دید کی راحت سے لے کر ہجر کے آزار تک

عاطف ملک

محفلین
غزل
دید کی راحت سے لے کر ہجر کے آزار تک
کیا تھا میں؟ اور کیا ہوا؟ مدہوش سے بیدار تک

گلشنِ دیدار، دشتِ شوق، دریائے فراق
نارسائی کا سفر ہے سود کی منجدھار تک

بس مری تسخیر ہی درکار تھی، الفت نہ تھی
داستاں چلتی رہی میرے لبِ اظہار تک

جاں نثارانِ تو خستہ حال و رسوائے جہاں
اور کرم محدود تیرا کوچہِ اغیار تک

کیا محبت؟ کیا مؤدت؟ کیا ہے امن و احترام؟
دیں مرا ہے کفر تک اور سوچ ہے تلوار تک

حسن و زر کے حق میں اس درجہ وکالت بھی نہ کر
بات پہنچے گی یقیناً سیرت و کردار تک

واسطہ تجھ کو ترے لطف و کرم کا اےطبیب!
اب تو پہنچا دے دوا اس عشق کے بیمار تک

چشمِ سِحر آگیں نے عاطف کو مقید کر لیا
زلف کی زنجیر سے بندھ کر یہ پہنچا دار تک​

نوٹ:اساتذہ سے اصلاح یافتہ
 
آخری تدوین:

عاطف ملک

محفلین
میری داد بھی دوسری لڑی سے کاپی کر لیں۔ :p
اے گل نئیں ٹھیک :cry2:
ویسے یہ غزل آپ کی شاعری کے آفٹر شاکس سے بچنے کیلیے ہے :p:LOL::LOL::LOL:
بہت خوب عاطف بھائی

کیا چیز:sneaky:
غزل :p
کس کی اصلاح کروانے کے چکر میں ہیں؟:p

پوسٹ مارٹم کے بعد غزل آپ کے حوالے کردی گی دیدار آخر کے لیے۔
واہ۔۔۔۔آپ کا تخیل بھی بہت خوب ہے عدنان بھائی!
بہت خوب ہے ۔ ایک مصرعہ کو میں نہیں سمجھ پایا ۔
دین میرا کفر تک ہے سوچ ہے تلوار تک
میرا مذہب صرف اس حد تک رہ گیا ہے کہ لوگوں پہ کفر کے اور واجب القتل ہونے کے فتوے لگاؤں :)
تعریف کیلیے بہت بہت شکریہ۔
 
آخری تدوین:

عاطف ملک

محفلین
آپ کی ذرہ نوازی ہے استادِ محترم!
خوبصورت غزل ہے ڈاکٹر صاحب، کیا کہنے!
سر آپ، استادِ محترم جناب اعجاز عبید اور دیگر اساتذہ کی رہنمائی کے طفیل یہ "تُک بندیاں" اشعار کی شکل پاتی ہیں،ورنہ کہاں ہم اور کہاں شاعری!
 
Top