جاسمن

لائبریرین
۳۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۷۲ اور ۱۷۳ میں اللہ عزوجل اہل ایمان کو حلال و حرام کی تمیز سکھاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُواْ لِلّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَO إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْ۔زِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ ۔

اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہوo اس نے تم پر مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے۔
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر 173-172۔

حلال و حرام ۔ ان آیات میں اللہ عزوجل اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ تم پاک صاف اور حلال طیب چیزیں کھایا کرو۔ اور میری شکر گزاری کرو۔ لقمہ حلال دعا اور عبادت کی قبولیت کا سبب ہے، اور لقمہ حرام عدم قبولیت کا۔ دعا کی قبولیت کا حلال کھانے سے گہرا تعلق ہے۔ جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے درخواست کی کہ میرے لیے دعا فرمائیں کہ میری دعائیں قبول ہو جایا کریں تو آپ ﷺ نے فرمایا ، اے سعد اپنا کھانا پاک بنا لو ، مستجاب الدعوات ہو جاؤ گے۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد ﷺ کی جان ہے ، بندہ جب اپنے پیٹ میں حرام لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔
مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرۃرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر (کر کے حج یا عمرے کے لئے ) آتاہے، (سفر کی وجہ سے)اس کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہوتے ہیں ، (اور اس حالت میں )وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھاکر کہتا ہے: ’’اے میرے رب!اے میرے رب! حالانکہ اس کا کھانا حرام ہوتا ہے ، اس کا پینا حرام ہوتا ہے، اس کا لباس حرام ہوتا ہے اور حرام ہی سے اس کی پرورش ہوئی ہوتی ہے۔ تو(ایسے میں) اُس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟‘‘
حلال و طیب سے مراد یہ ہے کہ کسی حرام ذریعے سے کمایا ہوا نہ ہو مثلاً ڈاکہ زنی، چوری، سود، رشوت، دھوکا بازی اور دیگر حرام معاملات۔ اسی طرح پاکیزہ سے مراد یہ ہے کہ ناپاک نہ ہو مثلاً مردار، خنزیر کا گوشت، شراب اور دیگر ناپاک اشیاء۔ انسان جو غذائیں استعمال کرتا ہے اُن کا اُس کے جسم کے علاوہ اس کی عادات و اطوار پر بھی اثر پڑتا ہے ۔ چنانچہ جیسی غذا سے جسم کی نشوونما ہوتی ہے جسم کے اندر اُسی طرح کی خصوصیات و صفات پیدا ہوتی ہیں۔ اس لئے اگر انسان کی غذا پاک اور حلال ہو تو اس میں اچھی صفات پیدا ہو تی ہیں۔ دل میں نورانیت پیدا ہوتی ہے اور اطاعت و بندگی کا شوق بڑھ جاتا ہے۔لیکن اگرانسان کا کھانا پینا حرام اور خبیث ہو تو اس سے انسان کے دل کی سختی اور تاریکی بڑھ جاتی ہے اور خوف ِخدانکل جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ایسے انسان سے نیک اعمال بجا لانے کی قوّت سلب ہو جاتی ہے۔۔۔

اللٰھم اکفنا بحلالک عن حرامک واغننا بفضلک عمن سواک۔
۔۔۔​
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۴۔ سورۃ البقرۃ ہی کی آیت نمبر ۱۷۸ میں خالق ارض و سماوات نے معاشرے میں ظلم و نا انصافی کے خاتمے ، اپنے مظلوم و مجبور بندوں کی داد رسی اور حفاظت اور معاشرے میں امن و سکون کو قائم رکھنے کے لئے نہایت ہی اہم قوانین عطا فرمائے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَى بِالْأُنثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌO
اے ایمان والو! تم پر اُن کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کئے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر اگر اس کو (یعنی قاتل کو) اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ (یعنی قصاص) معاف کر دیا جائے تو چاہئے کہ بھلے دستور کے موافق پیروی کی جائے اور (خون بہا کو) اچھے طریقے سے اس (مقتول کے وارث) تک پہنچا دیا جائے، یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے، پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لئے دردناک عذاب ہےo
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر ۱۷۸۔​

شان نزول : اسلام سے پہلے عرب میں دستور تھا کہ اگر طاقتور قبیلے کا کوئی شخص قتل کر دیا جاتا تو وہ صرف قاتل کے قتل پر اکتفا نہ کرتے بلکہ قاتل کے قبیلہ کے دس دس بیس بیس آدمی قتل کرنا اپنا حق سمجھتے۔ اگر کسی آزاد کو غلام قتل کر دیتا تو غلام کے بدلے غیر قاتل آزاد کا سر قلم کیا جاتا اور اگر عورت قتل کرتی تو مرد کو قتل کیا جاتا۔ اسی ظالمانہ اور غیر اسلامی دستور پر صدیوں عمل ہوتا رہا ۔ اور عرب اپنی نسلی نخوت اور قبائلی برتری کی تسکین بے گناہوں کا خون بہا بہا کر کرتے رہے۔ قرآن کریم نے اس دستور کو یک قلم منسوخ کر دیا اور حکم دیا کہ مقتول کا قاتل ہی قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ خواہ وہ مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام۔ قرآن کریم میں قصاص کا مسئلہ کئی جگہ بیان ہوا ہے۔ اس آیت میں قصاص اور عفو دونوں کے مسائل ہیں۔ اور اس احسان کا بیان ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کو قصاص و عفو میں مختار کیا، چاہیں قصاص لیں چاہیں تو معاف کر دیں۔
دیت یا خوں بہا: قانون قصاص میں ایک اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ اگر مقتول کے وارث قاتل سے صلح کرنا چاہیں تو وہ خوں بہا لے کر صلح کر سکتے ہیں۔ کیونکہ قتل کا جرم صلح کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی تھیں، اسلام نے ان خرابیوں کا احساس کرتے ہوئے صلح کی اجازت دے دی۔
من اخیہ کا لفظ بڑی شان رکھتا ہے۔ ایسی حالت میں کہ جب قاتل قتل کا ارتکاب کر چکا ہے، محبت ، پیار ، رحم اور شفقت کے تمام رشتے ٹوٹ چکے ہیں۔ عداوت اور انتقام کی آگ بھڑکنے لگی ہے۔ قرآن مقتول کے غضب ناک وارثوں کو یاد دلاتا ہے کہ قاتل مجرم ہے، قصور وار ہے اور تمہارا غصہ بے جا بھی نہیں، تاہم تمہارا اسلامی بھائی تو ہے۔ اخوت ایمانی کا رشتہ تو ابھی بھی قائم ہے۔ اگر بخش دو، معاف کر دو تو کوئی بڑی بات نہیں۔مقصد یہ ہے کہ ٹوٹے ہوئے دل پھر جڑ جائیں۔ اور اسلامی معاشرے کے دامن میں جو چاک پڑ گیا ہے اسے پھر سی دیا جائے۔ اس میں خوارج کا ابطال بھی ہے کہ جو مرتکب کبیرہ کو کافر کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی کے پاک کلام کی یہی لطافتیں تھیں جنہوں نے عرب کے سرکشوں مطیع بنا دیا تھا۔
فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ: یہاں مقتول کے وارثوں کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ جس بھائی پر تم نے اتنا احسان کیا کہ اس کی جاں بخشی کر کے دیت قبول کر لی تو اب اس سے خوں بہا اس احسن طریقہ سے طلب کرو کہ اسے تکلیف نہ ہو۔ اور دوسری طرف قاتل کو بھی ہدایت فرمائی کہ وہ احسان فراموش نہ بنے بلکہ خوشی خوشی جلدی جلدی خون بہا ادا کر دے۔ اور آ گے یہ بھی فرما دیا کہ یہ محض تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے رعایت و مہربانی ہے کہ اس نے قتل کی سزا صرف قتل ہی مقرر نہیں فرمائی بلکہ خوں بہا ادا کرنے کی بھی گنجائش رکھی ہے۔
فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ: اب تصفیہ ہو جانے کے بعد جو بھی زیادتی کرے ، قاتل ہو یا مقتول کے رشتہ دار، اسے درد ناک سزا دی جائے۔ ہر ایک کو قانون کا احترام اور اس کی پابندی کرنی چاہیئے۔ اسی لئے شریعت اسلامیہ نے قصاص لینے، حد قائم کرنے اور تعزیرات لگانے کا حق افراد کو نہیں دیا بلکہ صرف حکومت وقت کو دیا ہے کیونکہ عدل و انصاف قائم رکھنے کی صرف یہی صورت ہے۔ اگر افراد کو یہ حق مل جائے تو وہ افراتفری پیدا ہو کہ الامان۔۔۔

اگلی آیت مبارکہ میں قانون قصاص کی علت اور حکمت بیان کی جا رہی ہے لہٰذا مناسب ہے کہ اس کو بھی ساتھ ہی بیان کر دیا جائے۔

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاْ أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَO
اور تمہارے لئے قصاص (یعنی خون کا بدلہ لینے) میں ہی زندگی (کی ضمانت) ہے اے عقلمند لوگو! تاکہ تم (خوں ریزی اور بربادی سے) بچوo
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر 179۔

یعنی اگر ناحق قتل کرنے والے کو سزا نہیں دی جائے گی تو اس کا حوصلہ بڑھے گا۔ اور مجرمانہ ذہنیت کے دوسرے لوگ بھی نڈر ہو کر قتل و غارت کا بازار گرم کر دیں گے۔ لیکن اگر قاتل کو اس کے جرم کے بدلے قتل کر دیا گیا تو دوسرے مجرم بھی اپنا بھیانک انجام دیکھ کر باز آ جائیں گے۔ اس طرح ایک قاتل کے قتل کرنے سے بے شمار معصوم جانیں قتل و غارت سے بچ جائیں گی۔ آج بعض ملکوں میں قتل کی سزا منسوخ کر دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سزا ظالمانہ ہے ۔ مقتول تو قتل ہو چکا، اب اس کے عوض ایک دوسرے آدمی کو تختہ دار پر لٹکانا بے رحمی نہیں تو کیا ہے۔ یہ لوگ خوف ناک حقائق کو دلکش عبارتوں سے حسین تو بنا سکتے ہیں لیکن نہ ان کی حقیقت کو بدل سکتے ہیں اور نہ ان کے برے نتائج کو رو پذیر ہونے سے روک سکتے ہیں۔ جس ملک کے قانون کی آنکھیں ظالم کے گلے میں پھانسی کا پھندا دیکھ کر پر نم ہو جائیں وہاں مظلوم و بے کس کا خدا ہی حافظ۔ وہ ملک اپنی آغوش میں ایسے مجرموں کو ناز و نعم سے پال رہا ہے جو اس کے چمنستان کے شگفتہ پھولوں کو مسل کر رکھ دیں گے۔ وہ دین جو دین فطرت ہے، جو ہر قیمت پر عدل و انصاف کا ترازو برابر رکھنے کا مدعی ہے اس سے ایسی بے جا بلکہ نازیبا ناز برداری کی توقع عبث ہے۔۔۔ اللہ عزوجل اہل ایمان کے ایمان کی حفاظت فرمائے اور اپنی اطاعت و بندگی میں جینا اور مرنا نصیب فرمائے۔ آمین۔۔۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۵۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۸۳ میں اہل ایمان پر روزوں کی فرضیت اور اس کے مقصد کا بیان ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَO
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤo
سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۱۸۳
اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔ " شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہمبستری سے بچا جائے"۔ (تفسیر خازن)

روزہ ایک قدیم عبادت: اس آیت میں فرمایا گیا جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ بہت قدیم عبادت ہے۔ حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے لے کر تمام شریعتوں میں روزے فرض ہوتے چلے آئے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ امتوں کے روزوں کے دن اور احکام ہم سے مختلف ہوتے تھے۔ یاد رہے کہ رمضان کے روزے دس شعبان ۲ ہجری میں فرض ہوئے تھے۔

روزے کا مقصد: آیت کے آخر میں بتایا گیا کہ روزے کا مقصد تقویٰ اور پرہیزگاری کا حصول ہے۔ روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے۔ تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے۔ جس سے ضبط نفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے۔ اور یہی ضبط نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رکتا ہے۔ روزے کا مقصد صرف یہ نہیں کہ انسان کھانے پینے اور عمل زوجیت سے رکا رہے بلکہ اس کا مقصد تمام اخلاق رذیلہ اور اعمال بد سے مکمل طور پر دست کش ہو جائے۔ قرآن پاک میں ہے ، واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھویٰ ۔فان الجنتہ ھی الماویٰ۔ اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا تو بے شک جنت ہی اس کا ٹھکانا ہے۔(نازعات ، ۴۰۔۴۱)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ اے جوانو! تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے۔ اور جس کو نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑتا ہے۔ (صحیح بخاری)۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۶۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۰۸ میں ارشاد ربانی ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌO
اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہےo
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر ۲۰۸۔
شان نزول : اہل کتاب میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب تاجدار رسالت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد شریعت موسوی کے بعض احکام پر قائم رہے۔ ہفتہ کے دن کی تعظیم کرتے ، اس روز شکار سے لازماً اجتناب جانتے، اور اونٹ کے دودھ اور گوشت سے بھی پرہیز کرتے اور یہ خیال کرتے کہ یہ چیزیں اسلام میں صرف مباح یعنی جائز ہیں، ان کا کرنا ضروری تو نہیں۔ جبکہ توریت میں ان سے اجتناب لازم کیا گیا ہے۔ تو ان کے ترک کرنے سے اسلام کی مخالفت بھی نہیں اور شریعت موسوی پر عمل بھی ہو جاتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ اسلام کے احکام کا پورا اتباع کرو یعنی توریت کے احکام منسوخ ہو گئے اب ان کی طرف توجہ نہ دو۔ (تفسیر خازن)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب مسلمان ہو گئے تو سیرت و صورت، ظاہر و باطن ، عبادات و معاملات، رہن سہن، میل برتاؤ ، زندگی موت، تجارت و ملازمت سب میں اپنے دین پر عمل کرو۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان کا دوسرے مذاہب یا دوسرے دین والوں کی رعایت کرنا شیطانی دھوکے میں آنا ہے۔ اونٹ کا گوشت کھانا اسلام میں فرض نہیں لیکن یہودیت کی رعایت کے لئے نہ کھانا سخت جرم ہے۔ (صراط الجنان) وعلیٰ ہٰذ القیاس۔
۔۔۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۷۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۵۴ میں اللہ عزوجل کے دیے ہوئے رزق میں سے اس کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب بیان ہو رہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَO
اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور (کافروں کے لئے) نہ کوئی دوستی (کار آمد) ہوگی اور نہ (کوئی) سفارش، اور یہ کفار ہی ظالم ہیںo
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر ۲۵۴۔
اس آیت میں مسلمانوں کو یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی رغبت دلائی جا رہی ہے کہ یہ مال و دولت جو تمہیں تمہارے رب نے عطا فرمایا ہے اور جس طرح چاہو اس کو خرچ کرنے کی مہلت دی ہے۔ یاد رکھو کہ یہ مہلت صرف اس وقت تک کے لیے ہے جب تک تمہاری زندگی کا یہ چراغ ٹمٹما رہا ہے۔ جس دن یہ بجھ گیا مہلت ختم۔ جس نے اس اختیار اور مہلت سے فائدہ نہ اٹھایا قیامت کے دن وہ حرماں نصیب کیا کرے گا۔ اس روز نہ تو خرید و فروخت ہو سکے گی اور نہ وہاں کوئی دنیاوی بھائی چارہ کام آئے گا اور نہ کسی کی (بغیر اذن الٰہی) سفارش ہو گی۔ اس آیت سے بعض لوگ جلد بازی میں حضور کریم علیہ الصلاۃ والسلام اور اولیاء کرام کی شفاعت اور ان کی محبت اور غلامی کی برکات کا انکار کر دیتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم میں صراحۃً موجود ہے۔ الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ ۔ سب دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے متقین کے۔ سورۃ الزخرف، آیت ۶۷۔ یعنی مردان خدا کی دوستی اس روز بھی قائم رہے گی اور کام آئے گی۔ اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا شفیع المذنبین ہونا تو قرآن کی متعدد آیات اور کثیر احادیث صحیحہ متواترہ سے ثابت ہے اور عسیٰ ان یبعثک ربک مقاما محمودا میں تو رحمۃ اللعالمین کو مقام محمود (یعنی شفاعت کبریٰ) پر سرفراز ہونے کی بشارت دی جا رہی ہے (ضیاء القرآن)۔
اذن الٰہی سے اللہ عزوجل کے بندے اس کی بارگاہ میں شفاعت کریں گے جیسا کہ اگلی آیت یعنی آیت الکرسی میں بیان کیا گیا ہے۔ بلکہ قرآن پاک بھی اپنے پڑھنے والے کی سفارش کرے گا۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان جنت نشان ہے کہ جس سے ہو سکے کہ مدینہ منورہ میں مرے ، تو وہ مدینہ میں ہی مرے کہ میں مدینہ میں مرنے والوں کی شفاعت کروں گا ۔ (جامع ترمذی)

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند
سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے۔
۔۔۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۸ ۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۶۴ میں اہل ایمان کو صدقات میں اخلاص اختیار کرنے اور ریاکاری سے بچنے کا حکم فرما کر مثال دے کر سمجھایا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُبْطِلُواْ صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلاَ يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لاَّ يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُواْ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَO
اے ایمان والو! اپنے صدقات (بعد ازاں) احسان جتا کر اور دُکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اﷲ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روزِ قیامت پر، اس کی مثال ایک ایسے چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو پھر اس پر زوردار بارش ہو تو وہ اسے (پھر وہی) سخت اور صاف (پتھر) کر کے ہی چھوڑ دے، سو اپنی کمائی میں سے ان (ریاکاروں) کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا، اور اﷲ کافر قوم کو ہدایت نہیں فرماتاo
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر ۲۶۴۔
صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات چیت نہ کرے گا، نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا۔ ان میں سے ایک (کسی کو کچھ) دے کر احسان جتانے والا ہے۔۔۔۔۔سنن نسائی میں ہے، تین شخصوں کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دیکھے گا بھی نہیں، ماں باپ کا نافرمان، شراب کا عادی اور دے کر احسان جتانے والا۔(ابن کثیر)

اپنے صدقے برباد نہ کرو: ارشاد فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! جس پر خرچ کرو اس پر احسان جتلا کر اور اسے تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کردو کیونکہ جس طرح منافق آدمی لوگوں کو دکھانے کے لیے اور اپنی واہ واہ کروانے کے لیے مال خرچ کرتا ہے لیکن اس کا ثواب برباد ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھو جیسے کہ ایک چکنا پتھر ہو جس پر مٹی پڑی ہوئی ہو ، اگر اس پر زور دار بارش ہو جائے تو پتھر بالکل صاف ہو جاتا ہے اور اس پر مٹی کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ یہی حال منافق کے عمل کا ہے کہ دیکھنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ عمل ہے لیکن روز قیامت وہ تمام اعمال باطل ہوں گے کیونکہ وہ رضائے الٰہی کے لیے نہ تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر صدقہ ظاہر کرنے سے فقیر کی بدنامی ہوتی ہو تو صدقہ چھپا کر دینا چاہیئے کہ کسی کو خبر نہ ہو۔ لہٰذا اگر کسی سفید پوش یا معزز آدمی یا عالم یا شیخ کو کچھ دیا جائے تو چھپا کر دینا چاہیئے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں ریا کاری، احسان جتلانا اور ایذا دینا تینوں بد اعمال کی بھر مار ہے۔ مال دار جب اپنا پیسہ خرچ کرتا ہے تو جب تک اپنے نام کے بینر نہ لگوا لے یا اخبار میں تصویر یا خبر نہ چھپوا لے ، اسے چین نہیں آتا۔ خاندان میں کوئی کسی کی مدد کرتا ہے تو زندگی بھر اسے دباتا رہتا ہے، جب دل کرتا ہے سب لوگوں کے سامنے اسے رسوا کر دیتا ہے۔(صراط الجنان) اللہ عزوجل ہمیں اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین۔۔۔

میرا ہر عمل بس تیرے واسطے ہو
کر اخلاص ایسا عطا یا الٰہی۔

۔۔۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۹ ۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۶۷ میں ارشاد ربانی ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌO
اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کیا کرو اور اس میں سے گندے مال کو (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرنے کا ارادہ مت کرو کہ (اگر وہی تمہیں دیا جائے تو) تم خود اسے ہرگز نہ لو سوائے اس کے کہ تم اس میں چشم پوشی کر لو، اور جان لو کہ بیشک اﷲ بے نیاز لائقِ ہر حمد ہےo
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر ۲۶۷۔​

طیبات سے مراد وہ چیزیں ہیں جو عمدہ بھی ہوں، حلال بھی ہوں اور حلال طریقہ سے کمائی بھی گئی ہوں۔ کیونکہ اس طرح خرچ کرنے کے تین مقاصد ہیں۔ غریب کا فائدہ ، اپنے نفس کی اصلاح اور اللہ تعالیٰ کی رضا۔ اور یہ مقاصد تبھی حاصل ہو سکتے ہیں جب کہ عمدہ اور پاکیزہ چیز خرچ کی جائے۔ اگر ردی چیز خرچ کی تو نہ غریب کو کچھ فائدہ پہنچا، نہ بخل کی آلودگی سے نفس کی صفائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ ذات جو اپنے بہتر سے بہتر انعامات کی بارش تم پر فرما رہی ہے جب اس کے نام پر دینے کا وقت آیا تو سب سے ناکارہ چیز تم نے اس کی راہ میں دے دی تو وہ کیونکر راضی ہو گا۔ نیز زمین کی پیداوار میں سے بھی راہ خدا میں خرچ کیا کرو۔
غور کرو کہ جس طرح کا گھٹیا مال تم راہ خدا میں دیتے ہو اگر وہی مال تمہیں دیا جائے تو کیا تم قبول کرو گے۔ پہلے تو قبول ہی نہ کرو گے اور اگر قبول کر بھی لو تو کبھی خوشدلی سے نہ لوگے بلکہ دل میں برا مناتے ہوئے لو گے۔ تو جب اپنے لیے اچھا لینے کا سوچتے ہو تو راہ خدا میں خرچ کئے جانے والے کے بارے میں بھی اچھا ہی سوچو۔
اگر کوئی چیز فی نفسہ تو اچھی ہے لیکن آدمی کو خود پسند نہیں تو اس کے دینے میں کوئی حرج نہیں۔البتہ حرج وہاں ہے جہاں چیز اچھی نہ ہونے کی وجہ سے نا پسند ہو۔۔۔
۔۔۔​
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۱۳ ۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۱۰۲ میں اہل ایمان کو تقویٰ اختیار کرنے کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَO
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہاری موت صرف اسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہوo
سورۃ آل عمران ، آیت نمبر ۱۰۲۔
ان کلمات کی تفسیر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے رحمت دو عالم ﷺ سے ان الفاظ سے نقل کی ہے ، ان یطاع فلا یعصی وان یذکر فلا ینسی وان یشکر فلا یکفر ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ایسی اطاعت کی جائے کہ اس میں نافرمانی کا شائبہ نہ ہو۔ اور اس کو ایسا یاد کیا جائے کہ غفلت طاری نہ ہو اور اس کا یوں شکر ادا کیا جائے کہ اس میں ناشکری کی آمیزش نہ ہو۔ ایک دوسری آیت نے اس آیت کو بالکل واضح کر دیا کہ فاتقوا اللہ مااستطعتم کہ تم اپنی طرف سے تقویٰ کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھو۔ پھر فرمایا کہ اسلام پر ہی مرنا یعنی تمام زندگی اس پر قائم رہنا تا کہ موت بھی اسی پر آئے۔ رب کریم کا اصول یہی ہے کہ انسان اپنی زندگی جیسی رکھے ویسی ہی اسے موت آتی ہے اور جس موت مرے اسی پر قیامت کے دن اٹھایا جائے گا۔( ضیاءالقرآن ، ابن کثیر) اللہ تعالیٰ ہمیں حسن خاتمہ کی نعمت عطا فرمائے۔آمین۔

خدایا برے خاتمے سے بچانا
پڑھوں کلمہ جب نکلے دم یا الٰہی

۔۔۔​
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
۱۴ ۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۱۱۸ میں اللہ عزوجل اہل ایمان کو اغیار کے مکر و فریب سے بچنے ، ان کو ہمراز نہ بنانے اور ان کے دلوں میں اسلام اور اہل اسلام کے لیے موجود بغض کو واضح فرما رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لاَ يَأْلُونَكُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَO
اے ایمان والو! تم غیروں کو (اپنا) راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری نسبت فتنہ انگیزی میں (کبھی) کمی نہیں کریں گے، وہ تمہیں سخت تکلیف پہنچنے کی خواہش رکھتے ہیں، بغض تو ان کی زبانوں سے خود ظاہر ہو چکا ہے، اور جو (عداوت) ان کے سینوں نے چھپا رکھی ہے وہ اس سے (بھی) بڑھ کر ہے۔ ہم نے تمہارے لئے نشانیاں واضح کر دی ہیں اگر تمہیں عقل ہو o
سورۃ آل عمران ، آیت نمبر ۱۱۸۔​
کافر اور منافق مسلمان کے دوست نہیں، انہیں اپنا ہم راز نہ بناؤ۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو کافروں اور منافقوں کی دوستی اور ہمراز ہونے سے روکتا ہے کہ یہ تو تمہارے دشمن ہیں۔ ان کی چکنی چپڑی باتوں سے خوش نہ ہو جانا اور ان کے مکر کے پھندے میں نہ پھنس جانا ورنہ موقع پا کر یہ تمہیں سخت ضرر پہنچائیں گے اور اپنی باطنی عداوت نکالیں گے (ابن کثیر)۔
کپڑے کا وہ طرف جو اندر کی جانب ہوتا ہے اور جسم سے ملا ہوتا ہے اس کو بطانۃ الثوب کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے اس دوست کو بطانۃ کہتے ہیں جس پر کامل اعتماد اور بھروسہ ہو اور ہمراز ہو۔ اوس و خزرج کے اسلام قبول کرنے سے پہلے یہود کےساتھ ان کے بڑے گہرے مراسم و تعلقات تھے اور ہر کام میں ایک دوسرے سے مشورہ کیا کرتے تھے اور کسی سے کوئی بات چھپا کر نہیں رکھتے تھے۔ لیکن اوس و خزرج کے اسلام قبول کرنے کے بعد ان تعلقات میں یکسر انقلاب آ گیا۔ اس بات کا احتمال تھا کہ مسلمان اپنی صاف دلی کی بناء پر اسلام کے بھید بھی حسب سابق کہیں یہود سے نہ کہہ دیا کریں جس سے مسلمانوں کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا کہ وہ اپنے اور اسلام کے دشمنوں کو اپنا راز دار بنائیں (ضیاء القرآن)۔
نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان حکمران کافروں اور مرتدوں کو اہم ترین عہدوں پر نہ لگائے کہ جس سے یہ لوگ غداری کرنے کا موقع پائیں۔ کیونکہ یہ لوگ تمہاری برائی چاہنے میں کوئی کمی نہیں کریں گے۔ ان کی دشمنیاں ان کے الفاظ اور کردار سے ظاہر ہیں جو وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہتا ہے۔ جب زبانی دشمنی بھی سامنے آتی رہتی ہے تو جو دشمنی اور مسلمانوں سے بغض و عداوت ان کے دلوں میں ہو گی وہ کس قدر ہو گی۔ یقینا ان کے دلوں میں موجود دشمنی ظاہری دشمنی سے بڑھ کر ہے۔ لہٰذا اے مسلمانو! ان سے دوستی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے اپنی آیتیں کھول کر بیان فرما رہا ہے (صراط الجنان)۔
اللہ عزوجل ہمارے وطن پاکستان کو اور تمام امت مسلمہ اور اہل اسلام کو دشمنان اسلام کے مکر و فریب اور سازشوں سے محفوظ رکھے۔ اور امت مسلمہ کو آپس میں اتحاد و اتفاق عطا فرمائے۔آمین۔۔۔
۔۔۔
آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۱۵ ۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۱۳۰ میں سودی معاملات سے منع کرتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے سود مت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤo
سورۃ آل عمران ، آیت نمبر ۱۳۰۔
سود کے متعلق بحث سورۃ بقرۃ میں بھی گزرچکی ہے۔ نزول کے اعتبار سے یہ آیت سورۃ بقرۃ کی آیات سے مقدم ہے۔ اس آیت میں سود کھانے سے منع کیا گیا اور اسے حرام قرار دیا گیا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں سود کی ایک صورت یہ بھی رائج تھی کہ جب سود کی ادائیگی کی مدت آتی تو اگر اس وقت مقروض ادا نہ کر پاتا تو قرض خواہ مدت اور سود کی مقدار میں اضافہ کر دیتا اور یہ عمل مسلسل کیا جاتا رہتا۔اس طرح سود در سود ملا کر قرض کئی گنا بڑھ جاتا۔ اللہ تعالیٰ اس طرح ناحق لوگوں کا مال غصب کرنے سے روک رہا ہے۔اگلی آیتوں میں تو یہاں تک فرما دیا کہ اگر تم نے اس سودی کاروبار کو نہ چھوڑا تو اس عذاب میں مبتلا کیے جاؤ گے جو کفار کے لیے تیار کیا گیا ہے۔۔۔
۔۔۔​
اللہ ہمیں اور ہمارے سب متعلقین اور آئیندہ نسلوں کو سود لینے دینے سے اپنی پناہ میں رکھے اور آسانیاں بھی عطا فرمائے۔ہر آزمائش سے پناہ دے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۱۶ ۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۱۴۹ میں ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِن تُطِيعُواْ الَّذِينَ كَفَرُواْ يَرُدُّوكُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ فَتَنقَلِبُواْ خَاسِرِينَO
اے ایمان والو! اگر تم نے کافروں کا کہا مانا تو وہ تمہیں الٹے پاؤں (کفر کی جانب) پھیر دیں گے پھر تم نقصان اٹھاتے ہوئے پلٹو گےo
سورۃ آل عمران ، آیت نمبر ۱۴۹۔
یہاں مسلمانوں کو بہت واضح الفاظ میں سمجھایا گیا ہے کہ اگر تم کافروں کے کہنے پر چلو گے یا ان کے پیچھے چلو گے خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی، منافق ہوں یا مشرک ، جس کے کہنے پر بھی چلو گے وہ تمہیں کفر ، بے دینی ، بدعملی اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف ہی لے کر جائیں گے۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت بھی تباہ کر بیٹھو گے۔ کتنے واضح اور کھلے الفاظ میں بتا دیا کہ کافروں سے ہدایات لے کر چلو گے تو وہ تمہاری دنیا و آخرت تباہ کر دیں گے۔ اور آج تک کا ساری دنیا میں مشاہدہ بھی یہی ہے لیکن حیرت ہے کہ ہم پھر بھی اپنا نظام چلانے میں ، اپنے کردار میں ، اپنے کلچر میں ، اپنے گھریلو معاملات چلانے میں ، اپنے کاروبار میں ہر جگہ کافروں کے کہنے پر اور ان کے طریقے پر ہی چل رہے ہیں، جس سے ہمارا رب عزوجل ہمیں بار بار منع فرما رہا ہے۔۔۔
۔۔۔

اللہ ہمیں بچائے۔اور ایسے دوست و رہبر عطا کرے جن کو وہ عزیز رکھتا ہو۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۱۷ ۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۱۵۶ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ كَفَرُواْ وَقَالُواْ لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُواْ فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُواْ غُزًّى لَّوْ كَانُواْ عِندَنَا مَا مَاتُواْ وَمَا قُتِلُواْ لِيَجْعَلَ اللّهُ ذَلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ وَاللّهُ يُحْيِ۔ي وَيُمِيتُ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌO
اے ایمان والو! تم ان کافروں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اپنے ان بھائیوں کے بارے میں یہ کہتے ہیں جو (کہیں) سفر پر گئے ہوں یا جہاد کر رہے ہوں (اور وہاں مر جائیں) کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کئے جاتے، تاکہ اللہ اس (گمان) کو ان کے دلوں میں حسرت بنائے رکھے، اور اللہ ہی زندہ رکھتا اور مارتا ہے، اور اللہ تمہارے اعمال خوب دیکھ رہا ہےo
سورۃ آل عمران ، آیت نمبر ۱۵۶۔
منافقین جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور مسلمانوں کے ساتھ بھائی چارے کا دعویٰ کیا کرتے وہ اپنی بزدلی اور نامردی کو حزم و احتیاط اور مسلمانوں کے جذبہ جہاد اور شوق سر فروشی کو دیوانگی سمجھا کرتے۔ اور جب کوئی مسلمان جہاد میں جام شہادت نوش کرتا تو رونی صورت بنا کر خیر خواہی کے انداز میں کہا کرتے کہ کاش یہ ہمارے بھائی ہماری طرح آرام سے گھروں میں ٹھہرتے تو کاہے کو یہ مصیبت آتی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہشیار فرما رہے ہیں کہ ان مکاروں کے فریب میں نہ آنا۔ موت وحیات میرے قبضہ قدرت میں ہے۔ میں چاہوں تو گھر میں روح قبض کر لوں اور چاہوں تو گھمسان کے رن میں گولیوں، توپوں اور بموں کی بارش میں بھی بچا لوں۔
تاکہ اللہ اس کو ان کے دلوں میں حسرت بنائے رکھے : حسرت یہ تھی کہ مسلمان ان کی باتوں کو نہیں مانتے تھے۔ باپ شہید ہو چکا اور بیٹا کفن باندھے میدان جہاد کا رخ کر رہا ہے۔ بھائی سر کٹا چکا ہے اور دوسرا بھائی جام شہادت سے سرخرو ہونے کی دعائیں مانگ رہا ہے۔ ماں اپنے ایک شہید بیٹے کو سپرد خاک کرنے کے بعد دوسرے بیٹے کو اپنے دودھ کی لاج رکھنے کی نصیحت کر کے سر پر خود اور ہاتھ میں تلوار دے رہی ہے۔ ان منافقین کے لیے اس سے زیادہ حسرت آمیز اور الم انگیز چیز کیا ہو سکتی تھی۔۔۔
۔۔۔​

تقدیر پہ ہمارے ایمان کو اللہ قائم و دائم رکھے۔آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
ا
۱۸ ۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۲۰۰ میں اللہ عزوجل مسلمانوں کو صبر کے ساتھ دین حق پر ثابت قدم رہنے اور ہر حال میں تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت فرما رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں (دشمن سے بھی) زیادہ محنت کرو اور (جہاد کے لئے) خوب مستعد رہو، اور (ہمیشہ) اللہ کا تقوٰی قائم رکھو تاکہ تم کامیاب ہو سکوo
سورۃ آل عمران ، آیت نمبر ۲۰۰۔
یہ اس جلیل القدر اور عظیم المرتبت سورۃ کی آخری آیت ہے۔ اور اس میں نہایت مختصر اور بہت ہی جامع الفاظ میں بتایا جا رہا ہے کہ ان چار باتوں میں دنیوی اور اخروی فلاح و کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔ صبر، مصابرہ، رباط اور تقویٰ۔ صبر کا معنی ہے نیک اعمال کرنے اور برے اعمال سے باز رہنے پر نفس کو پابند رکھنا۔ مصابرہ کا معنی ہے مصابرۃ الاعداء یعنی دشمن کے پے در پے حملوں کے سامنے فولاد بن کر کھڑے رہنا اور رباط کا مطلب ہے نفس کو نیت حسنہ پر آمادہ رکھنا اور جسم کو عبادت پر کاربند رکھنا۔ اس کا اعلیٰ مقام یہ ہے کہ انسان جہاد فی سبیل اللہ کے لیے کمر بستہ رہے اور گھوڑا تیار رکھے اور نفس کو نماز کا خوگر بنائے۔اور تقویٰ نام ہے اللہ عزوجل کے اوامر و نواہی پر عمل کرنے کا۔ جب کسی فرد یا قوم میں یہ صفات پائی جاتی ہیں تو رحمت الٰہی اور نصرت خدا وندی اس کی پاسبان ہوتی ہے۔ مشکلات کے پہاڑ از خود راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔ دنیا میں بھی عزت نصیب ہوتی ہے اور آخرت میں بھی سر خروئی۔(ضیاء القرآن)۔۔۔
۔۔۔
اللہ ہمیں ان تمام باتوں پہ عمل کی توفیق اور آسانیاں دے۔آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
تعارف سورۃ النساء
ہمارا یہ سلسلہ چونکہ صرف ان آیات قرآنیہ سے تعلق رکھتا ہے کہ جن میں اہل ایمان کو براہ راست مخاطب کیا گیا ہے۔ لیکن اس سورۃ میں بیان کر دہ کچھ نکات جاننے کے بعد مناسب معلوم ہوا کہ اس سورۃ مبارکہ کا تعارف بھی پیش کر دیا جائے تاکہ وہ تشنگان علم اور محبان معرفت جو ہل من مزید کا ذوق رکھتے ہیں کے لیے مہمیز کا کام دے اور کلام الٰہی کو پڑھنے اور سمجھنے کے شوق کو ہوا دے۔ وباللہ التوفیق۔۔۔

اس سورۃ پاک کا نام النساء ہے۔ باتفاق علماء مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی۔ اس میں ۱۷۶ آیتیں ، ۳،۰۳۵ الفاظ ، ۱۶،۰۳۰ حروف اور ۱۳۴ رکوع ہیں۔ یہ سورۃ پاک بڑی اہم اور دور رس اصلاحات پر مشتمل ہے جنہیں اگر دین اسلام کا طرہ امتیاز کہا جائے تو قطعاً مبالغہ نہ ہو گا۔
گھریلو زندگی: اس سورۃ میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے پر دی گئی ہے کیونکہ گھر ہی قوم کی خشت اول ہے۔ گھر ہی وہ گہوارہ ہے جہاں قوم کے مستقبل کے معمار پرورش پاتے ہیں۔ گھر ہی وہ مدرسہ ہے جہاں اخلاق و کردار کی قدریں اچھی یا بری، بلند یا پست لوح قلب پر لکھ دی جاتی ہیں جن کے نقوش کبھی مدھم نہیں پڑتے۔ صرف جذبات کتنے ہی پاکیزہ اور معصوم کیوں نہ ہوں حقائق کا مقابلہ کرنے کی تاب نہیں لا سکتے۔ قرآن مجید حقائق کو حقائق کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ اس لیے گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے مبہم نصیحتوں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے لیے واضح اور غیر مبہم قاعدے اور ضابطے متعین فرما دیئے۔
یتیم بچے: جس گھر میں یتیم بچوں پر زیادتیاں کی جائیں اور ان کے سر پرست اس کی دولت کو خرد برد کرنے کے لیے سازش و فریب کے جال بُنتے رہیں اس گھر کی فضا کبھی صحت مند نہیں ہو سکتی۔ اس لیے قرآن حکیم نے اپنے ماننے والوں کو صاف الفاظ میں حکم فرمایا کہ وہ یتیم بچوں اور بچیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ ان کے حقوق کی نگہبانی اور ان کے اموال کی حفاظت کریں بلکہ ان کے احساسات تک کا پاس رکھیں۔
عورت کا مقام : عرصہ ہائے دراز سے یہ صنف نازک ظلم و ستم کا نشانہ بنی ہوئی تھی۔ قدرت نے اگرچہ اسے مرد کی طرح ذی روح اور ذی شعور بنایا تھا لیکن اس کے ساتھ برتاؤ مٹی کی بے جان مورتیوں کا سا کیا جاتا تھا۔ جُوا میں اسے داؤ پر لگایا جا سکتا تھا۔ خاوند کی لاش کے ساتھ اسے قانوناً جل کر راکھ ہونا پڑتا تھا۔ کہیں اسے تمام برائیوں کی جڑ اور انسان کی ساری بد بختیوں کا سر چشمہ یقین کیا جاتا تھا اور کہیں چوٹی کے نامور فلسفی اس کے انسان ہونے کو بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے۔ اس کو ملکیت کے حقوق حاصل نہ تھے۔ اسے ازدواجی بندھنوں میں مقید کرنے سے پہلے اس سے کوئی رائے لینے کا تصور تک نہ تھا۔ بلکہ اس سے بھی بد تر حالات تھے جن میں اسلام سے پہلے یہ صنف نازک گرفتار تھی۔ قرآن مجید نے پہلی مرتبہ اعلان کیا کہ جس طرح مرد کے حقوق عورت پر ہیں اسی طرح عورت کے حقوق بھی مرد پر ہیں۔ اس کی رائے ہے اور قانون اس کی رائے کا احترام کرتا ہے۔ اس کو اپنے والدین ، اپنے خاوند ، اپنی اولاد کا وارث تسلیم کیا گیا اور اس کو ملکیت کے حقوق تفویض کیے گئے۔
چونکہ مرد اور عورت کا اولین رشتہ ازدواج کا رشتہ ہے اس لیے اس میں جو بے راہ رویاں پائی جاتی تھیں ان کی اصلاح کی۔ تعدد ازواج پر پابندیاں لگائیں اور اس کی اجازت دی تو بڑی شروط و قیود کے ساتھ۔ مرد کو بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور اگر اس کی کوئی چیز پسند خاطر نہ ہو تو اس پر صبر کرنے کی ہدایت کی۔ اور اگر باہمی تعلقات کشیدہ ہو جائیں تو اصلاح حال کی تدبیر بتائی۔ عورت کو یہ حقوق دینے کے بعد گھر کی سرداری اور نظم و نسق کی ذمہ داری مرد کو سونپی۔ کیونکہ اسی کی فطری صلاحیتں اس بار گراں کو اٹھا سکتی ہیں۔
مالی حقوق کی منصفانہ تقسیم گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس میں معمولی سی کوتاہی بھائی کو بھائی سے جدا کر دیتی ہے۔ اس لیے میراث کا مفصل قانون نازل فرمایا۔ اسلام کے نظام میراث کی جو امتیازی خصوصیات ہیں ان کا جائزہ تو اپنے اپنے مقام پر لیا جائے گا لیکن ایک بے مثل تبدیلی یہ کی کہ عورت (ماں، بیٹی، بیوی) کو بھی مرد کی طرح وارث قرار دیا۔
حق و باطل کی جنگ جس کا آغاز بدر سے ہوا تھا ، ابھی جاری تھی۔ اُحد میں مسلمانوں کی کثیر تعداد کے شہید ہونے کے باعث منافق، یہودی اور مشرک قبائل کے حوصلے بڑھ گئے تھے۔ اس سورۃ میں بھی مسلمانوں کو حق کی حفاظت کے لیے اپنی جان تک کی بازی لگانے کا حکم دیا گیا اور ان کے حوصلوں کے بلند کیا گیا اور منافقوں کے مختلف گروہوں کے ساتھ ہر ایک کے مناسب حال رویہ اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی۔
انفرادی کردار کی تعمیر کی طرف بھی خاص توجہ دی گئی ہے اور ان قوموں کی اقتدا سے روکا گیا ہے جو عمل سے جی چراتی ہیں اور حق کے لیے کسی جانی اور مالی قربانی کے لیے آمادہ نہیں ہوتیں۔ اور اس کے باجود اپنے آپ کو انعامات خداوندی کا واحد حق دار سمجھتی ہیں۔ امت مصطفویہ کو صاف صاف بتا دیا گیا کہ اس رزم گاہ حیات میں جیت اسی کی ہو گی جو اپنے پیہم اور نتیجہ خیز عمل سے اپنی فوقیت اور برتری ثابت کر دے۔ خیالی پلاؤ پکانے اور ہوائی قلعے تعمیر کرنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ مسلمانوں کے باہمی برتاؤ کا دارومدار احسان اور مہربانی پر ہونا چاہیئے۔ جتنی قرابت زیادہ ہو گی اتنی ہی اس کے ساتھ مہربانی اور احسان زیادہ ہونا چاہیئے۔
اطاعت رسول : اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب اکرم رسول معظم ﷺ کی غیر مشروط اطاعت کا حکم بھی دیا ہے اور فلا وربک (اے محبوب ، تیرے رب کی قسم) کے پرجلال الفاظ سے قسم اٹھا کر بتایا کہ کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ میرے رسول کے ہر فیصلہ کو خواہ وہ اس کے خلاف بھی ہو ، دل و جان سے بخوشی قبول نہ کرے۔
زمانہ نزول : علماء محققین کی رائے میں اس سورۃ کے نزول کا آ غاز جنگ اُحد (شوال ؁۳ ھ) کے بعد ہوا جب ستر مسلمانوں کی شہادت کے بعد یتیموں کی کفالت اور ورثہ کی تقسیم کے مسئلہ نے بڑی اہمیت اختیار کر لی تھی۔ نماز خوف غزوہ ذات الرقاع میں پڑھی گئی جو ؁۴ ھ میں ہوا۔ اور تیمم کی اجازت غزوہ بنی مصطلق میں دی گئی جو ؁۵ھ میں پیش آیا۔ ان واقعات اور سنین سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس سورۃ کا آغاز اُحد کے بعد ہوا تو اس کا سلسلہ نزول ؁ ۵ھ کے اوائل تک جاری رہا۔(ضیاء القرآن)۔
۔۔۔​

جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۱۹ ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۹ اس سلسلے کے حوالے سے اس سورۃ کی پہلی آیت ہے جس میں اللہ جل شانہ اہل ایمان کو عورتوں سے حسن سلوک سے متعلق ہدایات عطا فرما رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاءَ كَرْهًا وَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُواْ بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلاَّ أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًاO
اے ایمان والو! تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ، اور انہیں اس غرض سے نہ روک رکھو کہ جو مال تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ (واپس) لے جاؤ سوائے اس کے کہ وہ کھلی بدکاری کی مرتکب ہوں، اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو، پھر اگر تم انہیں نا پسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دےo
سورۃ النساء ، آیت نمبر ۱۹۔​

لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاءَ كَرْهًا : تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ تم عورتوں کے زبردستی وارث بن جاؤ ۔ عرب میں یہ طریقہ صدیوں سے رائج تھا کہ شوہر کے مرنے کے بعد اس کا لڑکا اپنے باپ کی جائیداد کی طرح اس کی بیوی (اپنی سوتیلی ماں) کا بھی وارث ہوتا۔ چاہتا تو اس کو جبراً بغیر مہر ادا کیے اپنے نکاح میں لے آتا۔ چاہتا تو اپن مرضی سے کسی دوسرے آدمی سے اس کی شادی کر دیتا اور مہر خود وصول کرتا اور چاہتا تو اسے ساری عمر یونہی بیوگی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتا اور اس کے مرنے کے بعد اس کا تنہا وارث بن جاتا۔ مدت دراز سے یہ رسم نہ صرف عرب بلکہ روم و یونان میں بھی رائج تھی۔ قرآن حکیم نے مظلوم عورت کی فریاد رسی کی اور مردوں کو اس کی آزادی میں مداخلت کرنے سے سختی سے روک دیا۔
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ : اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو۔ کتنی واضح ہدایت ہے بلکہ کتنا کھلا حکم ہے۔ حضور سرور کائنات ﷺ کا ارشاد بھی سن لیجیئے کہ خیرکم خیرکم باھلہ تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کےساتھ عمدہ برتاؤ کرتا ہو۔ کاش ہم سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔
فَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا : ہو سکتا ہے کہ تمہیں کوئی چیز نا پسند ہو۔ خوابوں کی دنیا اور حقائق کی دنیا میں بہت بڑا فرق ہے۔ اگر تمہاری رفیقہ حیات کا معیار جمال اتنا اونچا نہیں جس کا تم تصور کیے ہوئے تھے۔ یا اس کے اطوار و اخلاق اتنے مثالی نہیں جن کے تم متمنی تھے تو دل برداشتہ ہو کر ازدواج کے اس رشتے کو نہ توڑو بلکہ ان کوتاہیوں اور خامیوں پر صبر کرو۔ اللہ تعالیٰ کے کرم سے بعید نہیں کہ وہ تمہیں اسی بیوی سے ایسی نجیب و سعید اولاد عطا فرما دے جو تمہارے نام کو روشن کر دے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔
۔۔۔

آمین!ان شاءاللہ!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

الشفاء

لائبریرین
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
ماشاءاللہ بہت زبردست کوشش ہے یہ۔
اللہ قبول فرمائے اور اس کوشش کا ثمر ہماری توقع سے کہیں زیادہ عطا فرمائے۔آمین!
بہت شکریہ جاسمن بہن۔ اللہ عزوجل آپ کی مخلصانہ دعاؤں اور حوصلہ افزائی کو قبول فرمائے۔
جزاک اللہ الف خیر۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۶۵ ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۶۹ میں اللہ عزوجل اہل ایمان کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهًاO
اے ایمان والو! تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے موسٰی (علیہ السلام) کو (گستاخانہ کلمات کے ذریعے) اذیت پہنچائی، پس اللہ نے انہیں اُن باتوں سے بے عیب ثابت کردیا جو وہ کہتے تھے، اور وہ (موسٰی علیہ السلام) اللہ کے ہاں بڑی قدر و منزلت والے تھےo
سورۃ الاحزاب ، آیت نمبر ۶۹۔​

بنی اسرائیل اپنے پیغمبر اور اپنے نجات دہندہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بات بات پر دکھ دیتے تھے، قدم قدم پر مخالفت کرتے تھے باوجود اس کے کہ انہیں اپنا رسول مانتے تھے، لیکن ان کے ہر حکم سے سرتابی کرنا ان کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی۔ تورات کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے اس جلیل القدر پیغمبر کی دلآزاری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا مقام بہت بلند اور مرتبہ نہایت اعلیٰ تھا۔(تورات سے کچھ مثالیں کتب تفاسیر میں دی گئی ہیں)۔ فرمایا کہ اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو، تم بنی اسرائیل کی روش اختیار کر کے میرے محبوب ﷺ کی دلآزاری نہ کرنا ورنہ تم کو اس گستاخی کی ایسی سزا ملے گی جس سے نجات کے سارے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہر وہ چیز جس سے نبی کریم ﷺ کو تکلیف پہنچے، وہ قطعاً ممنوع ہے۔ اللہ تعالیٰ کےساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، اس کی صفات کمال کا انکار کرنا، حضور کی ذات اقدس و اطہر پر بہتان باندھنا، اللہ تعالیٰ نے حضور کو جن کمالات سے سرفراز فرمایا ہے ان کا انکار کرنا، حضور کے دین اور شریعت کے قوانین کو ناقابل عمل کہنا، حضور کی آل اطہار پر معترض ہونا، حضور کے صحابہ پر زبان طعن دراز کرنا، یہ سب ایسے امور ہیں جن سے حضور کے قلب مبارک کو تکلیف پہنچتی ہے۔ ان تمام امور سے اجتناب ضروری ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
۲۰ ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۲۹ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًاO
اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہےo
سورۃ النساء ، آیت نمبر ۲۹۔
کسب حلال پر قرآن نے جتنا زور دیا ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ ایسے موقعوں پر قرآن کا انداز بیان بڑا اثر انگیز ہوا کرتا ہے۔ یہاں ایسے نہیں فرمایا کہ دوسروں کے مال ناجائز طریقوں سے مت کھاؤ بلکہ فرمایا اپنے مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ۔ اس سے یہ حقیقت واضح کرنا مطلوب ہے کہ امت کے کسی فرد کا مال پرایا مال نہیں بلکہ (اسی امت کے ایک فرد کا) اپنا ہی مال ہے اس میں ناجائز تصرف کرنا دھوکا فریب سے اس کو ہڑپ کرنا اپنے آپ سے ہی دھوکا کرنا ہے۔ ہاں اگر تم آپس میں تجارت کرو اور تجارت میں کسی کی سادہ لوحی یا مجبوری سے ناروا فائدہ نہ اٹھایا گیا ہو بلکہ فریقین نے راضی خوشی سے لین دین کیا ہو۔ اور اس طرح تمہیں نفع حاصل ہو تو یہ نفع حلال ہے۔ عن تراض کے کلمات پر مزید غور فرمائیے۔ اسلام جس صاف ستھری تجارت کی اجازت دیتا ہے اس کے خدوخال آپ واضح ہو جائیں گے۔
وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ : اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو۔ اس آیت میں خودکشی کی ممانعت بھی آ گئی اور کسی مسلمان بھائی کو بلاوجہ قتل کرنے سے بھی روک دیا گیا۔ انفسکم کہہ کر بتا دیا کہ اگر تم کسی مسلمان بھائی کو قتل کرو گے تو اس کا نقصان تمہیں ہی پہنچے گا۔ تمہاری ہی ایک مومن بہن بیوہ ہو گئی، تمہاری ہی ملت کے معصوم بچے یتیم ہو ں گے، تمہارے مسلم معاشرے کا ہی ایک گھر غم و اندوہ کے اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ایک اور لطیف معنی بھی کیا ہے کہ ایسی مذموم حرکتیں اور ذلیل اعمال مت کرو جو لوگوں کی نگاہ میں تمہیں ذلیل و رسوا کر دیں کیونکہ یہ ذلت و رسوائی ہی تو انسان کی حقیقی ہلاکت و تباہی ہے۔۔۔
(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​

اللہ ہمیں اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈالنے سے بچائے اور رزق حلال عطا فرمائے۔آمین!
 
Top