پاکستان کا لبیک دھرنا

الف نظامی

لائبریرین
جی ہاں! مولوی صاحبان کا ہرگز کوئی قصور نہ تھا۔ وہ اسلام آباد میں دھرنا دینے کے لیے جمع ہوئے تھے اور حکومت نے ان کے لیے تمام راستے بند کر دیے۔ انہیں پریڈ گراؤنڈ پر متعین جگہ فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ :) مزید یہ کہ، جڑواں شہروں کی زندگی بھی حکومت نے اجیرن بنا دی تھی۔ ان نہتے مظاہرین کے نام پر مولویوں نے خوب ٹسوے بہائے، چندہ سمیٹا، سیاسی جماعت کے قیام کی نوید سنائی اور چلتے بنے۔ :) سبحان اللہ ۔۔۔!!!
حکومت نے زندگی اجیرن اس طرح بنائی کہ جو متبادل راستے موجود تھے انہیں بھی دانستہ طور پر بند کر دیا۔دراصل حکومت اس وقت جب کہ الیکشن نزدیک ہیں اور کسی طرح امن و امان کی صورت حال خراب کر کے سیاسی شہادت کی شدید خواہاں تھی جو افسوس ہے کہ انہیں نہ مل سکی۔
جہاں تک سیاسی جماعت کا تعلق ہے وہ تو پہلے سے قائم ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
حکومت نے زندگی اجیرن اس طرح بنائی کہ جو متبادل راستے موجود تھے انہیں بھی دانستہ طور پر بند کر دیا۔دراصل حکومت اس وقت جب کہ الیکشن نزدیک ہیں اور کسی طرح امن و امان کی صورت حال خراب کر کے سیاسی شہادت کی شدید خواہاں تھی جو افسوس ہے کہ انہیں نہ مل سکی۔
جہاں تک سیاسی جماعت کا تعلق ہے وہ تو پہلے سے قائم ہے۔
جناب، متعین مقام مولویوں کے لیے تھا، نہ کہ عوام کے لیے۔ حکومت سیاسی شہادت کی شدید خواہاں تھی تو کیا یہ مولوی شہید ساز تھے؟ منٹو کا افسانہ 'شہید ساز' یاد آ گیا، یہ روداد پڑھ کر! حضرت! حکومت کی مخالفت میں ان جتھوں کی حمایت نہ فرمائیں، لانگ ٹرم میں مہنگا سودا ہے؟ کاش آپ ان مولویوں کے چنگل سے نکل پائیں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
جناب، متعین مقام مولویوں کے لیے تھا، نہ کہ عوام کے لیے۔ حکومت سیاسی شہادت کی شدید خواہاں تھی تو کیا یہ مولوی شہید ساز تھے؟ منٹو کا افسانہ 'شہید ساز' یاد آ گیا، یہ روداد پڑھ کر! حضرت! حکومت کی مخالفت میں ان جتھوں کی حمایت نہ فرمائیں، لانگ ٹرم میں مہنگا سودا ہے؟ کاش آپ ان مولویوں کے چنگل سے نکل پائیں؟
سیاسی شہادت کی خواہش میں حکومت نے قتل عام کیا اسی وجہ سے میڈیا کو کلی طور پر بلیک آوٹ کر دیا گیا۔

جتھے یعنی اجتماع :
1- بے نظیری و قاضی و عمرانی و قادری و افتخار چوہدری دھرنا غیر آئینی تھا اس کی عدلیہ سے کوئی نظیر پیش کیجیے
2-
آئین پاکستان :
آرٹیکل 16
اجتماع کی آزادی
امن عامہ کے مفاد میں قانون کے ذریعے عائد کردہ پابندیوں کے تابع ، ہر شہری کو پر امن طور پر اور اسلحہ کے بغیر جمع ہونے کا حق ہوگا۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
سیاسی شہادت کی خواہش میں حکومت نے قتل عام کیا اسی وجہ سے میڈیا کو کلی طور پر بلیک آوٹ کر دیا گیا۔

جتھے یعنی اجتماع : 1- بے نظیری و قاضی و عمرانی و قادری و افتخار چوہدری دھرنا غیر آئینی تھا اس کی عدلیہ سے کوئی نظیر پیش کیجیے
2-
آئین پاکستان :
آرٹیکل 16
اجتماع کی آزادی
امن عامہ کے مفاد میں قانون کے ذریعے عائد کردہ پابندیوں کے تابع ، ہر شہری کو پر امن طور پر اور اسلحہ کے بغیر جمع ہونے کا حق ہوگا۔

دھرنے کی ہر مہذب معاشرے میں اجازت ہوتی ہے تاہم راستے کی بندش کے کیا معنی تھے؟ جو اشتعال انگیز تقاریر کی گئیں، ان کی بابت آپ کا کیا خیال ہے؟ حتیٰ کہ عدالتِ عظمیٰ کے ججوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ صدرِ پاکستان کا مذاق اڑایا گیا۔ کہاں تک سننا پسند فرمائیں گے محترم!
 

سید عمران

محفلین
جناب کا اشارہ اگر ملاؤں کی طرف ہے تو یہ صرف اور صرف غرق کرسکتے ہیں۔ ان کا مسئلہ بہت ہی بڑا ہے، یہ لوگ دیکھ چکے ہیں کہ مذہبی سیاسی بازیگری کس طرح عباسی خلفاء کے دور میں پنپتی رہی اور کس طرح اس کا مغلیہ دور میں استعمال کیا گیا۔ پاکستانی قوم کو ایک بار یہ دفعہ 295 سی پاس کروا کر شکست دے چکے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب جس کو چاہیں گے دفعہ 295 سی کی مدد سے تہہ تیغ کردیں گے۔ فساد اور توہین رسالت کا جو جرم ان مذہبی سیاسی بازیگروں نے رسول کی ناموس کی نام پر توین رسول کر کے کیا ہے، وہ ارزل ترین جرم ہے۔ آج قمر باجوہ کا ساتھ ہے۔ تو کوئی ان کے خلاف 295 سی کے تحت مقدمہ قائم نہں کرسکتا۔ لیکن ایک دن یہی 295 سی کی تلوار سے یہ تہہ تیغ کئے جائیں گے۔
سیاسیوں سے ہمیں کوئی مطلب نہیں...
چاہے وہ کوئی بھی ہو!!!
 

الف نظامی

لائبریرین
دھرنے کی ہر مہذب معاشرے میں اجازت ہوتی ہے تاہم راستے کی بندش کے کیا معنی تھے؟ جو اشتعال انگیز تقاریر کی گئیں، ان کی بابت آپ کا کیا خیال ہے؟ حتیٰ کہ عدالتِ عظمیٰ کے ججوں بھی نہ بخشا گیا۔
راستے کی بندش :
جواب عرض کر چکا ہوں۔

عدالتِ عالیہ ہمارے سر آنکھوں پر لیکن فوج کی مدد سے معاہدہ آئینی حدود سے تجاوز نہیں تھا کیونکہ حکومت نے خود فوج سے اس کی استدعا کی اور حکومت نے ایسا کیوں کیا اس کا جواب آپ انہیں سے لیجیے میں اس کا جواب دینے کا مجاز نہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
راستے کی بندش :
جواب عرض کر چکا ہوں۔

عدالتِ عالیہ ہمارے سر آنکھوں پر لیکن فوج کی مدد سے معاہدہ آئینی حدود سے تجاوز نہیں تھا کیونکہ حکومت نے خود فوج سے اس کی استدعا کی اور حکومت نے ایسا کیوں کیا اس کا جواب آپ انہیں سے لیجیے میں اس کا جواب دینے کا مجاز نہیں۔

بحث طویل ہوتی جا رہی ہے۔ اب ہم ایک اچھی سی بین یا بانسریا لے کر بھینس کے آگے بجانا پسند فرمائیں گے!!!ممکن ہے، شاید وہ مان جائے ہماری بات۔ جہاں تک آپ کا معاملہ ہے پیارے بھیا، آپ کسی طور گرفت میں نہیں آ سکتے۔ آپ ایک بہترین وکیل ہیں جو برے سے برا مقدمہ بھی بہت اچھی طرح لڑ سکنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں۔ :) :) :)
 

الف نظامی

لائبریرین
بحث طویل ہوتی جا رہی ہے۔ اب ہم ایک اچھی سی بین یا بانسریا لے کر بھینس کے آگے بجانا پسند فرمائیں گے!!!ممکن ہے، شاید وہ مان جائے ہماری بات۔ جہاں تک آپ کا معاملہ ہے پیارے بھیا، آپ کسی طور گرفت میں نہیں آ سکتے۔ آپ ایک بہترین وکیل ہیں جو برے سے برا مقدمہ بھی بہت اچھی طرح لڑ سکنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں۔ :) :) :)
چلیے جیسے آپ مناسب سمجھیں۔ والسلام
 
امت مسلمہ کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ ہر وور میں جب بھی کوئی شوشہ اٹھا ہے، خواہ اسے پروپیگنڈے کی بنیاد پر کتنا ہی اچھالا گیا ہو، لیکن اسے امت کے اجتماعی ضمیر نے قبول نہیں کیا، ایک مخصوص زمانہ گزرنے کے بعد ان کی آواز ہوا ہوگئی۔
یہ اس بات کی علامت ہے کہ قوم میں زندگی کی رمق باقی ہے اور وہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
کسی عمل پر رد عمل ایک فطری بات ہے، لیکن مجھے ہمیشہ اس بات دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اختلاف کرنے یا اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے الفاظ، انداز اور لب ولہجہ کے انتخاب کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، جس سے بسا اوقات ایک عمدہ اور اچھی بات بھی نہ صرف یہ کہ اپنا اثر کھودیتی ہے بلکہ الٹا نقصان کا باعث بنتی ہے۔
اگر ہم معاشرے میں بہتری کے خواہش مند ہیں تو ہمیں اس روش کو ترک کردینا چاہیے۔
 
میں تو کہتا ہوں کہ اگر آپ کسی پر تنقید کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کو اپنے عمل اور رویّے سے ثابت کرنا ہوگا کہ آپ اس غلطی کرنے والے سے بہتر ہیں۔
اگر آپ یہ ثابت نہیں کرسکتے تو آپ کو تنقید کا کوئی حق نہیں!
اس موقع پر مجھے صحیح بخاری کی یہ حدیث مبارکہ یاد آتی ہے کہ ایک صاحب رسول کریمﷺ کے پاس حاضر ہونا چاہتے تھے، آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا "بِئْسَ أَخُو العَشِيرَةِ" یعنی اپنے قبیلے كا برا آدمی ہے، ليكن جب وہ آئے تو آپ نے ان سے بہت مسکرا کر اچھے انداز میں گفتگو فرمائی، ان کے جانے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا کہ آپ نے تو اسے برا آدمی فرمایا لیکن پھر آپ ان سے بہت اچھے طریقے سے ملے، آپ نے فرمایا"اے عائشہ! تم نے مجھے فحش گوئی کرنے والا کب دیکھا ہے؟۔۔۔"
 

سین خے

محفلین
امت مسلمہ کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ ہر وور میں جب بھی کوئی شوشہ اٹھا ہے، خواہ اسے پروپیگنڈے کی بنیاد پر کتنا ہی اچھالا گیا ہو، لیکن اسے امت کے اجتماعی ضمیر نے قبول نہیں کیا، ایک مخصوص زمانہ گزرنے کے بعد ان کی آواز ہوا ہوگئی۔
یہ اس بات کی علامت ہے کہ قوم میں زندگی کی رمق باقی ہے اور وہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
کسی عمل پر رد عمل ایک فطری بات ہے، لیکن مجھے ہمیشہ اس بات دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اختلاف کرنے یا اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے الفاظ، انداز اور لب ولہجہ کے انتخاب کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، جس سے بسا اوقات ایک عمدہ اور اچھی بات بھی نہ صرف یہ کہ اپنا اثر کھودیتی ہے بلکہ الٹا نقصان کا باعث بنتی ہے۔
اگر ہم معاشرے میں بہتری کے خواہش مند ہیں تو ہمیں اس روش کو ترک کردینا چاہیے۔

آپ نے اچھی بات کہی۔ میرا آپ سے ایک سوال ہے یہ جو الفاظ کے انتخاب کے بارے میں آپ کہہ رہے ہیں کیا یہ بات صرف عام مسلمانوں کے لئے آپ نے کہی ہے یا اس میں علماء اکرام بھی شامل ہیں جیسے خادم رضوی صاحب؟
 
آپ نے اچھی بات کہی۔ میرا آپ سے ایک سوال ہے یہ جو الفاظ کے انتخاب کے بارے میں آپ کہہ رہے ہیں کیا یہ بات صرف عام مسلمانوں کے لئے آپ نے کہی ہے یا اس میں علماء اکرام بھی شامل ہیں جیسے خادم رضوی صاحب؟
جی دونوں کے بارے میں۔ یہ میرے نبی کی تعلیم ہے۔
 
Top