لیاقت علی عاصم غزل ۔ ہجر ہجرت سے سوا ہو گیا گھر آتے ہی ۔ لیاقت علی عاصمؔ

محمداحمد

لائبریرین
غزل

ہجر ہجرت سے سوا ہو گیا گھر آتے ہی
میں تو خود سے بھی جُدا ہو گیا گھر آتے ہی

ایسے سوئے ہیں کہ مرتا بھی نہ ہوگا کوئی
جاگتے رہنا بلا ہو گیا گھر آتے ہی

میں گنہگارِ سفر تھا مجھے کیا نیند آتی
میں تو مصروفِ دعا ہو گیا گھر آتے ہی

میں نے سوچا تھا کہ گھر جا کے منالوں گا اسے
دل تو کچھ اور خفا ہو گیا گھر آتے ہی

ایک دستک کا بڑا قرض تھا مجھ پر عاصمؔ
اور وہ قرض ادا ہو گیا گھر آتے ہی

لیاقت علی عاصمؔ
 
ایسے سوئے ہیں کہ مرتا بھی نہ ہوگا کوئی
جاگتے رہنا بلا ہو گیا گھر آتے ہی

میں گنہگارِ سفر تھا مجھے کیا نیند آتی
میں تو مصروفِ دعا ہو گیا گھر آتے ہی

ایک دستک کا بڑا قرض تھا مجھ پر عاصمؔ
اور وہ قرض ادا ہو گیا گھر آتے ہی
بہت خوب۔
شراکت کا شکریہ
 
غزل

ہجر ہجرت سے سوا ہو گیا گھر آتے ہی
میں تو خود سے بھی جُدا ہو گیا گھر آتے ہی

ایسے سوئے ہیں کہ مرتا بھی نہ ہوگا کوئی
جاگتے رہنا بلا ہو گیا گھر آتے ہی

میں گنہگارِ سفر تھا مجھے کیا نیند آتی
میں تو مصروفِ دعا ہو گیا گھر آتے ہی

میں نے سوچا تھا کہ گھر جا کے منالوں گا اسے
دل تو کچھ اور خفا ہو گیا گھر آتے ہی

ایک دستک کا بڑا قرض تھا مجھ پر عاصمؔ
اور وہ قرض ادا ہو گیا گھر آتے ہی

لیاقت علی عاصمؔ
لا جواب!
 
Top