La Alma
لائبریرین
میرے ناقص علم کے مطابق دونوں کو کہتے ہیں . پھول توڑنے والے کو بھی اور باغبان کو بھی .گلچیں پھول چننے والے کو کہتے ہیں باغبان کو نہیں۔
لغت دیکھیں .
میرے ناقص علم کے مطابق دونوں کو کہتے ہیں . پھول توڑنے والے کو بھی اور باغبان کو بھی .گلچیں پھول چننے والے کو کہتے ہیں باغبان کو نہیں۔
میں ذاتی طور پر ریحان بھائی سے متفق ہوں. اگرچہ لغت میں باغبان بھی لکھا ہے.مراد یہ ہے کہ تھوڑا دقیق ہے۔ گلچیں عاشق ہے،گل محبوب، بہار کا موسم خزاں بداماں ہے یعنی رشکِ خزاں ہے۔ عاشق کی خستگی کا حال موسم کو لکھنا ہے یعنی گلہ تقدیر سے ہے۔
خزاں بداماں محلِ نظر ہے۔ رشکِ خزاں کہنا ہی بہتر ہوتا مگر بحر اس کی اجازت نہیں دیتی۔
ذرا دیکھئے گاموسمِ گل خزاں بداماں سے
حالِ گلچیں کی خستگی لکھنا
اس کو اس طرح کر دیں اگر
موسمِ گل خزاں بداماں سے
دست گلچیں کی خستگی لکھنا
سر محمد ریحان قریشی
محترمہ La Alma
سر الف عین
اس شعر میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ دل کے دشت میں نمو پانے کے لئے بس غم ہی ہیں۔ تازگی کا ذوق ایک روگ ثابت ہوا یا ہو گا۔یہ شعر سمجھ میں ب ھی نہیں آیا
دشتِ دل میں پئے نمو غم ہیں
روگِ جاں ذوقِ تازگی لکھنا
اور ’روگِ جاں‘ بہر حال غلط ہے کہ روگ سنسکرت لفظ ہے، اس کے ساتھ اضافت نہیں لگ سکتی۔
حکم کی تعمیل کر دیچارہ سازوں سے بس روا نہ ہوا
اک تسلی کا حرف ہی لکھنا
۔۔ یہاں مراد یہ ہے نا کہ چارہ سوازوں کو اتنا بھی گوارا نہ ہوا، لیکن گوارا کی جگہ جو روا لکھا گیا ہے، تو ’روانہ‘ پڑھا اور سنا جاتا ہے“ بمعنی چلا گیا!! میرے خیال میں
چارہ سازوں سے اتنا بھی نہ ہوا
سے بات واضح اور بہتر ہو جاتی ہے۔
حیف بر شوقِ تازگی لکھنااس شعر میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ دل کے دشت میں نمو پانے کے لئے بس غم ہی ہیں۔ تازگی کا ذوق ایک روگ ثابت ہوا یا ہو گا۔
کیا اس طرح روگ قابلِ قبول ہو گا؟
دشتِ دل میں پئے نمو غم ہیں
روگ ہے ذوقِ تازگی لکھنا
کیا یہ متعلقہ مصرع کے حوالے سے تجویز ہے؟حیف بر شوقِ تازگی لکھنا
جی۔کیا یہ متعلقہ مصرع کے حوالے سے تجویز ہے؟
بزمِ رنداں بروئے ساقی یوں
اس مصرعے کا مطلب سمجھا دیں گے؟ بزمِ رنداں ساقی کے چہرے پر کیوں اور کیونکر لکھے؟
یعنی ساقی سے گلہ ہے کہ بزمِ رنداں میں شراب اور لبِ لعلیں کی کمی کیوں ہے؟اب دیکھیں ذرا
بزمِ رنداں میں ساقیا کیوں ہے
کام و لَعلِیں کی تشنگی لکھنا
کیا ہی خوب ہے
آپ نے بھی درست کہا لیکن ساقی سے یہ بھی گلہ ہو سکتا ہے کہ بزمِ رندان میں فن یعنی موسیقی اور ہونٹ تشنہ کیوں ہیں؟یعنی ساقی سے گلہ ہے کہ بزمِ رنداں میں شراب اور لبِ لعلیں کی کمی کیوں ہے؟
"بروئے ساقی" سے مراد "ساقی کی موجودگی" یا "ساقی کے سامنے" لیا ہے۔بزمِ رنداں بروئے ساقی یوں
اس مصرعے کا مطلب سمجھا دیں گے؟ بزمِ رنداں ساقی کے چہرے پر کیوں اور کیونکر لکھے؟
کام بمعنی فن سنسکرت سے ماخوذ ہے اس لیے فارسی حرفِ عطف و کا استعمال اس کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔آپ نے بھی درست کہا لیکن ساقی سے یہ بھی گلہ ہے کہ بزمِ رندان میں فن یعنی موسیقی اور ہونٹ تشنہ کیوں ہیں؟
بہ پیشِ ساقی بہتر رہے گا۔"بروئے ساقی" سے مراد "ساقی کی موجودگی" یا "ساقی کے سامنے" لیا ہے۔
مجھے تو یہ اشعار کم اور " بوجھو تو جانیں " والا کھیل زیادہ لگ رہا ہے .آپ احباب اور اساتذہ کرام کی آراء کی روشنی میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں مکمل غزل کی شکل میں پیش خدمت ہیں۔
قصۂ درد بھی کبھی لکھنا
اپنی عادت رہی خوشی لکھنا
دشتِ دل میں پئے نمو غم ہیں
روگ ہے ذوقِ تازگی لکھنا
چارہ سازوں سے اتنا بھی نہ ہوا
اک تسلی کا حرف ہی لکھنا
بزمِ رنداں، بروئے ساقی یوں
کام و لَعلِیں کی تشنگی لکھنا
یہ جو حالت خراب ہے اپنی
تم سبب اس کا دلبری لکھنا
موسمِ گل خزاں بداماں سے
دستِ گلچیں کی خستگی لکھنا
جن کی خاطر اجاڑ دی ہستی
نام ان کا اے زندگی لکھنا
دست ِ گلچیں کی خستگی سے کیا مراد ہے ؟ کیا ہاتھ جھڑنے لگے تھے ؟ یا ان کی محرومی کا تذکره ہے کہ پھول چننے سے محروم ہو گئے ہیں ؟موسمِ گل خزاں بداماں سے
دستِ گلچیں کی خستگی لکھنا
پھر تو جو مفہوم آپ نے بیان کیا وہ ہی بر محل ہے۔کام بمعنی فن سنسکرت سے ماخوذ ہے اس لیے فارسی حرفِ عطف و کا استعمال اس کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔
لکھنا سے مراد آپ بتانا لے رہے ہیں قاری کے لیے مطلب تک رسائی بہت مشکل ہوگی۔
یعنی ساقی سے گلہ ہے کہ بزمِ رنداں میں شراب اور لبِ لعلیں کی کمی کیوں ہے؟
دست ِ گلچیں کی ہستگی سے کیا مراد ہے ؟ کیا ہاتھ جھڑنے لگے تھے ؟ یا ان کی محرومی کا تذکره ہے کہ پھول چننے سے محروم ہو گئے ہیں ؟
آپ کی دلچسپی قابلِ قدر ہے۔مجھے تو یہ اشعار کم اور " بوجھو تو جانیں " والا کھیل زیادہ لگ رہا ہے .