آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۲

میانہ قد، رنگ گورا۔

دیوان : دیوان اب تک نظر سے نہیں گذرا، جس پر کچھ رائے ظاہر کی جائے۔ خواص میں جو کچھ شہرت ہے، ان ہجوؤں کی بدولت ہے جو سوداؔ نے ان کے حق میں کہیں۔ سلطنت کی تباہی نے ان سے بھی دلی چھڑوائی اور فیض آباد کو آباد کیا۔

سوداؔ نے جو ان کے حق میں گستاخی کی ہے۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ اول کسی موقع پر انھوں نے سودا کے حق میں کچھ فرمایا، سوداؔ ان کے پاس گئے اور کہا کہ اپ بزرگ میں خورد، آپ سید، میں آپ کے جد کا غلام، عاصی اس قابل نہیں کہ آپ اس کے حق میں کچھ ارشاد فرمائیں، ایسا نہ کیجیے کہ مجھ گنہگار کے منہ سے کچھ نکل جائے۔ اور قیامت کے دن آپ کے جد کے سامنے روسیاہ ہوں۔ تلامیذ الہٰی کے دماغ عالی ہوتے ہیں۔ ان کی زبان سے نکلا کہ نہیں بھئی یہ شاعری ہے، اس میں خوردی و بزرگی کیا، سودا آئیں تو کہا جائیں، پھر جو کچھ انھوں نے کہا، خدا نہ سنوائے، یہ بھی بزرگوں سے سُنا کہ مرزا نے جو کچھ ان کی جناب میں یاوہ گوئی کی ہے، میر موصوف نے اس سے زیادہ خراب و خوار کیا تھا۔ لیکن وہ کلام عجیب طرح سے فنا ہوا۔

میر حسن مرحوم ان کے صاحبزادے سودا کے شاگرد تھے۔ میر ضاحک کا انتقال ہوا تو سوداؔ فاتحہ کے لئے گئے اور دیوان اپنا ساتھ لیتے گئے۔ بعد رسم عزا پُرسی کے اپنی یاوہ گوئی پر جو کہ اس مرحوم کے حق میں کی تھی۔ بہت سے عذر ککئے اور کہا کہ سید مرحوم نے دنیا سے انتقال فرمایا، تم فرزند ہو جو کچھ اس روسیاہ سے گستاخی ہوئی معاف کرو۔ بعد اس کے نوکر سے دیوان منگا کر جو ہجوئیں ان کی کہی تھیں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۳

سب چاک کر ڈالیں۔ میر حسن نے بمقتضائے علو حوصلہ و سعادت مندی اسی وقت دیوان باپ کا گھر سے منگایا اور جو ہجوئیں ان کی تھیں وہ پھاڑ ڈالیں۔ لیکن چونکہ سودا کی تصنیف قلم سے نکلتے ہی بچہ بچہ کی زبان پر پھیل جاتی تھی، اس لئے سب قائم رہیں۔ ان کا کلام کہ اسی مجلد کے اندر تھا مفقود ہو گیا۔ سودا کے دیوان میں میر ضاحک مرحوم کی یہ ہجو جب دیکھتا تھا :

مصرعہ : یا رب یہ دعا مانگتا ہے تجھ سے سکندر​

تو حیران ہوتا تھا کہ سکندر کا یہاں کیا کام؟ میر مہدی حسن فراغؔ کو خدا مغفرت کرے (میر مہدی حسن فراغؔ ایک کہن سال شخص سید انشاء کے خاندان سے تھے۔ میاں بیتاب کے شاگرد تھے۔ فارسی کی استعداد اچھی تھی اور اردو شعر بھی کہتے تھے اور رموز سخن کے ماہر تھے۔ ناسخ و آتش کے مشاعرے اچھی طرح دیکھے تھے اور عملائے لکھنؤ کی صحبتوں میں بیٹھے تھے۔ انکے بزرگ اور وہ ہمیشہ سرکاروں میں داروغہ رہے تھے اس لئے قدیمی حالات اور خاندانی معاملات سے واقف تھے۔ بادشاہ بیگم یعنی نصیر الدین حیدر کی والدہ اور ثریا جاہ چندی گڈھ میں تھے۔ جب ھی یہ اور انکے بھائی انکے ہاں داروغہ تھے اور مرزا سکندر شکوہ کی سرکار میں بھی داروغہ رہے تھے، میاں بحر کے قدیمی دوست اور ہم مشق تھے۔) انھوں نے بیان کیا کہ ایک دن حسب معمول مرزا سلیمان شکوہ کے ہاں پائیں باغ میں تخت بچھے تھے، صاحب عالم خود مسند پر بیٹھے تھے، شرفاء و شعراء کا مجمع تھا۔ مرزا رفیع اور میاں سکندر مرثیہ گو بھی موجود تھے کہ مرزا صاحب تشریف لائے۔ ان کی پرانی وضع اور لباس پر کہ ان دنوں بھی انگشت نما تھی، صاحب عالم مسکرائے، میر صاحب آ کر بیٹھے، مزاج پرسی ہوئی۔ حقہ سامنے آیا۔ اتفاقاً صاحب عالم
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۴

نے مرزا رفیع سے کہا کہ کچھ ارشاد فرمائیے (دونوں صاحبوں کے معاملات تو انھیں معلوم ہی تھے۔ خدا جانے چھیڑ منظور تھی (یا اتفاقاً زبان سے نکلا) سوداؔ نے کہا کہ میں نے تو ان دنوں میں کچھ کہا نہیں، میاں سکندر کی طرف اشارہ کیا کہ انھوں نے ایک مخمس کہا ہے، صاحب عالم نے فرمایا۔ کیا؟ سوداؔ نے پہلا ہی بند پڑھا تھا کہ میر ضاحکؔ مرحوم اٹھ کر میاں سکندر سے دست و گریبان ہو گئے۔ سکندر بچارے حیران کہ نہ واسطہ نہ سبب، یہ کیا آفت آ گئی۔ سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ دونوں صاحبان کو الگ کیا۔ اور سوداؔ کو دیکھیے تو کنارے کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ (یہ شان نزول ہے اس مخمس کی)۔

ہر چند چاہا کہ ان کے جلسے اور باہمی گفتگوؤں کے لطائف و ظرائف معلوم ہوں۔ کچھ نہ ہو تو چند غزلیں ہی پوری مل جائیں، کوئی کوشش کارگر نہ ہوئی۔ جب ان کے چراغ خاندان سید خورشید علی نفیس شواع توجہ سے دریغ فرمائیں تو غیروں سے کیا امید ہو۔ انھوں نے آزاد خاکسار کو آب حیات کی رو سے شاداب نہ کیا۔

تشنہ بودم زدم تیغ جو آبم دادند
دز جواب لب لعل تو جوابم دادند​

تاریخ وفات بھی نہ معلوم ہوئی۔ ممکن نہیں کہ باکمال صاحزادہ نے تاریخ نہ کہی ہو مگر آزاد کو کون بتائے۔ صاحب تذکرہ گلزار ابراہیمی ۱۱۹۶ھ میں کہتے ہیں کہ فیض آباد میں ہیں اور دارستگی سے گزران کرتے ہیں۔

جس تذکرہ میں دیکھا ایک ہی شعر ان کا درج پایا :

کیا دیجئے اصلاح خدائی کو وگرنہ
کافی تھا ترا حُسن اگر ماہ نہ ہوتا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۵

خواجہ میر دردؔ

درد تخلص خواجہ میر نام، زبان اُردو کے چار رکنوں میں سے ایک رکن (دیکھو صفحہ ۱۵۹) یہ ہیں۔ سلسلہ مادری ان کا خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی سےملتا ہے۔ خواجہ محمد ناصر عندلیب تخلص ان کے باپ تھے۔ اور شاہ گلشن صاحب سے نسبت ارادت رکھتے تھے۔ خاندان ان کا دلی میں بباعث پیری و مریدی کے نہایت معزز اور معظم تھا۔ علوم رسمی سے آگاہ تھے۔ کئی مہینے دولت صاحب سے مثنوی کا درس حاصل کیا تھا۔ ملک کی بربادی، سلطنت کی تباہی آئے دن کی غارت و تاراج کے سبب سے اکثر امراء وہ شرفاء کے گھرانے شہر چھوڑ چھوڑ کر نکل گئے۔ ان کے پائے استقلال کو جنبش نہ آئی۔ اپنے اللہ پر توکل رکھا اور جو سجادہ بزرگوں نے بچھایا اسی پر بیٹھے رہے۔ جیسی نیت ویسی برکت۔ خدا نے بھی نباہ دیا۔ دیوان اُردو مختصر ہے۔ سوا غزلیات اور ترجیع بند اور رباعیوں کے اور کچھ نہیں۔ قصائد و مثنوی وغیرہ کہ عادت شعراء کی ہے انھوں نے نہیں لکھے۔ باوجود اس کے سوداؔ، میر تقی کی کچھ غزلوں پر جا غزلیں لکھی ہیں، ہر گز ان سے کم نہیں۔ ایک مختصر دیوان غزلیات فارسی کا بھی ہے۔ تصنیف کا شوق ان کی طبیعت میں خداداد تھا۔ چنانچہ اول پندرہ برس کی عمر میں بحالت اعتکاف رسالہ اسرار الصلوٰٰۃ لکھا۔ اُنتیس برس کی عمر میں واردات درد نام ایک
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۶

اردو رسالہ اور اس کی شرح میں علم الکتاب ایک بڑا نسخہ تحریر کیا کہ اس میں ایک سو گیارہ رسالے ہیں۔ نالہ درد، آہ سرد، درد دل، سوز دل، شمع محفل وغیرہ جنھیں شائق تصوف نظر عظمت سے دیکھتے ہیں۔ اور واقعات درد اور ایک رسالہ حرمتِ غنا میں ان سے یادگار ہے، چونکہ اس زمانے کے خاندانی خصوص اہل تصوف کو شاعری واجب تھی، اس واسطے ان کے والد بھی ایک دیوان مختصر مع اس کی شرح کے اور ایک رسالہ نالہ عندلیب موجود ہے۔ ان کے بھائی میاں سید محمد میر اثرؔ تخلص کرتے تھے، وہ بھی صاحب دیوان تھے۔ بنکہ ایک مثنوی خواب و خیال ان کی مشہور ہے اور بہت اچھی لکھی ہے، خواجہ میرؔ درد صاحب کی غزل سات (۷) شعر نو (۹) شعر کی ہوتی ہے۔ مگر انتخاب ہوتی ہے، خصوصاً چھوٹی بحروں میں جو اکثر غزلیں کہتے تھے۔ گویا تلواروں کی آب داری نشتر میں بھر دیتے تھے۔ خیالات ان کے سنجیدہ اور متین تھے۔ کسی کی ہجو سے زبان آلودہ نہیں ہوئی، تصوف جیسا انھوں نے کہا، اُردو میں آج تک کسی سے نہیں ہوا۔ میر صاحب نے انھیں آدھا شاعر شمار کیا ہے (دیکھو صفحہ ۲۷۵)۔ ان کے عہد کی زبان سننی چاہو، تو دیوان کو دیکھ لو، جو میرؔ و مرزاؔ کی زبان ہے، وہی ان کی زبان ہے۔

زمانے کے کلام میں بموجب ان کے کلام میں بھی نتؔ یعنی ہمیشہ اور ٹکؔ یعنی ذرا تئیں بمعنی کو، اور یہاں تئیں یعنی یہاں تک اور مجھ ساتھ یعنی میرے ساتھاور ایدھرؔ، کیدھرؔ، جیدھرؔ، نہیں بہ حذف ہ وغیرہ الفاظ موجود ہیں۔ چنانچہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۷

اس دور کی تمہید میں میرؔ اور سوداؔ کے اشعار کے ساتھ کچھ اشعار ان کے بھی لکھے گئے ہیں۔ دو تین شعر نمونہ کے طور پر یہاں بھی لکھتا ہوں :

چلئے کہیں اس جاگہ کہ ہم تم ہوں اکیلے
گوشہ نہ ملے گا کوئی میدان ملے گا​

جاگہ کے علاوہ اکثر جگہ کی کے اور ہے وغیرہ دب دب کر نکلتے ہیں :

ایک لحظہ اور بھی وہ اڑاتا چمن کا دید
فرصت نہ دی زمانہ نے نے اتنی شرار کو​

اس سے اعتراض مقصود نہیں۔ وقت کی زبان یہی تھی۔ سید انشاء نے بھی لکھا ہے کہ خواجہ میر اثر مرحوم مثنوی میں ایک جگہ وسا بھی کہہ گئے ہیں اور بڑے بھائی صاحب تلوار کو نردار کہا کرتے تھے لیکن اس سے قطع نظر کر کے دیکھا جاتا ہے تو بعض الفاظ پر تعجب آتا ہے۔ چنانچہ خواجہ میر درد کی ایک پُر زور غزل کا مطلع ہے :

مدرسہ یا دیر تھا کعبہ یا بتخانہ تھا
ہم سبھی مہمان تھے تو آپھی صاحب خانہ تھا​

گویا بُت خانہ کثرتِ استعمال کے سبب سے ایک لفظ تصور کیا کہ دیر کے حکم میں ہو گیا۔ ورنہ ظاہر کہ یہ قافیہ صحیح نہیں۔ اگلے وقتوں کے لوگ خوش اعتقاد بہت ہوتے تھے۔ اسی واسطے جو لوگ اللہ کے نام پر توکل کر کے بیٹھ رہتے تھے، اِن کی سب سے اچھی گزر جاتی تھی، یہی سبب ہے کہ خواجہ صاحب کو نوکری یا دلی سے باہر جانے کی ضرورت نہ ہوئی۔ دربار شاہی سے بزرگوں کی جاگیریں چلی آتی تھیں۔ امیر غریب خدمت کو سعادت سمجھتے تھے۔ یہ بے فکر بیٹھے اللہ اللہ کرتے تھے۔ شاہ عالم بادشاہ نے خود ان کے ہاں آنا چاہا۔ اور انھوں نے قبول نہ کیا۔ مگر ماہ بماہ ایک معمولی جلسہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۸

اہل تصوف کا ہوتا تھا۔ اس میں بادشاہ بے اطلاع چلے آئے۔ اتفاقاً اس دن بادشاہ کے پاؤں میں درد تھا۔ اس لئے ذرا پاؤں پھیلا دیا۔ انھوں نے کہا، یہ فقیر کے آداب محفل کے خلاف ہے۔ بادشاہ نے عذر کیا کہ معاف کیجیے، عارضہ سے معذور ہوں۔ انھوں نے کہا کہ عارضہ تھا تو تکلیف کرنی کیا ضروری تھی۔

موسیقی میں اچھی مہارت تھی۔ بڑے بڑے باکمال گوئیے اپنی چیزیں بنظر اصلاح لا کر سنایا کرتے تھے۔ راگ ایک پُر تاثیر چیز ہے۔ فلاسفہ یونان اور حکمائے سلف نے اسے ایک شاخ ریاضی قرار دیا ہے۔ دل کو فرحت اور رُوح کو عروج دیتا ہے۔ اس واسطے اہلِ تصوف کے اکثر فرقوں نے اسے بھی عبادت میں شامل کیا ہے، چنانچہ معمول تھا، کہ ہر مہینے کی دوسری اور ۲۴ کو شہر کے بڑے بڑےکلاونت، ڈوم، گوئیے اور صاحب کمال اور اہل ذوق جمع ہوتے تھے اور معرفت کی چیزیں گاتے تھے۔ یہ دن ان کے کسی بزرک کی وفات کے ہیں، محرم غم کا مہینہ ہے۔ اس میں ۲ کو بجائے گانے کے مرثیہ خوانی ہوتی تھی۔ مولوی شاہ عبد العزیز صاحب کا گھرانا اور یہ خاندان ایک محلہ میں رہتے تھے، ان کے والد مرحوم کے زمانہ میں شاہ صاحب عالم طفولیت میں تھے۔ ایک دن اس جلسہ میں چلے گئے اور خواجہ صاحب کے پاس جا بیٹھے۔ ان کی مرید بہت سی کنچنیاں بھی تھیں اور چونکہ اس وقت رخصت ہوا چاہتی تھیں، اس لئے سب سامنے حاضر تھیں، باوجودیکہ مولوی صاحب اس وقت بچہ تھے، مگر ان کا تبسم اور طرزِ نظر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۹

کو دیکھ کر خواجہ صاحب اعتراض کو پا گئے۔ اور کہا کہ فقیر کے نزدیک تو یہ سب ماں بہنیں ہیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ ماں بہنوں کو عوام الناس میں کر بیٹھنا کیا مناسب ہے۔ خواجہ صاحب خاموش رہے۔

ان کے ہاں ایک صحبت خاص ہوتی تھی۔ اس میں خواجہ میر دردؔ صاحب نالہ عندلیبؔ یعنی اپنے والد کی تصنیفات اور اپنے کلام کچھ کچھ بیان کرتے تھے۔ ایک دن مرزا رفیع سے سر راہ ملاقات ہوئی۔ خواجہ صاحب نے تشریف لانے کے لئے فرمائش کی۔ مرزا نے کہا، صاحب مجھے یہ نہیں بھاتا کہ سو (۱۰۰) کوئے کائیں کائیں کریں اور بیچ میں ایک پدا بیٹھ کر چوں چُوں کرے۔ اُس زمانہ کے بزرگ ایسے صاحب کمالوں کی بات کا تحمل اور برداشت کرنا لازمہ بزرگی سمجھتے تھے۔ آپ مُسکرا کر چُپکے ہو رہے۔

مرزائے موصوف نے ایک قصیدہ نواب احمد علی خاں کی تعریف میں کہا ہے اور تمہید میں اکثر شعراء کا ذکر انھیں شوخیوں کے ساتھ کیا جو انکے معمولی اندزا ہیں۔ چنانچہ اسی ضمن میں کہتے ہیں :

دردؔ کس کس طرح بلاتے ہیں
کر کے آواز منحنی و حزیں

اور جو احمد ان کے سامع ہیں
دمبدم ان کو یوں کریں تحسیں

جیسے سُبحَان من پرانی پر
لڑکے مکتب کے سب کہیں آمین

کوئی پوچھے ذرا کہ عالم میں
فخر کس چیز کا ہے ان کے تئیں

شعر و تقطیع ان کے دیواں کی
جمع ہووے تو جیسے نقش نگیں​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۳۰

اس میں بھی دیکھئے تو آخر کار
یا توارد ہوا ہے یا تضمین

اتنی کچھ شاعری پر کرتے ہیں
میخ در ۔۔۔۔۔۔ آسماں و زمین​

خیر یہ شاعرانہ شوخیاں ہیں، ورنہ عام عظمت اُن کی جو عالم پر چھائی ہوئی تھی، اس کے اثر سے سوداؔ کا دل بھی بے اثر نہ تھا۔ چنانچہ کہا ہے :

سودا بدل کے قافیہ تو اس غزل کا لکھ
اے بے ادب تو درد سے بس دوبدو نہ ہو​

نقل : ایک شخص لکھنؤ سے دلی چلے، مرزا رفیع کے پاس گئے۔ اور کہا کہ دلی جاتا ہوں، کسی یار آشنا کو کچھ کہنا ہو تو کہہ دیجیے۔ مرزا بولے کہ بھائی میرا دلی میں کون ہے، ہاں خواجہ میر دردؔ کی طرف جا نکلو تو سلام کہہ دینا۔

ذرا خیال کر کے دیکھو مرزا رفیع جیسے شخص کو دلی بھر میں (دلی بھی اس زمانہ کی دلی) کوئی آدمی معلوم نہ ہوا، اِلا وہ کیا کیا جواہر تھے اور کیا کیا جوہری، سبحان اللہ۔ استاد نے کیا کیا موتی پروئے ہیں :

دکھلائے ہم نے آنکھ سے لیکر جو دُرِ اشک
قائل ہماری آنکھ کے سب جوہری ہوئے​

خواجہ صاحب کا ایک شعر ہے : لطیفہ :

بیگانہ گر نظر پڑے تو آشنا کو دیکھ
بندہ گر آئے سامنے تو بھی خدا کو دیکھ​

اِسی مضمون کا شعر فارسی کا ہے :

بسکہ در چشم و دلم ہر لحظہ اے یارم توئی
ہر کہ آید در نظر از دور پندارم توئی​

جب یہ شعر شاعر نے جلسہ میں پڑھا تو مُلا شیدا ایک شوخ طبع، دہن دریدہ شاعر تھے، انھوں نے کہا کہ اگر سگ در نظر آید۔ شاعر نے کہا، پندارم توئی، مگر انصاف شرط ہے، خواجہ صاحب نے اپنے شعر میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۳۱

اس پہلو کو خوب بچایا ہے۔

اے دردؔ یہ درد جی کا کھونا معلوم
جوں لالہ جگر سے داغ دھونا معلوم

گلزار جہاں ہزار پُھولے لیکن
میرے دل کا شگفتہ ہونا معلوم​

شاہ حاتم کی رباعی بھی اسی مضمون میں لاجواب ہے۔

ان سیم بروں کے ساتھ سونا معلوم
قِسمت میں لکھی ہے خاک سونا معلوم

حاتم افسوس ولے و امروز گذشت
فردا کی رہی امید سونا معلوم​

میر تقی اور سوداؔ اور مرزا جانجاناں مظہرؔ ان کے ہمعصر تھے۔ قیام الدین قائم ان کا وہ شاگرد تھا جس پر اُستاد کو فخر کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہدایت اللہ خاں ہدایتؔ، ثناء اللہ خاں فراقؔ وغیرہ بھی نام شاگرد تھے۔

خواجہ صاحب ۲۴ صفر یوم جمعہ ۱۱۹۹؁ھ ۶۸ برس کی عمر میں شہر دہلی میں فوت ہوئے۔ کسی مرید بااعتقاد نے تاریخ کہی۔

مصرعہ : حیف دُنیا سے سدھارا وہ خدا کا محبُوب

غزلیات

جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

جان سے ہو گئے بدن خالی
جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا

نالہ فریاد آہ اور زاری
آپ سے ہو سکا سو، کر دیکھا

اُن لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سو (۱۰۰) سو (۱۰۰) طرح سے مر دیکھا

زور عاشق مزاج ہے کوئی
دردؔ کو قصہ مختصر دیکھا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۳۲

ہم نے کِس رات نالہ سر نہ کیا
پر اُسے آہ کچھ اثر نہ کیا

سب کے یاں تم ہوئے کرم فرما
اس طرف کو کبھی گذر نہ کیا

دیکھنے کو رہے ترستے ہم
نہ کیا رحم تو نے پر نہ کیا

تجھ سے ظالم کے پاس میں آیا
جان کا میں نے کچھ خطر نہ کیا

کیوں بھویں تانتے ہو بندہ نواز
سینہ کس وقت میں سپر نہ کیا

کتنے بندوں کو جان سے کھویا
کچھ خدا کا بھی تو نے ڈر نہ کیا

آپ سے ہم گذر گئے کب کے
کیا ہے ظاہر میں گو سفر نہ کیا

کون سا دل ہے جس میں خانہ خراب
خانہ آباد تو نے گھر نہ کیا

سب کے جوہر نظر میں آئے دردؔ
بے ہنر تو نے کچھ ہنر نہ کیا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر ترے عہد کے آگے تو یہ دستور نہ تھا

رات مجلس میں ترے حُسن کے شعلہ کے حضور
شمع کے منھ پہ جو دیکھا تو کہیں نُور نہ تھا

ذکر میرا ہی وہ کرتا تھا صریحاً لیکن
میں نے پوچھا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا

باوجودیکہ پَر و بال نہ تھے آدم کے
وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا

پرورش غم کی ترے یہاں تئیں تو کی دیکھا
کوئی بھی داغ تھا سینہ میں کہ ناسور نہ تھا

محتسب آج تو میخانہ میں تیرے ہاتھوں
دل نہ تھا کوئی کہ شیشہ کی طرح چور نہ تھا

دردؔ کے ملنے سے اے یار برا کیوں مانے
اس کو کچھ اور سوا دید کے منظور نہ تھا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہو گا
کہ نہ ہنسنے میں رو دیا ہو گا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۳۳

اُس نے قصداً بھی میرے نالہ کو
نہ سُنا ہو گا، گر سُنا ہو گا

دیکھئے غم سے اب کے جی میرا
نہ بچے گا، بچے گا کیا ہو گا

دل زمانہ کے ہاتھ سے سالم
کوئی ہو گا کہ رہ گیا ہو گا

حال مجھ غمزدے کا جس تس نے
جب سُنا ہو گا رو دیا ہو گا

دل کے پھر زخم تازہ ہوتے ہیں
کہیں غنچہ کوئی کِھلا ہو گا

یک بیک نام لے اُٹھا میرا
جی میں کیا اُس کے آ گیا ہو گا

میرے نالوں پہ کوئی دنیا میں
بِن کئے آہ کم رہا ہو گا

لیکن اس کو اثر خدا جانے
نہ ہوا ہو گا، یا ہوا ہو گا

قتل سے میرے وہ جو باز رہا
کسی بدخواہ نے کہا ہو گا

دل بھی اے درد قطرہ خوں تھا
آنسوؤں میں کہیں گِرا ہو گا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

مرا جی ہے جب تک تری جستجو ہے
زباں جب تلک ہے یہی گفتگو ہے

خدا جانے کیا ہو گا انجام اس کا
میں بے صبر اتنا ہوں وہ تند خو ہے

تمنا ہے تیری اگر ہے تمنا
تری آرزو ہے اگر آرزو ہے

کیا سیر سب ہم نے گلزار دُنیا
گل دوستی میں عجب رنگ و بُو ہے

کسو کو کسو طرح عزت ہے جگ میں
مجھے اپنے رونے سے ہی آبرو ہے

غنیمت ہے یہ دید و ادید یاراں
جہاں مُند ہو گئی آنکھ میں ہوں نہ تو ہے

نظر میرے دل کی پڑی دردؔ کس پر
جدھر دیکھتا ہوں وہی روبرو ہے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۳۴

تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لئے آئے تھے سو ہم کر چلے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے اِدھر اُودھر چلے

دوستو دیکھا تماشا یاں کا بس
تم رہو اب ہم تو اپنے گھر چلے

آہ بس مت جی جلا تب جانئے
جب ترا افسوں کوئی اس پر چلے

شمع کی مانند ہم اس بزم میں
چشم تر آئے تھے دامن تر چلے

ڈھونڈھتے ہیں آپ سے اسکو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر باہر چلے

ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے
وہ ہی آڑے آ گیا جیدھر چلے

ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے
ساتھ اپنے آپ اُسے لیکر چلے

جوں شرر ہے ہستی بے بود یاں
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے

ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

ہے غلط گماں گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سِوا بھی جہان میں کچھ ہے

دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے

بے خبر تیغ یار کہتی ہے
باقی اس نیم جان میں کچھ ہے

اس دنوں کچھ عجب ہے دل کا حال
دیکھا کچھ ہے دھیان میں کچھ ہے

دردؔ تو جو کرے ہے جی کا زیاں
فائدہ اس زیان میں کچھ ہے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۳۵

گلیم بخت سیہ سیایہ دار رکھتے ہیں
یہی بساط میں ہم خاکسار رکھتے ہیں

بسانِ کاغذ آتش زدہ مرے گلرو
ترے جلے بُھنے اور ہی بہار رکھتے ہیں

یہ کس نے ہم سے کیا وعدہ ہم آغوشی
کہ مثلِ بحر سرا سرکنار رکھتے ہیں

ہمیشہ فتح نصیبی ہمیں نصیب رہی
جو کچھ کہ اپچی ہے جی میں سو مار رکھتے ہیں

بلا ہے نشہ دُنیا کہ تاقیامت آہ
سب اہل قبر اسی کا خمار رکھتے ہیں

جہاں کے باغ سے ہم دل سوا نہ پھل پایا
فقط یہی ثمر داغ دار رکھتے ہیں

اگرچہ دختر زر کے ہے محتسب در پے
جو ہو، سو ہو پر اسے اب تو باز رکھتے ہیں

ہر ایک شعلہ غمِ عشق ہم سے روشن ہے
کہ بے قراری کو ہم برقرار رکھتے ہیں

ہمارے پاس ہے کیا جو کریں فدا تجھ پر
مگر یہ زندگی مستعار رکھتے ہیں

فلک سمجھ تو سہی ہم سے اور گلو گیری
یہ ایک جیب ہے سو تار تار رکھتے ہیں

بتوں کے جور اُٹھائے ہزارہا ہم نے
جو اس پہ بھی نہ ملیں اختیار رکھتے ہیں

بھری ہے آ کے جنھوں نے ہوائے آزادی
حباب دار کُلہ بھی اتار رکھتے ہیں

نہ برق ہیں، نہ شرر ہم نہ شعلہ نے سیماب
وہ کچھ ہیں پر، کہ سدا اضطرار رکھتے ہیں

جنھوں کے دلمیں جگہ کی ہے نقش عبرت نے
سدا نظر میں وہ لوحِ مزار رکھتے ہیں

ہر ایک سنگ میں ہے شوخی بتاں پنہاں
خنک یہ سب ہیں پہ دلمیں شرار رکھتے ہیں

وہ زندگی کی طرح ایک دم نہیں رہتا
اگرچہ دردؔ اُسے ہم ہزار رکھتے ہیں
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

ہر ایک سنگ میں ہے شوخی بُتاں پنہاں
خنک یہ سب ہیں پہ دلمیں شرار رکھتے ہیں

وہ زندگی کی طرح ایک دم نہیں رہتا
اگرچہ دردؔ اُسے ہم ہزار رکھتے ہیں
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

پیدا کرے ہر چند تقدس بندہ
مشکل ہے کہ حرص سے ہو دل برکندہ

جنت میں بھی اکل و شرب سے نہیں (*) ہے نجات
دوزخ کا بہشت میں بھی ہو گا دھندہ

(*) رباعی کے تیسرے مصرع میں نہیں دب کر نکلتا ہے۔ اس عہد کے شعراء کا عام محاورہ ہے۔​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۳۶

سید محمد میر سوزؔ

سوز تخلص، سید محمد میر نام، وہی شخص ہیں جنھیں میر تقی (دیکھو صفحہ ۲۷۵، میر صاحب ملک سخن کے بادشاہ تھے۔ جن لفظوں میں چاہا کہہ دیا۔ مگر بات ٹھی ہے، دیوان دیکھ لو، وہی باتیں ہیں، باقی خیر و عافیت۔) نے پاؤ شاعر مانا ہے۔ پُرانی دلی میں قراول پورہ ایک محلہ تھا، وہاں رہتے تھے۔ مگر اصلی وطن بزرگوں کا بخارا تھا۔ باپ ان کے سید ضیاء الدین بہت بزرگ شخص تھے۔ تیر اندازی میں صاحب کمال مشہور تھے اور حضرت قطب عالم گجراتی کی اولاد میں تھے۔ سوز مرحوم پہلے میرؔ تخلص کرتے تھے۔ جب میر تقی میر کے تخلص سے عالمگیر ہوئے تو انھوں نے سوز اختیار کیا۔ چنانچہ ایک شعر میں دونوں تخلصوں کا اشارہ کرتے ہیں۔

کہتے تھے پہلے میر میر تب نہوئے ہزار حیف
اب جو کہے ہیں سوز سوز یعنی سدا جلا کرو​

جو کچھ حال ان کا بزرگوں سے سُنا یا تذکروں میں دیکھا۔ اس کی تصدیق ان کا کلام کرتا ہے یعنی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی طبع موزوں کے آئینہ کو جس طرح فصاحت نے صفائی سے جلا کی تھی اسی طرح ظرافت اور خوش بطعی نے اس میں جوہر پیدا کیا تھا۔ ساتھ اس کے جس قدر نیکی و نیک ذاتی نے عزت دی تھی اس سے زیادہ وسعتِ اخلاق اور شیریں کلامی نے ہردلعزیز کیا تھا اور خاکساری
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۳۷

کے سب جوہروں کو زیادہ تر چمکا دیا تھا۔ آزادگی کے ساتھ وضعداری بھی ضرور تھی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ باوجود مفلسی کے ہمیشہ مسندِ عزت پر صاحب تمکین اور امراء اور روساء کے پہلو نشین رہے اور اسی میں معشیت کا گذارہ تھا۔

شاہ عالم کے زمانہ میں جب اہل دہلی کی تباہی حد سے گذر گئی تو ۱۱۹۱ھ میں لباس فقیری اختیار کیا اور لکھنؤ چلے گئے۔ مگر وہاں سے ۱۲۱۲ھ میں ناکام مرشد آباد گئے۔ یہاں بھی نصیب نے یاوری نہ کی۔ پھر لکھنؤ میں آئے۔ اب قسمت رجوع ہوئی۔ اور نواب آصف الدولہ ان کے شاگرد ہوئے۔ چند روز آرام سے گذرے تھے کہ خود دُنیا سے گذر گئے۔ نواب کی غزلوں کو انہیں کا انداز ہے۔

صاحب تذکرہ گلزار ابراہیمی لکھتے ہیں۔ اب کہ ۱۱۹۶ھ میں میر موصوف لکھنؤ میں ہیں۔ اب تک ان سید والا تبار سے راقم آثم کی ملاقات نہیں ہوئی مگر اسی برس میں کچھ اپنے شعر اور چند فقرے نثر کے اس خاکسار کو بھیجے ہیں۔ میر سوز شخصے ست کہ ہیچکس را از حلاوتے جز سکوت و اکراہ حاصل نہ شود ایں نیز قدرت کمال الٰہی ست کہ ہریکے بلکہ خار و خسے نیست کہ بکار چند بیایدیں۔ اگر منکرے سوال کند کہ ناکارہ محض بیفتا داست۔ ج ۔۔۔ ایں کہ نامش سوختنی ست (دو تذکروں میں اس عبارت کو مطابق کیا۔ کوئی نسخہ مطلب خیز نہ نکلا۔ اس لئے جو کچھ ملا، سیدؔ موصوف کا تبرک سمجھ کر غنیمت جانا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۳۸

خط شفیعا اور نستعلیق خوب لکھتے تھے۔ ممالک ایران و خراساں وغیرہ میں قاعدہ ہے کہ جب شرفاء ضروریات سے فارغ ہوتے ہیں تو ہم لوگوں کی طرح خالی نہیں بیٹھتے۔ مشق خط کیا کرتے ہیں، اسی واسطے علی العموم اکثر خوشنویش ہوتے ہیں۔ پہلے یہاں بھی دستور تھا۔ اب خوشنویسی تو بالائے طاق بدنویسی پر بھی حرف آتا ہے۔

میر موصوف سواری میں شہسوار اور فنون سپہ گری میں ماہر خصوصاً تیر اندازی میں قد انداز تھے۔ ورزش کرتے تھے اور طاقت خدا داد بھی اس قدر تھی کہ ہر ایک شخص ان کی کمان کو چڑھا نہ سکتا تھا۔ غرض ۱۲۱۳ھ میں شہر لکھنو میں ۷۰ برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ ان کے بیٹے شاعر تھے اور باپ کے تخلص کی رعایت سے داغؔ تخلص کرتے تھے۔ جوانی میں اپنے مرنے کا داغ دیا۔ اور اس سے زیادہ افسوس یہ کہ کوئی غزل ان کی دستیاب نہ ہوئی۔

خود حسین بھے اور حسینوں کے دیکھنے والے تھے۔ آخر غمِ فراق میں جان دی۔ میر سوزؔ مرحوم کی زبان عجیب میٹھی زبان ہے اور حقیقت میں غزل کی جان ہے۔ چنانچہ غزلیں خود ہی کہے دیتی ہیں۔ ان کی انشاء پردازی کا حُسن، تکلف اور صناع مصنوعی سے بالکل پاک ہے۔ اس خوش نمائی کی ایسی مثال ہے جیسے ایک گلاب کا پھول ہری بھری ٹہنی پر کٹورا سا دھرا ہے اور سر سبز پتیوں میں اپنا اصلی جوبن دکھا رہا ہے۔ جن اہل نظر کو خدا نے نظر باز آنکھیں دی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک حُسنِ خدا داد کے سامنے ہزاروں بناوٹ کے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۳۹

بناؤ سنگار کر کے قربان ہوا کرتے ہیں، البتہ غزل میں دو تین شعر کے بعد ایک آدھ پرانا لفظ ضرور کھٹک جاتا ہے۔ خیر اس سے قطع نظر کرنی چاہیے۔

مصرعہ : فکر معقول بفرماگلِ بے خارکجاست​

غزل – لغت میں عورتوں سے باتیں چیتیں ہیں، اور اصطلاح میں یہ ہے کہ عاشق اپنے معشوق کے ہجر یا وصل کے خیالات کو وسعت دے کر اس کے بیان سے دل کے ارمان یا غم کا بخار نکالے اور زبان بھی وہ ہو کہ گویا دونوں آمنے سامنے بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ بس وہ کلام ان کا ہے۔ معشوق کو بجائے جانا کے فقط جان یا میاں یا میاں جان کہہ کر خطاب کرنا ان کا خاص محاورہ ہے۔

مجالس رنگین کی بعض مجلسوں سے اور ہمارے عہد سے پہلے کے تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کلام صفائی محاورہ اور لطف زبان کے باب میں ہمیشہ سے ضرب المثل ہے۔ ان کے شعر ایسے معلوم ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی چاہنے والا اپنے چاہیتے عزیز سے باتیں کر رہا ہے۔ وہ اپنی محبت کی باتوں کو اس طرح باندھتے تھے کہ شعر کی موزونیت کے لئے لفظوں کا آگے پیچھے کرنا بھی گوارا نہ سمجھتے تھے۔ میر تقی کہیں کہیں اُن کے قریب قریب آ جاتے ہیں۔ پھر بھی بہت فرق ہے، وہ بھی محاورہ خوب باندھتے تھے۔ مگر فارسی کو بہت نباہتے تھے۔ اور مضامین بلند لاتے تھے۔ سوداؔ بہت دور ہیں کیونکہ مضامین کو تشبیہ و استعارے کے رنگ میں غوطے دے کر محاورہ میں ترکیب دیتے تھے اور اپنے زور شاعری سے لفظوں کو پس و پیش کر کے اس بندوبست کے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۰

ساتھ جڑتے تھے کہ لطف اس کا دیکھے ہی سے معلوم ہوتا ہے۔

میر سوزؔ جیسے سیدھے سیدھے مضمون باندھتے تھے ویسے ہی آسان آسان طرحیں بھی لیتے تھے بلکہ اکثر ردیف چھوڑ کر قافیہ ہی پر اکتفا کرتے تھے۔ ان کے شعر کا قوام فقط محاورہ کی چاشنی پر ہے۔ اضافت تشبیہ، استعارہ فارسی ترکیبیں ان کے کلام میں بہت کم ہیں۔ ان لحاظوں سے انھیں گویا اردو غزل کا شیخ سعدی کہنا چاہیے۔ اگر اس انداز پر زبان رہتی یعنی فارسی کے رنگین خیال اس میں داخل نہ ہوتے اور قوت بیانی کا مادہ اس میں زیادہ ہوتا تو آج ہمیں اس قدر دشواری نہ ہوتی۔ اب دوہری مشکلیں ہیں۔ اول یہ کہ رنگین استعارات اور مبالغہ کے خیالات گویا مثل تکیہ کلام کے زبانوں پر چڑھ گئے ہیں، یہ عادت چھڑانی چاہیے۔ پھر اس میں نئے انداز اور سادہ خیالات کو داخل کرنا چاہیے۔ کیوں کہ سالہا سال سے کہتے کہتے اور سنتے سنتے کہنے والوں کی زبان اور سننے والوں کے کان اس کے انداز سے ایسے آشنا ہو گئے ہیں کہ نہ سادگی میں لطف زبان کا حق ادا ہو سکتا ہے اور نہ سننے والوں کو مزا دیتا ہے۔

زیادہ تر سوداؔ اور کچھ میرؔ نے اس طریقہ کو بدل کر استعاروں کو ہندی محاوروں کے ساتھ ملا کر ریختہ متین بنایا۔ اگر میرؔ و سودا اور ان کی زبان میں فرق بیان کرنا ہو تو یہ کہہ دو کہ بہ نسبت عہد سودا کے دیوان میں اردو کا نوجوان چند سال چھوٹا ہے، اور یہ امر بہ اعتبار مضمون اور کیا بلحاظ محاورہ قدیم ہر امر میں خیال کر لو، چنانچہ کو، کہ علامت مفعول ہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۱

لہو اور کبھو کا قافیہ بھی باندھ جاتے تھے۔ انھوں نے سوائے غزل کے اور کچھ نہیں کہا اور اس وقت تک اُردو کی شاعری کی اتنی ہی بساط تھی۔ ۱۲ سطر کے صفحہ سے ۳۰۰ صفحہ کا کل دیوان ہے۔ اس میں سے ۳۸۸ صفحہ غزلیات، ۱۲ صفحہ مثنوی، رباعی مخمس، باقی دالسلام۔ آغاز مثنوی کا یہ شعر ہے :

دعوےٰ بڑا ہے سوزؔ کو اپنے کلام کا
جو غور کیجیے تو ہے کوڑی کے کام کا​

نقل – ایک دن سوداؔ کے ہاں میر سوزؔ تشریف لائے۔ ان دنوں میں شیخ علی حزیںؔ کی غزل کا چرچا تھا۔ جس کا مطلع یہ ہے :

مے گرفتیم بجا ناں سرِ راہے گاہے
اوہم از لطف نہاں داشت نگاہے گاہے​

میر سوزؔ مرحوم نے اپنا مطلع پڑھا :

نہیں نکسے ہے مرے دل کی اپاہے گاہے
اے فلک بہرِ خدا رخصت آہے گاہے​

مرزا سُن کر بولے کہ میر صاحب بچپن میں ہمارے ہاں پشور کی ڈومنیاں آیا کرتی تھیں، یا تو جب یہ لفظ سُنا تھا یا آج سُنا۔ میر سوزؔ بچارے ہنس کر چُپکے ہو رہے پھر مراز نے خود اسی وقت مطلع کہہ کر پڑھا :

نہیں جوں گل ہوسِ ابر سیا ہے گاہے
کاہ ہوں خشک میں اے برق نگاہے گاہے​

میاں جرات کی ان دنوں میں ابتدا تھی، خود جراؔءت نہ کر سکے ۔ ایک اور شخص نے کہا کہ حضرت! یہ بھی عرض کیا چاہتے ہیں۔ مرزا نے کہا، کیوں بھئی کیا؟ جراؔءت نے پڑھا :

سرسری ان سے ملاقات ہے گاہے گاہے
صحبت غیر میں گاہے سرِ راہے گاہے​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top