الشفاء

لائبریرین
۶۸ ۔ سورۃ محمد کی آیت نمبر ۳۳ اہل ایمان کو اللہ عزوجل اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْO
اے ایمان والو! تم اﷲ کی اطاعت کیا کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرو اور اپنے اعمال برباد مت کروo
سورۃ محمد ، آیت نمبر ۳۳۔​

اللہ تعالیٰ اپنے با ایمان بندوں کو اپنی اور اپنے نبی کریم ﷺ کی اطاعت کا حکم دیتا ہے جو ان کے لیے دنیا اور آخرت کی سعادت کی چیز ہے اور مرتد ہونے سے روک رہا ہے جو اعمال کو غارت کرنے والی چیز ہے۔۔۔(ابن کثیر)۔

۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
۲۲ ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۵۹ میں اہل ایمان کو اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنے اور باہمی اختلافات سے بچنے اور ان کے حل کے لیے اللہ عزوجل کے احکامات اور اس کے رسول علیہ الصلاۃ والسلام کی سنت سے رہنمائی لینے کی تلقین فرمائی جا رہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاًO
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہےo
سورۃ النساء ، آیت نمبر ۵۹۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم کی اطاعت کے علاوہ مسلمان امراء اور حکام کی اطاعت کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کیونکہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے اس دار فانی میں زیادہ دیر اقامت گزیں نہیں ہونا تھا اور حضور کے بعد امور مملکت کی ذمہ داری خلفاء اور امراء نے سنبھالنی تھی اس لیے ان کی اطاعت کرنے کے متعلق بھی تاکید فرما دی۔ لیکن اطاعت رسول اور اطاعت امیر میں ایک بیّن فرق ہے۔ نبی معصوم ہوتا ہے جملہ امور میں خصوصا احکام شرعی کی تبلیغ میں اس سے خطا نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اس کی اطاعت کا جہاں حکم دیا غیر مشروط اطاعت کا حکم دیا۔ مثلاً ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھو۔ جو کچھ تمہیں رسول دے لے لو اور جس سے روکے رک جاؤ۔ رسول کا ہر حکم واجب التسلیم اور اٹل ہے اس میں کسی کو مجال قیل و قال نہیں۔ لیکن خلیفہ کا معصوم ہونا ضروری نہیں۔ اس سے غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس کی مشروط اطاعت کا حکم دیا کہ اس کے حکم کو خدا و رسول کے فرمان کی روشنی میں پرکھو اگر اس کے مطابق ہے تو اس پر عمل کرو ورنہ وہ قابل عمل نہیں۔ حضور کریم کا ارشاد ہے لا طاعۃ للمخلوق فی معصیۃ اللہ۔ یعنی اللہ عزوجل کے فرمان کے خلاف کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ (ضیاء القرآن)
اس آیت میں ارشاد ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو یعنی اس کی کتاب کی اتباع کرو۔ اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو یعنی ان کی سنتوں پر عمل کرو۔ اور حکم والوں کی اطاعت کرو یعنی اس چیز میں جو اللہ کی اطاعت ہو۔ اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان کے خلاف اگر ان کا کوئی حکم ہو تو اطاعت نہ کرنی چاہیئے کیونکہ ایسے وقت علماء یا امراء کی ماننا حرام ہے۔صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ عزوجل کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری فرمانبرداری کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نا فرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ پس یہ ہیں احکام علماء و امراء کی اطاعت کے۔ پھر فرمایا کہ اگر تم میں کسی چیز کے بارے میں جھگڑا پڑے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کی طرف۔ پس کتاب و سنت جو حکم دے اور جس مسئلہ کی صحت کی شہادت دے، وہی حق ہے۔ باقی سب باطل ہے۔ (ابن کثیر)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ احکام تین قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو ظاہر کتاب یعنی قرآن سے ثابت ہوں دوسرے وہ جو ظاہر حدیث سے ثابت ہوں اور تیسرے وہ جو قرآن و حدیث کی طرف قیاس کے ذریعے رجوع کرنے سے معلوم ہوں۔ آیت میں اولی الامر کی اطاعت کا حکم ہے، اس میں امام ،امیر ، بادشاہ ، حاکم ، قاضی ، علماء سب داخل ہیں۔ (صراط الجنان)
۔۔۔​
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
اللہ ہمیں عمل کی توفیق و آسانی دے۔آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
۲۳ ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۷۱ میں اہل ایمان کو دشمن سے ہوشیار رہنے کی نصیحت فرمائی جا رہی ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ خُذُواْ حِذْرَكُمْ فَانْفِرُواْ ثُبَاتٍ أَوِ انْفِرُواْ جَمِيعًاO
اے ایمان والو! اپنی حفاظت کا سامان لے لیا کرو پھر (جہاد کے لئے) متفرق جماعتیں ہو کر نکلو یا سب اکٹھے ہو کر کوچ کروo
سورۃ النساء ، آیت نمبر ۷۱۔​

خُذُواْ حِذْرَكُمْ : ہوشیاری سے کام لو۔ اللہ عزوجل کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں زندگی کے کسی بھی شعبے میں اپنے احکام سے محروم نہیں رکھا بلکہ ہر جگہ ہماری رہنمائی فرمائی۔ ماں باپ ، بیوی بچے ، رشتہ دار ، پڑوسی ، اپنے بیگانے سب کے متعلق واضح ہدایات عطا فرمائیں۔ اسی سلسلے میں ہماری بھلائی کے لیے ہمیں ہوشیار رہنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ دنیا کے دیگر معاملات کی طرح دشمنوں سے مقابلے میں بھی ہوشیاری اور سمجھ داری سے کام لو۔ دشمن کی گھات سے بچو اور اسے اپنے اوپر موقع نہ دو۔ اور اپنی حفاظت کا سامان لے رکھو۔ پھر موقع محل کی مناسبت سے دشمن کی طرف تھوڑے تھوڑے ہو کر نکلو یا اکٹھے چلو۔ یعنی جہاں جو مناسب ہو امیر کی اطاعت میں رہتے ہوئے تجربات اور عقل کی روشنی میں مفید تدبیریں اختیار کرو۔ یہ آیت مبارکہ جنگی حکمت عملی کے جملہ اصولوں میں رہنمائی کرتی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسباب کا اختیار کرنا بھی نہایت اہم ہے۔ بغیر اسباب لڑنا مرنے کے مترادف ہے۔ توکل ترک اسباب کا نام نہیں بلکہ اسباب اختیار کر کے امیدیں اللہ عزوجل سے وابستہ کرنے کا نام ہے۔(صراط الجنان)
۔۔۔​
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
اللہ عمل کی توفیق و آسانی دے۔آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
۲۴ ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۹۴ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَتَبَيَّنُواْ وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ كَذَلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُواْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًاO
اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) سفر پر نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور اس کو جو تمہیں سلام کرے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے، تم (ایک مسلمان کو کافر کہہ کر مارنے کے بعد مالِ غنیمت کی صورت میں) دنیوی زندگی کا سامان تلاش کرتے ہو تو (یقین کرو) اللہ کے پاس بہت اَموالِ غنیمت ہیں۔ اس سے پیشتر تم (بھی) توایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا (اور تم مسلمان ہوگئے) پس (دوسروں کے بارے میں بھی) تحقیق کر لیا کرو۔ بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہےo
سورۃ النساء ، آیت نمبر ۹۴۔
اس آیت مبارکہ کا شان نزول کچھ اس طرح ہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں حضور ﷺ نے ایک سریہ روانہ فرمایا ۔ کفار کو جب لشکر اسلام کی آمد کی خبر ملی تو وہ بھاگ گئے لیکن مرداس بن نھیک جو فدک کے رہنے والے تھے اور اپنے قبیلے میں صرف وہی اسلام لا چکے تھے اپنے مال مویشی کے ساتھ وہیں ٹھہرے رہے۔ جب مسلمان وہاں پہنچے اور نعرہ تکبیر بلند کیا تو انہوں نے بھی جواب میں اللہ اکبر کہا اور کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے پہاڑ سے نیچے اتر آئے اور مسلمانوں کو السلام علیکم کہا۔ مسلمانوں نے خیال کیا کہ اہل فدک تو سب کافر ہیں یہ شخص دھوکا دینے کے لیے ایمان کا اظہار کر رہا ہے۔ اس خیال سے حضرت اسامہ نے انہیں قتل کر دیا اور ریوڑ ہانک کر مدینہ طیبہ لے آئے اور بارگاہ رسالت میں سارا ماجرا بیان کیا۔ حضور ﷺ بہت رنجیدہ خاطر ہوئے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو حالت جنگ میں بھی بلا وجہ قتل و غارت سے روک دیا کہ جب تک تمہیں یقین نہ ہو جائے کہ یہ محارب کافر ہے اس وقت تک ہاتھ نہ اٹھاؤ۔ اور اگر کوئی عین اس وقت بھی اظہار اسلام کرے تو مال غنیمت کے حصول کے لیے اس کی شہادت اسلام کو رد نہ کردو۔ اس فنا پذیر دولت کی خاطر تم ایک مومن کی شہادت ایمان رد کر رہے ہو۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ رزق کے خزانے اللہ کے ہاتھ میں ہیں اگر تم اس کے حکم کی تعمیل کرو گے تو وہ دوسرے ذرائع سے تم پر رزق کے دروازے کھول دے گا۔ پھر فرمایا کہ ابتداء میں تمہاری بھی زبانی شہادت اسلام پر اعتبار کر لیا گیا تھا اب تم دوسروں کی زبانی شہادت کو کیوں تسلیم نہیں کرتے۔ فَتَبَيَّنُواْ کا لفظ آیت میں دو بار آیا ہے جو قتل میں انتہائی احتیاط برتنے کی تاکید کر رہا ہے۔ (ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۲۵ ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۳۵ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں کو عدل و انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے اور اس معاملے میں کسی بھی مصلحت سے بے پروا ہو جانے کی تلقین فرما رہا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلاَ تَتَّبِعُواْ الْهَوَى أَن تَعْدِلُواْ وَإِن تَلْوُواْ أَوْ تُعْرِضُواْ فَإِنَّ اللّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًاO
اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے)، اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہےo
سورۃ النساء ، آیت نمبر ۱۳۵۔​

كُونُواْ قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ : انصاف پر مضبوطی سے قائم ہو جاؤ۔ قوّام مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس سے مراد کثرت عددی نہیں بلکہ اس سے ثبات اور استحکام فی الشہادۃ کی تاکید مقصود ہے۔ یعنی جب شہادت دو تو خوب مستحکم ہو کر۔ اور ان تمام امور کو جو سچی گواہی دینے سے انسان کو روکتے ہیں مثلا اپنا ذاتی فائدہ، ماں باپ کا پاس، قریبی رشتہ داروں کی رعایت وغیرہ کو ذکر کر کے ان کو خاطر میں نہ لانے کی تاکید کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ کبھی یہ خیال انسان کو حق کے اظہار سے روک دیتا ہے کہ جس کے خلاف میں گواہی دے رہا ہوں وہ امیر کبیر ہے اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ کسی مسکین کی مسکنت اور غربت کا احساس انسان کے دل میں رحم و شفقت کے جذبات ابھار دیتا ہے اور اس غریب کے خلاف سچی بات کہنے سے اس لیے ہچکچاتا ہے کہ اس سے اس غریب کو نقصان نہ پہنچے۔ انسانی نفسیات کا کتنا دقیق محاسبہ ہے۔ فرمایا عدالت میں کھڑے ہو کر ان احساسات کو بالکل دل سے نکال دو اور بڑی سچائی کے ساتھ گواہی دو۔
فَاللّهُ أَوْلَى بِهِمَا : اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سبحان اللہ۔ کتنا پیارا جملہ ہے یعنی تم کسی کی خیر خواہی بھلا کیا کرو گے تم اپنے رب کا حکم مانو۔ تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ خود ان (امیر و غریب) کا خیر خواہ ہے۔ اس آیت کی ابتدا میں دو لفظ شُهَدَاءَ لِلّهِ کتنے پر شکوہ اور اثر آفرین ہیں۔ یعنی یہ نہ سمجھو کہ تم کسی انسان کے لیے گواہی دے رہے ہو اور جو تمہارے دل میں آئے کہہ دیا تو کوئی تمہارا کیا بگاڑ لے گا۔ نہیں ، یہ گواہی کسی انسان کے لیے نہیں بلکہ اللہ ذوا لمجد والعلیٰ کے لیے ہے۔ اب سوچ لو کیا تم اس کو ناراض کرنے کی ہمت رکھتے ہو۔ اور وَإِن تَلْوُواْ سے مراد سچی گواہی دیتے دیتے ہیر پھیر کر دینا ہے۔ یعنی جو بات غیر اہم تھی اس پر بڑا زور دیا اور جو اہم بات تھی اس کو پی گئے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔

اللہ عمل کی توفیق و آسانی دے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۲۶ ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۳۶ میں اللہ عزوجل ایمان کی بنیادی باتوں کا ذکر کر کے اہل ایمان کو ان پر جمے رہنے کی ہدایت عطا فرما رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِيَ أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن يَكْفُرْ بِاللّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًاO
اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جو اس نے (اس سے) پہلے اتاری تھی ایمان لاؤ، اور جو کوئی اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا انکار کرے تو بیشک وہ دور دراز کی گمراہی میں بھٹک گیاo
سورۃ النساء ، آیت نمبر ۱۳۶۔
یعنی اے ایمان والو! اپنے ایمان پر ثابت قدم رہو۔ ومعنی آمنوا اثبتو علی الایمان ودوموا علیہ (کشاف) یعنی آمنو کا مطلب ہے ایمان پر ثابت قدم رہنا اور اس پر مداومت یعنی ہمیشگی اختیار کرنا۔ کیونکہ اسلام قبول کرنے کے بعد انسان کو کتنے ہی کٹھن مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ مومن تو وہی ہے جو بڑی پامردی سے کسی خطرہ، کسی وسوسہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جادہ زیست پر قدم بڑھاتا چلا جائے۔ اس آیت کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے۔ اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! اپنے حسن عمل سے اس کی تصدیق بھی کرو۔۔۔(ضیاء القرآن)۔
ایمان کی تکمیل مکمل اطاعت میں مضمر ہے۔ ایمان والوں کو حکم ہو رہا ہے کہ ایمان میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔ تمام احکام کو، کل شریعت کو، ایمان کی تمام جزئیات کو مان لو۔ ایمان لائے ہو تو اب اسی پر قائم رہو۔ اللہ کو مانا ہے تو اب جسے جس طرح وہ منوائے، مانتے چلے جاؤ۔ پھر فرمایا جو شخص اللہ کے ساتھ، اس کےفرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور آخرت کے دن کےساتھ کفر کرے، وہ راہ ہدایت سے بہک گیا اور بہت دور کی غلط راہ پڑ گیا۔۔۔(ابن کثیر)۔

۔۔۔

اللہ عمل کی توفیق و آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۲۷ ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۴۴ میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غیر مسلموں سے دوستیاں کرنے سے منع کر رہا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُواْ لِلّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًاO
اے ایمان والو! مسلمانوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ (نافرمانوں کی دوستی کے ذریعے) اپنے خلاف اللہ کی صریح حجت قائم کر لو o
سورۃ النساء ، آیت نمبر ۱۴۴۔
اولیاء ولی کی جمع ہے اور ولی کا معنی ہے دوست، ہمراز ، مددگار۔ یعنی کافروں کے ساتھ اس قسم کے قریبی مراسم اور پختہ تعلقات منافقت کی کھلی ہوئی دلیل ہیں۔ اس کے بعد اگر تم پر اللہ تعالیٰ کی گرفت آئے تو تم کو شکوہ کا موقع نہ رہے گا کہ اجی ہم تو مسلمان تھے۔ کیونکہ تم نے کفار کے ساتھ دوستی قائم کر کے اپنے منافق ہونے کا ناقابل تردید ثبوت مہیا کر دیا۔۔۔ (ضیاء القرآن)۔

اس آیت میں بتایا گیا کہ کفار کو دوست بنانا منافقین کی خصلت ہے۔لہٰذا تم اس سے بچو۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ کافروں کو دوست بنا کر منافقت کی راہ اختیار کرو اور یوں اپنے خلاف اللہ تعالیٰ کی حجت قائم کر لو۔۔۔(صراط الجنان)۔

کافروں سے دوستیاں کرنے سے، ان سے دلی محبت رکھنے سے، ان کے ساتھ ہر وقت اٹھنے بیٹھنے سے، مسلمانوں کے بھید ان کو دینے سے اور پوشیدہ تعلقات ان سے قائم رکھنے سے اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو روک رہا ہے۔ جیسے کہ اور آیت میں بھی ہے کہ مومنوں کو چاہیئے کہ بجز مومنوں کے کفار سے دوستی نہ کریں۔ ایسا کرنے والا اللہ کے ہاں کسی بھلائی کا مستحق نہیں۔ ہاں اگر صرف بچاؤ کے طور پر ظاہر داری ہو تو اور بات ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان مروی ہے کہ قرآن میں جہاں کہیں ایسی عبارتوں میں سلطان کا لفظ ہے وہاں اس سے مراد حجت ہے یعنی اگر تم نے مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے دلی دوستی کے تعلقات پیدا کیے تو تمہارا یہ فعل کافی ثبوت اور پوری دلیل ہو گا اس امر کی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں سزا دے۔ کئی سلف مفسرین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے بھی اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔۔۔(ابن کثیر)۔

آج ہر مسلمان کو یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان آیات کے تناظر میں ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر کہاں کھڑے ہیں۔ اللہ عزوجل ہمارے حال پر رحم فرمائے۔۔۔ آمین۔

۔۔۔

اللہ تعالی انفرادی و اجتماعی دونوں سطح پر عمل کی توفیق و آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۲۹ ۔ اگلی آیت یعنی سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۲ میں مزید تفصیل سے ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللّهِ وَلاَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلاَ الْهَدْيَ وَلاَ الْقَلآئِدَ وَلاَ آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُواْ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُواْ وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْ۔بِ۔رِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِO
اے ایمان والو! اﷲ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت (و ادب) والے مہینے کی (یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب میں سے کسی ماہ کی) اور نہ حرمِ کعبہ کو بھیجے ہوئے قربانی کے جانوروں کی اور نہ مکّہ لائے جانے والے ان جانوروں کی جن کے گلے میں علامتی پٹے ہوں اور نہ حرمت والے گھر (یعنی خانہ کعبہ) کا قصد کرکے آنے والوں (کے جان و مال اور عزت و آبرو) کی (بے حرمتی کرو کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں) جو اپنے رب کا فضل اور رضا تلاش کر رہے ہیں، اور جب تم حالتِ اِحرام سے باہر نکل آؤ تو تم شکار کرسکتے ہو، اور تمہیں کسی قوم کی (یہ) دشمنی کہ انہوں نے تم کو مسجدِ حرام (یعنی خانہ کعبہ کی حاضری) سے روکا تھا اس بات پر ہرگز نہ ابھارے کہ تم (ان کے ساتھ) زیادتی کرو، اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہےo
سورۃ المائدہ ، آیت نمبر ۲۔​

شَعَآئِرَ اللّهِ : اللہ کی نشانیاں۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ شعائر کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا معنی ہے وہ علامت جس سے کسی چیز کی پہچان ہو سکے۔ یعنی جن سے حق و باطل کی شناخت ہو سکے ان کو شعائراللہ کہتے ہیں۔ اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جن احکام کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کا طرہ امتیاز مقرر فرمایا ہے ان کی پابندی کرو، جن حدوں کو قائم کیا ہے ان سے تجاوز نہ کرو اور جن چیزوں کے استعمال سے روکا ہے ان کے قریب مت جاؤ۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔

اللہ ہمیں عمل کی توفیق اور آسانیاں دے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۳۰ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۶ میں وضو اور تیمم کے احکام بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ وَإِن كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُواْ وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ مَا يُرِيدُ اللّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَ۔كِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَO
اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کیلئے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)، اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفعِ حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے) ہاتھوں کا مسح کر لو۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۶۔​

إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ : جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو۔ آیت مبارکہ میں وضو اور تیمم کا طریقہ اور ان کی حاجت کب ہوتی ہے اس کا بیان کیا گیا ہے۔ وضو کے چار فرض ہیں۔ ۱۔ چہرہ دھونا ، ۲۔ کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کا دھونا، ۳۔ چوتھائی سر کا مسح کرنا، ۴۔ ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھونا۔ (فرائض، سنن ومستحبات کی رعایت کے ساتھ وضو کرنے کا طریقہ ہمارے ہاں معروف ہے الحمدللہ۔ تیمم کا طریقہ مراسلہ نمبر ۳۰ میں گزرا۔) وضو میں اعضاء کو جتنا دھونے کا حکم ہے اس سے کچھ زیادہ دھو لینا مستحب ہے کہ جہاں تک اعضائے وضو کو دھویا جائے گا قیامت کے دن وہاں تک اعضاء روشن ہوں گے۔ اگرچہ ایک ہی وضو سے بہت سی نمازیں پڑھنا درست ہے مگر ہر نماز کے لیے جداگانہ وضو کرنا زیادہ برکت و ثواب کا ذریعہ ہے۔ ابتدائے اسلام میں ہر نماز کے لیے جداگانہ وضو کرنا فرض تھا، بعد میں منسوخ کیا گیا۔۔۔ (صراط الجنان)۔

۔۔۔

اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق اور آسانیاں نصیب کرے۔آمین
 

جاسمن

لائبریرین
۳۲ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۱۱ میں ارشاد ربانی ہے۔​

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُواْ إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَعَلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَO
اے ایمان والو! تم اﷲ کے (اُس) انعام کو یاد کرو (جو) تم پر ہوا جب قوم (کفّار) نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے ہاتھ (قتل و ہلاکت کے لئے) تمہاری طرف دراز کریں تو اﷲ نے ان کے ہاتھ تم سے روک دیئے، اور اﷲ سے ڈرتے رہو، اور ایمان والوں کو اﷲ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئےo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۱۱۔​

اذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ : تم اﷲ کے (اُس) انعام کو یاد کرو ۔ جس کی تفصیل یہ ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور کریم ﷺ ایک منزل میں اترے، لوگ ادھر ادھر سایہ دار درختوں کی تلاش میں لگ گئے۔ آپ ﷺ نے ہتھیار اتار کر ایک درخت پر لٹکا دیے۔ ایک اعرابی نے آکر آپ کی تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی اور اسے کھینچ کر حضور اکرم ﷺ کے پاس کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اب بتائیے مجھ سے آپ کو کون بچا سکتا ہے۔ آپ ﷺ نے فوراً جواب دیا ، اللہ عزوجل۔ اس نے تین دفعہ کہا اور آپ نے یہی جواب دیا تو اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی۔ آپ نے صحابہ کو بلا کر سارا واقعہ بتایا اور اس اعرابی کو معاف کر دیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہودیوں نے آپﷺ اور آپ کے صحابہ کو قتل کرنے کے ارادہ سے زہر ملا کر کھانا پکا کر دعوت کی لیکن اللہ عزوجل نے آپ کو آگاہ کر دیا اور آپ بچ رہے۔ ابن اسحاق وغیرہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد بنو نضیر کے وہ لوگ ہیں جنھوں نے چکی کا پاٹ قلعہ کے اوپر سے آپ کے سر پر گرانا چاہا تھا۔ ان شریروں نے عمرو بن حجاش بن کعب کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ ہم حضور کو نیچے کھڑا کر کے باتوں میں مغشول کر لیں گے تم اوپر سے چکی کا پاٹ ان کے اوپر پھینک دینا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو ان کی شرارت وخباثت سے آگاہ کر دیا۔ آپ مع اپنے صحابہ کے وہاں سے چلے گئے۔ (ابن کثیر)۔
اس آیت میں اللہ عزوجل اہل ایمان پر حضور کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی سلامتی کا احسان ذکر فرما رہا ہے۔ جو قیامت تک آنے والے تمام غلامان مصطفٰے پر ہے۔۔۔

۔۔۔

اللہ ہم پہ رحم فرمائے کہ ہم اس انعام کو ہمیشہ یاد رکھیں۔اللہ خود ہی سے ڈرنےوالا بنائے۔ اور ہمارا ایمان و بھروسہ خود پہ قائم رکھے۔آمین
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
جان ہیں وہ جہان کی ، جان ہے تو جہان ہے ۔
سبحان اللہ۔ کیا راز کہ سلامتی تو اللہ جل مجدہ نے اپنے نبی مکرم کی جان کو عطا فرمائی اور اس کا احسان مومنوں پر رکھ دیا۔ اس کا جواب تو آپ جیسے مشاہد لوگ زیادہ بہتر جانتے ہوں گے۔ ہم ظاہر بین تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہاں اہل ایمان کو احساس دلایا جا رہا ہے کہ یہ اللہ عزوجل کا تم پر انعام و احسان ہے کہ اس نے اپنے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام کو عافیت کے ساتھ تمہارے درمیان رکھا ہوا ہے۔ اور چونکہ کائنات پر رحمتوں، برکتوں اور نعمتوں کی بارش اللہ عزوجل نے رحمۃ اللعالمین ہی کے وجود مسعود کے تصدق سے ہونا مقدر فرمائی تھی تو آقا کریم کی ذات والا صفات کی سلامتی نہ صرف مومنوں بلکہ تمام مخلوق کے لیے نعمت عظمیٰ قرار پائی بشمول ان بد بختوں کے کہ جو آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے قتل کے درپے تھے۔کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ ، یعنی اللہ عزوجل کو یہ زیبا نہیں کہ وہ ان کو عذاب دے حالانکہ آپ بھی ان میں تشریف فرما ہیں۔ پھر وہ درندہ صفت انسان کہ جو اپنی ہی بچیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، کس کی توجہ سے فرشتہ سیرت بنے ، مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ کی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل و غارت اور جنگیں شروع کر دینے والے بدو کس کی تعلیم سے بھائی بھائی بن گئے، مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ کی۔ کفر و شرک کے اندھیروں میں بھٹکنے والے وہ لوگ کہ شراب جن کی گھُٹی میں پڑی تھی، بے حیائی جن کا وطیرہ تھا، ظلم و ستم جن کا شعار تھا ، کس کی تعلیم ، تذکیر اور توجہ سے توحید کے علم بردار اور آئین جہاں بانی میں دنیا بھر کے استاد ہو گئے، مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ کی۔ بے شک آپ کی ذات والا صفات قیامت تک آنے والے مومنین کے لیے اللہ عزوجل کی نعمت عظمیٰ اور احسان عظیم ہے ۔ آج بھی اہل ایمان کے گلشن کی بہار حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے دم قدم سے ہے۔ صاحب صراط الجنان فرماتے ہیں کہ ایسا عظیم رسول کہ جو اپنی ولادت مبارکہ سے لے کر وصال مبارک تک اور اس کے بعد کے تمام زمانہ میں اپنی امت پر مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہا رہے ہیں۔ بلکہ ہمارا تو وجود بھی سید دو عالم ﷺ کے صدقہ سے ہے۔ اگر آپ نہ ہوتے تو کائنات اور اس میں بسنے والے بھی وجود نہ پاتے۔ پیدائش مبارکہ کے وقت ہی آپ ﷺ نے ہم امتیوں کو یاد فرمایا ۔ شب معراج رب العالمین کی بارگاہ میں ہمیں یاد فرمایا۔ وصال شریف کے بعد قبر انور میں اتارتے ہوئے بھی دیکھا گیا کہ آپ کے لب ہائے مبارکہ پر اپنی امت کی نجات و بخشش کی دعائیں تھیں۔ آرام دہ راتوں میں جب سارا جہاں محو استراحت ہوتا وہ پیارے آقا حبیب کبریا ﷺ اپنا بستر مبارک چھوڑ کر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ہم گناہگاروں کے لیے دعائیں فرمایا کرتے۔ قیامت کے دن سخت گرمی میں شدید پیاس کے وقت رب قہار کی بارگاہ میں ہمارے لیے سر سجدہ میں رکھیں گے اور امت کی بخشش کی درخواست کریں گے۔ کہیں امتیوں کے نیکیوں کے پلڑے بھاری کریں گے، کہیں پل صراط سے سلامتی سے گزاریں گے، کہیں حوض کوثر سے سیراب کریں گے۔ کہیں جہنم میں گرے ہوئے امتیوں کو نکال رہے ہوں گے، کسی کے درجات بلند فرما رہے ہوں گے۔ اپنے نورانی آنسوؤں سے امت کے گناہ دھوئیں گے۔ اس نفسی نفسی کی حالت میں کہ
جب ماں اکلوتے کو چھوڑے
آ آ کہہ کے بلاتے یہ ہیں

باپ جہاں بیٹے سے بھاگے
لطف وہاں فرماتے یہ ہیں

شافع، نافع، رافع، دافع
کیا کیا رحمت لاتے یہ ہیں
دنیا میں بھی اہل ایمان کی ساری نعمتوں کا منبع و مرکز حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات مبارکہ ہے۔ ہمیں قرآن دیا ، ایمان دیا، خدا کا عرفان دیا اور ہزارہا وہ چیزیں کہ جن کے ہم قابل نہ تھے اپنے سایہ رحمت کے صدقے ہمیں عطا فرمائیں۔ الغرض حضور سید دو عالم ﷺ کی ذات مبارکہ کے احسانات اس قدر کثیر در کثیر ہیں کہ انھیں شمار کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے۔ بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال

ہو نہ یہ پھول، تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

جان ہیں وہ جہان کی ، جان ہے تو جہان ہے ۔
۔۔۔

بے شک!
 

جاسمن

لائبریرین
۳۳ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۳۵ میں اہل ایمان کو اللہ جل شانہ کی بارگاہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے وسیلہ تلاش کرنے اور اس کی راہ میں مجاہدہ اور کوشش کرنے کی تلقین فرمائی جا رہی ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۳۵۔​

وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ : اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔ آیت میں وسیلہ کا معنی یہ ہے کہ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادات چاہے فرض ہوں یا نفل ، ان کی ادائیگی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو۔اور اگر تقویٰ سے مراد فرض و واجبات کی ادائیگی اور حرام چیزوں کو چھوڑ دینا مراد لیا جائے اور وسیلہ تلاش کرنے سے مطلقا ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کا سبب بنے مراد لی جائے تو بھی درست ہے۔اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام اور اولیاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھم سے محبت، صدقات کی ادائیگی، اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی زیارت، دعا کی کثرت، رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنا اور بکثرت ذکر اللہ عزوجل میں مشغول رہنا وغیرہ بھی اسی عموم میں شامل ہے۔ اب معنی یہ ہوا کہ ہر وہ چیز جو اللہ عزوجل کے قریب کر دے اسے لازم پکڑ لو اور جو بارگاہ الٰہی سے دور کرے اسے چھوڑ دو۔ (صاوی، صراط الجنان)۔

۔۔۔​

اللہ عمل کی توفیق و آسانی دے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۳۴ ۔ اس سے پہلے سورۃ آل عمران میں اہل ایمان کو اغیار کی دوستی سے منع کیا گیا اور سورۃ النساء میں بھی کافرین کو دوست بنانے سے منع کرنے کے بعد یہاں سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۵۱ میں بھی اہل ایمان کو یہود و نصاریٰ کی دوستی سے منع کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَO
اے ایمان والو! یہود اور نصارٰی کو دوست مت بناؤ یہ (سب تمہارے خلاف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائے گا بیشک وہ (بھی) ان میں سے ہو (جائے) گا، یقیناً اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتاo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۵۱۔
اس آیت میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستی و موالات یعنی ان کی مدد کرنا، ان سے مدد چاہنا اور ان کے ساتھ محبت کے روابط رکھنا ممنوع فرمایا گیا۔ یہ حکم عام ہے اگرچہ آیت کا نزول کسی خاص واقعہ میں ہوا ہو۔ چنانچہ یہاں یہ حکم بغیر کسی قید کے فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ بناؤ ، یہ مسلمانوں کے مقابلے میں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، تمہارے دوست نہیں۔ کیونکہ کافر کوئی بھی ہوں اور ان کے باہم کتنے ہی اختلاف ہوں، مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ سب ایک ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو کافروں سے دوستی سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ نہایت سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی کرے وہ انہی میں سے ہے۔ یہ آیت مبارکہ مسلمانوں کی ہزاروں معاملات میں رہنمائی کرتی ہے اور اس کی حقانیت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ پوری دنیا کے حالات پر نظر دوڑائیں تو سمجھ آئے گا کہ مسلمانوں کی ذلت و بربادی کا آغاز تبھی سے ہوا جب آپس میں نفرت و دشمنی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر غیر مسلموں کو اپنا خیر خواہ اور ہمدرد سمجھ کر ان سے دوستیاں لگائیں اور انھیں اپنوں پر ترجیح دی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے۔۔۔(صراط الجنان)۔

۔۔۔
اللہ ہمیں عمل کی توفیق اور آسانی دے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۳۵ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۵۴ میں ارشاد ربانی ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌO
اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے اﷲ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ یہ (انقلابی کردار) اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اﷲ وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہےo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۵۴۔
ارتداد کہتے ہیں حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف پھر جانے کو۔ اللہ رب العزت جو قادر و غالب ہے، خبر دیتا ہے کہ اگر کوئی اس پاک دین سے مرتد ہو جائے تو وہ اسلام کی قوت گھٹا نہیں دے گا۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بدلے ان لوگوں کو اس سچے دین کی خدمت پر مامور کرے گا جو ان سے ہر حیثیت میں اچھے ہوں گے۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، خلافت صدیق میں جو لوگ اسلام سے پھر گئے تھے، ان کا حکم اس آیت میں ہے۔ پھر کامل ایمان والوں کی صفت بیان ہو رہی ہے کہ (اللہ عزوجل ان سے پیار کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں)، اپنے ساتھیوں یعنی مسلمانوں کے سامنے تو بچھ جانے والے، جھک جانے والے ہوتے ہیں اور کفار کے مقابلہ میں تن جانے والے، ان پر بھاری پڑنے والے اور ان پر تیز ہونے والے ہوتے ہیں۔ سچے مسلمان راہ حق کے جہاد سے نہ منہ موڑتے ہیں، نہ پیٹھ دکھاتے ہیں اور نہ کسی کی ملامت کا خوف کرتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہے دے۔ یعنی کمال ایمان کی یہ صفات خاص اللہ عزوجل کا عطیہ ہیں اور وہ وسیع فضل اور کامل علم والا ہے۔۔۔(ابن کثیر)۔
۔۔۔

اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق و آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۳۶ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۵۷ میں پھر یاد دہانی کرائی جا رہی ہے کہ کفار کے ساتھ اور جو لوگ تمہارے دین کو کھیل تماشا بنائے رکھتے ہیں ان سے دوستیاں نہ پالو۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ وَاتَّقُواْ اللّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَO
اے ایمان والو! ایسے لوگوں میں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی، ان کو جو تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنائے ہوئے ہیں اور کافروں کو دوست مت بناؤ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو بشرطیکہ تم (واقعی) صاحبِ ایمان ہوo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۵۷۔​

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی محبت سے منع کر رہا ہے اور فرماتا ہے کہ کیا تم ان سے دوستیاں کرو گے جو تمہارے طاہر و مطہر دین کا مذاق اڑاتے ہیں۔ (ابن کثیر)۔ دو آدمی اظہار اسلام کے بعد منافق ہو گئے تھے اور بعض مسلمان ان سے محبت رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور فرمایا کہ زبان سے اسلام کا اظہار کرنا اور دل میں کفر چھپائے رکھنا دین کو ہنسی اور کھیل بنانا ہے اور ایسے لوگوں اور ان کے علاوہ مشرکوں ، کافروں کو دوست بنانے سے بھی منع کر دیا گیا۔ کیونکہ اللہ عزوجل کے دشمنوں سے دوستی کرنا ایمان دار کا کام نہیں۔۔۔(صراط الجنان)۔

۔۔۔

جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
اللہ ہمیں عمل کی توفیق و آسانی دے۔آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
۳۷ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۸۷ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَO
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتاo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۸۷۔
چند جلیل القدر صحابہ کرام جن میں حضرت صدیق و علی رضی اللہ عنہم بھی شریک تھے،حضرت عثمان بن مظعون کے گھر میں جمع ہوئے اور یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ وہ ہمیشہ روزہ رکھا کریں گے، ساری رات عبادت میں گزاریں گے،بستروں پر نہیں سوئیں گے، گوشت گھی وغیرہ نہیں کھائیں گے، عورتوں اور خوشبو سے بالکل اجتناب کریں گے، اونی لباس پہنیں گے اور دنیا سے قطع تعلق کر لیں گے۔ رحمت عالم ﷺ کو اطلاع ملی تو حضور نے انھیں بلا کر یہ حقیقت افروز ارشاد فرمایا: اے میرے صحابہ ! تمھارے نفسوں کا بھی تم پر حق ہے اس لیے روزے بھی رکھو اور افطار بھی کرو۔ راتوں میں جاگ کر عبادت بھی کرو اور آرام سے سوؤ بھی۔ کیونکہ میں رات کو جاگتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں۔ گوشت اور گھی بھی کھاتا ہوں اور اپنی ازواج سے بھی مقاربت کرتا ہوں۔(یہ میرا طریق کار اور سنت ہے) جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ میری جماعت سے نہیں۔
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ نہ تو یہودیوں کی طرح لذات دنیا میں کھو جاؤ اور نہ مسیحی راہبوں کی طرح دنیا کی حلال لذتوں کو اپنے اوپر حرام کر دو بلکہ اعتدال اور میانہ روی اختیار کرو۔ یہی دین اسلام کا طرہ امتیاز ہے۔ لاَ تُحَرِّمُواْ کا معنی یہ ہے کہ نہ تو یہ اعتقاد رکھو کہ یہ چیزیں حرام ہیں اور نہ زبان سے ایسا کہو اور نہ ان کے استعمال کو اس طرح ترک کر دو جیسے حرام چیز کو ترک کیا جاتا ہے۔ اولیاء کرام نفس سرکش کی سرکوبی کے لیے بعض حلال چیزوں کو استعمال نہیں کرتے تو وہ ان کی حرمت کے قائل نہیں ہوتے بلکہ جس طرح جسمانی طبیب بعض اشیاء کو صحت جسمانی کے لیے مضر خیال کر کے مریض کو ان کے استعمال سے روک دیتا ہے اسی طرح یہ روحانی معالج بعض روحانی مفاسد کے پیش نظر بعض چیزوں سے وقتی طور پر اجتناب کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی جاہل اللہ تعالیٰ کی کسی حلال کردہ چیز کو اعتقادی یا قولی طور پر حرام جانے تو یہ باطل ہے اور گمراہی ہے۔ (ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​

اللہ عمل کی توفیق و آسانی دے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

الشفاء

لائبریرین
سورۃ الحجرات ۔ ۴۹
۶۹ ۔ سورۃ الحجرات کی ابتدائی آیات میں بھی رسول مکرم ﷺ کی شان رفیع بیان کر کے اہل ایمان کو بارگاہ نبوت کا ادب و احترام سکھایا جا رہا ہے۔ اس سورۃ کی پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌO
اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے نہ بڑھا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو (کہ کہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی نہ ہوجائے)، بیشک اﷲ (سب کچھ) سننے والا خوب جاننے والا ہےo
سورۃ الحجرات ، آیت نمبر ۱۔
اس سورۃ میں رسول ذی شان ﷺ کی عزت و تکریم کا حکم دیا جا رہا ہے۔ ادب و احترام کے انداز سکھائے جا رہے ہیں۔ چونکہ ادب ہو گا تو دل میں تعظیم ہو گی۔ تعظیم ہو گی تو احکام کی تعمیل کا جذبہ پیدا ہوگا۔ جب تعمیل حکم کی خُو پختہ ہو گی تو محبت کی نعمت مرحمت فرمائی جائے گی۔ اور جب محبوب خدا وند ذوالجلال کے عشق کی شمع فروزاں ہو گئی تو حریم کبریائی تک جانے والا سارا راستہ منور ہو جائے گا۔
ادب و احترام کے درس کا آغاز لَا تُقَدِّمُوا سے فرمایا جا رہا ہے۔ علامہ ابن جریر لکھتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے پیشوا یا امام کے ارشاد کے بغیر خود ہی امر و نہی کے نفاذ میں جلدی کرے تو عرب کہتے ہیں کہ فلان یقدم بین یدی امامہ۔ یعنی فلاں شخص اپنے امام کے آگے آگے چلتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے کے بعد کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے رب کریم اور اس کے رسول مکرم کے ارشاد کے علی الرغم کوئی بات کہے یا کوئی کام کرے۔ جب انسان اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتا ہے تو وہ اس امر کا بھی اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ آج کے بعد اس کی خواہش ، اس کی مرضی، اس کی مصلحت ، اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر بلا تامل قربان کر دی جائے گی۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
۳۸ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۹۰ میں ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۹۰۔
عرب میں شراب کا عام رواج تھا۔ گنتی کے چند آدمیوں کے علاوہ سب اس کے متوالے تھے۔ شراب جو ان گنت جسمانی و روحانی بیماریوں کا سبب، اخلاقی اور معاشی خرابیوں کی جڑ اور فتنہ فساد کی علت ہے، اسلام کے پاکیزہ نظام حیات میں اس کی کیوں کر گنجائش ہو سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے قطعی حرام کر دیا۔ لیکن حرمت کا حکم آہستہ آہستہ اور بتدریج نازل ہوا تاکہ لوگوں کو اس پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔ یہاں چار چیزوں کے نجاست ،خباثت اور شیطانی کام ہونے کے بارے میں بیان فرمایا اور ان سے بچنے کا حکم دیا گیا۔ وہ چار چیزیں یہ ہیں۔
۱۔ خمر : ہر مدہوش کر دینے والی شراب کو خمر کہتے ہیں۔ عصیر عنب سے اس کی تخصیص تعسف ہے۔ کیونکہ مدینہ طیبہ میں جو شراب استعمال ہوتی تھی وہ انگور، گندم ، جو، کھجور اور شہد سے کشید ہوا کرتی تھی۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو کسی صحابی نے بھی یہ نہیں سمجھا کہ صرف انگوری شراب ہی حرام ہے حالانکہ وہ اہل زبان تھے۔ ۲۔ میسر : مطلقا جُوا کو کہتے ہیں خواہ اس کی صورت کیسی ہو۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ الشطرنج من المیسر کہ شطرنج بھی جُوا ہے۔۔۔ ۳۔ انصاب : ان پتھروں کو انصاب کہا جاتا تھا جو حرم میں کعبہ کے ارد گرد نصب تھے اور کفار ان کے لیے جانور ذبح کرتے اور ان کا خون ان پتھروں پر مل دیتے۔۔۔ ۴۔ ازلام: وہ تیر جن کے ذریعہ فالیں نکالی جاتی تھیں۔ نیز وہ تیر جن کے ساتھ جُوا کھیلا جاتا تھا۔ اس آیت میں مقصود تو شراب اور جُوا کی حرمت قطعی بیان کرنا ہے لیکن انصاب اور ازلام کو ان کے ساتھ ذکر کر کے ان کی قباحت کو اور زیادہ عیاں کر دیا۔ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ۔ بدبودار ، غلیظ اور گندی چیز کو رجس کہتے ہیں اور من عمل الشیطان کہہ کر یہ بتایا کہ کہ یہ چیزیں اتنی غلیظ اور ناپاک ہیں کہ کوئی سلیم الفطرت انسان ازخود ان کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ صرف شیطان کی وسوسہ اندازی ہی اسے ان قبیح حرکات کے ارتکاب کی رغبت دلا سکتی ہے۔۔۔ (ضیاء القرآن)۔

۔۔۔

اللہ ان چیزوں سے ہمیں پناہ دے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 
Top