آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۲

امروز یقیں شد کہ نداری سراہلی
بیچارہ زلفِ تو بدل داشت گمای

کیا کہوں میں عاشق و معشوق کا راز و نیاز

ناقہ را میرا ند لیلٰے سوئے خلوت گاہ ناز
سارباں درد رہ حدی میخواند و مجنوں میگریست​

ایک مثلث سید انشاء کا یاد آ گیا۔ کیا خوب مصرع لگایا ہے۔

اگرچہ سینکڑوں اس جا پہ تھے کھڑے زن و مرد

نشد قتیل ولیکن کہ یک کس از سر درد
سرے بہ نعش من خستہ جاں بجنببا ند​

مربع پانچویں دیوان سے

جوائے قاصد وہ پوچھے میرؔ بھی ایدھر کو چلتا تھا
تو کہیو جب چلا تھا میں تب اسکا دم نکلتا تھا

سماں افسوس بیتابی سے تھا کل قتل میں میرے
تڑپتا تھا ادھر میں یار اودھر ہاتھ ملتا تھا​

مربع فارسی پر

سکندر ہے نہ دارا ہے نہ کسرا ہے نہ قیصر ہے
یہ بیت المال ملک بیوفا بے وارثا گھر ہے

نہ در جانم، ہوا باقی نہ اندر دل ہوس ماندہ
بیا ساقی کہ ایں ویرانہ از بسیار کس ماندہ

خاتمہ

رات آخر ہو گئی مگر جلسہ جما ہوا ہے اور وہ سماں بندھ رہا ہے کہ دل سے صدا آتی ہے :

یا الہٰی تا قیامت برنیاید آفتاب​

اس مشاعرہ کے شعراء کا کچھ شمار نہیں، خدا جانے یہ کتنے ہیں، اور آسماں پر تارے کتنے ہیں۔ سننے والے ایسے مشتاق کہ شمع پر شمع پانی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۳

ہوتی ہے، مگر ان کے شوق کا شعلہ دھیما نہیں ہوتا۔ یہی آواز چلی آتی ہے :

ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے​

آزاد بھولتے ہو؟ دلوں کی نبض کس نے پائی ہے؟ جانتے نہیں کہ دفعتہً اکتا جاتے ہیں۔ پھر ایسے گھبرا جاتے ہیں کہ ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں۔ بس اب باقی داستان فردا شب۔ اے لو صبح ہو گئی، طول کلام ملتوی کرو۔

عزیزو مست سخن ہوو یا کہ سوتے ہو
اُٹھو اُٹھو کہ بس اب سر پہ آفتاب آیا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-***********-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۴

چوتھا دَور

تمہید

قہقہوں کی آوازیں آتی ہیں، دیکھنا اہل مشاعرہ آن پہنچے۔ یہ کچھ اور لوگ ہیں۔

ان کا آنا غضب کا آنا ہے​

ایسے زندہ دل اور شوخ طبع ہوں گے کہ جن کی شوخی اور طراری طبع بار متانت سے ذرا نہ دبے گی۔ یہ اتنا ہنسیں اور ہنسائیں گے کہ منھ تھک جائیں گے مگر نہ ترقی کے قدم بڑھائیں گے نہ اگلی عمارتوں کو بلند اتھائیں گے۔ انھیں کوٹھوں پر کودتے پھاندتے پھریں گے۔ ایک مکان کو دوسرے مکان سے سجائیں گے اور ہر شے کو رنگ بدل بدل کر دکھائیں گے۔ وہی پھول عطر میں بسائیں گے، کبھی ہار بنائیں گے کبھی طّرے سجائیں گے۔ کبھی انھیں کو پھولوں کی گیندیں بنا لائیں گے۔ اور وہ گل بازی کریں گے کہ ہولی کے جلسے گرد ہو جائیں گے۔ ان خوش نصیبوں کو زمانہ بھی اچھا ملے گا۔ ایسے قدرداں ہاتھ آئیں گے کہ ایک ایک پھول ان کا چمن زعفران کے مول بکے گا۔

اس دوران میں میاں رنگینؔ سب سے نئے گلدستے بنا کر لائے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۵

اور اہل جلسہ کے سامنے سجائے یعنی ریختہ میں سیختی نکالی۔ ہم ضرور کہتے کہ ہندوستان کی عاشقانہ شاعری نے اپنے اسل پر رجوع کی، لیکن چونکہ پہلے کلام کی بنیاد اصلیت پر تھی اور اس کی بنیاد فقط یاروں کے ہنسنے ہنسانے پر ہے اس لئے سوائے تمسخر کے اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ اگر لکھنؤ کے قیصر باغ اور وہاں کے معاملات کی تخم ریزی دیوان رنگینؔ اور دیوان سید انشاء کو کہیں تو کچھ بدگمانی یا تہمت میں داخل نہیں، اگرچہ اصل ایجاد میاں رنگین کا ہے۔ مگر سید انشاء نے بھی ان سے کچھ زیادہ ہی سگھڑاپا دکھایا ہے۔

انِ صاحب کمالوں کے عہد میں صدہا باتیں بزرگوں کی متروک ہو گئیں، پھر بھی جس قدر باقی ہیں وہ اشعار مفصلہ ذیل سے معلوم ہوں گی۔ البتہ شیخ مصحفی کے بعض الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں بزرگوں کی میراث سے محبت زیادہ ہے۔ سید انشاؔء اور جراتؔ نے ان میں سے بہت کچھ چھوڑ دیا مگر نت، ٹک، انکھڑیاں، زور (یعنی بہت) بے تکلف بولتے ہیں۔ اور داچھڑؔے، بھلّہ رےؔ، جھکڑا، اجی، سید موصوف کا انداز خاص ہے۔ ہاں انھوں نے کلام کا انداز ایسا رکھا ہے، کہ جو چاہتے ہیں، سو کہہ جاتے ہیں۔ نہیں معلوم ہوتا کہ ان کا روزمرہ یہی ہے یا مسخرا پن کرتے ہیں۔ بہر حال چند شعر لکھتا ہوں، جن سے معلوم ہو کہ اس وقت تک کیا قدیمی محاورے باقی تھے جو اب متروک ہیں اور باقی الفاظ ان بزرگوں کی غزلوں سے معلوم ہوں گے جو ان کے حال کے بعد لکھی گئی ہیں۔ چنانچہ شیخ مصحفی کہتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۶

او دامن اٹھا کے جانے والے
ٹک ہم کو بھی خاک سے اٹھا لے

تربت پہ میری پائے حجائی نہ رکھ میاں
کر رحم اب تو قبر میں آتش فشاں نہ ہو

شب ہجر صحرائے طلمت سے نکلی
میں جب آنکھ کھولی بہت رات نکلی

تو اے مصحفیؔ اب تو گرمِ سخن ہو
شب آئین دراز اور بہت رات نکلی

دل مرے سوگ میں مت کر تو برادر میلا
یاں سمجھ جاتے ہیں ہوتا ہے جو تیور میلا

لے لطفِ سیر شب ماہ ان حسینوں میں
جنھوں کے رہتی ہے افشاں چنی جبینوں میں

انھوں کو صاحبِ خرمن سبھی سمجھتے ہیں
جو مصحفیؔ کے ہیں کہلاتے کوشہ چینوں میں
*-*-*-*-*-*

باغباں ہے مجھے کیا کام ترے گلشن سے
ہرتے پھرتے کبھی ایدھر بھی میں آ جاتا ہوں

ہوں تو گٹھری پون کی مثلِ حباب
لیکن آب و ہوا کے ہاتھ میں ہوں

تم جو پوچھو ہو سدا حال رقیباں ہم سے
یہ ہنسی خوب نہیں اے گل خنداں ہم سے

حیران سی نگاہیں رہ جاتیاں ہیں تیری
کیا آنکھیں آرسی سے شرط بتاں ہیں تیری

اِس گل کی باغ میں جو حنا نے چلائی (*) بات
غنچہ نے مسکرا کے کہا ہم نے پائی بات

* بات چلائی وہی امروہہ والی بات ہے۔

شہرت بزیر آساں رکھتی تھی حاتم کی سخا
اسکا نہیں ملتا نشاں کیا جائے وہ کیدھر گئی

تن کے نشیمن سے سفر دشوار اسے آیا نظر
سو بار جانِ مضطرب ایدھر گئی اودھر گئی

ناسور داغ سینہ کو ماءالحیات اپنا سمجھ
تن خاک کا پھر ڈھیر ہے کجلا جو یہ اخگر گئی

گویا زمیں کربلا تھی قتل گاہِ عاشقاں
جو بدلی آئی اس طرف یاراں بچشم تر گئی

بکھیر دے جو وہ زلفوں کو اپنے مکھڑے پر
تو مارے شرم کے آئی ہوئی گھٹا پھر جائے​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۷

مصحفیؔ نظم غزل میں ہے یہ کس کا مقدور
جو جو طرزیں کہ ہم ایجاد کیا کرتے ہیں

نرگس نے گل کی دید کو آنکھیں جو کھولیاں
کچھ جی میں جو سمجھ گئیں کلیاں نہ بولیاں

میں ہی جانوں ہوں جو کچھ مجھ سے ادائیں کی ہیں
تیری آنکھوں نے جفائیں سی جفائیں کی ہیں

کیا روٹھ گیا مجھ سے مرا یار الہٰی
کیوں آنکھ ملاتا وہ نہیں کچھ تو سبب ہے

نہ ترے حسن کے دن اور نہ بہاریں وہ رہیں
نہ وہ جالی نہ وہ محرم نہ ازاریں وہ رہیں

منھ نہ کھولے کبھی گھر آ کے مرے حوروں نے
جب تلک بیٹھی رہیں رونٹ ہی مارے وہ رہیں

تیرے بن ہم نے نہ دیکھا کبھی پریوں کیطرف
گو خط و خال کو نت اپنے سنوارے وہ رہیں

دم شماری ہے اب انجام ریاکاری شیخ
نہ وہ تسبیح کے دانے نہ شماریں وہ رہیں

مل گئے خاک میں کیا کیا نہ دفینانِ بزرگ
نہ وہ لوحیں نہ محجر نہ مزاریں وہ رہیں

اے خوشا حال انھوں کا کہ جو کوچہ میں ترے
خاک پنڈے پہ ملے بیٹھے ہیں آسن مارے​

اور سید انشاء اللہ خاں کہتے ہیں :

دشتِ جنوں میں اے وائے ویلا
سونے نہ پائے ٹک پاؤں پھیلا

انکھڑیاں سُرخ ہو گئیں جب سے
دیکھ لیجیئے کمال بوسر کا

ٹک آنکھ ملاتے ہی کیا کام ہمارا
تسپر یہ غضب پوچھتے ہو نام ہمارا

ایک چھوڑا و زندہ جان تو نے
ٹھور رکھا سبھوں کو ہاں تو نے

بھلّہ رہے یہ دماغ سمجھا ہے
آپ کو شاغ زعفراں تو نے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۸

جو ہاتھ اپنے سبزہ کا گھوڑا لگا
تو سلفے کا اور اس پر کوڑا لگا

اجی چشمِ بددور نامِ خدا
تمھیں کیا بھلا سُرخ جوڑا لگا

چہرہ مریض غم کا ترے زرد ہے سو ہے
عیسٰے کنے دوا نہ رہی درد ہے سو ہے

نکل کے وادی وحشت سے دیکھ اے مجنوں
کہ زور دھوم سے آتا ہے ناقہ لیلٰے

ہے نام خدا دا چھڑے کچھ اور تماشا
یہ آپ کی رنگت

گات ایسی غضب قہر بھبن اور جھمکڑا
اللہ کی قدرت​

اور جراتؔ کہتے ہیں :

نالہ موزوں سے مصرع آہ کا چسپاں ہوا
زُور یہ مطلع مرا سرِد فتر دیوان ہوا

جنھوں کے نامے پہنچتے ہیں یار تک دن رات
انھیں کا کاش کہ جرات بھی نامہ بر ہوتا

وہ ایک تو ہے بھبھوکا سا تسپہ اے جراتؔ
اکٹر تکڑ ہے قیامت ہے بانکپن کی سی

دیکھنا ٹک یاد ہیں ہم کو بھی کیا عیاریاں
تیری خاطر کرتے ہیں غیروں کی خاطر داریاں

بہہ گیا جوں شمع تن سارا اگر اچھا ہوا
نت کے رونے سے چھٹی اے چشم تر اچھا ہوا

سبھی انعام نت پاتے ہیں اے شیریں دہن تجھ سے
کبھی تو ایک بوسہ سے ہمارا منھ بھی میٹھا کر

خبر اس کو نہیں کرتا کوئی
کہ میاں مفت ہے مرتا کوئی

کسی گل کے لئے تم آپ گل ہو گل نہ کھاؤ جی
ابھی ننھا کلیجہ ہے نہ داغ اسکو لگاؤ جی

آتش عشق کو سینے میں عبث بھڑکایا
اب کہو کھینچوں ہوں میں آہِ سرر بار کہ تو

کل واقف کار اپنے سے کہتا تھا وہ یہ بات
جراءت کے جو گھر رات کو مہمان گئے ہم

کیا جانئے کم بخت نے کیا ہم پہ کیا سحر
جو بات نہ تھی ماننے کی مان گئے ہم

تم اور کسی شہر چلے ہو تو بس اپنے
عالم ہی وہ نظروں میں نہیں سارے نگر کا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۹

یا ہم ہی نہیں ہیں یا نہیں غیر
اودھر کو جو تو نظر کرے گا

ہر دم جو اپنے سامنے وہ گلوزار ہے
جیدھر کو آنکھ اٹھاتے ہیں باغ و بہار ہے

کھینچ کر آہ جو میں ہاتھ جگر پر رکھا
دامن اس نے بھی اٹھا دیدہ تر پر رکھا

تھی مری شکل کل اُس بن یہ گلستان کے بیچ
جیے بیٹھے خفقانی کوئی زندان کے بیچ

لے چلے غیر کو گھر اپنے بلا سین سے تم
انکھڑیوں سے کبھی یوں ہم کو اشارہ نہ ہوا

جس پہ نت تیغ کھچے اور سدا جور رہے
تو ہی انصاف کر اب کیونکہ نہ وہ ٹھور رہے

جراتؔ یہ غزل سُن کے بہ تغئیر قوانی
تکلیف سخن گوئی کی دی پھیر کسی نے

اس غزل میں اک غزل تو اور جراتؔ پڑھ سُنا
زور ہی لذّت ہمیں تو دی ترے اشعار نے

یار کا آستان پایا ہے
زور دل نے مکان پایا ہے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

شیخ قلندر بخش جراتؔ

جراءت تخلص، شیخ قلندر بخش مشہور، اصلی نام یحیٰی امان تھا۔ اکبر آبادی مشہور ہیں۔ مگر باپ ان کے حافظ امان خاص دلی کے رہنے والے تھے۔ ہر تذکرہ میں لکھا ہے کہ ان کے خاندان کا سلسلہ (رائے امان کا کوچہ دلی کے چاندنی چوک میں ان ہی کے نام سے مشہور ہوا۔) رائے امان شاہی سے ملتا ہے اور امان کا لفظ اکبری زمانہ سے ان کے ناموں کا خلعت چلا آتا ہے۔ حکیم قدرت اللہ خاں قاسم فرماتے ہیں کہ ان کے بزرگ دربار شاہی میں دربانی کی خدمت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۰

رکھتے تھے۔

لطیفہ : بزرگوں کا قول سچ ہے کہ اگر کسی کے والدین اور بزرگوں کی لیاقت اور حیثیت دریافت کرنی ہو تو اس کے نام کو دیکھ لو، یعنی جیسی لیاقت ہو گی ویسا ہی نام رکھیں گے۔ حقیقیت حال یہ ہے کہ رائے امان محمد شاہی عہد میں دربان تھے۔ اگرچہ اس زمانہ کے دربان بھی آج کل بڑے بڑے عہدہ داروں سے بہتر ہوتے تھے۔ مگر زیادہ تر وجہ شہرت یہ ہوئی کہ جس وقت نادر شاہ نے قتل عام کا حکم دیا تو بعض اشخاص نے ننگ و ناموس کا پاس کر کے جان کا خیال نہ کیا اور اپنے اپنے گھر کا بندوبست رکھا۔ نادر شاہ کے سپاہی جب وہاں پہنچے تو تلوار کا جواب تلوار سے دیا۔ اس میں طرفین کی جانیں ضائع ہوئیں۔ امن کے بعد جب نادری مقتولوں کی اور ان کے اسباب قتل کی تحقیقات ہوئی تو وہ لوگ پکڑ کے آئے، ان میں رائے امان بھی تھا۔ چنانچہ شال پٹکوں سے ان کے گلے گھونٹے اور مار ڈالا۔ (دیکھو نادر نامہ عبد الکریم)۔

جرات میاں جعفر علی حسرتؔ (حسرت بھی نامی شاعر تھے، مگر اصلی پیشہ عطاری تھا۔ دیوان موجود ہے پھیکے شربت کا مزہ آتا ہے۔ مرزا رفیع نے انھیں کی شان میں غزل کہی ہے جس کا مطلع یہ ہے :

بہدا نہ کا آندھی سے اڑا ڈھیر ہوا پر
ہر مرغ اُسے کھا کے ہوا سیر ہوا پر​

اسی طرح ہجو کی آندھی میں ساری دوکان کا خاکہ اڑا دیا ہے۔ دیکھو صفحہ ۱۲۳) کے شاگرد تھے۔ علاوہ فنِ شاعری کے نجوم میں ماہر تھے اور موسیقی کا بھی شوق رکھتے تھے۔ چنانچہ ستار خوب بجاتے تھے۔ اوّل نواب محبت خاں خلف حافظ رحمت خاں نواب بریلی کی سرکار میں نوکر ہوئے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۱

میر انشاء اللہ خاں کی اور ان کی صحبتیں بہت گرم رہتی تھیں، چنانچہ حسب حال یہ شعر کہا تھا :

بسکہ گلچیں تھے سدا عشق کے ہم بستاں کے
ہوئے نوکر بھی تو نواب محبت خاں کے​

۱۲۱۵ھ میں لکھنؤ پہنچے اور مرزا سلیمان شکوہ کی سرکار میں ملازم ہوئے۔ ایک دفعہ تنخواہ میں دیر ہوئی، حین طلب میں ایک غزل کا مطلع لکھا :

جرات اب بند ہے تنخواہ تو کہتے ہیں یہ ہم
کہ خدا دیوے نہ جبتک تو سلیماں کب دے​

فارسی کی ضرب المثل ہے "تا خدا نہ دہد سلیماں کے دہد" میاں جراءت کے حال میں بلکہ ساری کتاب میں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ عین جوانی میں آنکھوں سے معذور ہو گئے۔ بعض کہتے ہیں کہ حادثہ چیچک سے ہوا۔ استاد مرحوم نے ایک دفعہ فرمایا کہ بھئی زمانہ کی دو آنکھیں ہیں۔ نیکی کی آنکھ نے ان کے کمال کو بڑی قدر دانی سے دیکھا۔ بدی کی آنکھ نہ دیکھ سکی۔ اور ایک بدنما داغ ان کے دامن پر دکھایا۔ مشہور کرتے ہیں کہ پہلے وہ اصلی اندھے نہ تھے۔ بعض ضرورتوں سے کہ شوخی عمر کا مقتضیٰ ہے، خود اندھے بنے۔ رفتہ رفتہ اندھے ہی ہو گئے۔

بزرگوں کا قول ہے کہ شرافت و نجابت غریبی پر عاشق ہے۔ دولت اور نجابت آپس میں سوکن ہے، یہ حق ہے اور سبب اس کا یہ ہے کہ شرافت کے اصول و آئیں غریبوں ہی سے خوب نبھتے ہیں۔ امارت آئی قیامت آئی دولت آئی شامت آئی۔ میاں جراءت کی خوش مزاجی، لطیفہ گوئی، مسخرا پن حد سے زیادہ گزرا ہوا تھا۔اور ہندوستان کے امیروں کو نہ اس سے ضروری اور ہندوستان کے امیروں کو نہ اس سے ضروری
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۲

کوئی کام نہ اس سے زیادہ کوئی نعمت ہے۔ کہتے ہیں، مرزا قتل، سید انشاء کا اور ان کا یہ حال تھا کہ گھر میں رہنے نہ پاتے تھے۔ آج ایک امیر کے ہاں گئے، دوسرے دن دوسرے امیر آئے سوار کیا اور ساتھ لے گئے۔ چار پانچ دن وہاں رہے کوئی اور نواب آئے، وہاں سے وہ لے گئے۔ جہاں جائیں آرام و آسائش سے زیادہ عیش کے سامان موجود۔ رات دن قہقہے اور چہچہے ایک بیگم صاحب نے گھر میں ان کے چٹکلے اور نقلیں سنیں۔ بہت خوش ہوئیں اور نواب صاحب سے کہا کہ ہم بھی باتیں سنیں گے۔ گھر میں لا کر کھانا کھلاؤ، پردے یا چلمنیں چھٹ گئیں، اندر وہ بیٹھیں، باہر یہ بیٹھے۔ چند روز کے بعد خاص خاص بیبیوں کا برائے نام پردہ رہا۔ باقی گھر والے سامنے پھرنے لگے۔ رفتہ رفتہ یگانگی کی یہ نوبت ہوئی کہ آپ بھی باتیں کرنے لگیں۔ گھر میں کوئی دادا، نانا، کوئی ماموں، چچا کہتا، شیخ صاحب کی آنکھیں دکھنے آئیں، چند روز ضعفِ بصر کا بہانہ کر کے ظاہر کیا کہ آنکھیں معذور ہو گئیں۔ مطلب یہ تھا کہ اہل حُسن کے دیدار سے آنکھیں سکھ پائیں، چنانچہ بے تکلف گھروں میں جانے لگے۔ اب پردہ کی ضرورت کیا؟ یہ بھی قاعدہ ہے کہ میاں بیوی جس مہمان کی بہت خاطر کرتے ہیں، نوکر اس سے جلنے لگتے ہیں۔ ایک دن دوپہر کو سو کر اٹھے، شیخ صاحب نے لونڈی سے کہا کہ بڑے آفتابے میں پانی بھر لا۔ لونڈی نہ بولی۔ انھوں نے پھر پکارا، اس نے کہا کہ بیوی جائے ضرور میں لے گئی ہیں۔ ان کے منہ سے نکل گیا کہ غیبانی دوانی ہوئی ہے سامنے تو رکھا ہے۔ دیتی کیوں نہیں۔ بیوی دوسرے دالان میں تھیں۔ لونڈی گئی اور کہا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۳

کہ اوئی بیوی یہ موا کہتا ہے کہ وہ بندہ اندھا ہے۔ یہ تو خاصا اچھا ہے۔ ابھی میرے ساتھ یہ واردات گزری۔ اس وقت یہ راز کھلا۔ مگر اس میں شبہ نہیں کہ آخر آنکھوں کو رو بیٹھے۔

مزن فال بد کا درد حالِ بد
مبادا کسے کو زند فال بد​

اگرچہ علوم تحصیلی میں ناتمام تھے۔ بلکہ عربی زبان سے ناواقف تھے لیکن اس کوچہ کے رستوں سے خوب واقف تھے اور طبع موزوں طوطی و بلبل کیطرح ساتھ لائے تھے۔ آخر عمر تک لکھنؤ میں رہے اور وہیں ۱۲۲۵ھ میں فوت ہوئے۔ شیخ ناسخ نے تاریخ کہی :

جب میاں جرات کا باغِ دہر سے
گلشنِ فردوس کو جانا ہوا

مصرع تاریخ ناسخ نے کہا
ہائے ہندوستان کا شاعر موا​

کلام ہر جگہ زبان پر ہے۔ دیوان تلاش سے مل جاتا ہے۔ اس میں ہر طرح کی غزلیں ہیں، رباعیاں، چند مخمس، واسوخت، چند ہجوئیں اور تاریخیں ہیں۔ دیوان میں رطب و یابس بہت نہیں ہے، معلوم ہوتا ہے کہ جو استادوں کے طریقے پائے ہیں، انھیں سلیقہ سے کام میں لائے ہیں۔ اس پر کثرتِ مشق نے صفائی کا رنگ دیا ہے کہ سب کوتاہیوں کا پردہ ہو گیا۔ اور انھیں خود صاحب طرز مشہور کر دیا۔ ان کی نکتہ یابی اور سخن فہمی کی بڑی دلیل یہ ہے کہ قصیدہ وغیرہ اقسام شعر پر ہاتھ نہ ڈالا۔ بلکہ زبان فارسی کی طرف خیال بھی نہیں کیا، مناسب طبع دیکھ کر غزل کو اختیار کیا۔ اور امراء اور ارباب نشاط کی صحبت نے اسے اور بھی چمکایا۔ انھوں نے بالکل میرؔ کے طریقے کو لیا۔ مگر اس کی فصاحت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۴

و سادگی پر ایک شوخی اور بانکپن کا انداز ایسا بڑھایا جس سے پسند عام نے شہرت دوام کا فرمان دیا۔ عوام میں کمال کی دھوم مچ گئی۔ اور خواص حیران رہ گئے۔ ان کی طرز انھیں کا ایجاد ہے اور آج تک انھیں کے لئے خاص ہے۔ جیسی اس وقت مقبول خلائق تھی آج تک ویسی ہی چلی آتی ہے۔ خصوصیت اس میں یہ ہے کہ فصاحت اور محاورہ کی جان ہے۔ فقط حسن و عشق کے معاملات ہیں اور عاشق و معشوق کے خیالات گویا اس میں شراب ناب کا شروع پید کرتے ہیں۔ ان کی طبیعت غزل کے لئے عین مناسب واقع ہوئی تھی۔ حریف، ظریف، کوش طبع، عاشق مزاج تھے۔ البتہ استعداد علمی اور کاوش فکری شاعری کا جز اعظم ہے، ان کی طبیعت بجائے محنت پسند ہونے کے عشرت پسند تھی، تعجب یہ ہے کہ زمانے نے شکرخورے کو شکر دے کر تمام عمر قدردان اور ناز بردار امیروں میں بسر کر دی۔ جہاں رات دن اس کے سوا اور چرچا ہی نہ تھا۔ اگر ان کی طبیعت میں یہ باتیں نہ ہوتیں اور وہ استعداد علمی سے طبیعت میں زور اور فکر میں قوتِ غور پیدا کرتے تو اتنا ضرور ہے کہ اصنافِ سخن پر قادر ہو جاتے۔ مگر پھر یہ لطف اور شوخیاں کہاں بلبل میں شوریدہ مزاجی نہ ہوتی، تو یہ چہچہے کب ہوتے۔ یہ بات ہے کہ طبیعت میں تیزی اور طراری تھی۔ مگر نزلے کا زور اور طرف جا کر گِرا تھا۔ یہی سبب ہے کہ کلام میں بلند پردازی، لفظوں میں شان و شکوہ، اور معنوں میں دِقَت نہیں۔ جس نے قصیدہ تک نہ پہونچنے دیا اور غزل کے کوچہ میں لا ڈالا۔ اس عالم میں جو جو باتیں ان پر اور ان کے دل پر گذرتی تھیں سو کہہ دیتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۵

مگر ایسی کہتے تھے کہ اب تک دل پھڑک اٹھتے ہیں۔ مشاعرے میں غزل پڑھتے، جلسے کے جلسے لوٹ جاتے تھے۔ سید انشاء باہمہ فضل و کمال رنگا رنگ کے بہروپ بدل کر مشاعرہ میں دھوم دھام کرتے تھے، وہ شخص فقط اپنی سیدھی سادی غزل میں وہ بات حاصل کر لیتا تھا۔

مرزا محمد تقی خاں ترقی کے مکان پر مشاعرہ ہوتا تھا اور تمام امرائے نامی و شعرائے گرامی جمع ہوتے تھے۔ میر تقی مرحوم بھی آتے تھے۔ ایک دفعہ جراءت نے غزل پڑھی اور غزل وہ ہوئی کہ تعریفوں کے غل سے شعر تک سنائی نہ دیئے۔ میاں جراءت یا تو اس جوش سرور میں جو کہ اس حالت میں انسان کو سرشار کر دیتا ہے، یا شوخی مزاج سے میر صاحب کے چھیڑنے کے ارادہ سے ایک شاگرد کا ہاتھ پکڑ کر ان کے پاس آ بیٹھے۔ اور کہا کہ حضرت اگرچہ آپ کے سامنے غزل پڑھنی بے ادبی اور بے حیائی ہے۔ مگر خیر اس بیہودہ گو نے جو یاوہ گوئی کی آپ نے نے سماعت فرمائی؟ میر صاحب تیوری چڑھا کر چپکے ہو رہے۔ جرات نے پھر کہا میر صاحب کچھ ہوں ہاں کر کے پھر ٹال گئے۔ جب انھوں نے بہ تکرار کہا تو میر صاحب نے جو الفاظ فرمائے وہ یہ ہیں (دیکھو تذکرہ حکیم قدرت اللہ خاں قاسم)۔ کیفیت اس کی یہ ہے کہ تم شعر تو کہنا نہیں جانتے ہو اپنی چوما چاٹی کہہ لیا کرو۔" میر صاحب مرحوم شاعروں کے ابو الآبا تھے، کیسے ہی الفاظ میں فرمائیں مگر جوہری کامل تھے۔ جواہر کو خوب پرکھا۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ عاشق و معشوق کے راز و نیاز اور حُسن کے معاملوں کو جس شوخی اور چوچلے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۶

سے انھوں نے برتا ہے وہ انھیں کا حصہ تھا۔ آج تک دوسرے کو نصیب نہیں ہوا۔

میرؔ اور سوداؔ کی غزلوں پر اکثر غزلیں لکھی ہیں۔ ان کے کلام ملوم الکلام تھے مگر یہ اپنی شوخی سے جو لطف پید کر جاتے ہیں، تڑپا جاتے ہیں۔

برقع کو اٹھا چہرہ سے وہ بت اگر آئے
اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آئے
(میر)

اس دل کو تفِ آہ سے کب شعلہ بر آئے
بجلی کو دم سرد سے جس کے حذر آئے
(سودا)

ہر گز نہ مرادِ دل معشوق بر آئے
یا رب نہ شبِ وصل کے پیچھے سحر آئے
(مصحفی)

اس پردہ نشیں سے کوئی کس طرح بر آئے
جو خواب میں بھی آئے تو منھ ڈہانک کر آئے
(جرات)

ناقص کا صفا کیش سے مطلب نہ بر آئے
جو کور ہو عینک سے اُسے کیا نظر آئے
(ذوق)

فردوس میں ذکر اس لبِ شیریں کا گر آئے
پانی دہن چشمہ کوثر میں بھر آئے
(بعالم جوانی)

اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے
(میر)

جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے
یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے
(سودا)

ہے کس کا جگر جس پہ یہ بیداد کرو گے
لو ہم تمھیں دل دیتے ہیں کیا یاد کرو گے
(جرات)

مدعی مجھ کو کھڑے صاف بُرا کہتے ہیں
چپکے تم سنتے ہو بیٹھے اسے کیا کہتے ہیں
(میر)

تو نے سودا کے تئیں قتل کیا کہتے ہیں
یہ اگر سچ ہے تو ظالم اسے کیا کہتے ہیں
(سودا)

آئینہ رُخ کو ترے اہل صفا کہتے ہیں
اسپہ دل اٹکے ہے میرا اسے کیا کہتے ہیں
(جراءت)​

سوداؔ کا ایک مطلع مشہور (میرے شفیق قدیم حافظ ویران فرماتے ہیں۔) ہے۔ استاد مرحوم اس پر جراءت کا مطلع پڑھا کرتے تھے۔ ایک مصرع یاد ہے دوسرا بُھول گیا، اب سارا دیوان چھان مارا نہیں ملتا، معلوم ہوتا ہے کہ زبان بزبان یہاں تک آ پہونچا وہاں دیوان
 

شمشاد

لائبریرین
ہصفحہ ۲۹۷

میں نہ درج ہوا، ناسخؔ اور آتش کے اکثر اشعار کا یہی حال ہے۔ معتبر اشخاص کی زبانی سن چکا ہوں جو کہ خود ان کے مشاعروں میں شامل ہوتے تھے مگر اب دیوانوں میں وہ اشعار نہیں ملتے۔ استاد مرحوم کے صدہا شعروں کا حال راقم آثم جانتا ہےکہ خود یاد ہیں یا ایک دو زبانوں پر ہیں۔ کار ساز کریم ان کے مجموعہ کو بھی تکمیل کو پہونچائے۔ سودا کا مطلع ہے :

کہہ دیکھ تو رستم سے سر تیغ تلے دھر دے
پیار سے یہ ہمیں سے ہو ہرکارے و ہزمردے
(سودا)

پہلا مصرع یاد نہیں دوسرا حاضر ہے
ہر شہرے و ہر رسمے، ہرکارے و ہر مردے
(جرات)

ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
(میر)

چمن میں صبح جو اس جنگ جو کا نام لیا
صبا نے تیغ کا موج رواں سے کام لیا
(سودا)

پاس جا بیٹھا جو میں کل اک ترے ہمنام کے
رہ گیا بس نام سنتے ہی کلیجہ تھام کے
(جرات)

چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا
جمال یار نے منھ اس کا خوب لال کیا
(میر)

برابری کا تری گل نے جب خیال کیا
صبا نے مار تھپیڑے منھ اس کا لال کیا
(سوداؔ)

جو تیغ یار نے کوں ریزی کا خیال کیا
تو عاشقوں نے بھی منھ اسکا خوب لال کیا
(جرات)​

طائر شہرت نے ابھی پر پرواز نہ نکالے تھے جو مرزا رفیع اور میر سوزؔ جلسہ میں ایک لطیفہ ہوا، دیکھو صفحہ ۲۴۲، سچ ہے شاعر اپنی شاعری ماں کے پیٹ سے لیکر نکلتا ہے۔ ان کے کلام میں بعض نکتے ایسے بھی ہیں کہ جن پر خاص لوگوں کی نظریں اٹکتی ہیں۔ مثلاً :

ہو کے آزردہ جو وہ ہم سے پرے پھرتے ہیں
ہاتھ ہم اپنے کلیجے پہ دھرے پھرتے ہیں​

مصرع گرم ہے۔ لیکن پرے پرے پھرتے ہیں۔ کہتے تو محاورہ پورا ہو جاتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۸

کبھی وہ چاند کا ٹکڑا ادھر بھی آ نکلے
ذرا تو دیکھ منجّم مرے ستاروں کے دن

دکھا دے شکل کہ دیوار و در سے سر اپنا
کہاں تلک کوئی تیرے قرار پر مارے

ہجوم داغ نے یہ کی ہے تن پہ گلکاری
کہ پہنے ہوں تن عریاں لباس پھلکاری​

ظہور اللہ خاں نواؔ سے کسی معاملے میں بگاڑ ہو گیا تھا۔ انھوں نے ان کی ہجو میں ایک ترجیع بند کہا اور حقیقت میں بہت خوب کہا۔ جس کا شعر ترجیع یہ ہے :

ظہور حشر نہ ہو کیوں کہ کلچڑی گنجی
حضور بلبل بستاں کرے نواسنجی​

خان (ظہور اللہ خاں نوا ۱۲۴۰ھ میں مر گئے۔) موصوف نے بھی بہت کہا کہا۔ اس نے شہرت نہیں پائی۔ چنانچہ انکے ترجیع بند کا فی الحال یہی ایک شعر یاد ہے۔

رات کو کہنے لگا جو رو کے منھ پر ہاتھ پھیر
قدرتِ حق سے لگی ہے ہاتھ اندھے کے بٹیر​

کریلا – (عہد محمد شاہی اور اسی پس و پیش کا زمانہ خوشحالی کے لحاظ سے بہشتی زمانہ تھا۔ دربار سے جو امیر کس طرف جاتا تھا وہ ضروری چیزیں اور کاروبار کے آدمی دلّی سے اپنےساتھ لیجاتا تھا تاکہ ہر کام ہر رسم ہر بات اور کارخانہ کا محاورہ وہ ہو جو دارالخلافہ کا ہے۔ نواب سراج الدولہ مرشد آباد کے صوبیدار ہر کر گئے تو علاوہ منصب داروں اور ملازموں کے کئی بھانڈ اور دو تین گوئیے، دو تین رنڈیاں اور دو بھگتنے، دو تین نانبائی، ایک دو کنجڑے اور بھڑبھونجے تک بھی ساتھ لے گئے اور وہ ایسا وقت تھا کہ دلّی کا بھڑبھونجا بھی دس (۱۰) بارہ روپے مہینے بغیر دلّی سے نہ نکلتا تھا۔ یہ شعر شاہ مبارک آبرو کا ہے۔) ایک پراتم بھانڈ دلّی کا رہنے والا، نواب شجاع الدولہ کے ساتھ گیا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۹

اور اپنے فن میں صاحب کمال تھا۔ ایک دن کسی محفل میں اس کا طائفہ حاضر تھا۔ شیخ جراءت بھی وہاں موجود تھے۔ اس نے نقل کی۔ ایک ہاتھ میں لکڑی لے کر دوسرا ہاتھ اندھوں کی طرح بڑھایا۔ ٹٹول کر پھرنے لگا اور کہنے لگا کہ حضور شاعر بھی اندھا شعر بھی اندھا :

صنم سنتے ہیں تیرے بھی کمر ہے
کہاں ہے کس طرف کو ہے کدھر ہے​

شیخ صاحب بہت خفا ہوئے۔ مگر یہ بھی سید انشاء اور مرزا قتیلؔ کے جتھے کے جزواعظم تھے۔ گھر آ کر انھوں نے اس کی ہجو کہہ دی اور خاک اڑائی۔ اُسے سن کر کریلا بہت کڑوایا۔ چنانچہ دوسرے جلسہ میں پھر اندھے کی نقل کی۔ اسی طرح لاٹھی لے کر پھرنے لگا۔ ان کی ایک غزل ہے :

امشب تری زلفوں کی حکایات ہے واللہ
کیا رات ہے، کیا رات ہے، کیا رات ہے واللہ​

ہر رات کے لفظ پر لکٹری کا سہارا بدلتا تھا۔ کیا رات ہے، کیا رات ہے، کیا رات ہے واللہ، اس غزل کے ہر شعر کا دوسرا مصرع ایک ہی ڈھنگ پر ہے۔ چنانچہ ساری غزل کو اسی طرح محفل میں پڑھتا پھرا۔ شیخ صاحب اور بھی غصہ ہوئے اور پھر آ کر ایک ہجو کہی۔ ترجیع بند تھا :

اگلا جھولے بگلا جھولے ساون اس کریلا پُھولے​

اس کو بھی خبر ہوئی، بہت بھنایا۔ پھر کسی محفل میں ایک زچّہ کا سوانگ بَھرا اور ظاہر کیا کہ اس کے پیٹ میں بُھتنا گھس گیا ہے۔ خود مُلّا بن کر بیٹھا اور جس طرح جنّات اور سیانوں میں لڑائی ہوتی ہے۔ اسی طرح جھگڑتے جھگڑتے بولا کہ ارے نامراد کیوں غریب ماں کی جان کا لاگو ہوا ہے۔ جراءت ہے تو باہر نکال آ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۰۰

کہ ابھی جلا کر خاک کروں، آخر اب کی دفعہ انھوں نے ایسی خبر لی کہ کریلا خدمت میں حاضر ہوا، خطا معاف کروائی اور کہا کہ میں اگر آسمان کے تارے توڑ لاؤں گا تو بھی اس کا چرچا وہیں تک رہے گا، جہاں تک دائرہ محفل ہے۔ آپ کا کلام منھ سے نکلتے ہیں عالم میں مشہور ہو جائے گا۔ اور پتھر کی لکیر ہو گا کہ قیامت تک نہ مٹے گا۔ بس اب میری خطا معاف فرمائیے۔

اگرچہ روایت کہن سال لوگوں سے سنی ہے، مگر کئی نسخے کلیات کے نظر سے گذرے جو ہجو اس میں ہے وہ ایسی نہیں ہے، جس پر ایک بھانڈ اس قدر گھبرا جائےکہ آ کر خطا معاف کروائے۔

لطیفہ : ایک دن میر انشاء اللہ خاں جرات کی ملاقات کو آئے، دیکھا تو سر جھکائے بیٹھے کچھ سوچ رہے ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ کس فکر میں بیٹھے ہو؟ جرات نے کہا کہ ایک مصرع خیال میں آیا ہے۔ چاہتا ہوں کہ مطلع ہو جائے۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا ہے؟ جرات نے کہا کہ خوب مصرع ہے مگر جب تک دوسرا مصرع نہ ہو گا، تب تک نہ سناؤں گا، نہیں تو تم مصرع لگا کر اسے بھی چھین لو گے۔ سید انشاء نے بہت اصرار کیا، آخر جراتؔ نے پڑھ دیا :

اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سُوجھی​

سید انشاء نے فوراً کہا :

اندھے کو اندھیرے میں بہت دُور کی سُوجھی​

جراتؔ ہنس پڑے اور اپنی لکڑی اٹھا کر مارنے دوڑے۔ دیر تک
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۰۱

سید انشاء آگے آگے بھاگتے پھرے اور یہ پیچھے پیچھے ٹٹولتے پھرے۔ اللہ اکبر! کیا شگفتہ مزاج لوگ تھے۔ کیا خوش دلی اور فارغ البالی کے زمانے تھے۔

سیّد انشاء نے ان کے نام کا معمہ کہا تھا، سرمونڈی نگوڑی گجراتن۔ لطیفہ اس میں یہ تھا کہ گجراتن ان کی ماں کا نام تھا۔

نواب محبت خاں کے مختار نے ایک دفعہ جاڑے میں معمولی پوشاک دینے میں کچھ دیر کی۔ جراءتؔ نے رباعی کہہ کر کھڑے کھڑے خلعت حاصل کیا۔

مختاری پہ آپ نہ کیجیے گا گھمنڈ
کہتے ہیں جسے نوکری ہے بیخ ارنڈ

سرمائی دلائیے ہماری ورنہ
تم کھاؤ گے گالیاں جو ہم کھائینگے ٹھنڈ

غزل

لگ جا گلے سے بات اب اے نازنیں نہیں
ہے ہے خدا کے واسطے مت کر نہیں نہیں

کیا رک کے وہ کہے ہے جو ٹک اس سے لگ چلوں
بس بس پرے ہو شوق یہ اپنے تئیں نہیں

پہلو میں کیا کہیں جگر و دل کا کیا ہے رنگ
کس روز اشکِ کونی سے تر آستیں نہیں

فرصت جو پا کے کہنے کبھو درد دل سو ہائے
وہ بدگماں کہے ہے کہ ہم کو یقیں نہیں

آتش سی پُھک رہی ہے مرے تن بدن میں آہ
جب سے کہ روبرو وہ رُخ آتشیں نہیں

اُس بن جہان کچھ نظر آتا ہے اور ہی
گویا وہ آسمان نہیں، وہ زمیں نہیں

کیا جانے کیا وہ اس میں ہے لوٹے ہے جسپہ دل
یوں اور کیا جہاں میں کوئی حسیں نہیں

سنتا ہے کون کس سے کہوں درد بے کسی
ہمدم نہیں ہے کوئی مرا ہم نشیں نہیں

ہر چند یہ لطف شب ماہ سیر باغ
اندھیر پر یہی ہے کہ وہ مہ جبیں نہیں
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top