محمد وارث

لائبریرین
جوابِ نامہ ہمیں پارہ کردن است کلیم
مگو کہ قاصدِ من بے جواب می آید


کلیم کاشانی

اے کلیم، (میرے) خط کا جواب، یہیں خط کو پھاڑ دینا ہے، لہذا یہ مت کہہ کہ میرا قاصد جواب کے بغیرواپس آیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اِس قصیدے کا اولین شعر:
خوشا عشرت‌سرای کابل و دامانِ کهسارش
که ناخن بر دلِ گل می‌زند مژگانِ هر خارش
(صائب تبریزی)

عشرت سرائے کابل اور اُس کے دامنِ کوہسار کی کیا ہی بات ہے کہ جس کے ہر خار کی مژگاں گُل کے دل پر ناخن مارتی ہیں۔
(یعنی کابل کے خاروں پر دیگر جگہوں کے گُل رشک کرتے ہیں۔)
شہرِ کابُل کے وصف میں کہے گئے قصیدے میں صائب تبریزی کہتے ہیں:
خوشا وقتی که چشمم از سَوادش سُرمه‌چین گردد

شوم چون عاشقان و عارفان از جان گرفتارش
(صائب تبریزی)
خوشا وہ وقت کہ جب میری چشم [کابُل] کی خاک سے سُرمہ چُنے گی، [اور] میں عاشقوں اور عارفوں کی طرح از جان و دل اُس کا اسیر ہو جاؤں گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
درین دریایِ بی‌پایان درین طوفانِ شورافزا
دل افکندیم بِسْمِ اللهِ مَجْریهَا وَمُرْسَاهَا
(حزین لاهیجی)
ہم نے اِس بحرِ بے پایاں میں اور اِس طوفانِ شور افزا میں [اپنا] دل ڈال دیا، [کہ] اللہ [ہی] کے نام سے اِس کا جاری ہونا اور رُکنا ہے۔
× مندرجۂ بالا بیت میں عربی عبارت سورۂ ہُود کی آیت ۴۱ سے ماخوذ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تراشد از دلِ سنگینِ من بت‌خانه را آزر
فروزد از شرارِ من چراغِ دیر را ترسا
(حزین لاهیجی)
آزر بُت خانے کو میرے دلِ سنگیں سے تراشتا ہے؛ راہب دیر کا چراغ میرے شرر سے روشن کرتا ہے۔
× دَیر = مسیحی راہبوں کی اقامت گاہ و عبادت گاہ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
در آتشِ غم دلِ فگارم سوزد
در راهِ تو چشمِ انتظارم سوزد
بی چهرهٔ همچو لالهٔ نوروزت
گُل‌هایِ امیدِ نوبهارم سوزد
(صَفَر امیرخان)
آتش غم میں میرا زخمی دل جلتا ہے؛ تمہاری راہ میں میری چشمِ منتظر جلتی ہے؛ تمہارے لالۂ نوروز جیسے چہرے کے بغیر میری نوبہار کے گُلِ امید جلتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
شہرِ کابُل کے وصف میں کہے گئے قصیدے میں صائب تبریزی کہتے ہیں:
خوشا وقتی که چشمم از سَوادش سُرمه‌چین گردد

شوم چون عاشقان و عارفان از جان گرفتارش
(صائب تبریزی)
خوشا وہ وقت کہ جب میری چشم [کابُل] کی خاک سے سُرمہ چُنے گی، [اور] میں عاشقوں اور عارفوں کی طرح از جان و دل اُس کا اسیر ہو جاؤں گا۔
علامہ اقبال نے بھی اِس بیت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
شهرِ کابُل خطّهٔ جنت‌نظیر

آبِ حیوان از رگِ تاکش بگیر
چشمِ صائب از سَوادش سُرمه‌چین
روشن و پاینده باد آن سرزمین
(علامہ اقبال)
شہرِ کابُل خطّۂ جنت نظیر ہے۔۔۔ تم وہاں کی رگِ تاک سے آبِ حیات حاصل کرو۔۔۔ چشمِ صائب نے اُس کی خاک سے سُرمہ چُنا ہے۔۔۔ وہ سرزمین روشن و پائندہ رہے!
× تاک = درختِ انگور
 

حسان خان

لائبریرین
حاجی به ره کعبه و من طالب دیدار.
او خانه همی جوید و من صاحب خانه

شیخ بہائی
برادرِ محترم! یہاں پر فارسی اشعار اردو ترجمے کے ساتھ شریک کیے جاتے ہیں۔ بہر حال، میں اِس بیت کا ترجمہ کر رہا ہوں:
حاجی به رهِ کعبه و منِ طالبِ دیدار
او خانه همی‌جوید و من صاحبِ خانه

حاجی کعبے کی راہ پر رواں ہے، اور میں دیدار کا طالب ہوں؛ وہ خانہ تلاش کرتا ہے اور میں صاحبِ خانہ۔

یہ شیخ بہائی کا نہیں، بلکہ خیالی بخارائی کا شعر ہے، جسے شیخ بہائی نے اپنی مشہور مخمّس میں تضمین کیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اِس قصیدے کا اولین شعر:
خوشا عشرت‌سرایِ کابُل و دامانِ کهسارش
که ناخن بر دلِ گل می‌زند مژگانِ هر خارش
(صائب تبریزی)

عشرت سرائے کابُل اور اُس کے دامنِ کوہسار کی کیا ہی بات ہے کہ جس کے ہر خار کی مژگاں گُل کے دل پر ناخن مارتی ہیں۔
(یعنی کابُل کے خاروں پر دیگر جگہوں کے گُل رشک کرتے ہیں۔)
علامہ اقبال نے بھی اِس بیت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
شهرِ کابُل خطّهٔ جنت‌نظیر

آبِ حیوان از رگِ تاکش بگیر
چشمِ صائب از سَوادش سُرمه‌چین
روشن و پاینده باد آن سرزمین
(علامہ اقبال)
شہرِ کابُل خطّۂ جنت نظیر ہے۔۔۔ تم وہاں کی رگِ تاک سے آبِ حیات حاصل کرو۔۔۔ چشمِ صائب نے اُس کی خاک سے سُرمہ چُنا ہے۔۔۔ وہ سرزمین روشن و پائندہ رہے!
× تاک = درختِ انگور
افغان شاعر عزیز عزیزی کی ایک نظم کی ابتدائی چار ابیات:
دریغا کابُلِ زیبایِ ما با چشمِ خون‌بارش

که تیرِ دشمنان پیهم خورد بر قلبِ افگارش
همان کابُل که صائب بهرِ توصیفش به استادی
سروده شعرِ زیبایی در آن دیوانِ اشعارش
"خوشا عشرت‌سرایِ کابُل و دامانِ کهسارش
که ناخن بر دلِ گُل می‌زند مژگانِ هر خارش"
و یا علّامه اقبال خطّهٔ جنت‌نظیرش خواند
که آبِ زندگی بتوان گرفت از تاک و اشجارش
(عزیز عزیزی)
خوں بار چشم والے ہمارے کابُلِ زیبا پر افسوس! کہ جو اپنے زخمی دل پر مسلسل دشمنوں کے تیر کھاتا ہے۔
وہی کابُل کہ جس کی توصیف میں صائب تبریزی نے استادی کے ساتھ اپنے دیوانِ اشعار میں ایک زیبا قصیدہ نظم کیا تھا۔
"عشرت سرائے کابُل اور اُس کے دامنِ کوہسار کی کیا ہی بات ہے کہ جس کے ہر خار کی مژگاں گُل کے دل پر ناخن مارتی ہیں۔"
اور علّامہ اقبال نے اُس کو خطّۂ جنت نظیر پکارا تھا، کہ جس کی تاک اور درختوں سے آبِ حیات حاصل کیا جا سکتا ہے۔
× تاک = درختِ انگور
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
از صُحبتِ بی‌وفای دوری بهتر
از شادیِ بی‌بقا صبوری بهتر
از دیدنِ صد فتنه ز هر کج‌نظری
چون رودکیِ شهیر کوری بهتر
(صَفَر امیرخان)
بے وفا کی صحبت سے دوری بہتر؛ بے بقا شادمانی سے صبر بہتر؛ ہر کج نظر شخص سے صد فتنے دیکھنے سے رُودکیِ نامور کی طرح کوری بہتر۔
× کور = نابینا، اندھا × کوری = نابینائی، اندھا پن
× مشہور یہی ہے کہ فارسی کے اولین صاحبِ دیوان شاعر رُودکی سمرقندی کورِ مادرزاد تھے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
در گلشنِ عمر گه گُل و گه خاریم
گه مستِ نشاطیم و گهی غم‌داریم
تا نامِ نکو ز ما بِماند باقی
در مزرعِ دل دانِ وفا می‌کاریم
(صَفَر امیرخان)

ہم گلشنِ عمر میں گاہ گُل ہیں، گاہ خار ہیں؛ گاہ مستِ شادمانی ہیں، اور گاہ مغموم ہیں؛ تاکہ ہمارا نامِ نیک باقی رہ جائے، ہم کِشتِ دل میں دانۂ وفا بوتے ہیں۔
× کِشْت = کھیت
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
در صبحِ نخُستِ رمَضان رفت پدر
بِشْنیده دمی بانگِ اذان رفت پدر
در دیده سِرِشکِ حسرت و داغ به دل
رُو جانبِ مُلِک جاودان رفت پدر
(صَفَر امیرخان)
رمضان کی صبحِ اول میں [میرے] پدر چل بسے؛ ایک لمحہ بانگِ اذان سن کر [میرے] پدر چل بسے؛ چشم میں اشکِ حسرت اور دل میں داغ لیے [میرے] پدر مُلکِ ابدی کی جانب چل بسے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
بی رویِ تو روزِ روشنم تار شود
بی نخلِ قدِ تو گلشنم خار شود
این طِفلکِ نازپرورِ ارمانم
بی دستِ محبّتِ تو بیمار شود
(صَفَر امیرخان)
تمہارے چہرے کے بغیر میرا روزِ روشن تاریک ہو جاتا ہے؛ تمہارے نخلِ قد کے بغیر میرا گلشن خار ہو جاتا ہے؛ تمہارے دستِ محبّت کے بغیر میرے ارمان کا یہ نازپَروَر چھوٹا بچّہ بیمار ہو جاتا ہے۔
× شاعر نے 'ارمان' کو 'طفلکِ نازپرور' سے تشبیہ دی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از میرزا محمد افضل سرخوش

واعظ گفتا کہ نیست مقبول دُعا
زاں دست کہ آلود بہ جامِ صہبا
رندے گفتا کہ تا بوَد جام بہ دست
دیگر بہ دعا کسے چہ خواہد ز خدا؟


واعظ نے کہا کہ دعا قبول نہیں ہوتی، اُن (اُٹھے ہوئے) ہاتھوں کی کہ جو شراب کے جام سے آلود ہوں (شرابی کی)۔ ایک رند بولا کہ جب تک ہاتھوں میں جام ہے تو کوئی دعا کر کے خدا سے اور کیا بھی مانگے گا؟
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
خشکید و کویرِ لوت شد دریامان
امروز بد و از آن بتر فردامان
زین تیره‌دلِ دیوصفت، مُشتی شمر
چون آخرتِ یزید شد دنیامان
(مهدی اخوان ثالث)

تهران، اردیبهشت ۱۳۳۹هش (۱۹۶۰ء)

ہمارا دریا خشک ہو گیا اور صحرا بن گیا۔۔۔ [ہمارا] اِمروز بد ہے، اور اُس سے بدتر ہمارا فردا ہے۔۔۔ اِن مُشت بھر تاریک دل و شیطان صفت شمروں سے ہماری دنیا یزید کی آخرت جیسی ہو گئی۔
× دشتِ لُوت/کویرِ لُوت = ایران کے ایک صحرا کا نام
× اِمروز = آج
× فَردا = روزِ آیندہ، آیندہ کل، آنے والا کل
× مُشت = مٹھی
 

حسان خان

لائبریرین
ای چمان در چمن آزاد، چه دانی به قفس
حالتِ مُرغکِ بی‌تاب چه خواهد بودن؟
(مهدی اخوان ثالث)
اے آزادی کے ساتھ چمن میں خِرام کرنے والے! تمہیں کیا معلوم کہ قفس میں پرندۂ بے تاب کا حال کیا ہو گا؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تو که در ساحلِ امنی و امان، کَی دانی
حالِ افتاده به غرقاب چه خواهد بودن؟
(مهدی اخوان ثالث)

تم تو ساحلِ امن و اماں پر ہو، تمہیں کب معلوم ہو کہ غرقاب میں گِرے شخص کا حال کیا ہو گا؟
 

حسان خان

لائبریرین
کشمیر کے وصف میں کہے گئے قصیدے میں عُرفی شیرازی کہتے ہیں:
هر سوخته‌جانی که به کشمیر درآید

گر مرغِ کباب است که با بال و پر آید
(عُرفی شیرازی)
جو سوختہ جاں بھی کشمیر میں داخل ہوتا ہے، اگر مُرغِ کباب بھی ہو تو با بال و پر ہو جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
دلِ گم‌گشته را در هر خَمِ زلفش همی‌جُستم
که ناگه چشمِ بدخُویش سویِ جان رفت و جان گم شد
(امیر خسرو دهلوی)
میں [اپنے] دلِ گم شدہ کو اُس کے ہر خَمِ زُلف میں تلاش کر رہا تھا کہ ناگاہ اُس کی چشمِ بدخُو [میری] جان کی جانب چلی اور جان [بھی] گم ہو گئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
گرچه نستانی به هیچم بر سرِ بازارِ وصل
خودفروشی بین که می‌گویم خریدارم تویی
(عبدالرحمٰن جامی)

اگرچہ بازارِ وصل میں تم مجھے کسی ادنیٰ و پوچ چیز کے عوض بھی نہیں لیتے، لیکن [میری] خودفروشی دیکھو کہ میں کہتا ہوں کہ میرے خریدار تم ہو۔
 
Top