پاکستان کا لبیک دھرنا

محمد وارث

لائبریرین
ہو سکتا ہے کہ یہ عمران خان کی دھرنے کی سپورٹ کے بعد مقابلہ برابر کرنے کے لئے کیا گیا ہو۔
جی بالکل، اب یہ ایک زبردست سیاسی ایشو بنے گا۔ ن لیگ نے بھی بارہ ربیع الاول اہتمام سے منایا ہے اور پی پی پی بھی پیچھے نہیں رہے گی۔
 

یاز

محفلین
ماشاءاللہ۔ کیا خوب مباحثہ و مناظرہ و مبازرت جاری ہے۔
ابنِ انشاء جی کی یاد آ گئی۔ ایک کتاب میں فرما گئے کہ ایک دائرہ اسلام کا بھی ہوتا ہے، پہلے اس میں لوگوں کو داخل کیا جاتا تھا، اب نکالا جاتا ہے۔
 

سین خے

محفلین
جی بالکل، اب یہ ایک زبردست سیاسی ایشو بنے گا۔ ن لیگ نے بھی بارہ ربیع الاول اہتمام سے منایا ہے اور پی پی پی بھی پیچھے نہیں رہے گی۔

اس سارے سلسلے میں ناجانے پاکستانی شہریوں کی جان اور مال کی کتنی شامت آئے گی۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ مذہب کے نام پر ایک دوسرے پر اپنی گندی سیاست اور دکھاوے کی مدد سے سبقت لے جانے کی کوشش کی جائے گی۔
 

فرقان احمد

محفلین
ختم نبوت کا ایشو، پاکستان کے آئندہ انتخابات میں ایک اہم ایشو بننے جا رہا ہے، ثبوت کے طور پر یہ تصویر دیکھیے، اے این پی ختم نبوت دفتر کھول رہی ہے:
DQR3pmIVQAA3sru.jpg:large

سیاست دانوں کا یہ رویہ غیر مناسب ہے۔ اگر خفیہ قوتیں بھی ختم نبوت کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں تو پھر اس کے نتائج سے بھی آگاہ رہنا چاہیے۔ مذہبی گروہ جب بھی فرنٹ پر آئے، ملک مزید پیچھے چلا گیا۔ اس میں اسلام کو کوئی قصور نہیں، معاملہ یہ ہے کہ تقسیم در تقسیم مذہبی قوتیں معاشرے کو مزید انتشار کا شکار کر دیں گی۔ گو کہ اسے بدقسمتی کہا جا سکتا ہے تاہم سچ یہی ہے۔ یاد رہے کہ ہم پہلے ہی منقسم معاشرے کا حصہ ہیں۔ جناح نے بھی اسی لیے تھیوکریسی یا ملاازم کو سیاسی معاملات سے دور رکھنے کے لیے کہا تھا۔ ہم خود دائیں بازو سے متعلق ہیں، تاہم، جو کچھ دکھائی دے رہا ہے، وہ تشویش ناک ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ دین کو سیاست سے جدا نہیں ہونا چاہیے، یہ بھی الگ معاملہ ہے۔ یہاں دین کے لیے تو کم ہی کام ہو رہا ہے، ہر فرقہ اس بات کا آرزومند ہے کہ وہ تخت پر براجمان ہو جائے۔ اور اس کے بعد کیا ہو گا؟ انہیں خود بھی کچھ خبر نہیں۔ امکان یہی ہے کہ ایک مذہبی گروہ کسی بھی طریقے سے برسراقتدار آئے گا تو اس کے خلاف اسی شدت سے ایک اور مذہبی گروہ سیاست بازی میں ملوث ہو جائے گا۔ مذہب کی بنیاد پر بننے والے جتھے اور فرقے کس حد تک خطرناک ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ مسالک اور مکتبہ ہائے فکر کی حد تک تو معاملہ ٹھیک ہے، تاہم جتھے بندیاں ہو گئیں تو پھر اس ملک میں بہت فساد پھیلے گا۔ اللہ نہ کرے!
 

نبیل

تکنیکی معاون
فی الحال اس تھریڈ کو مقفل کیا جا رہا ہے۔ اس میں ضروری تخذیف کے بعد اسے بحال کیا جا سکتا ہے۔
میری درخواست ہے کہ اس بحث کو علیحدہ تھریڈز میں نہ پھیلایا جائے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اس تھریڈ پر پھر سے پوسٹ کیا جا سکتا ہے۔ اگر دوبارہ اسے موضوع سے ہٹانے کی کوشش کی گئی تو اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔
 

زیک

مسافر
اس تھریڈ پر پھر سے پوسٹ کیا جا سکتا ہے۔ اگر دوبارہ اسے موضوع سے ہٹانے کی کوشش کی گئی تو اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔
شکریہ نبیل۔

دھرنا، ان گروپس کی ڈیمانڈز وغیرہ سب سیاسی مذہبی رنگ لئے ہے۔ لہذا سیاسی تناظر میں مذہب پر ڈسکشن تو ہو گی لیکن خالصتا مذہب و عقائد پر بات یہاں برمحل نہیں
 

زیک

مسافر
ختم نبوت کا ایشو، پاکستان کے آئندہ انتخابات میں ایک اہم ایشو بننے جا رہا ہے، ثبوت کے طور پر یہ تصویر دیکھیے، اے این پی ختم نبوت دفتر کھول رہی ہے:
DQR3pmIVQAA3sru.jpg:large
تمام پارٹیاں اپنے اپنے انداز میں مذہب کو سیاسی میدان میں سامنے لائیں گی۔ اے این پی اقدار و روایات کے حساب سے تو رجعت پسند تھی ہی اب مذہب کے معاملے میں بھی بن رہی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
لبیک دھرنا تو اختتام پذیر ہوا، تاہم، مستقبل میں اس دھرنے کی 'کامیابی' کے باعث کئی خدشات نے بھی سر اٹھا لیا ہے۔

1۔ دیگر مذہبی اور لسانی گروہوں کو شہ ملے گی کہ وہ چند ہزار افراد ساتھ لے کر اسلام آباد کو فتح کر سکتے ہیں یا کم از کم اپنے مطالبات منوا کر اہم اسٹیک ہولڈر بن سکتے ہیں۔
2۔ اسلام آباد میں رہنے والوں کی زندگی مزید اجیرن ہونے کے گہرے خدشات پائے جاتے ہیں۔
3۔ انتہاپسندی اور شدت پسندی کو مزید رواج ملے گا۔ لوگ قانون میں ہاتھ میں لینے کو عار نہ سمجھیں گے۔ یعنی کہ خوب توڑ پھوڑ کی جائے، ہنگامہ مچایا جائے اور پھر مقدمات واپس ہو جائیں۔
4۔ ریاستی رٹ مزید کمزور پڑ جائے گی۔
5۔ معاشی و اقتصادی حالات مزید دگرگوں ہو سکتے ہیں۔

وغیرہ وغیرہ!
 

فاخر رضا

محفلین
اس دھرنے نے ثابت کردیا کہ پاکستان کو آرمی نے ایک پلے گراؤنڈ بنایا ہوا ہے۔ جس طرح چاہتے ہیں اس میں کھیلتے ہیں۔ انگریزوں کو کالج کی نہیں سوجھی تھی انہوں نے بے وقوفی کی۔ ہماری آرمی بھی اب مارشل لا نہیں لگائے گی۔ وقتاََ فوقتاََ اس طرح کے ٹریلر دکھاکر کسی بھی حکمران کو زیر کرلےگی۔ سارا نقصان بھی حکومت کو بھرنا پڑے گا۔ خدا ان دھرنا دینے والوں کو غارت کرے۔ انہیں کبھی سکھ چین نصیب نہ ہو۔ انہوں نے عام عوام کو بہت ستایا ہے۔ نواز کی حکومت تو ویسے بھی اصل میں ختم ہوچکی ہے۔ اب عمران سمجھ رہا ہے کہ وہ آرمی کا نور نظر بن کر خوش رہے ۔ عمران کو یہ پتہ چل جائے گا۔ انشاءاللہ
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
سوری... مشٹیک ہو گیا از حاشر ابن ارشاد
حوالہ: سوری۔۔۔ مشٹیک ہو گیا - ہم سب


“چھری پیٹ چاک کرتی ہوئی ناف کے نیچے تک چلی گئی۔ آزار بند کٹ گیا۔چھری مارنے والے کے منہ سے دفعتہً کلمۂ تاسف نکلا۔ ’’چ چ چ چ۔۔۔ مِشٹیک ہو گیا”

کچھ یاد آیا۔ منٹو کے سیاہ حاشیے اب پھر لگ رہے ہیں۔ پر رنگ پہلے سے کہیں چوکھا ہے اور مشٹیک پر مشٹیک کے بعد بھی تاسف کا کوئی رنگ نہیں ہے۔

تلوار ، بھالے اور بلم لیے بلوائی جب تقسیم کی مانگ میں خون بھرنے باہر نکلتے تو شلواریں اتار کر فیصلہ کرتے کہ گھیرے میں آئے ہوے شکار کے ٹکڑے کرنے ہیں یا اسے امان بخشنی ہے۔ ہر جتھہ اپنی جگہ تفتیشی افسر، مجسٹریٹ اور جلاد تھا۔ فیصلے بروقت تھے اور عمل تیز تر تھا۔ زمین پر ایک لکیر کھینچنے کی ایسی قیمت فلک نے کبھی لگتے نہ دیکھی تھی۔ امرتا پریتم اپنی فریاد لیے وارث شاہ کے دربار جا پہنچی

اج آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پَھول

اک روئی سی دھی پنجاب دی، تُوں لکھ لکھ مارے بین
اج لکھاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن

اُٹھ درد منداں دیا دردیا، اُٹھ ویکھ اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب

پر وارث شاہ سوتا تھا اور کرشن چندر اور منٹو کے بین سننے کی کسی کو فرصت نہیں تھی۔ وقت گزر گیا کہ وقت ہمیشہ گزر ہی جاتا ہے چاہے ایسے گزرے جیسے شہر مدفون پر گزرتا ہو۔ لاشوں کے اوپر نئی عمارتوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ زمین خون پی کر پودے اگل دیتی ہے۔ نئی نسلیں نیا آموختہ پڑھ کر بڑی ہو جاتی ہیں۔ اور سب سیاہ حاشیوں پر سنہرا پانی چڑھا دیا جاتا ہے۔

بنیاد میں نفرت گھلی تھی۔ انسان کو انسان سے الگ دیکھنا مقصود تھا وہ عقیدے کے نام پر پر ہو یا زبان کے حوالے سے۔ 24 سال گزرے کہ پھر دھوتیوں کے اندر جھانکنے کی ضرورت پڑ گئی۔ س اور ش کے تلفظ پر تلوار کے زاویے سیدھے کیے گئے۔ پنجابی پونزابی ہو گیا اور بنگالی، سالا بنگالی۔ پہلے جہلم، راوی اور چناب کے بیلے تھے اب پدما، جمونا اور میگھنا کے کنارے تھے۔ خون کا رنگ ویسا ہی سرخ تھا اور زمین میں کھینچی گئی لکیر اب بھی اتنی ہی گہری تھی۔ نفرت کے بیج سے ایک اور کیکٹس پھوٹتا تھا۔

اس بیچ ایک اور کہانی لکھی جا رہی تھی۔ اب عقیدہ در عقیدہ ایک اور دفتر کھل رہا تھا۔ 1953 میں لاہور کی سڑکوں پر لہو رنگ اتمام حجت ہوئی۔ 1974 میں اس حجت پر پارلیمان نے ٹھپہ ثبت کر دیا۔ اس سے تسلی نہ ہوئی تو ایک کے بعد ایک اور تحریک بپا کی گئی۔ غالبا ان کا مقصد یہ تھا کہ اب روز حشر منعقد کر کے ایک ہی دفعہ دوزخ کے دروازے کھول دیے جائیں اور اس وقت ہی بند کیے جائیں جب آخری راندہ درگاہ کا وجود بھی پار نہ اتر جائے۔ اس کے علاوہ تو اور کوئی منطق ہمیں سمجھ نہیں آئی۔ عقیدوں کی تقسیم کی کہانی کے ابھی بہت اور باب بھی لکھے جانے تھے۔ حجرہ ہفت بلا کھولنے کے بعد پتہ لگا کہ عفریت تو لشکر کی صورت میں ہے اور ہر عفریت کے نو سر ہیں۔ لڑنے والے کسی ہرکولیس کو کبھی عوام سے لولاس نہیں مل سکا تو جب کبھی ایک سر کہیں کٹ بھی گیا اس کی جگہ دو اگ آئے۔ ایک قدم آگے رکھا تو ہر بار دو قدم پیچھے پھسل گئے۔ ملک سے آسیب کا سایہ کبھی بھی پاک نہ ہو سکا۔ ہر عقیدے نے دوسرے عقیدے کے خلاف عدالت سجا لی۔ ان عدالتوں کی تعزیر کی کتاب بڑی مختصر نکلی کہ اس میں ہر الزام کی صرف ایک سزا درج پائی گئی۔ ” سر تن سے جدا” ۔

سر محضر کہیں کوئی مہر نہیں ہے۔ دیکھنے میں سب ایک سے لگتے ہیں۔ ایک سے اطوار، ایک سی بولی، ایک سا چلن۔ پہلے شلوار اور دھوتی اتارنے کا حکم ملتا تھا اب کرتا اتار کر کمر پر عزا داری کے نشان دیکھے جاتے ہیں۔ شناختی کارڈ پر نام کے تجزیے کیے جاتے ہیں۔ پراس سے بھی عجب یہ ہے کہ کرتا اتارنے اور اتروانے والے دونوں کبھی ایک صف میں بھی نظر آ جاتے ہیں۔ اب غنیم وہ ٹھہرتا ہے جس کی کمر پر نشان بھی نہیں ہے اور نام میں بھی تخصیص کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ اس سے مقابلے سے پہلے صفیں سیدھی کر کے اپنے اپنے حاضر اور غائب پیشوا، قطب اور ابدال اور ظہور ہونے والی امامت کے سارے دفتر چھپا دیے جاتے ہیں کہ کہیں اپنی ہی صفیں ان کے بوجھ سے الٹ نہ جائیں۔ پھر نعرے بلند ہوتے ہیں۔ اقرار اور انکار کے الزام کے تیر چلتے ہیں۔ ہر لحظہ عزت، آبرو اور ناموس کے نادیدہ مینارے مزید لرزہ براندام ہوئے جاتے ہیں اور محافظان صور ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ اسے پھونک ہی ڈالیں۔

یہ تماشہ لگتا ہے اور بار بار لگتا ہے۔ ہم جیسے کور چشم سمجھ نہیں پاتے کہ عظیم تر مقصد ہے کیا۔ یار من عاصم بخشی نے اپنے صاحبزادے کی بات بتائی کہ اس کے استفسار پر بتایا کہ مقدمہ یہ ہے کہ ایک گروہ پر الزام ہے کہ وہ عقیدے کے ایک جزو کی عمومی تعریف کو نہیں مانتا۔ صاحبزادے ابھی چھوٹے ہیں، ذہن کشادہ ہے اور گرد پھیلی آلودگی نے ابھی انہیں لپیٹ میں نہیں لیا تو وہ جواب جو ہم نہ دیکھ پائے انہوں نے پا لیا۔ کہنے لگے کوئی نہیں مانتا تو نہ مانے، اس میں جھگڑنے کی کیا بات ہے۔ جواب آسان تو ہے پر مسئلہ یہ ہے کہ رزم میں ڈٹے لوگوں کی اکثریت کو تو سوال کا بھی ٹھیک سے نہیں پتہ تو جواب کیا سمجھیں گے اور شطرنج کی بساط پر مہرے چلانے والے سارے جوابات سے آگاہ ہیں پر ان کی اپنی گدی تب تک ہی سلامت ہے جب تک پیادوں کی آنکھوں پر پٹی بندھی رہے اور کانوں میں سیسہ پڑا رہے۔ سامنے کا جواب بھی کوئی دیکھے تو کیسے دیکھے۔ سنے تو کیسے سنے۔

پیر افضل قادری نے خادم رضوی کے درجے بلند کرتے کرتے آسمان مین ایسی تھگلی لگائی کہ ہم میں سے کوئی یہ جسارت کرتا تو معافی مانگنے کے بعد بھی سر گنواتا پر ارباب مذہب کا کرشمہ یہ ہے کہ جس الزام پر عام شخص سولی چڑھتا ہے وہ اس پر اور معتبر ٹھہرتے ہیں کہ دلیل کا منبر بھی ان کا ہے اور تشریح کے مائیکروفون پر بھی انہی کا قبضہ ہے۔ پر اسے چھوڑیے کہ سچ تو یہی ہے کہ زمین پر خدائی فوجدار ہی تو اترے ہیں۔ عقیدے کا کاپی رائٹ ان کی ٹکسال میں ڈھلتا ہے۔ لفظ بھی ان کی جاگیر ہیں اور اصطلاحات بھی۔ عبادت کا طریق بھی یہ ایجاد کرتے ہیں اور سلام کا طریق بھی۔ یہ فیصلہ بھی ان کا ہے کہ کس کو کس نام سے بلایا جا سکتا ہے اور کون سا نام کس پر حرام ہے۔ یہ اختیار ان کا اپنا بنایا ہوا ہے۔ انہیں وقت کے خدا جانیے تو پھر اسے خداداد سمجھیے۔

اب یہ ایک “گھیٹو” بنانے کے متمنی ہیں۔ ایک انسانی باڑہ بنا دیا جائے۔ لوگوں کے گلے میں ان کی دی گئی پہچان کے طوق لٹکا دیے جائیں اور ہر ایک کو ایک سند عطا ہو کہ اس کی رو سے ہر حق انسانی اس پر حرام ٹھہرے۔ باڑے کے مکینوں کی اہلیت ایک ہی ہو اور وہ یہ کہ جہاں باقی سب انسان ہیں تو یہ ذرا کچھ کم انسان ہیں اور اس واسطے ان کے گلے میں طوق ہے اور ہاتھوں میں حلف نامے۔ ان کا فردا ہم نے لکھنا ہے اور اس فردا میں صرف سیاہ حاشیے ہیں۔ کوئی سنہرا لفظ نہیں ہے۔

اب ناکے لگنے والے ہیں۔ سولیاں گڑنے والی ہیں ۔ تحریک کے مجسٹریٹ اب ہر ناکے پر ایمان کے سرٹیفیکیٹ چیک کیا کریں گے۔ وزیر باتدبیر اب خداوندان ارض کی درگاہوں میں تجدید ایمان کریں گے۔ اب میزان ایستادہ کر دیے گئے ہیں۔ جس کا تول پورا نہ پڑا، سولی اس کی منتظر ہے پر کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ ترازو کے پلڑوں کا اپنا وزن برابر ہے بھی کہ نہیں۔ ہم تباہی کے پیغامبروں کی اقتدا میں کھڑے ہیں اور فخریہ کھڑے ہیں۔ دیوار پر کیا لکھا ہے۔ پڑھنے والے پڑھ سکتے ہیں پر وہ تھوڑے ہیں اور خوف نے ہونٹوں پر تالے ڈالے ہوئے ہیں۔ پر یاد رہے کہ تاریخ بے رحم ہے۔ اس کے صفحات پر ہمارے نوحے لکھے جانے کو ہیں۔ یقین رکھیے کہ کچھ صدیوں بعد اس دور کا بوجھ اٹھائی نسلوں کے پاس سوائے اس کے کچھ کہنے کو نہ ہو گا۔ “سوری۔ مشٹیک ہو گیا”
 
سیاست دانوں کا یہ رویہ غیر مناسب ہے۔ اگر خفیہ قوتیں بھی ختم نبوت کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں تو پھر اس کے نتائج سے بھی آگاہ رہنا چاہیے۔ مذہبی گروہ جب بھی فرنٹ پر آئے، ملک مزید پیچھے چلا گیا۔ اس میں اسلام کو کوئی قصور نہیں، معاملہ یہ ہے کہ تقسیم در تقسیم مذہبی قوتیں معاشرے کو مزید انتشار کا شکار کر دیں گی۔ گو کہ اسے بدقسمتی کہا جا سکتا ہے تاہم سچ یہی ہے۔ یاد رہے کہ ہم پہلے ہی منقسم معاشرے کا حصہ ہیں۔ جناح نے بھی اسی لیے تھیوکریسی یا ملاازم کو سیاسی معاملات سے دور رکھنے کے لیے کہا تھا۔ ہم خود دائیں بازو سے متعلق ہیں، تاہم، جو کچھ دکھائی دے رہا ہے، وہ تشویش ناک ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ دین کو سیاست سے جدا نہیں ہونا چاہیے، یہ بھی الگ معاملہ ہے۔ یہاں دین کے لیے تو کم ہی کام ہو رہا ہے، ہر فرقہ اس بات کا آرزومند ہے کہ وہ تخت پر براجمان ہو جائے۔ اور اس کے بعد کیا ہو گا؟ انہیں خود بھی کچھ خبر نہیں۔ امکان یہی ہے کہ ایک مذہبی گروہ کسی بھی طریقے سے برسراقتدار آئے گا تو اس کے خلاف اسی شدت سے ایک اور مذہبی گروہ سیاست بازی میں ملوث ہو جائے گا۔ مذہب کی بنیاد پر بننے والے جتھے اور فرقے کس حد تک خطرناک ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ مسالک اور مکتبہ ہائے فکر کی حد تک تو معاملہ ٹھیک ہے، تاہم جتھے بندیاں ہو گئیں تو پھر اس ملک میں بہت فساد پھیلے گا۔ اللہ نہ کرے!

بذریعہ دین ، سیاسی تخت ۔۔۔
دین کو سیاست سے الگ کرنا اس لئے ضروری ہے تاکہ مذہبی سیاسی بازیگروں کو گھر بھیجا جاسکے ۔ اور اقلیتیں ، عیسائی، ہندو، سکھ، بد، پارسی، یہودی، قادیانی، سکون کی فضا مٰن سانس لے سکیں ۔
 
اس دھرنے نے ثابت کردیا کہ پاکستان کو آرمی نے ایک پلے گراؤنڈ بنایا ہوا ہے۔
آجا کر سارا ملبہ پھر آرمی پر ڈالنے کی بھونڈی کوشش۔ 1953 میں ہونے والے احمدی مخالف فسادات پر پہلی بار افواج نے سیاست میں قدم رکھا تھا۔ اور ملک میں پہلی بار لاہور میں مقامی مارشل لا لگایا گیا۔ یہ سب بھی آجکل کے دور کی طرح عوامی حکومت کو مجبوراً کرنا پڑا کہ دھرنا فساد کرنے والوں کو روکنا عام پولیس کی بس سے باہر ہے۔ لیکن اسکا نتیجہ بھی دور جدید کی "ڈیل" کی صورت میں نکلا۔ عدالت نے مولانا مودودی اور دیگر احمدیت مخالفین کو فساد فی الارض کے جرم میں عمر قید یا پھانسی کی سزا سنائی تو آرمی سرکار نے ڈیل کرکے انہیں گھر بھیج دیا۔ ماشاءاللہ پاکستان زندہ باد۔
 
Top