مشکل اور پیچیدہ اشعار کی تشریح

ابوذر 123

محفلین
تنے گا مسرت کا اب شامیانہ۔۔۔
بجے کا محبت کا نقار خانہ
حمایت گائیں گے مل کر ترانہ
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ


نہ ہم روشنی دن کی دیکھیں گے لیکن
چمک اپنی دکھلائیں گے اب بھلے دن
رکے گا نہ عالم ترقی کئے بن
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
 
نہ ہم روشنی دن کی دیکھیں گے لیکن
چمک اپنی دکھلائیں گے اب بھلے دن
یہاں جو مفہوم میری سمجھ میں آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ
اپنے سخت حالات پر شاعر عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ بھلے ہم اپنی زندگی مشکلات میں گزار دیں، مگر آنے والوں کے لیے کچھ کر جائیں گے۔
یعنی ہمارے ہوتے یہ زمانے کی تلخیاں ختم نہ بھی ہوں تو ہم اپنی کوشش جاری رکھیں گے، اور ہماری محنت کے سبب اچھا زمانہ ضرور آئے گا۔
 

ابوذر 123

محفلین
میرے خیال سے اس کا جو مطلب ہے یہ ہے۔۔۔

بھلے ہی ہم دن کی روشنی یعنی دور ترقی کی چمک دمک نہ دیکھ پائیں۔ زندگی ختم ہو جائے


لیکن وہ بھلے دن یعنی زمانہ ترقی اپنی چمک دکھلا کر ہی رہیں گے۔۔۔ یعنی ترقی ہوکر ہی رہے گی



یہ مفہوم کیسا ہے
 
میرے خیال سے اس کا جو مطلب ہے یہ ہے۔۔۔

بھلے ہی ہم دن کی روشنی یعنی دور ترقی کی چمک دمک نہ دیکھ پائیں۔ زندگی ختم ہو جائے


لیکن وہ بھلے دن یعنی زمانہ ترقی اپنی چمک دکھلا کر ہی رہیں گے۔۔۔ یعنی ترقی ہوکر ہی رہے گی



یہ مفہوم کیسا ہے
شاعر کی ضمیر اپنی جانب ہے۔
ویسے بھی زمانہ خود اچھا یا برا نہیں ہوتا، ہم ہی اسے اچھا یا برا بناتے ہیں۔ شاعر اسی عزم کا اظہار کر رہا ہے۔
 

ابوذر 123

محفلین
یہاں ظرف بول کر مظروف مراد لیا گیا ہے UOTE="ابوذر 123, post: 1974387, member: 18156"]دنیا مطلبی ہے

مطلب دنیا کے لوگ مطلبی ہیں[/QUOTE]
یع
 
حضور ظرف بول کر مظروف مراد لیا جاتا ہے



مجھ سے کسی نے اس شعر کا مفہوم پوچھا تھا۔۔

دنیا مطلبی ہے

مطلب دنیا کے لوگ مطلبی ہیں

یہاں ظرف بول کر مظروف مراد لیا گیا ہے UOTE="ابوذر 123, post: 1974387, member: 18156"]دنیا مطلبی ہے

مطلب دنیا کے لوگ مطلبی ہیں
یع[/QUOTE]

ان مراسلات کی سمجھ نہیں آئی۔
باقی میں نے اپنی رائے دی ہے، اور اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے پوچھا، جو مفہوم مجھے سمجھ آیا، وہ بتا دیا۔ خوش رہیں۔ :)
 

فاخر رضا

محفلین
یہاں شاعر اپنی من پسند جماعت کے بارے ممیں کافی حسن ظن کا شکار ہے
وہ سمجھتا ہے کہ اگراسکی جماعت کامیاب ہوگئی تو تبدیلی آجائے گی
 

زاھدا

محفلین
اسے جانتے ہیں بڑا اپنا دشمن
ہمارے کرے عیب جو ہم پہ روشن
نصیحت سے نفرت ہے ناصح سے ان بن
سمجھتے ہیں ہم رہنماءوں کو رہزن
یہی عیب ہے سب کو کھویا ہے جس نے
ہمیں ناءو بھر کر ڈبویا ہے جس نے(مسدس حالی)
 
اسے جانتے ہیں بڑا اپنا دشمن
ہمارے کرے عیب جو ہم پہ روشن
نصیحت سے نفرت ہے ناصح سے ان بن
سمجھتے ہیں ہم رہنماءوں کو رہزن
یہی عیب ہے سب کو کھویا ہے جس نے
ہمیں ناءو بھر کر ڈبویا ہے جس نے(مسدس حالی)
ویسے یہ مشکل اشعار تو نہیں۔ :)
اس بند میں مولانا حالی نے مسلمانوں کی زبوں حالی کی چند وجوہات بیان کی ہیں۔
کہ جو ہمیں ہمارے عیب بتائے، اسے دشمن سمجھتے ہیں اور اپنے عیب درست کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ نصیحت اور نصیحت کرنے والے کو برا سمجھتے ہیں۔ جو صحیح راہ دکھا رہا ہو، اسے ہی راہ کھوٹا کرنے والا سمجھتے ہیں۔ اور یہی عیب معلوم نہ ہونا ہمارے زوال کا سبب ہیں۔
 

سیپ مہر

محفلین
شب خوں کے لیے فلک پھرے ہے
کھینچے ہوئے تیغ، کہکشاں سے ۔۔۔۔۔


نہ لازم نیستی اُس کو، نہ ہستی ہی ضروری ہے
بیاں کیا کیجیے اے درد! ممکن کی تباہی کو


اور افزونی طلب کی بعد مرنے کے ہوئی
خاک ہونے نے، کیا ہر ذرہ گرمِ جستجو
شاعر علامہ اقبال ؟
 
Top