الشفاء

لائبریرین
۳۲ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۱۱ میں ارشاد ربانی ہے۔​

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُواْ إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَعَلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَO
اے ایمان والو! تم اﷲ کے (اُس) انعام کو یاد کرو (جو) تم پر ہوا جب قوم (کفّار) نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے ہاتھ (قتل و ہلاکت کے لئے) تمہاری طرف دراز کریں تو اﷲ نے ان کے ہاتھ تم سے روک دیئے، اور اﷲ سے ڈرتے رہو، اور ایمان والوں کو اﷲ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئےo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۱۱۔​

اذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ : تم اﷲ کے (اُس) انعام کو یاد کرو ۔ جس کی تفصیل یہ ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور کریم ﷺ ایک منزل میں اترے، لوگ ادھر ادھر سایہ دار درختوں کی تلاش میں لگ گئے۔ آپ ﷺ نے ہتھیار اتار کر ایک درخت پر لٹکا دیے۔ ایک اعرابی نے آکر آپ کی تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی اور اسے کھینچ کر حضور اکرم ﷺ کے پاس کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اب بتائیے مجھ سے آپ کو کون بچا سکتا ہے۔ آپ ﷺ نے فوراً جواب دیا ، اللہ عزوجل۔ اس نے تین دفعہ کہا اور آپ نے یہی جواب دیا تو اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی۔ آپ نے صحابہ کو بلا کر سارا واقعہ بتایا اور اس اعرابی کو معاف کر دیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہودیوں نے آپﷺ اور آپ کے صحابہ کو قتل کرنے کے ارادہ سے زہر ملا کر کھانا پکا کر دعوت کی لیکن اللہ عزوجل نے آپ کو آگاہ کر دیا اور آپ بچ رہے۔ ابن اسحاق وغیرہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد بنو نضیر کے وہ لوگ ہیں جنھوں نے چکی کا پاٹ قلعہ کے اوپر سے آپ کے سر پر گرانا چاہا تھا۔ ان شریروں نے عمرو بن حجاش بن کعب کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ ہم حضور کو نیچے کھڑا کر کے باتوں میں مغشول کر لیں گے تم اوپر سے چکی کا پاٹ ان کے اوپر پھینک دینا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو ان کی شرارت وخباثت سے آگاہ کر دیا۔ آپ مع اپنے صحابہ کے وہاں سے چلے گئے۔ (ابن کثیر)۔
اس آیت میں اللہ عزوجل اہل ایمان پر حضور کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی سلامتی کا احسان ذکر فرما رہا ہے۔ جو قیامت تک آنے والے تمام غلامان مصطفٰے پر ہے۔۔۔

۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اس آیت میں اللہ عزوجل اہل ایمان پر حضور کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی سلامتی کا احسان ذکر فرما رہا ہے۔ جو قیامت تک آنے والے تمام غلامان مصطفٰے پر ہے۔۔۔

کہیں مومنین سے مخاطب جبکہ کہیں براہ راست مخاطب خاتم النبیین ﷺ ، کیا راز کہ واقعہ تو نبی ﷺ کی جانب مگر مخاطب مومنین ، ماشاء اللہ قلم سے لکھے کچھ الفاظ آپ کی جانب سے علم کا ہدیہ ہوتے رہیں
 

الشفاء

لائبریرین
کہیں مومنین سے مخاطب جبکہ کہیں براہ راست مخاطب خاتم النبیین ﷺ ، کیا راز کہ واقعہ تو نبی ﷺ کی جانب مگر مخاطب مومنین ، ماشاء اللہ قلم سے لکھے کچھ الفاظ آپ کی جانب سے علم کا ہدیہ ہوتے رہیں
جان ہیں وہ جہان کی ، جان ہے تو جہان ہے ۔
سبحان اللہ۔ کیا راز کہ سلامتی تو اللہ جل مجدہ نے اپنے نبی مکرم کی جان کو عطا فرمائی اور اس کا احسان مومنوں پر رکھ دیا۔ اس کا جواب تو آپ جیسے مشاہد لوگ زیادہ بہتر جانتے ہوں گے۔ ہم ظاہر بین تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہاں اہل ایمان کو احساس دلایا جا رہا ہے کہ یہ اللہ عزوجل کا تم پر انعام و احسان ہے کہ اس نے اپنے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام کو عافیت کے ساتھ تمہارے درمیان رکھا ہوا ہے۔ اور چونکہ کائنات پر رحمتوں، برکتوں اور نعمتوں کی بارش اللہ عزوجل نے رحمۃ اللعالمین ہی کے وجود مسعود کے تصدق سے ہونا مقدر فرمائی تھی تو آقا کریم کی ذات والا صفات کی سلامتی نہ صرف مومنوں بلکہ تمام مخلوق کے لیے نعمت عظمیٰ قرار پائی بشمول ان بد بختوں کے کہ جو آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے قتل کے درپے تھے۔کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ ، یعنی اللہ عزوجل کو یہ زیبا نہیں کہ وہ ان کو عذاب دے حالانکہ آپ بھی ان میں تشریف فرما ہیں۔ پھر وہ درندہ صفت انسان کہ جو اپنی ہی بچیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، کس کی توجہ سے فرشتہ سیرت بنے ، مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ کی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل و غارت اور جنگیں شروع کر دینے والے بدو کس کی تعلیم سے بھائی بھائی بن گئے، مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ کی۔ کفر و شرک کے اندھیروں میں بھٹکنے والے وہ لوگ کہ شراب جن کی گھُٹی میں پڑی تھی، بے حیائی جن کا وطیرہ تھا، ظلم و ستم جن کا شعار تھا ، کس کی تعلیم ، تذکیر اور توجہ سے توحید کے علم بردار اور آئین جہاں بانی میں دنیا بھر کے استاد ہو گئے، مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ کی۔ بے شک آپ کی ذات والا صفات قیامت تک آنے والے مومنین کے لیے اللہ عزوجل کی نعمت عظمیٰ اور احسان عظیم ہے ۔ آج بھی اہل ایمان کے گلشن کی بہار حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے دم قدم سے ہے۔ صاحب صراط الجنان فرماتے ہیں کہ ایسا عظیم رسول کہ جو اپنی ولادت مبارکہ سے لے کر وصال مبارک تک اور اس کے بعد کے تمام زمانہ میں اپنی امت پر مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہا رہے ہیں۔ بلکہ ہمارا تو وجود بھی سید دو عالم ﷺ کے صدقہ سے ہے۔ اگر آپ نہ ہوتے تو کائنات اور اس میں بسنے والے بھی وجود نہ پاتے۔ پیدائش مبارکہ کے وقت ہی آپ ﷺ نے ہم امتیوں کو یاد فرمایا ۔ شب معراج رب العالمین کی بارگاہ میں ہمیں یاد فرمایا۔ وصال شریف کے بعد قبر انور میں اتارتے ہوئے بھی دیکھا گیا کہ آپ کے لب ہائے مبارکہ پر اپنی امت کی نجات و بخشش کی دعائیں تھیں۔ آرام دہ راتوں میں جب سارا جہاں محو استراحت ہوتا وہ پیارے آقا حبیب کبریا ﷺ اپنا بستر مبارک چھوڑ کر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ہم گناہگاروں کے لیے دعائیں فرمایا کرتے۔ قیامت کے دن سخت گرمی میں شدید پیاس کے وقت رب قہار کی بارگاہ میں ہمارے لیے سر سجدہ میں رکھیں گے اور امت کی بخشش کی درخواست کریں گے۔ کہیں امتیوں کے نیکیوں کے پلڑے بھاری کریں گے، کہیں پل صراط سے سلامتی سے گزاریں گے، کہیں حوض کوثر سے سیراب کریں گے۔ کہیں جہنم میں گرے ہوئے امتیوں کو نکال رہے ہوں گے، کسی کے درجات بلند فرما رہے ہوں گے۔ اپنے نورانی آنسوؤں سے امت کے گناہ دھوئیں گے۔ اس نفسی نفسی کی حالت میں کہ
جب ماں اکلوتے کو چھوڑے
آ آ کہہ کے بلاتے یہ ہیں

باپ جہاں بیٹے سے بھاگے
لطف وہاں فرماتے یہ ہیں

شافع، نافع، رافع، دافع
کیا کیا رحمت لاتے یہ ہیں
دنیا میں بھی اہل ایمان کی ساری نعمتوں کا منبع و مرکز حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات مبارکہ ہے۔ ہمیں قرآن دیا ، ایمان دیا، خدا کا عرفان دیا اور ہزارہا وہ چیزیں کہ جن کے ہم قابل نہ تھے اپنے سایہ رحمت کے صدقے ہمیں عطا فرمائیں۔ الغرض حضور سید دو عالم ﷺ کی ذات مبارکہ کے احسانات اس قدر کثیر در کثیر ہیں کہ انھیں شمار کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے۔ بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال

ہو نہ یہ پھول، تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

جان ہیں وہ جہان کی ، جان ہے تو جہان ہے ۔
۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۳۳ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۳۵ میں اہل ایمان کو اللہ جل شانہ کی بارگاہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے وسیلہ تلاش کرنے اور اس کی راہ میں مجاہدہ اور کوشش کرنے کی تلقین فرمائی جا رہی ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۳۵۔​

وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ : اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔ آیت میں وسیلہ کا معنی یہ ہے کہ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادات چاہے فرض ہوں یا نفل ، ان کی ادائیگی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو۔اور اگر تقویٰ سے مراد فرض و واجبات کی ادائیگی اور حرام چیزوں کو چھوڑ دینا مراد لیا جائے اور وسیلہ تلاش کرنے سے مطلقا ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کا سبب بنے مراد لی جائے تو بھی درست ہے۔اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام اور اولیاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھم سے محبت، صدقات کی ادائیگی، اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی زیارت، دعا کی کثرت، رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنا اور بکثرت ذکر اللہ عزوجل میں مشغول رہنا وغیرہ بھی اسی عموم میں شامل ہے۔ اب معنی یہ ہوا کہ ہر وہ چیز جو اللہ عزوجل کے قریب کر دے اسے لازم پکڑ لو اور جو بارگاہ الٰہی سے دور کرے اسے چھوڑ دو۔ (صاوی، صراط الجنان)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۳۴ ۔ اس سے پہلے سورۃ آل عمران میں اہل ایمان کو اغیار کی دوستی سے منع کیا گیا اور سورۃ النساء میں بھی کافرین کو دوست بنانے سے منع کرنے کے بعد یہاں سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۵۱ میں بھی اہل ایمان کو یہود و نصاریٰ کی دوستی سے منع کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَO
اے ایمان والو! یہود اور نصارٰی کو دوست مت بناؤ یہ (سب تمہارے خلاف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائے گا بیشک وہ (بھی) ان میں سے ہو (جائے) گا، یقیناً اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتاo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۵۱۔
اس آیت میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستی و موالات یعنی ان کی مدد کرنا، ان سے مدد چاہنا اور ان کے ساتھ محبت کے روابط رکھنا ممنوع فرمایا گیا۔ یہ حکم عام ہے اگرچہ آیت کا نزول کسی خاص واقعہ میں ہوا ہو۔ چنانچہ یہاں یہ حکم بغیر کسی قید کے فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ بناؤ ، یہ مسلمانوں کے مقابلے میں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، تمہارے دوست نہیں۔ کیونکہ کافر کوئی بھی ہوں اور ان کے باہم کتنے ہی اختلاف ہوں، مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ سب ایک ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو کافروں سے دوستی سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ نہایت سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی کرے وہ انہی میں سے ہے۔ یہ آیت مبارکہ مسلمانوں کی ہزاروں معاملات میں رہنمائی کرتی ہے اور اس کی حقانیت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ پوری دنیا کے حالات پر نظر دوڑائیں تو سمجھ آئے گا کہ مسلمانوں کی ذلت و بربادی کا آغاز تبھی سے ہوا جب آپس میں نفرت و دشمنی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر غیر مسلموں کو اپنا خیر خواہ اور ہمدرد سمجھ کر ان سے دوستیاں لگائیں اور انھیں اپنوں پر ترجیح دی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے۔۔۔(صراط الجنان)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۳۵ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۵۴ میں ارشاد ربانی ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌO
اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے اﷲ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ یہ (انقلابی کردار) اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اﷲ وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہےo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۵۴۔
ارتداد کہتے ہیں حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف پھر جانے کو۔ اللہ رب العزت جو قادر و غالب ہے، خبر دیتا ہے کہ اگر کوئی اس پاک دین سے مرتد ہو جائے تو وہ اسلام کی قوت گھٹا نہیں دے گا۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بدلے ان لوگوں کو اس سچے دین کی خدمت پر مامور کرے گا جو ان سے ہر حیثیت میں اچھے ہوں گے۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، خلافت صدیق میں جو لوگ اسلام سے پھر گئے تھے، ان کا حکم اس آیت میں ہے۔ پھر کامل ایمان والوں کی صفت بیان ہو رہی ہے کہ (اللہ عزوجل ان سے پیار کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں)، اپنے ساتھیوں یعنی مسلمانوں کے سامنے تو بچھ جانے والے، جھک جانے والے ہوتے ہیں اور کفار کے مقابلہ میں تن جانے والے، ان پر بھاری پڑنے والے اور ان پر تیز ہونے والے ہوتے ہیں۔ سچے مسلمان راہ حق کے جہاد سے نہ منہ موڑتے ہیں، نہ پیٹھ دکھاتے ہیں اور نہ کسی کی ملامت کا خوف کرتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہے دے۔ یعنی کمال ایمان کی یہ صفات خاص اللہ عزوجل کا عطیہ ہیں اور وہ وسیع فضل اور کامل علم والا ہے۔۔۔(ابن کثیر)۔
۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۳۶ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۵۷ میں پھر یاد دہانی کرائی جا رہی ہے کہ کفار کے ساتھ اور جو لوگ تمہارے دین کو کھیل تماشا بنائے رکھتے ہیں ان سے دوستیاں نہ پالو۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ وَاتَّقُواْ اللّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَO
اے ایمان والو! ایسے لوگوں میں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی، ان کو جو تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنائے ہوئے ہیں اور کافروں کو دوست مت بناؤ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو بشرطیکہ تم (واقعی) صاحبِ ایمان ہوo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۵۷۔​

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی محبت سے منع کر رہا ہے اور فرماتا ہے کہ کیا تم ان سے دوستیاں کرو گے جو تمہارے طاہر و مطہر دین کا مذاق اڑاتے ہیں۔ (ابن کثیر)۔ دو آدمی اظہار اسلام کے بعد منافق ہو گئے تھے اور بعض مسلمان ان سے محبت رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور فرمایا کہ زبان سے اسلام کا اظہار کرنا اور دل میں کفر چھپائے رکھنا دین کو ہنسی اور کھیل بنانا ہے اور ایسے لوگوں اور ان کے علاوہ مشرکوں ، کافروں کو دوست بنانے سے بھی منع کر دیا گیا۔ کیونکہ اللہ عزوجل کے دشمنوں سے دوستی کرنا ایمان دار کا کام نہیں۔۔۔(صراط الجنان)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۳۷ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۸۷ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَO
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتاo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۸۷۔
چند جلیل القدر صحابہ کرام جن میں حضرت صدیق و علی رضی اللہ عنہم بھی شریک تھے،حضرت عثمان بن مظعون کے گھر میں جمع ہوئے اور یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ وہ ہمیشہ روزہ رکھا کریں گے، ساری رات عبادت میں گزاریں گے،بستروں پر نہیں سوئیں گے، گوشت گھی وغیرہ نہیں کھائیں گے، عورتوں اور خوشبو سے بالکل اجتناب کریں گے، اونی لباس پہنیں گے اور دنیا سے قطع تعلق کر لیں گے۔ رحمت عالم ﷺ کو اطلاع ملی تو حضور نے انھیں بلا کر یہ حقیقت افروز ارشاد فرمایا: اے میرے صحابہ ! تمھارے نفسوں کا بھی تم پر حق ہے اس لیے روزے بھی رکھو اور افطار بھی کرو۔ راتوں میں جاگ کر عبادت بھی کرو اور آرام سے سوؤ بھی۔ کیونکہ میں رات کو جاگتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں۔ گوشت اور گھی بھی کھاتا ہوں اور اپنی ازواج سے بھی مقاربت کرتا ہوں۔(یہ میرا طریق کار اور سنت ہے) جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ میری جماعت سے نہیں۔
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ نہ تو یہودیوں کی طرح لذات دنیا میں کھو جاؤ اور نہ مسیحی راہبوں کی طرح دنیا کی حلال لذتوں کو اپنے اوپر حرام کر دو بلکہ اعتدال اور میانہ روی اختیار کرو۔ یہی دین اسلام کا طرہ امتیاز ہے۔ لاَ تُحَرِّمُواْ کا معنی یہ ہے کہ نہ تو یہ اعتقاد رکھو کہ یہ چیزیں حرام ہیں اور نہ زبان سے ایسا کہو اور نہ ان کے استعمال کو اس طرح ترک کر دو جیسے حرام چیز کو ترک کیا جاتا ہے۔ اولیاء کرام نفس سرکش کی سرکوبی کے لیے بعض حلال چیزوں کو استعمال نہیں کرتے تو وہ ان کی حرمت کے قائل نہیں ہوتے بلکہ جس طرح جسمانی طبیب بعض اشیاء کو صحت جسمانی کے لیے مضر خیال کر کے مریض کو ان کے استعمال سے روک دیتا ہے اسی طرح یہ روحانی معالج بعض روحانی مفاسد کے پیش نظر بعض چیزوں سے وقتی طور پر اجتناب کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی جاہل اللہ تعالیٰ کی کسی حلال کردہ چیز کو اعتقادی یا قولی طور پر حرام جانے تو یہ باطل ہے اور گمراہی ہے۔ (ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۳۸ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۹۰ میں ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۹۰۔
عرب میں شراب کا عام رواج تھا۔ گنتی کے چند آدمیوں کے علاوہ سب اس کے متوالے تھے۔ شراب جو ان گنت جسمانی و روحانی بیماریوں کا سبب، اخلاقی اور معاشی خرابیوں کی جڑ اور فتنہ فساد کی علت ہے، اسلام کے پاکیزہ نظام حیات میں اس کی کیوں کر گنجائش ہو سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے قطعی حرام کر دیا۔ لیکن حرمت کا حکم آہستہ آہستہ اور بتدریج نازل ہوا تاکہ لوگوں کو اس پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔ یہاں چار چیزوں کے نجاست ،خباثت اور شیطانی کام ہونے کے بارے میں بیان فرمایا اور ان سے بچنے کا حکم دیا گیا۔ وہ چار چیزیں یہ ہیں۔
۱۔ خمر : ہر مدہوش کر دینے والی شراب کو خمر کہتے ہیں۔ عصیر عنب سے اس کی تخصیص تعسف ہے۔ کیونکہ مدینہ طیبہ میں جو شراب استعمال ہوتی تھی وہ انگور، گندم ، جو، کھجور اور شہد سے کشید ہوا کرتی تھی۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو کسی صحابی نے بھی یہ نہیں سمجھا کہ صرف انگوری شراب ہی حرام ہے حالانکہ وہ اہل زبان تھے۔ ۲۔ میسر : مطلقا جُوا کو کہتے ہیں خواہ اس کی صورت کیسی ہو۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ الشطرنج من المیسر کہ شطرنج بھی جُوا ہے۔۔۔ ۳۔ انصاب : ان پتھروں کو انصاب کہا جاتا تھا جو حرم میں کعبہ کے ارد گرد نصب تھے اور کفار ان کے لیے جانور ذبح کرتے اور ان کا خون ان پتھروں پر مل دیتے۔۔۔ ۴۔ ازلام: وہ تیر جن کے ذریعہ فالیں نکالی جاتی تھیں۔ نیز وہ تیر جن کے ساتھ جُوا کھیلا جاتا تھا۔ اس آیت میں مقصود تو شراب اور جُوا کی حرمت قطعی بیان کرنا ہے لیکن انصاب اور ازلام کو ان کے ساتھ ذکر کر کے ان کی قباحت کو اور زیادہ عیاں کر دیا۔ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ۔ بدبودار ، غلیظ اور گندی چیز کو رجس کہتے ہیں اور من عمل الشیطان کہہ کر یہ بتایا کہ کہ یہ چیزیں اتنی غلیظ اور ناپاک ہیں کہ کوئی سلیم الفطرت انسان ازخود ان کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ صرف شیطان کی وسوسہ اندازی ہی اسے ان قبیح حرکات کے ارتکاب کی رغبت دلا سکتی ہے۔۔۔ (ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۳۹ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۹۴ میں ارشاد ربانی ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللّهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللّهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌO
اے ایمان والو! اللہ کسی قدر (ایسے) شکار سے تمہیں ضرور آزمائے گا جس تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ سکتے ہیں تاکہ اللہ اس شخص کی پہچان کروا دے جو اس سے غائبانہ ڈرتا ہے پھر جو شخص اس کے بعد (بھی) حد سے تجاوز کر جائے تو اس کے لئے دردناک عذاب ہےo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۹۴۔
لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللّهُ : ضرور اللہ تمھیں آزمائے گا۔ عرب کے بادیہ نشین جانوروں اور پرندوں کا شکار کر کے گزر اوقات کیا کرتے تھے۔ ۶ہجری جس میں حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا اور مسلمان حالت احرام میں تھے۔ اس وقت وہ اس آزمائش میں ڈالے گئے کہ شکار کئے جانے والے جانور اور پرندے بڑی کثرت سے آئے۔ اور ان کی سواریوں پر چھا گئے۔ اتنی کثرت تھی کہ صحابہ کرام کا انھیں شکار کر لینا یا ہاتھ سے پکڑ لینا بالکل اختیار میں تھا۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین حکم الٰہی کی پابندی میں ثابت قدم رہے اور حالت احرام میں شکار نہ کیا۔ اس سے صحابہ کرام کی عظمت بھی ظاہر ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی گناہ کے اسباب و مواقع جس قدر کثرت سے موجود ہوں ان سے بچنے میں اتنا ہی زیادہ ثواب ہے۔۔۔ (صراط الجنان)۔
اگر کوئی حالت احرام میں شکار کر بیٹھے تو اس کے کفارے کا بیان اس سے متصل اگلی آیت میں آ رہا ہے۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۴۰ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۹۵ میں حالت احرام میں شکار کی حرمت اور اس کے کفارے کا بیان ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْتُلُواْ الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَو عَدْلُ ذَلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ عَفَا اللّهُ عَمَّا سَلَف وَمَنْ عَادَ فَيَنتَقِمُ اللّهُ مِنْهُ وَاللّهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍO
اے ایمان والو! تم احرام کی حالت میں شکار کو مت مارا کرو، اور تم میں سے جس نے (بحالتِ احرام) قصداً اسے مار ڈالا تو (اس کا) بدلہ مویشیوں میں سے اسی کے برابر (کوئی جانور) ہے جسے اس نے قتل کیا ہے جس کی نسبت تم میں سے دو عادل شخص فیصلہ کریں (کہ واقعی یہ جانور اس شکار کے برابر ہے بشرطیکہ) وہ قربانی کعبہ پہنچنے والی ہو یا (اس کا) کفّارہ چند محتاجوں کا کھانا ہے (یعنی جانور کی قیمت کے برابر معمول کا کھانا جتنے بھی محتاجوں کو پورا آجائے) یا اس کے برابر (یعنی جتنے محتاجوں کا کھانا بنے اس قدر) روزے ہیں تاکہ وہ اپنے کیے (کے بوجھ) کا مزہ چکھے۔ جو کچھ (اس سے) پہلے ہو گزرا اللہ نے اسے معاف فرما دیا، اور جو کوئی (ایسا کام) دوبارہ کرے گا تو اللہ اس سے (نافرمانی) کا بدلہ لے لے گا، اور اللہ بڑا غالب بدلہ لینے والا ہےo
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر ۹۵۔
اس آیت مبارکہ میں حالت احرام میں شکار کرنے سے منع فرمایا گیا ہے چاہے وہ کسی بھی ذریعہ سے ہو۔ اس میں رسیاں، جال، تیر، بندوق، شکاری کتے، غرضیکہ شکار کا ہر ذریعہ داخل ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اگر کسی نے شکار پکڑ لیا تو اسے چھوڑ دے اور اگر مار ڈالا تو پھر اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس طرح کا ایک جانور جس کی قیمت دو معتبر آدمیوں کے فیصلہ کے مطابق اس شکار کردہ جانور کے برابر ہو خریدے اور مکہ مکرمہ میں لا کر اسے ذبح کر ے یا اس جانور کی قیمت کا غلہ لے کر غریبوں میں تقسیم کر دے یا جتنے غریبوں میں صدقہ فطر کی مقدار سے وہ غلہ تقسیم ہو سکتا ہے اتنے روزے رکھے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۴۱ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۱۰۱ میں اہل ایمان کو غیر ضروری سوالات کرنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَسْأَلُواْ عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُواْ عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللّهُ عَنْهَا وَاللّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌO
اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں)، اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جبکہ قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو وہ تم پر (نزولِ حکم کے ذریعے ظاہر (یعنی متعیّن) کر دی جائیں گی (جس سے تمہاری صواب دید ختم ہو جائے گی اور تم ایک ہی حکم کے پابند ہو جاؤ گے)۔ اللہ نے ان (باتوں اور سوالوں) سے (اب تک) درگزر فرمایا ہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بردبار ہےo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۱۰۱۔
بعض لوگ حضور کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم سے عجیب و غریب قسم کے سوالات پوچھا کرتے تھے جن میں کوئی دینی اور دنیوی فائدہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ حضور ان سوالات سے کبیدہ خاطر ہوئے اور ایک روز منبر پر تشریف فرما ہو کر ارشاد فرمایا ، لا تسئلونی الیوم عن شئی الا بیّنتہ لکم یعنی آج جس چیز کے متعلق بھی تم مجھ سے دریافت کرو گے وہ میں تمھیں بتاؤں گا۔ سب صحابہ کرام کے سر جھکے ہوئے تھے اور زاروقطار رو رہے تھے اور کسی میں ہمت نہ تھی کہ کوئی بات کر سکے۔ اس وقت حضرت عبداللہ بن حذافہ کہ جن کے نسب کے بارے میں لوگ طرح طرح کی چہ میگوئیاں کیا کرتے تھے، اٹھے اور عرض کی ، من ابی یا رسول اللہ۔ میرا باپ کون ہے۔ حضور نے یہ نہیں کہا کہ مجھے کیا پتہ۔ مجھ سے کوئی فقہ کا مسئلہ دریافت کرو۔ بلکہ اپنے خدا داد علم کا اظہار فرماتے ہوئے جواب دیا کہ ابوک حذافہ تیرا باپ حذافہ ہے۔ ان کی والدہ اپنے لڑکے کے اس سوال پر کانپ اٹھیں اور کہنے لگیں اے عبداللہ تجھ سے زیادہ نافرمان بھی کسی کا بیٹا ہو سکتا ہے تُو تو مجھے بر سر مجلس رسوا کرنا چاہتا تھا۔ حضرت عبداللہ کو اپنے محبوب نبی کے علم خدا داد پر اتنا اعتماد تھا کہ فرمایا اگر حضور مجھے کسی حبشی غلام کا بیٹا کہہ دیتے تو مجھے انکار نہ ہوتا۔ اسی طرح بعض لوگ بال کی کھال نکالنے کے عادی تھے۔ حج کی فرضیت کا حکم نازل ہوا تو ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ! کیا ہر سال؟ حضور خاموش رہے۔ اس نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا ، حضور پھر خاموش رہے ۔ اس نے تیسری مرتبہ پوچھا تو حضور نے فرمایا، نہیں ، اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج فرض ہو جاتا۔ کیونکہ اس طرح کے سوالات مفید ہونے کے بجائے تکلیف و مشقت کا باعث بن سکتے تھے اس لیے ان سے منع فرما دیا۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ ارشاد گرامی بھی پیش نظر رہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں ان کو ضائع نہ کرو، بعض چیزوں کو حرام کر دیا ہے ان کی پردہ دری نہ کرو، اور بعض حدیں مقرر کر دی ہیں ان کو نہ توڑو، اور بعض چیزوں کے متعلق دانستہ سکوت فرمایا ہے ان کے متعلق بحث نہ کرو۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۴۲ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۱۰۵ میں ارشاد ربانی ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلَى اللّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَO
اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو، تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت یافتہ ہو چکے ہو، تم سب کو اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان کاموں سے خبردار فرما دے گا جو تم کرتے رہے تھےo
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر ۱۰۵۔
کفار کا عناد اور کفر پر ان کا اصرار دیکھ کر صحابہ کرام بہت رنجیدہ خاطر رہا کرتے تھے۔ ان کی تسلی کے لیے یہ آیت نازل ہوئی کہ تم اپنی اصلاح اور سلامت روی کے ذمہ دار ہو۔ اگر تم راہ راست پر ثابت قدم رہے تو کسی کی گمراہی تمھیں ضرر نہیں پہنچائے گی۔ ہر شخص اپنے اعمال کی جزا و سزا بھگتے گا۔ لیکن اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ جب ہم خود نیکو کار اور صالح ہیں تو کسی کو نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا ہم پر لازم نہیں۔ یہ خیال سراسر غلط ہے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس غلط فہمی کا پہلے ہی ازالہ فرما دیا تھا۔ آپ ایک روز خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے۔ حمد و ثنا کے بعد فرمایا، تم یہ آیت پڑھتے ہو اور اس کا غلط مفہوم ذہن میں رکھتے ہو۔ میں نے حضور کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ جس وقت برائی کو دیکھیں اور پھر اس کو درست نہ کریں تو بعید نہیں کہ اللہ عزوجل سب کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۴۳ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۱۰۶ میں وصیت اور اس کی گواہی کے متعلق بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلاَةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لاَ نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَلاَ نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللّهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِينَO
اے ایمان والو! جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے تو وصیت کرتے وقت تمھاری آپس کی گواہی (دینے والے) تم میں سے دو معتبر شخص ہوں یا اگر تم زمین میں سفر کر رہے ہو پھر تمھیں موت کا حادثہ آ پہنچے تو تمھارے غیروں میں سے دو آدمی (گواہ ہوں)۔ تم ان دونوں گواہوں کے نماز کے بعد روک لو پھر اگر تمھیں کچھ شک ہو تو وہ دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم قسم کے بدلے کوئی مال نہ لیں گے اگرچہ قریبی رشتہ دار ہو اور ہم اللہ کی گواہی نہ چھپائیں گے۔ (اگر ہم ایسا کریں تو) یقینا اس وقت ہم گنہگاروں میں شمار ہوں گے۔
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۱۰۶۔​

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان سفر میں ہو اور اس کی موت کا وقت قریب آ جائے تو دو معتبر مسلمانوں کو بلا کر اپنے مال کی وصیت کرے اور اگر اس وقت مسلمان نہ مل سکیں تو دو غیر مسلموں کو بلا کر ہی اس کی وصیت کر دے۔ اور جب وہ وصی اس کے گھر پہنچیں اور وارثوں کو شک پڑ جائے کہ انھوں نے صحیح حالات نہیں بتائے تو نماز عصر کے بعد جب لوگ نماز سے فارغ ہو جائیں تو ان وصیوں کو بلا کر قسم لی جائے کہ انھوں نے کسی قسم کی خیانت نہیں کی اور وصیت کو صحیح طور پر بیان کر دیا ہے۔ کیونکہ وارث اس صورت میں مدعی تھے لیکن ان کے پاس ان وصیوں کے خلاف گواہ موجود نہ تھے۔ اس لیے وصی جو منکر تھے ان سے قسم لی گئی۔ لیکن اگر بعد میں ان کی خیانت پکڑی جائے اور ان کا جھوٹ ظاہر ہو جائے تو پھر وارثوں میں سے دو آدمی قسم اٹھائیں کہ پہلے وصیوں کا بیان غلط تھا اور جو ہم کہہ رہے ہیں وہ زیادہ صحیح ہے۔ پھر ان وارثوں کی قسم کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

مندرجہ بالا آیت اور اس سے اگلی دو آیات اسی وصیت اور گواہی کی تفصیل میں ہیں جو ایک مخصوص واقعہ کے پس منظر میں نازل ہوئیں۔ آیت کا خلاصہ پیش کر دیا گیا ہے، شان نزول اور مزید تفصیل کسی بھی معروف ترجمہ و تفسیر میں دیکھی جا سکتی ہے۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
سورۃ الانفال ۔ ۸
۴۴ ۔ سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۱۵ میں اہل ایمان کو کفر کے مقابلے کے لیے ہر حال میں جمے رہنے کی تلقین فرمائی جا رہی ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ زَحْفاً فَلاَ تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَO
اے ایمان والو! جب تم (میدانِ جنگ میں) کافروں سے مقابلہ کرو (خواہ وہ) لشکرِ گراں ہو پھر بھی انہیں پیٹھ مت دکھاناo
سورۃ الانفال ، آیت نمبر ۱۵۔​

یہاں مجاہدین اسلام کو حکم دیا جا رہا ہے کہ جب تم دین حق کے دشمنوں سے نبرد آزما ہو تو داد شجاعت دو اور پامردی اور بہادری سے ان کے سامنے ڈٹے رہو۔ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت تمھارے ہمرکاب ہو گی۔ تمھیں اس بات کی ہر گز اجازت نہیں کہ حق کے علمبردار ہو کر باطل کے پرستاروں کے سامنے نامردی اور بزدلی کا مظاہرہ کرو اور میدان جہاد سے بھاگ کھڑے ہو۔ چنانچہ میدان جنگ سے فرار کو حضور کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے اکبر الکبائر ، بڑے گناہوں سے بھی بڑا گناہ فرمایا ہے۔ لیکن یہ گناہ اس وقت تک ہے جبکہ دشمنوں کی تعداد دو گنا سے زائد نہ ہو۔ اگر اس سے زیادہ ہو تو پھر بھی ثابت قدم رہنا اور صبر کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہنا ہی افضل ہے۔ جیسے جنگ موتہ میں اہل اسلام کی تعداد صرف تین ہزار تھی اور ان کے مقابل قیصر کی فوج دو لاکھ تھی لیکن غلامان مصطفٰے نے پرچم اسلام کو سرنگوں نہ ہونے دیا۔ اور فاتح اندلس طارق صرف سترہ سو جانبازوں کے ساتھ شاہ اندلس کے ستر ہزار شہسواروں سے ٹکرایا اور ان کو کچل کر رکھ دیا۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۴۵ ۔ سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۲۰ میں اللہ عزوجل اہل ایمان کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دے رہا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَO
اے ایمان والو! تم اللہ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور اس سے روگردانی مت کرو حالانکہ تم سن رہے ہوo
سورۃ الانفال ، آیت نمبر ۲۰۔​
اس آیت سے مقصود سرکار دو عالم ﷺ کی اطاعت کرنے کا حکم دینا اور ان کی نافرمانی سے منع کرنا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا ذکر اس بات سے متنبہ کرنے کے لیے ہے کہ رسول خدا کی اطاعت اللہ عزوجل ہی کی اطاعت ہے۔ جیسا کہ ایک مقام پر صراحت کے ساتھ فرمایا کہ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ یعنی جس نے رسول کی اطاعت کی بے شک اس نے اللہ کی اطاعت کی۔۔۔(صراط الجنان)۔
اطاعت خدا اور اطاعت رسول ﷺ عقائد اسلامیہ اور شریعت بیضاء کا سنگ بنیاد ہے۔ اس کے بغیر نہ اسلامی عقائد کا پتہ چل سکتا ہے اور نہ شریعت کا۔ وانتم تسمعون کے کلمات کتنے معنی خیز ہیں۔ یعنی اتنا تغافل کہ قرآنی آیات سننے کے باوجود بھی اطاعت خدا و رسول کے منکر ہیں۔ بلکہ اتباع قرآن کو ترک اطاعت رسول کی دلیل بناتے ہیں۔ اتباع قرآن تب ہی ہو سکتا ہے جب اس کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا جائے اور اطاعت رسول کا حکم بھی قرآن کا ہی حکم ہے ۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۴۶ ۔ سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۲۴ میں اہل ایمان کو اللہ اور اس کے رسول علیہ الصلاۃ والسلام کے بلانے پر لبیک کہتے ہوئے دوڑے چلے آنے اور اللہ عزوجل کی اپنے بندوں کے ساتھ قربت خاصہ کو کس خوبصورت انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَO
اے ایمان والو! جب (بھی) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں کسی کام کے لئے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو، اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے قلب کے درمیان (شانِ قربتِ خاصہ کے ساتھ) حائل ہوتا ہے اور یہ کہ تم سب (بالآخر) اسی کی طرف جمع کئے جاؤ گےo
سورۃ الانفال ، آیت نمبر ۲۴۔​

پہلے بیان کی گئی آیت میں اطاعت کا مکرر حکم دینے کے بعد اس کی حکمت بھی بیان فرما دی کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب رسول جس چیز کی طرف تمھیں دعوت دے رہا ہے وہ تمھارے مردہ دلوں کو زندہ کرنے والی اور تمھاری جاں بلب روحوں کو تازگی و نشاط عطا فرمانے والی ہے۔ صاحب تفسیر مظہری رقمطراز ہیں کہ ہر بات میں سنت نبوی کی اطاعت سے دل زندہ ہوتا ہے اور اس کی نافرمانی سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق بخشے کہ ہم اس طوفان خیز دور میں اپنے چراغ ایمان کو روشن رکھ سکیں اور اطاعت حبیب خدا ﷺ سے اپنے مردہ دلوں کو زندہ کر سکیں۔۔۔ ضیاء القرآن)۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ تاجدار رسالت ﷺ جب بھی کسی کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف ہو۔ بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابو سعید بن معلیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مجھے رسول اکرم ﷺ نے بلایا لیکن میں آپ کے بلانے پر حاضر نہ ہوا۔ (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) میں نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی ، یا رسول اللہ ! میں نماز پڑھ رہا تھا (اس لیے حاضر نہ ہو سکا)۔ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم ، کہ اللہ اور رسول کے بلانے پر حاضر ہو جایا کرو جب وہ تمھیں بلائیں۔ ایسا ہی واقعہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کےساتھ بھی پیش آیا تو انھوں نے عرض کی کہ آئندہ ان شا اللہ ایسا نہیں ہو گا۔
لِمَا يُحْيِيكُمْ : اس چیز کے لیے جو تمھیں زندگی دیتی ہے۔ زندگی دینے والی چیز کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے ایمان مراد ہے۔ کیونکہ کافر مردہ ہوتا ہے، ایمان سے اس کو زندگی ملتی ہے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ چیز قرآن ہے کیونکہ اس سے دلوں کی زندگی ہے اور اس میں نجات اور دونوں جہاں کی حفاظت ہے۔ بعض نے اس سے جہاد اور بعض نے شہادت مراد لی ہے کیونکہ شہداء اپنے رب عزوجل کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔۔۔ (صراط الجنان)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۴۷ ۔ سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۲۷ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَخُونُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُواْ أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَO
اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (ان کے حقوق کی ادائیگی میں) خیانت نہ کیا کرو اور نہ آپس کی امانتوں میں خیانت کیا کرو حالانکہ تم (سب حقیقت) جانتے ہوo
سورۃ الانفال، آیت نمبر ۲۷۔​

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے خیانت کا مطلب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے، لا تخونوا اللہ بترک فرائضہ والرسول بترک سنتہ۔ یعنی فرائض کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ خیانت نہ کرو اور سنت سے سرتابی کر کے اس کے رسول سے خیانت نہ کرو۔ اسی طرح مسلمانوں کے راز دشمن تک پہنچانا، حکومت کے سربراہوں ، اعلیٰ افسروں اور ملازموں کا اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا ، ملک کے صنعت کاروں اور تاجروں کا ملکی صنعت اور کاروبار میں دیانتداری کو نظر انداز کر دینا حقیقت میں اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت کرنے میں داخل ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 
Top