عبیداللہ علیم میں یہ کس کے نام لکھوں جو اَلَم گزر رہے ہیں ۔ عبیداللہ علیم

فاتح

لائبریرین
میں یہ کس کے نام لکھوں جو اَلَم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں

کوئی غُنچہ ہو کہ گُل ہو، کوئی شاخ ہو شجَر ہو
وہ ہَوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں

کبھی رَحمتیں تھیں نازِل اِسی خِطّہ زمیں پر
وہی خِطّہ زمیں ہے کہ عذاب اُتر رہے ہیں

وہی طائروں کے جھُرمَٹ جو ہَوا میں جھُولتے تھے
وہ فَضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں

بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں

کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی
ہمِیں قتل ہو رہے ہیں، ہمِیں قتل کر رہے ہیں

عبیداللہ علیم​
 
یوں لگتا ہے جیسے عبیداللہ علیم نے مستقبل میں جھانک کر دیکھ لیا تھا۔

کبھی رَحمتیں تھیں نازِل اِسی خِطّہ زمیں پر
وہی خِطّہ زمیں ہے کہ عذاب اُتر رہے ہیں
 

فاتح

لائبریرین
یوں لگتا ہے جیسے عبیداللہ علیم نے مستقبل میں جھانک کر دیکھ لیا تھا۔

کبھی رَحمتیں تھیں نازِل اِسی خِطّہ زمیں پر
وہی خِطّہ زمیں ہے کہ عذاب اُتر رہے ہیں

یہ عذاب تو اس خط۔ہء زمیں پر کئی سال سے اُتر رہے ہیں اور یہ غزل شاید انہی عذاب اُترنے کے ابتدائی دنوں میں لکھی گئی تھی۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں یہ کس کے نام لکھّوں جو الم گزر رہے ہیں - عبیداللہ علیم

میں یہ کس کے نام لکھّوں جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں

کوئی غنچہ ہو کہ گُل ہو کوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گُلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں

کبھی رحمتیں تھیں نازل اسی خطّہء زمیں پر
وہی خطہء زمیں ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں

وہی طائروں کے جھرمٹ جو ہَوا میں جھولتے تھے
وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں

بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں

کوئی اور تو نہیں ہے پس ِ خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں، ہمیں قتل کر رہے ہیں
 
میں یہ کس کے نام لکھّوں جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں

کوئی غنچہ ہو کہ گُل ہو کوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گُلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں

کبھی رحمتیں تھیں نازل اسی خطّہء زمیں پر
وہی خطہء زمیں ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں

وہی طائروں کے جھرمٹ جو ہَوا میں جھولتے تھے
وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں

بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں

کوئی اور تو نہیں ہے پس ِ خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں، ہمیں قتل کر رہے ہیں


بہت اچھی غزل ہے ۔ ۔اور افسوس کہ حسب حال بھی

میں یہ کس کے نام لکھّوں جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
جی ہاں افسوس صد افسوس کہ یہ غزل عین حسبِ حال ہے اور خاص طور پر یہ شعر
کوئی اور تو نہیں ہے پس ِ خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں، ہمیں قتل کر رہے ہی

بہرحال بہت شکریہ امید اور محبت - پیوستہ رہ شجر سے امّید ِ بہار رکھ
 
Top