منزلِ عشق تک نہ چاہ نہ راہ

منزلِ عشق تک نہ چاہ نہ راہ
چل مگر کار ساز ہے اللہ

وہ پڑے ہیں لغت دھرے کے دھرے
کر گئی کام بے زبانئِ آہ !

اہلِ دل زلزلوں کی زد میں جیے
تمھیں لرزا گئی فقط افواہ ٭

نہ ہوا چین لمحہ بھر کو نصیب
دل ہے دنیا میں نعمتِ ناگاہ

پردے میں تھی ضمیرِ فن کی موت
نہ کوئی حادثہ، نہ کوئی گواہ

کر تو جائیں گے زندگی راحیلؔ
دل کے تیو ر مگر، خدا کی پناہ !

راحیلؔ فاروق
؁۲۰۱۰ء
٭ غالباً ۲۸ اکتوبر ۲۰۱۰ء کے زلزلے کا ذکر ہے۔
 
واہ، بہت عمدہ جناب۔
منزلِ عشق تک نہ چاہ نہ راہ
چل مگر کار ساز ہے اللہ

وہ پڑے ہیں لغت دھرے کے دھرے
کر گئی کام بے زبانئِ آہ !

پردے میں تھی ضمیرِ فن کی موت
نہ کوئی حادثہ، نہ کوئی گواہ
 

La Alma

لائبریرین
چل مگر کار ساز ہے اللہ
فکر ہر کس بقدر ہمت اوست!
وہ پڑے ہیں لغت دھرے کے دھرے
کر گئی کام بے زبانئِ آہ !

اہلِ دل زلزلوں کی زد میں جیے
تمھیں لرزا گئی فقط افواہ ٭

نہ ہوا چین لمحہ بھر کو نصیب
دل ہے دنیا میں نعمتِ ناگاہ

پردے میں تھی ضمیرِ فن کی موت
نہ کوئی حادثہ، نہ کوئی گواہ

کر تو جائیں گے زندگی راحیلؔ
دل کے تیو ر مگر، خدا کی پناہ !
جہاں تک میں نے دیکھا ہے آپ کو نقاد میسر نہیں . جمالیاتی سطح پر شعر کے حسن و قبح کو پرکھنے کے لیے آپ کے اپنے تنقیدی شعور کے لیے بہت سی داد !!!
 
ماشاءاللہ کیا خوب کہا۔مرحبا
شکریہ، حضور۔
واہ، بہت عمدہ جناب۔
آداب، بھیا!
فکر ہر کس بقدر ہمت اوست!

جہاں تک میں نے دیکھا ہے آپ کو نقاد میسر نہیں . جمالیاتی سطح پر شعر کے حسن و قبح کو پرکھنے کے لیے آپ کے اپنے تنقیدی شعور کے لیے بہت سی داد !!!
شکریہ۔ میں آپ کی توجہ پر ممنونِ احسان ہوں۔
آپ کا پہلا تبصرہ بالکل نہیں سمجھا۔ دوسرے کو جہاں تک سمجھا ہوں اس کے پس پردہ ایک مفروضے (assumption) سے اختلاف رکھتا ہوں۔
ہماری روایت میں اساتذہ نے کبھی وہ تنقید نہیں فرمائی جو آج کل کا چلن بن گئی ہے۔ تاریخِ ادب اٹھا کر دیکھیے۔ تمام تر بحثیں زبان و بیان اور طرزِ ادا وغیرہ کی ملیں گی۔ اور ان پر اتنی دماغ سوزی کی گئی ہے کہ ہمارے ان علوم کے آگے مغرب کے ناقدین محض طفلِ مکتب ہیں۔ مثال کے طور پر فصاحت اور بلاغت کے لیے انگریزی میں ایک ہی لفظ (eloquence) ملتا ہے جبکہ مشرق میں یہ نہ صرف الگ ہیں بلکہ الگ شعبہ ہائے علم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
گویا ہمارے اکابر ادب کے ظاہری خصائص کی اصلاح تک محدود رہے ہیں اور معنوی اور جمالیاتی محاسن کو انھوں نے خود شاعر یا ادیب پر چھوڑ دیا ہے۔ اس کے برعکس اہلِ مغرب نے تنقید کی آڑ میں معنوی تحقیق کی کوشش کی ہے اور منہ کی کھائی ہے۔ ارسطو سے لے کر دریدا تک ادبی تنقید ایک خصی کر دینے والے علم سے زیادہ بڑی حیثیت عملی طور پر حاصل نہیں کر پائی۔ ایک تصنع اور آورد کا عنصر ہمیشہ اس میں ایسا شامل رہا ہے جس نے فطری فن کاروں کو نقصان پہنچایا ہو تو پہنچایا ہو، فائدہ کبھی نہیں دیا۔
اس لیے اس بات کی تو مجھے خوشی ہے بلکہ اجازت دیجیے تو کہوں کہ فخر ہے کہ مجھے نقاد میسر نہیں آئے۔ ورنہ حلقۂِ اربابِ ذوق سے لے کر اردو محفل تک یہ جنس کچھ ایسی نایاب نہیں۔ اس ضمن میں میرے اس مضمون سے شاید بات اور واضح ہو سکے گی۔
 

عاطف ملک

محفلین
منزلِ عشق تک نہ چاہ نہ راہ
چل مگر کار ساز ہے اللہ

وہ پڑے ہیں لغت دھرے کے دھرے
کر گئی کام بے زبانئِ آہ !

اہلِ دل زلزلوں کی زد میں جیے
تمھیں لرزا گئی فقط افواہ ٭

نہ ہوا چین لمحہ بھر کو نصیب
دل ہے دنیا میں نعمتِ ناگاہ

پردے میں تھی ضمیرِ فن کی موت
نہ کوئی حادثہ، نہ کوئی گواہ

کر تو جائیں گے زندگی راحیلؔ
دل کے تیو ر مگر، خدا کی پناہ !

راحیلؔ فاروق
؁۲۰۱۰ء
٭ غالباً ۲۸ اکتوبر ۲۰۱۰ء کے زلزلے کا ذکر ہے۔
یہ تو سمجھ آگئی :)
شکریہ۔ میں آپ کی توجہ پر ممنونِ احسان ہوں۔
آپ کا پہلا تبصرہ بالکل نہیں سمجھا۔ دوسرے کو جہاں تک سمجھا ہوں اس کے پس پردہ ایک مفروضے (assumption) سے اختلاف رکھتا ہوں۔
ہماری روایت میں اساتذہ نے کبھی وہ تنقید نہیں فرمائی جو آج کل کا چلن بن گئی ہے۔ تاریخِ ادب اٹھا کر دیکھیے۔ تمام تر بحثیں زبان و بیان اور طرزِ ادا وغیرہ کی ملیں گی۔ اور ان پر اتنی دماغ سوزی کی گئی ہے کہ ہمارے ان علوم کے آگے مغرب کے ناقدین محض طفلِ مکتب ہیں۔ مثال کے طور پر فصاحت اور بلاغت کے لیے انگریزی میں ایک ہی لفظ (eloquence) ملتا ہے جبکہ مشرق میں یہ نہ صرف الگ ہیں بلکہ الگ شعبہ ہائے علم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
گویا ہمارے اکابر ادب کے ظاہری خصائص کی اصلاح تک محدود رہے ہیں اور معنوی اور جمالیاتی محاسن کو انھوں نے خود شاعر یا ادیب پر چھوڑ دیا ہے۔ اس کے برعکس اہلِ مغرب نے تنقید کی آڑ میں معنوی تحقیق کی کوشش کی ہے اور منہ کی کھائی ہے۔ ارسطو سے لے کر دریدا تک ادبی تنقید ایک خصی کر دینے والے علم سے زیادہ بڑی حیثیت عملی طور پر حاصل نہیں کر پائی۔ ایک تصنع اور آورد کا عنصر ہمیشہ اس میں ایسا شامل رہا ہے جس نے فطری فن کاروں کو نقصان پہنچایا ہو تو پہنچایا ہو، فائدہ کبھی نہیں دیا۔
اس لیے اس بات کی تو مجھے خوشی ہے بلکہ اجازت دیجیے تو کہوں کہ فخر ہے کہ مجھے نقاد میسر نہیں آئے۔ ورنہ حلقۂِ اربابِ ذوق سے لے کر اردو محفل تک یہ جنس کچھ ایسی نایاب نہیں۔ اس ضمن میں میرے اس مضمون سے شاید بات اور واضح ہو سکے گی۔
یہ پڑھنے کے بعد
"ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی۔۔۔" والا حساب ہے :hypnotized:

غزل بلاشبہ بہت عمدہ ہے۔(یہ الفاظ لکھتے ہوئے اپنے الفاظ کی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے اب)
خصوصاً مقطع بہت پسند آیا :)
اللہ آپ کے قلم میں روانی اور علم میں مزید برکت عطا فرمائے۔
ویسے میں اللہ کے بطورِ قافیہ استعمال کے متعلق پوچھنا چاہ رہا تھا لیکن آپ کے ایک اور مضمون کا متحمل نہیں ہو سکتا،سو رہنے دیتے ہیں :p
 

محمداحمد

لائبریرین
سمجھ نہیں آتا کہ ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت کلام پر آپ کی تحسین کس طرح کی جائے۔

اللہ نظرِ بد سے بچائے آپ کو۔ :) :) :)
 
وہ پڑے ہیں لغت دھرے کے دھرے
کر گئی کام بے زبانئِ آہ !

پردے میں تھی ضمیرِ فن کی موت
نہ کوئی حادثہ، نہ کوئی گواہ

دل کے تیو ر مگر، خدا کی پناہ !
وا ہ واہ واہ ۔۔ لاجواب اور زبردست ۔۔۔
سبھی شعر لاجواب ہیں ۔ ڈھیروں داد بھیا
 
Top