وہ اردو اشعار جن میں فارسی گو شعراء کا ذکر ہے

حسان خان

لائبریرین
مندرجۂ ذیل بیت میں سعدی شیرازی کا تو ذکر نہیں ہے، لیکن اُن کی شہرۂ عالَم تصنیف 'گلستان' کا ذکر ضرور موجود ہے، اور مجھے اِس بیت کو شریک کرنے کے لیے یہی دھاگا مناسب لگا:

وہ عاشق ہوں پڑھی جس دم گلستاں میں نے طفلی میں
پسند آئی نہایت ہر حکایت بابِ پنجم کی
(امیر مینائی)

× گلستانِ سعدی کے بابِ پنجم کا عنوان 'در عشق و جوانی' ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
مندرجۂ ذیل بیت میں سعدی شیرازی کا تو ذکر نہیں ہے، لیکن اُن کی شہرۂ عالَم تصنیف 'گلستان' کا ذکر ضرور موجود ہے، اور مجھے اِس بیت کو شریک کرنے کے لیے یہی دھاگا مناسب لگا:

وہ عاشق ہوں پڑھی جس دم گلستاں میں نے طفلی میں
پسند آئی نہایت ہر حکایت بابِ پنجم کی
(امیر مینائی)

× گلستانِ سعدی کے بابِ پنجم کا عنوان 'در عشق و جوانی' ہے۔
سید شائق حُسین سفیر نے بھی اپنی ایک بیت میں ایسا مضمون بیان کیا ہے:
پڑھا ہے میں نے گلستاں میں بابِ پنجمِ عشق
نہ پِیر ہو کے بھی بھولا سبق گلستاں کا
(سید شائق حُسین سفیر)
 

حسان خان

لائبریرین
اے سفیر اشعار میں میرے بھی ہے صائب کا رنگ
ہم صفیر اب میں ہوں گویا بلبلِ تبریز کا

(سید شائق حُسین سفیر)
 

حسان خان

لائبریرین
بُلبُلِ شیراز کوں کرتا ہوں یاد
حُسن کوں تیرے گُلستاں بوجھ کر

(ولی دکنی)

× بُلبُلِ شیراز = سعدی شیرازی
 

حسان خان

لائبریرین
میر تقی میر اپنی ایک غزل کی بیتِ آخریں میں کہتے ہیں:
ہے جی میں غزل در غزل اے طبع یہ کہیے
شاید کہ نظیری کے بھی عہدے سے بر آوے
(میر تقی میر)
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
ہاں بُلبُلِ سدرہ شورِ تحسیں ہو جائے
وہ نظم پڑھوں کہ بزم رنگیں ہو جائے
پھل نُقطے ہوں، پھول حَرف، طوبیٰ مصرع
فردوسی اگر آئے تو گُلچیں ہو جائے
(مرزا دبیر)
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
اے ابر تری گُہر فشانی کیا ہے
آ دیکھ کہ یہ دُرِّ معانی کیا ہے
یاں گُل ہے چراغ انوَری کا بالکل
اے شمع تری چرب زبانی کیا ہے
(مرزا دبیر)

× مندرجۂ بالا بیت میں احتمالاً انوَری ابیوَردی کا ذکر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
مصحفی نے کوئی مطلع جو لکھا درد آمیز
خصمِ بے درد اُسے شعرِ فغانی سمجھا

(غلام ہمدانی مصحفی)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مصحفی درد ٹپکتا ہے سُخن سے تیرے
غزل اِس لُطف کی دیوانِ فغانی میں نہیں

(غلام ہمدانی مصحفی)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مصحفی کچھ ریختہ ہی میں نہیں استادِ وقت
فارسی میں بھی نظیریِ نِشاپوری ہے یہ

(غلام ہمدانی مصحفی)
 

حسان خان

لائبریرین
گیا مصحفی تیرا شورِ فصاحت
فلک تک، تو ظالم فغانی ہے گویا

(غلام ہمدانی مصحفی)

× بابا فغانی شیرازی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
میر محبوب علی خان بہادر نظام الملک آصف جاہ سُلطانِ دکن کی مدح میں کہے گئے ایک قصیدے میں سے ابیات:
"کلامِ خُسروی کیونکر نہ دُنیا سے نرالا ہو
شہِ یکتا کا ہر مضمون یکتا ہو ہی جاتا ہے
خدا رکّھے جہاں دو گُل کِھلائے طبعِ رنگیں نے
گُلستاں بوستاں کا رنگ پھیکا ہو ہی جاتا ہے
زباں پر طوطیِ ہندوستاں کو وجد آتا ہے
بیاں پر بُلبُلِ شیراز شیدا ہو ہی جاتا ہے
'قلق' کو داغ 'آتش' کو جلن 'جامی' کو بے ہوشی
'صبا' کو بے کلی 'سودا' کو سودا ہو ہی جاتا ہے"

(نواب فصاحت جنگ بہادر جلیل)
 

حسان خان

لائبریرین
ہم صفیر آہ و فغاں نالہ و زاری میں ترا
نہ فغانی ہے نہ وحشی نہ نظیری بُلبُل

(مولانا محمد حسن خان اسیر بریلوی)

فغانی = بابا فغانی شیرازی
وحشی = وحشی بافقی
نظیری = نظیری نیشابوری
 

الف نظامی

لائبریرین
انسان کے مراتب استعداد بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی استعداد درجہ ء حیوانیت سے متجاوز نہیں ہو پاتی اور وہ صرف حیات کی اساسی ضروریات تک ہی محدود رہتے ہیں ، یہ انسانی استعداد کا سب سے کم مرتبہ ہے۔ ان سے اونچا طبقہ ان اصحاب کا ہے جو ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اپنی استعداد کے رجحانات اور تقاضوں کی مناسبت سے بعض علوم و فنون سیکھ لیتے ہیں۔ اس طرح ان کا شمار تعلیم یافتہ اور اربابِ فن میں ہوتا ہے ، یہ استعداد کا درجہ اوسط ہے۔ آخری اور سب سے بلند طبقہ وہ ہے جس پر جامع الکمالات ، نابغہ روزگار اور فطین کے القاب صادق آتے ہیں۔ قدرت نے انہیں استعداد کے اس نقطہء عروج پر فائز کیا ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنی استعداد کو بروئے کار لائیں اور ذرا توجہ سے کام لیں تو کائنات کا کوئی علم اور فن ان کے دائرہ گرفت سے باہر نہیں جانے پاتا۔ بلکہ جس موضوع کو ان کے آئینہ استعداد کےروبرو پیش کیا جاتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ اس پر برجستہ محو گفتگو ہو جاتے ہیں بلکہ اس موضوع پر ایسے عالمانہ ، محققانہ اور ناقابل تردید عقلی و نقلی دلائل کا ایک دریا بہاتے نظر آتے ہیں اور اپنے جوہر استعداد سے ایسی ایسی نادرہ زائیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ آیت "وحملھا الانسان" میں پوشیدہ حقیقت کبرٰی ذہن پر منکشف ہو جاتی ہے۔ ان کے زیر بحث موضوع کا جو صحیح تجزیہ اور حتمی نتیجہ برآمد ہوتا ہے اس کے قبول کرنے میں سلیم الطبع ، انصاف پسند، معقول اور ذی ہوش سامعین کبھی بھی تاخیر سے کام نہیں لیا کرتے۔
مذکورہ بالا صفاتِ عالیہ ، خصائص اور استعداد کے مالک غزالیؒ ، رازیؒ ، رومیؒ اور امیرخسروؒ جیسے ذہن کے لوگ ہی ہو سکتے ہیں اور ایسے حضرات صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور جس خطہ ارض کو ان کی قیام گاہ کا شرف مل جاتا ہے ، وہ قیامت تک نہ صرف یہ کہ اپنے اس اعزاز پر فخر کرتا ہے ، بلکہ دنیا اس خطہ کے باشندوں کو بھی اس نابغہ روزگار سے قربت کے باعث چشمِ احترام سے دیکھتی ہے۔
تیری محبت کے سبب مجھے اس قوم کے ساتھ بھی حسن سلوک اور مروت سے پیش آنا پڑا جو میرے دشمن تھے۔ دراصل بات یہ ہے کہ ایک آنکھ کی خاطر ہزار آنکھوں کی عزت کرنا پڑتی ہے۔
(سید نصیر الدین نصیر ، محیطِ ادب ، صفحہ88 )
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین

شاعری ہے کہ ساحری کیا ہے
ہر سخن ایک سامری زا ہے

خوشہ چیں آپ کا ہے خاقانی
کون ہے پھر کہ ہوا تیرا ثانی

روشنی دار انوری ہے ترا
راستی پر ہے راست قول مرا

فیض یاب ایک تیرا فیضی ہے
ذرا تیرا ذرا ظہوری ہے

عنصری، عسجدی و فردوسی
آرزو مند تیرے ہیں یہ سبھی

تیرا پس خوردہ کھا کے خوان کا ہاں
بن گیا ہے وہ ایک نعمت خاں

وہ ظہیری جو فاریابی ہے
تیرے وہ خوان کی رکابی ہے

(مثنوی 'نامہء شوق' از حکیم سلطان رام پوری)
 

سید عمران

محفلین
حسان بھائی جو فونٹ استعمال کرتے ہیں اسے پڑھنے میں بہت دشواری ہوتی ہے۔۔۔
بارہا ان کی مفید تحاریر پڑھنے کو جی چاہا لیکن فونٹ پڑھنے کی اذیت کے باعث درمیان میں ہی چھوڑنا پڑا!!!
:(:(:(
 
Top