نظر لکھنوی غزل: راہِ وفا میں اولاً کتنے ہی ہم سفر گئے ٭ نظرؔ لکھنوی

راہِ وفا میں اولاً کتنے ہی ہم سفر گئے
آیا جو وقتِ امتحان جانے وہ سب کدھر گئے

یادِ شباب رہ گئی عہدِ شباب اب کہاں
میرے بھی دن گزر گئے تیرے بھی دن گزر گئے

اپنوں سے اور غیروں سے کتنے ہی غم اٹھائے تھے
زخم زباں کے ہیں ہرے، زخم سناں کے بھر گئے

کالی گھٹا کا ہو سماں چاند ہو جس کے درمیاں
گیسوئے تابدار جب شانوں پہ وہ بکھر گئے

دورِ عروج اب کہاں اب تو ہے سایۂ زوال
ننگِ بشر ہے آدمی علم گھٹا ہنر گئے

کوئے بتاں کی بات ہے مجبوریوں کا ہو برا
رکنا نہ تھا ہمیں رکے جانا نہ تھا مگر گئے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ! کیا رواں دواں غزل ہے!

ننگِ بشر ہے آدمی علم گھٹا ہنر گئے

کیا بات ہے!
آخری شعر ذرا کھٹکا ۔ پہلی دفعہ ایسا دیکھا کہ نظر ؔ صاحب نے مجبوریوں کا واؤ اس طرح بالکل ہی دبادیا ہو ۔ خیر ، کبھی کبھی اساتذہ کے ہاں بھی ہوجاتا ہے۔ :)
 
Top