزہ سمجھنا ایک دن تمہارے زوال کا باعث بنے گا۔
از سہیل وڑائچ
بشکریہ ہم سب
 

فرقان احمد

محفلین
میں سراسر گنہگار اور مادیت پرست ہوں جبکہ میری بہن مبارک پروین سرتاپا، پاکیزہ اورروحانیت پرست ہے۔ میں راندۂ درگاہ ہوں جبکہ اس کی دعائیں قبولیت کا درجہ پاتی ہیں۔ میں اور مبارک پروین جڑواں ہیں لیکن وہ چونکہ مجھ سے دومنٹ پہلے پیدا ہوئی ہے اس لئے درجے اور عمر دونوں میں مجھ سے بڑی ہے۔ اسی لئے میں اسے کبھی بہنا، کبھی آپا اورکبھی باجی کہتا ہوں۔


مجھے اعتراف ہے کہ میں بچپن ہی سے نکما، نالائق اورموٹے ذہن کا مالک ہوں اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ میری بہن نے روحانیت کا طویل سفر طے کیا ہے۔ وہ بچپن سے پچپن (موجودہ عمر) تک مسلسل چلے کاٹتی رہی ہے۔

میں سست الوجود، کبھی اتنی محنت ہی نہیں کرسکا۔ آج میری بہن روحانیت کے اعلیٰ درجے تک پہنچ چکی ہےجبکہ میں روحانیت سےمکمل خالی ہوں اور درجات میں نیچے سے نیچے جارہا ہوں۔ میری بہنا کمالات کے عروج کو چھوچکی ہیں جبکہ میں ناہنجار کہتری کے بھی زوال کو پہنچ چکا ہوں۔

میری باجی، انسان تو انسان جانوروں کے دکھ بھی جان لیتی ہے۔ وہ بے زبان کتے اور بلیوں کی زبان سمجھتی ہے۔ ان کے بہتے ہوئے آنسوئوں اور ان کی خوشی اور غم کو محسوس کرسکتی ہے۔ ان کی بھوک اور پیاس کابھی اسے پتا چل جاتا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ وہ گونگے پودوں اور درختوںکے احساسات بھی پڑھ لیتی ہے۔ درخت کو پانی کی ضرورت ہے یا پھر بارش نہ ہونے سے اسے سوکھنے کا ڈر ہے، یہ سب میری بہن کے احاطہ ٔ علم میں ہوتاہے۔ میں نے خود کئی درختوں کو اپنی بہن کو پانی مانگنے کے لئے آوازیں دیتے دیکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ میری بہن کو اس کی نیکیوں کا اجر مل چکا ہے اور یہ سب اسی کے مظاہر ہیں۔

میں دل کا بھی کالا ہوں اور مجھے پسند بھی کالا رنگ ہی ہے۔ خطا کار ہوں اور باقی خطاکاروں بداعمالوں کو بھی گلے لگا لیتا ہوں۔ میری بہن مگر اکملیت پسند (perfectonist)ہے اسے سفید رنگ اچھا لگتا ہے۔ اس کا کمرہ سفید چادروں اور سفید پردوں سے ڈھکا رہتا ہے۔

وہ خود بھی سفید لباس پہنتی ہے۔ کہتے ہیںکہ جنت کا رنگ بھی سفید اور سنہرا ہی ہے۔ مبارک پروین سفید لباس میں ملبوس جنت کی حور محسوس ہوتی ہے۔مجھے تو کبھی کبھی اس کے سر کے اوپر سے نور کا ہالااوپر کو جاتا ہوابھی محسوس ہوتا ہے۔ خدا جانے یہ میرا وہم ہے یا حقیقت؟

میری بہن اپنے روحانی درجے کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی بلکہ اس کو چھپاتی ہے۔ کسی بداعمال کو روحانی کمال یا معجزے کی خبر مل جائے تو میری اوتار بہن فوراً اس کی تردید کردیتی ہے۔ وہ اپنی نیکی اور اپنی روحانیت کی تشہیر سےگریزاں رہتی ہے۔

وہ نہیں چاہتی کہ خطاکاروں کا ہجوم میری بہن کی جنتی روح کو عبادت گزاری کے دوران پریشان کرے۔ میری بہن مبارک پروین جتنا اپنی روحانیت کو چھپاتی ہے، اپنے معجزوں کو دباتی ہے، اتنی ہی اس کی شہرت بڑھتی ہے وہ تردید کرتی ہے جبکہ اس کے مریدین تصدیق۔

یوں میری بہن روحانیت کو خفیہ رکھنے کےباوجود مادی دنیا کے درجات بھی حاصل کرتی جارہی ہے جبکہ میں پاجی مادی دنیاکے لئے جدوجہد کرنے کے باوجود اس شعبے میں بھی مسلسل ناکامیوںکا منہ دیکھ رہا ہے۔

اب غور کرتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ مبارک پروین بچپن ہی سے سیانی تھی۔ اس میں کامن سینس بھی ہمیشہ سے زیادہ تھی۔ ہم دونوں بہن بھائی خاندانی طور پر چشت اہل بہشت کے سلسلہ ٔ عالیہ سے منسلک ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ میں ان فیوض و برکات سے محروم ہوں جن سے میری بہن فیض یاب ہو رہی ہے۔

وہ جو کہتی ہے ،پورا ہو جاتا ہے۔ وہ جوچاہتی ہے ،لے لیتی ہے۔ وہ مستقبل کے بارے میں جوبھی سوچتی ہے وہ درست ہی نکلتا ہے۔ ایک طرف وہ دیوتا سمان روح ہے اور دوسری طرف میں بداعمال شخص۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جھوٹ بھی بولے تو لوگ اسے سچ سمجھتے ہیں اور میں سوفیصد سچ بھی کہوں تو لوگ مجھے جھوٹا جانتے ہیں۔

وہ یہاں رہے یا وہاں رہے مہارانیوں کی طرح رہتی ہے۔ میں جہاںبھی جائوں میرا حال نوکروںاور نوکرانیوں والا ہی ہوتاہے۔ ایسا شاید اس لئے بھی ہے کہ میں اسی مادی دنیا کا کل پرزہ ہوں جبکہ مبارک پروین روحانی دنیا کا استعارہ۔ میں انسانی خدمت کرتا ہوں لوگوں سے گھل مل کرباتیں کرتاہوں تو مجھے کہا جاتا ہے کہ یہ سیاست کرتا ہے۔

میری بہن بوڑھوں اور بوڑھیوں کے حق میں بات کرے تو اسے روحانیت کہا جاتاہے۔ ہر طرف سے واہ واہ ہوتی ہے بس میری قسمت خراب اور میری بہن کی قسمت بہت ہی اچھی ہے…..تاریخی طور پر میری بہن اسکندریہ کی مصری ملکہ قلوپطرہ سے بہت مشابہت رکھتی ہے۔ قلوپطرہ کے پراسرار روحانی کمالات آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔

قلوپطرہ اپنی عقل اور اپنی حکمت کاری سے سلطنت ِ عظمیٰ روما کے دوطاقتور ترین بادشاہوں جولیس سیزر اور انٹونی کو اپنی انگلیوں پر نچاتی رہی۔ میری بہن مبارک پروین اقتدار کی بالکل متمنی نہیںہے وہ تو بس چاہتی ہے کہ جسے وہ چاہتی ہے اقتدار ملنے کے بعد اسے بام عروج بھی ملے۔

وہ سیزر، انٹونی اوراسکندر اعظم سے بھی بڑا آدمی بن جائے۔ میری بہن میں خوبیاں ہی خوبیاں ہیں۔ اس قدر خوبیاں کہ مجھے وہ زمینی نہیں بلکہ آسمانی مخلوق لگتی ہے۔ شاید نظر بٹو کے طور پر ایک خامی ضروری ہے اس میں غصہ بہت ہے۔

کہتے ہیں کہ کئی روحانی طاقت والے لوگ جمالی ہوتی ہیں اور کئی جلالی۔ میری بہن جلالی ہے۔ جوانی کے زمانے میں تو وہ کئی نوکرانیوںکو خود اپنے ہاتھوں سے پیٹ چکی ہے۔ اب بھی اسے غصہ آئے تو وہ مجھ پر نکال دیتی ہے اور اگر میں نہ ہوں تو جو بھی سامنے ہو وہ اس کی زد میں آ جاتا ہے۔

اگر اسے کسی کی بات بری لگ جائے تو پھر اسے غصہ آ جاتا ہے اور کئی بار وہ دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے حدیں بھی عبور کرلیتی ہے۔ اس میں فرشتوں جیسی خوبیاں ضرور ہیں لیکن آخر انسان ہے کچھ نہ کچھ خامیاں توہوتی ہوں گی۔

میری بہنا اس وقت دنیا میں سب سے اونچے مقام پر ہے۔ اسے صحافی اور اینکر بونے نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی باتوں کو رد کرنا، تردید کرنا، تذلیل کرنا اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ غلط کار لوگ اس کے عہد میں ذلیل ہوتے رہیں گے ان کی یہی قسمت ہے اور تماشائی تالیاں بجاتے رہیںگے۔

میں چونکہ اپنی بہن کا ہم راز بھی ہوں اور اس کا ہم درد بھی، اس لئے اکیلے میں اسے سمجھاتا رہتا ہوں کہ جو کچھ حاصل کرلیا ہے اسے بچانے کی کوشش کرو ۔

روحانی کمالات اوپر بھی لے جاتے ہیں اور اگر انسان میں بڑائی اور تکبر آ جائے تو اسے نیچے بھی گرا دیتے ہیں۔ میں یہ بھی کہتارہتاہوں کہ تمہاری خوبیاں ایک طرف، تمہارا غصہ، تمہارا دوسروں کو حقیر اور اپنے آپ کو پاکیزہ سمجھنا ایک دن تمہارے زوال کا باعث بنے گا۔
از سہیل وڑائچ
بشکریہ ہم سب
وڑائچ بابا بھی درجہ اول کے ملامتی صوفی بنتے جار رہے ہیں۔ :)
 
Top