نیرنگ خیال

لائبریرین
میں اور بڈی کیفے میں بیٹھے امجد اور مسز امجد کا انتظار کر رھے تھے ۔ ھم بڑے مسرور تھے کیونکہ شام کو شیطان نے تعویذ لانے کا وعدہ کیا تھا ۔ ھم دونوں دل ھی دل میں اپنے مستقبل کے متعلق پروگرام بنا رھے تھے کہ امجد اور مسز امجد پہنچے ۔ آج امجد ایک ایسا دلیر اور بےپرواہ نوجوان نظر آرھا تھا ، جس کی آنکھوں میں چمک تھی ، جس کے دل میں امنگیں تھیں اور جس نے ایک بہت اچھا سوٹ پہن رکھا تھا باتوں باتوں میں اس شام کا بھی ذکر ھوا جبامجد کو ھم نے اسی جگہ روتے پیٹتے دیکھا تھا ۔ مسز امجد کے فراق مین ۔ صرف چند مہینوں میں کیا سے کیا ھو گیا ۔ صرف ایک مقدس عمل کی بدولت ۔ اس تعویذ کی برکت سے جو امجد کے بازو پر بندھا ھوا تھا ۔ شیطان نے بھی دوستی کا حق ادا کر دیا تھا ۔ نہ جانے کنکن مصیبتوں کے بعد یہ تعویذ دستیاب ھوا ھو گا۔ اگر آج امجد کے پاس یہ تعویذ نہ ھوتا ، تو غالبا" وہ پھر یہیں بیٹھا سینڈوچز اور کیک کے ٹکڑوں پر آنسو بکھیر رھا ھوتا ۔ اور اب ھمیں بھی ایسے تعویذ ملیں گے ، ھمیں اپنے اوپر رشک آنے لگا ۔ بار بار ھم دروازے کی طرف دیکھ رھے تھے ، شیطان کے انتظار میں ۔
بڈی نےتعویذ کی زیارت کرنا چاھی ۔ امجد نے نہایت حفاظت سے تعویذ اتارا اور بڈی کی ھتھیلی پر رکھ دیا ۔ بڈی نے اسے چوما ، آنکھوں سے لگایا اور پوچھا ۔ "بھلا تعویذوں میں کیا لکھا ھوتا ھے ؟" ھم نے کہا کہ عبارت ھوتی ھے ۔ بڈی سمجھ نہ سکا ۔ اسے بتایا گیا کہ مقدس الفاظ ھوتے ھیں اور ایک خاص ترتیب سے لکھے جاتے ھیں ۔ اس نے پوچھا کہ بھلا اس تعویذ میں کون سے الفاظ ھیں ؟ ھم نے لاعلمی ظاھر کی ۔ بڈی کہنے لگا کیوں نہ اسے کھول کر دیکھیں ۔
امجد بولا ۔ ھرگز نہیں ، اس طرح بےادبی ھوتی ھے ۔ میں نے بھی کہا کہ گناہ ھوگا ۔ لیکن بڈی نہ مانا ۔ بولا ، مجھے بڑا اشتیاق ھے سارا گناہ میرے ذمے رھا ۔ میں نہایت ادب سے کھولوں گا اور الفاظ دیکھ کر بالکل اسی طرح بند کر دوں گا ، پھر تم اسے اپنے بازو پر باندھ لینا ۔
میں بھی سوچنے لگا کہ بھلا دیکھیں تو سہی وہ کون سے الفاظ ھیں ، جنھوں نے جادو کی طرح اثر دکھایا ۔ میں نے بھی بڈی کا ساتھ دیا ۔ امجد کہنے لگا کہ کھولنے سے تعویذ کی تاثیر جاتی رھے گی ۔ بڈی بولا ، بھئی سچ پوچھو تو اب اس تعویذ نے اپنا کام کر دیا ھے ، اب تمھیں کسی مزید تاثیر کی ضرورت نہیں ھے ۔ ھم نے مسز امجد سے پوچھا ۔ انھوں نے اجازت دے دی ۔ آخر امجد بھی مان گیا۔ اس شرط پر کہ اگر کوئی گناہ ھوا تو بڈی کے سر پر ھوگا ۔
بڈی نے بڑی حفاظت سے خول کھولا اور تعویذ نکالا ۔ پھر آھستہ آھستی موم جامہ کھولنے لگا ۔ میری آںکھوں کے سامنے پہنچے ھوئے بزرگوں کے نورانی چہرے ، فقیروں کے مزار ، سبز غلاف ، پھولوں کے ھار ، چلتے ھوئے چراغ ، مزاروں کے گنبد اور خانقاھیں پھرنے لگیں ۔ جیسے عنبر اور لوھان کی خوشبو سے سب مہک اٹھا اور پاکیزہ روحیں ھمارے گرد منڈلانے لگیں ۔ فرشتوں کے پروں کی پھرپھڑاھٹ سنائی دینے لگی ۔ ماحول کچھ ایسا مقدس سا ھو گیا تھا کہ میرا دل دھڑکنے لگا ۔ ھونٹ خشک ھوگئے ۔
بڈی نے تعویذ کھولا اور پڑھنے لگا ۔ میں رہ نہ سکا ۔ بڑی بےصبری سے کاغذ چھین لیا ۔ کاغذ پر شیطان کی مخصوص طرزِتحریر میں یہ مصرعہ لکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
۔
" آیا کرو اِدھر بھی مری جاں کبھی کبھی "۔

تعویذ از قلم شفیق الرحمن
 
جلد یا بدیر ایک وقت آئے گا جبکہ دنیا یہ محسوس کرے گی کہ برطانیہ کا ذہنی اور علمی اقتدار ہندوستان سے کبھی زائل نہیں ہو گا-اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سے کچھ کوتاہیاں اور غلطیاں سرزد ہوئیں، کبھی کبھی جذبات کی رو میں ہم آپے سے باہر بھی ہوگئے اور بارہا ہم تنگ خیالی کے مرتکب ہوئے-ان سب کے باوجود ہم نے ہندوستان کو امن عطا کیا ۔۔۔۔ وہ امن جس کی بنیاد تباہ کاری پر نہ تھی ۔۔۔۔ ہم نے ہندوستان کو قانون دیا، وہ قانون جس میں جبرو تشدد کو دخل نہ تھا۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم نے ہندوستان کو آزادی کی دولت بخشی۔۔۔۔ کیونکہ ملٹن، لاک، برائٹ اور گلیڈ اسٹون کے اعلٰی خیالات کی بدولت سب سے پہلے ہندوستانیوں کے دماغ روشن ہوئے اور انہوں نے آزادی کے حقیقی مفہوم کو سمجھا ۔۔۔۔

فیصلہ ہندوستان از بیورلی نکلسن (ڈاکٹر مبارک علی کی برطانوی راج سے ایک نقل)
 
Top