تیرہویں سالگرہ نثر نگار محفلین کو اُن کی نثر سے پہچانیں!

نور وجدان

لائبریرین
کیا آپ کے دفتر میں آپ کی کوئی قدر نہیں ؟
کیا آپ ایک دن بہ دن پھیلتے ہوئے دائرے میں سب سے زیادہ قابل انسان ہیں؟
کیا آپ مشترکہ خاندانی نظام کو فقط اس لیے دعائیں دیتے ہیں کیونکہ آپ کی تنخواہ میں گھر تو کیا ، ایک کھولی بھی نہیں چلائی جا سکتی؟
کیا آپ کی خوابیدہ صلاحیتوں کی ٹریجڈی آپ کو رات میں سونے نہیں دیتی ؟
اگر درج بالا سوالات میں سے کسی ایک کا جواب بھی مثبت ہے تو خاطر جمع رکھیے،آپ کی مشکلات کا حل موجود ہے، یعنی کہ دنیا بھر کے خواب دیکھنے والوں کی پناہ گاہ ، یعنی کہ گریجویٹ سکول۔لیکن اس راہ میں ایک بھاری پتھر ہے جس کا نام ہے جی آر ای یا گریجویٹ ریکارڈ ایگزامینیشنز۔ اس کی تیاری کیونکر کی جائے، اس معمے کو آج ہم سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں تو جگہ جگہ اس کی تیاری کے طریقے درج ہیں مگر وہ آئیڈیل ہیں، پریکٹیکل نہیں۔
 
کیا آپ کے دفتر میں آپ کی کوئی قدر نہیں ؟
کیا آپ ایک دن بہ دن پھیلتے ہوئے دائرے میں سب سے زیادہ قابل انسان ہیں؟
کیا آپ مشترکہ خاندانی نظام کو فقط اس لیے دعائیں دیتے ہیں کیونکہ آپ کی تنخواہ میں گھر تو کیا ، ایک کھولی بھی نہیں چلائی جا سکتی؟
کیا آپ کی خوابیدہ صلاحیتوں کی ٹریجڈی آپ کو رات میں سونے نہیں دیتی ؟
اگر درج بالا سوالات میں سے کسی ایک کا جواب بھی مثبت ہے تو خاطر جمع رکھیے،آپ کی مشکلات کا حل موجود ہے، یعنی کہ دنیا بھر کے خواب دیکھنے والوں کی پناہ گاہ ، یعنی کہ گریجویٹ سکول۔لیکن اس راہ میں ایک بھاری پتھر ہے جس کا نام ہے جی آر ای یا گریجویٹ ریکارڈ ایگزامینیشنز۔ اس کی تیاری کیونکر کی جائے، اس معمے کو آج ہم سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں تو جگہ جگہ اس کی تیاری کے طریقے درج ہیں مگر وہ آئیڈیل ہیں، پریکٹیکل نہیں۔
نمرہ لگ رہی ہیں مجھے!
 

نور وجدان

لائبریرین
قواعد اورشعر کی اصلاح کے حوالے سے ہم بچپن سے ڈسے ہوئے تھے۔ ایک کلاس فیلو"شفیق" اپنے اشعار لکھ کے لاتا اور ہمیں سُناتا ۔ اُس کی شاعری لُطف دیتی اور ہم چند دوست اُس سے بہت مرعوب تھے۔ سیف نے ایک دِن ڈرتے ڈرتے اپنے چند شعر اُس کے سامنے رکھے اور طالبِ اصلاح ہوا۔ ہم سب بھی دم بخود حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ دیکھئیے سیف صاحب ادب میں کیا مقام پاتے ہیں۔ اچانک ہم نے شفیق کو مُنہ بھینچے لرزتے کانپتے دیکھا اور پھر جیسے اُس کی ہنسی کے پریشر کُکر کی سیٹی کھُل گئی۔ ہمیں کُچھ سمجھ نہیں آئی کہ سیف بیچارے کی سیدھی سادھی عشقیہ شاعری اتنا بڑا لطیفہ کیسے ہو گیا۔ ہم سب کی کورس میں کیا ہوا کیا ہوا کے جواب میں اُس کا چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں جو ایک تاریخی جُملہ پورا ہوا وہ یہ تھا : ہا ہا ہا ۔ ۔ ۔ ایک ۔ ۔ ۔ہا ہا ہا ۔۔ ایک بھی۔ ۔ ۔ہا ہا ہا ہا۔ ۔ ۔ ۔ شعر وزن میں ۔ ۔ ۔ ۔ہا ہا ہا۔ ۔ ۔ ۔نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ہاہاہا
 
قواعد اورشعر کی اصلاح کے حوالے سے ہم بچپن سے ڈسے ہوئے تھے۔ ایک کلاس فیلو"شفیق" اپنے اشعار لکھ کے لاتا اور ہمیں سُناتا ۔ اُس کی شاعری لُطف دیتی اور ہم چند دوست اُس سے بہت مرعوب تھے۔ سیف نے ایک دِن ڈرتے ڈرتے اپنے چند شعر اُس کے سامنے رکھے اور طالبِ اصلاح ہوا۔ ہم سب بھی دم بخود حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ دیکھئیے سیف صاحب ادب میں کیا مقام پاتے ہیں۔ اچانک ہم نے شفیق کو مُنہ بھینچے لرزتے کانپتے دیکھا اور پھر جیسے اُس کی ہنسی کے پریشر کُکر کی سیٹی کھُل گئی۔ ہمیں کُچھ سمجھ نہیں آئی کہ سیف بیچارے کی سیدھی سادھی عشقیہ شاعری اتنا بڑا لطیفہ کیسے ہو گیا۔ ہم سب کی کورس میں کیا ہوا کیا ہوا کے جواب میں اُس کا چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں جو ایک تاریخی جُملہ پورا ہوا وہ یہ تھا : ہا ہا ہا ۔ ۔ ۔ ایک ۔ ۔ ۔ہا ہا ہا ۔۔ ایک بھی۔ ۔ ۔ہا ہا ہا ہا۔ ۔ ۔ ۔ شعر وزن میں ۔ ۔ ۔ ۔ہا ہا ہا۔ ۔ ۔ ۔نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ہاہاہا
آوازِ دوست بھائی
 
دماغ جس وقت برہنہ مناظر کی عکس بندی میں مصروف ہوتا، دِل اس وقت سجدے میں پڑا ہوتا۔ اگر کبھی دِل مچل اُٹھتا تو پلکوں کی چلمن گِر جاتی اور دِل کے رنگ میں بھنگ ڈالے دیتی۔۔۔۔۔۔ جو کبھی دیدہء شوق وا ہوتی تو قدم اُس اور چلنے سے انکاری ہو جاتے اور اگر کبھی قدم منزلِ مقصود پر پہنچاتے تو دِل اُچاٹ ہو چُکا ہوتا۔ مُجھے اکثر شک گُزرتا ہے کہ میرے اعضا میرے اپنے نہیں ہیں یا کم از کم ایک دوسرے کے لئے سوتیلے ضرور ہیں ، کیونکہ ان میں باہمی موافقت ہمیشہ مفقود رہی۔
 

نور وجدان

لائبریرین
دماغ جس وقت برہنہ مناظر کی عکس بندی میں مصروف ہوتا، دِل اس وقت سجدے میں پڑا ہوتا۔ اگر کبھی دِل مچل اُٹھتا تو پلکوں کی چلمن گِر جاتی اور دِل کے رنگ میں بھنگ ڈالے دیتی۔۔۔۔۔۔ جو کبھی دیدہء شوق وا ہوتی تو قدم اُس اور چلنے سے انکاری ہو جاتے اور اگر کبھی قدم منزلِ مقصود پر پہنچاتے تو دِل اُچاٹ ہو چُکا ہوتا۔ مُجھے اکثر شک گُزرتا ہے کہ میرے اعضا میرے اپنے نہیں ہیں یا کم از کم ایک دوسرے کے لئے سوتیلے ضرور ہیں ، کیونکہ ان میں باہمی موافقت ہمیشہ مفقود رہی۔
یہ اقتباس پڑھا ہوا تھا اس لیے یاد بھی رہا ہے ... یہ نثر بہت اعلی ہے ..سادہ زبان مگر جذبات سے بھرپور ...

مریم افتخار ..دا ون اینڈ اونلی. ..قیمہ مرے جگر کا کباب میں ملا دو
 

محمدظہیر

محفلین
دماغ جس وقت برہنہ مناظر کی عکس بندی میں مصروف ہوتا، دِل اس وقت سجدے میں پڑا ہوتا۔ اگر کبھی دِل مچل اُٹھتا تو پلکوں کی چلمن گِر جاتی اور دِل کے رنگ میں بھنگ ڈالے دیتی۔۔۔۔۔۔ جو کبھی دیدہء شوق وا ہوتی تو قدم اُس اور چلنے سے انکاری ہو جاتے اور اگر کبھی قدم منزلِ مقصود پر پہنچاتے تو دِل اُچاٹ ہو چُکا ہوتا۔ مُجھے اکثر شک گُزرتا ہے کہ میرے اعضا میرے اپنے نہیں ہیں یا کم از کم ایک دوسرے کے لئے سوتیلے ضرور ہیں ، کیونکہ ان میں باہمی موافقت ہمیشہ مفقود رہی۔
تحریر پتا نہیں کس کی ہے لیکن یہ مسئلہ کسی ادارے میں پیش آئے تو پراپر کنٹرول یا ایفیکٹیو کنٹرول سسٹم کے ذریعے کو-آرڈینیشن کیا جا سکتا ہے :)
 

نور وجدان

لائبریرین
تحریر پتا نہیں کس کی ہے لیکن یہ مسئلہ کسی ادارے میں پیش آئے تو پراپر کنٹرول یا ایفیکٹیو کنٹرول سسٹم کے ذریعے کو-آرڈینیشن کیا جا سکتا ہے :)
یہ تحریر ادارے کی نہیں ہے جناب .... آپ بھی کوئی اقتباس لائیں جلدی سے
 
تحریر پتا نہیں کس کی ہے لیکن یہ مسئلہ کسی ادارے میں پیش آئے تو پراپر کنٹرول یا ایفیکٹیو کنٹرول سسٹم کے ذریعے کو-آرڈینیشن کیا جا سکتا ہے :)
ابھی تو ہمیں آپ کی پیش کی ہوئی تھیوری کی بھی پوری طرح سمجھ نہیں آئی تھی کہ آپ نے لاء بھی دے دیا۔ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
مجھے بھی بڑے عرصے بعد یہ آج یاد آئی ہے۔ سالوں پرانی نثر۔ :)
ابھی دو دن پہلے یہ نثر پھر سے پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا.یہی دو اقساط میں بھی کیا وزن رکھا ہے. ہم شاعری میں وزن وزن کرتے ہیں آپ نے تو نثر میں وزن رکھا ہے ... جیو!
 

محمدظہیر

محفلین
ابھی تو ہمیں آپ کی پیش کی ہوئی تھیوری کی بھی پوری طرح سمجھ نہیں آئی تھی کہ آپ نے لاء بھی دے دیا۔ :)
دراصل اداروں اور اداروں میں کام کرنے والے انسانوں (ہیومن رسورس) کے بارے میں پڑھ پڑھ کر ہر جگہ وہی باتیں کرنے لگا ہوں :ROFLMAO:
 

نور وجدان

لائبریرین
شام کا وقت تھا رات چھا رہی تھی۔بادل سر پر منڈلارہے تھے ان کا اس کی روح کو چھو جانا تنہائی کی منافی کر رہا تھا۔ شام سے رات کا چڑھتا وقت ، چھاتا ہوا اندھیرا اس بات کی عیاں کر رہا تھا اس کے ساتھ اب کوئی بھی نہیں ۔ وہ بھاگتا رہا اس کی رفتار اتنی تیز تھی جتنی کسی روح کی ہوسکتی تھی ۔کبھی جنگل، کبھی صحرا تو کبھی پہاڑوں میں وہ اپنے قبیلے والوں کو تلاش کر رہا تھا ۔شاید کوئی اس کا ہمدم ، ساتھی اس کو مل جائے۔ وہ بھوک و پیاس سے عاری سفر پر رواں دواں جانے کس کو ڈھونڈ رہا تھا۔اب وہ کسی قبرستان میں داخل ہوا ۔ یہ عام قبرستانوں سے الگ تھا۔ کچھ قبریں سرخ چمکتی روشن تھیں ان کی آب و تاب اس کے لیے نئی نہیں تھی مگر اس نے جیسے ہی اس حصے پر قدم رکھا اس کو ایک جھٹکا سا لگا۔ جیسے کسی نے اس کو پیچھے دھکیل دیا ہو۔ کچھ قبریں سبز رنگ تو کچھ سفید رنگ کی تھیں ۔ وہ وہاں پر بھی جا نہ پایا۔ کچھ قبریں سیاہ تھیں وہ ان کے دہانے پر کھڑا تھا پہچان کر رہا دنیا والوں کی طرح قبروں کی بھی تفریق ہوتی ہے ۔باغی تو وہ شروع سے تھا اس کے اندر تفریق کے پکتے الاؤ نے اس کو اپنے ٹھکانے سے دربدر کر دیا تھا۔ سیاہ قبروں کا مالک اب ان کو چھو نہیں سکتا تھا۔
 
شام کا وقت تھا رات چھا رہی تھی۔بادل سر پر منڈلارہے تھے ان کا اس کی روح کو چھو جانا تنہائی کی منافی کر رہا تھا۔ شام سے رات کا چڑھتا وقت ، چھاتا ہوا اندھیرا اس بات کی عیاں کر رہا تھا اس کے ساتھ اب کوئی بھی نہیں ۔ وہ بھاگتا رہا اس کی رفتار اتنی تیز تھی جتنی کسی روح کی ہوسکتی تھی ۔کبھی جنگل، کبھی صحرا تو کبھی پہاڑوں میں وہ اپنے قبیلے والوں کو تلاش کر رہا تھا ۔شاید کوئی اس کا ہمدم ، ساتھی اس کو مل جائے۔ وہ بھوک و پیاس سے عاری سفر پر رواں دواں جانے کس کو ڈھونڈ رہا تھا۔اب وہ کسی قبرستان میں داخل ہوا ۔ یہ عام قبرستانوں سے الگ تھا۔ کچھ قبریں سرخ چمکتی روشن تھیں ان کی آب و تاب اس کے لیے نئی نہیں تھی مگر اس نے جیسے ہی اس حصے پر قدم رکھا اس کو ایک جھٹکا سا لگا۔ جیسے کسی نے اس کو پیچھے دھکیل دیا ہو۔ کچھ قبریں سبز رنگ تو کچھ سفید رنگ کی تھیں ۔ وہ وہاں پر بھی جا نہ پایا۔ کچھ قبریں سیاہ تھیں وہ ان کے دہانے پر کھڑا تھا پہچان کر رہا دنیا والوں کی طرح قبروں کی بھی تفریق ہوتی ہے ۔باغی تو وہ شروع سے تھا اس کے اندر تفریق کے پکتے الاؤ نے اس کو اپنے ٹھکانے سے دربدر کر دیا تھا۔ سیاہ قبروں کا مالک اب ان کو چھو نہیں سکتا تھا۔
نور سعدیہ شیخ :)
 

محمدظہیر

محفلین
عجیب رویے ہیں ہمارے بھی۔ کبھی کسی کے الفاظ کو اپنے معنی دے کر اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی اپنے الفاظ دوسرے کے منہ میں ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں، صرف اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے۔ ممکن ہے یہ سوچ وقت کے ساتھ ساتھ پروان پاتی ہو ایسے معاشرے میں جہاں مادیت پرستی اپنے زوروں پر ہو اور ہر ایک چیز میں ریس لگی ہو ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی اور ایسے میں جائز کیا اور ناجائز کیا، کسی نے سکھایا نہیں اور خود ہم نے سیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اپنے غلط موقف سے پیچھے ہٹنا برائی نہیں بڑائی ہے۔ اور درست موقف پر قائم رہنا استقامت ہے لیکن اس کے لیے اختلاف کے بھی کچھ آداب ہیں۔ جاہلوں کا کیا رونا رویا جائے پڑھے لکھے لوگ، اہل علم کے صحبت یافتہ بھی اگر اختلاف رائے کی وجہ سے تو تڑاک اور طعنوں سے بات کرنے لگ جائیں تو پھر افسوس کے ساتھ یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ الفاظ تو سیکھ گئے ان کا استعمال اور احترام نہیں سیکھ پائے، تعلیم حاصل کر لی لیکن تربیت سے محروم رہ گئے۔
 
Top