آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۲

سب نے تعریف کی اور مرزائے موصوف نے بھی تحسین و آفریں کے ساتھ پسند کیا۔ اسی پر ایک اور مطلع یاد آیا ہے۔ چاہے ظفرؔ کا کہو چاہے ذوقؔ کا سمجھو :

اس طرف بھی تمھیں لازم ہے نگاہے نگاہے
دمبدم لحظہ بہ لحظہ نہیں گاہے گاہے​

نقل – کسی شخص نے اُس سے آ کر کہا کہ حضرت ایک شخص آپ کے تخلص پر آج ہنستے تھے۔ اور کہتے تھے کہ سوزگوز کیا تخلص رکھا ہے۔ ہمیں پسند نہیں۔ انھوں نے کہنے والے کا نام پوچھا۔ اس نے بعد بہت سے انکار اور اصرار کے بتایا۔ معلوم ہوا کہ شخص موصوف بھی مشاعرہ میں ہمیشہ آتے ہیں۔ میر سوزؔ مرحوم نے کہا، خیر کوئی مضائقہ نہیں۔ اب کے صحبت کے مشاعرہ میں تم مجھ سے برسر جلسہ یہی سوال کرنا۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور بآواز بلند پوچھا، حضرت اپ کا تخلص کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ صاھب قبلہ فقیر نے تخلص تو میر کیا تھا۔ مگر میر تقی صاحب نے پسند فرمایا۔ فقیر نے خیال کیا کہ ان کے کمال کے سامنے میرا نام نہ روشن ہو سکے گا۔ ناچار سوزؔ تخلص کیا، (شخص مذکور کی طرف اشارہ کر کے کہا)، سنتا ہوں یہ صاحب گوز کرتے ہیں۔ مشاعرہ میں عجیب قہقہہ اڑا۔ لکھنؤ میں ہزاروں آدمی مشاعرہ میں جمع ہوتے تھے، سب کے کان تک آواز نہ گئی تھی، کئی کئی دفعہ کہلوا کر سُنا۔ ادھر شخص موصوف اُدھر میر تقی صاحب، دونوں چپ بیٹھے سُنا کئے۔

انھوں نے علاوہ شاعری کے شعر خوانی کا ایسا طریقہ ایجاد کیا تھا کہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۳

جس سے کلام کا لطف دوچند ہو جاتا تھا، شعر کو اس طرح ادا کرتے تھے کہ خود مضمون کی صورت بن جاتے تھے۔ اور لوگ بھی نقل اتارتے تھے۔ مگر وہ بات کہاں، آواز درد ناک تھی۔ شعر نہایت نرمی اور سوز و گداز سے پڑھتے تھے، اور اس میں اعضاء سے بھی مدد لیتے تھے۔ مثلاً شمع کا مضمون باندھتے تو پڑھتے وقت ایک ہاتھ سے شمع اور دوسرے کی اوٹ سے وہیں فانوس تیار کر کے بتاتے۔ بے دماغی یا ناراضی کا مضمون ہوتا تو خود بھی تیوری چڑھا کر وہیں بگڑ جاتے اور تم بھی خیال کر کے دیکھ لو، ان کے اشعار اپنے پڑھنے کے لئے ضرور حرکات و انداز کے طالب ہیں۔ چنانچہ یہ قطعہ بھی ایک خاص موقعہ پر ہوا تھا، اور عجیب انداز سے پڑھا گیا :

گئے گھر سے جو ہم اپنے سویرے
سلام اللہ خانصاب کے ڈیرے

وہاں دیکھے کئے طفلِ پریرد
ارے رے رے ارے رے رے ارے رے​

چوتھا مصرع پڑھتے پڑھتے وہیں زمین پر گر پڑے۔ گویا پریزادوں کو دیکھتے ہی دل بے قابو ہو گیا اور ایسے ہی نڈھال ہوئے کہ ارے رے رے کہتے کہتے غش کھا کر بے ہوش ہو گئے۔

ایک غزل میں قطعہ اس انداز سے سنایا تھا کہ سارے مشاعرہ کے لوگ گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے :

او مارِ سیاہ زلف سچ کہہ
بتلا دے دل جہاں چُھپا ہو

کنڈلی تلے دیکھیو نہ ہووے
کاٹا نہ ہفی؟ ترا بُرا ہو​

پہلے مصرع پر ڈرتے ڈرتے، بچکر جھکے، گویا کنڈلی تلے دیکھنے کو جھکے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۴

ہیں، اور جس وقت کہا، کاٹا نہ ہفی۔ بس دفعتہً ہاتھ کو چھاتی تلے مسوس کر، ایسے بے اختیار لوٹ گئے کہ لوگ گھبرا کر سنبھالنے کو کھڑے ہو گئے۔ (صحیح افعی ہے۔ محاورہ میں ہفی کہتے ہیں)۔

نوازش ان کے شاگرد کا نام ہم لڑکپن میں سُنا کرتے تھے اور کچھ کہتے تھے تو وہی اس انداز میں کہتے تھے۔ مرزا رجب علی سرور صاحب فسانہ عجائب ان کے شاگرد تھے۔

مطلع سرِ دیوان

سرِ دیوان پر اپنے جو بسم اللہ میں لکھتا
بجائے مدِ بسم اللہ مدِ آہ میں لکھتا

محو کو تیرے نہیں ہے کچھ خیال خوب و زشت
ایک ہے اسکو ہوائے دوزخ و باغ بہشت

حاجیو! طوفِ دل مستاں کرو تو کچھ ملے
ورنہ کعبہ میں دھرا کیا ہے بغیر از سنگ و خشت

ناصحا گر یار ہے ہم سے خفا تو تجھ کو کیا
چین پیشانی ہی ہے اسکی ہماری سرنوشت

سوزؔ نے دامن جو ہیں پکڑا تو ووہیں چھین کر
کہنے لاگا، ان دنوں کچھ زور چل نکلا ہے ہشت
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

بھلہ رہے عشق تیری شوکت و شان
بھائی میرے تو اڑ گئے اوسان

ایک ڈر تھا کہ جی بچے نہ بچے
دوسرے غم نے کھائی میری جان

بس غم یار ایک دن دو دن
اس سے زیادہ نہ ہو جیو مہمان

نہ کہ بیٹھے ہو پاؤں پھیلا کر
اپنے گھر جاؤ خانہ آبادان
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۵

عارضی حُسن پر نہ ہو مغرور
میرے پیارے یہ گو ہے یہ میداں

پھرہے نے زلف و خال زیر زلف
چارون تو بھی کھیل لے چوگاں

اور تو اور کہہ کے دو (۲) باتیں
سوز کہلایا صاحب دیوان
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

مرا جان جاتا ہے یارو بچا لو
کلیجہ میں کانٹا گڑا ہے نکالو

نہ بھائی، مجھے زندگانی نہ بھائی
مجھے مار ڈالو، مجھے مار ڈالو

خدا کے لئے میرے وے ہمنشینو
وہ بانکا جو جاتا ہے اس کو بلا لو

اگر وہ خفا ہو کے کچھ گالیاں دے
تو دم کھا رہو کچھ نہ بولو نہ چالو

نہ آوے اگر وہ امھارے کہے سے
تو منت کرو دھیرے دھیرے منا لو

کہو ایک بندہ تمھارا مرے ہے
اسے جان کندن سے چل کر بچا لو

جلوں کی بُری آہ ہوتی ہے پیارے
تم اس سوز کی اپنے حق میں دعا لو
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

ہواؤں کو میں کہتا کہتا دِوانا
پر اس بے خبر نے کہا کچھ نہ مانا

کوئی دم تو بیٹھے رہو پاس میرے
میاں میں بھی چلتا ہوں ٹک رہ کے جانا

مجھے تو تمھاری خوشی چاہیئے ہے
تمھیں گو ہو منظور میرا کڑھانا

گیا ایک دن اس کے کوچے میں ناگاہ

لگا کہنے چل بھاگ رے پھر نہ آنا

کہاں ڈھونڈوں ہے ہے کدھر جاؤں یا رب
کہیں جاں کا پاتا نہیں ہوں ٹھکانا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

کہوں کس سے حکایت آشنا کی
سنو صاحب یہ باتیں ہیں خدا کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ۲۴۶

دُعا دی تو لگا کہنے کہ در ہو
سُنی میں نے دُعا تیری دعا کی

کہا میں نے کہ کچھ خاطر میں ہو گا
تمھارے ساتھ جو میں نے وفا کی

گریباں میں ذرا منھ ڈال دیکھیو
کہ تم نے اس وفا پر ہم سے کیا کی

تو کہتا ہے کہ بس بس جونچ کر بند
وفا لایا ہے، دت تیری وفا کی

عدم سے زندگی لائی تھی بہلا
کہ دنیا جائے ہے اچھی فضا کی

جنازہ دیکھتے ہی سُن ہوا دل
کہ ہے ظالم! دغا کی رے دغا کی

تجھے اے سوزؔ کیا مشکل بنی ہے
جو ڈھونڈھے ہے سفارش اغنیا کی

کوئی مشکل نہیں رہتی ہے مشکل
محبت ہے اگر مشکل کُشا کی
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

دل کے ہاتھوں بہت خراب ہوا
جل گیا مل گیا کباب ہوا

اشک آنکھوں سے پل نہیں تھمتا
کیا بلا دل ہے دل میں آب ہوا

جن کو نت دیکھتے تھے اب ان کو
دیکھنا بھی خیال و خواب ہوا

یار اغیار ہو گیا ہیہات
کیا زمانے کا انقلاب ہوا

سارا دیوانِ زندگی دیکھا
ایک مصرعہ نہ انتخاب ہوا

سوزؔ بے ہوش گیا جب سے
تیری صحبت سے باریاب ہوا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

عاشق ہوا، اسیر ہوا مبتلا ہوا
کیا جانئے کہ دیکھتے ہی دل کو کیا ہوا

سر مشق ظلم تو نے کیا مجھ کو واہ واہ
تقصیر یہ ہوئی کہ ترا آشنا ہوا

دل تھا بساط میں سو کوئی اسکو لے گیا
اب کیا کروں گا اے میرے اللہ کیا ہوا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۷

پاتا نہیں سراغ کروں کس طرف تلاش
دیوانہ دل کدھر کو گیا آہ کیا ہوا

سنتے ہی سوز کی خبر مرگ خوش ہوا
کہنے لگا کہ پنڈ تو چھوٹا بھلا ہوا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

آج اس راہ سے دل رُبا گذرا
جی پہ کیا جانیے کہ کیا گذرا

آہ ظالم نے کچھ نہ مانی بات
میں تو اپنا سا جی چلا گذرا

اب تو آیاز بس خدا کو مان
پچھلا شکوہ تھا سو گیا گذرا

رات کو نیند ہے نہ دن کو چین
ایسے جینے سے اے خدا گذرا

سوزؔ کے قتل پر کمر مت باندھ
ایسا جانا ہے کیا گیا گذرا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

یار گر صاحبِ وفا ہوتا
کیوں میاں جان! کیا مزا ہوتا

ضبط سےمیرے تھم رہا ہے سر شک
ورنہ اب تک تو بہہ گیا ہوتا

جان کے کیا کروں بیان احسان
یہ نہ ہوتا تو مر گیا ہوتا

روٹھنا تب تجھے مناسب تھا
جو تجھے میں نے کچھ کہا ہوتا

ہاں میاں! جانتا تو میری قدر
جو کہیں تیرا دل لگا ہوتا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

بلبل کہیں نہ جائیو زنہار دیکھنا
اپنے ہی من میں پھولے گی گلزار دیکھنا

نازک ہے دل نہ ٹھیس لگانا اسے کہیں
غم سے بھرا ہے اے مرے غمخوار دیکھنا

شکوہ عبث ہے یار کے جوروں کا ہر گھڑی
غیروں کے ساتھ شوق سے دیدار دیکھنا

سوداؔ کی بات بھول گئی سُوز تجھ کو حیف
جو کچھ خدا دکھا دے سو لاچار دیکھنا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۸

کچھ کہا تو قاصد آتا ہے وہ ماہ
اَلحَمدُ للہ اَلحَمدُ للہ

جھوٹے کے منہ میں آگے کہوں کیا
استغفر اللہ استغفر اللہ

یار آتا ہے ترے یار کی ایسی تیسی
آزماتا ہے ترے پیار کی ایسی تیسی
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

میر محمد تقی میرؔ

میر تخلص محمد تقی نام خلف میر عبد اللہ شرفائے اکبر آباد سے تھے۔ سراج الدین علی خاں آرزو، زبان فارسی کے معتبر مصنف اور مسلم الثبوت محقق ہندوستان میں تھے۔ گلزار ابراہیمی میں لکھا ہے کہ "میر صاحب کا ان سے دور کا رشتہ تھا اور تربیت کی نظر پائی تھی۔ عوام میں ان کے بھانجے مشہور ہیں۔ درحقیقت بیٹے میر عبد اللہ کے تھے۔ مگر ان کی پہلی بیوی سے تھے۔ وہ مر گئیں تو خان آرزو کی ہمشیرہ سے شادی کی تھی۔ اس لئے سوتیلے بھانجے ہوئے۔ میر صاحب کو ابتدا سے شعر کا شوق تھا، باپ کے مرنے کے بعد دلی میں آئے اور خان آرزو کے پاس انھوں نے اور ان کی شاعری نے پرورش پائی۔ مگر خان صاحب حنفی مذہب تھے اور میر صاحب شیعہ، اس پر نازک مزاجی غضب کی۔ غرض کسی مسئلہ پر بگڑ کر الگ ہو گئے۔ بدنظر زمانہ کا دستور ہے کہ جب کسی نیک نام کے دامن شہرت کو ہوا میں اڑتے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۹

دیکھتا ہے تو ایک داغ لگا دیتا ہے۔ چنانچہ تذکرہ شورش میں لکھا ہے کہ خطاب سیادت انھیں شاعری کی درگاہ سے عطا ہوا ہے۔ کہن سال بزرگوں سے یہ بھی سُنا ہے کہ جب انھوں نے میر تخلص کیا تو ان کے والد نے منع کیا کہ ایسا نہ کرو۔ ایک دن خواہ مخواہ سید ہو جاؤ گے۔ اس وقت انھوں نے خیال نہ کیا۔ رفتہ رفتہ ہو ہی گئے۔ سوداؔ کا ایک قطعہ بھی سن رسیدہ لوگوں سے سُنا ہے۔ مگر کلیات میں نہیں۔ شاید اس میں بھی یہی اشارہ ہو :

بیٹھے تنور طبع کو جب گرم کر کے میرؔ
کچھ شیر مال سامنے کچھ نان کچھ پنیر​

اخیر میں کہتے ہیں :

میری کے ابتو سارے مصالح ہیں مستور
بٹیا تو گندنا بنے اور آپ کو تھ میرؔ​

پھر بھی اتنا کہنا واجب سمجھتا ہوں کہ ان کی مسکینی و غربت اور صبر و قناعت تقوی و طہارت محضر بنا کر ادائے شہادت کرتے ہیں کہ سیادت میں شبہ نہ کرنا چاہیے۔ اور زمانہ کا کیا ہے۔ کس کس کو کیا نہیں کہتا۔ اگر وہ سید نہ ہوتے تو خود کیوں کہتے :

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی​

غرض ہر چند کہ تخلص ان کا میر تھا۔ مگر گنجفہ سخن کی بازی میں آفتاب ہو کر چمکے۔ قدردانی نے ان کے کلام کو جوہر اور موتیوں کی نگاہوں سے دیکھا اور ناک کو پھولوں کی مہک بنا کر اڑایا۔ ہندوستان میں یہ بات انہی کو نصیب ہوئی ہے کہ مسافر غزلوں کو تحفہ کے طور پر شہر سے شہر کے جاتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۰

یہ بھی ظاہر ہے کہ نحوست اور فلاکت قدیم سے ابن کمال کے سر پر سایہ کئے ہیں۔ ساتھ اس کے میر صاحب کی بلند نظری اس غضب کی تھی کہ دُنیا کی کوئی بڑائی اور کسی کا کمال یا بزرگی انھیں بڑی دکھائی نہ دیتی تھی۔ اس قباحت نے نازک مزاج بنا کر ہمیشہ دنیا کی راحت اور فارض البالی سے محروم رکھا، اور وہ وضعداری اور قناعت کے دھوکے میں اسے فخر سمجھتے رہے۔ یہ الفاظ گستاخانہ جو زبان سے نکلے ہیں، راقم رُو سیاہ ان کی روح پاک سے عفو قصور چاہتا ہے، لیکن خدا گواہ ہے کہ جو کچھ لکھا گیا فقط اس لئے ہے کہ جن لوگوں کو دنیا میں گذارہ کرنا ہے وہ دیکھیں کہ ایک صاحب جوہر کا جوہر یہ باتیں کیوں کر خاک میں ملا دیتی ہیں، چنانچہ انہی کے حالات و مقالات اس بیان کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ دلی میں شاہ عالم کا دربار اور امراء و شرفاء کی محفلوں میں ادب ہر وقت ان کے لئے جگہ خالی کرتا تھا، اور ان کے جوہر کمال اور نیکی اطوار و اعمال کے سبب سے سب عظمت کرتے تھے۔ مگر خالی آدابوں سے خاندان تو نہیں پل سکتے، اور وہاں تو خود خزانہ سلطنت خالی پڑا تھا۔ اس لئے ۱۱۹۰ء میں دلی چھوڑنی پڑی۔

جب لکھنؤ چلے تو ساری گاڑی کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہو گئے تو دلی کو خدا حافظ کہا، تھوڑی دور آگے چل کر اس شخص نے کچھ بات کی، یہ اس کی طرف سے منھ پھیر کر ہو بیٹھے، کچھ دیر کے بعد پھر اس نے بات کی، میر صاحب چیں بہ چیں ہو کر بولے کہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۱

صاحب قبلہ آپ نے کرایہ دیا ہے، بیشک گاڑی میں بیٹھے، مگر باتوں سے کیا تعلق؟ اس نے کہا، حضرت کیا مضائقہ ہے، راہ کا شغل ہے باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔ میر صاحب بگڑ کر بولے۔ کہ خیر آپ کا شغل ہے، میری زبان خراب ہوتی ہے۔

لکھنؤ میں پہنچ کر جیسا مسافروں کا دستور ہے ایک سرا میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے۔ رہ نہ سکے، اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرہ میں جا کر شامل ہوئے۔ ان کی وضع قدیمانہ، کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا پاجامہ، ایک پورا تھان پستولئے کا کمر سے بندھا، ایک رومال پڑی دار تہ کیا ہوا، اس میں آویزاں، مشروع کا پاجامہ جس کی عرض کے پائیچے، ناگ پھنی کی انی دار جوتی، جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار ہاتھ میں جریب، غرض جب داخل محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنؤ نئے انداز نئی تراشیں، بانکے ٹیڑھے جوان جمع۔ انھیں دیکھ کے سب ہنسنے لگے۔ میر صاحب بیچارے غریب الوطن، زمانہ کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ تھے۔ اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ شمع ان کے سامنے آئی تو پھر سب کی نظر پڑی اور بعض اشخاص نے پوچھا کہ حضور کا وطن کہا ہے، میر صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ غزل طرحی میں داخل یا :

کیا بودو باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۲

دلی جو ایک شہر تھا عالم انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اُسی اجڑے دیار کے​

سب کو حال معلوم ہوا۔ بہت معذرت کی اور میر صاحب سے عفو تقصیر چاہی۔ کمال کے طالب تھے۔ صبح ہوتے ہوتے شہر میں مشہور ہو گیا کہ میر صاحب تشریف لائے۔ رفتہ رفتہ نواب آصف الدولہ مرحوم نے سنا اور دو سو روپیہ مہینہ مقرر کر دیا۔

عظمت و اعزاز جو ہر کمال کے خادم ہیں۔ اگرچہ انھوں نے لکھنؤ میں بھی میر صاحب کا ساتھ نہیں چھوڑا، مگر انھوں نے بددماغی اور نازک مزاجی کو جو ان کے ذاتی مصاحت تھے اپنے دم کے ساتھ ہی رکھا۔ چنانچہ کبھی کبھی نواب کی ملازمت میں جاتے تھے۔

ایک دن نواب مرحوم نے غزل کی فرمائش کی۔ دوسرے تیسرے دن جو پھر گئے تو پوچھا کہ میر صاحب! ہماری غزل لائے؟ میر صاحب نے تیوری بدل کر کہا۔ جناب عالی! مضمون غلام می جیب میں تو بھرے ہیں نہیں کہ کل آپ نے فرمائش کی، آج غزل حاضر کر دے۔اس فرشتہ خصال نے کہا، خیر میر صاحب جب طبیعت حاضر ہو گی کہہ دیجیئے گا۔

ایک دن نواب نے بُلا بھیجا۔ جب پہنچے تو دیکھا کہ نواب حوض کے کنارے کھڑے ہیں۔ ہاتھ میں چھڑی ہے۔ پانی میں لال سبز مچھلیاں تیرتی پھرتی ہیں۔ آپ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ میر صاحب کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ میر صاحب کچھ فرمائیے۔ میر صاحب نے غزل سنانی شروع کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۳

نواب صاحب سنتے جاتے تھے اور چھڑی کے ساتھ مچھلیوں سے بھی کھیلتے جاتے تھے۔ میر صاحب چیں بہ چیں ہوتے اور ہر شعر پر ٹھہر جاتے تھے، نواب صاحب کہے جاتے تھے کہ ہاں پڑھیئے، آخر چار شعر پڑھ کر میر صاحب ٹھہر گئے اور بولے کہ پڑھوں کیا، آپ مچھلیوں سے کھیلتے ہیں، متوجہ ہوں تو پڑھوں۔ نواب صاحب نے کہا جو شعر ہو گا، آپ متوجہ کر لے گا۔ میر صاحب کو یہ بات زیادہ ناگوار گزری، غزل جیب میں ڈال کر گھر کو چلے آئے اور پھر جانا چھوڑ دیا۔ چند روز کے بعد ایک دن بازار میں چلے جاتے تھے، نواب کی سواری سامنے سے آ گئی۔ دیکھتے ہی نہایت محبت سے بولے کہ میر صاحب آپ نے بالکل ہی ہمیں چھوڑ دیا، کبھی تشریف بھی نہیں لاتے۔ میر صاحب نے کہا، بازار میں باتیں کرنا آداب شرفاء نہیں۔ یہ کیا گفتگو کا موقع ہے۔ غرض بدستور اپنے گھر میں بیٹھے اور فقر و فاقہ میں گذارتے رہے۔ آخر ۱۳۲۵ھ میں فوت ہوئے اور سو برس کی عمر پائی۔ ناسخؔ نے تاریخ کہی کہ :

واویلا مرشہ شاعراں​

تصنیفات کی تفصیل یہ ہے کہ چھ دیوان غزلوں کے ہیں، چند صفحے ہیں جن میں فارسی کے عمدہ متفرق شعروں پر اردو مصرع لگا کر مثلثؔ اور مربعؔ کیا ہے اور یہ ایجاد ان کا ہے۔ رباعیاں، مشتزاد، چند صفحے ۴ قصیدے منقبت میں اور ایک نواب آصف الدولہ کی تعریف میں، چند مخمس اور ترجیع بند مناقب میں، چند مخمس شکایت زمانہ میں جن سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۴

بعض اشخاص کی ہجو مطلوب ہے۔ دو واسوکت، ایک ہفت بند ملا حسن کاشی کی طرف پر حضرت شاہِ ولایت کی شان میں ہے۔ بہت سی مثنویاں جنکی تفصیل عنقریب واضح ہوتی ہے۔ تذکرہ نکات الشعراء شاعران اردو کے حال کا کہ اب بہت کمیاب ہے۔ ایک رسالہ مسمٰے فیض میر مصحفیؔ اپنے تذکرہ فارسی میں لکھتے ہیں "دعوےٰ شعر فارسی نہ دارد، مگر فارسیش ہم کم از ریختہ نیست مے گفت کہ سالے ریختہ موقوف کردہ بودم، درآں حال دو ہزار شعر گرفتہ تدوین کردم۔

معلوم ہوتا ہے کہ میر صاحب کو تاریخ گوئی کا شوق نہ تھا۔ علیٰ ہذالقیاس مرثیہ بھی دیوان میں نہیں۔ غزلوں کے دیوان اگرچہ رطب ویابس سے بھرے ہوئے ہیں، مگر جو ان میں انتخاب ہیں وہ فصاحت کے عالم میں انتخاب ہیں۔ اُردو زبان کے جوہری قدیم سے کہتے آئے ہیں کہ ستر (۷۰) اور دو بہتر (۷۲) نشتر باقی میر صاحب کا تبرک ہے، لیکن یہ بہتر (۷۲) کی رقم فرضی ہے۔ کیوں کہ جب کوئی تڑپتا ہوا شعر پڑھا جاتا ہے تو ہر سخن شناس سے مبالغہ تعریف میں یہی سُنا جاتا ہے کہ دیکھئے یہ انھیں بہتر نشتروں میں ہے۔ انھوں نے زبان اور خیالات میں جس قدر فصاحت اور صفائی پیدا کی ہے۔ اتنا ہی بلاغت کو کم کیا ہے، یہی سبب ہے کہ غزل اُصول غزلیت کے لحاظ سے سوداؔ سے بہتر ہے۔ ان کا صناف اور سلجھا ہوا کلام اپنی سادگی میں ایک انداز دکھاتا ہے اور فکر کو بجائے کاہش کے لذت بخشتا ہے۔ اسی واسطے خواص میں معزز اور عوام میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۵

ہر دل عزیز ہے۔ ھقیقت میں یہ انداز میر سوز سے لیا۔ مگر اُن کے ہاں فقط باتیں ہی باتیں تھیں۔ انھوں نے اس میں مضمون داخل کیا، اور گھریلو زبان کو متانت کا رنگ دے کر محفل کے قابل کیا۔

چونکہ مطالب کی دقت مجامین کی بلند پردازی، الفاظ کی شان و شکوہ بندش کی چُستی، لازمہ قصائد کا ہے، وہ طبیعت کی شگفتگی اور جوش و خروش کا ثمر ہوتا ہے۔ اسی واسطے میر صاحب کے قصیدے کم ہیں۔ اور اسی قدر درجہ میں میں بھی کم ہیں۔ انھوں نے طالبِ سخن پر روشن کر دیا ہے کہ قسیدہ اور غزل کے دو میدانوں میں دن اور رات کا فرق ہے۔ اور اسی منزل میں آ کر سوداؔ اور میرؔ کے کلام کا حال کُھلتا ہے۔

امراء کی تعریف میں قصیدہ نہ کہنے کا یہ بھی سبب تھا کہ توکل اور قناعت انھیں بندہ کی خوشامد کی اجازت نہ دیتے تھے یا خود پسندی اور خود بینی جو انہیں اپنے میں آپ غرق کئے دیتی تھی، وہ زبان سے کسی کی تعریف نکلنے نہ دیتی تھی، چنانچہ کہتے ہیں اور کیا خوب کہتے ہیں:

مجھ کو دماغِ وصف گل و یاسمن نہیں
میں جوں نسیم باد فروش چمن نہیں

کل جا کے ہم نے میرؔ کے در پر سُنا جواب
مُدت ہوئی کہ یاں وہ غریب الوطن نہیں​

چند مخمس شکایت زمانہ میں بطور آشوب کے کہے ہیں، اور ان میں بعض اشخاص کے نام بھی لئے ہیں۔ مگر ایسے کمزور کہے ہیں کہ گویا کچھ نہیں ہیں۔ یہ سمجھ لو کہ قسامِ ازل نے ان کے دسترخوان سے مدح اور قدح کے دو پیالے اٹھا کر سودا کے ہاں دھر دیئے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۶

واسوخت دو ہیں اور کچھ شک نہیں کہ لاجواب ہیں۔ اہل تحقیق نے فغانی یا وحشی کو فارسی میں اور اردو میں انھیں واسوخت کا موجد تسلیم کیا ہے۔ سینکڑوں شاعروں نے واسوخت کہے لیکن خاص خاص محاورں سے قطع نظر کریں تو آج تک اس کوچہ میں میر صاحب کے خیالات و انداز بیان کا جواب نہیں۔

مناقب میں جو مخمس اور ترجیع بند وغیرہ کہے ہیں، حقیقت میں حُسنِ اعتقاد کا حق ادا کر دیا ہے، وہ ان کے صدق دل کی گواہی دیتے ہیں۔

مثنویاں مختلف بحروں میں ہیں، اصول مثنوی کے ہیں، وہ میر صاحب کا قدرتی انداز واقع ہوا ہے۔ اس لئے بعض بعض لطف سے خالی نہیں۔ ان میں شعلہ عشق اور دریائے عشق نے اپنی کوبی کا انعام شہرت کے خزانہ سے پایا۔ مگر افسوس یہ کہ میر حسن مرحوم کی مثنوی سے دونوں پیچھے رہیں۔

جوشِ عشق میں لطافت و نزاکت کا جوش ہے۔ مگر مشہور نہ ہوئی۔ اعجاز عشق و خواب و خیال مختصر ہیں۔ اور اس رتبہ پر نہیں پہنچیں۔ معاملات عشق ان سے بڑی ہے، مگر رتبہ میں گھٹی ہوئی ہے۔

مثنوی شکار نامہ نواب آصف الدولہ کے شکار کا اور اس سفر کا مفصل حال لکھا ہے۔ اس میں جو متفرق غزلیں جا بجا لگائی ہیں وہ عجیب لطف دیتی ہیں۔

ساقی نامہ بہاریہ لکھا ہے۔ مگر اصلی درجہ لطافت و فصاحت پر ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۷

اس کے علاوہ بہت سی مختصر مختصر مثنویاں ہیں۔ ایک مثنوی اپنے مرغے کے مرثیہ میں لکھی ہے۔ فرماتے ہیں کہ میرا پیارا مرغا تھا، بڑا اصیل تھا، بہت خوب تھا۔ اس پر بلی نے حملہ کیا، مرغے نے بڑی دلاوری سے مقابلہ کیا اور اخیر کو مارا گیا۔ مثنوی تو جیسی ہے ویسی ہے، مگر ایک شعر اس کے وقت آخر کا نہیں بھولتا۔

جھکا بسوئے قدم سر خروس بیجاں کا
زمین پہ تاج گِرا ہُد ہُد سلیماں کا​

ایک مثنوی میں کہتے ہیں کہ میری ایک بلّی بھی، بڑی وفادار تھی۔ بڑی قانع تھی، اس کے بچے نہ جیتے تھے، ایک دفعہ ۵ بچے ہوئے۔ پانچوں جئے، تین بچے لوگ لے گئے۔ دو رہے، وہ دونوں مادہ تھے، ایک کا نام مونی رکھا، دوسرے کا نام مانی، مونی میرے ایک دوست کو پسند آئی، وہ لے گئے۔ مانی کے مزاج میں مسکینی اور غربت بہت تھی، اس لئے فقیر کی رفاقت نہ چھوڑی۔ اس کے بیان اور اور حالات کو بہت طور دیا ہے۔

ایک کتّا اور ایک بِلّا پالا تھا۔ اس کی ایک مثنوی لکھی ہے۔

ایک امیر کے ساتھ سفر میں میرٹھ تک گئے تھے۔ اس میں برسات کی تکلیف اور رستہ کی مصیبت بہت بیان کی ہے۔ اس سے یہ بھی قیاس کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہم وطن ہمیشہ سے سفر کو کیسی آفت سمجھتے ہیں۔

ایک بکری پالی۔ اس کے چار تھن تھے۔ بچہ ہوا تو دودھ ایک ہی تھن میں اُترا۔ وہ بھی اتنا تھا کہ بچہ کی پوری نہ پڑتی تھی۔ بازار کا دودھ پلا پلا کر پالا، پھر بچہ کی سرزدری اور سرشوری کی شکایت ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۸

ایک مصنوی آصف الدولہ مرحوم کی آرائش کتخدائی میں کہی ہے۔ ایک مختصر مثنوی جھوٹ کی طرف سے خطاب کر کے لکھی ہے اور اس کی بحر مثنوی کے معمولی بحروں سے علیٰحدہ ہے۔

مثنوی اژدر نامہ کہ اس کا حال آگے آتا ہے، یا اجگر نامہ۔

ایک مثنوی مختصر برسات کی شکایت میں لکھی ہے، گھر کا گرنا اور مینھ برستے میں گھر والوں کا نکلنا عجب طور سے بیان کیا ہے۔ اگر خیال کرو تو شاعر کی شورش طبع کے لیے یہ بھی موقع خوب تھا۔ مگر طبیعت مکان سے بھی پہلے گری ہوئی تھی۔ وہ یہاں بھی نہیں اُبھری، سودا ہوتے طوفان اٹھاتے۔

مثنوی تنبیہ الخیال اس میں فن شعر کی عزت و توقیر کو بہت سا طول دیکر کہا ہے۔ اس فن شریف کو شرفا اختیار کرتے تھے۔ اب پواج اور ارزال بھی شاعر ہو گئے۔ اس میں ایک بزاز لونڈے کو بہت خراب کیا ہے۔ اس کے علاوہ ککئی اور چھوٹی مثنویاں کہ چنداں ذکر کے قابل نہیں۔

نکات الشعراء شاعر کے لئے بہت مفید ہے۔ اس میں شعرائے اردو کی بہت سی باتیں اس زمانہ کے لوگوں کے دیکھنے کے قابل ہیں مگر وہاں بھی اپنا انداز قائم ہے۔ دیباچہ میں فرماتے ہیں کہ یہ اردو کا پہلا تذکرہ ہے (یہ بھی میر صاحب کا دعویٰ ہے ورنہ اس سے پہلے تذکرے مرتب ہو چکے ہیں)۔ اس میں ایک ہزار شاعروں کا حال لکھوں گا۔ مگر ان کو نہ لوں گا، جن کے کلام سے دماغ پریشان ہو۔ ان ہزار میں ایک بے چارہ بھی طعنوں اور ملامتوں سے نہیں بچا۔ ولی کہ بنی نوع شعراء کا آدم ہے۔ اس کے حق میں فرماتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۹

وے شاعر بست از شیطان مشہور تر میر خاں کمترین (کمترین تخلص میر خاں نام تھا۔ تخلص میں یہ نکتہ رکھا تھا کہ قوم کے افغان تھے۔ ترین فرقہ کا نام تھا، کمترین تخلص کیا تھا۔ بہت سن رسیدہ تھے۔ شاہ آبرو اور ناجی کے دیکھنے والوں میں تھے، مگر چوتھے طبقہ کے شاعروں میں موجود ہوتے تھے، پرانے سپاہی تھے، کچھ بہت علم بھی نہ تھا، طبقہ اول کے رنگ میں ایہام کے شعر کہتے تھے۔ خوش مزاج بھی تھے اور غصیل بھی تھے اور وقت پر جو سوجھ جاتی تھی اس میں چوکتے نہ تھے، صاف کہہ بیٹھتے تھے۔ کوئی ان کی زبان سے بچا نہیں مگر وہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ علماء شرفاء سب ہنستے تھے اور ہنس ہنس کر برداشت کرتے تھے۔ وضع بھی دنیا سے نرالی رکھتے تھے۔ ایک بڑی سی گھیر دار پگڑی سر پر باندھتے تھے، لمبا سا دوپٹہ بل دیکر کمر پر لپیٹتے تھے، ایک بلّم ہاتھ میں رکھتے تھے۔ ان دنوں ہر جمعہ کو سعد اللہ خاں کے چوک پر گدری لگتی تھی، وہاں جا کر کھڑے ہوتے تھے۔ لڑکے اور شوقین مزاج خاطر خواہ دام دیتے تھے اور ایک ایک پرچہ خوشی خوشی لے جاتے تھے۔) اسی زمانہ میں ایک قدیمی شاعر دلّی کے تھے۔ انھیں اس فقرہ پر بڑا غصہ آیا۔ ایک نظم یں اول بہت کچھ کہا۔ آخر میں آ کر کہتے ہیں :

مصرعہ : ولی پر جو سخن لائے اسے شیطان کہتے ہیں​

یہ تھی مختصر کیفیت میر صاحب کی تصنیفات کی۔ میر صاحب کی زبان شستہ کلام صاف بیان ایسا پاکیزہ جیسے باتیں کرتے ہیں۔ دل کے خیالات کو جو کہ سب کی طبیعتوں کے مطابق ہیں۔ محاورے کا رنگ دے کر باتوں باتوں میں ادا کر دیتے ہیں اور زبان میں خدا نے ایسی تاثیر دی ہے کہ وہی باتیں ایک مضمون بن جاتی ہیں۔ اسی واسطے ان میں بہ نسبت اور شعرا کے اصلیت کچھ زیادہ قائم
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۶۰

رہتی ہے۔ بلکہ اکثر جگہ یہی معلوم ہوتا ہے، گویا نیچر کی تصویر کھینچ رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ دلوں پر بھی اثر زیادہ کرتی ہیں۔ وہ گویا اردو کے سعدی ہیں، ہمارے عاشق مزاج شعرا کی رنگینیاں اور خیالات کی بلند پردازیاں، ان کے مبالغوں کے جوش و خروش سب مو معلوم ہیں، مگر اسے قسمت کا لکھا سمجھو کہ ان میں سے بھی میر صاحب کو شگفتگی یا بہار عیش و نشاط یا کامیابی وصال کا لطف کبھی نصیب نہ ہوا۔ وہی مصیبت اور قسمت کا غم جو ساتھ لائے تھے، اس کا دُکھڑا سناتے چلے گئے۔ جو آج تک دلوں میں اثر اور سینوں میں درد پیدا کرتے ہیں۔ کیونکہ ایسے مضامین اور شعراء کے لئے خیالی تھے، ان کے حالی تھے، عاشقانہ خیال بھی ناکامی زار حالی، حسرت، مایوسی، ہجر کے لباس میں خرچ ہوئے۔ ان کا کلام صاف کہے دیتا ہے کہ جس دل سے نکل کر آیا ہوں، وہ غم و درد کا پتلا نہیں حسرت و اندوہ کا جنازہ تھا۔ ہمیشہ وہی خیالات بسے رہتے تھے۔ بس جو دل پر گذرتے تھے، وہی زبان سے کہہ دیتے تھے کہ سننے والوں کے لئے نشتر کا کام کر جاتے تھے۔

ان کی غزلیں ہر بحر میں کہیں شربت اور کہیں شیر و شکر ہیں، مگر چھوٹی چھوٹی بحروں میں فقط آب حیات بہاتے ہیں۔ جو لفظ منہ سے نکلتا ہے، تاثیر میں ڈوبا ہوا نکلتا ہے۔مگر یہ بھی بزرگوں سے معلوم ہوا کہ مشاعرہ یا فرمائش کی غزلیں ایسی نہ ہوتی تھیں جیسی کہ اپنی طبع داد طرح میں ہوتی تھیں۔ میر صاحب نے اکثر فارسی کی ترکیبوں کو ان کے ترجموں کو اردو کی بنیاد میں ڈول کر ریختہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۶۱

کیا، دیکھو صفحہ ۶۰ – ۶۱ اور اکثر کو جوں کا توں رکھا۔ بہت ان میں سے پسند عام کے دربار میں رجسٹری ہوئیں اور بعض نامنظور معاصرین نے کہیں برتا، مگر بہت کم، چنانچہ فرماتے ہیں :

ہنگامہ گرم کن جو دلِ ناصبُور تھا
پیدا ہر ایک نالہ سے شورِ نشور تھا

یہ چشم شوق طرفہ جگہ ہے دکھاؤ کی
ٹھہرو بقدر یک مژہ تم اس مکان میں

کیا کہئے حسن عشق کے آپ ہی طرف ہوا
دل نام قطرہ خون یہ ناحق تلف ہوا

دل کہ یک قطرہ خون نہیں ہے بیش
ایک عالم کے سَر بَلا لایا

ہر دم طرف ہے دل سے مزاج کرخت کا
ٹکڑا مرا جگر ہے کہو سنگ سخت (*) کا
(*) فارسی کا محاورہ ہے تو گوئی جگرم پارہ سنگ سخت است

اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا
اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا

اپنے ہی دل کو نہ ہو واشد تو کیا حاصل نسیم
گو چمن میں غنچہ پژمردہ تجھ سے کھل گیا

خواہے پیالہ خواہ سبو کر ہمیں کلال
ہم اپنی خاک پر تجھے مختار کر چلے

یادِ ایام کہ یاں ترک شکیبائی تھا
ہر گلی کوچہ مجھے کوچہ رسوائی تھا

اے تو کہ یہاں سے عاقبت کار جائیگا
یہ قافلہ رہے گا نہ زنہار جائیگا​

اس کے علاوہ فارسی کے بعض محاوروں اور اس کی خاص خاص رسموں کا اشارہ بھی کر جاتے تھے کہ انھیں بھی پھر کسی نے پسند نہیں کیا۔ چنانچہ دیوانہ کو پُھول کی چھڑیاں مارنے کا ٹوٹکا انھوں نے بھی کیا ہے اور داغِ جنوں بھی دیا ہے (دیکھو صفحہ ۵۹)۔

جاتی ہے نظر حُسن پہ گہ چشم پریدن
یاں ہم نے پرکاہ بھی بیکار نہ دیکھا​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top