پنجاب کے بھولے بسرے پکوان

فرقان احمد

محفلین
لیجیے، ایک تصویر ہماری طرف سے

pinni.jpg
 

فرقان احمد

محفلین
375261_52864468.jpg

پنجاب کے روایتی پکوان سادہ مگر ذائقے سے بھرپور رہے ہیں۔

لاہور: (روزنامہ دنیا) دیہاتی ماحول میں گائے بھینسوں کا دودھ اور اس کی ذیلی پیداوار گھی اور مکھن کی صورت میں عام تھی اس لئے گھروں میں سالن پکانے کے لیے دیسی گھی استعمال ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا اور دیہاتوں نے شہروں کا روپ دھارنا شروع کیا تو تن آسانی اور پیداواری قلت کی وجہ سے دیسی گھی کی جگہ بناسپتی گھی نے لے لی اور مزید وقت گزرنے کے ساتھ اور صحت کے مسائل سے آگہی اور تعلیم کے نسبتاً عام ہونے کے ساتھ خوردنی تیل کا استعمال بھی شروع ہوگیا۔ آج بھی پکانے کے لیے دیسی گھی کی شدید قلت اور دیہاتی زندگی میں حکمرانوں کی عدم دلچسپی، مویشی پالنے کے جدید طریقوں سے لاعلمی اور زراعت کو ترجیح نہ دینے کی پالیسی کی وجہ سے اس قلت میں اور اضافہ ہوا۔ اس لیے آج کل پنجاب کے دیہات میں بناسپتی گھی زیادہ اورخوردنی تیل بہت کم استعمال ہو رہا ہے۔ روایتی مزیدار پکوان آج کل کھانے کو تو کم کم ملتے ہیں، تاہم یہاں ان کے ذکر سے ضرور لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔

سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی

پنجاب کا پرلطف اور سادہ ترین کھانا سرسوں کی نرم و گداز گندلوں سے تیار کیا ہوا سالن جس میں مکھن کی بہتات ہوتی ہے، مکئی کے آٹے سے بنی روٹی کے ساتھ کھانا پنجاب کی پہچان تھا۔ آج شہروں میں تو کیا دیہاتوں میں بھی یہ کھانا معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجوہ بھی سہل انگاری اور تن آسانی ہی کہی جا سکتی ہے۔ سرسوں کا ساگ پکانے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور پکانے میں توجہ اور محبت درکار ہوتی ہے، جو شاید کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس طرح یہ روایتی ذائقہ اب عام نہیں رہا، تاہم ابھی بالکل ختم نہیں ہوا۔

بینگن کا بھرتا

تنور ہماری پنجابی تہذیبی روایت کا جزو لازم رہا ہے۔ گھروں میں تنوریاں موجود تھیں جہاں خواتین خود روٹیاں پکاتی تھیں۔ ان کے علاوہ دیہاتوں میں تنور پیشہ کے طور پر بھی موجود تھے۔ جہاں اجرت کے طور پر گندھا ہوا آٹا لے کر روٹیاں لگائی جاتیں، پھر وقت گزرنے کے ساتھ معاشی حالات میں بہتری کی وجہ سے پیسے دے کر تنور سے روٹیاں لگوائی جاتیں۔ انہی تنوروں میں بینگن کا بھرتا تیار کیا جاتا ہے۔ بینگن کا پکا ہوا گودا نکال کر دہی میں ملایا جاتا ہے۔ ہری مرچیں اور پیاز ملا کر تنور کی روٹی سے کھایا جانے والا بھرتا مزہ ہی مزہ دیتا تھا۔ یہ ڈش بہت جلد تیار ہو جاتی ہے اس لیے گرمیوں میں بطور خاص پسند کی جاتی ہے۔

کڑھی پکوڑا

کڑھی پکوڑا بھی پنجاب کا مصالحے دار اور مزیدار پکوان رہا، مگر آج کل سوغات بن چکا ہے۔ بیسن کے پکوڑے تلے جاتے جو خوب چٹ پٹے اور مصالحے دار ہوتے۔ چاٹی کی لسی میں بیسن کو پکال کر سالن تیار کیا جاتا۔ اس میں پکوڑے ڈالے جاتے اور تنوری روٹی سے کھانے کا لطف اٹھایا جاتا۔ کڑھی پکوڑا آج شہروں میں ہوٹلوں میں عام ملتا ہے مگر یہ روایتی دیہاتی کڑھی پکوڑے کے ذائقے کو چھو بھی نہیں سکتا۔

پنجیری

مٹھائی پنجابی ثقافت کا اہم حصہ ہے۔ گنے کے استعمال سے لے کر گڑ، شکر اور چینی کا استعمال پنجاب کی روایت ہے۔ کوئی تقریب مٹھائی کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی ہے۔ مٹھائیاں گھروں میں بھی تیار کی جاتی ہیں اور دکانوں میں بھی۔ پنجیری کا بطور خاص تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ یہ گھریلو مٹھائی ہے اور ہر گھر میں اپنی معاشی طاقت کے مطابق اپنے طریقے سے تیار کی جاتی ہے۔ اس کے اجزائے ترکیبی میں گندم کا ان چھنا آٹا بنیادی جزو ہے۔ اس آٹے کو دیسی گھی میں خوب بھونا جاتا ہے۔ اس بھنے ہوئے آمیزے میں چینی یا شکر ملا دی جاتی ہے۔ اس کے بعد بادام، مغزیات، کھوپرا، گوند کتیرا، سونف، کمرکس، اجوائن، سونٹھ، الائچی اور اخروٹ کی گریاں ملائی جاتی ہیں۔ یہ پنجیری خصوصی طور پر دودھ پلانے والی ماؤں کو دی جاتی ہے تا کہ بچے کو دودھ کی زیادہ مقدار میسر ہو۔ تاہم دیگر اہل خانہ بھی شوق سے یہ پنجیری کھاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مزیدار ڈش بھی غائب ہو رہی ہے۔ شاید ڈرائی فروٹ کی آسمان کو چھوتی قیمتیں اس مزیدار مٹھائی کو پنجاب کے منظر نامے سے غائب کر کے چھوڑیں گی۔

پوٹوں (پوروں) کی سویاں

پنجاب کی نفاست ہاتھ کی پوروں کی مدد سے بنی سویاں ایک مزیدار شیرینی جو آج تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ دیہاتوں کی خواتین اکٹھی ہو کر گرمیوں کی دوپہروں میں خوش گپیوں کے ساتھ ساتھ سوجی کے گندھے ہوئے آٹے کو انگلیوں کی پوروں کی مدد سے باریک چاول نما بل دار سویاں تیار کرتیں۔ گندم کی بالیوں سے بنی خوبصورت چنگیروں میں سویاں نرم و نازک انگلیوں سے کسی مشین کی سی تیزی سے گرتیں اور چنگیر سویوں سے بھر جاتی۔ ان کو خشک کیا جاتا اور پھر ناشتے میں ان سویوں کو روایتی طریقے سے چینی کے شیرے میں پکایا جاتا۔ آج یہ ڈش تقریباً ناپید ہے۔

چڑوے

پنجاب کی دوسری اہم فصل چاول اور مونجی کے کاشت والے علاقوں میں فصل اٹھانے کے بعد چڑوے بنائے جاتے۔ ایک خاص طریقے سے مونجی بھگو کر بڑے بڑے چٹوؤں میں بھاری بھر کم ڈنڈوں سے خواتین یہ چڑوے بناتیں۔ چھلکے الگ کئے جاتے اور چپٹے چڑوے تیار ہو جاتے۔ یہ میٹھا ملا کر بھی کھائے جاتے اور اس کی نمکو بھی بنتی، کمرشل بنیادوں پر شاید چڑوے آج بھی ملتے ہیں مگر گھر پر تیار کرنے کا عمل ختم ہو چکا ہے۔

(یہ تحریر روزنامہ دنیا میں شائع ہوئی)
 

ہادیہ

محفلین

السی کی پنیاں کچھ دن پہلے ہی کھائی ہیں ہمسائے کے گھر سے آئی تھیں انہوں نے ذائقے کے لیے مونگ پھلی اور بادام کا استعمال کیا ہوا تھا۔
یہ جو تصویر فرقان بھائی نے شئیر کی ہے اسے ہمارے ہاں "ٹکِڑے" کہا جاتا ہے۔ گھر میں کبھی نہیں بنائے البتہ چچی کے ہاتھ کے بنے ہوئے بچپن میں کھائے ہیں اور پچھلے فرائیڈے سکول کی بچی لیکر آئی تھی سب ٹیچرز کے لیے۔پتہ نہیں اب آپ کے ہاں اسے کیا کہا جاتا ہے۔
باقی بیگن کا بھرتہ اور کڑھی یہ تو بہت عام پکوان ہیں اور یہاں تو تقریبا ہر گھر میں شوق سے پکائے اور کھائے جاتے ہیں۔"بوہلی" کبھی نہیں کھائی کیونکہ اچھی نہیں لگتی۔ میرے ابو نے کچھ عرصہ ڈیری فارم بنایا تھا جس میں گائے اور بھینس رکھی تھی۔ مگر دودھ،مکھن اور لسی کے بہت مزے لیے جبکہ یہ کسی کو بھی پسند نہیں تو کبھی گھر نہیں لائے تھے۔
 

ہادیہ

محفلین
نشاستہ بھی بہت عام ہے اور میرا اسے بنانے میں تجربہ بھی ہے(پکانے والا نہیں بلکہ وہ جو گندم سے نکالتے ہیں باقاعدہ مشین کے ذریعے،مشین بھی ہاتھ کی مدد سے چلاتے ہیں اور نشاستہ نکالتے ہیں)۔۔:ڈی
 

لاریب مرزا

محفلین
سید شہزاد ناصر چچا جان!! بہت مزیدار موضوع شروع کیا ہے آپ نے۔ ہم دیسی کھانوں کے دلدادہ ہیں۔ فاسٹ فوڈ ہمیں ذاتی طور پر پسند نہیں۔ کبھی مجبوری میں کھانا پڑے تو اور بات ہے۔ مذکورہ بالا دیسی کھانوں میں سے بہت سے ہمارے گھر بھی بنتے ہیں اور ہم خوب مزے لے کر کھاتے ہیں۔ :act-up:
 
آپس کی بات ہے شاہ جی، مجھے تو "بوہلی" کے نام سے ہی ابکائیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں، باقی دیگر پکوان مزے کے لگتے ہیں اور ان میں سے کبھی کبھی کچھ کھانے کو بھی مل جاتا ہے۔ ساگ تو ہر سردیوں میں پکتا ہے لیکن مکئی کی روٹی نہیں ملتی پراٹھے سے کام چلانا پڑتا ہے۔ مذکورہ دالیں چونکہ بنا کر ہفتوں تک کافی کھائی جاتی ہیں سو بچپن میں والدہ ان کو مجھ سے بچانے کے لیے اپنی الماری میں رکھتی تھیں۔ :)
اس معاملے میں ہم بھی بڑے بدنام رہے
گھر جو بھی چیز کم ہوتی فورا ہم پر شک کیا جاتا "چندو نے نقب لائی آ"
 

محمد وارث

لائبریرین
ویسے میرے سمیت جس جس بزرگ کو پنجیری اور پنیاں اور گُڑ اور دالیں یاد آ رہی ہیں اور بری طرح ناسٹلجیا کے مرض میں مبتلا کر رہی ہیں ان کو ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ تہذیب و ثقافت و رسم و رواج بھی ارتقا پذیر ہیں اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں اگر ہمارے بچوں نے السی کی پنیاں اور گڑ بنتا ہوا نہیں دیکھا تو ہم نے بھی کبھی اپنے بچپن میں شوارما یا میکڈونلڈ کا برگر یا کمپیوٹر یا موبائل نہیں دیکھا تھا۔ :)
 

زیک

مسافر
ویسے میرے سمیت جس جس بزرگ کو پنجیری اور پنیاں اور گُڑ اور دالیں یاد آ رہی ہیں اور بری طرح ناسٹلجیا کے مرض میں مبتلا کر رہی ہیں ان کو ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ تہذیب و ثقافت و رسم و رواج بھی ارتقا پذیر ہیں اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں اگر ہمارے بچوں نے السی کی پنیاں اور گڑ بنتا ہوا نہیں دیکھا تو ہم نے بھی کبھی اپنے بچپن میں شوارما یا میکڈونلڈ کا برگر یا کمپیوٹر یا موبائل نہیں دیکھا تھا۔ :)
نسٹالجیا لاعلاج مرض ہے۔

بچپن میں موبائل تو نہیں لیکن شاورما تو کھایا تھا اور کمپیوٹر بھی موجود تھا اپنا
 
Top