میر کے بہتر نشتر

فاتح

لائبریرین
درست کہتے ہیں۔ آزاد کا زمانہ حسرت سے پہلے کا ہے اور انھوں نے بہتر نشتر کا ذکر کیا ہے تو اس کا مطلب ہے حسرت نے شاید اسی عدد کی رعایت سے میر کے 72 بہترین اشعار انتخاب کیے ہوں گے۔
ابھی تلاش کیا تو اس حوالے سے آبِ حیات کا یہ حوالہ ملا:
میر کے غزلوں کے دیوان اگرچہ رطب ویابس سے بھرے ہوئے ہیں، مگر جو ان میں انتخاب ہیں وہ فصاحت کے عالم میں انتخاب ہیں۔ اُردو زبان کے جوہری قدیم سے کہتے آئے ہیں کہ ستر (۷۰) اور دو بہتر (۷۲) نشتر باقی میر صاحب کا تبرک ہے، لیکن یہ بہتر (۷۲) کی رقم فرضی ہے۔ کیوں کہ جب کوئی تڑپتا ہوا شعر پڑھا جاتا ہے تو ہر سخن شناس سے مبالغہ تعریف میں یہی سُنا جاتا ہے کہ دیکھئے یہ انھیں بہتر نشتروں میں ہے۔
اور آزاد بھی لکھ رہے ہیں کہ "قدیم سے کہتے آئے ہیں۔۔۔" جس کا مطلب ہے کہ دراصل یہ آزاد کا بھی قول یا اختراع نہیں بلکہ ان سے بھی پہلے سے یہ بہتر نشتر سرگرداں تھے۔
 

ابو ہاشم

محفلین
دُور بیٹھا غبارِ میر اُس سے
عشق بِن یہ ادب نہیں آتا
واہ
ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
تیرا رخِ مخطط قرآن ہے ہمارا
بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا
سرسری تم جہان سے گزرے!
ورنہ ہر جا ۔۔۔۔ جہانِ دیگر تھا!
نرا دھوکا ہی ہے دریائے ہستی
نہیں کچھ تہ سے تجھ کو آشنائی
احباب نے کچھ شعر لکھے ہیں ایک میں بھی لکھ دوں

کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
تیری آنکھوں کی نیم خوابی سے
 

فہد اشرف

محفلین
آج لیپ ٹاپ کے پی ڈی ایف والے فولڈر میں ایک فائل ملی جو کبھی ڈیجیٹل لائبریری آف انڈیا سے ڈاؤنلوڈ کیا تھا۔ کتاب کا نام ”میر کے نشتر“ ہے جو کسی مسعود الرحمن خان ندوی کی تصنیف ہے۔
۔
۔
نوٹ: ابھی پڑھنا باقی ہے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آج لیپ ٹاپ کے پی ڈی ایف والے فولڈر میں ایک فائل ملی جو کبھی ڈیجیٹل لائبریری آف انڈیا سے ڈاؤنلوڈ کیا تھا۔ کتاب کا نام ”میر کے نشتر“ ہے جو کسی مسعود الرحمن خان ندوی کی تصنیف ہے۔
۔
۔
نوٹ: ابھی پڑھنا باقی ہے
کب تک پڑھ لیں گے۔۔۔
 
Top