محمداحمد

لائبریرین
یہ تحریر ہم نے اپنے خود ساختہ ہفتہء غزل کے پامال دنوں میں لکھی تھی کہ جب ہماری یاوہ گوئی عروج پر تھی۔ آج کل چونکہ ہم کچھ نہیں لکھ رہے تو سوچا کہ اس پرانی تحریر سے ہی محفلین کے ضبط کا امتحان لیا جائے۔ :)

تعریف غزل کی
محمد احمدؔ

وکیپیڈیا کے مطابق غزل کے لغوی معنی ہیں"عورتوں سے باتیں کرنا" یا "عورتوں کی باتیں کرنا"۔ تاہم اس تعریف میں لفظ "یا" بہت اہم ہے ورنہ اگر آپ کسی خاتون سے دیگر خواتین کی باتیں کرنا شروع کردیں تو غزل کہیں پیچھے رہ جائے گی اور باقی ماندہ شعراء آپ کا مرثیہ لکھ رہے ہوں گے۔

رہاغزل میں "عورتوں سے باتیں کرنا " تو سب سے پہلے تو اس میں لفظ 'عورتوں' محلِ نظر ہے۔ اب نہ تو شاعر کوئی خطیب ہے اور نہ ہی غزل کوئی خطاب کے پنڈال میں عورتوں کو بٹھا کر وعظ و نصیحت شروع کرنے کی کوشش کی جائے۔ کوشش ہی ہو سکتی ہے ممکنات کی سرحدیں تو ابھی اتنی وسیع نہیں ہوئی ہیں۔ سو ہمارا خیال ہے کہ اس جمع لفظ کو واحد سے تبدیل کر لیا جائے اور عورتوں سے باتیں کرنے کے بجائے کسی خاتون سے مخاطب ہونے کو فی الوقت غزل سمجھا جائے۔ یعنی عورت سے باتیں کرنا۔

غزل کی تعریف کی اب جو صورت نکلی ہے ہمیں اُس میں بھی کچھ اشکال ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اگر خاتون موجود ہیں تو اُن سے باتیں محاورتاً تو کی جا سکتی ہیں لیکن دراصل ان سے باتیں کرنے کا مطلب اُن کی باتیں سننا ہے ۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ آپ کسی خاتون کی موجودگی میں بولنے کا وقت ہرگز نہیں نکال پائیں گے۔ سو حاضر خاتون سے باتیں کرنا ممکن نہیں تو غزل کہنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔

رہ گئی غزل کی باقی ماندہ تعریف ، تو اس سے گمان ہوتا ہے کہ غزل دراصل کسی خاتون سے اُس کے غیاب میں باتیں کرنا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شعراء کو تو لوگ پہلے ہی مخبوط الحواس سمجھتے ہیں اگر وہ اکیلے بیٹھ کر غزل کہیں یعنی کسی ناری سے ہمکلام ہوں تو بہت سے لوگوں کو اُن کی دماغی حالت پر جو شکوک ہوا کرتے ہیں وہ فی الفور یقین میں بدل سکتے ہیں۔ اس مشکل کا حل شاعر نے ایک مفروضے کی صورت میں نکالا۔ وہ مفروضہ کچھ یوں ہے۔

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

یعنی جب کوئی ہماری دماغی حالت پر شک کرنے والا نہ ہو تو آپ ہمارے پاس فرض کیے جائیں گے وہ بھی ایک سامع کی حیثیت سے مقرر کی حیثیت سے نہیں ! اور پھر ہوگی غزل۔

اقبال نے کہا تھا کہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا ۔ عین ممکن ہے کہ اس دیدہ وری سے اُن کی مراد غزل گوئی ہی رہی ہو۔ یعنی غزل کا ہونا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے تاہم جوئے شیر لانے کے مقابلے میں بہرحال آسان ہے جب ہی تو شعراء کدال اُٹھا نے کے بجائے شاعری کرکے فرہاد میاں سے مقابلے کیا کرتے ہیں اور اپنے تئیں جیت بھی جاتے ہیں۔ فرہاد نے تو یوں بھی آخر کار چاروں شانے اور آٹھوں گانٹھ چِت ہی ہونا ہوتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کے دور میں کچھ خواتین زود گوئی کے ساتھ ساتھ غزل گوئی بھی کرتی نظر آتی ہیں۔ تاہم ہمارا نہیں خیال کے یہ شاعرات عورتوں سے باتیں کرنے کے لئے غزل کہتی ہوں گی بلکہ اس کام کے لئے اُنہیں ہجو کی ضرورت پڑتی ہوگئی۔ غزل یہاں غالباً کسی اور مصرف میں آتی ہوگی ۔ تاہم غزل کی تعریف گھڑنے والوں کو اتنی جلدی تھی کہ اُنہوں نے غزل کی تعریف میں خواتین شعراء کی غزل گوئی کا انتظار ہی نہیں کیا اور خشتِ اول کج رکھ کر ہر دوسری خشت کو اُسی تناسب سے کج رکھتے گئے نتیجتاً دیوار ثریّا تک جانے کے بجائے ثریّا دیوار کی زد میں آگئی۔ موخر الذکر ثریّا پر کسی شاعرہ کا گمان کر نا آپ کی صوابدید پر ہے۔

بہرکیف :

آمدم برسرِ تعریف ِ غزل
بات چل نکلی ہے سو چل سو چل

غزل کی تعریف میں مزید یہ بات بھی ملتی ہے کہ یہ وارداتِ عشق کی مختلف کیفیات کا بیان ہوتا ہے۔ اگر وارداتِ عشق کی اصطلاح میں واردات کا لفظ شامل نہ ہوتا تو عین ممکن تھا کہ ہم اسے کسی کہنہ زمانے کی کوئی متروک اصطلاح سمجھتے ۔ لیکن واردات کی نا صرف اصطلاح بلکہ واردات باذاتِ خود آج کے دور میں کافی ان فیشن چیز ہے اور اس سے رو گردانی زمینی حقائق کو بہ یک جنبشِ سر نظر انداز کرنے کے مترادف ہو گی۔

غزل کی تعریف میں وکیپیڈیا مزید رقم طراز ہے کہ " غزل اس آواز کو بھی کہا جاتا ہے جو ہرن کے گلے سے اس وقت نکلتی ہے جب وہ شیر کے خوف سے بھاگ رہی ہوتی ہے۔" ویسے اگر ایسا ہے بھی تو ہمیں اس تعریف کی ہماری مروجہ غزل سے کوئی نسبت نظر نہیں آتی۔ ہاں البتہ غزل اُس آواز کو ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جو ایک شاعر دوسرے شاعر کے پیچھے بھاگتے ہوئے نکالتا ہے اور دوسرا شاعر وہ آواز ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے اور منہ سے تحسین کے الفاظ نکالنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔

بہر کیف غزل کی یہ سب تعریفیں تو وہ لوگ کرتے ہیں جو دوسروں کی غزل کی تعریف کرنے سے جی چراتے ہیں۔ حالانکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ غزل اچھی لگے تو اُس کی تعریف کر دی جائے اور نہ لگے تو پھر یہ دیکھا جائے کہ غزل کس کی ہے۔ اگر غزل کے آگے پیچھے کسی بڑے شاعر کا نام نظر آئے تو غزل کی طرف سے آنکھ بند کرکے تعریف کر دینی چاہیے۔ ہاں اگر غزل کسی معاصر شاعر کی ہے تو اُس کی تعریف اُس انداز سے کی جائے کے شاعر بے چارہ تین دن تک سوچتا رہے کہ یہ تعریف ہی تھی یا کچھ اور۔

ویسے اگر آپ واقعی غزل کی تعریف پڑھنے میں سنجیدہ ہیں تو یہاں سے پڑھ سکتے ہیں۔

ہماری رائے میں غزل کی تعریف توجہ چاہتی ہے سو اس پر مزید بات کرتے ہیں ایک آدھ دن میں۔ :)
 
ایک دفعہ پھر بہت سی داد۔ :)
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اب اگر شاعر اس میں ڈائریکٹ خاتون سے مخاطب ہوتا تو بات کسی قدر معیوب ہو جانی تھی۔
تم میرے پاس ہوتی ہو گویا
جب کوئی دوسری نہیں ہوتی
 

سید عمران

محفلین
بہت زبردست۔۔۔
آپ نے غزل کی تعریف میں سے جس طرح تعریف نکالی ہےاس طرح تو وہ نری شاعر کی ٹھرک بن کر رہ گئی ہے!!!
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
ایک دفعہ پھر بہت سی داد۔ :)
ایک دفعہ پھر ذرہ نوازی کا شکریہ :)
ب اگر شاعر اس میں ڈائریکٹ خاتون سے مخاطب ہوتا تو بات کسی قدر معیوب ہو جانی تھی۔
تم میرے پاس ہوتی ہو گویا
جب کوئی دوسری نہیں ہوتی

ہاہاہاہاہا۔۔۔!

معیوب تو ہے لیکن دلچسپ بھی ہے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت شکریہ عمران بھائی!

آپ نے غزل کی تعریف میں سے جس طرح تعریف نکالی ہے اس تو وہ نری شاعر کی ٹھرک بن کر رہ گئی ہے!!!

:) :) :)

ویسے قسم لے لیجے، ہم نے خود کو مروجہ تعریف تک ہی رکھا ہے اور اسی دائرے میں طبع آزمائی فرمائی ہے۔ :) :) :)
 

عاطف ملک

محفلین
ہمارا نہیں خیال کے یہ شاعرات عورتوں سے باتیں کرنے کے لئے غزل کہتی ہوں گی بلکہ اس کام کے لئے اُنہیں ہجو کی ضرورت پڑتی ہوگئی

واردات باذاتِ خود آج کے دور میں کافی ان فیشن چیز ہے اور اس سے رو گردانی زمینی حقائق کو بہ یک جنبشِ سر نظر انداز کرنے کے مترادف ہو گی۔

البتہ غزل اُس آواز کو ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جو ایک شاعر دوسرے شاعر کے پیچھے بھاگتے ہوئے نکالتا ہے اور دوسرا شاعر وہ آواز ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے اور منہ سے تحسین کے الفاظ نکالنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
لاجواب۔۔۔۔۔۔۔بہت عمدہ۔
ہنسی ہے کہ رک ہی نہیں رہی۔
بالخصوص
نتیجتاً دیوار ثریّا تک جانے کے بجائے ثریّا دیوار کی زد میں آگئی
اف اللہ۔۔۔:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
بہت سی داد احمد بھائی!
ڈھیروں دعائیں۔
 
ورنہ اگر آپ کسی خاتون سے دیگر خواتین کی باتیں کرنا شروع کردیں تو غزل کہیں پیچھے رہ جائے گی اور باقی ماندہ شعراء آپ کا مرثیہ لکھ رہے ہوں گے۔
خوش فہمی ہے آپ کی۔ یہ مرثیہ وغیرہ بعد کی بات ہے، پہلے اُسی خاتون کو اپنی سی وی پیش کریں گے کہ وہ تو چل دئیے اب ہمیں قبول کیجیے۔
پہلی بات یہ ہے کہ اگر خاتون موجود ہیں تو اُن سے باتیں محاورتاً تو کی جا سکتی ہیں لیکن دراصل ان سے باتیں کرنے کا مطلب اُن کی باتیں سننا ہے ۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ آپ کسی خاتون کی موجودگی میں بولنے کا وقت ہرگز نہیں نکال پائیں گے۔ سو حاضر خاتون سے باتیں کرنا ممکن نہیں تو غزل کہنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔
میرا خیال ہے یہ پیرا آپ نے بعد میں لکھا ہے۔ 'بعد' سمجھانا تو نہیں پڑے گا نا;)
بہر کیف غزل کی یہ سب تعریفیں تو وہ لوگ کرتے ہیں جو دوسروں کی غزل کی تعریف کرنے سے جی چراتے ہیں۔ حالانکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ غزل اچھی لگے تو اُس کی تعریف کر دی جائے اور نہ لگے تو پھر یہ دیکھا جائے کہ غزل کس کی ہے۔ اگر غزل کے آگے پیچھے کسی بڑے شاعر کا نام نظر آئے تو غزل کی طرف سے آنکھ بند کرکے تعریف کر دینی چاہیے۔
بھئی پیرے کے اس حصے میں، میں لفظ غزل کو شاعروں والی غزل۔۔۔ نا سمجھ رہا ہوں نا پڑھ رہا ہوں:heehee: جس کو سمجھ آجائے، وہ دوسرے ناسمجھوں کو ہر گز نا سمجھائے تے نا میرے کولوں پچھے۔ :battingeyelashes:

احمد صاحب تحریر نے مسکرانے پر مجبور کر دیا حالانکہ کل جہان جانتا ہے کہ میں دوچار سال کا وقفہ دیکر ہی کہیں مسکراتا ہوں اور وجہ اس کی یہ کہ قہقہے تھمیں تو مسکرانے کی باری آئے۔:cool2: (کالر اوپر کرکے جھاڑنے والا ایمو نہیں مل رہا، نہیں تو اس جملے کے بعد وہ بھی لگاتا، ذرا ٹور شور بن جاتی)

ویسے آج صبح میں نے سبز پتوں والی کوئی خوارک بھی نہیں کھائی، پھر بھی ناجانے کیوں 'میں میں' شروع کر دی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
لاجواب۔۔۔۔۔۔۔بہت عمدہ۔
ہنسی ہے کہ رک ہی نہیں رہی۔
بالخصوص

اف اللہ۔۔۔:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
بہت سی داد احمد بھائی!
ڈھیروں دعائیں۔

ہائے اللہ !

اتنی ساری داد ایک ساتھ پا کر ہم پھولے نہیں سما رہے ہیں۔

بہت بہت شکریہ ! ذرہ نوازی کے لئے ممنون ہوں۔ :) :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
خوش فہمی ہے آپ کی۔ یہ مرثیہ وغیرہ بعد کی بات ہے، پہلے اُسی خاتون کو اپنی سی وی پیش کریں گے کہ وہ تو چل دئیے اب ہمیں قبول کیجیے۔
:eek::eek:

کیا بات ہے۔ بڑی سفاک ہو گئی ہے دُنیا۔
میرا خیال ہے یہ پیرا آپ نے بعد میں لکھا ہے۔ 'بعد' سمجھانا تو نہیں پڑے گا نا;)

ہاہاہاہا۔۔۔!

لکھا تو پہلے ہی لیکن بقول شاعر:

کچھ کچھ اندازہ تھا اس 'دن' کا مجھے
عشق ایسا ناگہانی بھی نہیں

بھئی پیرے کے اس حصے میں، میں لفظ غزل کو شاعروں والی غزل۔۔۔ نا سمجھ رہا ہوں نا پڑھ رہا ہوں:heehee: جس کو سمجھ آجائے، وہ دوسرے ناسمجھوں کو ہر گز نا سمجھائے تے نا میرے کولوں پچھے۔ :battingeyelashes:

وقت گزاری کے مشاغل میں خوب طاق ہیں جناب چوہدری صاحب۔ :)

احمد صاحب تحریر نے مسکرانے پر مجبور کر دیا حالانکہ کل جہان جانتا ہے کہ میں دوچار سال کا وقفہ دیکر ہی کہیں مسکراتا ہوں اور وجہ اس کی یہ کہ قہقہے تھمیں تو مسکرانے کی باری آئے۔:cool2: (کالر اوپر کرکے جھاڑنے والا ایمو نہیں مل رہا، نہیں تو اس جملے کے بعد وہ بھی لگاتا، ذرا ٹور شور بن جاتی)

:) :) :)

چلیےاچھی بات ہے۔ ہمیں دعا دیجے کہ ہمارے باعث زندگی کچھ اعتدال کی طرف گامزن ہوئی۔ :):D:p

ٹور تو پہلے ہی بہت بنی ہوئی ہے آپ کی۔یہ چھوٹے چھوٹے شتونگڑے کیا بگاڑیں گے آپ کی ٹور کا۔ :p:p:p
 
غلطی سے منہ سے نکل گیا ہوگا۔ :)

آئندہ نہیں کروں گا۔ :)

سرگوشی کے حوالے سے آپ کی جانب سے اس حوصلہ شکنی کا کیا سبب ہے؟​
ماشاٰءاللہ آپ کی تحریر بہت زبردست ہے۔آج کل آپ کے نہ لکھنے کی وجہ صرف سنتے رہنا تو نہیں ہے۔:p
 

با ادب

محفلین
بہترین تحریر. . . طنز و مزاح کا لطف آگیا. . . . بعض اچھی غزلوں پہ اکثر اوقات رائے نہ پڑھ کے مجھے خود بھی لگتا ہے بے چارہ شاعر دو لفظ ہی تو چاہتا تھا آپ وہ خوشی بھی دینے کو تیار نہیں. . .

بہت خوب لکھا. ماشاءاللہ
 

محمداحمد

لائبریرین
ماشاٰءاللہ آپ کی تحریر بہت زبردست ہے۔آج کل آپ کے نہ لکھنے کی وجہ صرف سنتے رہنا تو نہیں ہے۔:p

ہم باقاعدہ تو پہلے بھی کبھی نہیں لکھتے تھے۔ جب کبھی طبیعت مائل ہوئی لکھنے بیٹھ گئے۔ نہیں مائل ہو ئی تو نہیں لکھا۔

تاہم آپ کو قیاس آرائیوں کی مکمل آزادی ہے۔ :) :) :)
 
Top