جاسمن

لائبریرین
۴۹ ۔ سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۴۵ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُواْ وَاذْكُرُواْ اللّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
اے ایمان والو! جب (دشمن کی) کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہا کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤo
سورۃ الانفال ، آیت نمبر ۴۵۔​

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کے دو آداب تعلیم فرمائے ہیں۔
پہلا ادب جنگ میں ثابت قدم رہنا : اول تو مسلمانوں کو جنگ یا کسی آزمائش کی تمنا نہیں کرنی چاہیئے۔ لیکن جب ان پر جنگ مسلط ہو جائے تو اب ان پر لازم ہے کہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں اور بزدلی نہ دکھائیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم دشمنوں سے مقابلے کی تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو ۔ اور جب دشمنوں سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ عزوجل کو یاد کرو۔(مصنف عبدالرزاق)
دوسرا ادب لڑائی کے دوران کثرت سے اللہ عزوجل کا ذکر کرنا : دوران جنگ دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد اور زبان پر اللہ عزوجل کا ذکر ہونا چاہیئے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو انتہائی شدید حالت میں بھی ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر ایک شخص مغرب سے مشرق تک اپنے اموال کی سخاوت کرے اور دوسرا شخص مشرق سے مغرب تک تلوار سے جہاد کرتا جائے تب بھی اللہ عزوجل کا ذکر کرنے والے کا درجہ اور اجر ان سے زیادہ ہو گا۔(تفسیر کبیر)
(صراط الجنان)
۔۔۔​

جہاد پہ جانے والوں کا درجہ رک جانے والوں سے زیادہ ہے چاہےوہ کسی مقصد کے لئے رکیں۔
اللہ چاہے تو اپنے حقوق معاف کرسکتا ہے پر بندوں کے نہیں۔
سماجی خدمات یعنی لوگوں کے دکھ درد دور کرنا بہترین عبادتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اب مجھے سمجھ نہیں آرہی۔
الشفاء
عبید انصاری
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین

سورۃ التوبہ ۔ ۹

۵۰ ۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۲۳ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّواْ الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُوْلَ۔ئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَO
اے ایمان والو! تم اپنے باپ (دادا) اور بھائیوں کو بھی دوست نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو محبوب رکھتے ہوں، اور تم میں سے جو شخص بھی انہیں دوست رکھے گا سو وہی لوگ ظالم ہیںo
سورۃ التوبہ، آیت نمبر ۲۳۔​

اللہ تعالیٰ کافروں سے ترک موالات کا حکم دیتا ہے۔ ان کی دوستیوں سے روکتا ہے چاہے وہ ماں باپ ہوں، بہن بھائی ہوں، بشرطیکہ وہ کفر کو اسلام پر ترجیح دیں۔ ایک اور آیت میں ہے کہ اللہ اور قیامت پر ایمان لانے والوں کو ہر گز اللہ اور رسول کے دشمنوں سے دوستی کرنے والا نہیں پائے گا چاہے وہ ان کے باپ ہوں، بیٹے ہوں ، بھائی ہوں یا رشتہ دار ہوں۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان لکھ دیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) ۔
دار کفر کو چھوڑ کر اسلام کی طرف ہجرت کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی رشتہ داریاں تھیں جن کی محبت اور خاطر داری کی وجہ سے انسان اس فریضہ کی ادائیگی سے محروم رہ جاتا تھا۔ اس لیے فرمایا کہ کسی سے خواہ وہ تمھارے باپ اور بھائی ہی کیوں نہ ہوں ایسی دلی دوستی قائم نہ کرو جو کسی وقت حکم الٰہی کی بجا آوری میں حائل ہو۔ (ضیاء القرآن)۔
جب مسلمانوں کو مشرکین سے ترک موالات کا حکم دیا گیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آدمی اپنے باپ بھائی وغیرہ قرابت داروں سے ترک تعلق کرے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ کفار سے موالات یعنی قلبی محبت کا تعلق جائز نہیں چاہے ان سے کوئی بھی رشتہ ہو(خازن)۔ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں یعنی کافروں ، بے دینوں اور گمراہوں کے ساتھ میل جول ، رسم و راہ ، مودت و محبت ، ان کی ہاں میں ہاں ملانا ، ان کی خوشامد میں رہنا سب ممنوع ہے۔ سورۃ ھود کی آیت ۱۱۳ میں ارشاد ہوتا ہے ،" اور ظالموں کی طرف مت جھکو ورنہ تمھیں آگ پکڑے گی"۔ اور سورۃ انعام کی آیت ۶۸ میں ارشاد ہے ، "اور اگر شیطان تمھیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ"۔۔۔صحیح مسلم میں خاتم الانبیا ﷺ کا ارشاد ہے ، "ان سے الگ رہو ، انہیں اپنے سے دور رکھو ، کہیں وہ تمھیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمھیں فتنے میں نہ ڈال دیں"۔ اور سنن ابو داؤد میں ارشاد ہے ، "اگر یہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرنا اور اگر مر جائیں تو ان کے جنازے میں شامل نہ ہونا"۔ ان آیات و احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہیئے کہ بد مذہبوں کے سائے سے بھی کوسوں دور بھاگیں چہ جائیکہ ان کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں، ان کی دعوتوں میں اور ان کی شادی غمی میں شریک ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے شر سے محفوظ رکھے۔آمین۔۔۔ (صراط الجنان)۔

۔۔۔​

اللہ ہمیں اپنی رضا کی خاطر ہر کام کرنے کی توفیق اور آسانی عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۵۱ ۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۲۸ میں مشرکین کے ناپاک ہونے اور انھیں مسجد حرام سے دور رکھنے کے بارے میں نہایت اہم ہدایات بیان کی گئی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَ۔ذَا وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ إِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌO
اے ایمان والو! مشرکین تو سراپا نجاست ہیں سو وہ اپنے اس سال کے بعد (یعنی فتحِ مکہ کے بعد 9 ھ سے) مسجدِ حرام کے قریب نہ آنے پائیں، اور اگر تمہیں (تجارت میں کمی کے باعث) مفلسی کا ڈر ہے تو (گھبراؤ نہیں) عنقریب اللہ اگر چاہے گا تو تمہیں اپنے فضل سے مال دار کر دے گا، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo
سورۃ التوبہ ، آیت نمبر ۲۸۔​

إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ: مشرک بالکل ناپاک ہیں۔ اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین اپنے پاک دین والے پاکیزگی اور طہارت والے اہل ایمان بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ وہ دین کی رو سے نجس مشرکوں کو بیت اللہ شریف کے پاس نہ آنے دیں۔ یہ آیت ۹ ہجری میں نازل ہوئی اور اسی سال حضور کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا اور حکم دیا کہ حج کے مجمع میں اعلان کر دو کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور کوئی ننگا شخص بیت اللہ شریف کا طواف نہ کرے۔۔۔(ابن کثیر)۔
اس آیت نے آئندہ کے لیے ممانعت کر دی کہ کعبہ مقدسہ جو محض اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کے لیے تعمیر کیا گیا ہے وہاں اب مزید کسی مشرکانہ پوجا پاٹ کی اجازت نہیں ہوگی۔ مشرکین کے نجس ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے عقائد اور باطل نظریات کی وجہ سے ناپاک ہیں۔جب کفار سے قطع تعلق کا اعلان کر دیا گیا تو بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال گزرا کہ اس طرح تو تجارتی کاروبار بند ہوجائے گا، ضرورت کی چیزیں نایاب ہو جائیں گی اور کھانے پینے کی چیزوں کی بھی تنگی ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رزق کی بست و کشاد میرے دست قدرت میں ہے۔ یہ خوف دلوں سے نکال دو۔ خزائن العرفان میں حضرت صدرالافاضل فرماتے ہیں (اگر چاہے) فرمانے میں تعلیم ہے کہ بندے کو چاہیے کہ طلب خیر اور دفع آفات کے لیے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے اور تمام امور کو اسی کی مشیت سے متعلق جانے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔

اللہ ہم سب کی حلال روزی میں برکت پیدا فرمائے۔ایسا ہی کرے جیسا وہ کہتا ہے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۵۲ ۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۳۴ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍO
اے ایمان والو! بیشک (اہلِ کتاب کے) اکثر علماء اور درویش، لوگوں کے مال ناحق (طریقے سے) کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں (یعنی لوگوں کے مال سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور دینِ حق کی تقویت و اشاعت پر خرچ کئے جانے سے روکتے ہیں)، اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیںo
سورۃ التوبہ ، آیت نمبر ۳۴۔​
یہودیوں کے علماء کو احبار اور نصاریٰ کو عابدوں کو رہبان کہتے ہیں۔ احبار یہود کو زمانہ جاہلیت میں بڑا ہی رسوخ حاصل تھا۔ ان کے تحفے ، ہدیے، خراج وغیرہ مقرر تھے جو بغیر مانگے انھیں پہنچ جاتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے بعد اسی طمع نے انھیں اسلام سے روکا۔ لیکن حق کی مخالفت کی وجہ سے اس طرف سے بھی کورے رہے اور آخرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ (ابن کثیر)۔
پادری اور روحانی درویش اس طرح باطل طریقے سے مال کھاتے ہیں کہ دین کے احکام بدل کر لوگوں سے رشوتیں لیتے ہیں اور اپنی کتابوں میں مال و دولت کے لالچ میں تحریف و تبدیلی کرتے ہیں۔ اور سابقہ کتابوں کی جن آیات میں سرکار دوعالم ﷺ کی نعت و صفت مذکور ہے ، مال حاصل کرنے کے لیے ان کی فاسد تاویلیں اور تحریفیں کرتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں مال خرچ نہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ وہ بخل کرتے ہیں، مال کے حقوق ادا نہیں کرتے اور زکوٰۃ نہیں دیتے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہودی و عیسائی علماء و پادریوں کی حرص مال کا ذکر فرمایا تو مسلمانوں کو مال جمع کرنے اور اس کے حقوق ادا نہ کرنے سے خوف دلاتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔ یاد رہے کہ مال کا جمع کرنا مباح ہے ، مذموم نہیں جبکہ اس کے حقوق ادا کیے جائیں۔۔۔(صراط الجنان)۔

اللہ عمل کی توفیق و آسانی عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۵۳ ۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۳۸ میں آخرت کے مقابلے میں دنیا کے حقیر ہونے کو بیان کیا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلاَّ قَلِيلٌO
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم بوجھل ہو کر زمین (کی مادی و سفلی دنیا) کی طرف جھک جاتے ہو، کیا تم آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی سے راضی ہو گئے ہو؟ سو آخرت (کے مقابلہ) میں دنیوی زندگی کا ساز و سامان کچھ بھی نہیں مگر بہت ہی کم (حیثیت رکھتا ہے)o
سورۃ التوبہ ، آیت نمبر ۳۸۔
جب غزوہ طائف و حنین سے فارغ ہو کر مسلمان مدینہ طیبہ پہنچے تو شام سے اطلاعیں آنے لگیں کہ قیصر روم اپنے لشکر جرار اور شامی فوجوں کے ساتھ مل کر مدینہ منورہ پر چڑھائی کا ارادہ کر رہا ہے۔ حضور پر نور ﷺ نے اس کا یہاں انتظار کرنے کے بجائے خود اس کے ملک پر چڑھائی کا عزم فرما لیا اور مسلمانوں کو جہاد میں شرکت کی دعوت دی۔ سخت گرمی کا موسم تھا۔ پکی ہوئی کھجوروں کے نظر فریب خوشے لٹک رہے تھے۔ ٹھنڈا پانی پینے،گھنے سایہ میں بیٹھنے اور آرام کرنے کے دن تھے۔ ان حالات میں اتنی مسافت طے کر کے جانا اور ایک منظم اور مسلح لشکر سے نبرد آزما ہونا کوئی کھیل تماشا نہ تھا۔ منافق تو سب کےسب جھوٹے بہانے بنا کر الگ ہو گئے۔ بعض مسلمانوں کو بھی ابتداء میں یہ سفر بہت مشکل نظر آیا۔ اس وقت رب ذوالجلال نے اس پر جلال انداز میں جہاد کی دعوت دی جس سے اہل ایمان کی آنکھیں کھل گئیں۔ سستی اور کاہلی کافور ہو گئی اور وہ سر بکف اپنے محبوب رسول کی قیادت میں قیصر کی افواج قاہرہ کو للکارنے کے لیے روانہ ہو گئے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔
جب نبی کریم ﷺ تبوک کے قریب پہنچے تو ارشاد فرمایا کہ ان شاءاللہ تعالیٰ کل تم لوگ تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے اور سورج بلند ہونے کے بعد پہنچو گے لیکن کوئی شخص وہاں پہنچے تو پانی کو ہاتھ نہ لگائے۔ رسول اللہ ﷺ جب وہاں پہنچے تو جوتے کے تسمے کے برابر اس میں پانی کی ایک دھار بہہ رہی تھی۔ آپ ﷺ نے اس میں سے تھوڑا سا پانی منگا کر ہاتھ منہ دھویا اور اس پانی میں کلی فرمائی۔ پھر حکم دیا کہ اس پانی کو چشمہ میں انڈیل دو۔ لوگوں نے جب اس پانی کو چشمہ میں ڈالا تو چشمہ میں زور دار پانی کی موٹی دھار بہنے لگی۔ اور تیس ہزار کا لشکر اور تمام جانور اس چشمہ کے پانی سے سیراب ہو گئے۔ سرکار دو جہاں ﷺ نے کافی عرصہ یہاں قیام فرمایا۔ ہرقل شاہ روم اپنے دل میں آپ ﷺ کو سچا نبی جانتا تھا اس لیے اسے خوف ہوا اور وہ آپ ﷺ سے مقابلہ کرنے سے باز رہا۔۔۔(صراط الجنان)۔

۔۔۔

اللہ ہر معاملہ میں ہمیں اپنا کہنا ماننے کی توفیق و آسانی عطا فرمائے!آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
۵۴ ۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۱۱۹ میں اہل ایمان کو تقویٰ اور سچے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَO
اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہوo
سورۃ التوبہ ، آیت نمبر ۱۱۹۔​

وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَ : اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ یعنی ان لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ جو ایمان میں سچے ہیں ، مخلص ہیں، رسول اللہ ﷺ کی اخلاص کے ساتھ تصدیق کرتے ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ، بے شک سچائی بھلائی کی طرف ہدایت دیتی ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق ہو جاتا ہے۔ اور جھوٹ بدکاریوں کی طرف لے جاتا ہے اور بدکاریاں جہنم میں پہنچاتی ہیں اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔۔۔(صراط الجنان)۔

۔۔۔​

اللہ عمل لی توفیق اور آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۵۵ ۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۱۲۳ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ قَاتِلُواْ الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُواْ فِيكُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَO
اے ایمان والو! تم کافروں میں سے ایسے لوگوں سے جنگ کرو جو تمہارے قریب ہیں (یعنی جو تمہیں اور تمہارے دین کو براہِ راست نقصان پہنچا رہے ہیں) اور (جہاد ایسا اور اس وقت ہو کہ) وہ تمہارے اندر (طاقت و شجاعت کی) سختی پائیں، اورجان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہےo
سورۃ التوبہ ، آیت نمبر ۱۲۳۔
قَاتِلُواْ الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ : ان کافروں سے جہاد کرو جو تمھارے قریب ہیں۔ اس آیت میں کفار سے جنگ کے آداب سکھائے گئے ہیں کہ جنگ کی شرعی اجازت جب متحقق ہو جائے تو اس کی ابتداء قریب میں رہنے والے کفار سے کی جائے پھر ان کے بعد جو قریب ہوں۔ اسی طریقے سے تمام کفار سے جہاد ممکن ہے ورنہ ایک ہی بار سب سے جنگ کرنا متصور نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے اپنی قوم سے جہاد فرمایا پھر پورے عرب سے، پھر اہل کتاب سے اور ان کے بعد روم اور شام والوں سے جنگ کی۔
وَلْيَجِدُواْ فِيكُمْ غِلْظَةً : اور وہ تم میں سختی پائیں۔ اس سختی میں جرات و بہادری، قتال پر صبر، قتل یا قید کرنے میں شدت وغیرہ ہر قسم کی مضبوطی و سختی داخل ہے۔ جو کفار اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنیں ان کےساتھ سختی سے نمٹنے کا حکم ہے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ ہر وقت سختی ہی کرتے رہیں کیونکہ ہمیں تو دوران جہاد بھی عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور پادریوں کو قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔۔۔(صراط الجنان)۔

۔۔۔

اللہ عمل کی توفیق اور آسانی عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
سورۃ الحج ۔ ۲۲
۵۶ ۔ سورۃ الحج کی آیت نمبر ۷۷ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
اے ایمان والو! تم رکوع کرتے رہو اور سجود کرتے رہو، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور (دیگر) نیک کام کئے جاؤ تاکہ تم فلاح پا سکوo
سورۃ الحج ، آیت نمبر ۷۷۔
اُس اللہ عزوجل کی بندگی کا حکم دیا جا رہا ہے جو خدا وند برحق ہے، جو قادر مطلق ہے، جس کی عظمت و کبریائی کی شہادت آسمان کی بلندیاں، زمین کی پستیاں، پہاڑوں کا سکون اور دریاؤں کی روانیاں، عندلیبوں کے نالے اور پھولوں کی مسکراہٹیں۔ کانٹوں کی چبھن اور کلیوں کی پھبن۔ غرضیکہ ہر چیز اپنی اپنی ہمت و صلاحیت کے مطابق دے رہی ہے۔ اس رب عزوجل کی ایسی بندگی کا حکم دیا جا رہا ہے جو صرف زبان تک محدود نہ ہو، جو رکوع و سجود میں مقید نہ ہو، جو مساجد و عبادت گاہوں کے دروازوں پر آ کر ختم نہ ہو جائے بلکہ ایسی بندگی جس کا زندگی کے ساتھ ہمہ وقتی تعلق ہے۔ زندگی کا قافلہ جس راہ پر گامزن رہے غم و اندوہ کے جتنے عمیق کھڈوں سے گزرے، خوشی و مسرت کے جتنے چمن راہ میں آئیں ہر ہر جگہ ہر ہر قدم پر بندگی کا نشان زندگی کی جبین پر تابندہ رہے۔ ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا سے ادائے نماز کا حکم ملا ، وَاعْبُدُوا سے اس کے تمام احکام بجا لانے کی تاکید ہوئی ، وَافْعَلُوا الْخَيْرَ سے ایسے کام کرنے کا فرمان صادر ہوا جو اس کے لیے، اس کی قوم و ملت کے لیے، سارے نوع انسانی کے لیے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق کے لیے اپنے دامن میں خیر و نفع کی نعمت سمیٹے ہوں۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق و آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
سورۃ النور ۔ ۲۴
۵۷ ۔ سورۃ النور کی آیت نمبر ۲۱ میں ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌO
اے ایمان والو! شیطان کے راستوں پر نہ چلو، اور جو شخص شیطان کے نقوشِ قدم پر چلتا ہے تو وہ یقیناً بے حیائی اور برے کاموں (کے فروغ) کا حکم دیتا ہے، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی (اس گناہِ تہمت کے داغ سے) پاک نہ ہو سکتا لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک فرما دیتا ہے، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہےo
سورۃ النور ، آیت نمبر ۲۴۔​

دو قدموں کے درمیان جو جگہ ہوتی ہے اس کو عربی میں خُطُوَۃ کہتے ہیں جس کی جمع خُطُوَاتِ ہے۔مقصد یہ ہے کہ شیطان کی پیروی مت کرو ، اس کے نقش قدم پر مت چلو کیونکہ وہ اپنے ماننے والوں کو نیکی اور ہدایت کی دعوت نہیں دیتا بلکہ اس کا یہ شیوہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے ماننے والوں کو بے حیائی اور بدکاری کی تلقین کرتا ہے اور برے کاموں کو اس حسین انداز میں پیش کرتا ہے کہ ان کے برے نتائج نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ انسان یہی سمجھنے لگتا ہے کہ ساری مسرتیں، ساری عزتیں انہی برے کاموں میں سمٹ کر رہ گئی ہیں۔ شیطان کے اکسانے سے وہ ایسی ایسی کمینی اور حیا سوز حرکتیں کرتا ہے کہ دیکھنے والے انگشت بدنداں ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب اپنی بدکاریوں کے نتائج سے وہ دوچار ہوتا ہے، جب بے حیائی کی جلائی ہوئی آگ خود اس کے اپنے گھر کو لپیٹ میں لے لیتی ہے، اس کی اپنی ناموس اور عصمت لٹنے لگتی ہے اس وقت وہ شیطان کو اپنی مدد کے لیے پکارتا ہے لیکن وہ بے مروت ہنس کر ٹال دیتا ہے اور الٹا اس کا مذاق اڑاتا ہے۔
آخر میں اس حقیقت کو بیان فرما دیا کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ وہ تمھیں شیطان کی وسوسہ اندازیوں سے اور اس کے دام فریب سے بچا لے ورنہ تم میں یہ طاقت نہیں کہ تم اس گرگ باراں دیدہ کی فریب کاریوں سے اپنے آپ کو بچا سکو۔ اللہ تعالیٰ جب کسی بندہ پر اپنی نظر لطف و کرم فرماتا ہے تو گرتے ہوئے سنبھل جاتے ہیں اور ڈوبتے ہوؤوں کو سہارا مل جاتا ہے۔ اپنے علم و فہم پر نازاں نہ ہوا کرو، ہر وقت اس کےفضل و کرم کے امیدوار رہا کرو اور اسی کی بارگاہ اقدس میں بصد عجز و نیاز عرض کیا کرو کہ اے الہ العٰلمین ہم کمزور ہیں، شیطان کی چالیں بڑی خطرناک ہیں، ہم تنہا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو ہماری مدد فرما اور ہمیں اس کے شر سے بچا لے۔۔۔
(ضیاء القرآن)۔
۔۔۔​

اللہ تعالی ہم سب کو شیطان کی شر انگیزیوں سے پناہ دے ہمیشہ۔اپنا لطف کرم اور فضل کرے ہم پہ۔ہمیں اپنی رحمت کے سائے میں لے لے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
س
۵۸ ۔ سورۃ النور کی آیت نمبر ۲۷ اور اس سے متصل اگلی آیات میں اہل ایمان کو ایک دوسرے کے گھروں میں آنے جانے کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَالِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَO
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لئے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کروo
سورۃ النور ، آیت نمبر ۲۷۔
اس آیت اور اس سے متصل اگلی آیات میں اسلامی طرز معاشرت کے چند اہم قاعدے سکھائے جا رہے ہیں۔ انصار کی ایک خاتون بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئی اور عرض کی ، یا رسول اللہ! بسا اوقات میں گھر میں ایسی حالت میں ہوتی ہوں کہ میں نہیں چاہتی کہ کوئی مجھے اس حالت میں دیکھے۔ کبھی میرے والد آ جاتے ہیں اور کبھی اہل خانہ سے کوئی اور مرد آ جاتا ہے۔ مجھے کیا ارشاد ہے کہ میں کیا کروں؟ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
آپ خود غور فرمائیں کہ انسان کا گھر اس کا خلوت خانہ ہے جہاں وہ بے تکلفی سے وقت بسر کر سکتا ہے۔ اگر یہاں بھی ہر شخص کو بلا اجازت، بے دھڑک آ گھسنے کی آزادی ہو تو انسان گھر میں وہ راحت و آرام نہیں پا سکے گا جس کی تلاش میں وہ باہر سے تھکا ماندہ گھر آتا ہے۔ نیز گھر کی مستورات ہر وقت اپنے کپڑوں کو سنبھال کر نہیں رکھ سکتیں۔ کبھی اوڑھنی سر سے اتر جاتی ہے کبھی کوئی کام کرنے کے لیے آستینیں چڑھانی پڑتی ہیں، نہانا دھونا بھی ہوتا ہے۔ ان حالات میں اگر آنے والے پر کوئی پابندی نہ ہو تو عورتیں یا تو ہر وقت سر پر چادر ڈالے رہیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہیں یا نامحرم کے سامنے بے حجاب ہونے کا اندیشہ مول لیں۔ نیز یہ ویسے بھی بڑی سخت زیادتی ہے کہ کسی کے گھر میں بلا اجازت گھس آئے۔ اس طرح گوناگوں خرابیوں کا دروازہ کھل جائے گا۔
اگر کسی کے ہاں جانا پڑے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ باہر کھڑے ہو کر اذن طلب کرو۔ اگر اجازت مل جائے تو اہل خانہ کو سلام کہتے ہوئے اندر جاؤ۔ فرمایا ذَالِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ یہی طریقہ تمھارے لیے عمدہ اور پسندیدہ ہے۔ اذن لینے کا طریقہ یہ ہے کہ سلام بھی کہے، داخل ہونے کی اجازت بھی طلب کرے اور اپنا نام بھی بتائے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب شرف باریابی حاصل کرنا چاہتے تو یوں عرض کرتے ، السلام علیک یا رسول اللہ ایدخل عمر؟ یا رسول اللہ آپ پر سلام ہو کیا عمر حاضر ہو سکتا ہے؟ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ معمول تھا کہ جب اذن طلب فرماتے تو دروازہ کے سامنے کھڑے نہ ہوتے بلکہ دائیں یا بائیں کھڑے ہوتے۔ نیز دروازے کو کھٹکھٹانا بھی اذن طلب کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ آج کل کئی گھروں میں گھنٹی لگی ہوتی ہے اسے بجا کر بھی اذن طلب کیا جا سکتا ہے۔ جس گھر میں ماں یا بہن رہائش پذیر ہو وہاں جاتے ہوئے بھی اذن طلب کرنا چاہیے۔ اسلام نے صرف بلا اجازت داخل ہونے پر ہی پابندی نہیں لگائی بلکہ بلا اجازت کسی کے گھر میں جھانکنا بھی ممنوع ہے۔زیادہ سے زیادہ تین بار اذن طلب کرنا چاہیے۔ اگر تیسری بار بھی جواب نہ آئے تو واپس چلا آئے کیونکہ اس سے زیادہ اذن طلب کرنا صاحب خانہ کو اذیت دینا اور پریشان کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ اس وقت ایسے کام میں مشغول ہو جسے وہ منقطع نہ کر سکتا ہو۔ ایک روز حضور اکرم ﷺ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور طلب اذن کے لیے فرمایا السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ سعد نے سن لیا اور آہستہ سے وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ عرض کیا۔ حضور نے دوسری بار سلام فرمایا ۔ سعد نے پھر بھی چپکے سے جواب دیا۔ تیسری بار بھی حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے سلام کے جواب میں حضرت سعد نے آہستہ سے وعلیکم السلام کہہ دیا۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام واپس تشریف لے جانے لگے تو حضرت سعد دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کی ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ۔ آپ نے جتنی بار سلام فرمایا میں نے سنا اور جواب دیا۔ میری خاموشی کا مقصد یہ تھا کہ حضور مجھے بار بار سلام فرمائیں اور مجھے اس کی برکت حاصل ہو۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
سبحان اللہ!
انتہائی حکمت۔
اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق اور آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
۵۹ ۔ سورۃ النور کی آیت نمبر ۵۸ اور ۵۹ میں گھر کے افراد اور بچوں کے حوالے سے گھر میں آنے جانے کے بارے میں آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO
اے ایمان والو! چاہئے کہ تمہارے زیردست (غلام اور باندیاں) اور تمہارے ہی وہ بچے جو (ابھی) جوان نہیں ہوئے (تمہارے پاس آنے کے لئے) تین مواقع پر تم سے اجازت لیا کریں: (ایک) نمازِ فجر سے پہلے اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب تم (آرام کے لئے) کپڑے اتارتے ہو اور (تیسرے) نمازِ عشاء کے بعد (جب تم خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو)، (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں، ان (اوقات) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر، (کیونکہ بقیہ اوقات میں وہ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، اسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہےo
سورۃ النور ، آیت نمبر ۵۸۔
اسلامی طرز معاشرت کا ایک اور اصول بیان کیا جا رہا ہے۔ پہلے حکم دیا گیا تھا کہ جب تم کسی کے گھر داخل ہونے لگو تو اجازت طلب کرو لیکن اگر اپنے بچوں کو اور گھر کے خدام کو جن کا ہر وقت گھر میں آنا جانا ہوتا ہے ان پر بھی لازم کر دیا جاتا کہ وہ اذن کے بغیر داخل نہیں ہو سکتے تو بڑے تکلف اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس لیے ان کے متعلق اس آیت میں وضاحت فرما دی کہ بچے اور خدام اگر ان تین اوقات میں گھر (یا دوسرے کے کمرے) میں داخل ہوں جن کا ذکر آیت میں کیا گیا ہے تو وہ بھی اجازت لے کر داخل ہوں۔ کیونکہ ان اوقات میں انسان ستر عورت میں سستی کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ ڈھکا ہوا نہ ہو یا وہ ایسی حالت میں ہو جبکہ بلا اجازت اپنے بچوں اور خدام کا گھر میں آ دھمکنا بھی اسے پسند نہ ہو۔ لیکن ان اوقات کے علاوہ بغیر اجازت گھر میں داخل ہو سکتے ہیں۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

اوپر والی آیت میں نابالغ بچوں کے احکام بیان کیے اور اگلی آیت میں جب بچے بالغ ہو جائیں تو ان کے گھر میں آنے جانے کا طریقہ ذکر فرمایا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO
اور جب تم میں سے بچے حدِ بلوغ کو پہنچ جائیں تو وہ (تمہارے پاس آنے کے لئے) اجازت لیا کریں جیسا کہ ان سے پہلے (دیگر بالغ افراد) اجازت لیتے رہتے ہیں۔ اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام خُوب واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب علم والا اور حکمت والا ہےo
۔۔۔​

اللہ ہمیں عمل کی توفیق اور آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۵۹ ۔ سورۃ النور کی آیت نمبر ۵۸ اور ۵۹ میں گھر کے افراد اور بچوں کے حوالے سے گھر میں آنے جانے کے بارے میں آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO
اے ایمان والو! چاہئے کہ تمہارے زیردست (غلام اور باندیاں) اور تمہارے ہی وہ بچے جو (ابھی) جوان نہیں ہوئے (تمہارے پاس آنے کے لئے) تین مواقع پر تم سے اجازت لیا کریں: (ایک) نمازِ فجر سے پہلے اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب تم (آرام کے لئے) کپڑے اتارتے ہو اور (تیسرے) نمازِ عشاء کے بعد (جب تم خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو)، (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں، ان (اوقات) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر، (کیونکہ بقیہ اوقات میں وہ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، اسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہےo
سورۃ النور ، آیت نمبر ۵۸۔
اسلامی طرز معاشرت کا ایک اور اصول بیان کیا جا رہا ہے۔ پہلے حکم دیا گیا تھا کہ جب تم کسی کے گھر داخل ہونے لگو تو اجازت طلب کرو لیکن اگر اپنے بچوں کو اور گھر کے خدام کو جن کا ہر وقت گھر میں آنا جانا ہوتا ہے ان پر بھی لازم کر دیا جاتا کہ وہ اذن کے بغیر داخل نہیں ہو سکتے تو بڑے تکلف اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس لیے ان کے متعلق اس آیت میں وضاحت فرما دی کہ بچے اور خدام اگر ان تین اوقات میں گھر (یا دوسرے کے کمرے) میں داخل ہوں جن کا ذکر آیت میں کیا گیا ہے تو وہ بھی اجازت لے کر داخل ہوں۔ کیونکہ ان اوقات میں انسان ستر عورت میں سستی کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ ڈھکا ہوا نہ ہو یا وہ ایسی حالت میں ہو جبکہ بلا اجازت اپنے بچوں اور خدام کا گھر میں آ دھمکنا بھی اسے پسند نہ ہو۔ لیکن ان اوقات کے علاوہ بغیر اجازت گھر میں داخل ہو سکتے ہیں۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

اوپر والی آیت میں نابالغ بچوں کے احکام بیان کیے اور اگلی آیت میں جب بچے بالغ ہو جائیں تو ان کے گھر میں آنے جانے کا طریقہ ذکر فرمایا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO
اور جب تم میں سے بچے حدِ بلوغ کو پہنچ جائیں تو وہ (تمہارے پاس آنے کے لئے) اجازت لیا کریں جیسا کہ ان سے پہلے (دیگر بالغ افراد) اجازت لیتے رہتے ہیں۔ اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام خُوب واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب علم والا اور حکمت والا ہےo
۔۔۔​

اللہ عمل کی توفیق اور آسانی دے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
سورۃ الاحزاب ۔ ۳۳

۶۰ ۔ سورۃالاحزاب کی آیت نمبر ۹ میں اس تائید و عنایت کی طرف اشارہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے غزوہ خندق میں مسلمانوں کو سرفراز فرمایا تھا۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًاO
اے ایمان والو! اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو جب (کفار کی) فوجیں تم پر آپہنچیں، تو ہم نے ان پر ہوا اور (فرشتوں کے) لشکروں کو بھیجا جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھنے والا ہےo
سورۃالاحزاب ، آیت نمبر ۹۔​

غزوہ خندق کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر جو اپنا فضل و احسان کیا تھا، اس کا بیان ہو رہا ہے جبکہ مشرکین نے پوری طاقت سے اور پورے اتحاد سے مسلمانوں کو مٹا دینے کے ارادے سے زبردست لشکر لے کر حملہ کیا تھا۔ اس لڑائی کا قصہ یہ ہے کہ بنو نضیر کے یہودی سرداروں نے مکے میں آکر قریش کو جو پہلے ہی سے تیار تھے، حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے لڑائی پر آمادہ کیا اور ان سے وعدہ کیا کہ ہم اپنے زیر اثر لوگوں کے ساتھ مل کر آپ کی جماعت میں شامل ہیں۔ قریش نے بھی ادھر ادھر پھر کر تمام عرب میں آگ لگا کر سب گرے پڑے لوگوں کو بھی ساتھ ملا لیا اور ان سب کا سردار ابوسفیان مقرر ہوا۔ ان لوگوں نے کوشش کر کے دس ہزار کا لشکر اکٹھا کر لیا اور مدینے کی طرف چڑھ دوڑے۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو جب اس لشکر کشی کو خبریں پہنچیں تو آپ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے مدینہ شریف کی مشرقی سمت خندق یعنی کھائی کھدوائی۔ اس خندق کے کھودنے میں تمام صحابہ مہاجرین و انصار شامل تھے اور خود حضور ﷺ بھی بہ نفس نفیس اس کے کھودنے اور مٹی ڈھونے حصہ لیتے تھے۔(ابن کثیر)
کفار نے خندق کی دوسری طرف پڑاؤ ڈال دیے اور خندق عبور کرنے کی ترکیبیں کرنے میں لگ گئے۔ اسی دوران کفار کے دل ایک دوسرے سے بد ظن ہو گئے اور ان کے درمیان پھوٹ پڑ گئی اور ساتھ ہی اللہ عزوجل نے آندھی و طوفان کی صورت میں اپنا لشکر بھیجا جس نے ان کی صفوں میں بھگدڑ مچا دی اور وہ اپنے سردار ابو سفیان کی قیادت میں میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اس غزوہ سے متعلق کفار کی سازشوں اور اللہ عزوجل کی طرف سے مسلمانوں کی مدد و نصرت کی تفصیل کتب تفاسیر میں دیکھی جا سکتی ہے۔۔۔

۔۔۔


اچھے کاموں میں اللہ ہماری ایسے ہی مدد کرے۔برے کاموں سے پناہ دے ۔کر بیٹھیں تو معاف فرمائے۔ہم پہ ہمیشہ پیار کی نگاہ ڈالے۔ہمیں ہمیشہ احساس دلائے رکھے کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے ۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

الشفاء

لائبریرین
جہاد پہ جانے والوں کا درجہ رک جانے والوں سے زیادہ ہے چاہےوہ کسی مقصد کے لئے رکیں۔
رکنے کے مقاصد مختلف ہو سکتے ہیں۔ اور اگر خود امیر کی طرف سے کسی مصلحت کی خاطر رکنے کا حکم ہو تو جہاد پر جانے کی بجائے رکنا اُولیٰ ہو گا۔۔۔
اللہ چاہے تو اپنے حقوق معاف کرسکتا ہے پر بندوں کے نہیں۔
اللہ عزوجل تو بہرحال ہر شے پر قادر ہے اور جب بندوں کے باہمی حقوق کی ادائیگی یا معافی کی بات آتی ہے تو ہمیں ہمیشہ یہ حدیث مبارکہ یاد آ جاتی ہے اور اللہ کے فضل سے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔
امام حاکم مستدرک میں نقل کرتے ہیں، کہ حضرت سیدنا انس ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) فرماتے ہیں، ایک روز سرکار دو عالم ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) تشریف فرما تھے۔ آپ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) نے تبسم فرمایا۔ حضرت عمر فاروق اعظم ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے عرض کیا، یارسول اللہ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) آپ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) پر میرے ماں باپ قربان! آپ نے کس لئے تبسم فرمایا ؟ ارشاد فرمایا۔ “ میرے دو امتی اللہ ( عزوجل ) کی بارگاہ میں دو زانو گر پڑیں گے۔ ایک عرض کرے گا یااللہ ( عزوجل )! اس سے میرا انصاف دلا کہ اس نے مجھ پر ظلم کیا تھا۔ اللہ ( عزوجل ) فرمائے گا اس کا حق اس کو دے دے۔ وہ عرض کرے گا۔ یااللہ ( عزوجل ) میری نیکیاں اہل حقوق لے چکے ہیں اب تو میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ اللہ ( عزوجل ) مدعی سے فرمائے گا، اب یہ بے چارہ کیا کرے اس کے پاس تو کوئی نیکی باقی نہیں۔ مظلوم عرض کرے گا، میرے گناہ اس کے ذمے ڈال دے۔ لٰہذا اس کے گناہ ظالم کے ذمے ڈال دئیے جائیں گے۔ اس کے باوجود حساب صاف نہ ہوگا۔ اتنی بات فرما کر سرکار ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) رو پڑے۔ فرمایا وہ دن بہت عظیم دن ہوگا! کیونکہ اس وقت ( یعنی بروز قیامت ) ہر ایک اس بات کا ضرورت مند ہو گا کہ اس کا بوجھ ہلکا ہو۔ اللہ ( عزوجل ) مظلوم سے فرمائے گا، دیکھ تیرے سامنے کیا ہے ؟ وہ عرض کرے گا، اے پروردگار! میں اپنے سامنے چاندی کے بڑے شہر اور بڑے بڑے محلات جو سونے اور جواہر اور مروارید سے آراستہ دیکھ رہا ہوں۔ یہ شہر اور عمدہ محلات کس پیغمبریا صدیق یا شہید کیلئے ہیں ؟ اللہ ( عزوجل ) فرمائے یہ اس کیلئے ہیں جو ان کی قیمت ادا کرے۔ بندہ عرض کرے گا ان کی قیمت کون ادا کر سکتا ہے ؟ اللہ فرمائے گا تو ادا کر سکتا ہے۔ وہ عرض کرے گا وہ کس طرح ؟ اللہ ( عزوجل ) فرمائے گا اس طرح کے تو اپنے بھائی کے حقوق معاف کر دے۔ بندہ عرض کرے گا۔ یااللہ ( عزوجل )! میں نے سب حقوق معاف کئے۔ اللہ ( عزوجل ) فرمائے گا اٹھ اور اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ دونوں اکھٹے جنت میں چلے جاؤ۔ پھر سرکار ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا، اللہ ( عزوجل ) سے ڈرو اور مخلوق میں صلح کرواؤ کیونکہ اللہ ( عزوجل ) بھی بروز قیامت مسلمانوں میں صلح کروائے گا۔
سماجی خدمات یعنی لوگوں کے دکھ درد دور کرنا بہترین عبادتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
بے شک یہ بہترین کاموں میں سے ایک ہے۔
اب مجھے سمجھ نہیں آرہی۔
اگر آپ ان تمام باتوں یعنی جہاد، بندوں کے حقوق، سماجی خدمات کا موازنہ اقتباس میں لی گئی آیت کے تحت بیان کردہ ذکر الہٰی کی افضیلت کےساتھ کر رہی ہیں تو پیاری بہنا ، ان تمام عبادات کی جان اور روح اللہ عزوجل کا ذکر ہی تو ہے۔جذبہ جہاد کا محرک ، حقوق العباد کی ادائیگی کی فکر اور لوگوں کے دکھ درد دور کرنے کے شوق کا محرک کیا ہے؟ اللہ عزوجل کی یاد اور اس کی رضا و خوشنودی کا حصول۔ کہ اس کے بغیر تمام عبادات بے جان ہیں۔ اور ذکر الٰہی تمام عبادات کی اصل ہے۔۔۔ ایک مرتبہ ہم نے ایک اللہ والے سے پوچھا تھا کہ اللہ عزوجل کی قربت کے حصول کا بہترین طریقہ کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ، ذکر الٰہی۔۔۔
واللہ ورسولہ اعلم۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
رکنے کے مقاصد مختلف ہو سکتے ہیں۔ اور اگر خود امیر کی طرف سے کسی مصلحت کی خاطر رکنے کا حکم ہو تو جہاد پر جانے کی بجائے رکنا اُولیٰ ہو گا۔۔۔

اللہ عزوجل تو بہرحال ہر شے پر قادر ہے اور جب بندوں کے باہمی حقوق کی ادائیگی یا معافی کی بات آتی ہے تو ہمیں ہمیشہ یہ حدیث مبارکہ یاد آ جاتی ہے اور اللہ کے فضل سے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔


بے شک یہ بہترین کاموں میں سے ایک ہے۔

اگر آپ ان تمام باتوں یعنی جہاد، بندوں کے حقوق، سماجی خدمات کا موازنہ اقتباس میں لی گئی آیت کے تحت بیان کردہ ذکر الہٰی کی افضیلت کےساتھ کر رہی ہیں تو پیاری بہنا ، ان تمام عبادات کی جان اور روح اللہ عزوجل کا ذکر ہی تو ہے۔جذبہ جہاد کا محرک ، حقوق العباد کی ادائیگی کی فکر اور لوگوں کے دکھ درد دور کرنے کے شوق کا محرک کیا ہے؟ اللہ عزوجل کی یاد اور اس کی رضا و خوشنودی کا حصول۔ کہ اس کے بغیر تمام عبادات بے جان ہیں۔ اور ذکر الٰہی تمام عبادات کی اصل ہے۔۔۔ ایک مرتبہ ہم نے ایک اللہ والے سے پوچھا تھا کہ اللہ عزوجل کی قربت کے حصول کا بہترین طریقہ کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ، ذکر الٰہی۔۔۔
واللہ ورسولہ اعلم۔۔۔

ہاں میری بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ سب کام صرف اللہ کے لئے کیے جائیں تو ذکر الہی ہی ہیں۔
بہت شکریہ۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

الشفاء

لائبریرین
سورۃ الحدید ۔ ۵۷

۷۴ ۔ سورۃ الحدید کی آیت نمبر ۲۸ میں اللہ عزوجل تقویٰ اختیار کرنے اور رسالت محمدی ﷺ کی تصدیق کرنے والوں کے لیے اپنی طرف سے دو خصوصی رحمتوں کی نوید سنا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
اے ایمان والو! اللہ کا تقوٰی اختیار کرو اور اُس کے رسولِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دو حصّے عطا فرمائے گا اور تمہارے لئے نور پیدا فرما دے گا جس میں تم (دنیا اور آخرت میں) چلا کرو گے اور تمہاری مغفرت فرما دے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo
سورۃ الحدید، آیت نمبر ۲۸۔​

علمائے تفسیر نے اس آیت کے دو مفہوم بیان کیے ہیں: اہل کتاب میں سے جو لوگ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کے صحیح دین پر قائم تھے ، انہیں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ تمہیں پہلے انبیاء پر ایمان لانے کی سعادت حاصل ہے۔ اب تم خاتم الانبیاء محمد مصطفےٰ ﷺ پر بھی ایمان لے آؤ جن پر ایمان لانے کی تاکید تمہارے انبیاء نے کی ہے اور جن کی آمد کی بشارتوں سے تمہاری آسمانی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ ان پر بھی سچے دل سے ایمان لاؤ تو تمہیں اس کی رحمت سے دوہرا حصہ ملے گا۔ قرآن کریم جو سراپا نور ہے اس کے انوار سے تمہاری دنیا اور آخرت جگمگانے لگے گی۔ تمہارے سابقہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔ دوسرے مفہوم کے مطابق مسلمانوں کو ہی تقویٰ کا حکم دیا جا رہا ہے اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام پر ایمان لانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ اگلی آیت میں اہل ایمان پر اپنے اس فضل خاص کی وجہ یوں بیان فرمائی ہے کہ

لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّن فَضْلِ اللَّهِ وَأَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِO
(تم پر یہ خصوصی کرم اِس لئے ہے) کہ اہلِ کتاب جان لیں کہ وہ اللہ کے فضل پر کچھ قدرت نہیں رکھتے اور (یہ) کہ سارا فضل اللہ ہی کے دستِ قدرت میں ہے وہ جِسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ فضل والا عظمت والا ہےo سورۃ الحدید ، آیت نمبر ۲۹۔
اہل کتاب اس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر رسول اور کلیم کے امتی ہیں۔ انہیں اس نبی عربی کی اطاعت اور اس پر ایمان لانے کی کیا ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ساری رحمتیں اور انعامات ان ہی کے لیے مخصوص ہیں اور عرب کے بدؤوں کا رحمت الٰہیہ میں کوئی حصہ نہیں۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اے ایمان والو ، تقویٰ کو اپنا شعار بنا لو اور میرے پیارے رسول پر ایمان لانے کا حق ادا کر دو اور اس کی غلامی پر فخر و ناز کرو تاکہ میں تم پر اپنی عنایات اور انعامات کی انتہا کر دوں جنہیں دیکھ کر اہل کتاب کو پتہ چل جائے کہ میری رحمت کے خزانے پر ان کا کوئی قابو نہیں ۔ میں جس کو چاہتا ہوں، جتنا چاہتا ہوں عطا فرماتا ہوں۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
سورۃ المجادلہ ۔ ۵۸
۷۵ ۔ سورۃ المجادلہ کی آیت نمبر ۹ میں اہل ایمان کی سرگوشیوں اور خفیہ مشوروں کے بارے میں رہنمائی فرمائی جا رہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَO
اے ایمان والو! جب تم آپس میں سرگوشی کرو تو گناہ اور ظلم و سرکشی اور نافرمانئ رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سرگوشی نہ کیا کرو اور نیکی اور پرہیزگاری کی بات ایک دوسرے کے کان میں کہہ لیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کی طرف تم سب جمع کئے جاؤ گےo
سورۃ المجادلہ ، آیت نمبر ۹۔​

ایسی سرگوشیاں ممنوع ہیں جن میں کسی گناہ کے بارے میں مشورے ہوں۔ لوگوں کو اذیت پہنچانے کے لیے تجویزیں سوچی جائیں یا اللہ کے رسول علیہ الصلاۃ والسلام کی نافرمانی اور مخالفت کے لیے سکیمیں تیار کی جائیں۔ مسلمانوں کو کسی ایسی میٹنگ میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ اگر کسی نیک کام کے لیے کسی مفید بات کے لیے باہم مل کر صلاح مشورہ کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۷۶ ۔ سورۃ المجادلہ کی آیت نمبر ۱۱ میں اہل ایمان کو مجلس کے آداب سکھائے جا رہے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌO
اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ (اپنی) مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادہ ہو جایا کرو اللہ تمہیں کشادگی عطا فرمائے گا اور جب کہا جائے کھڑے ہو جاؤ تو تم کھڑے ہوجایا کرو، اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اور اللہ اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہےo
سورۃ المجادلہ ، آیت نمبر ۱۱۔
اس آیت میں بھی مسلمانوں کو مل بیٹھنے کے ایسے آداب سکھائے جا رہے ہیں جن پر عمل کرنے سے باہمی محبت بڑھے اور ایک دوسرے کا احترام پیدا ہو۔ فرمایا اگر مجلس میں لوگ بیٹھے ہوئے ہوں اور باہر سے دوسرے حضرات آ جائیں تو پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں کے لیے یہ مناسب نہیں کہ آنے والوں کی پروا تک نہ کریں کہ انہیں بیٹھنے کی جگہ ملی یا نہیں۔ بلکہ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ انہیں عزت سے بٹھائیں اور اگر بھیڑ بہت زیادہ ہو پھر بھی انہیں چاہیے کہ جتنا سکڑ سکتے ہیں سکڑیں اور آنے والوں کے لیے جگہ نکالیں۔ فرمایا اگر تم اپنے بھائیوں کے لیے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا اجر عطا فرمائے گا اور تمہارے رزق کو کشادہ کر دے گا بلکہ دنیا و آخرت میں تمہیں فراخی و کشادگی نصیب فرمائے گا۔ جو لوگ پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے ان کو تو یہ تعلیم دی کہ وہ آنے والوں کے لیے جگہ کشادہ کریں لیکن حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے آنے والوں کو بھی یہ ہدایت فرمائی کہ وہ ایسا نہ کریں کہ پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں کو اٹھا دیں اور ان کی جگہ خود بیٹھ جائیں۔ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا : جب حاضرین مجلس کو کہا جائے کہ اب آپ تشریف لے جائیں تو انہیں فوراً چلے جانا چاہیے، ورنہ اہل خانہ یا منتظمین مجلس کو بڑی کوفت ہو گی۔ سرور دوعالم ﷺ جب صحابہ کو اپنے گھر میں مدعو فرماتے تو کھانا کھالینے کے بعد بھی کہنے کے باوجود کئی لوگ وہاں سے اٹھنے کا نام نہ لیتے۔ ان کی تمنا یہ ہوتی کہ سب سے آخر میں اپنے آقا و مولیٰ سے مصافحہ کریں۔ انہیں بتایا گیا کہ تمہاری محبت بجا ، لیکن حضور کے آرام کا بھی تمہیں خیال رکھنا چاہیے۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلندئ مراتب اور رفع درجات کا ذریعہ ایمان اور علم ہے۔ ایک ایمان دار شخص نادار و مفلس ہی کیوں نہ ہو، کافر رئیسوں سے اس کا درجہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں بہت بلند ہے۔علامہ مرحوم فرماتے ہیں
قطرہء آبِ وضوءِ قنبرے
خوب تر از خون نابِ قیصرے​
یعنی قنبر جو سیدنا علی کا غلام تھا ، اس کے وضو کے پانی کا قطرہ قیصر کے خون سے زیادہ عزت والا ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔

 

الشفاء

لائبریرین
۷۷ ۔ سورۃ المجادلہ کی آیت نمبر ۱۲ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ذَلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
اے ایمان والو! جب تم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی راز کی بات تنہائی میں عرض کرنا چاہو تو اپنی رازدارانہ بات کہنے سے پہلے کچھ صدقہ و خیرات کر لیا کرو، یہ (عمل) تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ تر ہے، پھر اگر (خیرات کے لئے) کچھ نہ پاؤ تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo
سورۃ المجادلہ ، آیت نمبر ۱۲۔​

صدرالافاضل نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کا شان نزول بیان فرماتے ہیں کہ جب سید دوعالم ﷺ کی بارگاہ میں اغنیاء نے عرض و معروض کا سلسلہ دراز کیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ فقراء کو اپنی عرض پیش کرنے کا موقع کم ملنے لگا تو عرض پیش کرنے والوں کو عرض پیش کرنے سے پہلے صدقہ پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔ اور اس حکم پر حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے عمل کیا۔ ایک دینار صدقہ کر کے دس مسائل دریافت کیے۔
عرض کیا ، یا رسول اللہ ﷺ
۱۔ وفا کیا ہے ؟ فرمایا توحید اور توحید کی شہادت دینا۔
۲۔ عرض کیا فساد کیا ہے ؟ فرمایا کفر و شرک۔
۳۔ عرض کیا حق کیا ہے؟ فرمایا اسلام، قرآن اور ولایت جب تجھے ملے۔
۴۔ عرض کیا حیلہ (یعنی تدبیر) کیا ہے؟ فرمایا ترک حیلہ۔
۵۔ عرض کیا مجھ پر کیا لازم ہے؟ فرمایا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت۔
۶۔ عرض کیا اللہ تعالیٰ سے کیسے دعا مانگوں؟ فرمایا صدق و یقین کے ساتھ۔
۷۔ عرض کیا کیا مانگوں؟ فرمایا عافیت۔ ایک روایت میں عاقبت کا لفظ ہے۔
۸۔ عرض کیا اپنی نجات کے لیے کیا کروں؟ فرمایا حلال کھا اور سچ بول۔
۹۔ عرض کیا سُرور کیا ہے؟ فرمایا جنت۔
۱۰۔ عرض کیا راحت کیا ہے؟ فرمایا اللہ کا دیدار۔

جب حضرت علی رضی اللہ عنہ ان سوالوں سے فارغ ہو گئے تو یہ حکم منسوخ ہو گیا اور رخصت نازل ہوئی۔ اور سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اور کسی کو اس پر عمل کرنے کا وقت نہیں ملا۔۔۔
(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

جاسمن

لائبریرین
۶۱ ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۴۱ اور ۴۲ میں اہل ایمان کو کثرت سے اللہ عزوجل کا ذکر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًاO وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًاO
اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو o اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو o
سورۃ الاحزاب ، آیت نمبر ۴۱ و ۴۲۔​

بے شمار نعمتوں کا انعام کرنے والے اللہ عزوجل کا حکم ہو رہا ہے کہ اہل ایمان کو اس کا ذکر کثرت سے کرنا چاہیے اور اس پر مزید نعمتوں اور اجر و ثواب کا وعدہ دیا جاتا ہے۔ ترمذی شریف و ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کیا میں تمھیں ایک بہتر عمل اور بہت ہی زیادہ پاکیزہ کام اور سب سے بڑے درجے کی نیکی اور سونے چاندی کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بھی بڑھ کر اور جہاد سے بھی افضل کام نہ بتاؤں؟ صحابہ نے عرض کیا ، وہ کیا ہے یا رسول اللہ۔ فرمایا ، اللہ عزوجل کا ذکر۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ہر فرض کام کی کوئی حد ہے۔ پھر عذر کی حالت میں وہ معاف بھی ہے۔ لیکن ذکر اللہ کی کوئی حد نہیں ، نہ وہ کسی وقت ٹلتا ہے۔ ہاں کوئی دیوانہ ہو تو اور بات ہے۔ کھڑے، بیٹھے، لیٹے، رات کو، دن کو، خشکی میں، تری میں، سفر میں، حضر میں، غنا میں، فقر میں، صحت میں، بیماری میں، پوشیدگی میں، ظاہر میں ، غرض ہر حال میں ذکر اللہ کرنا چاہیے۔ صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرنی چاہیے۔ تم جب یہ کرو گے تو اللہ تم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا اور فرشتے تمھارے لیے ہر وقت دعا گو رہیں گے۔۔۔ (ابن کثیر)۔

۔۔۔​

اللہ ہمیں اپنا ایسا ہی ذکر کرنے کی توفیق اور آسانیاں عطا فرمائے جیسا کہ وہ چاہتا ہے کہ ہم کریں۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 
Top