آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

نیویارک کے سو رنگ (مستنصر حسین تاررڑ) کا مطالعہ جاری ہے۔

مستنصر نے نیویارک میں صرف Manhattan میں وقت گزارا گو برانکس کے مشہور زمانہ چڑیا گھر جانے کی خواہش رہی ۔ اس کے علاوہ فلوریڈا میں Orlando میں گزرے وقت کا احوال ہے۔
 

عثمان

محفلین
نیویارک کے سو رنگ (مستنصر حسین تاررڑ) کا مطالعہ جاری ہے۔

مستنصر نے نیویارک میں صرف Manhattan میں وقت گزارا گو برانکس کے مشہور زمانہ چڑیا گھر جانے کی خواہش رہی ۔ اس کے علاوہ فلوریڈا میں Orlando میں گزرے وقت کا احوال ہے۔
اچھا دلچسپ سفرنامہ ہے۔ اسی سفرنامہ میں چیز کیک فیکٹری کا تذکرہ سن کر فلوریڈا میں چیز کیک فیکٹری گیا تھا۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
میری بھارت یاترا کا اگلا پڑاؤ۔ مشہور بھارتی صحافی کُلدیپ نیئر کی خود نوشت سوانح عمری
Beyond the Lines: An Autobiography
15729989.jpg
 
آخری تدوین:
آج کل ’پشتو ادب ۔ ماضی و حال‘ زیرِ مطالعہ ہے جو کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ پاکستانی زبانیں کے چئیرمین ڈاکٹر عبداللہ جان عابد صاحب کی تالیف ہے۔ یہ کتاب دو مقالہ جات پر مشتمل ہے ان کے مصنف پشتو کے معروف سیاسی و ادبی شخصیت جناب اجمل خٹک مرحوم ہیں۔ یہ مقالہ جات مجلہ ’اٹک کے اس پار‘ کی زینت ہیں اور تقریباً سن ساٹھ سے قبل لکھے گئے ہیں
 
آخری تدوین:
نبيل بھائی آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ آب کوثر، موج کوثر، رود کوثر کیسا خزانہ پاس ہے اور ابھی تک پڑھا نہیں۔ میں تو دو بار پڑھ چکی ہوں۔

میں آج کل ایک پشتو کتاب " انسان د سفر پہ لارہ" پڑھ رہی ہوں۔ یہ پشتو کی دوسری طویل نظم ہے جو 8000 اشعار پر مشتمل ہے۔ اور اس میں انسانی ارتقا کو موثر طریقے پر منظوم کیا ہے۔

جنابِ عالیہ کیا آپ اس کتاب کے مصنف کا نام بتا سکتی ہیں ؟
 
السلام علیکم،

میں نے یہ تھریڈ اس مقصد کے لیے شروع کیا ہے کہ یہاں تمام دوست اس کتاب یا ان کتب کے نام اور ان کے اقتباسات شیئر کریں جو حال میں ان کے زیر مطالعہ ہو اور وہ کتابیں بھی جو وہ مستقبل میں پڑھنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ اس طرح ہمیں ایک دوسرے کے زیر مطالعہ مواد سے واقفیت حاصل ہوگی اور ہمیں چند نئی اور اچھی کتابوں کا علم ہو سکتا ہے۔ اس کا آئیڈیا مجھے Shelfari ویب سائٹ کو دیکھ کر آیا ہے جو کہ مطالعہ کتب کے حوالے سے ایک سوشل نیٹورکنگ ویب سائٹ ہے۔ چونکہ ابھی فورم میں کوئی ایسا سسٹم مہیا نہیں ہے لہذا فی الحال میں اسی تھریڈ کے ذریعے کسی حد تک یہی کام کرنا چاہ رہا ہوں۔ اگر آپ اپنی زیر مطالعہ کتاب یا کتب سے متعلقہ کوئی ویب روابط جیسے کہ ایمیزون وغیرہ کے روابط فراہم کر سکیں یا ان کے سرورق پیش کر سکیں تو اور بھی اچھا ہوگا۔

والسلام
مثبت اقدام ہے قدر کرتا ہوں، مستقبل میں میں عروض بدیع و بیان وغیرہ کی کتب کے تلاش میں ہوں۔
 

عینی مروت

محفلین
پروین کی ماہ تمام ۔۔"تمام" کرکے ان پر لکھی گئی کتب کچھ زیر نظر اور مزید کی جستجو۔۔ :(
صاحب کتاب محفلین سے رہنمائی کی درخواست کے ساتھ۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تاثرات سے ضرور آگاہ کیجیے گا۔ :)
کتاب ختم ہونے والی ہے بس۔

اس کو خودنوشت سوانح کہہ کر مصنف نے "خود نوشت" کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ کیونکہ شروع کے چند صفحات میں کلدیپ نے اپنا اور سیالکوٹ کا کچھ ذکر کیا ہے (جہاں وہ پیدا ہوئے اور پلے بڑھے) اور اس کے بعد اگر کہیں اپنا ذکر بھی کیا ہے تو چند سطروں میں۔

یہ کتاب بنیادی طور پر ہندوستان کی سیاسی تاریخ ہے، شروع کے دو ابواب آزادی سے پہلے کی سیاست پر ہیں اور اختتام من موہن سنگھ کی حکومت پر ہے گویا ایک طرح سے ہندوستان کی ساٹھ ستر سال کی سیاسی تاریخ اس میں سموئی ہوئی ہے۔ یوں تو کلدیپ نئیر "لیفٹ آف سینٹر" کے حامی رہے ہیں، اور پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے اچھے تعلقات کے بھی بہت بڑے حامی ہیں، ہیومن رائٹس کے بھی داعی ہیں اور انڈین سول سوسائٹی کے کرتا دھرتا رہے ہیں، بی جے پی اور آر ایس ایس کے بہت بڑے ناقد بھی ہیں لیکن تقسیم ہند پر ان کا مؤقف کسی بھی طرح بی جے پی اور اس طرح کی جماعتوں سے مختلف نہیں ہے۔ محمد علی جناح اور علامہ اقبال پر جائز و ناجائز ہر طرح کی تنقید کی ہے بلکہ جا بجا طنزیہ جملے بھی کسے ہیں۔

بی جے پی کی طرح کلدیپ کا مؤقف بھی یہی ہے کہ آزادی کے بعد ہندوستان کا پہلا وزیر اعظم نہرو کی بجائے سردار پٹیل کو بننا چاہیئے تھا۔ غیر کانگریسی جماعتیں ہمیشہ سے نہرو پر کھلی اور چھپی تنقید کرتی رہی ہیں، خاص طور پر ان کی چائنہ پالیسی پر اور کلدیپ بھی اس میں شامل ہیں۔ کلدیپ شروع میں کانگریسی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے ساتھ بھی کام کرتے رہے لیکن جب اندرا گاندھی نے عنانِ حکومت سنبھالی تو کلدیپ نیئر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ہو گئے جس کا نتیجہ ایمرجنسی کے دور میں ان کی جیل یاترا کی صورت میں سامنے آیا۔ ایمرجنسی کے بعد ہندوستان میں جنتا پارٹی کی حکومت بنی تو کلدیپ کا نام کئی عہدوں کے لیے تجویز ہوا جن میں پاکستان میں انڈیا کے سفیر کا عہدہ بھی شامل تھا لیکن ان کے تعلقات جنتا پارٹی کے وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی کے ساتھ بھی اچھے نہیں تھے۔ بہرحال ہندوستان میں دوبارہ جب غیر کانگریسی حکومت وی پی سنگھ کی سربراہی میں بنی تو ان کو اس وقت برطانیہ میں ہندوستان کا ہائی کمشنر مقرر کیا گیا۔ کلدیپ ہمیشہ ہی غیر کانگریسی غیر کمیونل پارٹیوں کے حمایتی رہے، نوے کی دہائی میں آئی کے گجرال کو وزیر اعظم کے طور پر سامنے لانے میں بھی ان کا اچھا خاصہ کردار تھا۔

کلدیپ کی ساری زندگی صحافت اور سیاسی معاملات میں گزری، لہذا اس کتاب میں ہندوستان کی سیاسی تاریخ کے ساتھ ساتھ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی سیاسی تاریخ بھی کسی حد تک سمٹی ہوئی ہے۔ آزادی کے بعد کی ہندوستانی تاریخ کے طالب علموں کے لیے یہ کتاب پڑھنا لازمی ہے، اس سے اتفاق کرنا بہرحال ضروری نہیں۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک بات یہ کہ کلدیپ تقسیم ہند سے پہلے وکالت کی ڈگری حاصل کر چکے تھے اور سیالکوٹ میں وکالت شروع ہی کرنے والے تھے کہ ہند تقسیم ہو گیا سو وہ دہلی چلے گئے اور وہاں ان کو نوکری ایک اردو اخبار میں ملی۔ وہیں ان کی ملاقات حسرت موہانی سے ہوئی، کلدیپ کو ان دنوں اردو شاعری کا بھی لٹکا تھا سو حسرت موہانی کو اپنے اشعار بھی سنائے۔ حسرت موہانی نے ان کو دو مشورے دیے اور کلدیپ نے ان دونوں ہی پر عمل کیا۔ ایک تو یہ تھا کہ شاعری چھوڑ دو یہ تمھارے بس کا کام نہیں اور دوسرا یہ کہ اردو صحافت چھوڑ دو کہ ہندوستان میں اردو صحافت کا کوئی مستقبل نہیں۔ اس کے بعد کلدیپ انگریزی صحافت کے طرف آ گئے اور امریکہ سے جرنلزم میں کوئی ڈگری بھی حاصل کی اور پھر ساری زندگی انگریزی کالم لکھنے میں گزار دی۔

کلدیپ کے والد سیالکوٹ کے مشہور ڈاکٹر تھے، انہوں نے سیالکوٹ شہر کے جن علاقوں کا ذکر کیا ہے جہاں ان کی رہائش تھی وہ آج بھی موجود ہیں۔ تقسیم کے بعد سیالکوٹ چھاؤنی میں ان کے خاندان نے ایک نامی گرامی مسلمان تاجر کے ہاں پناہ حاصل کی تھی جو ان کے والد کے مریض تھے، اُن تاجر کا خاندان آج بھی سیالکوٹ چھاؤنی میں موجود ہے بلکہ ان تاجر کے نام کے پلازے ہیں آج کل۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
اندرا گاندھی کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی کی سوانح عمری، "دی سنجے سٹوری"۔

کتاب انتہائی بدمزہ نکلی ہے! اس میں کچھ بیچنے والوں کا بھی قصور ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1978ء میں سنجے کی زندگی میں چھپی تھی (سنجے گاندھی 1980ء میں ہلاک ہو گیا تھا)، موجودہ ایڈیشن 2012ء کا ہے اور بک سیلرز نے اس کی تاریخ بھی 2012ء کی ڈال دی ہے حالانکہ مصنف نے سوائے ایک نیا دیباچہ لکھنے کے، جس میں سنجے کی موت کا ذکر ہے، کتاب کا ایک لفظ بھی نہیں چھیڑا۔ اگر مجھے علم ہو جاتا کہ کتاب 1978ء میں چھپی تھی تو کبھی نہ خریدتا، وجہ یہ ہے کہ 1977ء میں کانگریس کی شرمناک شکست کے بعد انڈیا میں ایمرجنسی، اندرا گاندھی اور سنجے گاندھی وغیرہ کے بارے میں پروپیگنڈا کتابوں کا طوفان امڈ آیا تھا جنہیں "ایمرجنسی کوئیکیز" کہا گیا تھا، یہ بھی انہیں پروپیگنڈا کتابوں میں سے ہے۔ دو سو صفحات کی مختصر سی کتاب اور وہ بھی چھوٹے صفحات پر اور قیمت انڈیا میں پانچ سو اور مجھے پاکستان میں ایک ہزار کی ملی، مہنگے ناشرین نے چھاپی ہے (ہارپر کولنز انڈیا)۔ پروپیگنڈا کتاب اوپر سے اتنی مہنگی خرید لی تھی سو اب بد مزہ منہ کے ساتھ اسے ختم کر رہا ہوں۔

سنجے گاندھی کے بارے میں چند باتیں:

-انڈیا میں راجیو گاندھی کے بوفورز اسکینڈل سے پہلے انڈیا میں کرپشن کا کوئی اسکینڈل سب سے زیادہ اچھلا تو وہ سنجے گاندھی کے "مروتی" گاڑیوں کا اسکینڈل تھا جس میں کروڑوں کا گھپلا ہوا۔ سنجے بغیر کسی کوالیفیکشن کے، ان گاڑیوں کا انجن ڈئزائن کر رہا تھا اور مدد دہلی کے ایک موٹر مکینک سے لے رہا تھا، انڈین گورنمنٹ نے سالانہ پچاس ہزار گاڑیاں بنانے کا ٹھیکہ بھی دے دیا تھا اور ہریانہ گورنمنٹ نے زمین بھی کوڑیوں کے بھاؤ دی۔ پبلک اور ڈیلروں کے کروڑوں ڈوب گئے۔
-سنجے گاندھی اپنی ماں اندرا گاندھی اور نانا جواہر لال نہرو کا محبوب تھا، اور اسکی کوئی بات نہیں ٹالی جاتی تھی، نتیجے کے طور پر جب وہ سیاست میں آیا تو اپنی ماں کے لیے سر درد بنا رہا۔
-1975ء میں جب الہ آباد ہائیکورٹ نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کو نا اہل قرار دیتے ہوئے لوک سبھا کی رکنیت ختم کر دی اور چھ سال کے لیے پابندی بھی لگا دی تو کہتے ہیں کہ اندرا نے کرسی چھوڑ کر سپریم کورٹ میں لڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور عبوری طور پر ایک کانگریسی وزیر اعظم بنانے کا ارادہ تھا۔ سنجے نے اندرا کو اس ارادے سے منع کیا بلکہ یہ کہا کہ ایمرجنسی لگا کر ہائیکورٹ کا حکم نہ مانا جائے، اپوزیشن کو اندر کر دیا جائے، سنسر نافذ کر دیا جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا، اور پھر یہی کچھ ہوا۔
-ایمرجنسی میں سنجے نے اپنی من مانی کی۔ سنسر شپ نافذ کی، عدالتوں کو تالے لگوا دیے اور پریس والوں کی بجلی کاٹ دی۔ وزیرِ اطلاعات آئی کے گجرال کو حکم دیا کہ ٹی وی اور ریڈیو پر خبریں پڑھنے سے پہلے اسے دکھائی جائیں، گجرال نہ مانا تو چند دنوں کے اندر گجرال کو فارغ کر کے ماسکو کھڈے لائن لگا دیا گیا۔
-اندرا گاندھی کے کئی ایک سوانح نگاروں اور دوستوں نے لکھا ہے کہ جب سنجے ایسے کسی غیر آئینی اقدام پر اڑ جاتا تھا تو اندرا گاندھی بھی اس سے اپنی بات نہیں منوا سکتی تھی، جب کبھی ایسی بحث ہوئی لوگوں نے اندرا گاندھی کو کمرے سے سرخ آنکھوں اور روہانسی شکل کے ساتھ باہر نکلتے دیکھا۔
-ریاستوں کے کانگریسی وزرائے اعلیٰ براہ راست سنجے گاندھی کی سربراہی میں کام کر رہے تھے اور باقاعدہ اُس کو رپورٹ کرتے تھے جب کہ سنجے کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں تھا۔
-ایمرجنسی میں سنجے نے "یوتھ کانگریس" کی کمان سنبھالی، اور دو سالوں میں اس کے ارکان کی تعداد چھ لاکھ سے بڑھ کر پچاس لاکھ سے تجاوز کر گئی، کہا جاتا ہے کہ اُس وقت ہر غنڈے بدمعاش نے یوتھ کانگریس کی رکنیت لے لی تھی۔ یوتھ کانگریس نے پورے ملک میں اندھیر نگری مچا دی، کروڑوں کے گپھلے، تاوان، بھتے، گھوسٹ گاؤں اور نہ جانے کیا کیا۔
-سنجے نے ایک پانچ نکاتی پروگرام شروع کیا، فیملی پلاننگ، درخت اگاؤ، جہیز اور ذات پات کا خاتمہ وغیرہ اہم نکات تھے۔ فیملی پلاننگ کے نام پر جبری نس بندی کا پروگرام شروع ہوا جس میں نوجوان بچوں اور عمر رسیدہ بوڑھوں کی بھی جبری نس بندی کر دی گئی۔ وزرائے اعلیٰ سنجے کی خوشنودی حاصل کرنے کے چکر میں اپنا سارا زور صرف کرنے لگے۔ جھونپٹر پٹیاں (سلمز) ہٹانے کے نام پر لاکھوں لوگوں کو متبادل جگہ دیے بغیر بے گھر کر دیا گیا۔
-سنجے گاندھی ایک انتہائی لاپروا نوجوان تھا، کولا پوری چپلیں پہن کر جہاز اڑاتے ہوئے، 33 برس کی بھری جوانی میں، وزیر اعظم ہاؤس سے پانچ سو میٹر دور، 1980ء میں (جب اندرا پھر وزیر اعظم بن چکی تھی)، گر کر، کو پائلٹ کے ساتھ ہلاک ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ راجیو گاندھی نے جو کہ ایک کمرشل پائلٹ تھا کئی بار سنجے کو چپلیں پہن کر جہاز اڑانے سے منع کیا تھا۔
-سنجے کی موت کے بعد ہی راجیو کو سیاست میں لایا گیا ورنہ اندرا کا سیاسی وارث سنجے ہی تھا۔
-سنجے کی بیوی مانیکا اور راجیو کی بیوی سونیا کے درمیان ناچاقی تھی جو سنجے کی موت کے بعد اندرا اور مانیکا ناچاقی میں بدل گئی۔ مانیکا کو آدھی رات کے وقت وزیر اعظم ہاؤس سے زبردستی نکالا گیا، اس وقت میڈیا وہاں موجود تھا۔ مانیکا گاندھی اور ان کا بیٹا ورون گاندھی اب بی جے پی میں ہیں۔
16283885.jpg
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
اندرا گاندھی کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی کی سوانح عمری، "دی سنجے سٹوری"۔

کتاب انتہائی بدمزہ نکلی ہے! اس میں کچھ بیچنے والوں کا بھی قصور ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1978ء میں سنجے کی زندگی میں چھپی تھی (سنجے گاندھی 1980ء میں ہلاک ہو گیا تھا)، موجودہ ایڈیشن 2012ء کا ہے اور بک سیلرز نے اس کی تاریخ بھی 2012ء کی ڈال دی ہے حالانکہ مصنف نے سوائے ایک نیا دیباچہ لکھنے کے، جس میں سنجے کی موت کا ذکر ہے، کتاب کا ایک لفظ بھی نہیں چھیڑا۔ اگر مجھے علم ہو جاتا کہ کتاب 1978ء میں چھپی تھی تو کبھی نہ خریدتا، وجہ یہ ہے کہ 1977ء میں کانگریس کی شرمناک شکست کے بعد انڈیا میں ایمرجنسی، اندرا گاندھی اور سنجے گاندھی وغیرہ کے بارے میں پروپیگنڈا کتابوں کا طوفان امڈ آیا تھا جنہیں "ایمرجنسی کوئیکیز" کہا گیا تھا، یہ بھی انہیں پروپیگنڈا کتابوں میں سے ہے۔ دو سو صفحات کی مختصر سی کتاب اور وہ بھی چھوٹے صفحات پر اور قیمت انڈیا میں پانچ سو اور مجھے پاکستان میں ایک ہزار کی ملی، مہنگے ناشرین نے چھاپی ہے (ہارپر کولنز انڈیا)۔ پروپیگنڈا کتاب اوپر سے اتنی مہنگی خرید لی تھی سو اب بد مزہ منہ کے ساتھ اسے ختم کر رہا ہوں۔

سنجے گاندھی کے بارے میں چند باتیں:

-انڈیا میں راجیو گاندھی کے بوفورز اسکینڈل سے پہلے انڈیا میں کرپشن کا کوئی اسکینڈل سب سے زیادہ اچھلا تو وہ سنجے گاندھی کے "مروتی" گاڑیوں کا اسکینڈل تھا جس میں کروڑوں کا گھپلا ہوا۔ سنجے بغیر کسی کوالیفیکشن کے، ان گاڑیوں کا انجن ڈئزائن کر رہا تھا اور مدد دہلی کے ایک موٹر مکینک سے لے رہا تھا، انڈین گورنمنٹ نے سالانہ پچاس ہزار گاڑیاں بنانے کا ٹھیکہ بھی دے دیا تھا اور ہریانہ گورنمنٹ نے زمین بھی کوڑیوں کے بھاؤ دی۔ پبلک اور ڈیلروں کے کروڑوں ڈوب گئے۔
-سنجے گاندھی اپنی ماں اندرا گاندھی اور نانا جواہر لال نہرو کا محبوب تھا، اور اسکی کوئی بات نہیں ٹالی جاتی تھی، نتیجے کے طور پر جب وہ سیاست میں آیا تو اپنی ماں کے لیے سر درد بنا رہا۔
-1975ء میں جب الہ آباد ہائیکورٹ نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کو نا اہل قرار دیتے ہوئے لوک سبھا کی رکنیت ختم کر دی اور چھ سال کے لیے پابندی بھی لگا دی تو کہتے ہیں کہ اندرا نے کرسی چھوڑ کر سپریم کورٹ میں لڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور عبوری طور پر ایک کانگریسی وزیر اعظم بنانے کا ارادہ تھا۔ سنجے نے اندرا کو اس ارادے سے منع کیا بلکہ یہ کہا کہ ایمرجنسی لگا کر ہائیکورٹ کا حکم نہ مانا جائے، اپوزیشن کو اندر کر دیا جائے، سنسر نافذ کر دیا جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا، اور پھر یہی کچھ ہوا۔
-ایمرجنسی میں سنجے نے اپنی من مانی کی۔ سنسر شپ نافذ کی، عدالتوں کو تالے لگوا دیے اور پریس والوں کی بجلی کاٹ دی۔ وزیرِ اطلاعات آئی کے گجرال کو حکم دیا کہ ٹی وی اور ریڈیو پر خبریں پڑھنے سے پہلے اسے دکھائی جائیں، گجرال نہ مانا تو چند دنوں کے اندر گجرال کو فارغ کر کے ماسکو کھڈے لائن لگا دیا گیا۔
-اندرا گاندھی کے کئی ایک سوانح نگاروں اور دوستوں نے لکھا ہے کہ جب سنجے ایسے کسی غیر آئینی اقدام پر اڑ جاتا تھا تو اندرا گاندھی بھی اس سے اپنی بات نہیں منوا سکتی تھی، جب کبھی ایسی بحث ہوئی لوگوں نے اندرا گاندھی کو کمرے سے سرخ آنکھوں اور روہانسی شکل کے ساتھ باہر نکلتے دیکھا۔
-ریاستوں کے کانگریسی وزرائے اعلیٰ براہ راست سنجے گاندھی کی سربراہی میں کام کر رہے تھے اور باقاعدہ اُس کو رپورٹ کرتے تھے جب کہ سنجے کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں تھا۔
-ایمرجنسی میں سنجے نے "یوتھ کانگریس" کی کمان سنبھالی، اور دو سالوں میں اس کے ارکان کی تعداد چھ لاکھ سے بڑھ کر پچاس لاکھ سے تجاوز کر گئی، کہا جاتا ہے کہ اُس وقت ہر غنڈے بدمعاش نے یوتھ کانگریس کی رکنیت لے لی تھی۔ یوتھ کانگریس نے پورے ملک میں اندھیر نگری مچا دی، کروڑوں کے گپھلے، تاوان، بھتے، گھوسٹ گاؤں اور نہ جانے کیا کیا۔
-سنجے نے ایک پانچ نکاتی پروگرام شروع کیا، فیملی پلاننگ، درخت اگاؤ، جہیز اور ذات پات کا خاتمہ وغیرہ اہم نکات تھے۔ فیملی پلاننگ کے نام پر جبری نس بندی کا پروگرام شروع ہوا جس میں نوجوان بچوں اور عمر رسیدہ بوڑھوں کی بھی جبری نس بندی کر دی گئی۔ وزرائے اعلیٰ سنجے کی خوشنودی حاصل کرنے کے چکر میں اپنا سارا زور صرف کرنے لگے۔ جھونپٹر پٹیاں (سلمز) ہٹانے کے نام پر لاکھوں لوگوں کو متبادل جگہ دیے بغیر بے گھر کر دیا گیا۔
-سنجے گاندھی ایک انتہائی لاپروا نوجوان تھا، کولا پوری چپلیں پہن کر جہاز اڑاتے ہوئے، 33 برس کی بھری جوانی میں، وزیر اعظم ہاؤس سے پانچ سو میٹر دور، 1980ء میں (جب اندرا پھر وزیر اعظم بن چکی تھی)، گر کر، کو پائلٹ کے ساتھ ہلاک ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ راجیو گاندھی نے جو کہ ایک کمرشل پائلٹ تھا کئی بار سنجے کو چپلیں پہن کر جہاز اڑانے سے منع کیا تھا۔
-سنجے کی موت کے بعد ہی راجیو کو سیاست میں لایا گیا ورنہ اندرا کا سیاسی وارث سنجے ہی تھا۔
-سنجے کی بیوی مانیکا اور راجیو کی بیوی سونیا کے درمیان ناچاقی تھی جو سنجے کی موت کے بعد اندرا اور مانیکا ناچاقی میں بدل گئی۔ مانیکا کو آدھی رات کے وقت وزیر اعظم ہاؤس سے زبردستی نکالا گیا، اس وقت میڈیا وہاں موجود تھا۔ مانیکا گاندھی اور ان کا بیٹا ورون گاندھی اب بی جے پی میں ہیں۔
16283885.jpg
کتاب واپس کیوں نہیں کر دیتے؟ یا واپس کرنے کی تاریخ گذر چکی ہے؟ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
کتاب واپس کیوں نہیں کر دیتے؟ یا واپس کرنے کی تاریخ گذر چکی ہے؟ :)
میرے خیال میں پاکستان میں بغیر کسی نقص کے چیزیں واپس کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے، اور چونکہ کتاب میں کوئی نقص نہیں ہے سو واپسی کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ویسے بھی میں نے کوئی سال بھر پہلے خریدی تھی، اسکی باری اب آئی ہے۔ :)
 
Top