نیرنگ خیال

لائبریرین
لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا۔ جوں جوں تمہارا تجربہ بڑھتاجائے گا، تمہارے خیالات میں پختگی آتی جائے گی اور یہ افسوس بھی بڑھتا جائے گا۔یہ خواب پھیکے پڑتے جا ئیں گے۔ تب اپنے آپ کو فر یب نہ دے سکو گے۔بڑے ہو کر تمہیں معلوم ہو گا کہ زندگی بڑی مشکل ہے۔جینے کے لیئے مرتبے کی ضرورت ہے۔آسائش کی ضرورت ہےاور ان کے لیئے روپے کی ضرورت ہے۔اور روپیہ حاصل کرنے کے لیے مقابلہ ہوتا ہے۔مقابلے میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے،دھوکا دینا پڑتا ہے،غداری کرنی پڑتی ہے۔یہاں کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔دنیا میں دوستی ،محبت،انس،سب رشتے مطلب پر قائم ہیں۔محبت آمیز باتوں ،مسکراہٹوں،مہر بانیوں،شفقتوں--ان سب کی تہہ میں کوئی غرض پوشیدہ ہے۔یہاں تک کہ خدا کو بھی لوگ ضرورت پڑنے پر یاد کرتے ہیں۔اور جب خدا دعا قبول نہیں کرتا تو لوگ دہریے بن جاتے ہیں،اس کے وجود سے منکر ہو جاتے ہیں۔اور دنیا کو تم کبھی خوش نہیں رکھ سکتے۔اگر تم سادہ لوح ہوئے تو دنیا تم پر ہنسےگی،تمہارا مذاق اُڑاے گی۔اگر عقلمند ہوئے تو حسد کرے گی۔اگر الگ تھلگ رہے تو تمہیں چڑچڑا اور مکار گردانا جائے گا۔اگر ہر ایک سے گھل مل کر رہے تو تمہیں خوشامدی سمجھا جائے گا۔اگر سوچ سمجھ کر دولت خرچ کی تو تمہیں پست خیال اور کنجوس کہیں گے اور اگر فراخ دل ہوئے تو بیوقوف اور فضول خرچ۔ عمر بھر تمہیں کوئی نہیں سمجھے گا،نہ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔تم ہمیشہ تنہا رہو گے حتی کہ ایک دن آئے گااور چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ گے۔یہاں سے جاتے وقت تم متحیرہو گے کہ یہ تماشا کیا تھا۔ اس تماشےکی ضرورت کیا تھی۔یہ سب کچھ کس قدر بےمعنی اور بے سود تھا۔

از نیلی جھیل
کتاب: حماقتیں
مصنف: شفیق الرحمن
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہر روز جب مشرق سے سورج نکلتا ہے تو کلیاں کھِل کر پھول بن جاتی ہیں۔ تتلیاں جاگ اٹھتی ہیں۔ پرندے چہچہانے لگتے ہیں۔ ہر روز سورج ڈوبتے وقت آسمان گلابی ہو جاتا ہے۔ چاندنی رات میں ایک عجیب سا فسوں آسمان سے زمین تک چھا جاتا ہے۔ لیکن حکومت آپا کو ان باتوں کا علم نہ تھا۔

از ننانوے ناٹ آؤٹ
کتاب: حماقتیں
مصنف: شفیق الرحمن
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اٹھتی جوانی کو غزل کہنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ سو ہے لیکن ہمارے نوجوان مصور جب ایسی تصویریں کھینچتے ہیں تو عجب قلم طرازیاں فرماتے ہیں۔ ناک اقبال کی، کان اکبر کا، آنکھیں غالب کی قافیے انگریزی بحر۔ اردو ہوتا ہے تو سرقہ نما سرقہ ہوتا ہے اور بالکل ہی بےحجاب ہم سے اتنی ناز برداری نہیں ہوسکتی کہ اسے راوی میں چھاپ دیں۔

از جلے دل کے پھپھولے
مصنف: پطرس بخاری
مضامین پطرس
 

نمرہ

محفلین
لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا۔ جوں جوں تمہارا تجربہ بڑھتاجائے گا، تمہارے خیالات میں پختگی آتی جائے گی اور یہ افسوس بھی بڑھتا جائے گا۔یہ خواب پھیکے پڑتے جا ئیں گے۔ تب اپنے آپ کو فر یب نہ دے سکو گے۔بڑے ہو کر تمہیں معلوم ہو گا کہ زندگی بڑی مشکل ہے۔جینے کے لیئے مرتبے کی ضرورت ہے۔آسائش کی ضرورت ہےاور ان کے لیئے روپے کی ضرورت ہے۔اور روپیہ حاصل کرنے کے لیے مقابلہ ہوتا ہے۔مقابلے میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے،دھوکا دینا پڑتا ہے،غداری کرنی پڑتی ہے۔یہاں کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔دنیا میں دوستی ،محبت،انس،سب رشتے مطلب پر قائم ہیں۔محبت آمیز باتوں ،مسکراہٹوں،مہر بانیوں،شفقتوں--ان سب کی تہہ میں کوئی غرض پوشیدہ ہے۔یہاں تک کہ خدا کو بھی لوگ ضرورت پڑنے پر یاد کرتے ہیں۔اور جب خدا دعا قبول نہیں کرتا تو لوگ دہریے بن جاتے ہیں،اس کے وجود سے منکر ہو جاتے ہیں۔اور دنیا کو تم کبھی خوش نہیں رکھ سکتے۔اگر تم سادہ لوح ہوئے تو دنیا تم پر ہنسےگی،تمہارا مذاق اُڑاے گی۔اگر عقلمند ہوئے تو حسد کرے گی۔اگر الگ تھلگ رہے تو تمہیں چڑچڑا اور مکار گردانا جائے گا۔اگر ہر ایک سے گھل مل کر رہے تو تمہیں خوشامدی سمجھا جائے گا۔اگر سوچ سمجھ کر دولت خرچ کی تو تمہیں پست خیال اور کنجوس کہیں گے اور اگر فراخ دل ہوئے تو بیوقوف اور فضول خرچ۔ عمر بھر تمہیں کوئی نہیں سمجھے گا،نہ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔تم ہمیشہ تنہا رہو گے حتی کہ ایک دن آئے گااور چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ گے۔یہاں سے جاتے وقت تم متحیرہو گے کہ یہ تماشا کیا تھا۔ اس تماشےکی ضرورت کیا تھی۔یہ سب کچھ کس قدر بےمعنی اور بے سود تھا۔

از نیلی جھیل
کتاب: حماقتیں
مصنف: شفیق الرحمن
لڑکیوں کے لیے بھی اچھی نصیحت ہے۔
 

سید عمران

محفلین
’حماقتیں‘ میری پسندیدہ ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ جتنی مرتبہ بھی پڑھوں، بور نہیں ہوتا۔ :)
شفیق الرحمٰن کی ہر تحریر دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے۔۔۔
شوخ ہے تو دل کو گدگداتی اور لبوں کو خنداں کرتی ہے ۔۔۔
اور اداس ہے تو دل میں بھی اداس شامیں اتر آتی ہیں!!!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
غالب کا ایک بہت مشہور مصرع ہے جو پورے شعر پر بھاری ہے:
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے​
گزشتہ پچاس برسوں سے ہر اچھا آدمی اور ہر بری حکومت اپنی مدح ملیح اور دفاع کی دلیل و صفائی کے طور پر استعمال کر کے غالب کی دیدہ وری کا ثبوت فراہم کرتے رہے ہیں۔
شعر کا اگر پہلا مصرع نہ پڑھا جائے تو پہلی نظر میں یہ مصرع سوالیہ معلوم ہوگا۔ مگر درحقیقت ہے استفہام انکاری۔ اس کا مطلب ہم یہ سمجھے کہ اگر آپ سے پوچھا جائے، کیا آپ نے کوئی ایسا بھلا مانس دیکھا ہے جسے سبھی اچھا کہیں تو آپ کے ذہن میں کوئی نام نہ آئے۔ اب ذرا دیر کو اس کے نقیض یعنی الٹ پر بھی غور فرمائیے۔ فرض کیجیے میں ورڈلی وزڈم (فراستِ دنیوی) سے لبریز اور بحر سے خارج مصرع اس طرح کہتا:
ایسا بھی کوئی ہے کہ برا جس کو سب کہیں​
تو ذہن میں ایسے ایسے اور اتنے سارے نام آئیں گے کہ انھیں لب پہ لانے سے پہلے اپنے معصوم بال بچوں کا خیال کرنا پڑے گا۔ مطلب یہ کہ دوسروں کے بارے میں پبلک کی اچھی بری رائے کا سروے کرنے کے شوق اور ہَو کے میں ساری دنیا سے "پنگا" لینا اور ہر مرکھنے بیل کو ادبدا کے سینگ مارنے کی دعوت دینا، موجودہ حالات اور اِس عمر میں کہاں کی دانائی ہے۔ روایت ہے کہ شہرہ آفاق عقلیت پسند فرنچ فلسفی اور ادیب والٹیئر پر نزع کا عالم طاری ہوا تو پادری ننے کہا کہ شیطان پر لعنت اور تبرّا بھیجو۔
والٹیئر نے جواب دیا "یہ وقت نئے دشمن بنانے کا نہیں ہے۔"

از ضمیر واحد متبسّم
مصنف: مشتاق احمد یوسفی
کتاب: شامِ شعر یاراں
 
شفیق الرحمٰن کے کام کو ہم مندرجہ ذیل چار کیٹیگریز میں تقسیم کرتے ہیں۔
  • عشقیہ افسانے( حور اور زیب النسا ٹائپ)
  • مزاحیہ مضامین
  • شیطان کے مزاحیہ قصے، ہمارے پسندیدہ
  • سفر نامے جن میں برساتی اور ڈینیوب ہمارے پسندیدہ ترین ہیں، جنھیں بارھا پڑھنے کے باوجود سیری نہیں ہوئی۔
 

سعادت

تکنیکی معاون
صرف حماقتیں سعادت۔۔۔۔ مزید حماقتیں۔۔۔۔۔۔ کرنیں۔۔ اور باقی سب۔۔۔
میں نے شفیق الرحمٰن کی چار کتابیں پڑھ رکھی ہیں (اسی ترتیب میں): ’حماقتیں‘، ’مزید حماقتیں‘، ’دجلہ‘، ’پچھتاوے‘۔ چاروں انتہائی شاندار ہیں۔ (y)

سفر نامے جن میں برساتی اور ڈینیوب ہمارے پسندیدہ ترین ہیں، جنھیں بارھا پڑھنے کے باوجود سیری نہیں ہوئی۔
سو فیصد متفق۔ میں نے ’مزید حماقتیں‘ میں شامل باقی تحریریں اتنی مرتبہ نہیں پڑھیں جتنی مرتبہ ’برساتی‘ کو پڑھا ہے۔ اور ’دجلہ‘ میں موجود ’ڈینیوب‘ اور دیگر سفرناموں کی چاشنی تو اپنی جگہ، لیکن مجھے یہ کتاب کچھ اس لیے بھی پسند ہے کہ پہلی مرتبہ اُسے راولپنڈی سے کراچی جاتے ہوئے ٹرین کے سفر کے دوران پڑھا تھا۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ کو معلوم ہے میں شاعر ہوں، شاعری کوئی معمولی بات نہیں، شاعری بکرجاں منعتن ہے، شاعری کوہ کندی و کاہ برآوردن ہے، شاعری۔۔۔۔۔۔ میں آپ سے کیا کہوں، آپ خود شاعر نہیں، آپ نہیں سمجھ سکتے، تو جانے دیجئے۔۔۔۔۔ لیکن ان کی فصاحت و بلاغت کو میری کم فہمی بھی مانع نہ ہوئی یوں گھنٹے بعد غزل اور دردِ سر دے کر تخفیف تصدیع کر گئے۔

ان کے تشریف لے جانے کے بعد میں نے غزل کو شروع سے آخر تک پڑھا، پڑھا کیا؟ اس کا مطالعہ کیا، اس کا وظیفہ کیا، لیکن مجھے پھر بھی بحر کا پتا نہ لگا۔ قافیہ نوازی میں آں جناب! نے جو چلت فرمائی تھی میرے قدامت پسند دماغ فرسودہ سے بالاتر تھی۔ ترکیبوں میں جو آپ نے فارسیت بگھاری تھی، خلق میں خواہش پیدا کرتی تھی۔ لغویت اور بےمطلبی کو جس خوبی سے انہوں نے نبھایا تھا انہی کا کام تھا۔ بحثیت مجموعی کلام ایسا تھا گویا مرزا عبدالقادر بیدل ہذیان کی حالت میں کچھ فرما گئے ہیں، میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس کاغذ کے پرزے کو پھاڑ ڈالا اور چار دانگ وکٹوریہ ہوٹل میں ان پرزوں کو جس قدر وسعت میں ممکن ہو سکتا تھا بکھیر دیا تاکہ اس دنیا میں ان کو پھر یکجا ہوجانا محال ہوجائے۔ حشر کے دن جب وہ کاغذ پھر اصلی شکل اختیار کرے گا تو شاعر کے بائیں ہاتھ میں نظر آئے گا۔

از جلے دل کے پھپھولے
مصنف: پطرس بخاری
مضامین پطرس
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
رئیس صاحب کے قلم سے شعر ٹپکتے تھے۔ شہر کے نوجوان مشاعروں میں پڑھنے کے لئے ان سے غزلیں لکھوا کر لے جاتے تھے۔ ایک بار ایسے ہی ایک نوجوان نے، جو کسی طرح سے بھی شاعر نہیں لگتا تھا، پیچھے پڑ کر رئیس صاحب سے غزل لکھوا لی اور رات کو اسی مشاعرے میں سنانے پہنچ گیا جس میں رئیس صاحب بھی موجود تھے اور وہیں اسٹیج پر بیٹھے تھے۔
اس لڑکے نے غضب یہ کیا کہ غزل اپنے ہاتھ سے بھی نہیں لکھی بلکہ رئیس امروہوی صاحب کے ہاتھ کی تحریر لے کر پڑھنے لگا۔
پڑھتے پڑھتے ایک مصرعہ کچھ یوں پڑھا
اے کہ تیری حَپّوں سے برہمی برستی ہے​
سارے مجمع پر سناٹا چھا گیا۔ کہیں سے آواز آئی، پھر سے پڑھیے میاں صاحب زادے۔ مصرعہ پھر سے پڑھا گیا۔
اے کہ تیری حَپّوں سےبرہمی برستی ہے​
اس بار کئی آوازیں ابھریں۔ واہ وا۔ مکرر ارشاد
اس نے پھر پڑھا اور زیادہ لہک کر پڑھا
اے کہ تیری حَپّوں سے برہمی برستی ہے​
بس پھر کیا تھا۔ مجمع نے یہ مصرعہ بار بار پڑھوانا شروع کیا اور شاعر کی سرشاری بڑھتی گئی۔ قریب ہی اسٹیج پر بیٹھے ہوئے رئیس امروہوی صاحب پہلے تو کھنکھارتے رہے، آخر ان سے نہ رہا گیا اور مصرعے کو درست کرتے ہوئے بولے
اے کہ تیرے چتون سے۔۔۔۔ چتون سے۔۔۔۔
اس پر شاعر کی باچھیں کھل اٹھیں اور رئیس صاحب کی طرف منہ کر کے بولا۔ "رئیس صاحب، چتون بھی ٹھیک ہوگا مگر حَپّوں بھی مزا دے ریا ہے۔"

از "مشاعروں کی بودوباش"
تصنیف: اردو کا حال
مصنف: رضا علی عابدی
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اخبار میں لکھا تھا کہ آپ تصویروں کی نمائش کا اہتمام کر رہے ہیں۔ یہ سچ ہے تو اے دوست وقتاً فوقتاً مجھے اپنی خیریت سے مطلع کرتے رہئے گا۔ کیونکہ اگر کراچی سب سے الگ تھلگ کوئی جگہ نہیں تو آپ کو بے انتہا جسارت سے کام لینا پڑے گا اور عجب نہیں کہ لوگ آپ کا حال دیکھ کر عبرت پکڑا کریں۔ ہمارے ملک میں اس وقت کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں جسے صحیح معنوں میں آرٹ آ سکول کہہ سکیں۔ لاہور یونیورسٹی کے نصاب میں آرٹ بحیثیت ایک مضمون کے شامل تھا لیکن یہ ایک مخلوط سا شغل تھا جس میں تھوڑی سی موسیقی، تھوڑی سی مصوری اور کچھ صنعت اور دستکاری سب چٹکی چٹکی بھر پھینک دی گئی تھیں اور اس معجون کو ایک زنانہ مشغلہ سمجھ کر صرف لڑکیوں کے لئے مخصوص کردیا گیا۔ یہ مضمون اب بھی نصاب میں موجود ہے۔ لیکن کب تک؟ فی الحال تو ایک یورپین خاتون میسر ہیں جو یہ مضمون پڑھاتی ہیں وہ کہیں ادھر اُدھر ہو گئیں اور کوئی عورت ان کی جگہ دستیاب نہ ہوئی تو یہ قصہ بھی پاک ہو جائے گا کیونکہ لڑکیوں کو پڑھانے کا کام خدانخواستہ کسی مرد کے سپرد ہوا تو زلزلے نہ آ جائیں گے ؟ اور پھر اس مضمون کا حلیہ بھی سرعت کے ساتھ بدل رہا ہے۔ موسیقی تو تہہ کر کے رکھ دی گئی ہے کیونکہ ہو تو بھلا کسی کی مجال کہ اس کی بیٹی اس کے دستخط سے یہ لکھوا بھیجے کہ ہمیں گانے کا شوق ہے ؟ باقی رہی تصویر کشی تو ایک ملنے والے اگلے دن سنا گئے کہ ایک کالج نے کہلوا بھیجا ہے کہ ہماری لڑکیاں جان داروں کی شکلیں نہ بنائیں گی۔ چنانچہ تجویز ہو رہی ہے کہ تصویر کشی کی مشق صرف سیب، ناشپاتی، مرتبان یا پہاڑوں ، دریاؤں ، جنگل پر کی جائے۔ اس پر ایک آدھ جگہ بحث ہوئی۔ شریعت کا قدم درمیان میں آیا۔ ایک روشن خیال مولوی صاحب نے صرف اتنی ڈھیل دی کہ ہاتھ کی بنی ہوئی تصویریں تو ہرگز جائز نہیں ، فوٹو البتہ جائز ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ فوٹو میں انسان کی شبیہ ہو بہو ویسی ہی ہوتی ہے۔ ہاتھ سے تصویر بنائی جائے تو اس میں جھوٹ ضرور سرایت کر جاتا ہے کسی نے کہا فوٹو بھی تو کئی حرفتوں سے لی جاتی ہے اور بعض فوٹو گرافر بھی تو بڑے فن کار ہوتے ہیں جواب ملا کہ چابکدستی اور تکلف سے کام لیا جائے تو فوٹو بھی جائز نہیں رہتا۔ غرض یہ کہ ان کے نزدیک اسی ایک فوٹوگرافر کا کام حق و راستی کا آئینہ دار ہے جو لاہور کے چڑیا گھر کے باہر چار آنے میں تصویر کھینچتا ہے۔ یہ حال تو جان دار اشیاء کا ہے باقی رہے جنگل، پہاڑ، دریا تو وہاں بھی ایک نہ ایک دن کوئی کوتوال حق بین مصوروں کے ”جھوٹ“ کو گردن سے جا دبوچے گا۔ اور آپ چیختے اور سسکتے رہ جائیں گے کہ یہ وین گوگ ہے ! یہ تو بہت بڑا آرٹسٹ ہے ! اور آپ کے ہاتھوں سے تصویر نوچ کر پھاڑ دی جائے گی۔ ان حالات میں چغتائی کے جینے کا امکان بہت کم ہے۔ کوئی بات ”سچ“ بھی ہوتی ہے اس کی تصویروں میں ؟ درخت تک تو مجنوں کی انگلیاں معلوم ہوتے ہیں۔ اور پھر انسانوں کی تصویریں بنانے سے بھی تو وہ نہیں چوکتا اور صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتیں بھی۔ غزال، چشم، سینہ چاک اور بعض اوقات محرم کے بند تک دکھائی دے جاتے ہیں۔ گو یقین سے کچھ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ چغتائی کی تصویروں میں تسمے ، ڈوریاں ، پھندنے بہت ہوتے ہیں ، اور سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ تکمہ یا ڈوری لیلیٰ کے لباس کا حصہ ہے یا ناقہ کے ساز و سامان کا۔ لیکن چغتائی کی وجہ سے ایک سہولت ضرور نظر آتی ہے وہ یہ کہ لے دے کر یہی ایک ہمارا مصور ہے اسے دفن کر دیا تو یہ وبا فوراً تھم جائے گی۔ اور ہماری مصوری ایک ہی ضرب سے ہمیشہ کے لئے پاک ہو جائے گی۔ باقی رہی مغلوں کی قدیم تصویریں یا ایرانی مصوروں کے قدیم نمونے جو چند لوگوں کے پاس بطور تبرک محفوظ ہیں یا جن کی انڈیا آفس کے عجائب خانے کی تقسیم کے بعد پاکستان کو مل جانے کی امید ہے تو ان کو کسی اور ملک کے ہاتھ بیچ کر دام وصول کئے جا سکتے ہیں۔ کیا کراچی میں لوگوں کا یہ خیال نہیں ؟ اگر نہیں تو کراچی سب سے الگ تھلگ کوئی جگہ ہو گی۔ لیکن یہ کیونکر ہو سکتا ہے ؟ کراچی کون سا ایسا جزیرہ ہے اور کون سے گم شدہ براعظم میں واقع ہے کہ اردگرد کے سمندر کی کوئی لہر وہاں تک نہ پہنچ سکے گی؟ آپ کو تعمیر اور تخلیق کی سوجھ رہی ہے لیکن یہاں تو تخریب کا دور دورہ ہے۔ ہاتھوں سے لٹھ چھین کر اس کی جگہ قلم اور موقلم آپ کیونکر رکھ دیں گے ؟ آپ کوئی سا ہیجان پیدا کیجئے۔ آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ تخریب کی راہ اختیار کر لیتا ہے۔ لوگ جس چیز کا نعرہ لگا کر اٹھتے ہیں سب سے پہلے اسی چیز کا خون کر لیتے ہیں۔ آپ کہئے کہ رمضان کا احترام واجب ہے تو لوگ ٹولیاں بنا بنا کر بازاروں میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ کس کا منہ کالا کریں۔ آپ اسلام کی دعوت دیجئے تو تلاشی شروع ہو جاتی ہے کہ کس کے درّے لگائیں ؟ کسے سنگسار کریں ؟ آپ حیا کی تلقین کیجئے تو لوگ سر بازار عورتوں کے منہ پر تھوکنے لگتے ہیں اور بچیوں پر اپنا بہیمانہ زور آزماتے ہیں :

مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی
اس دور کے ملّا ہیں کیوں ننگ مسلمانی؟

ایسے غیظ و غضب کی فضا میں بھی آج تک کہیں آرٹ پنپا ہے ؟ آرٹ کے لئے تو ضبط اور نسق اور استحکام اور اخلاق اور فروغ لازم ہیں یا پھر کوئی ولولہ کوئی امنگ کوئی عشق جو دلوں کے دروازے کھول دے اور ان میں سے شعر و سخن، نغمہ و رنگ کے طوفان اچھل اچھل کر باہر نکل پڑیں۔ کیا کبھی آرٹ ایسے میں بھی پنپتا ہے ؟ کہ ہر بڑے کو دولت اور اقتدار کی ہوس نے اندھا اور بہرہ کر رکھا ہے اور ہر چھوٹا اپنی بے بضاعتی کا بدلہ ہر ہمسائے اور راہگیر سے لینے پر تُلا ہو، نہ کوئی اقتصادی نظام ایسا ہو کہ ہر چیز کی پوری قیمت اور ہر قیمت کی پوری چیز نصیب ہو اور لوگ فاقے کے ڈر سے نجات پا کر قناعت کی گود میں ذرا آنکھ جھپک لیں نہ کوئی اخلاقی نظام ایسا ہو کہ لوگوں کو اس دنیا یا اس دنیا میں کہیں بھی جزا و سزا کی امید یا خوف ہو نہ مسرت کا کوئی ایسا جھونکا آئے کہ درختوں کی ٹہنیاں مست ہو کر جھومیں اور پتوں کی سرسراہٹ سے آپ ہی آپ نغمے پیدا ہوں۔ نہ عافیت کا کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں آپ کا شکار معتکف ہو کر بیٹھ جائے اور آپ کے لئے تصویریں بناتا رہے۔ نہ آس پاس کوئی ایسی نرالی بستی ہو جہاں شاعر غریب شہر بن کر گھومتا پھرے اور لوگ اسے دیوانہ اجنبی سمجھ کر اسے بک لینے دیں۔ فنون لطیفہ کی انجمن تو آپ نے بنا لی ہے لیکن ڈرتا ہوں کہ کہیں پہلا کام اس انجمن کا یہ نہ ہو کہ چند تصویروں کو مخرب اخلاق اور عریاں کہہ کر جلا دیا جائے۔ چند مصوروں پر اوباشی اور بے دینی کی تہمت لگا کر انہیں ذلیل کیا جائے۔ یا پھر ان پر ایسے لوگ مسلط کر دیئے جائیں جو ان کے ہنر کو کھردری سے کھردری کسوٹیوں پر پرکھیں اور ان پر واضح کر دیں کہ جس برتری کا انہیں دعویٰ تھا اس کا دور اب گزر گیا۔

از دوست کے نام
پطرس بخاری
نقوش جشن آزادی نمبر 1948
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
  • حور اور زیب النسا ٹائپ)

بھائی! صرف اس جگہ آپ سے اختلاف کروں گی۔۔ان کے عشقیہ افسانے حور اور زیب النساء سے بہت مختلف ہیں۔
ایک تو ان کی بنت مختلف ہے ۔دوسرے افسانے کی کیفیت یا تاثر مختلف ہے۔شفیق الرحمن کے بھولے بھالے سے افسانے آخر میں قاری کو ایک عجیب سے خالی پن،پچھتاوے اور حسرت کی سی کیفیت کا شکار کرتے ہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
تخلیق تو روشنی، زندگی، رنگ و بو اور لطافتیں لے کر آئی تھی۔ انسان سے ہمدردی، پاکیزگی اور حسن و نفاست کی توقعات تھیں۔ دریا خشک ویرانوں کو سیراب کرنے کے لیے بہائے گئے تھے۔ پھر کیا ہوا کہ صدیوں سے ان کا پانی کبھی انسان کے خون سے سرخ ہوا ہے، کبھی کتابوں کی سیاہی سے گدلا بہا ہے اور ان کے کناروں نے ہریالی کی جگہ مایوس کن نظارے دیکھے ہیں۔

از دجلہ
تصنیف: دجلہ
شفیق الرحمن
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہمارا ادیب اپنے آپ کو ایک نئے معاشرے میں گھرا ہوا دیکھتا ہے۔ یہ معاشرہ اس کے فہم و بصیرت کی حدوں سے بڑھ کر وسیع اور پیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسا معاشرہ اس کے اسلاف کے تجربے اور مشاہدے سے ماورا ہے۔ اور اسی وسیع و عریض حقیقت سے اس کو موافقت پیدا کرنا ہے تاکہ تکمیل اور استحکام حاصل ہو۔ جب تک یہ موافقت پوری نہیں ہوتی۔ وہ بڑے پُر جوش اضطراب کے ساتھ کسی نہ کسی طرز کی محفل بنا کے بیٹھ جائے۔ اسی اضطراب کی وجہ سے اس زمانے کے اکثر ادیب ایک نہ ایک انجمن یا حلقے سے وابستہ ہو گئے ہیں اور ایک دوسرے کے تصانیف پر دیباچے اور پیش لفظ لکھتے رہتے ہیں۔ آج سے پہلے شاید ہی کبھی ہمارے ادیبوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے، محفلیں، انجمنیں اور حلقے بنانے کی ضرورت محسوس کی ہو۔ یہ ادارے کتنی ہی سنجیدگی اور خلوص سے کیوں نہ وجود میں آئے ہوں، معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اور ادیب کو ان آوارگیوں اور سیاحتوں کی قیمت اپنے تخلیقی جوہر سے ادا کرنی پڑتی ہے۔ ان غیر واضح قسم کی حرکتوں سے اس کا مدعا یہ ہے کہ زندگی کے ’’کل‘‘ کو پالے اور چونکہ برونِ خانہ سے اس کا ربط قائم نہیں ہوا ، اس کو درون خانہ میں تلاش و تجسس سے کام لینا پڑتا ہے۔ مگر اس تلاش کے دوران میں زندگی کا کاروبار ملتوی ہوتا رہتا ہے اور جب تک کوئی زرخیز زمین ملے۔ زندگی کا رس خشک ہو جاتا ہے۔

از "ہمارے زمانے کا اردو ادیب"
پطرس بخاری
انگریزی سے اردو ترجمہ: مظفر علی سید
کتاب: تخلیقات پطرس
نوٹ: پطرس مرحوم نے یہ مقالہ ۱۹۴۵ء میں پی ای این کے سالانہ اجلاس منعقدہ جے پور میں پڑھا تھا۔ اس میں انہوں نے اردو ادب کے جدید دور یعنی اقبال کے فوراً بعد کے زمانے کو موضوع بنایا تھا۔ اور اپنے مخصوص چبھتے ہوئے انداز میں اس پر رائے زنی کی تھی۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ایک تو ان کی بنت مختلف ہے ۔دوسرے افسانے کی کیفیت یا تاثر مختلف ہے۔شفیق الرحمن کے بھولے بھالے سے افسانے آخر میں قاری کو ایک عجیب سے خالی پن،پچھتاوے اور حسرت کی سی کیفیت کا شکار کرتے ہیں۔
کئی ایک بار میرا دل کرتا ہے کہ میں شفیق الرحمن پر کچھ لکھوں۔ اپنے لفظوں میں اپنی سمجھ کے مطابق۔۔۔۔ مگر پھر ہمت نہیں ہوتی۔ چھوٹا منہ بڑی بات۔۔۔۔
 
Top