میری فکری تنہائی کا سدباب کیجیے۔۔۔

محسن حجازی

محفلین
نبیل بھائی، فاروق سرور بھائی، زکریا بھائی، آصف بھائی، قادری بھائی۔۔۔ ظفری بھائی۔۔۔ فاتح، ساجد، ساجد اقبال، راسخ۔۔۔ کالا پانی، خاور بلال۔۔۔ اور دیگر ارباب فکر و دانش!

ملکی حالات آپ کے سامنے ہیں اور عالمی حالات میں بھی بے چینی بڑھ رہی ہے ایران پر بھی حملے کا قوی اندیشہ ہے۔ اور ہم تو ویسے ہی بغیر کسی حملے کے امریکی باجگزار ہیں۔۔۔ میں پاکستان کو اپنی آنکھوں سے میدان جنگ بنتا دیکھ رہا ہوں گھر سے دفتر تک جگہ جگہ مورچے اوررکاوٹیں۔۔۔

حکومت اور ہٹ دھرمی اور حکومتی وکلا کا رویہ تو آپ نے گریٹ ڈیبیٹ میں دیکھ لیا ہوگا۔ عجیب جہت میں معاملات بڑھ رہے ہیں۔۔۔ ایک حساس انسان کی حیثیت سے میں ہی نہیں بیشتر پاکستانی اس صورتحال پر تشویش کا شکار ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کا کوئی مستقبل بھی ہے؟ یا وہی احمد فراز کی بات جو انہوں نے تازہ ترین انٹرویو میں کہی کہ پاکستان کو صرف کوئی معجزہ ہی ٹھیک کر سکتا ہے؟

آپ کی کیا رائے ہے؟
 

رضوان

محفلین
محسن صاحب
آپ نے اس انتہائی حساس موضوع پر اظہارِ خیال کی دعوت دی ہے جس پر کسی سے بات کرتے ہوئے اب ڈر ہی لگتا ہے پہلے سیاست پاکستانی افراد کا پسندیدہ موضوعِ بحث ہوتی تھی اب اس پر بات کرتے ہوئے ہر شخص کتراتا ہے۔ کوئی امید کی کرن دکھائی نہیں دیتی مایوس ہو کر کچھ لوگوں نے لاتعلقی اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے کا رویہ اپنا لیا ہے یہاں تک کہ ٹی وی اور اخبارات تک کا مقاطعہ کرلیا گیا کہ کم از کم اپنا دل تو محفوظ رہے۔ وطن سے باہر بیٹھے محبانِ وطن پر یہ وقت اور بھی کڑا ہوتا ہے کہ وطن کیطرف سے آنے والی ہر بری خبر سچی ہونے کا دھڑکا رہتا ہے اور آجکل تو ہر طرف مایوسی نے پہرا ڈال رکھا ہے۔
 

قسیم حیدر

محفلین
قربانیوں کا پھل کوئی اور لے جائے گا۔ عوام تو قربانی کا بکرا بنتے ہیں۔ آج اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ اگر صدر منتخب نہ کیا گیا تو وردی نہیں اترے گی۔ انتہا ہے سینہ زوری، لاقانونیت اور بدمعاشی کی۔
 

دوست

محفلین
توپھر کب اٹھیں گے عوام۔
کیا ہمارے ہاں بھی بھکشوؤں کو سڑکوں پر آنا پڑے گا؟
 

عمر میرزا

محفلین
عوام کے باہر آنے کا انتظار نہ کریں ۔ھر کوئی ایک دوسرے کی طرف دیکھ رھا ہے۔ ہر کوئی مضطرب ہے۔
بارش کا پھلا قطرہ بنیں۔خود نکلیں پھر دیکھیں کیا ھوتا ھے ۔
امت کو لیڈرشپ چاہیئے آپ وہ لیڈر شپ حاصل کریں ۔ امت کو ایک سوچ اور فکر دیں- امت کو کسی شخصیت سے نھیں بلکہ ان سوچوں اور افکار سے تبدیلی کی طرف لے کر جائیں۔
 

ابوشامل

محفلین
عمر مرزا نے سب سے اہم بات کی ہے کہ بجائے ایک دوسرے کی جانب دیکھنے کے خود باہر نکلیں،دیکھیں لوگ کیسے آپ کے ساتھ نکلتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ایک اور اہم پوائنٹ یہ اٹھایا ہے کہ شخصی قیادت کے بجائے افکار اور سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے جو میرے خیال میں سب سے اہم ہے۔ شخصیات تو بدلتی رہتی ہیں لیکن اقدار اور افکار نہیں بدلنے چاہئیں۔
 

ابوشامل

محفلین
اور جہاں تک رہی بات محسن بھائی کی پریشانی کی، تو بھائی صاحب! ایران پر حملہ نہیں ہوگا لیکن پاکستان میں حملہ کرنے کی ضرورت تو نہیں لیکن بیرونی حملہ ہو یا نہ ہو، داخلی سطح پر ملکی حالات واقعی ایک خونریز سمت بڑھ رہے ہیں اور اس موقع پر اگر موجودہ نظام کے مقابلے پر ایک بھی "کردار کی غازی" قیادت آ گئی تو "armageddon" شروع ہو جائے گی۔ اور پھر جس کا پلڑا بھاری رہا اس فریق کی جانب سے "انقلاب" آنے کی امید ہے۔ دوسری جانب موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں یہ بالکل واضح ہے کہ مستقبل اسلام کا ہے اور امید ہے کہ اس ضمن میں پاکستان کا کردار (بعد از تبدیلی) اہم ہوگا۔
عوام سڑکوں پر کیوں نہیں آتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حکومتی سطح پر اس طرح کے اقدامات کیے گئے ہیں کہ عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کے حصول کی کوششوں میں اتنا مشغول کر دیا جائے بلکہ ان تینوں بنیادی ضروریات کو عوام کی پہنچ سے اتنا دور رکھا جائے کہ وہ ان کے حصول کی تمنا میں ہی اپنی صلاحیتیں اور کوششیں صرف کردے اور سیاسی و حکومتی معاملات سے اس کا کوئی تعلق ہی نہ رہے۔ اب تک تو یہ تجربہ کافی کامیاب رہا ہے اور اس کے چلتے پھرتے مظاہر آپ کو نظر آتے ہی رہتے ہوں گے۔
رہ گئی آخری بات وہ یہ کہ پاکستان کو کسی معجزے نے نہیں بلکہ ہم نے ہی ٹھیک کرنا ہے اور یہ تب ٹھیک ہوگا جب ہر شخص یہ سمجھے گا کہ وطن عزیز کو ایک فلاحی ریاست بنانے کی تمام تر ذمہ داری اُس پر ہے۔ یقین جانیے اگر 15 فیصد لوگ بھی اس سوچ کے حامل ہو جائیں تو ملک میں انقلاب کو کوئی نہیں روک سکتا۔
 
میں ابو شامل کی بات سے متفق ہوں کہ مایوس ہونے کی بجائے ہمیں ملک کو بچانے اور لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی مہم کو تیز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت زیادہ دیر ایسے معاملات نہیں چلیں گے اور تبدیلی آ کر رہے گی۔ ہمیں یہ تعین کرنا ہے کہ ہم کیا تبدیلی آنے کا انتظار کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا تبدیلی لانے والوں میں۔
 

ساجد

محفلین
محسن حجازی ،
آپ کا سوال جتنا آسان ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ یہ ہمارے خاتمے کا آغاز نہیں ہے۔ دراصل یہ ہمارے سیاستدانوں اور مذہبی لیڈروں پر عوام کا عدم اعتماد ہے جو جنرل صاحب کو شیر بنا دیتا ہے اور ان کو ہر غیر قانونی کام کی ہلا شیری دیتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی گروپ ،عوام کو جنرل صاحب کے خلاف سڑکوں پر لانے میں ہر دو ناکام رہے ہیں۔
ایک نئی سیاسی قوت کی اشد ضرورت ہے کہ جو امین اور قانون کی پابند ہو ۔ انتخابات قریب ہیں اگر ان میں ہم، لوٹے اور ضمیر فروش سیاستدانوں کو ووٹ نہ دیں جو آمروں کی چاپلوسیاں کرتے ہیں تو حالات میں جلد بہتری آ سکتی ہے۔ دُور مت جائیے آج سے 15 سال پہلے کے بھارت کو ہی دیکھ لیجئیے ۔ کیا ایسا نہیں لگتا تھا کہ اس کی ریاستیں عنقریب بکھر جائیں گی لیکن وہاں کے عوام اور کورٹس نے اپنے اپنے طور پر کردار نبھایا اور سیاسی استحکام کی طرف سفر شروع کیا۔
عدالتوں کی حد تک ایسا ہی ایک سفر پاکستان میں شروع ہو چکا ہے اب انتخابات میں ہم عوام کی ذمہ داری کا امتحان ہے۔ ہمیں بُلٹ کی بجائے بیلٹ سے تبدیلی لانے پر عمل کرنا چاہئیے۔ امریکہ ایک بڑی طاقت ضرور ہے لیکن یاد رکھئیے کہ ہر طاقت کی ایک حد ہوتی ہے ۔ اس کا ہوا زیادہ ہے اور حقیقت کم۔ ہر وقت اس کو اپنے اعصاب پر سوار رکھنے کی بجائے ہمیں اس کے سیاسی نظام کو سمجھتے ہوئے اس کی داخلی سیاست میں اپنا اثرو نفوذ بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔
یہاں میں برادر ابو شامل کے خیال سے تھوڑا اختلاف رکھتا ہوں کہ عوام کو روٹی ، کپڑا اور مکان کے حصول میں مشغول کر دیا گیا ہے ۔ نہیں برادر یہ بات ہمیں ماننا پڑے گی کہ امریکہ پر حملے کے بعد پاکستان میں مختلف اسباب کی بنیاد پر پیسے کی ریل پیل ہوئی ہے۔ اور ایک غریب آدمی کی زندگی پر بھی اب اس کا کسی نہ کسی حد تک مثبت اثر نظر آ رہا ہے۔ ہمارے گاؤں کے وہ لفینٹر قسم کے لڑکے جو کئی سال سے بے روزگار تھے کم از کم 8000 روپے کی ابتدائی تنخواہ پر ملوں میں مزدور ہو چکے ہیں۔ شرق الاوسط میں ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے پچھلے چند سالوں میں ہمہ قسم پاکستانی مصنوعات نے اپنے قدم بڑی تیزی سے جمائے ہیں۔ سافٹ وئیر کی انڈسٹری بہت تیزی سے پنپ رہی ہے۔ بس اگر ہم تعلیم کا معیار ( خاص طور پر فنی تعلیم) اچھا کریں تو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں روزگار کے لاتعداد مواقع ہمارے منتظر ہیں۔
یاد رکھئیے غربت پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہماری تعلیمی غربت اور وسائل کے ضیاع نے ہمیں دنیاوی غریب بنایا ہے۔
تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں خواہ اس کا مظاہرہ حکومت کی طرف سے کیا جائے یا عوام کی طرف سے ، اس سے جس قدر ہو سکے پرہیز ہی بہتر ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
ابو شامل صاحب کی خوبصورت بات کو آگے بڑھاتا ہوں کہ روٹی، کپڑا اور مکان کے مسائل میں الجھانے کے ساتھ ساتھ زبان، قوم، نسل اور فرقہ کا تعصب بھی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہماری سوچ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ ہم کسی کی بات کو سننے اور سمجھنے کے تکلفات میں پڑے بغیر ہی محض مخاطب کی زبان، قوم، نسل اور فرقہ سے متعلق ہونے کے باعث اس کے متعلق اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں۔

بہر حال میں یہ کہنا چاہوں‌گا کہ گو حالات نا مساعد اور حد درجہ مایوس کن ہیں لیکن ہر شخص کا ایک پاکستان اس کے قرب و جوار میں موجود ہے اور اگر قطع نظر ارباب اختیار کی ریشہ دوانیوں کے ہر شخص اپنے اطراف کے پاکستان کو ٹھیک کرنا شروع کر دے، جس کا آغاز یقینی طور پر اپنی ذات سے ہو تو مجموعی طور پر سارا ملک ٹھیک ہو جائے گا۔

اور اس کے لیے ہمیں یہ سوچنا ہے کہ اجتماعی اصلاح کے کار دشوار میں ہمارا انفرادی کنٹریبیوشن کیا ہو سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی ذات کو درست کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ایک حد تک ہمارا کنٹریبیوشن مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد کا مرحلہ یہ غور کرنا ہے کہ اپنے ارد گرد پھیلی چھوٹی چھوٹی خامیوں کو، جو مل جل کر بڑی برائی بنتی ہیں، کو کس طرز پر بخوبی روکا جا سکتا ہے۔

میری رائے میں کسی بھی ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ تعلیم کی کمی ہوا کرتی ہے، تعلیم سے میری مراد اسناد نہیں بلکہ آگہی و شعور ہے، اور یہ تعلیم کی کمی ہی ہے جس کے باعث ہم اچھے قائد نہیں چن پاتے۔ اس مسئلے کا حل بھی ذات سے شروع ہو کر معاشرے تک جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں‌کہ ہمارے ملک کی اکثریت دیہات کے سادہ لوح کسانوں اور محنت کش طبقہ پر مشتمل ہے اور جمہوری نظام، جس میں ان کی رائے کی اہمیت ہے، کیا یہ محنت کش طبقہ کما حقہ اور اپنی مرضی کے مطابق اپنا ووٹ دے سکتا ہے؟ میرے ذاتی تجربہ میں سندھ اور پنجاب کے 99 فی صد دیہات میں وڈیروں اور چودھریوں کی مشیت کے مطابق کسانوں سے ووٹ دلوایا جاتا ہے۔
ملک میں ایسے واقعات ہم سب نے سن اور دیکھ رکھے ہیں کہ کسی دیہہ کے بیلٹ باکس میں ایک ووٹ بھی چودھری یا وڈیرے کے خلاف نکل آیا تو سب کو الٹا لٹکا کر "تفتیش" کی جاتی ہے کہ یہ "باغیانہ روش" کس نے اختیار کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان چودھریوں اور وڈیروں کی اقلیتی رائے اصل عوام کی اکثریتی رائے پر حاوی ہوتی ہے۔
اگر ہم دفعتاً ایک بڑا انقلاب لانے کی سوچ کو تبدیل کر کے یہ سوچنے لگیں کہ کیوں کر تعلیم عام کی جائے، اسکولوں اور کالجوں میں نقل کے رجحان کو کیسے ختم کیا جائے، کیسے یونیورسٹیوں‌ کو سیاسی اکھاڑوں کی بجائے تعلیمی ادارے بنایا جائے، کیسے آگہی و شعور کو عام کیا جائے تا کہ اس اکثریتی طبقہ کی اصل رائے کو سامنے لایا جا سکے تو یقین مانیے کہ ہم پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ ایک کروڑ کی بجائے صرف "ایک" سے شروع کیا جائے اور جب آپ اس "ایک" کو با شعور بنانے میں‌کامیاب ہو جاتے ہیں تو آپ اور وہ ایک مل کر دونوں مزید دو کو۔۔۔ اور یوں یہ سلسلہ وسیع تر ہوتا چلا جائے گا۔

تبدیلی تو ناگزیر ہے لیکن ہر شخص کو اپنی ذات میں محمد علی جناح بننا ہو گا، اپنے آپ کو اور اپنے قرب و جوار میں موجود اپنے پاکستان کو مثالی بنانا ہو گا۔ تب ہی ہم مجموعی طور پر پاکستان کو مثالی بنا سکتے ہیں۔
 
پچھلے ساٹھ سالوں میں پاکستان نے جو ترقی کی ہے اس کا مقابلہ کسی بھی دوسرے اسلامی ملک سے کیجئے۔ اگر آپ کی ترقی کی یہ رفتار رہی ہو تو پھر ناامید ہونا چہ معنی دارد۔ جنرل صاحب کو خبط ہوگیا ہے حکومت کرنے کا، آٹھ سال میں‌جو نہیں کرپائے وہ اگلے آٹھ سال میں‌بھی نہیں‌ہوگا۔ بہتر یہ ہوگا کہ وہ حکومت عوام کو واپس کردیں۔ اور ایک اچھی نیشنل سیکیورٹی کونسل جنرل صاحب کا پاکستان پر احسان ہوگا کہ ایسی کونسل ایگزیکیوٹو برانچ پر نظر رکھے گی۔ کور کمانڈرز، صدر، سپیکر اور چند اہم عہدیدار ان امور پر، جن پر پالیسی کبھی تبدیل نہیں ہوتی، نظر رکھ سکتے ہیں۔

رہی عوام کی خوشحالی تو وہ تو جناب بہتر پالیسی، بہتر نقل حمل، جنوبی روسی ریاستوں سے تجارت اور توانائی کے حصول پر مبنی ہے۔ معاشرے میں استحکام، امن اور آشتی اور معاشی بحالی تعلیم سے مشروط ہے۔ جو ایک دن میں تو آنے سے رہی۔ اس کے لئے جو منصوبے بنے ہیں ان پر عمل درآمد اور مثبت نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

ہماری سیاسی حکومت جاری رہے یا تبدیل ہوجائے، فوری تبدیلی ناممکن ہے۔ جب تک باہمی مشاورت کا ایک انڈونیشیا سے مراکو تک ایک بڑا بلاک نہیں بنتا، ہمارا ہر حکمران چاہے یا نا چاہے امریکہ کے زیر اثر رہے گا۔

ایک کتاب ہے، فری میسنری فار ڈمیز، اس کو دیکھیں اور دوسری سائیٹس کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ امریکی اور یوروپی سیاسی نظام میں فری میسنز درپردہ کیا کردار ادا کرتے ہیں؟ اگر 42 میں سے 17 امریکی صدر فری میسن رہے ہیں‌ اور باقی میں سے، کچھ جو کہ ایک دوسرے کے مخالف بھی تھے اسکل اور کراس بون کے ممبر رہے ہیں، جو کہ فری میسن کی قسم کی خفیہ جماعت ہے، تو اسکی کیا وجہ ہے؟ امریکہ اور یورپ کا یہ اثر جب ہی دور ہوگا جب مسلم ممالک میں‌ فری میسن تو نہیں لیکن اس سے ملتی جلتی قسم کی کوئی اسلامی تنظیم ہو۔ جو یورپ اور امریکہ کی طرح، انڈونیشیا سے مراکو تک گراس روٹ‌ لیول سے اوپر تک سیاسی سٹرکچر کو یکساں اصولوں پر استوار کرے اور نیچے سے اوپر تک انفارمیشن اور کنٹرول کا ایک مکمل نظام فراہم کرے۔ لوگوں‌کو آپس میں کنکٹ‌کے کئے بنا، نا اتحاد و ایمان ممکن ہے اور نہ ہی کوئی تنظیم۔ اور کسی نظم کے بنا نہ ہم آج جنرل صاحب کو رکھنے یا ہٹانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور نہ سو سال بعد ایسے فیصلے کرسکیں گے۔

کون سے عہدیدار فری میسن رہے، ذرا یہ لسٹ دیکھئے، اس میں امریکی صدر اور دوسرے ممالک کے اعلی عہدیداروں کو دیکھئے۔ http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_Freemasons
http://www.calodges.org/no406/FAMASONS.HTM

برائی اس میں نہیں کہ یہ گروپس منظم ہیں، بری بات یہ ہے کہ مسلمان ممالک میں ایسی تنظیم موجود نہیں نہیں جہاں لوگ جغرافیائی حدود کے باہر ایک دوسرے سے منظم طریقے سے منسلک ہوں۔

والسلام۔
 

ساجد

محفلین
پچھلے ساٹھ سالوں میں پاکستان نے جو ترقی کی ہے اس کا مقابلہ کسی بھی دوسرے اسلامی ملک سے کیجئے۔ اگر آپ کی ترقی کی یہ رفتار رہی ہو تو پھر ناامید ہونا چہ معنی دارد۔ جنرل صاحب کو خبط ہوگیا ہے حکومت کرنے کا، آٹھ سال میں‌جو نہیں کرپائے وہ اگلے آٹھ سال میں‌بھی نہیں‌ہوگا۔ بہتر یہ ہوگا کہ وہ حکومت عوام کو واپس کردیں۔ اور ایک اچھی نیشنل سیکیورٹی کونسل جنرل صاحب کا پاکستان پر احسان ہوگا کہ ایسی کونسل ایگزیکیوٹو برانچ پر نظر رکھے گی۔ کور کمانڈرز، صدر، سپیکر اور چند اہم عہدیدار ان امور پر، جن پر پالیسی کبھی تبدیل نہیں ہوتی، نظر رکھ سکتے ہیں۔

رہی عوام کی خوشحالی تو وہ تو جناب بہتر پالیسی، بہتر نقل حمل، جنوبی روسی ریاستوں سے تجارت اور توانائی کے حصول پر مبنی ہے۔ معاشرے میں استحکام، امن اور آشتی اور معاشی بحالی تعلیم سے مشروط ہے۔ جو ایک دن میں تو آنے سے رہی۔ اس کے لئے جو منصوبے بنے ہیں ان پر عمل درآمد اور مثبت نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

ہماری سیاسی حکومت جاری رہے یا تبدیل ہوجائے، فوری تبدیلی ناممکن ہے۔ جب تک باہمی مشاورت کا ایک انڈونیشیا سے مراکو تک ایک بڑا بلاک نہیں بنتا، ہمارا ہر حکمران چاہے یا نا چاہے امریکہ کے زیر اثر رہے گا۔

ایک کتاب ہے، فری میسنری فار ڈمیز، اس کو دیکھیں اور دوسری سائیٹس کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ امریکی اور یوروپی سیاسی نظام میں فری میسنز درپردہ کیا کردار ادا کرتے ہیں؟ اگر 42 میں سے 17 امریکی صدر فری میسن رہے ہیں‌ اور باقی میں سے، کچھ جو کہ ایک دوسرے کے مخالف بھی تھے اسکل اور کراس بون کے ممبر رہے ہیں، جو کہ فری میسن کی قسم کی خفیہ جماعت ہے، تو اسکی کیا وجہ ہے؟ امریکہ اور یورپ کا یہ اثر جب ہی دور ہوگا جب مسلم ممالک میں‌ فری میسن تو نہیں لیکن اس سے ملتی جلتی قسم کی کوئی اسلامی تنظیم ہو۔ جو یورپ اور امریکہ کی طرح، انڈونیشیا سے مراکو تک گراس روٹ‌ لیول سے اوپر تک سیاسی سٹرکچر کو یکساں اصولوں پر استوار کرے اور نیچے سے اوپر تک انفارمیشن اور کنٹرول کا ایک مکمل نظام فراہم کرے۔ لوگوں‌کو آپس میں کنکٹ‌کے کئے بنا، نا اتحاد و ایمان ممکن ہے اور نہ ہی کوئی تنظیم۔ اور کسی نظم کے بنا نہ ہم آج جنرل صاحب کو رکھنے یا ہٹانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور نہ سو سال بعد ایسے فیصلے کرسکیں گے۔

کون سے عہدیدار فری میسن رہے، ذرا یہ لسٹ دیکھئے، اس میں امریکی صدر اور دوسرے ممالک کے اعلی عہدیداروں کو دیکھئے۔ http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_Freemasons
http://www.calodges.org/no406/FAMASONS.HTM

برائی اس میں نہیں کہ یہ گروپس منظم ہیں، بری بات یہ ہے کہ مسلمان ممالک میں ایسی تنظیم موجود نہیں نہیں جہاں لوگ جغرافیائی حدود کے باہر ایک دوسرے سے منظم طریقے سے منسلک ہوں۔

والسلام۔
فاروق بھائی ،
انتہائی نا موافق سیاسی اور اقتصادی حالات کے باوجود دیگر اسلامی ممالک کی نسبت پاکستان کی ترقی کا گراف کافی بلند ہے۔ یہاں ترقی سے مراد ملک کے افراسٹرکچر کی مضبوطی اور بنیادی مہارتوں میں افراد کی تربیت ہے۔ اور بالآخر یہی دو چیزیں ملک کی اقتصادیات کو مضبوط رکھنے میں مدد گار ہوتی ہیں۔ تعلیم اور خاص طور پر فنی تعلیم اس سارے عمل کی بنیاد ہوتی ہے۔ لیکن اگر ہم ترقی کا موازنہ پچھلے 40 یا 50 برسوں میں کچھ مسلم ممالک میں دولت کی فراوانی سے کریں گے تو ہم غلط ہوں گے کیوں کہ ان کی دولت کی بنیاد صرف تیل ہے افرادی قوت کی تربیت اور بنیادی ضروریات زندگی کی پیداوار نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے کم و بیش ہر ساتھی اس بات پر متفق ہے کہ تعلیم ہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے تا کہ ہم ترقی اپنی ترقی کی رفتار کو بڑھا سکیں اور عالمی معیشت میں بھی اپنا مقام بنا سکیں۔
اگر غور کیا جائے تو صرف انڈونیشیا اور ملائیشیا ایسے دو اسلامی ممالک ہیں جو حقیقی ترقی کی دوڑ میں پاکستان سے آگے ہیں۔ آپ کی بات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ ہمیں اپنے اقتصادی پروگرام کو کچھ اس طرح سے ترتیب دینا چاہئیے کہ ہمارے ہمسایہ ممالک سے ٹکنالوجی اور تجارت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو۔ ہماری اقتصادیات میں بگاڑ کی بنیادی وجہ بھی صرف چند ترقی یافتہ مما لک پر تکیہ کرنا ہے۔ اس ضمن میں محمد خان جونیجو مرحوم اور میاں نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں کافی کام ہوا تھا اور کوریا ، ملائیشیا ، انڈونیشیا ، تھائی لینڈ اور روس کے ساتھ حصہ داری بڑھائی گئی اور اس کے اچھے نتائج بھی بر آمد ہوئے لیکن جمہوریت رخصت ہوتے ہی ان منصوبوں کا بھی گلا گھونٹ دیا گیا۔
بھارت کے ساتھ بے شک ہمارے تعلقات خراب رہے ہیں لیکن حالات اس بات کا تقاضہ کر رہے ہیں کہ اس کے ساتھ اقتصادی معملات پر پیش رفت ہمارے لئیے بہت اہم ہے۔ خاص طور پر افراط زر کے جن کو بوتل میں بند رکھنے کے لئیے ہمیں اپنے ہمسایوں کے ساتھ سستی سروسز اور لو کاسٹ مینو فیکچرنگ کے معاہدے کرنا ہوں گے۔ تاکہ برسوں سے ہمارا استحصال کرتی ہوئی امریکی اور یورپی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔​
 

ساجد

محفلین
فاروق بھائی ،
براہِ کرم ذرا فری میسن کے موضوع پر مزید روشنی ڈالئیے تا کہ بنیادی نکات سمجھنے میں آسانی رہے۔ ویکپیڈیا اگرچہ کافی معلومات رکھتا ہے لیکن ان کے مستند ہونے کا شک ہی رہتا ہے۔
 

محسن حجازی

محفلین
حسن مجھے افسوس ہے کہ میرے خیال سے یہ beginning of the end ہے۔

سولہ آنے درست کہا۔۔۔ کہ بات کچھ ایسی ہی ہے ہاں اگر کوئی معجزہ ہو جائے تو اور بات ہے۔۔۔
دیگر فاروق بھائی نے جو بات کہی ہے وہ بھی بہت خدا لگتی کہی ہے کہ اگلے آٹھ سالوں میں بھی ملک کا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔

فاروق بھائی ہم پنجابی مانا کہ آٹھ کروڑ ہیں لیکن پختون بلوچ اور سندھی۔۔۔۔ ان کے بغیر پاکستان نا مکمل ہے اور جس طرح امریکی ہماری سرحدوں میں گھس کر ہمارے پختون بھائیوں پر بم برسا رہے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی اور بعد میں کہا جاتا ہے کہ جی آلات کی خرابی کے سبب ہوا۔ پاکستانی حکومت سرے سے مکر جاتی ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہے اور امریکی فوج کا اس کے برعکس بیان آجاتا ہے کہ پاکستان کے فلاں علاقے میں ہم نے کاروائی کی اور اتنے "دہشت گرد" مار دیے۔۔۔۔ مجھے تو شدید طیش آتا ہے۔

یہی قبائلی بھائی تھے کہ جب پوری قوم کٹی پھٹی پڑی تھی انہیں کے دستے 1948 کشمیر جا کر لڑے تھے۔۔۔۔ خدارا ان کا جو کلچر ہے وہ رہنے دیں انہیں مجبور نہ کریں کہ وہ بھی ٹام ڈک اور ہیری کی طرح نائٹ کلبوں میں زندگیاں گزاریں۔۔۔ روشن خیالی جیسی مقدس و متبرک آسمانی ہدایت امریکی اپنے پاس رکھیں اور ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیں۔۔۔ یہ نہ ہو کہ ہم بھی کلاشنکوفیں لے کر امریکی مردوں کو داڑھیاں اور عورتوں کو برقعے پہنانے کی مہم پر نکل کھڑے ہوں۔۔۔ اگر امریکی کچھ کر گزرنے سے پہلے کچھ نہیں سوچتے تو ہمارا خمیر تو پھر ایسا ہے کہ کچھ کر گزرنے کے بعد بھی کچھ نہیں سوچتے کہ کیا کر گزرے ہیں۔۔۔۔

بہتر ہے امریکہ اپنے جامے میں رہے۔۔۔۔
 

محسن حجازی

محفلین
فاروق بھائی۔۔۔ بلاک والی بات درست ہے۔۔۔ کسی ایک ملک کے لیے خودمختاری سے زندہ رہنا ممکن نہیں بلاک ہونا چاہیے۔۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
فاروق بھائی ،
براہِ کرم ذرا فری میسن کے موضوع پر مزید روشنی ڈالئیے تا کہ بنیادی نکات سمجھنے میں آسانی رہے۔ ویکپیڈیا اگرچہ کافی معلومات رکھتا ہے لیکن ان کے مستند ہونے کا شک ہی رہتا ہے۔
ساجد بھائی!
فری میسنری کے متعلق یہ کتاب دیکھیے گا:
http://www.esnips.com/nsdoc/0acfa804-a507-4657-a07b-bfc41ed8e9d1

مندرجہ ذیل روابط بھی دیکھیے گا:
http://ghazwah-urdu.sitesled.com/Articals/Fitnay/freemasson.htm (اردو)
http://www.phoenixmasonry.org/freemasons_book_of_the_royal_arch.htm (انگریزی)

لیکن چونکہ یہ تنظیم ایک خفیہ تنظیم کی حیثیت سے کام کرتی ہے لہٰذا یہ تمام آرا قیاس بھی ہو سکتی ہیں اور درست بھی۔
 

ابوشامل

محفلین
میں برادر ابو شامل کے خیال سے تھوڑا اختلاف رکھتا ہوں کہ عوام کو روٹی ، کپڑا اور مکان کے حصول میں مشغول کر دیا گیا ہے ۔ نہیں برادر یہ بات ہمیں ماننا پڑے گی کہ امریکہ پر حملے کے بعد پاکستان میں مختلف اسباب کی بنیاد پر پیسے کی ریل پیل ہوئی ہے۔ اور ایک غریب آدمی کی زندگی پر بھی اب اس کا کسی نہ کسی حد تک مثبت اثر نظر آ رہا ہے۔ ہمارے گاؤں کے وہ لفینٹر قسم کے لڑکے جو کئی سال سے بے روزگار تھے کم از کم 8000 روپے کی ابتدائی تنخواہ پر ملوں میں مزدور ہو چکے ہیں۔ شرق الاوسط میں ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے پچھلے چند سالوں میں ہمہ قسم پاکستانی مصنوعات نے اپنے قدم بڑی تیزی سے جمائے ہیں۔ سافٹ وئیر کی انڈسٹری بہت تیزی سے پنپ رہی ہے۔ بس اگر ہم تعلیم کا معیار ( خاص طور پر فنی تعلیم) اچھا کریں تو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں روزگار کے لاتعداد مواقع ہمارے منتظر ہیں۔
آپ کی بات کسی حد تک تو درست ہے لیکن بہرحال زمینی حقائق بہت مختلف ہیں۔ اگر ہم مختلف میدانوں میں چیونٹی کی رفتار سے ترقی کر رہے ہیں تو ہمارے مقابلے میں دیگر ممالک چیتے کی رفتار سے آگے نکلے جا رہے ہیں، اپنے پڑوسی بھارت کی ہی مثال لیجیے آپ کی بتائی گئی تمام صنعتوں میں ہمارا اس سے کیا مقابلہ ہے؟
ایک اور بات جو میرے ذہن میں کھٹکتی ہے کہ شاید اخلاقی طور پر بھی ہماری قوم اب پہلے جیسی نہیں رہی اور اگر ایک جانب معاشی طور میں بہتری آ رہی ہے تو "ھل من مزید" کی گردان بھی جاری ہے اور "تکاثر" کی دوڑ اپنے عروج پر دکھائی دے رہی ہے۔ سادگی کا عنصر ناپید ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ تصنع، بناوٹ اور دکھاوے نے لے لی ہے۔ اور یہ کلچر اب شہروں سے دیہات کی جانب رخ کر رہا ہے۔ اُدھر اخلاقی سطح روز بروز نیچے آتی جا رہی ہے، شرم و حیا جو ہمارے معاشرے کا بنیادی عنصر تھا، اس کو لپیٹ کر پھینک دیا گیا ہے۔ خواتین حتی کہ نو عمر بچیوں کے ساتھ روزانہ پیش آنے والے واقعات اس امرکے گواہ ہیں کہ اخلاقی طور پر ہم ہر روز زوال پذیر ہوتے جا رہے ہیں۔
اور میری نظر میں کسی بھی قوم کی ترقی کے دو اسباب ہو سکتے ہیں ایک اس کا تعلیمی و فکری میدانوں میں کار ہائے نمایاں انجام دینا اور دوسرا اخلاق کی اعلی سطح پر فائز ہونا۔ رومی سلطنت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی لیکن اخلاقی گراوٹ نےان کو 200 سال کے اندر ایسا ختم کیا کہ اس کے وجود کے ٹکڑے سمٹنے والا بھی کوئي نہ رہا۔ یورپ اور امریکہ کے عروج کو بھی اسی اخلاقی زوال سے خطرہ لاحق ہے اور ہم نے تو ابھی عروج کی سیڑھی پر پہلا قدم ہی نہیں رکھا اور اسی قدم پر لغزش ہو گئی تو اللہ ہی ہمارا حافظ ہوگا۔
لیکن میں اتنا اتفاق کروں گا کہ جہاں بہت سارے minus points ہیں وہیں کچھ plus points بھی ہیں۔ ہم نہ صورتحال کو مجموعی طور پر اچھا کہہ سکتے ہیں نہ بالکل برا۔

تبدیلی تو ناگزیر ہے لیکن ہر شخص کو اپنی ذات میں محمد علی جناح بننا ہو گا، اپنے آپ کو اور اپنے قرب و جوار میں موجود اپنے پاکستان کو مثالی بنانا ہو گا۔ تب ہی ہم مجموعی طور پر پاکستان کو مثالی بنا سکتے ہیں۔
سونے میں تولنے جیسی بات کی ہے فاتح بھائی
 
Top